بالکل! وہ اسلام والا حال تو نہیں کہ ابھی تک غلامی حلال کرتے پھر رہے ہیںپھر سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔
بالکل! وہ اسلام والا حال تو نہیں کہ ابھی تک غلامی حلال کرتے پھر رہے ہیںپھر سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔
چونکہ اسلام کی بنیاد وحی پر ہے، اس لئے اسلام کی تعلیمات عالمگیر اور ابدی ہیں۔بالکل! وہ اسلام والا حال تو نہیں کہ ابھی تک غلامی حلال کرتے پھر رہے ہیں
اس سے مقصود سائنس کی تحقیر نہیں ہے، یہ ایک عظیم علم اور فن ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے اور خود مسلمان سائنسدانوں نے اس کی بنیادیں فراہم کی ہیں (اگرچہ یہ اس دور کی بات ہے جب ’’اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی‘‘ اب تو ’’ تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من‘‘ والا حال ہے)۔ بہرحال، میں نے اپنی پوسٹ کے آخر میں اس اعتبار سے مغرب کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے اس علم و فن کو پروان چڑھایا اور انسانیت کے لئے سہولتوں کے دروازے کھول دئے۔ لیکن انسانی رویوں اور طرز ہائے عمل کے لحاظ سے صحیح اور غلط میں فرق، حق و باطل میں امتیاز اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے جو پیمانے ہمیں اسلام نے فراہم کئے ہیں الحمد للہ وہ آج بھی ہمارے لئے کافی ہیں اور رہتی دنیا تک کافی رہیں گے۔سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔
ایسی بات کر کے آپ صرف یہی ثابت کر رہے ہیں کہ آپ کو "کامن سینس" کی کمزوریوں اور سائنسی طریقہ تحقیق کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔جہاں تک سائنسی تحقیقات کی بات ہے تو مجھے نہیں سمجھ آتی کہ جب ایک چیز عقلِ عام (کامن سینس) سے سمجھ میں آسکتی ہے تو اس کے لئے اتنی اسٹڈیز کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔
یہ رجحانات بدلتے بھی رہتے ہیں۔ ایک دور میں کمپیوٹر پروگرامنگ اور ناسا جیسے اداروں کے لیے بڑی بڑی کیلکولیشنز کرنا ایک طرح سے خواتین کا ہی شعبہ بنا ہوا تھا۔ شماریات یعنی سٹیٹسٹکس بھی خواتین کا شعبہ سمجھا جاتا تھا۔ آج ان تینوں شعبوں میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کیا اس وقت خواتین اس کام میں بہتر تھیں یا اب مرد اس کام میں بہتر ہیں یا یہ محض وقتی رجحانات اور تغیرات ہیں؟آپ تاریخ میں موجود بڑے بڑے سائنس دانوں کا جائزہ لے لیں، بڑے بڑے لیڈرز کے بارے میں سرچ کر لیں، بڑے بڑے تاجروں کی تاریخ دیکھ لیں۔ آپ کو اکثریت مردوں کی دکھائی دے گی۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ یادداشت کی کارکردگی کی پیمائش ایسا موضوع ہے کہ جس کا احاطہ سائنسی یا عقلی طریقے میں ممکن ہی نہیں؟حواسِ خمسہ کی بھی ایک حد ہے اور عقل کی بھی۔ جہاں ان تمام ذرائع کی حدود اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اس سے آگے رہنمائی کا ذریعہ وحیِ اِلٰہی ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس اس سب کائنات کو بنانے والے خدا کا حقیقی پیغام موجود ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ کائنات کی جانچ پرکھ کے دیگر ذرائع سے ملنے والا علم، وحی کے بالکل مطابق ہونا چاہیے۔ ورنہ یہ دعویٰ تو ہندو بھی کر سکتے ہیں کہ عقل سے معلوم ہونے والی چیزیں غلط جبکہ ان کے مذہب میں موجود چیزیں حتمی سچائی ہیں۔لہذا پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عقلِ انسانی برتر ہے یا عقلِ الٰہی جس کا ظہور ہم پر وحی کے ذریعے ہوا ہے۔
ریسرچ پیپر کا حوالہ دے سکتے ہیں؟پھر سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔ ابھی حال ہی میں ایک بہت بڑے امریکی تحقیقاتی ادارے نے کولیسٹرول کے بارے میں جو نئی تحقیق پیش کی اور سابقہ نصف صدی سے کولیسٹرول کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کو رد کیا وہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔
کیا آپ نے پیش کردہ ریسرچ پیپرز کا خلاصہ ہی پڑھ لیا ہے؟ یہ اسی سوال کے حوالے سے کی گئی تحقیقات ہیں کہ کیا مردوں اور خواتین میں مجموعی طور پر یادداشت کی صفت میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔البتہ یہ جملہ مجموعی حیثیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس جنس کے افراد میں مجموعی طور پر اس صفت میں کچھ کمی پائی جاتی ہے۔
بخاری شریف کی یہ روایت ہے، متعلقہ جملہ بالڈ کیا ہے:
عن أبي سعید الخدري، قال: خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في أضحی أو فطر إلی المصلی، فمر علی النساء، فقال: ''یا معشر النساء تصدقن فإني أریتکن أکثر أہل النار''، فقلن: وبم یا رسول اللّٰہ؟ قال: ''تکثرن اللعن، وتکفرن العشیر، ما رأیت من ناقصات عقل ودین أذہب للب الرجل الحازم من إحداکن''، قلن: وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللّٰہ؟ قال: ''ألیس شہادۃ المرأۃ مثل نصف شہادۃ الرجل''، قلن: بلی، قال: ''فذلک من نقصان عقلہا، ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم''، قلن: بلی، قال: ''فذلک من نقصان دینہا''.(بخاری، رقم ۳۰۴)
یہ ترمذی شریف کی روایت ہے، متعلقہ جملہ اس میں بھی بالڈ کیا ہے:
عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَوَعَظَہُمْ ثُمَّ قَالَ: ''یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ فَإِنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَہْلِ النَّارِ''، فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ: وَلِمَ ذَاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ''لِکَثْرَۃِ لَعْنِکُنَّ، یَعْنِیْ وَکُفْرِکُنَّ الْعَشِیْرَ''. قَالَ: ''وَمَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَغْلَبَ لِذَوِي الْأَلْبَابِ، وَذَوِي الرَّأْيِ مِنْکُنَّ''، قَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ: وَمَا نُقْصَانُ دِیْنِہَا وَعَقْلِہَا؟ قَالَ: ''شَہَادَۃُ امْرَأَتَیْنِ مِنْکُنَّ بِشَہَادَۃِ رَجُلٍ، وَنُقْصَانُ دِیْنِکُنَّ، الحَیْضَۃُ، تَمْکُثُ إِحْدَاکُنَّ الثَّلاَثَ وَالْأَرْبَعَ لَا تُصَلِّی''.(سنن الترمذی، رقم ۲۶۱۳)
کیسے صحیح ہیں، کیا قرآن حکیم کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں؟وہ صحیح ترین روایات ہیں
نوٹ: (یہ مراسلہ مختلف جگہوں سے کاپی پیسٹ کیا گیا ہے)
“اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو ، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ، ایسا کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے ، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔
عورتوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا : کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے ، نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا : ایسا ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کے دین کا نقصان ہے.”
۲۳۵ ہجری سے پہلے وفات پانے والے محدثین کی کتب میں ان روایات میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بعد میں کہیں اضافہ ہوئے ہیں۔ مثلاً ابو داؤد طیالسی(متوفی ۲۰۴ ھ)۲۰ کی مسند، حمیدی (متوفی ۲۱۹ھ)۲۱ کی مسند، ابن الجعد (متوفی ۲۳۰ھ)۲۲ کی مسند، ابن ابی شیبہ (متوفی ۲۳۵ھ)۲۳ کی مصنف، وغیرہ میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔لگتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ آہستہ آہستہ نبی اکرم سے نسبت پا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے سب سے پہلے یہ الفاظ سلمی۲۴ (متوفی ۲۳۸ھ) کی کتاب ''ادب النساء'' میں ملتے ہیں:
حضرت زینب، یعنی زوجہ عبد اللہ ابن مسعود نے ناقصاتِ عقل والا جملہ نقل ہی نہیں کیا، جو براہ راست اس واقعہ کی شاہد تھیں۔ صحیح بخاری ومسلم کی مذکورہ بالا روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شایدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و خیرات پر ابھارنے کی یہ بات حضرت زینب ہی کو دیکھ کر شروع کی تھی، کیونکہ آپ صاحبِ ثروت خاتون تھیں۔اس لیے اگر وہ ناقصاتِ عقل والی بات کسی روایت میں نہیں بتاتیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات نبی پاک نے کی ہی نہیں
بعض راویوں نے 'قال عبد اللّٰہ' (حضرت عبد اللہ نے کہا) کو حکایت کے عام طریقے پر محض 'قال'( کہا) کردیا ہو گا، جب کہ ان کی نیت میں اس کا فاعل حضرت عبد اللہ ہی ہوں گے۔ لیکن سننے والے راوی نے اس 'قال' کی ضمیرِ فاعل کا مرجع (referent) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دے دیا ہوگا ، اور
اسی فہم کو آگے روایت کر دیا ہو گا۔
ناقصاتِ عقل و دین کی توضیح والا جملہ سیاق و سباق سے میل نہیں کھاتا۔ جب عورت کی تخلیق ہی اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ عقل میں ناقص ہے۔ وہ اس پیدایشی نقص کے سبب سے مرد کی عقل پر اثرانداز ہوتی ہے تو اس کا تو قصور ہی نہ ہوا، اس لیے کہ اس کا یہ پیدایشی نقص اس کے لیے عذر ہے۔اسے ایک چیز کی سمجھ ہی نہیں ہے ، تو وہ مجرم کس طرح سے ہوئی۔جرم تو تب تھا کہ وہ مکمل عقل و شعور کی مالک ہونے کے بعد ایسا کرتی۔ اس لیے دوزخ میں عورتوں کے زیادہ ہونے کی وجہ ناقابل فہم ہے۔
دین کے تمام احکام سے ثابت ہے کہ عورت مرد ہی کی طرح دین کی پوری پوری مکلف ہے۔ مثلاًدونوں ارتکابِ شرک پر دوزخ میں جائیں گے، اگر عورت کم عقل ہے تو اسے تو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ شرک کیا ہے اور کیا نہیں ہے، پھر سزا کس بات کی؟ وغیرہ۔ لہٰذا حدیث کے متن پر یہ اضافہ دین کی باقی تمام تعلیمات کی نفی کرتا ہے۔جن کا مدارقطعی نصوص پر ہے۔ لہٰذا ادرست بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ دوزخ میں جانے کا سبب یہی ہوناچاہیے کہ ان کو عقل و شعور تو پورا پورا ہے، لیکن اس کے ہوتے ہوئے وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ گناہ کرتی ہیں ۔
واضح رہے کہ غلام عورت کو زنا کی آدھی سزا دی گئی ہے، اس لیے کہ معاشرے میں اس کے مقام کی وجہ سے اسے اس درجہ کا احصان۲۷ وتحفظ حاصل نہیں تھا جو آزاد عورت کو حاصل تھا۔ لہٰذا اس کی سزا تو کم ہو گئی، لیکن ایک عورت جو خدا کی طرف سے تھی ہی ناقصِ عقل ، اسے بعض چیزیں سمجھ ہی نہیں آسکتیں تو اس کی سزا کم کیوں نہ ہوئی؟ حد یہ ہے کہ تمام جرائم میں عورت کو مرد کے برابر سزا دی گئی ہے۔ مثلاً چوری کی سزا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فاطمہ نامی عورت کے ہاتھ بھی کاٹے ہیں۔ کیوں یہ بات اس وقت پیش نظر نہ رہی کہ وہ ناقص العقل ہے!
عمدہ!کل عورت کی گواہی آدھی ہونے کے حوالے سے کوئی پوسٹ نظر سے گزری۔ اس میں کوئی صاحب اس کی وجہ عورت کی یادداشت کا ناقص ہونا بتا رہے تھے۔ پوسٹ کی جزئیات تو اب یاد نہیں لیکن اس کی وجہ سے اٹھنے والا سوال ذہن میں رہ گیا۔ میں چونکہ عالم دین تو نہیں ہوں چنانچہ اس نکتہ نظر سے جو بات ہے وہ میں نہیں جانتا۔ البتہ جہاں تک یادداشت کی صلاحیت میں کسی قسم کے فرق کی بات ہے تو اس دعوے کو خالصتاً سائنسی طریقے سے اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے پرکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس کے حوالے سے کچھ تلاش کی۔
تلاش کے نتیجے میں جو نتائج سامنے آئے، ان کا خلاصہ کرنے کے لیے کچھ ریسرچ پیپرز کے اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔
[1]
There were no differences between men and women with regard to age or education, or on a measure of global intellectual functioning. As has been demonstrated previously, men outperformed women on a visuospatial task and women outperformed men on tests of verbal fluency. In addition, the results demonstrated that women consistently performed at a higher level than did men on the episodic memory tasks, although there were no differences between men and women on the tasks assessing semantic memory, primary memory, or priming.
-
Herlitz, A., Nilsson, L.-G., & Bäckman, L. (1997). Gender differences in episodic memory. Memory & Cognition, 25(6), 801–811. https://doi.org/10.3758/BF03211324
---
[2]
These results are in general accordance with the view that males and females differ in the cognitive strategies they use to process information. Specifically, they could differ in their abilities to maintain information over interference and in the processing of the intrinsic contextual attributes of items, respectively, associated with the modulation of two anterior components. These interpretations lend support to the view that processing in females entails more detailed elaboration of information content than in males. Processing in males is more likely driven by schemas or overall information theme.
-
Guillem, F., & Mograss, M. (2005). Gender differences in memory processing: Evidence from event-related potentials to faces. Brain and Cognition, 57(1), 84–92. Redirecting
---
[3]
After writing out advice, on a surprise memory test women recalled more emotional information than men in all focus conditions with no deficit in neutral recall. Women recalled more neutral information than men in the neutral focus condition. A measure of emotional sensitivity mediated the gender difference in emotional recall suggesting that memory for emotional information is not solely a function of gender.
-
Bloise, S. M., & Johnson, M. K. (2007). Memory for emotional and neutral information: Gender and individual differences in emotional sensitivity. Memory, 15(2), 192–204. https://doi.org/10.1080/09658210701204456
---
[4]
On the behavioral level, there were no significant gender differences in memory performance or emotional intensity of memories. [...] The data show gender‐related differential neural activations within the network subserving autobiographical memory in both genders. We suggest that the differential activations may reflect gender‐specific cognitive strategies during access to autobiographical memories that do not necessarily affect the behavioral level of memory performance and emotionality.
-
Piefke, M., Weiss, P. H., Markowitsch, H. J., & Fink, G. R. (2005). Gender differences in the functional neuroanatomy of emotional episodic autobiographical memory. Human Brain Mapping, 24(4), 313–324. https://doi.org/10.1002/hbm.20092
---
جیسا کہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، حقیقی دنیا کا ڈیٹا عورت کو یادداشت کے معاملے میں کسی طرح سے کمتر ظاہر نہیں کر رہا۔ یادداشت کی کارکردگی میں مجموعی طور پر کوئی قابل ذکر فرق نہیں دیکھا گیا۔ نیورولوجیکل سطح پر دونوں کی یادداشت کو پراسیس کرنے کی سٹریٹجی میں فرق ہے لیکن عملی طور پر اس سٹریٹجی کی وجہ سے کارکردگی پر کوئی فرق نہیں آتا۔
ایسے میں یہ سوال میرے لیے ایک معمہ ہی ہے کہ عورت کے ناقص العقل ہونے اور اس کی یادداشت کے ناقابل اعتبار ہونے پر اتنا شدید اصرار کیوں کیا جاتا ہے۔
مسلمان قران اور احادیثِ صحیحہ کی باتوں کو لاجک یا سائنس کی بنیادپر نہیں پرکھتے (ہاں البتہ لاجک اور سائنس والوں کے لئے بھی قران ڈھیروں ڈھیر نشانیاں یعنی آیات پیش کرتا ہے)۔ سائنس تو آج جو کہتی ہے ہو سکتا ہے کہ سو دو سو سال بعد وہ کہے کہ پچھلی تھیوری غلط تھی اور اب کچھ اور ثابت ہو گیا ہے۔ جیسا کہ کسی زمانے میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ انسان کا علم تو بہت محدود ہے۔
خواتین کی عقل بارے لڑی میں مسلمان کے لئے لازم تھا کہ ایسا ہی لکھتا۔مسلمان قران اور احادیثِ صحیحہ کی باتوں کو لاجک یا سائنس کی بنیادپر نہیں پرکھتے (ہاں البتہ لاجک اور سائنس والوں کے لئے بھی قران ڈھیروں ڈھیر نشانیاں یعنی آیات پیش کرتا ہے)۔ سائنس تو آج جو کہتی ہے ہو سکتا ہے کہ سو دو سو سال بعد وہ کہے کہ پچھلی تھیوری غلط تھی اور اب کچھ اور ثابت ہو گیا ہے۔ جیسا کہ کسی زمانے میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ انسان کا علم تو بہت محدود ہے۔
سو مسلمان قران اور احادیث کی باتوں پر لاجک یا سائنس کو بنیاد بنا کر یقین نہیں کرتے، بلکہ مسلمان تو غیب پر ایمان لاتے ہیں (یعنی بن دیکھے)۔ اگر ایسا نہ ہو تا خود خدا کا وجود، فرشتے، جن، جنت دوزخ کسی بھی چیز کا ثبوت ہمیں سائنس یا لاجک فراہم نہیں کرتی، اگر ہم سائنس یا لاجک کو ہی اصل بنیاد بنا لیں تو پھر ایمان لانا ممکن ہی نہیں ہے۔
ہمارا خالق ہمیں کائنات کی نشانیوں میں اور خود اپنی ذات میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت ضرور دیتا ہے کہ چشمِ بینا ہو تو ہمیں کائنات میں جگہ جگہ اُس کی نشانیاں نظر آئیں۔ لیکن انسان جب ایک بار اللہ رب العزت کو اپنا خالق اور مالک مان لیتا ہے۔ اُس کے رب ہونے کا اور اپنے بندہ ہونے کا اقرار کر لیتا ہے تو پھر اُس کے بعد وہ سنتا ہے اور اطاعت کرتا ہے، اس کے بعد وہ ہر بات میں اپنی منطق نہیں لڑاتا۔ یہی اہلِ ایمان کا شیوہ ہے۔
پھر سے پڑھ لیجے کہ کیا لکھا ہے۔ بالعموم یہ کہا گیا ہے کہ اسلام سے متعلق ہر بات کو سائنس کی بنیاد پر پرکھنا درست نہیں ہے۔ بلکہ ممکن بھی نہیں ہے۔خواتین کی عقل بارے لڑی میں مسلمان کے لئے لازم تھا کہ ایسا ہی لکھتا۔
لڑی کے عنوان کی مناسبت سے ظاہر ہے کہ آپ کا مطلب کیا ہےپھر سے پڑھ لیجے کہ کیا لکھا ہے۔ بالعموم یہ کہا گیا ہے کہ اسلام سے متعلق ہر بات کو سائنس کی بنیاد پر پرکھنا درست نہیں ہے۔ بلکہ ممکن بھی نہیں ہے۔
متفق۔اگر ہم سائنس یا لاجک کو ہی اصل بنیاد بنا لیں تو پھر ایمان لانا ممکن ہی نہیں ہے۔