مرد و عورت کے بیچ یادداشت کی صلاحیت میں عدم فرق اور عورت کی ناقص العقلی کا معمہ

سین خے

محفلین
:) بھئی کئی بار یادداشت مضبوط کرنے کے لئے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ کچھ خواتین و حضرات کو یاد رکھنے کے لئے بالکل بھی محنت نہیں کرنی پڑتی ہے۔ بس ان کو یاد رہ جاتا ہے۔ بہت سارے افراد effortlessly یاد کر لیتے ہیں۔ بس ایک بار پڑھا اور یاد ہو گیا۔ photographic memory myth سمجھی جاتی ہے لیکن بہت سارے افراد دیکھے ہیں جن کو معلومات تصویری صورت میں یاد رہ جاتی ہے۔
https://www.superrecognisers.com/
اب یہ ٹیسٹ ذرا دیکھیں۔ کچھ افراد کو قدرتی طور پر چہرے یاد رہ جاتے ہیں چاہے عمر کی وجہ سے کتنی ہی تبدیلی کیوں نہ آگئی ہو۔
 
قرآن شریف کی آیت میں جو دو عورتوں کو گواہ بنانے کی بات کی گئی ہے تو وہاں عورت کی گواہی کو آدھا تو کہیں نہیں کہا گیا۔ دو عورتوں کو گواہ بنانے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ایک کے بھولنے کی صورت میں دوسری یاد کرادے۔ یعنی گواہی مکمل ہی ہے صرف بھولنے کے خدشے کے باعث دوسری عورت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اب بھولنے کی وجہ وہی ہوسکتی ہے جو اوپر بہنا نے بیان کی کہ چونکہ خواتین کی اکثریت کی پریکٹس میں ایسے کاروباری حساب کتاب نہیں ہوتے، اور زیادہ تر دلچسپی کا بھی فقدان ہوتا ہے تو بہت ممکن ہے کچھ عرصہ بعد فریقین کے درمیان جو معاہدے کی شرائط طے پائی تھیں، وہ ان کے ذہن سے نکل جائیں۔ اگر قرآن شریف نے بھولنے والی بات کا ذکر نہ کیا ہوتا تو آدھی گواہی سمجھی جاسکتی تھی۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی عورت خود کاروباری ہے اور ان رموز کو اسی طرح سمجھتی ہے تو پھر اسکی اکیلی گواہی بھی کافی ہونی چاہئے۔ اور یہ تو بہرحال سامنے کی بات ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق صرف لین دین کے معاملات سے متعلق ہے۔ کہیں بھی فوجداری یا دیگر معاملات کا ذکر نہیں۔ یعنی دیگر معاملات میں عورت مرد کی گواہی میں کوئی امتیاز نہیں۔ اور لین دین کے معاملات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں بھولنے کا امکان ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

ایک بھول گئی توٓ باقی بچی ایک۔
پھر یہ نکتہ صرف اور صرف مستقبل کے سودوں کے بارے میں ہے، جو کہ ٓکنٹریکٹ لاء یعنی باہمی رضامندی کا قانون کہلاتا ہے۔ سول یعنی دیوانی یا کرمنل یعنی مجرمانہٓ معاملات میں قرآن حکیم عورت اور مرد کی تخصیص ٓنہیں کرتا، اور گواہوں کی تعداد کا تعین بھی دیوانی یا مجرمانہ معاملات کے لحاظ سے کیا گیا ہےٓ۔ کنٹریکٹ لاء ایک انتہائی نچلے درجے کا لاء ہے جس کو دیوانی قوانیں یا مجرمانہ قوانین کے سے نیچے سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی کنٹریکٹ لاء دیوانی یا مٓجرمانہ قوانین کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ لہذا ٓکسی سودے کے باہمی رضا مندی کے معاہدے کے گواہوں کوپھیلا کر عورتوں کو نصف ثابت کرنے کی کوشش بے کار اور جآہلانہ ہے۔ اس لئے کے اس کا اطلاق بالکل بھی دوسرے یعنی ٓدیوانی اور تعزیری معامٓلات میں نہیں ہوسکتا۔

والسلام
 
آخری تدوین:
دو جمع دو چار جیسی سادہ سی بات ہے کہ جب ایک صحیح ترین حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے ہماری انتہائی قابلِ احترام ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے بارے میں ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے الفاظ استعمال فرما لئے تو اصولی طور پر عقل کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی برتری تسلیم کرنے والوں کے لئے اس باب میں بحث کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

اب سمجھنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ کیا آپ ﷺ کے یہ الفاظ ان ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کی توہین یا کمتری ثابت کرنے کے لئے تھے جن کے حقوق ، جن کے احترام ، جن کی عظمت اور جن سے محبت کے درس سے اسلامی تعلیمات بھری پڑی ہیں؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ الفاظ صرف ایک حقیقت بیان کرنے کے لئے تھے کہ اللہ رب العزت نے عورت کی تخلیق میں جو ایک فطری نرمی و نزاکت ، لچک اور برداشت رکھی ہے اس کی وجہ سے مجموعی طور پر خواتین کی عقل و دین میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہی فطری نرمی و نزاکت ، لچک اور برداشت عورت کو انسان کی پیدائش (حمل اور وضع حمل) اور اس کی پرورش (رضاعت وغیرہ) کے اس عظیم فریضے کی ادائیگی کے قابل بناتی ہے جس کا تحمل نہ تو تاریخِ انسان میں کوئی مرد کر سکا ہے اور نہ ہی آئندہ کر سکے گا۔ حتی کہ تاریخِ انسانیت کے عظیم الشان معجزے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ کے ولادت) کے لئے بھی اللہ رب العزت نے انہی خاص صفات کی حامل ایک مقدس ترین خاتون حضرت مریم علیہا السلام کا اتنخاب فرمایا، نہ کہ کسی ’’کامل العقل والدین‘‘ مرد کا۔

پھر یہ کمی کُلیّ بھی نہیں ہے کہ ہر عورت ہر مرد سے کمتر ہو، بلکہ بے شمار خواتین بے شمار معاملات میں مردوں سے برتر ہو سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ جنگ و جدال کے ایسے معاملات جو خالص مردوں کا میدان سمجھے جاتے ہیں ان میں بھی بے شمار عورتیں بہت سے مردوں سے برتر نظر آتی ہیں۔ ریسرچز اور ٹیسٹس کے بکھیڑے میں پڑے بغیر آپ کسی بھی میدانِ عمل میں جھانک کر دیکھ لیں آپ کو بہت سی خواتین بے شمار مردوں سے آگے نظر آئیں گی۔ کیا عارفہ کریم مرد تھی؟ کیا سمینہ بیگ کی طرح سب پاکستانی مرد ایورسٹ سر کر چکے ہیں؟ اسی طرح دینی معاملات کو پیشِ نظر رکھ کر جائزہ لیں تو آپ کو ان گنت خواتین آج بھی اور تاریخ میں بھی نظر آئیں گی جو تقوٰی اور طہارت میں اس مقام پر پہنچ چکی ہیں جہاں پہنچتے بے شمار مردوں کے پر جلتے ہیں۔ خود نبی اکرم ﷺ کی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بطورِ معلمۂ دین وہ مقام رکھتی تھیں جو ان گنت صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی حاصل نہیں تھا۔ حضرت رابعہ بصریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقامِ ولایت اس درجے پر تھا جو بے شمار مردوں کی بساط سے باہر تھا۔

اسی طرح آپ ﷺ کے یہ الفاظ استعمال کرنے سے عورت کی شان میں بھی قطعاً کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ہر مرد کے لئے عورت وہی ماں رہتی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے، وہی بیوی رہتی ہے جو اس کے ایمان کی محافظ ہے اور جس سے رشتۂ ازدواج میں بندھ جانے پر ایمان کی تکمیل کی بشارت دی گئی ہے اور جس کے ناز و نخرے کائنات کی افضل ترین ہستی نے بھی فخر سے اٹھائے ہیں اور وہی بیٹی رہتی ہے جس کی اچھی پرورش اور تربیت پر جنت میں سید الکونین ﷺ کا ساتھ ملتا ہے۔

اسلام کی مجموعی تعلیمات سے قطع نظر کر کے ایک مقدس ترین حدیثِ مبارکہ کے جملے کو تختۂ مشق بناتے چلے جانا اور اُن بنیادوں پر اعتراض کر کے اسے رد کرنے کی کوشش کرتے چلے جانا جو بنیادیں اسلام نے فراہم کی ہی نہیں، یہ کہاں کی عقل پسندی ہے؟ اسی طرح اگر کوئی شخص عقل پرستی کے مقابلے میں اپنی دینداری کو عورت کی توہین اور اس کے استحصال کی بنیاد بنانے کی کوشش کرے اور ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے جملے کو قدم قدم پر عورت کو طعنے دینے کے لئے استعمال کرے، تو یہ کہاں کی دینداری ہے؟ اتفاق و اتحاد، یکجہتی و یگانگت اور ہم نوائی کی کلیاں ہمیشہ اعتدال اور غیر جانبداری کی شاخوں سے پھوٹتی ہیں۔ جب قرآن یہود و نصاری کو قریب لانے کے لئے ’’ نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے‘‘ کے فلسفے کو بنیاد بنانے کی تلقین کرتا ہے تو ایک مذہب کے پیروکاروں میں جملہ بازی اور طنز و تنقید کے تیر چلانے کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے؟

خدارا! ان بے مقصد مباحث سے نکلئے اور سادہ الفاظ میں یہ حقیقت تسلیم کر لیجئے کہ جنسِ انسان کی دو انواع ہیں، اگر دونوں انواع کو سو فیصد یکساں صلاحیتیں ہی عطا فرمانی تھیں تو ربِ کائنات ایک ہی جنس مرد یا عورت کو پیدا فرما کر ان میں تمام صلاحیتیں بشمول تولید و تناسل بھی رکھ دیتے۔ لیکن اس علیم و حکیم نے اگر دو انواع پیدا فرمائی ہیں تو ان کے بہت سے مقاصد اگرچہ یکساں ہوں لیکن کہیں نہ کہیں ان کے مقاصد اور ذمہ داریوں میں فرق ضرور ہے۔ ہر دو انواع کی عظمت و وقعت اسی میں ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کر لیں کہ جہاں ان کی صلاحیتیں یکساں ہیں، وہاں یکساں ہیں، اور جہاں ان میں فرق ہے وہاں فرق ہے، دونوں ہی ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں، دونوں ہی ایک دوسرے کے بغیر نا مکمل ہیں دونوں ہی ایک خدا کی مخلوق اور اس کے عباد ہیں، ہر ایک پر فرقِ مراتب کے لحاظ کے ساتھ ایک دوسرے کا احترام فرض و واجب ہے۔

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
ایک بھول گئی توٓ باقی بچی ایک۔
پھر یہ نکتہ صرف اور صرف مستقبل کے سودوں کے بارے میں ہے، جو کہ ٓکنٹریکٹ لاء یعنی باہمی رضامندی کا قانون کہلاتا ہے۔ سول یعنی دیوانی یا کرمنل یعنی مجرمانہٓ معاملات میں قرآن حکیم عورت اور مرد کی تخصیص ٓنہیں کرتا، اور گواہوں کی تعداد کا تعین بھی دیوانی یا مجرمانہ معاملات کے لحاظ سے کیا گیا ہےٓ۔ کنٹریکٹ لاء ایک انتہائی نچلے درجے کا لاء ہے جس کو دیوانی قوانیں یا مجرمانہ قوانین کے سے نیچے سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی کنٹریکٹ لاء دیوانی یا مٓجرمانہ قوانین کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ لہذا ٓکسی سودے کے باہمی رضا مندی کے معاہدے کے گواہوں کوپھیلا کر عورتوں کو نصف ثابت کرنے کی کوشش بے کار اور جآہلانہ ہے۔ اس لئے کے اس کا اطلاق بالکل بھی دوسرے یعنی ٓدیوانی اور تعزیری معامٓلات میں نہیں ہوسکتا۔

والسلام
اقتباس آپ نے میرے مراسلے کا لیا ہے لیکن میں سمجھ نہیں پایا کہ میرے مراسلے کی کسی بات سے اختلاف کیا ہے یا تائید کی ہے۔ وضاحت فرمادیں تو مشکور ہوں گا۔
 

محمد سعد

محفلین
بلکہ یہ الفاظ صرف ایک حقیقت بیان کرنے کے لئے تھے کہ اللہ رب العزت نے عورت کی تخلیق میں جو ایک فطری نرمی و نزاکت ، لچک اور برداشت رکھی ہے اس کی وجہ سے مجموعی طور پر خواتین کی عقل و دین میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ کس حدیث میں ناقصات العقل کے الفاظ بیان ہوئے ہیں اور اس کی سند کیا ہے، لیکن
میرا نہیں خیال کہ حقیقی دنیا سے ہی سینکڑوں سٹڈیز میں اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کو نظر انداز کر کے آپ اس کے بالکل الٹ بات کو "ایک حقیقت" قرر دینے پر اصرار کر سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بلکہ یہ الفاظ صرف ایک حقیقت بیان کرنے کے لئے تھے کہ اللہ رب العزت نے عورت کی تخلیق میں جو ایک فطری نرمی و نزاکت ، لچک اور برداشت رکھی ہے اس کی وجہ سے مجموعی طور پر خواتین کی عقل و دین میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے۔
اس بات کا کوئی ثبوت دماغ کی ریسرچ سے ثابت ہو تو پیش کریں۔
 

زیک

مسافر
مجھے نہیں پتہ کہ کس حدیث میں ناقصات العقل کے الفاظ بیان ہوئے ہیں اور اس کی سند کیا ہے، لیکن
میرا نہیں خیال کہ حقیقی دنیا سے ہی سینکڑوں سٹڈیز میں اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کو نظر انداز کر کے آپ اس کے بالکل الٹ بات کو "ایک حقیقت" قرر دینے پر اصرار کر سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم ٓاللہ تعالی کے کلام کو روایات کی مدد سے غلط ثابت کرنے کی کوششوں میں ہیں؟
جو صاحب ناقصات العقل کے نظریے سے متفق ہیں، وہ تھوڑی تکلیف فرمائیں اور قرآن حکیم سے ہم کو یہی نکتہ پیش کریں۔

قرآن حکیم ہی وہ کتاب ہے جس کا نزول ، محمد العربی کو محمد الرسول اللہ بناتا ہے۔ لہذا یہ بات کسی طور بھی عقل میں نہیں سماتی کہ یہی رسول اکرم ، اپنی تعلیمات میں ، اللہ کٓے کلام کی تکفیر فرمائیں گے ،نعوذ باللہ۔

اللہ تعالی نے عورت کی معاشرے میں تذلیل کے تمام رواجوں کو ختم کیا ٓ، لیکن ان کو رواج دینے والوں نے رسول اکرم کے اقوال کو توڑ مروٓڑ کر پیش کیا۔ یہی خواتین، ہماری محترم مائیں ہیں، بہنیں ہیں، بیویاں ہیں، بیٹیاں ۔ ان کی عزت و احترام کے لئے ہم کاٹ دیتے ہیں اور ٓکٹ مر جاتے ہیں۔ لہذا محترم خواتین کے لئے ذلت آمیز روے اور ملاء پراپیگنڈے کے خلاف جو بھی جہاد کٓیا جائے وہ کم ہے۔
ٓوالسلام
 

La Alma

لائبریرین
دو جمع دو چار جیسی سادہ سی بات ہے کہ جب ایک صحیح ترین حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے ہماری انتہائی قابلِ احترام ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے بارے میں ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے الفاظ استعمال فرما لئے تو اصولی طور پر عقل کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی برتری تسلیم کرنے والوں کے لئے اس باب میں بحث کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
محترم بھائی! یہ دو جمع دو چار والی بات صرف قرآن پر ہی صادق آ سکتی ہے۔ کیونکہ قرآن کی گواہی اللہ خود دے رہا ہے کہ اس کے الفاظ میں کوئی ردوبدل نہیں کر سکتا۔
‎وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ
(القرآن)

"اور آپ کے رب کا کلمہ قرآن صداقت اور عدالت کے اعتبار سے بالکل مکمل ہے۔ اس کا کوئی تبدیل کرنے والا نہیں ہے"
‎جہاں تک احادیث کا تعلق ہے ۔الحمداللہ سبھی مسلمان اس بات پر کلی طور پر متفق ہیں کہ حضور کا ہر قول برحق اور آپؐ کی فرمائی ہوئی ہر بات حکم کا درجہ رکھتی ہے ۔کیونکہ قران ہی کے مطابق آپؐ اپنی خواہشِ نفسانی سے کوئی بات نہیں کہتے اور ہمیشہ سیدھی راہ ہی بتلاتے ہیں۔
‎وجہِ اختلاف صرف اتنی ہے کہ کچھ مکاتیبِ فکر کے نزدیک، صحیح احادیث ہم تک من و عن اسی طرح درست حالت میں پہنچی ہیں جس طرح قرآن کی آیات، لہذا ان کے غلط ہونا کسی طور ممکن نہیں ۔ جبکہ بعض کے نزدیک اس بات کا امکان موجود ہے کہ کوئی روایت یا قول غلطی سے ہمارے نبؐی سے منسوب ہو گیا ہو۔ ان کا نقطہء نظر یہ ہے کہ اگرچہ ہمارے اسلاف نے انتہائی محنت اور احتیاط سے احادیث کو اکٹھا کیا، ان کی صحت کو پرکھا اور ایک مستند نظام کے تحت صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کیا۔ لیکن وہ بھی انسان تھے اور بشری کمزوریوں سے مبرا نہیں تھے۔ لہٰذا جس بات پر اختلافات جنم لینا شروع کر دیں تو حقیقت جاننے کے لیے اس پر تحقیق کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ اور ایسا کرنے والوں کو منکرانِ احادیث کی صف میں لا کھڑا کرنا بھی درست نہیں۔
آپ کسی بھی میدانِ عمل میں جھانک کر دیکھ لیں آپ کو بہت سی خواتین بے شمار مردوں سے آگے نظر آئیں گی۔ کیا عارفہ کریم مرد تھی؟ کیا سمینہ بیگ کی طرح سب پاکستانی مرد ایورسٹ سر کر چکے ہیں؟ اسی طرح دینی معاملات کو پیشِ نظر رکھ کر جائزہ لیں تو آپ کو ان گنت خواتین آج بھی اور تاریخ میں بھی نظر آئیں گی جو تقوٰی اور طہارت میں اس مقام پر پہنچ چکی ہیں جہاں پہنچتے بے شمار مردوں کے پر جلتے ہیں۔ خود نبی اکرم ﷺ کی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بطورِ معلمۂ دین وہ مقام رکھتی تھیں جو ان گنت صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی حاصل نہیں تھا۔ حضرت رابعہ بصریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقامِ ولایت اس درجے پر تھا جو بے شمار مردوں کی بساط سے باہر تھا۔
اگرعورت ناقص العقل ہے تو پھر کامل العقل سے کیسے آگے بڑھ گئی؟ جو مثالیں آپ نے پیش کی ہیں اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ عقل کے لحاظ سے عورت مردوں سے کسی طور کمتر نہیں۔ یہاں دلائل تو ناقص العقلی کے ہونے چاہیے تھے تاکہ کنفیوژن دور ہو جاتی۔
ناقصات العقل والدین‘‘ کے جملے کو قدم قدم پر عورت کو طعنے دینے کے لئے استعمال کرے، تو یہ کہاں کی دینداری ہے
حق بات طعنہ کیسے ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کو کامل یقین ہو کہ یہ الفاظ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ہی ادا ہوئے ہیں تو عورت کو ناقص العقل کہنا غلط کیسے ہو سکتا ہے۔ پھر تو ایک بیٹے کو اپنی ماں کو بھی ناقص العقل قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
 
مجھے نہیں پتہ کہ کس حدیث میں ناقصات العقل کے الفاظ بیان ہوئے ہیں اور اس کی سند کیا ہے
بخاری شریف کی یہ روایت ہے، متعلقہ جملہ بالڈ کیا ہے:
عن أبي سعید الخدري، قال: خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في أضحی أو فطر إلی المصلی، فمر علی النساء، فقال: ''یا معشر النساء تصدقن فإني أریتکن أکثر أہل النار''، فقلن: وبم یا رسول اللّٰہ؟ قال: ''تکثرن اللعن، وتکفرن العشیر، ما رأیت من ناقصات عقل ودین أذہب للب الرجل الحازم من إحداکن''، قلن: وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللّٰہ؟ قال: ''ألیس شہادۃ المرأۃ مثل نصف شہادۃ الرجل''، قلن: بلی، قال: ''فذلک من نقصان عقلہا، ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم''، قلن: بلی، قال: ''فذلک من نقصان دینہا''.(بخاری، رقم ۳۰۴)

یہ ترمذی شریف کی روایت ہے، متعلقہ جملہ اس میں بھی بالڈ کیا ہے:
عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَوَعَظَہُمْ ثُمَّ قَالَ: ''یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ فَإِنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَہْلِ النَّارِ''، فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ: وَلِمَ ذَاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ''لِکَثْرَۃِ لَعْنِکُنَّ، یَعْنِیْ وَکُفْرِکُنَّ الْعَشِیْرَ''. قَالَ: ''وَمَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَغْلَبَ لِذَوِي الْأَلْبَابِ، وَذَوِي الرَّأْيِ مِنْکُنَّ''، قَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ: وَمَا نُقْصَانُ دِیْنِہَا وَعَقْلِہَا؟ قَالَ: ''شَہَادَۃُ امْرَأَتَیْنِ مِنْکُنَّ بِشَہَادَۃِ رَجُلٍ، وَنُقْصَانُ دِیْنِکُنَّ، الحَیْضَۃُ، تَمْکُثُ إِحْدَاکُنَّ الثَّلاَثَ وَالْأَرْبَعَ لَا تُصَلِّی''.(سنن الترمذی، رقم ۲۶۱۳)
 
آخری تدوین:
بہترین! یعنی خواتین کو کمتر ثابت کر ہی دیا
کسی ایک چیز میں کسی دوسرے سے کم ہونا ’’کمتر‘‘ ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ چھری کی دھار تیز اور وزن کم ہے، ہتھوڑی کا وزن زیادہ اور دھار کند ہے۔ نہ چھری ہتھوڑی سے کمتر ہے، نہ ہتھوڑی چھری سے۔ دونوں کے مقاصدِ تخلیق میں فرق ہے۔ یہی بات میں نے اپنی پوری پوسٹ میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی میں کوئی ایک کمی ہے تو کسی دوسری صفت میں بہتری بھی ہو سکتی ہے، اس سے عمومی طور پر کمتر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
 
میرا نہیں خیال کہ حقیقی دنیا سے ہی سینکڑوں سٹڈیز میں اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کو نظر انداز کر کے آپ اس کے بالکل الٹ بات کو "ایک حقیقت" قرر دینے پر اصرار کر سکتے ہیں۔
حصولِ علم کے پانچ ذرائع ظاہری ہیں، جنہیں حواسِ خمسہ (فائیو سنسز) کہا جاتا ہے۔ ایک ذریعہ باطنی ہے جسے عقل کہتے ہیں جو بنیادی طور پر مذکورہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کو پراسس کر کے نتائج اخذ کرتی ہے۔ حواسِ خمسہ کی بھی ایک حد ہے اور عقل کی بھی۔ جہاں ان تمام ذرائع کی حدود اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اس سے آگے رہنمائی کا ذریعہ وحیِ اِلٰہی ہے۔ جنت، دوزخ، مرنے کے بعد کی زندگی، میدانِ حشر، پل صراط، یہ تمام چیزیں وحی سے معلوم ہوئی ہیں۔
اسی طرح دنیوی معاملات میں بھی انسان نے اپنے حواس سے کام لے کر بہت سی چیزیں ایجاد کر لیں، لیکن ان چیزوں کا استعمال کہاں جائز اور کہاں ناجائز ہے اس کا صحیح فیصلہ وحی کے ذریعے ہم تک پہنچایا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال کیمرے کی لے لیں، ہر شخص اپنی عقل اور اپنے مفادات اور اپنے رجحانات کو بنیاد بنا کر اس کے کسی استعمال کو صحیح اور کسی کو غلط قرار دے سکتا ہے۔ لیکن جو فیصلہ وحیِ اِلٰہی کے ذریعے ہم تک پہنچا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے وہی فیصلہ حق و باطل میں امتیاز کی بنیاد ہے۔
اپنی پوسٹ میں جو میں نے عرض کیا تھا کہ:
دو جمع دو چار جیسی سادہ سی بات ہے کہ جب ایک صحیح ترین حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے ہماری انتہائی قابلِ احترام ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے بارے میں ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے الفاظ استعمال فرما لئے تو اصولی طور پر عقل کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی برتری تسلیم کرنے والوں کے لئے اس باب میں بحث کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
اس کی بنیاد یہی مذکورہ بالا تفصیل تھی جس میں کسی قسم کا کوئی تعصب، جانبداری یا مباحثے میں جیت کی خواہش شامل نہیں تھی۔ ہاں! اگر کوئی اپنی عقل کو خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات (یعنی وحی سے) برتر سمجھتا ہو تو اس سے بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی، کیونکہ بحث کے اصولوں میں ہی فرق آگیا۔ لہذا پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عقلِ انسانی برتر ہے یا عقلِ الٰہی جس کا ظہور ہم پر وحی کے ذریعے ہوا ہے۔

جہاں تک سائنسی تحقیقات کی بات ہے تو مجھے نہیں سمجھ آتی کہ جب ایک چیز عقلِ عام (کامن سینس) سے سمجھ میں آسکتی ہے تو اس کے لئے اتنی اسٹڈیز کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ آپ تاریخ میں موجود بڑے بڑے سائنس دانوں کا جائزہ لے لیں، بڑے بڑے لیڈرز کے بارے میں سرچ کر لیں، بڑے بڑے تاجروں کی تاریخ دیکھ لیں۔ آپ کو اکثریت مردوں کی دکھائی دے گی۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ اس سے کلی طور پر تمام مردوں کا ہر حال میں بہتر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ بہت سی خواتین بھی تقریبا ہر میدان میں اپنا ایک نام رکھتی ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی خواتین ان میدانوں میں بے شمار مردوں سے بہتر رہی ہیں۔

چلئے تھوڑی دیر کے لئے ہم عقل سے متعلق بحث کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور جسمانی طاقت اور مضبوطی کی طرف آجاتے ہیں۔ یقینا دنیا میں ایسی بہت سی خواتین ہوں گی جو بہت سے مردوں سے زیادہ طاقتور ہوں گی، لیکن کیا اکثریت کی یہ صورتِحال ہے؟ ہر گز نہیں۔ آپ اپنے اطراف اکناف میں ہی نظر دوڑا کر دیکھ لیں مردوں کی جسمانی قوت اور مضبوطی آپ کو خواتین سے زیادہ نظر آئے گی۔ اس کے بر عکس خواتین کی جسمانی ساخت میں نزاکت، نرمی اور لطافت رکھی گئی ہے۔ اب اس فرق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت مرد سے کمتر ثابت ہوگئی۔ بلکہ دونوں کی تخلیق کے مقاصد مختلف ہیں، اس لئے جسمانی ساخت بھی مختلف ہے۔

آخری بات ایک مرتبہ پھر عرض کروں گا اور زکریا بھائی کی پوسٹ کے جواب میں بھی عرض کیا ہے کہ کسی ایک صلاحیت میں کمی ہونا کمتر ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ بالخصوص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اور فرمانِ اِلٰہی إنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ کی رو سے بہتری اور برتری کا معیار دنیا میں صرف ایک ہے اور وہ ہے نیکی، پارسائی اور تقویٰ۔ اس میں جو شخص آگے ہے وہ بلا تمیزِ مرد و زن آگے ہے اور جو اس میں پیچھے ہے وہ بلا تمیزِ مرد و زن کمتر ہے۔
 
آخری تدوین:
جی بالکل! مجبوری ہے:bashful:۔
تفصیل اس کی یہ ہے جو کہ سابقہ پوسٹ میں بھی موجود ہے:
حصولِ علم کے پانچ ذرائع ظاہری ہیں، جنہیں حواسِ خمسہ (فائیو سنسز) کہا جاتا ہے۔ ایک ذریعہ باطنی ہے جسے عقل کہتے ہیں جو بنیادی طور پر مذکورہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کو پراسس کر کے نتائج اخذ کرتی ہے۔ حواسِ خمسہ کی بھی ایک حد ہے اور عقل کی بھی۔ جہاں ان تمام ذرائع کی حدود اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اس سے آگے رہنمائی کا ذریعہ وحیِ اِلٰہی ہے۔ جنت، دوزخ، مرنے کے بعد کی زندگی، میدانِ حشر، پل صراط، یہ تمام چیزیں وحی سے معلوم ہوئی ہیں۔
اسی طرح دنیوی معاملات میں بھی انسان نے اپنے حواس سے کام لے کر بہت سی چیزیں ایجاد کر لیں، لیکن ان چیزوں کا استعمال کہاں جائز اور کہاں ناجائز ہے اس کا صحیح فیصلہ وحی کے ذریعے ہم تک پہنچایا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال کیمرے کی لے لیں، ہر شخص اپنی عقل اور اپنے مفادات اور اپنے رجحانات کو بنیاد بنا کر اس کے کسی استعمال کو صحیح اور کسی کو غلط قرار دے سکتا ہے۔ لیکن جو فیصلہ وحیِ اِلٰہی کے ذریعے ہم تک پہنچا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے وہی فیصلہ حق و باطل میں امتیاز کی بنیاد ہے۔
اپنی پوسٹ میں جو میں نے عرض کیا تھا کہ:
دو جمع دو چار جیسی سادہ سی بات ہے کہ جب ایک صحیح ترین حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے ہماری انتہائی قابلِ احترام ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے بارے میں ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے الفاظ استعمال فرما لئے تو اصولی طور پر عقل کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی برتری تسلیم کرنے والوں کے لئے اس باب میں بحث کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
اس کی بنیاد یہی مذکورہ بالا تفصیل تھی جس میں کسی قسم کا کوئی تعصب، جانبداری یا مباحثے میں جیت کی خواہش شامل نہیں تھی۔ ہاں! اگر کوئی اپنی عقل کو خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات (یعنی وحی سے) برتر سمجھتا ہو تو اس سے بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی، کیونکہ بحث کے اصولوں میں ہی فرق آگیا۔ لہذا پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عقلِ انسانی برتر ہے یا عقلِ الٰہی جس کا ظہور ہم پر وحی کے ذریعے ہوا ہے۔
 
‎وجہِ اختلاف صرف اتنی ہے کہ کچھ مکاتیبِ فکر کے نزدیک، صحیح احادیث ہم تک من و عن اسی طرح درست حالت میں پہنچی ہیں جس طرح قرآن کی آیات، لہذا ان کے غلط ہونا کسی طور ممکن نہیں ۔ جبکہ بعض کے نزدیک اس بات کا امکان موجود ہے کہ کوئی روایت یا قول غلطی سے ہمارے نبؐی سے منسوب ہو گیا ہو۔ ان کا نقطہء نظر یہ ہے کہ اگرچہ ہمارے اسلاف نے انتہائی محنت اور احتیاط سے احادیث کو اکٹھا کیا، ان کی صحت کو پرکھا اور ایک مستند نظام کے تحت صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ الگ کیا۔ لیکن وہ بھی انسان تھے اور بشری کمزوریوں سے مبرا نہیں تھے۔ لہٰذا جس بات پر اختلافات جنم لینا شروع کر دیں تو حقیقت جاننے کے لیے اس پر تحقیق کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ اور ایسا کرنے والوں کو منکرانِ احادیث کی صف میں لا کھڑا کرنا بھی درست نہیں۔

محترم بہن! آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے۔ میں نے اپنی پوسٹ کی بنیاد جن احادیثِ مبارکہ کو بنایا ہے جو کہ سعد بھائی کے جواب میں عرض کی ہیں وہ صحیح ترین روایات ہیں، جو بہت سے طرق (اسناد) سے منقول ہیں۔ ان احادیث مبارکہ اور ان کے مفہوم کے بارے میں بھی اپنی ادنی بساط کی حد تک تحقیق کی ہے۔ مجھے جو بات سمجھ میں آئی اور جو مفہوم اکابر و اسلاف کی تشریحات و تفسیرات سے ملا اسی کی روشنی میں گذارشات پیش کر رہا ہوں۔ اگر کسی کو حدیثِ مبارکہ کی سند پر کوئی اشکال ہو تو اس پر بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن حدیث کو مستند تسلیم کر لینے کے بعد محض اپنی عقل اور تجزیوں کی روشنی میں اسے رد کرنا گوارا نہیں ہے۔ پھر سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔ ابھی حال ہی میں ایک بہت بڑے امریکی تحقیقاتی ادارے نے کولیسٹرول کے بارے میں جو نئی تحقیق پیش کی اور سابقہ نصف صدی سے کولیسٹرول کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کو رد کیا وہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔
بہرحال سائنسی تحقیقات کی افادیت اور ان کے ذریعے انسانیت کی جو خدمت مغرب نے کی ہے اس پر ہمیں یقینا مغرب کا مشکور ہونا چاہئے، لیکن جہاں اس کا تضاد قرآن و حدیث کے مستند دلائل سے آئے گا وہاں ہم قرآن و حدیث کو ترجیح دینے پر بصد احترام اور بصد شوق اور بصد افتخار مجبور ہیں۔
 
آخری تدوین:
اگرعورت ناقص العقل ہے تو پھر کامل العقل سے کیسے آگے بڑھ گئی؟ جو مثالیں آپ نے پیش کی ہیں اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ عقل کے لحاظ سے عورت مردوں سے کسی طور کمتر نہیں۔ یہاں دلائل تو ناقص العقلی کے ہونے چاہیے تھے تاکہ کنفیوژن دور ہو جاتی۔
بات ہو رہی تھی کلی اور مجموعی کے اعتبار سے۔ اگر کسی جنس میں کسی صفت کا کسی دوسرے کے مقابلے میں کلی طور پر زیادہ ہونا ثابت کیا جائے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس جنس کے ہر ہر فرد میں دوسرے کے ہر ہر فرد سے زیادہ وہ صفت پائی جاتی ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر کسی جنس میں کسی صفت کے زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اکثر افراد میں دوسرے کے اکثر افراد کی بہ نسبت وہ صفت زیادہ پائی جاتی ہے۔ خواتین کی فہم و فراست اور بلند ہمتی کی جو مثالیں میں نے پیش کیں ان کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ حدیثِ مبارکہ کے اس جملہ کا اطلاق خواتین پر کلی طور پر نہیں ہوتا بلکہ بے شمار خواتین ان گنت مردوں سے اس صفت میں کہیں زیادہ آگے ہو سکتی ہیں۔ البتہ یہ جملہ مجموعی حیثیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس جنس کے افراد میں مجموعی طور پر اس صفت میں کچھ کمی پائی جاتی ہے۔
چونکہ اکثر اوقات ہم بات کو اس کے سیاق و سباق سے منقطع کر بیٹھتے ہیں اس لئے ایک مرتبہ پھر وہی عرض ہے (اور یہ عرض تمام قارئین کو سیاق و سباق سے جوڑنے کے لئے ہے آپ کے لئے نہیں) کہ:
کسی ایک چیز میں کسی دوسرے سے کم ہونا ’’کمتر‘‘ ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ چھری کی دھار تیز اور وزن کم ہے، ہتھوڑی کا وزن زیادہ اور دھار کند ہے۔ نہ چھری ہتھوڑی سے کمتر ہے، نہ ہتھوڑی چھری سے۔ دونوں کے مقاصدِ تخلیق میں فرق ہے۔ یہی بات میں نے اپنی پوری پوسٹ میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی میں کوئی ایک کمی ہے تو کسی دوسری صفت میں بہتری بھی ہو سکتی ہے، اس سے عمومی طور پر کمتر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
 

سین خے

محفلین
مپھر سائنسی تحقیقات و تجزیات سے تو آپ واقف ہی ہیں، آج کچھ اور کل کچھ۔ ابھی حال ہی میں ایک بہت بڑے امریکی تحقیقاتی ادارے نے کولیسٹرول کے بارے میں جو نئی تحقیق پیش کی اور سابقہ نصف صدی سے کولیسٹرول کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کو رد کیا وہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔

براہ مہربانی اس ریسرچ کا لنک بھی دے دیں :)
 
Top