مشکل اور پیچیدہ اشعار کی تشریح

فاخر رضا

محفلین
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

اس شعر کی تشریح درکار ہے۔۔۔۔
یہاں شاعر یہ کہ رہا ہے کہ مسیحا سے ملاقات عام طور پر بیماری کی حالت میں ہوتی ہے اور شفا کی امید ہوتی ہے
جبکہ خضر سے ملاقات جاودانی زندگی کی آرزو پیدا کرتا ہے
مگر شاعر کا حال یہ ہے کہ نہ اسے شفا چاہیے نہ لمبی زندگی بلکہ وہ اپنے محبوب سے ملنے کا متمنی ہے چاہے اسکے بعد اسے موت ہی آجائے
دوسرا مطلب یہ ہے کہ کہ شاعر خدا سے ملاقات کا متمنی ہے لہٰذا شفا اور لمبی زندگی کی اب آرزو نہیں رکھتا
 

عرفان سعید

محفلین
یہاں شاعر یہ کہ رہا ہے کہ مسیحا سے ملاقات عام طور پر بیماری کی حالت میں ہوتی ہے اور شفا کی امید ہوتی ہے
جبکہ خضر سے ملاقات جاودانی زندگی کی آرزو پیدا کرتا ہے
مگر شاعر کا حال یہ ہے کہ نہ اسے شفا چاہیے نہ لمبی زندگی بلکہ وہ اپنے محبوب سے ملنے کا متمنی ہے چاہے اسکے بعد اسے موت ہی آجائے
دوسرا مطلب یہ ہے کہ کہ شاعر خدا سے ملاقات کا متمنی ہے لہٰذا شفا اور لمبی زندگی کی اب آرزو نہیں رکھتا
بہت اچھی تشریح ڈاکٹر صاحب!
آپ نے میڈیکل نقطہ نظر بھی بیان فرما دیا ہے
 

عین الف

محفلین
مرحمت کرتا ہے سینوں کو دوبارہ جو بشر
وقتِ سارق سے متاعِ برُدہٰ دِل چھین کر
نوعِ اِنساں کو عطا کرتا ہے جو بارِ دگر
آدمی کے دیدہٗ باطن کی مسروقہ نظر
اور برامد کر کے جیبِ دُزد سے ایقان کو
بخشتا ہے جاگتا اِنسان جو اِنسان کو


مجھے یہ شعر سمجھ نہیں آ رہا، برائے مہربانی سمجھادیں
 
مرحمت کرتا ہے سینوں کو دوبارہ جو بشر
وقتِ سارق سے متاعِ برُدہٰ دِل چھین کر
نوعِ اِنساں کو عطا کرتا ہے جو بارِ دگر
آدمی کے دیدہٗ باطن کی مسروقہ نظر
اور برامد کر کے جیبِ دُزد سے ایقان کو
بخشتا ہے جاگتا اِنسان جو اِنسان کو


مجھے یہ شعر سمجھ نہیں آ رہا، برائے مہربانی سمجھادیں
1)مرحمت = مرہم رکھنا چارہ جوئی کرنا
مرہم رکھتا ہے سینے پہ دوبارہ جو بشر
2)سارق =چور متاع = جان بردہ = غلام
چور اوقات سے غلامی میں بندھےدل کو رہا کرتا ہے
3)بار دگر = ایک بار پھر سے
نوع انسان کو ایک بار پھر سے عطا کرتا ہے
4)دیدہ =آنکھ مسروقہ =چوری شدہ
آدمی کے باطن کی چوری شدہ آنکھ
5)درز = دڑاڑ ایقان = یقین
اور برآمد کرکے جیب کی دڑاڑوں سے یقین کو
6)بخشتا ہے جاگتا انسان جو انسان کو = انسان دوسرے انسان کو بیدار کردیتا ہے
 

مزمل اختر

محفلین
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

محسن نقوی

شاعر کیا کہنا چاہتا ہے کیا اس کے چہرے کی کشش سورج سے کم ہے.۔؟
تھوڑی سی وضاحت درکار ہے :act-up::smile2:
 

فہدخان

محفلین
یوسف مصر تمنا تیرے جلوں کے نثار
میری بیداریوں کو خواب زلیخا نہ بنا

اس شعر کی تشریح درکار ہے... راہنما ئی فرمائیں..

نوازش
 

فرقان احمد

محفلین
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

محسن نقوی

شاعر کیا کہنا چاہتا ہے کیا اس کے چہرے کی کشش سورج سے کم ہے.۔؟
تھوڑی سی وضاحت درکار ہے :act-up::smile2:
چہرے کی کشش اور محبوب کے آتشی حسن کو آفتاب کی آب و تاب کے مثل ٹھہرایا گیا ہے جس کو نظر بھر کر دیکھنا مشکل ہے تاہم محبوب کے حُسن کی آب و تاب ایسی ہے کہ پلٹ کر دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہء کار بھی نہیں۔ ہماری دانست میں اس شعر کا یہی مفہوم بنتا ہے۔
 

مزمل اختر

محفلین
چہرے کی کشش اور محبوب کے آتشی حسن کو آفتاب کی آب و تاب کے مثل ٹھہرایا گیا ہے جس کو نظر بھر کر دیکھنا مشکل ہے تاہم محبوب کے حُسن کی آب و تاب ایسی ہے کہ پلٹ کر دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہء کار بھی نہیں۔ ہماری دانست میں اس شعر کا یہی مفہوم بنتا ہے۔

جی بھائی بہت بہت شکریہ بالکل سمجھ آگیا شعر ہمیشہ خوش رہے :best:
 

فرقان احمد

محفلین
چاند محراب پہ سوئی ہوئی اک آیت ہے
بے وضو آنکھیں ہیں پڑھتے ہوئے ڈر لگتا ہے
ہماری دانست میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح مسجد کے محراب پر کوئی آیت کندہ ہوتی ہے، جو کہ نصف یا چوتھائی دائروی صورت میں، چاند کے مثل ہوتی ہے اور سوئی ہوئی آنکھ سے مشابہ بھی ہوتی ہے اس لیے چاند کو محراب پر سوئی ہوئی آیت سے تشبیہ دی گئی ہے اور دوسرا مصرع تو خیر واضح ہے کہ مسجد میں عموماََ باوضو ہی جایا جاتا ہے۔۔۔!
 

فرقان احمد

محفلین
سحر گہہ‌ عید میں دور سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا
ہماری دانست میں اس کا سادہ مفہوم یہ ہے:
عید کے روز عام طور پر سویرے سویرے دورِ جام چلتا تھا، تاہم شاعر کو اس میں کچھ لطف نہ آیا کیونکہ شاعر کے پیالے میں شراب کی بجائے لہو تھا جو کہ عاشق نامراد کے ارمانوں وغیرہ کا ہی ہو سکتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہماری دانست میں اس کا سادہ مفہوم یہ ہے:
عید کے روز عام طور پر سویرے سویرے دورِ جام چلتا تھا، تاہم شاعر کو اس میں کچھ لطف نہ آیا کیونکہ شاعر کے پیالے میں شراب کی بجائے لہو تھا جو کہ عاشق نامراد کے ارمانوں وغیرہ کا ہی ہو سکتا ہے۔
اس میں آپ نے "تجھ بن" کو اہمیت نہیں دی جو شعر کی بنیاد تھا۔ یعنی عید کے دن ہمیشہ جشن ہوا کرتا ہے مگر شاعر کے پیالے میں اس کے محبوب کی دوری سے لہو تھا ۔ مطلب یہ کہ شاعر کی عید محبوب کے بنا گزر رہی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس میں آپ نے "تجھ بن" کو اہمیت نہیں دی جو شعر کی بنیاد تھا۔ یعنی عید کے دن ہمیشہ جشن ہوا کرتا ہے مگر شاعر کے پیالے میں اس کے محبوب کی دوری سے لہو تھا ۔ مطلب یہ کہ شاعر کی عید محبوب کے بنا گزر رہی ہے۔
ذہن میں تو مفہوم واضح تھا؛ شاید وضاحت کرنے میں بھول ہوئی؛ بہت شکریہ! :)
 
اس شعر کی تشریح درکار ہے۔ اگر احباب تھوڑی سے مدد فرما دیں

جنھیں خبر تھی کہ شرطِ نوا گری کیا ہے
وہ خوش نوا گلۂ قید و بند کیا کرتے
فیض احمد فیض​
 

فاخر رضا

محفلین
اس شعر کی تشریح درکار ہے۔ اگر احباب تھوڑی سے مدد فرما دیں

جنھیں خبر تھی کہ شرطِ نوا گری کیا ہے
وہ خوش نوا گلۂ قید و بند کیا کرتے
فیض احمد فیض​
ایک تو یہ کہ نوا گروں کو اگلے مصرعے میں خوش نوا کہا گیا ہے
شاعر ان لوگوں کو جواب دے رہا ہے جو انقلابیوں کو ہنستے ہوئے سولی پر چڑھتے دیکھ رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ یہ سولی پر چڑھتے ہوئے چیخم پکار کیوں نہیں کررہے. شاعر کہ رہا ہے کہ یہ سکون اس لئے ہے کہ انہیں اپنا انجام پہلے سے پتہ تھا
 
Top