"دسمبر" کے حوالے سے کوئی شعر ۔ ۔ ۔ ۔

قیصرانی

لائبریرین
دسمبر اب کے جانا مت
کوئی کرنا بہانہ مت

وہی باتیں، وہی یادیں
جگا کے پھر سلانا مت

مرے آنسو، مرا کاجل
بچھڑ کے اب چرانا مت

بڑی مشکل سے سنبھلے ہیں
ہمیں پھر سے رلانا مت

اگر جانا ہی ٹھہرا ہے
کسی کو یہ بتانا مت

کہ تجھ بن ہم ادھورے ہیں
اسے جا کر سنانا مت

دسمبر اب کے جاؤ تو
کبھی پھر لوٹ آنا مت

دکھوں کو اوڑھ سوئیں گے
ہمیں پھر سے جگانا مت

فقط اتنی گزارش ہے
دسمبر پھر سے آنا مت

دسمبر اب کے جانا مت
فکر نہ کریں۔ یہی حال رہا تو دسمبر شاید اگلے سال کے آغاز تک نہیں جائے گا کہیں بھی
 
دسمبر اور یادیں

کسی سر سبز وادی میں
کسی خوش رنگ جگنو کو
کبھی اُڑتے ہوئے دیکھوں

“مجھے تم یاد آتے ہو“

خوابوں میں، سوالوں میں
محبّت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتی ہوں
تمہیں واپس بلاتی ہوں
یوں خود کو آزماتی ہوں
کوئی جب نظم لکھتی ہوں
اُسے عنوان دیتی ہوں

“مجھے تم یاد آتے ہو“

کبھی باہر نکلتی ہوں
کسی رستے پہ چلتی ہوں
کہیں دو دوستوں کو کھلکھلاتے،
مسکراتے دیکھہ لیتی ہوں
کسی کو گنگناتے دیکھہ لیتی ہوں
تو پھر ۔ ۔ ۔
میری رفاقت کے اوّل و آخر

“مجھے تم یاد آتے ہو“

دسمبر میں جو موسم کا مزہ لینے کو جی چاہے
کوئی پیاری سہیلی فون پر بولے
بڑا ہی مست موسم ہے
چلو باہر نکلتے ہیں
چلو بوندوں سے کھیلیں گے
چلو بارش میں بھیگیں گے
تو اُس لمحے
تمہاری یاد ہولے سے
کوئی سرگوشی کرتی ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ گرتے ہیں
میں آنکھوں کو جھکاتی ہوں
بظاہر مسکراتی ہوں
فقط اتنا ہی کہتی ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو

مجھے تم یاد آتے ہو
 
چاندنی دسمبر کی


رات اُس نے پوچھا تھا
تم کو کیسی لگتی ہے
چاندنی دسمبر کی
میں نے کہنا چاہا تھا
سال و ماہ کے بارے میں
گفتگو کے کیا معنی ؟
چاہے کوئی منظر ہو
دشت ہو، سمندر ہو
جون ہو، دسمبر ہو
دھڑکنوں کا ہر نغمہ
منظروں پہ بھاری ہے
ساتھہ جب تمہارا ہو
دل کو اک سہارا ہو
ایسا لگتا ہے جیسے
اک نشہ سا طاری ہو
لیکن اُس کی قربت میں
کچھہ نہیں کہا میں نے
تکتی رہ گئی مجھہ کو
چاندنی دسمبر کی
 
دسمبر میں چلے آؤ۔ ۔ ۔


قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے
جسم بے جان ہو جائے
تمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں
بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہوجائے
برسوں کی ریاضت سے
جو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے
تمہارے نام کی تسبیح بھلادیں دھڑکنیں میری
یہ دل نادان ہو جائے
تیری چاہت کی خوشبو سے بسا آنگن جو دل کا ہے
وہ پھر ویران ہوجائے
قریب المرگ ہونے کا کوئی سامان ہوجائے
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں
شراروں کی طرح بن کر، میرا دامن جلا ڈالیں
بہت ممکن ہے
پھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے
ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں۔ ۔ ۔
کہ تیری یاد بھی کہیں آہ بن کر نکل جائے
موسمِ دل بدل جائے ۔ ۔ ۔
یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے
!قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے تم کو یہ آواز دیتے ہیں
کہ تم ملنے چلے آؤ
دسمبر میں چلے آؤ
 

ماہی کا میر

محفلین
آخری چند دن دسمبر کےہر برس ہی گراں گزرتے ہیںخواہشوں کے نگار خانے میںکیسے کیسے گماں گزرتے ہیںرفتگاں کےبکھرتے سالوں کیایک محفل سی دل میں سجتی ہےفون کی ڈائری کے صفحوں سےکتنے نمبر پکارتے ہیں مجھےجن سے مربوط بے نوا گھنٹیاب فقط میرے دل میں بجتی ہےکس قدر پیارے پیارے ناموں پررینگتی بدنما لکیریں سیمیری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیںدوریاں دائرے بناتی ہیںدھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکسمشعلیں درد کی جلاتے ہیںایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیںحادثے کے مقام پر جیسےخون کے سوکھے نشانوں پرچاک کی لائنیں لگاتے ہیںہر دسمبر کے آخری دن میںہر برس کی طرح اب بھیڈائری ایک سوال کرتی ہےکیا خبر اس برس کے آخر تکمیرے ان بے چراغ صفحوں سےکتنے ہی نام کٹ گئے ہونگےکتنے نمبر بکھر کے رستوں میںگرد ماضی سے اٹ گئے ہونگےخاک کی ڈھیریوں کے دامن میںکتنے طوفان سمٹ گئے ہونگےہردسمبر میں سوچتا ہوں میںایک دن اس طرح بھی ہونا ہےرنگ کو روشنی میں کھونا ہےاپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئیڈائری ،دوست دیکھتے ہونگےان کی آنکھوں کے خاکدانوں میںایک صحرا سا پھیلتا ہوگااور کچھ بے نشاں صفحوں سےنام میرا بھیکٹ گیا ہوگا
 
آخری چند دن دسمبر کےہر برس ہی گراں گزرتے ہیںخواہشوں کے نگار خانے میںکیسے کیسے گماں گزرتے ہیںرفتگاں کےبکھرتے سالوں کیایک محفل سی دل میں سجتی ہےفون کی ڈائری کے صفحوں سےکتنے نمبر پکارتے ہیں مجھےجن سے مربوط بے نوا گھنٹیاب فقط میرے دل میں بجتی ہےکس قدر پیارے پیارے ناموں پررینگتی بدنما لکیریں سیمیری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیںدوریاں دائرے بناتی ہیںدھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکسمشعلیں درد کی جلاتے ہیںایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیںحادثے کے مقام پر جیسےخون کے سوکھے نشانوں پرچاک کی لائنیں لگاتے ہیںہر دسمبر کے آخری دن میںہر برس کی طرح اب بھیڈائری ایک سوال کرتی ہےکیا خبر اس برس کے آخر تکمیرے ان بے چراغ صفحوں سےکتنے ہی نام کٹ گئے ہونگےکتنے نمبر بکھر کے رستوں میںگرد ماضی سے اٹ گئے ہونگےخاک کی ڈھیریوں کے دامن میںکتنے طوفان سمٹ گئے ہونگےہردسمبر میں سوچتا ہوں میںایک دن اس طرح بھی ہونا ہےرنگ کو روشنی میں کھونا ہےاپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئیڈائری ،دوست دیکھتے ہونگےان کی آنکھوں کے خاکدانوں میںایک صحرا سا پھیلتا ہوگااور کچھ بے نشاں صفحوں سےنام میرا بھیکٹ گیا ہوگا

آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کےبکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہوگا

براہ کرم جان لیجئے کہ یہ تحریر نہ میری ہے نہ اس پر کوئی دعویٰ ہے البتہ اقتباس والے صاحب سے گذارش ہے کہ اردو نثری تحریر کا حلیہ درست کر کے لکھا کریں۔ اچھی کاوش بھی برباد ہو جاتی ہے اگر تحریر میں خیال نہ رکھا جائے تو

گذارش کافی لیٹ ہو گئی ہے
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
(سچے عاشقوں سے معذرت کے ساتھ :laughing::laughing::laughing:)

کلامِ دسمبر کی ایسی کی تیسی
اور اس کے سخن ور کی ایسی کی تیسی

دوبارہ یہ چخ چخ اگر میں نے سن لی
تو قندِ مکرر کی ایسی کی تیسی

اسی ماہ محبوبہ بھاگی سبھی کی
تمھارے مقدر کی ایسی کی تیسی

محرم میں کرنا جو کرنا ہے ماتم
محرم سے باہر کی ایسی کی تیسی

ق

دعا ہے بدل جائے محور زمیں کا
اس اب والے محور کی ایسی کی تیسی

ہر اک سال راحیلؔ اپریل دو ہوں
دسمبر کے چکر کے ایسی کی تیسی

راحیلؔ فاروق
۷ دسمبر ۲۰۱۶ء
 
بس ﺍﮎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺗﮭﺎ
ﺑﺮﻑ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﮎ ﺍﮎ ﻓﺮﺩ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺗﮭﺎ
ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺗﮭﮯ
ﺍﮎ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﮎ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮎ ﺑﮯﺩﺭﺩ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺗﮭﺎ
ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﻤﺖ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﺗﮭﯽ
ﮬﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻧﯿﻠﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻼ ﺫﺭﺩ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺗﮭﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ ﺳﮑﺘﮧ ﻃﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮩﻤﯽ ﺳﮩﻤﯽ ﺗﮭﯽ
ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺗﮭﺎ ﮔﻠﺸﻦ ﺳﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺗﮭﺎ
ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺩﯼ
ﺍﺗﻨﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﺘﺎﺅ ﺗﻢ ، ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺪﺭﺩ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺗﮭﺎ
 

سحرش سحر

محفلین
(سچے عاشقوں سے معذرت کے ساتھ)
کلامِ دسمبر کی ایسی کی تیسی
اور اس کے سخن ور کی ایسی کی تیسی

دوبارہ یہ چخ چخ اگر میں نے سن لی
تو قندِ مکرر کی ایسی کی تیسی

اسی ماہ محبوبہ بھاگی سبھی کی
تمھارے مقدر کی ایسی کی تیسی

محرم میں کرنا جو کرنا ہے ماتم
محرم سے باہر کی ایسی کی تیسی

ق

دعا ہے بدل جائے محور زمیں کا
اس اب والے محور کی ایسی کی تیسی

ہر اک سال راحیلؔ اپریل دو ہوں
دسمبر کے چکر کے ایسی کی تیسی

راحیلؔ فاروق
۷ دسمبر ۲۰۱۶ء
 

جاسمن

لائبریرین
(سچے عاشقوں سے معذرت کے ساتھ)
کلامِ دسمبر کی ایسی کی تیسی
اور اس کے سخن ور کی ایسی کی تیسی

دوبارہ یہ چخ چخ اگر میں نے سن لی
تو قندِ مکرر کی ایسی کی تیسی

اسی ماہ محبوبہ بھاگی سبھی کی
تمھارے مقدر کی ایسی کی تیسی

محرم میں کرنا جو کرنا ہے ماتم
محرم سے باہر کی ایسی کی تیسی

ق

دعا ہے بدل جائے محور زمیں کا
اس اب والے محور کی ایسی کی تیسی

ہر اک سال راحیلؔ اپریل دو ہوں
دسمبر کے چکر کے ایسی کی تیسی

راحیلؔ فاروق
۷ دسمبر ۲۰۱۶ء

ذرا تھوڑا سا اوپر دیکھیں تو اسی صفحہ پہ فہد اشرف نے یہی نظم شریک کی ہے۔:)
 
مرا بوسیدہ گیزر ٹھیک کرنے
مرے گھر میں پلمبر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے

بنا ہے میرے گھر گاجر کا حلوہ
یہ سن کر پورا ٹبّر آ گیا ہے
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
 

اکمل زیدی

محفلین
دیکھنا دسمبر ہو تو آپ چلے آئیے
سرد سرد موسم ہے دل کے سرد خانے کا

آپ جب پائے کا وعدہ فرمائینگے
ہم دسمبر کیا کبھی بھی چلے آئنگے

دسمبر کیا کبھی کا بھی رکھ لیں ۔ ۔ ۔ :rolleyes:
محفلینِ کراچی - دوسری ملاقات-( بخیر انجام پذیر) 24 نومبر ،بروز ہفتہ، 2018
 
Top