ریڑھ کی ہڈی کا خم۔ ایکسر سائز کی جائے یا بیلٹ کا استعمال، یا پھر سرجری؟

یہاں لاہور کے سی ایم ایچ
اور
یہاں راولپنڈی کے سی ایم ایچ
پت تبصرہ جات سویلینز کے لیے خاصے حوصلہ شکن ہیں۔ لاور کا تو بہت ہی برا حال بتایا پے۔
میں آپ کو اپنا تجربہ بتا رہا ہوں۔ اور آرتھوپیڈک سرجری کے لیے سی ایم ایچ راولپنڈی کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ دوسرا اہم ادارہ بھی آرمی کا ہی ہے، جس کا ذکر فرحت آپی نے کیا
اے ایف آئی آر ایم

خاص طور پر مذکورہ دو سرجنز پاکستان کے ٹاپ سرجنز میں سے ہیں۔
میں خود ڈاکٹر سہیل امین کا مریض رہا ہوں۔
ریڑھ کی ہڈی کے لیے ڈاکٹر اسد قریشی بہت مانے ہوئے سرجن ہیں۔
لوگوں کے ریویوز اتنی اہمیت کے حامل اس لیے نہیں ہوتے کہ عموماً اچھے تجربہ والے لوگ ریویوز دیتے ہی نہیں، کسی کا تجربہ خواہ اپنی وجہ سے بھی برا کیوں نہ ہوا ہو، وہ ضرورخراب ریویو دیتا ہے۔ ریٹنگ بہرحال یہاں بھی اچھی ہے۔
کبھی کسی رویہ کی خرابی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ ڈاکٹر سہیل امین کے بارے میں اگر یہ کہوں کہ آج تک جتنے ڈاکٹرز سے پالا پڑا ہے، ان جیسا خوش اخلاق اور دھیمے مزاج والا ڈاکٹر کم ہی دیکھنے کو ملا، تو یہ مبالغہ نہیں۔ :)
 
میں آپ کو اپنا تجربہ بتا رہا ہوں۔ اور آرتھوپیڈک سرجری کے لیے سی ایم ایچ راولپنڈی کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ دوسرا اہم ادارہ بھی آرمی کا ہی ہے، جس کا ذکر فرحت آپی نے کیا
اے ایف آئی آر ایم

خاص طور پر مذکورہ دو سرجنز پاکستان کے ٹاپ سرجنز میں سے ہیں۔
میں خود ڈاکٹر سہیل امین کا مریض رہا ہوں۔
ریڑھ کی ہڈی کے لیے ڈاکٹر اسد قریشی بہت مانے ہوئے سرجن ہیں۔
لوگوں کے ریویوز اتنی اہمیت کے حامل اس لیے نہیں ہوتے کہ عموماً اچھے تجربہ والے لوگ ریویوز دیتے ہی نہیں، کسی کا تجربہ خواہ اپنی وجہ سے بھی برا کیوں نہ ہوا ہو، وہ ضرورخراب ریویو دیتا ہے۔ ریٹنگ بہرحال یہاں بھی اچھی ہے۔
کبھی کسی رویہ کی خرابی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ ڈاکٹر سہیل امین کے بارے میں اگر یہ کہوں کہ آج تک جتنے ڈاکٹرز سے پالا پڑا ہے، ان جیسا خوش اخلاق اور دھیمے مزاج والا ڈاکٹر کم ہی دیکھنے کو ملا، تو یہ مبالغہ نہیں۔ :)
بہت ہی خوش آیند بات ہے تابش بھائی
 
محمد تابش صدیقی بھائی
یہاں پر سہیل امین صاحب کا وقت 6 سے 9 جبکہ اسد قریشی صاحب کا وقت 4 سے 7 دیا گیا ہے۔ مزید بھی وقت کنفرم کرلوں گا۔
تو ان کے مقررہ وقت سے کتنے گھنٹے پہلے پہنچنا چاہیے؟ رش کی کیا صورتحال ہوتی ہے؟
پرانا معلوم ہوتا ہے۔
وقت سے گھنٹہ پہلے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عبید انصاری بھائی ، آپ کے بیٹے کی علالت کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اسے شفائے کاملہ عطا فرمائے ۔ اسے ایک طویل اور صحتمند اور اپنی رضا والی زندگی عطا فرمائے ۔ بے شک بچوں کی بیماری والدین کے لئے ایک بڑی آزمائش ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے آسانیاں عطا فرمائے ۔ مجھے خوشی ہوتی اگر میں آپ کی کوئی مدد کرسکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریض کو دیکھے بغیرعلاج کے بارے میں کسی بھی قسم کا طبی مشورہ دینا سیف نہیں ہے ۔ تفصیلات اور جزئیات جانے بغیر درست تشخیص ممکن نہیں اور درست تشخیص کے بغیردرست علاج محال ہے ۔ نہ صرف یہ کہ مریض کی مکمل ہسٹری اور معائنہ ضروری ہے بلکہ اکثر اوقات ایکسرے اور خون ٹیسٹ وغیرہ کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ایک ہی مرض کا علاج مختلف مریضوں میں مختلف طریقے سے کیا جاسکتا ہے ۔ ایک ہی بیماری کے ایک سے زیادہ علاج موجود ہو سکتے ہیں ۔ ایسی صورت میں کیس کی تفصیلات اور جزئیات کو دیکھتے ہوئے ان میں سے بہتر علاج منتخب کیا جاتا ہے ۔ میں اس بارے میں تو آپ کو کوئی رائے نہیں دے سکتا کہ بچے کی ریڑھ کی ہڈی کی سرجری کروانی چاہئے یا نہیں ۔ لیکن سرجری کے بارے میں ایک بنیادی سا اصول بتادیتا ہوں ۔ کسی بھی سرجری سے پہلے سرجن سے یہ پوچھنا چاہئے کہ سرجری کروانے کی صورت میں مریض کو کیا فائدہ ہوگا اور نہ کروانے کی صورت میں کیا نقصان ہوسکتا ہے ۔ نیز یہ کہ سرجری کے کامیاب ہونے اور ناکام ہونے کے کیا امکانات ہیں ۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ خاطر خواہ جواب دینے سے معذور ہوں ۔ امید ہے آپ برا نہ مانیں گے ۔ بحیثیت ایک والد کے میں آپ کی کیفیات کو سمجھ سکتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور بچے کی تمام پریشانیاں دور فرمائے اور اپنی رحمتوں سے نوازے ۔ آمین ۔
آخر میں ایک بات اور عرض کرتا چلوں ۔ جوعلامات آپ نے بچے کے بارے میں لکھی ہیں انہیں پڑھ کر مجھے پچانوے فیصد سے زیادہ یقین ہے کہ آپ کے بچے کو ایک پیدائشی بیماری ہے جس کا نام Ehlers-Danlos Syndrome یا EDS ہے ۔ یہ بیماری تقریبا ہر پانچ ہزار بچوں میں سے ایک کو ہوتی ہے ۔ اس بیماری کی پانچ چھ اقسام ہیں اورآپ کے بچے کو Arthrochalasia قسم کا EDS لگتا ہے ۔ پاکستان کے بارے میں تو معلوم نہیں لیکن بدقسمتی سے امریکا میں بھی یہ بیماری بہت مشکل سے اور بہت دیر میں تشخیص ہوتی ہے ۔ چونکہ بہت شاذ بیماری ہے اس لئے اکثر ڈاکٹروں کا دھیان اس طرف نہیں جاتا ۔ میری اسپیشلٹی یا تخصص ایسی ہی بیماریوں کے بارے میں ہے اس لئے ایسے مریض میری نظروں سے گزرتے رہتے ہیں ۔ اگر ابھی تک آپ کے بچے کی بیماری کی کوئی تشخیص نہیں ہوسکی ہے تو سرجری سے پہلے بہتر ہے کہ بچوں کے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھالیں ۔

آخر میں پھر عرض کروں گا کہ صرف چند علامات کا ذکر کرکے درست علاج کے بارے میں مشورہ دینا نہ صرف ممکن نہیں بلکہ خطرے سے خالی بھی نہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان ہے جس کا مطلب کچھ اس طرح کا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کی بیماری کا بغیر علم اور جانکاری کے علاج کیا اور وہ مریض کی ہلاکت کا سبب بنا تو معالج بمثل قاتل ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور اپنی رحمتوں سے نوازے ۔
 
عبید انصاری بھائی ، آپ کے بیٹے کی علالت کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اسے شفائے کاملہ عطا فرمائے ۔ اسے ایک طویل اور صحتمند اور اپنی رضا والی زندگی عطا فرمائے ۔ بے شک بچوں کی بیماری والدین کے لئے ایک بڑی آزمائش ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے آسانیاں عطا فرمائے ۔ مجھے خوشی ہوتی اگر میں آپ کی کوئی مدد کرسکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریض کو دیکھے بغیرعلاج کے بارے میں کسی بھی قسم کا طبی مشورہ دینا سیف نہیں ہے ۔ تفصیلات اور جزئیات جانے بغیر درست تشخیص ممکن نہیں اور درست تشخیص کے بغیردرست علاج محال ہے ۔ نہ صرف یہ کہ مریض کی مکمل ہسٹری اور معائنہ ضروری ہے بلکہ اکثر اوقات ایکسرے اور خون ٹیسٹ وغیرہ کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ایک ہی مرض کا علاج مختلف مریضوں میں مختلف طریقے سے کیا جاسکتا ہے ۔ ایک ہی بیماری کے ایک سے زیادہ علاج موجود ہو سکتے ہیں ۔ ایسی صورت میں کیس کی تفصیلات اور جزئیات کو دیکھتے ہوئے ان میں سے بہتر علاج منتخب کیا جاتا ہے ۔ میں اس بارے میں تو آپ کو کوئی رائے نہیں دے سکتا کہ بچے کی ریڑھ کی ہڈی کی سرجری کروانی چاہئے یا نہیں ۔ لیکن سرجری کے بارے میں ایک بنیادی سا اصول بتادیتا ہوں ۔ کسی بھی سرجری سے پہلے سرجن سے یہ پوچھنا چاہئے کہ سرجری کروانے کی صورت میں مریض کو کیا فائدہ ہوگا اور نہ کروانے کی صورت میں کیا نقصان ہوسکتا ہے ۔ نیز یہ کہ سرجری کے کامیاب ہونے اور ناکام ہونے کے کیا امکانات ہیں ۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ خاطر خواہ جواب دینے سے معذور ہوں ۔ امید ہے آپ برا نہ مانیں گے ۔ بحیثیت ایک والد کے میں آپ کی کیفیات کو سمجھ سکتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور بچے کی تمام پریشانیاں دور فرمائے اور اپنی رحمتوں سے نوازے ۔ آمین ۔
آخر میں ایک بات اور عرض کرتا چلوں ۔ جوعلامات آپ نے بچے کے بارے میں لکھی ہیں انہیں پڑھ کر مجھے پچانوے فیصد سے زیادہ یقین ہے کہ آپ کے بچے کو ایک پیدائشی بیماری ہے جس کا نام Ehlers-Danlos Syndrome یا EDS ہے ۔ یہ بیماری تقریبا ہر پانچ ہزار بچوں میں سے ایک کو ہوتی ہے ۔ اس بیماری کی پانچ چھ اقسام ہیں اورآپ کے بچے کو Arthrochalasia قسم کا EDS لگتا ہے ۔ پاکستان کے بارے میں تو معلوم نہیں لیکن بدقسمتی سے امریکا میں بھی یہ بیماری بہت مشکل سے اور بہت دیر میں تشخیص ہوتی ہے ۔ چونکہ بہت شاذ بیماری ہے اس لئے اکثر ڈاکٹروں کا دھیان اس طرف نہیں جاتا ۔ میری اسپیشلٹی یا تخصص ایسی ہی بیماریوں کے بارے میں ہے اس لئے ایسے مریض میری نظروں سے گزرتے رہتے ہیں ۔ اگر ابھی تک آپ کے بچے کی بیماری کی کوئی تشخیص نہیں ہوسکی ہے تو سرجری سے پہلے بہتر ہے کہ بچوں کے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھالیں ۔

آخر میں پھر عرض کروں گا کہ صرف چند علامات کا ذکر کرکے درست علاج کے بارے میں مشورہ دینا نہ صرف ممکن نہیں بلکہ خطرے سے خالی بھی نہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان ہے جس کا مطلب کچھ اس طرح کا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کی بیماری کا بغیر علم اور جانکاری کے علاج کیا اور وہ مریض کی ہلاکت کا سبب بنا تو معالج بمثل قاتل ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور اپنی رحمتوں سے نوازے ۔
آپ کے اتنے تفصیلی کمنٹ پر بے انتہاء خوشی ہوئی۔ اللہ کریم آپ کو جزا دے۔ یقین کریں کہ میں تو ڈر رہا تھا کہ آپ کو خواہ مخواہ ڈسٹرب نہ کردیا ہو۔ ان شاء اللہ جلد ہی ارادہ ہے سی ایم ایچ جانے کا، پھر ڈاکٹر صاحبان سے جو بات ہوگی آپ حضرات سے بھی شئیر کروں گا۔ امید ہے آپ ایسے ہی قیمتی آراء سے نوازتے رہیں گے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کے اتنے تفصیلی کمنٹ پر بے انتہاء خوشی ہوئی۔ اللہ کریم آپ کو جزا دے۔ یقین کریں کہ میں تو ڈر رہا تھا کہ آپ کو خواہ مخواہ ڈسٹرب نہ کردیا ہو۔ ان شاء اللہ جلد ہی ارادہ ہے سی ایم ایچ جانے کا، پھر ڈاکٹر صاحبان سے جو بات ہوگی آپ حضرات سے بھی شئیر کروں گا۔ امید ہے آپ ایسے ہی قیمتی آراء سے نوازتے رہیں گے۔
عبید بھائی ایسی کوئی بات نہیں ۔ آپ نے بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کیا ۔ دھاگے کا عنوان پڑھ کر اس طرف متوجہ ہوا اور پڑھا ۔ پھر آپ کی پریشانی دیکھی تو مناسب لگا کہ آپ کو مشورہ دیدیا جائے ۔ بہتر ہے کہ پہلے درست تشخیص کی طرف توجہ دیں ۔ مرض کو پوری طرح جانے بغیر سرجری نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے ۔

ایک بہت ضروری اور اہم بات جو میں لکھنا بھول گیا وہ یہ کہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے تعلقِ قلبی اور حضوری کے ساتھ دو رکعتیں بارگاہِ رب میں ادا کیجئے اور ہاتھ اٹھا کر دعائے استخارہ مانگئے ۔ اللہ رحیم و کریم آسانیاں پیدا کرے گا اور آپ کے بچے کےلئے بہترین راہیں کھول دے گا۔ آمین ۔
 
آخری تدوین:
آخر میں ایک بات اور عرض کرتا چلوں ۔ جوعلامات آپ نے بچے کے بارے میں لکھی ہیں انہیں پڑھ کر مجھے پچانوے فیصد سے زیادہ یقین ہے کہ آپ کے بچے کو ایک پیدائشی بیماری ہے جس کا نام Ehlers-Danlos Syndrome یا EDS ہے ۔ یہ بیماری تقریبا ہر پانچ ہزار بچوں میں سے ایک کو ہوتی ہے ۔ اس بیماری کی پانچ چھ اقسام ہیں اورآپ کے بچے کو Arthrochalasia قسم کا EDS لگتا ہے ۔ پاکستان کے بارے میں تو معلوم نہیں لیکن بدقسمتی سے امریکا میں بھی یہ بیماری بہت مشکل سے اور بہت دیر میں تشخیص ہوتی ہے ۔ چونکہ بہت شاذ بیماری ہے اس لئے اکثر ڈاکٹروں کا دھیان اس طرف نہیں جاتا ۔ میری اسپیشلٹی یا تخصص ایسی ہی بیماریوں کے بارے میں ہے اس لئے ایسے مریض میری نظروں سے گزرتے رہتے ہیں ۔ اگر ابھی تک آپ کے بچے کی بیماری کی کوئی تشخیص نہیں ہوسکی ہے تو سرجری سے پہلے بہتر ہے کہ بچوں کے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھالیں ۔
آج ایک دوست کے توسط سے گوجرانوالہ ہی کے ایک چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر صاحب کا علم ہوا۔ کافی زیرک ڈاکٹر معلوم پڑتے ہیں۔ ان کو بچے کا چیک اپ کروایا تو انہوں نے EDS ہی تشخیص کیا ہے۔ اور اس کا ٹائپArthrochalasia تو نہیں البتہ kyphoscoliotic بتایا ہے۔
علاج کے سلسلے میں انہوں نے بتایا ہے کہ اس کا کوئی specific علاج تو نہیں البتہ ہم سب سے پہلے اس کے خون اور کیلشیم کی کمی کا علاج کریں گے۔
اس کے لیے انہوں نے درج ذیل سیرپ اور ڈراپس تجویز کیے ہیں:
CALIX
SANGOBION
DROP-M

کمر کے لیے گھرکی ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر عامر عزیز صاحب کے پاس جانے اور کمر کے لیے ممکنہ صورت میں راڈز وغیرہ ڈلوانے کا مشورہ دیا ہے۔

ان کی اس بات سے میں فکرمند ہوا کہ "اس کا کوئی specificعلاج نہیں ہے۔"
اللہ تعالیٰ آسانی فرمائے۔ آمین
لاہور جلد ہی جانے کا ارادہ ہے۔ ان شاءاللہ
ظہیراحمدظہیر بھائی۔
 
آخری تدوین:
آج اور کل کے دن بیٹے کے علاج کے نام ہوئے۔
لاہور گھرکی ہسپتال جاکر بچے کی کمر کا چیک اپ کروایا۔ سکولیوسس سیریس کے لیے سات مختلف انداز سے کمر کا تفصیلی ایکسرے ہوا۔ رپوٹ آنے پر آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر عبداللہ صاحب نے کہا کہ بچے کی کمر کے لیے پیٹی بنوائیں۔ بچے کی عمر چھ سال ہے، ہم اسے 10 سے 11 سال کی عمر تک دیکھیں گے۔ اگر پیٹی سے کمر میں بہتری آجاتی ہے تو بہتر، ورنہ آپریشن کیا جائے گا۔
پیٹی کے لیے سائز دیا۔ اور گھر کو روانہ ہوا۔ پرسوں تک انشاء اللہ پیٹی مل جائے گی۔
ہر چھ ماہ بعد معائنہ ہوگا۔
دعاؤں کی درخواست!
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ تعالی اسے صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔آسانیاں عطا فرمائے۔بچوں کی طرف سے نہ کوئی دکھائے ،نہ کسی آزمائش میں ڈالے۔آمین!ثم آمین!
 

الشفاء

لائبریرین
اللہ عزوجل آپ کے بیٹے کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔
ابتدائی عمر میں اس طرح کے مسائل عموماً مناسب علاج سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اللہ عزوجل سے عافیت کی امید رکھیں۔۔۔
 
Top