خورشید رضوی خورشید رضوی کی ایک غزل

نوید صادق

محفلین
میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں
کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ نہیں

ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے
پہنچ رہی ہے وہاں تک مری صدا کہ نہیں

زباں پہ کچھ نہ سہی، سن کے میرا حالِ تباہ
ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں

لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات
مگر وہ تیری نگاہوں کی التجا کہ نہیں

خود اپنا حال سناتے حجاب آتا ہے
ہے بزم میں کوئی دیرینہ آشنا کہ نہیں

ابھی کچھ اس سے بھی نازک مقام آئیں گے
کروں میں پھر سے کہانی کی ابتدا کہ نہیں

پڑو نہ عشق میں خورشید ہم نہ کہتے تھے
تمہیں بتاوء کہ جی کا زیاں ہوا کہ نہیں

شاعر: خورشید رضوی
 

فرخ منظور

لائبریرین
خورشید رضوی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پہلی دفعہ ان کا کوئی کلام پڑھا اچھا ہے

خورشید رضوی صاحب، گورنمنٹ کالج، لاہور کے شعبہ عربی کے استاد رہ چکے ہیں - انتہائی عالم آدمی ہیں اور اب رئٹائرڈ زنگی لاہور میں ہی گزار رہے ہیں - انکے پاس بہت نادر ادبی تحریریں بھی موجود ہیں -
 
Top