آج کی دلچسپ خبر!

فاخر رضا

محفلین
ڈاکٹر صاحب میں نے ان موضوعات پر مطالعہ بہت سال ہوئے چھوڑ رکھا ہے سو ریفرنس ڈھونڈنا تو شاید میرے لیے ممکن نہ ہو۔ ہاں یہاں کافی دوست ایسے ہیں جن کی اب بھی ان موضوعات پر گہری نظر ہوگی سو شاید وہ کچھ ارشاد فرمائیں۔ میرے خیال میں یہ ممانعت چوں چوں کا مربہ بننے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔
سلام
اگر آپ حج پر جائیں تو دیکھیں گے کہ پورا حج صرف کسی ایک کی فقہ کے مطابق کرنا کتنا مشکل ہے. تب علماء خود رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں. واپس آکر پھر الگ الگ ہوجاتے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ جس کے مقلد ہیں، ان کے علاوہ دیگر فقیہان کو درست نہ سمجھنا لازم ہے
شاید یہ مطلب نہیں ہے۔ اہلسنت کے چار آئمہ کے مقلدین کی، جہاں تک میرے علم میں ہے، اس میں رائے یہ ہے کہ درست چاروں کو سمجھتے ہیں لیکن اختلافی امور میں فالو صرف ان کو کرتے ہیں جن کے مقلد ہیں۔
 
ایسا نہیں ہے! فقہہ میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ مقلد ہیں اور کسی خاص امام کی تقلید کر رہے ہیں تو پھر ہر مسئلے میں اسی امام کی فقہہ کو فالو کرنا ہوگا، یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک مسئلہ آپ احناف سے لے لیں اور دوسرا حنابل سے یا تیسرا شوافع سے وغیرہ۔ گو مجھے بھی یہ دلکش لگتا ہے کہ ایک چیز ادھر سے لیں دوسری ادھر سے لیکن اس کی ممانعت کی گئی ہے۔
بہت اچھی بات کی آپ نے، ان مسائل میں ریاست کو اپنا کردار لازمی طور پر مثبت طریقے سے ادا کرنا چاہئے ۔ قانون ایسا بنایا جائے کہ جب عقد نکاح ہو اس وقت قانونی طور پر یہ اعلان کیا جائے اور کاغذات میں لکھا جائے کہ نکاح کسی فقہ کے مطابق ہوا کیونکہ پھر طلاق (اللہ نہ کرے ایسا ہو) بھی اسی فقہ کے مطابق ہوگی۔ طلاق کا معاملہ صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہوتا اس میں جائیداد اور وراثت کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر نکاح کے وقت ہی سب کچھ طے ہوجائے اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہو تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
الحمدللہ
اللہ نے روح کو پھر آج کی صبح ہمارے جسم کو واپس کیا،
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر۔
کچھ اچھے کام ہم سب مل کر آج کرلیتے ہیں جو انسانیت کی خدمت ہو۔ اللہ قبول کرے۔ آمین
 
کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ جس کے مقلد ہیں، ان کے علاوہ دیگر فقیہان کو درست نہ سمجھنا لازم ہے
ہر فقہ کا اصول ہے:
مذھبنا صواب یحتمل الخطا ومذھبھم خطا یحتمل الصواب
یعنی ہمارا مسلک (ہماری تحقیق میں) درست ہے لیکن اس میں خطا کا احتمال ہے اور ان کا (دوسری فقہ کا) مسلک خطا ہے لیکن اس میں درست ہونے کا احتمال ہے۔
یہ جملہ احترام رائے کی بہترین مثال ہے۔
اور یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ آج بھی درس وتدریس کے دوران ہمارے سامنے یہ اختلافات آتے ہیں لیکن اختلافات کا انداز آج کے اختلافات کی طرح نہیں۔ کہیں پڑھا تھا کہ ایک موقع پر امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے درمیان کسی مسئلہ پر عشاء کی نماز کے ںعد ایک طویل مباحثہ ہوا لیکن اس دوران ان میں سے کسی کی آواز تک بھی بلند نہیں ہوئی۔
 

فاخر رضا

محفلین
بہت اچھی بات کی آپ نے، ان مسائل میں ریاست کو اپنا کردار لازمی طور پر مثبت طریقے سے ادا کرنا چاہئے ۔ قانون ایسا بنایا جائے کہ جب عقد نکاح ہو اس وقت قانونی طور پر یہ اعلان کیا جائے اور کاغذات میں لکھا جائے کہ نکاح کسی فقہ کے مطابق ہوا کیونکہ پھر طلاق (اللہ نہ کرے ایسا ہو) بھی اسی فقہ کے مطابق ہوگی۔ طلاق کا معاملہ صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہوتا اس میں جائیداد اور وراثت کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر نکاح کے وقت ہی سب کچھ طے ہوجائے اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہو تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
میرے خیال میں اس طرح مسائل بڑھ جائیں گے. مختلف فقہ کے لوگوں کی شادیاں ہوتی ہیں. لوگ بعد میں بھی فقہ بدلتے ہیں اور کچھ میری طرح کسی کی بھی پیروی کو جنت میں جانے کا راستہ سمجھتے ہیں
 
میرے خیال میں اس طرح مسائل بڑھ جائیں گے. مختلف فقہ کے لوگوں کی شادیاں ہوتی ہیں. لوگ بعد میں بھی فقہ بدلتے ہیں اور کچھ میری طرح کسی کی بھی پیروی کو جنت میں جانے کا راستہ سمجھتے ہیں
بڑھیں گے نہیں کم ہونگے بلکہ پیچیدگیوں سے بچت ہوگی عقد نکاح کے وقت سب کچھ طے کر کے اس کو قانونی تحفظ ملنا چاہئے مصر میں عوام کی اکثریت شافعی فقہ سے تعلق رکھتی ہے مگر وہاں عقد نکاح فقہ حنفی کے مطابق ہوتا ہے اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ فرض کریں فقہ حنفی سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے مابین عقد ہوا چند برس بعد مرد نے بیوی کو تین طلاق ایک ہی مجلس میں دے دی اور بعد میں فوت ہو گیا ۔ پھر بیوی کسی دوسرے فقہ کے مفتی کے پاس سے فتوی لے آئی کہ میری طلاق مکمل یا سرے سے ہی (کیونکہ شوہر نے غصے میں طلاق دی تھی) نہیں ہوئی تھی اس لئے مجھے جائداد میں سے آٹھواں حصہ چاہئے۔ مرد کی اولاد کا دعوی کہنا ہو کہ طلاق ہوگئی تھی سابقہ بیوی کا جائیداد میں حصہ نہیں بنتا۔
اگر نکاح کے وقت ہی سب کچھ طے کر لیا جائے تو ان پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
 
خون کی کمی ایسے پوری ہوگی کہ جیسے کبھی ہوئی ہی نہ ہو۔۔! بس یہ پھل استعمال کریں۔
screenshot_57.png
آلو بخارا مشہور پھل ہے اسے پکانے اور سکھانے کے بعد بھی کھایا جاتا ہے۔ آلو بخارا کو انگریزی میں Pruneکہتے ہیں۔ یہ طبی اہمیت کا حامل پھل ہے۔ بخار اور بیماری کے بعد ذائقہ کو تبدیل کرنے کیلئے آلو بخاراکا استعمال عام ہوگیا ہے۔ مغربی ممالک میں اس کی ڈشزبنائی جاتی ہیں جو ذائقہ دار ہوتی ہیں ۔ آلو بخارا کو ہندو پاک میں اسے زیادہ تر دوائی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پھل میں چکنائی، پروٹین ، وٹامنس اے، بی، سی،کے اور ای پائے جاتے ہیں علاوہ ازیں کیلشیم ،آئرن ،پوٹاشیم ،سوڈیم اور میگنیشم بکثرت پائے جاتے ہیں۔ براون اور بلیک رنگ کے بیضوی شکل کا یہ پھل اینٹی آکسیڈنٹ کا حامل ہے یہ کینسر کے امکان کو ختم کرتا ہے۔ یہ جسمانی اور دماغی صحت کیلئے بھی بہتر ہے۔ یہ کولیسٹرال کی شرح کو کم کرتا ہے اور جگر کی صحت کیلئے اکسیر مانا جاتا ہے۔ اس میں پوٹاشیم کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔ اس لئے بی پی کو کنٹرول بھی کرتا ہے۔ رگوں اور ہڈیوں کے امراض میں مفید مانا گیا ہے۔ بدہضی، قبض کی شکایت میں آلو بخار کا استعمال کرایا جاتا ہے جس کے حیرت انگریز نتائج برآمد ہوئے ہیں اس کا شربت، گرمی کے دانوں میں توانائی فراہم کرتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق آلو بخارے کے استعمال سے خون کی کمی کی شکایت کافور ہوجاتی ہے اور یہ چھاتی کے کینسر سے بچاؤ میں معاون ہے۔ شوگر کے مریض بھی اسے ہچکچاہٹ کے بغیر کھا سکتے ہیں۔ آلو بخارے کا استعمال بالوں،جلد اور بینائی کیلئے بھی مفید ہے۔ گرمیوں میں آلو بخارے کا
شربت نہ صرف تازہ دم کرتا ہے بلکہ توانائی بھی پہنچاتا ہے۔
 
اگر آپ حج پر جائیں تو دیکھیں گے کہ پورا حج صرف کسی ایک کی فقہ کے مطابق کرنا کتنا مشکل ہے. تب علماء خود رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں. واپس آکر پھر الگ الگ ہوجاتے ہیں
جی جہاں آسان راستہ دیکھا وہی اختیار کر لیا۔
 

فاخر رضا

محفلین
بڑھیں گے نہیں کم ہونگے بلکہ پیچیدگیوں سے بچت ہوگی عقد نکاح کے وقت سب کچھ طے کر کے اس کو قانونی تحفظ ملنا چاہئے مصر میں عوام کی اکثریت شافعی فقہ سے تعلق رکھتی ہے مگر وہاں عقد نکاح فقہ حنفی کے مطابق ہوتا ہے اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ فرض کریں فقہ حنفی سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے مابین عقد ہوا چند برس بعد مرد نے بیوی کو تین طلاق ایک ہی مجلس میں دے دی اور بعد میں فوت ہو گیا ۔ پھر بیوی کسی دوسرے فقہ کے مفتی کے پاس سے فتوی لے آئی کہ میری طلاق مکمل یا سرے سے ہی (کیونکہ شوہر نے غصے میں طلاق دی تھی) نہیں ہوئی تھی اس لئے مجھے جائداد میں سے آٹھواں حصہ چاہئے۔ مرد کی اولاد کا دعوی کہنا ہو کہ طلاق ہوگئی تھی سابقہ بیوی کا جائیداد میں حصہ نہیں بنتا۔
اگر نکاح کے وقت ہی سب کچھ طے کر لیا جائے تو ان پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
سلام. بھائی لئیق کچھ باتیں اور بھی ہیں. ایک یہ کہ عورت کے لئے مرد سے جان چھڑانا بہت مشکل کام ہے اس پر بھی غور کرنا چاہیے.
دوسرے یہ کہ نکاح نامہ بھرتے وقت بہت دقت سے کام لینا چاہیے اور تمام تک خرافات کا تدارک کرلینا چاہیے. اس طرح عورت کے حقوق کی پاسداری ہوسکتی ہے. نکاح کے وقت جتنی بھی شرائط رکھنی ہو جس سے طرفین کے حقوق کی پاسداری ہو سکے وہ طے کرلینا چاہیے.
تیسرے یہ کہ اخلاقیات شروع ہی سے اپنے بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے. ہر مصیبت بداخلاقی سے ہی شروع ہوتی ہے. کہیں مرد اور کہیں عورت بداخلاق ہوتی ہے. شرعی قوانین کی ضرورت بھی تبھی پڑتی ہے جب طرفین اخلاق سے گر جاتے ہیں.
 
آج کے دور میں جہاں شادیاں ایک مشکل مرحلہ ہے اور والدین بچوں کی شادیوں کےلیے پریشان نظر آتے ہیں ، ایسے میں کراچی کی ایک کمیونٹی ’کاغذی برادری‘ نے اجتماعی شادیاں کرنے کا انتظام کیا جس میں 28 جوڑوں کی ایک ساتھ شادی کی رسم ادا کی گئی ۔
ایک جیسے ملبوسات پہنے ہوئے 28 دلہا اور دلہن اسٹیج پر قریب قریب بیٹھے ہو ئے ایک ایسے منظر کی عکاسی کررہے تھے جو بہت دلفریب تھا۔

marriage-03.jpg

کاغذی برادری نے اجتماعی شادیوں کا آغاز آج سے تقریباً 25 سال پہلےشروع کیا تھا جو تاحال جاری ہے۔ پروگرام کے آرگنائزر فاروق مجیدکے مطابق اب تک سات مرتبہ اجتماعی شادیاں ہوچکی ہیں، یہ آٹھویں بار ہے ۔انہوں نے مزید بتایا کہ برادری میں سب سے پہلے 1992 میں11 اجتماعی شادیاں ہوئی تھیں جس کی کامیابی پر ہم نے اس سلسلے کو جاری رکھا ۔

mariage-02.jpg

ان کا مزیدکہنا تھا ہم نے 96 ء میں 11 جوڑوں کی شادیاں کیں اور پھر 99ء میں 18جوڑوں کی شادیاں کرکے ہم نے اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیئے ۔
فاروق مجید کا کہنا تھا کہ ہم نے دلہااور دلہن کے والدین سے صرف ڈیڑھ لاکھ روپے لئے ہیں جس میں بارات اور ولیمے کے کھانے کے ساتھ ساتھ دلہن کا جہیز جس میں فرنیچر ، برتن، ریفریجریٹر واشنگ مشین اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں بھی دی جا تی ہیں جبکہ دلہا دلہن کےشادی کے جوڑے بھی اسی پیکیج میں شامل ہو تے ہیں ۔
ان کا کہنا تھاکہ ہمارا اجتماعی شادی پروگرام کرنے کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں والدین کو پریشانی سے بچاسکیں اور فضول رسومات کو معاشرے سے ختم کیا جا سکے ۔
 
سلام. بھائی لئیق کچھ باتیں اور بھی ہیں. ایک یہ کہ عورت کے لئے مرد سے جان چھڑانا بہت مشکل کام ہے اس پر بھی غور کرنا چاہیے.
دوسرے یہ کہ نکاح نامہ بھرتے وقت بہت دقت سے کام لینا چاہیے اور تمام تک خرافات کا تدارک کرلینا چاہیے. اس طرح عورت کے حقوق کی پاسداری ہوسکتی ہے. نکاح کے وقت جتنی بھی شرائط رکھنی ہو جس سے طرفین کے حقوق کی پاسداری ہو سکے وہ طے کرلینا چاہیے.
تیسرے یہ کہ اخلاقیات شروع ہی سے اپنے بچوں کو سکھانے کی ضرورت ہے. ہر مصیبت بداخلاقی سے ہی شروع ہوتی ہے. کہیں مرد اور کہیں عورت بداخلاق ہوتی ہے. شرعی قوانین کی ضرورت بھی تبھی پڑتی ہے جب طرفین اخلاق سے گر جاتے ہیں.
شریعت تو انسان کے پیدا پونے سے لیکر مرنے تک ساتھ چلتی ہے، ہونا یہ چاہئے کہ ہر بالغ مرد اور عورت کی شادی سے پہلے اس بات کی تربیت کی جائے کہ شادی کے بعد مرد اور عورت کے کیا کیا فرائض ہیں اور کیا حقوق اور پھر بچوں کی تربیت کیسے کی جانی چاہئے اس تربیت کو نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے ۔ صرف قوانین کافی نہیں ہوتے مسائل کو پیدا ہونے سے روکنے کے لئے اچھی تربیت اور آگاہی زیادہ کارآمد ہو سکتی ہے۔
 
ملتان کی سب سے بڑی لائبریری،
کتابوں کے شوقین اور مطالعہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے دلچسپ خبر یہ ہےکہ ملتان میں ’گریسن پبلک لائبری‘ آئندہ چند روز میں عوام کے لیے کھول دی جائے گی۔

multanLibrary_L1.jpg

لائبریر ی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کے لیے الگ سیکشن ہے، بچوں کے لیے سائنس میوزیم اور کھیل کا سیکشن ، اسپیشل افراد کا سیکشن ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اُن مائوں کی بھی حوصلہ افرائی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو یہاں بنے ڈے کئیر سینٹر میں چھوڑکر اپنا کتب بینی کا شوق پورا کرسکتی ہیں۔

multanLibrary_L2.jpg

مزید یہ کہ آپ کواگر مطالعہ کرنے کے بعد بھوک کا احساس ہو تو یہاں کیفے ٹیریا بھی بنا یا گیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یہاں لگ بھگ 2 لاکھ سے زائد مختلف موضوعات پر کتا بیں رکھی گئی ہیں۔

multanLibrary_L3.jpg

اگر کہا جائے کہ یہ پاکستان کی بڑی لائبریریز میں سے ایک ہے تو غلط نہیں ہوگا۔اگر آپ کو اس لائبریری کی ممبر شپ حاصل کرنی ہے تو 500 روپے ماہانہ میں حاصل کی جاسکتی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top