ابن صفی: بات ہی کیا تھی چلے آتے جو پل بھر کے لیے

فہد اشرف

محفلین
بات ہی کیا تھی چلے آتے جو پل بھر کے لیے
یہ بھی اک عمر ہی ہو جاتی مرے گھر کے لیے

بت کدہ چھوڑ کے آئے تھےحرم میں اے شیخ
تو ہی انصاف سے کہہ دے اسی پتھر کے لیے

یوں تو ہیں خاک بسر، عرش پہ رہتا ہے دماغ
اوجِ شاہی نے قدم ہم سے قلندرکے لیے

کبھی آنسو، کبھی شبنم، کبھی بنتا ہے گہر
قطرہ بیتاب ہے اس درجہ سمندر کے لیے

پھول سے چہرے کی اشکوں نے بڑھا دی زینت
آخرش چاہئے شبنم بھی گل تر کے لیے

تیرے کاشانے کی تعمیر کو کیا نظر کروں
میری تقدیر کا پتھر ہے ترے در کے لیے

تھیں زلیخائیں بہت، یوسفِ ثانی تو بنا
کوئی امت نہ ملی دل سے پیمبر کے لیے

اسرار ناروی(ابن صفی)
 
Top