ذہین افراد کم دوست کیوں بناتے ہیں؟

لاریب مرزا

محفلین
ہم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ذہین لوگ کم دوست بناتے ہیں۔ ذہانت کے علاوہ اور بھی بہت سے عناصر دوست بنانے میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ لوگوں کی ذاتی پسند، ناپسند، مزاج، ترجیحات اور ماحول وغیرہ
ہم نے تو ذہین لوگوں کو بہت سوشل بھی دیکھا ہے اور الگ تھلگ، تنہائی پسند بھی.. نہیں معلوم یہ تحقیق کس بنیاد پر کی گئی ہے۔
 

محمدظہیر

محفلین
پہلے تو یہ طے ہونا چاہیے ذہین کہتے کسے ہیں
چور ماہر چوروں کو ذہین سمجھتے ہیں
ہمارے یہاں پرائیویٹ جاب کرنے والے سرکاری ملازمین کو ذہین سمجھتے ہیں
عوام کامیاب سیاست دانوں کو ذہین اور مکار سمجھتے ہیں
سیاست دان امیر ترین لوگوں کو ذہین سمجھتے ہیں
اکثر لوگ دین داروں کو ذہین کہتے ہیں
جاہل پڑھے لکھوں کو ذہین سمجھتے ہیں
ذہین لوگ ہوتے کون ہیں؟ اور یہ تحقیق کرنے والے آخر ہوتے کون ہیں جو دوسروں کو ذہین یا احمق کا لیبل لگاتے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین

یہ جینیس لوگ ہیں جو مووی موویز میں ہیں ۔۔ یہاں موویز سے اندازہ ہوتا ہے ان بیچاروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور دوست بنا نہیں سکتے ۔۔اس لحاظ سے تحقیق کسی حد تک درست بھی ہے
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
پہلے تو یہ طے ہونا چاہیے ذہین کہتے کسے ہیں
چور ماہر چوروں کو ذہین سمجھتے ہیں
ہمارے یہاں پرائیویٹ جاب کرنے والے سرکاری ملازمین کو ذہین سمجھتے ہیں
عوام کامیاب سیاست دانوں کو ذہین اور مکار سمجھتے ہیں
سیاست دان امیر ترین لوگوں کو ذہین سمجھتے ہیں
اکثر لوگ دین داروں کو ذہین کہتے ہیں
جاہل پڑھے لکھوں کو ذہین سمجھتے ہیں
ذہین لوگ ہوتے کون ہیں؟ اور یہ تحقیق کرنے والے آخر ہوتے کون ہیں جو دوسروں کو ذہین یا احمق کا لیبل لگاتے ہیں
میرے مطابق : زہین افراد وہ ہوتے ہیں جن سے معاشرے کو فائدہ پہنچتا ہے ...ذہن میں رہے زہین اور چالاک میں فرق ہے چالاک صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
پہلے تو یہ طے ہونا چاہیے ذہین کہتے کسے ہیں
چور ماہر چوروں کو ذہین سمجھتے ہیں
ہمارے یہاں پرائیویٹ جاب کرنے والے سرکاری ملازمین کو ذہین سمجھتے ہیں
عوام کامیاب سیاست دانوں کو ذہین اور مکار سمجھتے ہیں
سیاست دان امیر ترین لوگوں کو ذہین سمجھتے ہیں
اکثر لوگ دین داروں کو ذہین کہتے ہیں
جاہل پڑھے لکھوں کو ذہین سمجھتے ہیں
ذہین لوگ ہوتے کون ہیں؟ اور یہ تحقیق کرنے والے آخر ہوتے کون ہیں جو دوسروں کو ذہین یا احمق کا لیبل لگاتے ہیں
تحقیقات کی بنیاد مختلف باتوں پر رکھی جاسکتی ہے۔ اگر علم التعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بھی بچوں یا طلبہ کی مختلف قسمیں بیان کرتی ہے۔ مثال کے طور پر:
کند ذہن: جنہیں سمجھا یا جائے تو آسانی سے بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بار بار سمجھانا پڑتا ہے اور ان پر محنت ضروری ہے۔
اوسط ذہین: وہ جنہیں بات بیان کرنے پر سمجھ میں آجاتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک بات کو دہرانا پڑے۔ وہ کوشش کریں تو یاد بھی کر لیتے ہیں کہ آپ نے انہیں گزشتہ نشستوں میں کیا کیا سمجھایا تھا۔
ذہین: وہ ہوتے ہیں جو سمجھ بھی لیتے ہیں اور زیادہ کوشش کیے بغیر یاد بھی کرلیتے ہیں۔ دوبارہ سمجھانے کی نوبت نہ ہونے کے برابر آتی ہے جس کی وجہ بھی محض اتنی ہوتی ہے کہ آپ کی آواز ان تک نہ پہنچی ہو یا وہ ان الفاظ سے شناسا نہ ہوں جو آپ نے گفتگو کے دوران استعمال کردئیے۔
فطین: یہ ذہین سے اوپر کی قسم ہے۔ تخلیقی ذہن رکھنے والے، شاعر، ادیب، افسانہ نگار، مصور اور قلمکار سب اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں آپ کچھ نہ بھی سمجھائیے تو ان کے اندر اتنی صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ خود ہی نصاب کی کتاب اٹھا کر پڑھنا اور یاد کرلینا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ امتحان میں پاس ہونا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن ا ن پر تھوڑی محنت سے یہ انتہائی اہم درجوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ذہین افراد کم دوست کیوں بناتے ہیں؟
x40-1-326x235.png.pagespeed.ic.97n1GS_gYF.jpg

لاہور (نیوزڈیسک) کیا لوگوں سے ملنا جلنا آپ کے اندر خوشی اور اطمینان پیدا کرتا ہے ؟ یا لوگوں سے ملنے کے بعد آپ خود کو غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں؟ ماہرین نے اس کی وجہ دریافت کرلیکیا لوگوں سے ملنا جلنا آپ کے اندر خوشی اور اطمینان پیدا کرتا ہے ؟ یا لوگوں سے ملنے کے بعد آپ خود کو غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں؟ ماہرین نے اس کی وجہ دریافت کرلی۔ایک امریکی یونیورسٹی میں اس بات پر تحقیق کی گئی کہ آیا لوگوں سے ملنا جلنا کسی شخص کی زندگی میں خوشی اور اطمینان پیدا کرتا ہے یا ناخوشی۔ ماہرین کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے ۔وہ لوگ جو گنجان آباد شہروں میں رہتے ہیں ان میں خوشی کا احساس کم پایا جاتا ہے اس کی نسبت پرسکون اور خاموش علاقوں (یا دیہاتوں) میں رہنے والے افراد زیادہ خوش اور مطمئن ہوتے ہیں۔وہ لوگ جو ہم خیال افراد سے گفتگو کرتے ہیں وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ جتنے زیادہ وہ ایک دوسرے سے قریب ہوتے جاتے ہیں اتنا ہی زیادہ ان کی خوشی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔تیسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ضروری نہیں کہ ذہین افراد ان اصولوں پر پورا اتریں۔تحقیق سے پتہ چلا کہ جو لوگ جتنے زیادہ ذہین ہوتے ہیں وہ لوگوں کی صحبت میں خود کو اتنا ہی غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ تنہائی میں رہنا پسند کرتے ہیں یا پھر ان کا حلقہ احباب نہایت محدود ہوتا ہے ۔ماہرین کے مطابق اگر انہیں مجبوراً لوگوں سے میل جول کرنا پڑے تو یہ ناخوش رہتے ہیں۔تحقیقی ماہرین نے اس کی وجہ یوں بیان کی کہ ذہین افراد دنیا کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہر چیز کے بارے میں ان کا نظریہ اوسط ذہن رکھنے والے افراد سے مختلف ہوتا ہے ۔ وہ اپنی دنیا میں زیادہ خوش رہتے ہیں۔ لوگوں سے میل جول اور ان سے گفتگو کرنا ان میں بے چینی کا باعث بنتا ہے ۔تاہم ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ دوست بنانا اور ان سے گفتگو کرنا بعض مسائل کا حل ثابت ہوسکتا ہے ۔ جیسے ڈپریشن کے شکار افراد اگر ڈاکٹر کے پاس جانے سے پہلے قریبی دوستوں سے گفتگو کریں اور اپنے احساسات کا اظہار کریں تو ان کی آدھی بیماری ختم ہوسکتی ہے ۔اسی طرح دوستوں سے گفتگو کرنا انسان کو جذباتی طور پر مستحکم کرتا ہے اور اس میں زندگی کے مسئلے مسائل سے نمٹنے کیلئے نئی قوت پیدا ہوتی ہے ۔
لنک
اس تحقیق میں شاید کچھ کمی رہ گئی۔ میری رائے میں یہ ذہین نہیں فطین لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم زیادہ تر تنہائی پسند دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی وہی ان کی تخلیقی قوت ہوتی ہے۔ آپ کچھ لکھنا چاہتے ہیں، کوئی شعر کہنا چاہتے ہیں یا دیگر تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تنہائی ضروری ہے لیکن یہ تنہائی بعض لوگوں کےدوست بنانے کے عمل میں مخل بھی نہیں ہوتی۔ ہر تخلیق کار ایک ہی طرح کا نہیں ہوتا۔ ۔کچھ لوگ تخلیق کار ہونے کے باوجود ایک سے ایک اور بہتر سے بہتر دوست بنانے کے عادی ہوتے ہیں۔ تحقیق دراصل ایک نمونے پر کی جاتی ہے جو عمومی ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ درست ہو۔ جو لوگ بھی تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں اور تحقیق کے عمل سے گزر چکے ہیں، وہ یہ بات خوب جانتے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد شاہنواز

کہا جاتا ہے انسان ایک جیسا ذہن لیے پیدا ہوتا ہے تو دوسری طرف ذہانت میں تفریق چہ جائیکہ ؟آپ کی تعریف کی مطابق شاعر ، افسانہ نگار تو استاد ہوئے ۔۔۔۔
معذرت کے ساتھ میں یہ بات نہیں مانتا۔ ایک جیسا ذہن تو دو جڑواں بچوں کا بھی نہیں ہوتا چہ جائیکہ ہر انسان کا ایک جیسا ذہن قرار دیا جائے۔ ذہانت میں تفریق نہیں بلکہ درجوں کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔ درخت سے سیب گرتا ہے تو صرف نیوٹن ہی اس بات کو کیو ں پہچانتا ہے کہ زمین کی کشش کی وجہ سے ایسا ہوا؟ اس کا مطلب ہے کہ اس نے الگ انداز سے سوچا۔ یہی مثال آئن اسٹائن اور دیگر کی ہے۔ ذہانت میں درجوں کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔ ایک جیسی ذہانت دنیا کے کسی بھی دو بچوں یا افراد میں ممکن نہیں ہے۔ کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر کسی بھی دو افراد کی رائے میں اختلاف ضرور پایا جائے گا۔ شاعر، افسانہ نگار وغیرہ استاد ہوں، یہ ضروری نہیں ہے لیکن یہ تخلیق کار ضرور ہیں جو عام انسانوں سے الگ سوچتے اور لکھتے ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
معذرت کے ساتھ میں یہ بات نہیں مانتا۔ ایک جیسا ذہن تو دو جڑواں بچوں کا بھی نہیں ہوتا چہ جائیکہ ہر انسان کا ایک جیسا ذہن قرار دیا جائے۔ ذہانت میں تفریق نہیں بلکہ درجوں کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔ درخت سے سیب گرتا ہے تو صرف نیوٹن ہی اس بات کو کیو ں پہچانتا ہے کہ زمین کی کشش کی وجہ سے ایسا ہوا؟ اس کا مطلب ہے کہ اس نے الگ انداز سے سوچا۔ یہی مثال آئن اسٹائن اور دیگر کی ہے۔ ذہانت میں درجوں کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔ ایک جیسی ذہانت دنیا کے کسی بھی دو بچوں یا افراد میں ممکن نہیں ہے۔ کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر کسی بھی دو افراد کی رائے میں اختلاف ضرور پایا جائے گا۔ شاعر، افسانہ نگار وغیرہ استاد ہوں، یہ ضروری نہیں ہے لیکن یہ تخلیق کار ضرور ہیں جو عام انسانوں سے الگ سوچتے اور لکھتے ہیں۔

یعنی کہ آپ کے بات کی مطابق انسان کے مشاہدے کی قوت یکساں نہیں ہے اور مشاہداتی قوت ہر انسان میں یکساں نہیں کیونکہ بچے کا دماغ تو ہم کہیں کہ اک پروسیسر ہے پلس اس میں ہارڈ ڈسک ہے ، یہ پروسیسینگ تو چلو سیم ہے کیا میموری پاور بھی سیم ہے ؟ اگر سیم نہیں تو کیا ؟ تخلیق کار خود موجد ہوتے ہیں ۔ میں نے اکثر موویز میں دیکھا یا پڑھا بھی ہے کہ ایسے لوگ کتابی علم کو خاطر میں نہیں لاتے نا استاد کی سنتے اور نئے اصول بنا جاتے ہیں ۔۔میں تو خود اس تحقیق میں ہوں

وہ کون سے عوامل ہیں جن سے مشاہداتی قوت یکساں نہیں ہوتی ؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یعنی کہ آپ کے بات کی مطابق انسان کے مشاہدے کی قوت یکساں نہیں ہے اور مشاہداتی قوت ہر انسان میں یکساں نہیں کیونکہ بچے کا دماغ تو ہم کہیں کہ اک پروسیسر ہے پلس اس میں ہارڈ ڈسک ہے ، یہ پروسیسینگ تو چلو سیم ہے کیا میموری پاور بھی سیم ہے ؟ اگر سیم نہیں تو کیا ؟ تخلیق کار خود موجد ہوتے ہیں ۔ میں نے اکثر موویز میں دیکھا یا پڑھا بھی ہے کہ ایسے لوگ کتابی علم کو خاطر میں نہیں لاتے نا استاد کی سنتے اور نئے اصول بنا جاتے ہیں ۔۔میں تو خود اس تحقیق میں ہوں

وہ کون سے عوامل ہیں جن سے مشاہداتی قوت یکساں نہیں ہوتی ؟
مشاہدہ ایک الگ عمل ہے یعنی آپ نے کیا دیکھا، یہ مشاہدہ ہے۔ کیا نتیجہ اخذ کیا وہ آپ کے ذہن سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں پروسیسر کا کام آگیا یعنی بچے کا دماغ سمجھ لیجئے اور اگر ہم یادداشت کے معاملے کو دیکھیں کہ کس نے کیا یاد رکھا اور کون کیا بھول گیا تو یہاں ہارڈ ڈسک کی بات آئی۔ دیکھنا سب کا ایک جیسا ہے یعنی مشاہدہ ایک ہے لیکن پروسیسنگ الگ الگ ہے۔ میموری پاور الگ ہے۔ تخلیق کار موجد ہو بھی سکتے ہیں لیکن ایسا ضروری بھی نہیں ہے۔ کتابی علم خاطر میں لانا ضروری ہوتا ہے لیکن اس سے اتفاق یا اختلاف ایک الگ بات ہے۔مشاہداتی قوت سے مراد اگر صرف دیکھنا ہے تو وہ محض نظر کی تیزی اور کمزوری سے مشروط ہے لیکن یہاں یہ بحث نہیں ہے۔ شاید آپ نے مشاہداتی قوت سے پروسیسنگ مراد لی ، تو اس میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر پروسیسنگ یا سوجھ بوجھ متاثر ہوتی ہے۔ ایک تو اسے جو دماغ خدا نے عطا کیا ہے وہ منفرد اور سب سے الگ تھلگ ہے۔ اس کے بعد اس نے خود جو محنت کی اور جو مزاج اسے عطا ہوا تھا، اس کی بنیاد پر جو فیصلے کیے ، یہ سب عوامل ہیں اور ان کے علاوہ حالات ہیں، کیفیات اور واقعات ہیں جو زندگی میں رونما ہوتے ہیں اور کسی بھی فرد کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے آپ کوئی میچ کھیل رہے ہیں اور کبھی بارش ہوجاتی ہے، کبھی دھوپ ستاتی ہے تو کبھی کوئی اور عمل۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر عمل جو ذہن کو متاثر کرتا ہے وہ ذہن کے اندر واقع ہو، یہ عوامل ذہن کے اندر اور باہر کسی بھی جگہ ہوسکتے ہیں اور ان سے سوجھ بوجھ متاثر ہوتی ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یعنی فیس بک یوزرز کے لیے لمحہ فکریہ
بے شک۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فیس بک صرف بے وقوف ہی استعمال کرتے ہیں۔ عقلمند کم استعمال کرتے ہیں، شاید یہ ثابت ہوتا ہو۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ فیس بک پر فرینڈ لسٹ میں آپ کے نام کا اندراج آپ کو میرا یا کسی اور کا دوست نہیں بنائے گا۔ دوستی ایک الگ ہی رشتہ ہے جسے سمجھنے کے لیے آپ کا فیس بک یوزر ہونا ضروری بھی نہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
مشاہدہ ایک الگ عمل ہے یعنی آپ نے کیا دیکھا، یہ مشاہدہ ہے۔ کیا نتیجہ اخذ کیا وہ آپ کے ذہن سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں پروسیسر کا کام آگیا یعنی بچے کا دماغ سمجھ لیجئے اور اگر ہم یادداشت کے معاملے کو دیکھیں کہ کس نے کیا یاد رکھا اور کون کیا بھول گیا تو یہاں ہارڈ ڈسک کی بات آئی۔ دیکھنا سب کا ایک جیسا ہے یعنی مشاہدہ ایک ہے لیکن پروسیسنگ الگ الگ ہے۔ میموری پاور الگ ہے۔ تخلیق کار موجد ہو بھی سکتے ہیں لیکن ایسا ضروری بھی نہیں ہے۔ کتابی علم خاطر میں لانا ضروری ہوتا ہے لیکن اس سے اتفاق یا اختلاف ایک الگ بات ہے۔مشاہداتی قوت سے مراد اگر صرف دیکھنا ہے تو وہ محض نظر کی تیزی اور کمزوری سے مشروط ہے لیکن یہاں یہ بحث نہیں ہے۔ شاید آپ نے مشاہداتی قوت سے پروسیسنگ مراد لی ، تو اس میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر پروسیسنگ یا سوجھ بوجھ متاثر ہوتی ہے۔ ایک تو اسے جو دماغ خدا نے عطا کیا ہے وہ منفرد اور سب سے الگ تھلگ ہے۔ اس کے بعد اس نے خود جو محنت کی اور جو مزاج اسے عطا ہوا تھا، اس کی بنیاد پر جو فیصلے کیے ، یہ سب عوامل ہیں اور ان کے علاوہ حالات ہیں، کیفیات اور واقعات ہیں جو زندگی میں رونما ہوتے ہیں اور کسی بھی فرد کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے آپ کوئی میچ کھیل رہے ہیں اور کبھی بارش ہوجاتی ہے، کبھی دھوپ ستاتی ہے تو کبھی کوئی اور عمل۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر عمل جو ذہن کو متاثر کرتا ہے وہ ذہن کے اندر واقع ہو، یہ عوامل ذہن کے اندر اور باہر کسی بھی جگہ ہوسکتے ہیں اور ان سے سوجھ بوجھ متاثر ہوتی ہے۔


میرا کہنا تھا کہ انسان کو دو آنکھیں ملیں ، دو کان ، ایک ناک ، ایک دماغ ۔۔۔ دماغ کا سائز کسی کا ایکسٹرا آرڈنری نہیں ہوتا۔۔ ایک دو انچ کا فرق آجاتا ہے اس لیے یہاں پر سب ایک جیسی قوت لیے پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔ میرا خیال میں کچھ نہ کچھ غیر معمولی ایسا ضرور ہوتا ہے جو ذہانت کو متاثر کرتا ہے ، میرا خیال ہے یہ قوت متخیلہ ہے ، اور قوت مشاہدہ ہے ۔۔۔یہ ہر دو انسان میں نہیں ہوتی ہیں ۔۔۔ قوت متخیلہ انسانی ذہن میں لیے پیدا ہوا یعنی وہ تمام تصورات ، علوم جو باقی لوگ باہر کی دنیا سے لیتے ہیں فطین اپنے اندر کی دنیا سے لیتا ہے ، اس کی قوت متخیلہ باہر کی دنیا سے اکتساب کرتی مشاہدہ کرتی ہے اور اس اس مشاہدے کی نتیجہ میں تجزیہ پیش کیے دیتے ہیں ۔ اب اس وقت متخیلہ کو سائنس میں کیا کہیں گے
 
Top