داغ داغ دہلوی ::::: کوئی پھرے نہ قول سے، بس فیصلہ ہُوا ::::: Daagh Dehlvi

طارق شاہ

محفلین

غزل
داغ دہلوی

کوئی پھرے نہ قول سے، بس فیصلہ ہُوا
بَوسہ ہمارا آج سے، دِل آپ کا ہُوا


اِس دِل لگی میں حال جو دِل کا ہُوا، ہُوا
کیا پُوچھتے ہیں آپ تجاہل سے کیا ہُوا

ماتم، ہمارے مرنے کا اُن کی بَلا کرے
اِتنا ہی کہہ کے چُھوٹ گئے وہ، بُرا ہُوا

وہ چھٹتی دیکھتے ہیں ہَوائی جو چرخ پر
کہتے ہیں مجھ سے ،آپ کا نالہ رسا ہُوا

اِس پر بھی تو ، نہیں ہے غمِ عِشق میں کمی
کھاتا ہے اِک جہان تمھارا دِیا ہُوا

کیا عیشِ جاودِاں، کہ غمِ جاوِداں نہیں
اِنسان کو ہے موت کا کھٹکا لگا ہُوا

بیگانہ تھا، تو کوئی شکایت نہ تھی ہَمَیں
آفت تو یہ ہُوئی، کہ وہ مِل کر جُدا ہُوا

جس نے کِیا تپاک، اُسی نے کِیا ہلاک
جو آشنا ہُوا، وہی ناآشنا ہُوا

دُشنام کی بھی آپ سے کِس کو اُمید تھی
ہم نے تو اُس پہ صبر کِیا، جو عطا ہُوا

اے جذبِ شوق! ہو نہ ہو، یہ نامہ بر ہی ہو
آتا ہے کوئی شخص اِدھر کو اُڑا ہُوا

عُذرِ سِتم سے بس مجھے نادم نہ کیجئے
اِس تذکرہ کو چھوڑیے! جو کُچھ ہُوا، ہُوا

بے خود رہے وصال میں، بے ہوشِ ہجر ہیں!
کیاجا نیں ہم سے کب وہ مِلا، کب جُدا ہُوا

اِس طرح کے جہان میں، ہیں بے غرض کہاں !
تیری نگہہ ہُوئی، دِلِ بے مُدّعا ہُوا

اے چرخ ! کل کی رات کا غم ،آج تو نہ دے
ہم صُبح کو نہ کھائیں گے شب کا بچا ہُوا

آباد کِس قدر ہے الٰہی عَدَم کی راہ !
ہر دَم مُسافروں کا ہے تانتا لگا ہُوا

اے کاش ! میرے تیرے لیے کل یہ حکم ہو!
لے جاؤ اِ ن کو خُلد میں ، جو کُچھ ہُوا، ہُوا

پیغامبر ندیم بنے، نامہ بر رفیق
میرا تو مُدّعا نہ کسی سے ادا ہُوا

کِس کِس طرح سے اُس کو جَلاتے ہیں رات دِن
وہ جانتے ہیں، داغؔ ہے ہم پر مِٹا ہُوا

داغؔ دہلوی
 

محمداحمد

لائبریرین
اِس دِل لگی میں حال جو دِل کا ہُوا، ہُوا
کیا پُوچھتے ہیں آپ تجاہل سے کیا ہُوا

اتم، ہمارے مرنے کا اُن کی بَلا کرے
اِتنا ہی کہہ کے چُھوٹ گئے وہ، بُرا ہُوا

بیگانہ تھا، تو کوئی شکایت نہ تھی ہَمَیں
آفت تو یہ ہُوئی، کہ وہ مِل کر جُدا ہُوا

باد کِس قدر ہے الٰہی عَدَم کی راہ !
ہر دَم مُسافروں کا ہے تانتا لگا ہُوا

عمدہ کلام

کیا کہنے
 
Top