جمال احسانی غزل ۔ سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ ۔ جمال احسانی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ
دشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ
نامساعد صورتِ حالات کے باوصف بھی
خود بنالیتے ہیں جنگل میں شجر اپنی جگہ
میں بھی نادم ہوں کہ سب کے ساتھ چل سکتا نہیں
اور شرمندہ ہیں میرے ہمسفر اپنی جگہ
کیوں سِمٹتی جا رہی ہیں خود بخود آبادیاں
چھوڑتے کیوں جا رہے ہیں بام و در اپنی جگہ
چاند کے ہمراہ وہ جلوہ نما ہے بام پر
اور قدموں کو پکڑتی رہگزر اپنی جگہ
جو کچھ اِن آنکھوں نے دیکھا ہے، میں اُس کا کیا کروں
شہر میں پھیلی ہوئی جھوٹی خبر اپنی جگہ
ایک اندیشہ تو اُس کی ہمرہی سے ہے مجھے
اور پھر اُس کے بچھڑ جانے کا ڈر اپنی جگہ
اِس نگر سے کوچ کرنا بھی مرے بس میں نہیں
اِس نگر پر میرے دشمن کا اثر اپنی جگہ
میں جمالؔ اپنی جگہ سے اس لئے ہٹتا نہیں
وہ گھڑی آجائے شاید لوٹ کر اپنی جگہ
جمال احسانی
 

شیزان

لائبریرین
زبردست انتخاب احمد بھائی

ایک اندیشہ تو اُس کی ہمرہی سے ہے مجھے
اور پھر اُس کے بچھڑ جانے کا ڈر اپنی جگہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! کیا خوبصورت غزل ہے !
جمال احسانی مرحوم کو اسی کے اوائلِ عشرہ میں نیشنل سینٹر حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں سننے اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ ان کی شاعری ہماری زندگی کی عکاس ہے ۔
جو کچھ اِن آنکھوں نے دیکھا ہے، میں اُس کا کیا کروں
شہر میں پھیلی ہوئی جھوٹی خبر اپنی جگہ

اِس نگر سے کوچ کرنا بھی مرے بس میں نہیں
اِس نگر پر میرے دشمن کا اثر اپنی جگہ​
 

محمداحمد

لائبریرین
زبردست انتخاب احمد بھائی

ایک اندیشہ تو اُس کی ہمرہی سے ہے مجھے
اور پھر اُس کے بچھڑ جانے کا ڈر اپنی جگہ

بہت خوب عمدہ انتخاب ہے احمد بھائی

واہ واہ! کیا خوبصورت غزل ہے !

بہت شکریہ :)
جمال احسانی مرحوم کو اسی کے اوائلِ عشرہ میں نیشنل سینٹر حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں سننے اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ ان کی شاعری ہماری زندگی کی عکاس ہے ۔
جو کچھ اِن آنکھوں نے دیکھا ہے، میں اُس کا کیا کروں
شہر میں پھیلی ہوئی جھوٹی خبر اپنی جگہ

اِس نگر سے کوچ کرنا بھی مرے بس میں نہیں
اِس نگر پر میرے دشمن کا اثر اپنی جگہ​

واہ۔۔۔! یہ تو قابلِ رشک بات ہے کہ آپ کو جمال احسانی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جمال احسانی کی شاعری مجھے بے حد پسند ہیں اور محفل میں میں نے ان کا کافی کلام شریک کیا ہے۔

کچھ اشعار دیکھیے:

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے

اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے

----

اُس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پاؤں کی
محفل پر جمال احسانی کا کلام آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
 

یوسف سلطان

محفلین
غزل

سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ
دشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ


نامساعد صورتِ حالات کے باوصف بھی
خود بنالیتے ہیں جنگل میں شجر اپنی جگہ


میں بھی نادم ہوں کہ سب کے ساتھ چل سکتا نہیں
اور شرمندہ ہیں میرے ہمسفر اپنی جگہ


کیوں سِمٹتی جا رہی ہیں خود بخود آبادیاں
چھوڑتے کیوں جا رہے ہیں بام و در اپنی جگہ


چاند کے ہمراہ وہ جلوہ نما ہے بام پر
اور قدموں کو پکڑتی رہگزر اپنی جگہ


جو کچھ اِن آنکھوں نے دیکھا ہے، میں اُس کا کیا کروں
شہر میں پھیلی ہوئی جھوٹی خبر اپنی جگہ


ایک اندیشہ تو اُس کی ہمرہی سے ہے مجھے
اور پھر اُس کے بچھڑ جانے کا ڈر اپنی جگہ


اِس نگر سے کوچ کرنا بھی مرے بس میں نہیں
اِس نگر پر میرے دشمن کا اثر اپنی جگہ


میں جمالؔ اپنی جگہ سے اس لئے ہٹتا نہیں
وہ گھڑی آجائے شاید لوٹ کر اپنی جگہ


جمال احسانی
بہت خوب
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
:):):)
بہت شکریہ :)


واہ۔۔۔! یہ تو قابلِ رشک بات ہے کہ آپ کو جمال احسانی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جمال احسانی کی شاعری مجھے بے حد پسند ہیں اور محفل میں میں نے ان کا کافی کلام شریک کیا ہے۔

کچھ اشعار دیکھیے:

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے

اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے

----

اُس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پاؤں کی
محفل پر جمال احسانی کا کلام آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

بہت خوبصورت!! اور ربط دینے کا بھی بہت شکریہ محمداحمد بھائی !
نیشنل سینٹر حیدرآباد اسّی کے عشرے میں ہماری بیٹھک ہوا کرتی تھی- ساری شامیں وہیں گزرتی تھیں ۔ بہت یادیں وابستہ ہیں اس دور سے۔ ہائے حیدرآباد مرحوم!
 
Top