راضی بہ قضا ہوں ، مری قسمت ہے مقرر
یعنی مری تقدیر کا اچھا ہے مقدر

اچھا ہے کہ ہے موج میں فرعونِ زمانہ
فرعون ہوا کرتے ہیں غرقابِ سمندر

جان و زر اسی کے تھے ، خریدے بھی اسی نے
دے کر ہمیں جنت جہاں غم ہوگا نہ کچھ ڈر

وہ لوگ لگاتے ہیں نصیبوں ہی پہ تکیہ
ملتا ہے جنھیں طالعِ خوابیدہ سراسر

اے لوح و قلم! بھاگ تمھارے تبھی جاگے

لکھی گئی سرکارکی جب سیرتِ انور

دی صحبتِ ایمانی سعیدوں کو خدا نے
صدیق ہوں ، فاروق ہوں ، عثماں ہوں کہ حیدر

اس قوم کے حالات بدلتا نہیں اللہ
جو خود کو بدلنے پہ نہ آمادہ ہو یکسر

کیوں گل سے جدا ہوکے پریشاں ہے اسامہ!
کیا خوشبو کے بھی بخت میں ہے گردشِ در در

 
فیس بک پر مزمل شیخ بسمل صاحب کی اصلاح۔
افادۂ عام کے لیے یہاں پیش کر رہا ہوں:

راضی بہ قضا ہوں ، مری قسمت ہے مقرر
یعنی مری تقدیر کا اچھا ہے مقدر
//تقدیر کا مقدر؟ انسان کا مقدر، کسی شئے کا مقدر،، لیکن تقدیر کا مقدر؟ پھر اوپر مصرعے سے مقدر کا اچھا ہونا بھی واضح نہیں۔

اچھا ہے کہ ہے موج میں فرعونِ زمانہ
فرعون ہوا کرتے ہیں غرقابِ سمندر
//درست

جان و زر اسی کے تھے ، خریدے بھی اسی نے
دے کر ہمیں جنت جہاں غم ہوگا نہ کچھ ڈر
//جہاں میں الف گرنا معیوب ہے۔ ایسے بہتر ہے:
دے کر ہمیں جنت کہ جہاں غم ہے ۔۔۔۔ الخ
آپ اس سے بہتر سوچ سکتے ہیں۔

وہ لوگ لگاتے ہیں نصیبوں ہی پہ تکیہ
ملتا ہے جنھیں طالعِ خوابیدہ سراسر
//تکیہ لگانا بمعنی آس لگانا کی جگہ تکیہ "کرنا" مانوس زیادہ ہے۔ تکیہ لگانا بعید ہے۔ شعر درست ہے۔

اے لوح و قلم! بھاگ تمھارے تبھی جاگے
لکھی گئی سرکارﷺ کی جب سیرتِ انور
//سبحان اللہ۔ خوب ہے۔

دی صحبتِ ایمانی سعیدوں کو خدا نے
صدیق ہوں ، فاروق ہوں ، عثماں ہوں کہ حیدر
//درست۔

اس قوم کے حالات بدلتا نہیں اللہ
جو خود کو بدلنے پہ نہ آمادہ ہو یکسر
//درست۔

کیوں گل سے جدا ہوکے پریشاں ہے اسامہ!
کیا خوشبو کے بھی بخت میں ہے گردشِ در در
//خوشبو کی واؤ کا گرنا اچھا نہیں۔ میرے نزدیک (ساحر صدیقی صاحب کا) تجویز کردہ یہ مصرع بہتر ہے:
”خوشبو کے بھی کیا بخت میں ہے گردشِ در در“
 

الف عین

لائبریرین
جان و زر اسی کے تھے ، خریدے بھی اسی نے
میں جانو کا تقطیع ہونا بھی اچھا نہیں، شاید بسمل کی نظر نہیں پڑی اس پر
اس کے ہی تھے سب جان و زر، اس نے ہی خریدے
قسم کا مصرع بہتر ہو گا
 
جان و زر اسی کے تھے ، خریدے بھی اسی نے
میں جانو کا تقطیع ہونا بھی اچھا نہیں، شاید بسمل کی نظر نہیں پڑی اس پر
اس کے ہی تھے سب جان و زر، اس نے ہی خریدے
قسم کا مصرع بہتر ہو گا
رہنمائی کا بہت شکریہ استاد جی!
جزاکم اللہ خیرا۔
 
راضی بہ قضا ہوں ، مری قسمت ہے مقرر
یعنی مری تقدیر کا اچھا ہے مقدر
( جب میں اپنی تقدیر سے راضی ہوں تو گویا یہ میری تقدیر کا اچھا مقدر ہے جیسے اگر کوئی شخص اپنے دوست سے راضی ہو تو یہ اس دوست کا اچھا مقدر کہلائے گا، تقدیر کا بھی مقدر بیان کرنا شاعرانہ تعلی کی قبیل سے ہے۔)

اچھا ہے کہ ہے موج میں فرعونِ زمانہ
فرعون ہوا کرتے ہیں غرقابِ سمندر

اس کے ہی تھے سب جان و زر، اس نے ہی خریدے
دے کر ہمیں جنت کہ جہاں غم ہے نہ کچھ ڈر

وہ لوگ ہی کرتے ہیں نصیبوں ہی پہ تکیہ
ملتا ہے جنھیں طالعِ خوابیدہ سراسر

اے لوح و قلم! بھاگ تمھارے تبھی جاگے
لکھی گئی سرکارﷺ کی جب سیرتِ انور

دی صحبتِ ایمانی سعیدوں کو خدا نے
صدیق ہوں ، فاروق ہوں ، عثماں ہوں کہ حیدر

اس قوم کے حالات بدلتا نہیں اللہ
جو خود کو بدلنے پہ نہ آمادہ ہو یکسر

کیوں گل سے جدا ہوکے پریشاں ہے اسامہ!
خوشبو کے بھی کیا بخت میں ہے گردشِ در در
 

الشفاء

لائبریرین
اے لوح و قلم! بھاگ تمھارے تبھی جاگے
لکھی گئی سرکارﷺ کی جب سیرتِ انور

سبحان اللہ۔۔۔

اس شعر نے ہیں بھاگ تمہارے بھی جگائے
لکھّا کر اے سرسری بس مدحت سرور

وزن گڑ بڑ ہو تو معذرت۔۔۔:)
 
وہ لوگ ہی کرتے ہیں نصیبوں ہی پہ تکیہ
دونوں جگہ ’ہی‘ کا استعمال؟
دونوں حصر مراد ہیں:
1۔ بدقسمت لوگ ہی تقدیر پر بھروسا کرتے ہیں۔
2۔ بد قسمت لوگ تقدیر ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔

پھر بھی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، ورنہ پھر وہی پہلے والا کردوں گا:
وہ لوگ لگاتے ہیں نصیبوں ہی پہ تکیہ
ملتا ہے جنھیں طالعِ خوابیدہ سراسر
 
اے لوح و قلم! بھاگ تمھارے تبھی جاگے
لکھی گئی سرکارﷺ کی جب سیرتِ انور
سبحان اللہ۔۔۔
اس شعر نے ہیں بھاگ تمہارے بھی جگائے
لکھّا کرو اے سرسری بس مدحت سرور
وزن گڑ بڑ ہو تو معذرت۔۔۔ :)
اتنی خوب صورت داد پر سراپا متشکر ہوں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
(وزن کی درستی کے لیے میں نے آپ کے بنائے ہوئے شعر میں ایک واؤ کا اضافہ کردیا ہے۔ :) )
 
Top