شب تو ہے سکوں بخش ، مگر دل میں ہے ہلچل
بے ابر فضا ہے ، مگر آنکھوں میں ہیں بادل

آنکھیں جو ہوئیں چار سیاہی سے ہیں دوچار
یاں تیرگی غم کی ہے تو واں حسن کا کاجل

اک پل نہ ملا کیف ہمیں وصل سے پہلے
اب درد کی لذت میں مگن ہوگئے ہر پل

توبہ کے مقابل نہ ٹکیں کافر ادائیں
ہر حسنِ صنم دل کی نظر سے ہوا اوجھل

دل دل ہے اتر جاتا ہے اس میں جو اسامہ!
ہر آن سموتی ہے اسے اور یہ دلدل
 

ابن رضا

لائبریرین
دل دل ہے اتر جاتا ہے اس میں جو اسامہ!
ہر آن سموتی ہے اسے اور یہ دلدل

بہت عمدہ ، کیا کہنے ہیں علامہ صاحب کے۔ شاد باشید
 

ابن رضا

لائبریرین
جزاکم اللہ خیرا۔
بھائی کچھ اصلاح بھی فرمادیں۔ :)
سمائیلی کے بعد ان کلمات "مذاق برطرف" کا اضافہ نہ کرنا شاید عجلت کا شاخسانہ ہے:p
ناچیر جب بھی انگشت اشارت اٹھاتا ہے تو محض اپنی آگہی مقصود ہوتی ہے۔ ہم کہاں اور اصلاح کہاں۔ ہاں البتہ مشاورت و تجاویز موزونیت کے حساب سے اپنی جگہ ہیں
 

ابن رضا

لائبریرین
برادرانہ استفسار
مطلع کے مصرع اولٰی میں حشو ِ اول کا اختتامی لفظ بخش کچھ بھاری سا محسوس نہیں ہو رہا؟؟مطلب برا نہیں مگر روانی کی بابت استفسار ؟ اور دونوں ہی مصروعوں میں دوسرے حشو کا آغاز مگر سے ہی کیوں؟ مزید یہ کہ جو ربط و جمال دوسرے شعر میں ہے وہ مطلع میں نہیں محسوس ہورہا۔ مطلع کی بابت یہ شعر بطور نمونہ پیش کرتا ہو کہ پہلے مصرع میں غم بیان کیا گیا ہے اور دوسرے میں اس کا مداوا کیا گیا ہے ۔

اُسے بلاؤ کہ جس کے چہرے پہ چاند تارے سجے ہوئے ہیں
کہ اپنی دھرتی کے آسماں پر سیاہ بادل تنے ہوئے ہیں

اک پل نہ ملا کیف ہمیں وصل سے پہلے
(نثر : ہمیں وصل سے پہلے ایک پل کیف نہ ملا یعنی محبوب سے ملنے سے پہلے ایک پل سرور مستی یا نشہ نہ ملا)
اب درد کی لذت میں مگن ہوگئے ہر پل
(نثر : اب ہر پل درد کی لذت میں مگن ہو گئے، اب کیا ہوا ایسا کہ ہر پل درد کی لذت میں مگن ہو گئے؟)
پہلے مصرع میں کیف کی بات ہے تو دوسرےمیں درد کی مگر نشہ مستی یا سرور اور درد باہم متضاد ہیں کیا؟؟
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
سمائیلی کے بعد ان کلمات "مذاق برطرف" کا اضافہ نہ کرنا شاید عجلت کا شاخسانہ ہے:p
ناچیر جب بھی انگشت اشارت اٹھاتا ہے تو محض اپنی آگہی مقصود ہوتی ہے۔ ہم کہاں اور اصلاح کہاں۔ ہاں البتہ مشاورت و تجاویز موزونیت کے حساب سے اپنی جگہ ہیں
آفس میں ہوں رضا بھائی۔بعض اوقات سمائیلی لگائے بغیر مدعا عرض کرنا پڑت اہے۔۔۔
 
مطلع کے مصرع اولٰی میں حشو ِ اول کا اختتامی لفظ بخش کچھ بھاری سا محسوس نہیں ہو رہا؟؟مطلب برا نہیں مگر روانی کی بابت استفسار ؟ اور دونوں ہی مصروعوں میں دوسرے حشو کا آغاز مگر سے ہی کیوں؟ مزید یہ کہ جو ربط و جمال دوسرے شعر میں ہے وہ مطلع میں نہیں محسوس ہورہا
حشو کیا ہوتا ہے اور لفظ ”بخش“ کا بھاری پن کس اعتبار سے محسوس ہورہا ہے، اس سے پہلے سکوں ہے اور اس کے بعد مگر ہے۔
 
دلدل سموتی نہیں اسامہ بھائی دھنساتی ہے۔:)
دل کو دلدل سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے دلدل دھنساتی چلی جاتی ہے ویسے یہ دل سموتا چلاجاتا ہے۔
چونکہ بات دل کی چل رہی تھی اس لیے دھنسانا عجیب سا لگ رہا تھا ورنہ وزن دونوں کا فعولن ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ
بہت خوب
دل دل ہے اتر جاتا ہے اس میں جو اسامہ!
ہر آن سموتی ہے اسے اور یہ دلدل

ڈھیروں داد بہت دعائیں
 
Top