محمداحمد

لائبریرین
انسان اور وقت کا ساتھ بہت پُرانا ہے ۔ ایک دور تھا کہ وہ سور ج اور ستاروں کی چال دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب وقت انسان کے ساتھ تھا لیکن شناشائی ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھی ۔ آج بھی انسان کبھی وقت کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کبھی تیز دوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور منہ کے بل گر پڑتا ہے۔

ہزارہا سال کے تجربے اور ساتھ کے باوجود انسان ابھی بھی وقت سے بہت پیچھے ہے۔ وہ لاکھ خود کو طرم خان سمجھنے لگے لیکن وقت ہمیشہ اُس کے اندازوں کو غلط ثابت کردیتا ہے اور اُسے بتاتا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ انسان وقت سے اس قدر اُلجھتا کیوں ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ زندگی اور موت ۔۔۔؟ ہاں ! کیا زندگی وقت کے سوا بھی کچھ ہے؟ پھر وہ وقت سے کیوں نہ اُلجھے ۔ زندگی ایک مہلت ہی تو ہے ۔ پیدائش سے لے کر موت تک کی مہلت۔ شاید اسی لئے انسان وقت سے ہمہ وقت برسرِ پیکار رہتا ہے۔ اکثر شاکی رہتا ہے اور کبھی کبھی تو اپنی کوتاہیوں کے لئے بھی وقت ہی کو قصوروار ٹہھراتا ہے۔

وقت کی پیمائش بھی ہمیشہ انسان کے لئے ایک مسئلہ ہی رہی ہے سورج اور ستاروں کی چال سے لے کر فراقِ یار کی طوالت اور وصل کی مختصر گھڑیاں۔ غرض وقت کو ناپنے کے سب پیمانے ایک وقت تک ہی انسان کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر انسان سوچتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے جتنا پانی بہہ گیا، وقت کے لئے بنائے گئے اُس کے پیمانے اُس کا ادراک ہی نہیں کر سکے۔

ڈھلتی عمر بھی انسان کو وقت کے گزرنے سے آگاہ کرتی ہے۔ کسی دن اچانک ہی کسی کا چھوٹا سافقرہ یا آئنے کی بے تکلفی اُسے چونکا دیتی ہے۔ جیسے وہ برسوں کی نیند سے بیدار ہوا ہو۔ وہ سوچتا ہے کہ وقت کی اُنگلی پکڑے وہ کہاں سے کہاں تک آگیا ہے ۔ یہاں تک کہ پیچھے مُڑ کر دیکھنے پر اُسے اپنا نقطہء آغاز تک نظر نہیں آتا۔ اُسے لگتا ہے جیسے وقت ریت کی طرح اُس کی مُٹھی سے پھسل گیا ہو۔ وقت کا ریت کی طرح ہتھیلی سے پھسل جانا بھی کیا ہی خوب تمثیل ہے ۔ شاید پہلی بار جب انسان کو یہ تشبیہہ سوجھی ہو گی تو اُسے ریت گھڑی بنانے کا خیال آیا ہوگا۔

آپ نے ریت گھڑی اور کہیں نہیں تو کمپیوٹر میں انتظار کی علامت کے طور پر ضرور دیکھی ہوگی۔ ریت گھڑی سے مستقل ریت کے ذرے زوال پذیر نظر آتے ہیں یہاں تک کہ وقت کی جھولی کے سب سکّے نذرِ خاک ہوجاتے ہیں۔ ریت گھڑی تو پلٹ کر پھر سے کام پر لگادی جاتی ہے لیکن انسان کی زندگی ریگِ صحرا کی ایک مُٹھی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔

آج کا دور ڈجیٹل گھڑیوں سے بھی آگے کا ہے ، آج ہم ایک ثانیے کے بھی ہزار ویں حصے کی پیمائش باآسانی کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے احساس ڈجیٹل نہیں ہوسکا ۔ احساس اب بھی وہی ہے ۔ اب بھی انسان کبھی وقت کو قید کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو وقت کی قید سے آزاد کرالے۔ فراق کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں اور وصل میں وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے:
تجھ سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں
وقت کے پاؤں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وقت از خودمختصر یا طویل نہیں ہوتا بلکہ انسان کا احساس اُسے درازی یا تنگی کی خلعت عطا کرتا ہے۔ کمرہء امتحان کے تین گھنٹے اور انتظار کے تیس منٹ کو اگر میزانِ احساس میں رکھا جائے تو شاید کوئی بھی پلڑا ہار ماننے کو تیار نہ ہو۔

یہ بھی سنتے ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔ دیکھا جائے تو یہ بات بھی خوب ہے کہ خوشی کی گھڑیوں میں انسان کو مغرور نہیں ہونے دیتی اور مشکل میں مایوسی سے بچا لیتی ہے۔ یعنی انسان کے برتاؤ کو اعتدال کے سکون بخش مستقر میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اس بات سے مشکل میں حوصلہ ملتا ہے اور اُمید کی لو فروزاں ہو جاتی ہے کہ کبھی تو وقت موافق بھی ہوگا۔ وقت کبھی انسان کے موافق ہوتا ہے تو کبھی مخالف اور ہر دو صورتوں میں یہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور جو بات وقت انسان کو سکھاتا ہےاُسے بھولنا ممکن نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں وقت کا لفظ بہت ہی وسیع معنوں میں مستعمل ہے۔ یہ کبھی محض ایک ساعت کے لئے استعمال ہوتا ہے تو کبھی یہ ایک عہد کا استعارہ بن جاتا ہے۔ وقتِ رخصت، وصل کی ساعت، ہجر کی گھڑیاں، رنج کا موسم اور گلابوں والی رُت سب کے سب وقت کے ہی بہروپ ہیں ۔ اچھا وقت یوں کٹ جاتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ بقول پروین شاکر:

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا

اور اگر زندگی رنج و محن کی تصویر ہو جائے تو شاعر کہہ اُٹھتا ہے:

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

جو لوگ وقت کے ساتھ چلنا سیکھ لیتے ہیں وہ مستقل خود کو بدلتے رہتے ہیں لیکن وقت رُکنا نہیں جانتا اور اکثر انسان وقت کے تعاقب میں ہانپ جاتا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد "وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ۔۔۔!"

وقت انسان کے ساتھ جو بھی کرے لیکن انسان کو ہمیشہ یہی سبق دیا جاتا ہے کہ وہ وقت کی قدر کرے اور وقت کے دامن میں کارہائے مثبت و مفید کے پھول کشید کرتا رہے ، یقیناً ایک نہ ایک دن منظر اور پس منظر دونوں رنگ و بو سے معمور ہو جائیں گے۔

سب سے آخری بات یہ کہ وقت بڑی ظالم شے ہے اور وہ ایسے کہ اگر آپ خود وقت کے قصیدے بھی پڑھتے رہیں تب بھی یہ اپنی روش سے باز نہ آئے گا اور پُھر سے اُڑ جائے گا اور آپ کو کفِ افسوس ملنے کے مزید وقت درکار ہوگا۔ سو اس گفتگو کو یہیں سمیٹتے ہوئے آخر میں کچھ منتخب اشعار کہ جن میں وقت اور انسانی احساسات کو خوبصورتی سے بُنا گیا ہے۔

ایک غزل کے کچھ اشعار :

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
اُس نے دیکھا مجھے، اُس نے چاہا مجھے، اُس نے ٹھکرا دیا، وقت کی بات ہے

کوئی مشکل پڑی، کوئی کام آگیا، ذہن میں اُس کے جو میرا نام آگیا
بعد مدّت کے وہ دوستوں کی طرح ہم سے ہنس کر ملا وقت کی بات ہے

زندگی ہم سے انجان تو ہو گئی، ایک رشتے کی پہچان تو ہو گئی
کوئی چاہت نہ تھی بس مروّت تھی وہ، خود کو سمجھا لیا وقت کی بات ہے

کچھ اشعار ایک اور غزل سے:

جسم کی بات نہیں تھی ان کے دل تک جانا تھا
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے

ہم نے علاج زخم دل تو ڈھونڈ لیا لیکن
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری
لاکھ کریں کوشش کھولنے میں وقت تو لگتا ہے

کچھ اشعار فرحت عباس شاہ کے:
آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

کچھ نوشی گیلانی کے:
کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

اُس نے ہنس کر دیکھا تو مُسکرادیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

جون ایلیا:
آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا


ابنِ انشاء:
ساعتِ چند کے مسافر ہیں
کوئی دم اور گفتگو لوگو!

اور بھی بہت سے ہیں لیکن کسی اور "وقت
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب احمد ۔۔ گُڈ ۔۔
بہت خوب احمد بھائی۔ مزہ آیا پڑھ کے۔
عمدہ تحریر جناب! :)
جیتے رہیئے۔

بہت شکریہ تمام احباب کا کہ جنہوں نے خاکسار کی تحریر کو اپنے "وقت" اور توجہ سے نوازا۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب ۔ زبردست لکھا آپ نے ۔ اُمید ہے ایسی تحاریر سے آئند ہ بھی ہم سب مستفید ہوتے رہیں گے ۔ :)
موضوع کی مناسبت سے آپ کی نذر ایک شعر ہے ۔

ثانیوں میں گذرجاتیں ہیں صدیاں اکثر
فرق پھر ثانیے اور صدی میں کیا ہے ؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واہ۔ واقعی وقت کے ساتھ چلتے چلتے انسان ہانپنے لگتا ہے اور پھر وقت یہ گیا وہ گیا۔ :) او
ر اس بات سے بھی صد فیصد متفق کہ:
وقت از خودمختصر یا طویل نہیں ہوتا بلکہ انسان کا احساس اُسے درازی یا تنگی کی خلعت عطا کرتا ہے۔ کمرہء امتحان کے تین گھنٹے اور انتظار کے تیس منٹ کو اگر میزانِ احساس میں رکھا جائے تو شاید کوئی بھی پلڑا ہار ماننے کو تیار نہ ہو
بہت اچھی تحریر محمداحمد ! کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں سوچنے اور کہنے دونوں کا ہنر آتا ہے۔ :) اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ! :)
 
بہت خوب لکھا جناب :)
وقت کا دھارا اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا
وقت کیا ہے، ایک سلسلہ روز و شب ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا
اقبال نے کیا خوب کہا ہے

سلسلۂ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلۂ روز و شب ، اصل حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب ، تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب ، ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیروبم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب ، صیدفی کائنات
تو ہو اگر کم عیار ، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات ، موت ہے میری برات
تیرے شب وروز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات ، کار جہاں بے ثبات!
اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا
اللہ کرے زور قلم زیادہ
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب ۔ زبردست لکھا آپ نے ۔ اُمید ہے ایسی تحاریر سے آئند ہ بھی ہم سب مستفید ہوتے رہیں گے ۔ :)

شکریہ ظفری بھائی۔۔۔۔!

موضوع کی مناسبت سے آپ کی نذر ایک شعر ہے ۔

ثانیوں میں گذرجاتیں ہیں صدیاں اکثر
فرق پھر ثانیے اور صدی میں کیا ہے ؟

بہت خوب شعر ہے ۔۔۔!

وقت کی طوالت کا ایک بیان خاکسار کی زبانی بھی سُن لیجے: :)

صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب۔

احمد بھائی نے کمال ہوشیاری سے سب کو ایک نہیں بلکہ دو دو غزلوں کے اشعار پڑھوا دئیے۔ اس کو کہتے ہیں جینئس۔ :p

شکریہ ذیشان بھائی ۔۔۔۔!

دراصل اس تحریر کی تحریک ان غزلوں سے ہی ملی۔ اب اگر ہم ان غزلوں کو ہی پیچھے چھوڑ دیتے تو یقیناً محسن بھوپالی کا مشہورِ عام مصرعہ "منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے" ہم پر بھی صادق آ جاتا۔ :)

ویسے یہ غزلیں ہماری اردو شاعری سے شناسائی کی اولین دنوں کی یادگار بھی ہیں۔ ایک کو جگجیت نے اور دوسری کو کسی اور صاحب نے گایا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ۔ واقعی وقت کے ساتھ چلتے چلتے انسان ہانپنے لگتا ہے اور پھر وقت یہ گیا وہ گیا۔ :) او
ر اس بات سے بھی صد فیصد متفق کہ:

بہت اچھی تحریر محمداحمد ! کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں سوچنے اور کہنے دونوں کا ہنر آتا ہے۔ :) اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ! :)

بہت شکریہ ۔۔۔۔!

ویسے ایسی بھی کوئی خاص بات نہیں ہے۔ عام سی باتیں ہیں جو ہم نے جوڑ جاڑ کر لکھ دی ہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب لکھا جناب :)
وقت کا دھارا اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا
وقت کیا ہے، ایک سلسلہ روز و شب ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا
اقبال نے کیا خوب کہا ہے

سلسلۂ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلۂ روز و شب ، اصل حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب ، تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب ، ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیروبم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب ، صیدفی کائنات
تو ہو اگر کم عیار ، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات ، موت ہے میری برات
تیرے شب وروز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات ، کار جہاں بے ثبات!
اول و آخر فنا ، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو ، منزل آخر فنا

اللہ کرے زور قلم زیادہ


بہت شکریہ ۔۔۔۔!

واقعی ٹھیک کہا آپ نے۔

وقت رہتا نہیں کبھی ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے

کلامِ اقبال سے بااعتبارِ موضوع خوب انتخاب کیا ہے آپ نے۔ واہ۔۔۔!
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر!
بدلتے موسم وقت گزرنے کا احساس شدت سے دلاتے ہیں۔۔۔۔!
وقت کا نہ ٹھہرنا ۔۔۔گزرتے چلے جانا ۔۔۔برف کی ڈلی کی طرح مسلسل پگھلتے رہنا مجھے ہمیشہ اطمینان کی سی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے کہ شکر ہے وقت گزر رہا ہے۔۔۔چاہے وہ خوشی کا ہو یا غمی کا اس کی سب سے اچھی بات ہی یہی ہے کہ یہ سبک رفتار ہے ۔۔۔!
وقت کو روک کر کرنا کیا ہے ۔۔۔ہاں ہم وقت سے ملحے کشید کرکے انہیں منجمد کرسکتے ہیں ۔۔۔وہ لمحے ٹھہر جاتے ہیں ۔۔۔وہ عکس بھلائے نہیں بھولتے۔۔۔۔۔!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مجھے اس موضوع پر کچھ تفصیل سے لکھنا ہے۔۔۔ فی الوقت یہی شعر
ہم ابھی خواب میں ہیں اور یہ احساس وجود
جس سے کچھ نیند اچٹ جائے وہ انگڑائی ہے

اور ایک اور شعر یاد آگیا
ہم اس تلاطم پنہاں میں غرق رہتے ہیں
جہاں زماں و مکاں ساتھ ساتھ بہتے ہیں
 
Top