روزہ کھولنے اور بند کرنے کی دعا

شاکر

محفلین
جبکہ ان احادیث کو کم و بیش " حدیث " کی ہر اک کتب میں پایا جا سکتا ہے ۔ روزوں اور رمضان کے بیان میں ۔۔۔ ۔۔

یہ " احادیث " جنہوں نے جمع فرمائیں ۔ دنوں کا چین راتوں کی نیند قربان کی ۔ یہ احادیث قریب ساڑھے تیرہ سو سال تک امت مسلمہ میں متفقہ رائج رہیں ۔ اور حال میں یہ کونسا سائنسی تحقیق کا پیمانہ تحقیق کاروں کے ہاتھ لگ گیا جو کہ مسلمانوں کو جھٹکے دے رہا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
محترم بھائی، روزہ
محترم بھائی ۔ احادیث کی کتب آج کل تو ہر طرح سے وافر اور آسانی سے مل جاتی ہیں ، آپ ان کا بغور مطالعہ کریں ۔

یہ تو کوئی اشکال نہیں کہ اس نیت میں " غد " یعنی کل سے کیا مراد ہے ۔۔۔ ؟
میں نے رمضان کا چاند دیکھا یا کسی معتبر ہستی سے سنا کہ رمضان کا چاند دکھ گیا ہے ۔۔
تو یہاں یہی نیت ہوگی کہ "میں نے کل کے روزے کی نیت کی "
"الیوم" کی نیت تو ناممکن ہو گی ۔

نایاب بھائی،
سحری کے وقت کی زیر بحث دعا حدیث کی ہر اک کتب میں تو کجا، کسی ایک کتاب میں بھی موجود نہیں ہے۔
نہ صحیح حدیث، نہ کوئی حسن حدیث۔ حتیٰ کہ کوئی ضعیف یا موضوع اور من گھڑت حدیث تک موجود نہیں ہے۔
احادیث اور کتب احادیث پر اعتراضات ضرور کیجئے لیکن جینوئن اعتراضات کریں، بغیر تحقیق کے ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم بھائی، روزہ

نایاب بھائی،
سحری کے وقت کی زیر بحث دعا حدیث کی ہر اک کتب میں تو کجا، کسی ایک کتاب میں بھی موجود نہیں ہے۔
نہ صحیح حدیث، نہ کوئی حسن حدیث۔ حتیٰ کہ کوئی ضعیف یا موضوع اور من گھڑت حدیث تک موجود نہیں ہے۔
احادیث اور کتب احادیث پر اعتراضات ضرور کیجئے لیکن جینوئن اعتراضات کریں، بغیر تحقیق کے ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔

میرے محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کی کتب احادیث میں تو ان مشہور و معروف احادیث کا ذکر بھی نہیں ملتا جو اک زمانے میں ہر زبان پہ ہوتی تھیں ۔
احادیث کی کتب کس قدر من پسند تدوین سے گزری اور گزر رہی ہیں یہ بھی کویی مخفی بات نہیں ۔
کچھ روشنی ڈالیں کہ امت مسلمہ کا اک کثیر حصہ جو اس دعا کے پڑھنے پر مداومت کرتا ہے ۔ اس کی بنیاد کیا ہے ؟
یہ سحری کے وقت کی دعا کہاں سے وجود میں آئی ۔ ؟
اور اس پر عمل کب سے جاری ہوا ۔۔۔۔۔؟
اور کس سن میں اسے بے بنیاد قرار دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔؟
ذرا اس بارے بھی تحقیق کر لیجئے گا ۔ ۔۔۔۔
احادیث میں اکثر الفاظ بدلتے جاتے ہیں مگر مفہوم قریب یکساں ہی رہتا ہے ۔ جیساکہ
حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے: اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کی۔(أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 294، رقم 2358)
بعض کتب حدیث میں یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، جیسے وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ (اور میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا)یا فَتَقَبَّلْ مِنِّی، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (پس تو (میرا روزہ)قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے)؛ لیکن ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں:اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی۔

ایک تیسری دعا ہے جو نبی ﷺ افطاری کے وقت پڑھتے تھے۔(ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتِ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللہُ)پیاس دور ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہوگیا۔اس کی سند حسن درجے کی ہے۔ (مشکوة للالبانی 261/1)اس لیے بہتر ہے کہ افطاری کے وقت یہی دعا پڑھی جائے
 

یوسف-2

محفلین
واضح رہے کہ نایاب بھائی کا تعلق فقہ جعفریہ سے ہے۔ اور فقہ جعفریہ کے اپنے احادیث کے 4 مجموعے ہیں، جن میں اصول کافی سرفہرست ہے۔ اہل سنت والجماعت صحاح ستہ سمیت متعدد احادیث کے مجموعہ پر ایمان رکھتی ہے، لیکن فقہ جعفریہ کے چاروں مجموعہ احادیث پر ایمان نہیں رکھتی۔
روزہ افطار کرنے کی تو مختلف احادیث اہل سنت والجماعت کے حدیثوں کی کتب میں موجود ہیں۔ لیکن روزہ رکھنے کی نیت والی حدیث کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ بصوم غد نویت من شہر رمضان کہاں سے لی گئی ہے۔ نایاب بھائی نے بھی اپنے لمبے چوڑے مراسلوں کے باوجود اس حدیث کی کوئی سند یا حوالہ تاحال نہیں دیا ہے۔ اگر یہ فقہ جعفریہ کی حدیث کی کتب میں کہیں موجود ہے تو شرمائے بغیر اس کا حوالہ دیجئے۔ جن کا ان کتب پر ایمان ہوگا، وہ ان پر ضرور عمل کریں گے اور جن کا نہیں ہوگا، وہ نہیں کریں گے۔
مختلف مسالک اور فقہوں کو ایک دوسرے سے مدغم نہ کیجئے۔ ہر ایک کو صاف صاف بتلائیے کہ اس فقہ، مسلک یا اس کتاب میں یہ بات موجود ہے۔ جو اس بات پر عمل کرنا چاہے، عمل کرے۔ جیسے انتہائے سحر اور افطار کے اوقات کا چارٹ شائع ہوتا ہے تو اس میں دو باتوں کی صاف صاف وضاحت ہوتی ہے کہ یہ فلاں شہر میں اہل سنت یا فقہ جعفریہ کے مطابق ہے۔ یہ دو باتیں نکال کر مطلق سحر و افطارکے اوقات کا چارٹ سب کو دے کر سب کا روزہ خراب نہی کرنا چاہئے
واللہ اعلم بالصواب
 

علی خان

محفلین
واضح رہے کہ نایاب بھائی کا تعلق فقہ جعفریہ سے ہے۔ اور فقہ جعفریہ کے اپنے احادیث کے 4 مجموعے ہیں، جن میں اصول کافی سرفہرست ہے۔ اہل سنت والجماعت صحاح ستہ سمیت متعدد احادیث کے مجموعہ پر ایمان رکھتی ہے، لیکن فقہ جعفریہ کے چاروں مجموعہ احادیث پر ایمان نہیں رکھتی۔
واللہ اعلم بالصواب​
یوسف بھائی۔ ان الفاظ پر اگر تھوڑی سی تفصیل بیان کردیں تو بڑی نوازش ہوگی۔ کہ یہ انکے احادیث کے مجموعے کب کس وقت میں مرتب ہوئے۔ اور جب یہ ہمارے احادیث پر ایمان نہیں رکھتی ہیں، تو کیوں کر نہیں رکھتے ہے۔ اور جب نہیں رکھتے ہیں۔ تو کیا ان میں اور عام مسلمانوں میں کوئی فرق ہے دینوی لحاظ سے۔​
اگر آپ اسکا جواب یہاں پر نہیں دینا چاہیں مصلحت کی وجہ سے تو پھر یہ جوابات مجھے ذاتی طور پر ارسال کردیں، بندہ شُکر گزار ہوگا۔​
 

نزرانھ بٹ

محفلین
یوسف بھائی۔ ان الفاظ پر اگر تھوڑی سی تفصیل بیان کردیں تو بڑی نوازش ہوگی۔ کہ یہ انکے احادیث کے مجموعے کب کس وقت میں مرتب ہوئے۔ اور جب یہ ہمارے احادیث پر ایمان نہیں رکھتی ہیں، تو کیوں کر نہیں رکھتے ہے۔ اور جب نہیں رکھتے ہیں۔ تو کیا ان میں اور عام مسلمانوں میں کوئی فرق ہے دینوی لحاظ سے۔​
اگر آپ اسکا جواب یہاں پر نہیں دینا چاہیں مصلحت کی وجہ سے تو پھر یہ جوابات مجھے ذاتی طور پر ارسال کردیں، بندہ شُکر گزار ہوگا۔​
زہ پھ دی خبرہ حیرانتیا لرم چی یوہ حبرہ بھ درتھ خلق پھ ڈیرو مخونو کی در وکی۔ پھ کومہ یقین کوی؟ اللہ دی رامل سی نو۔
 

یوسف-2

محفلین
شیعہ مذہب کی بنیادی کتابیں چار ہیں۔ جنہیں ”صحاح اربعہ “کہا جاتا ہے۔
نمبر 1 : اصول کافی
نمبر2: من لا یحضر الفقیة
نمبر3: تہذيب الاحکام
نمبر4: الاستبصار
ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت ”اصول کافی“ کو دیجاتی ہے اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم ”ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی“ ہیں۔ علامہ کلینی 329ھ میں فوت ہوئے۔ نیٹ پر سرچ کیجئے۔ ان کے بارے میں مزید معلومات مل جائیں گی۔ یا نایاب بھائی سے کہیئے کہ ان کا تعارف کسی الگ دھاگہ میں پیش کردیں۔ یہ واضح رہے شیعہ مذہب کی یہ کتب عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہوتیں اور عام بازار میں بھی دستیاب نہین ہوتیں۔ میرے ایک شیعہ دوست سے اصول کافی کے بارے مین گفتگو ہوئی اور مین نے انہیں اس کتاب کے کچھ اقتباسات سنائے تو وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ ایسا ممکن ہی نہین کہ اصول کافی میں یہ موجود ہوں۔ میں نے کہا آپ خود جاکر دیکھ لیجئے۔ کہنے لگا میرے پاس تو نہیں ہے لیکن خیر میں اپنے فلاں مرکز میں جاکر دیکھ لوں گا۔ لیکن اس معروف مرکز والوں نے بھی اسے اصول کافی یہ کہ کر دینے سے انکار کردیا کہ یہ ایک نایاب کتاب ہے جو اب دستیاب نہیں۔ :)@شمشاد بھائی! اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس دھاگہ کو اب مقفل کردیں کہ یہ دھاگہ صرف اور صرف ’روزہ کھولنے اور بند کرنے کی دعاؤں“ کے بارے مین تھا اور اس پر کافی سے زیادہ گفتگو ہوچکی ہے۔:)
 

علی خان

محفلین
زہ پھ دی خبرہ حیرانتیا لرم چی یوہ حبرہ بھ درتھ خلق پھ ڈیرو مخونو کی در وکی۔ پھ کومہ یقین کوی؟ اللہ دی رامل سی نو۔
اللہ خیر کرے گا۔ اور میری نظر میں کچھ لوگ ہیں۔ جو مذہب اسلام میں اپنی علوم کو بہت ہی سپیشل طریقے سے شامل کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں ان سب سے بچائے۔ آمین
 

نایاب

لائبریرین
واضح رہے کہ نایاب بھائی کا تعلق فقہ جعفریہ سے ہے۔ اور فقہ جعفریہ کے اپنے احادیث کے 4 مجموعے ہیں، جن میں اصول کافی سرفہرست ہے۔ اہل سنت والجماعت صحاح ستہ سمیت متعدد احادیث کے مجموعہ پر ایمان رکھتی ہے، لیکن فقہ جعفریہ کے چاروں مجموعہ احادیث پر ایمان نہیں رکھتی۔
روزہ افطار کرنے کی تو مختلف احادیث اہل سنت والجماعت کے حدیثوں کی کتب میں موجود ہیں۔ لیکن روزہ رکھنے کی نیت والی حدیث کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ بصوم غد نویت من شہر رمضان کہاں سے لی گئی ہے۔ نایاب بھائی نے بھی اپنے لمبے چوڑے مراسلوں کے باوجود اس حدیث کی کوئی سند یا حوالہ تاحال نہیں دیا ہے۔ اگر یہ فقہ جعفریہ کی حدیث کی کتب میں کہیں موجود ہے تو شرمائے بغیر اس کا حوالہ دیجئے۔ جن کا ان کتب پر ایمان ہوگا، وہ ان پر ضرور عمل کریں گے اور جن کا نہیں ہوگا، وہ نہیں کریں گے۔
مختلف مسالک اور فقہوں کو ایک دوسرے سے مدغم نہ کیجئے۔ ہر ایک کو صاف صاف بتلائیے کہ اس فقہ، مسلک یا اس کتاب میں یہ بات موجود ہے۔ جو اس بات پر عمل کرنا چاہے، عمل کرے۔ جیسے انتہائے سحر اور افطار کے اوقات کا چارٹ شائع ہوتا ہے تو اس میں دو باتوں کی صاف صاف وضاحت ہوتی ہے کہ یہ فلاں شہر میں اہل سنت یا فقہ جعفریہ کے مطابق ہے۔ یہ دو باتیں نکال کر مطلق سحر و افطارکے اوقات کا چارٹ سب کو دے کر سب کا روزہ خراب نہی کرنا چاہئے
واللہ اعلم بالصواب
محترم یوسف بھائی افسوس آپ نے بھی وہی حربہ اختیار کیا ۔۔۔۔جوکہ مذہب کے ٹھیکیداروں کا یہ پرانا حربہ ہے کہ ۔ جب سیدھی سچی صاف بات سامنے آنے لگے تو فرقہ بازی آگ کو بھڑکا دو ۔
میرے محترم بھائی ۔ شیعہ سنی وہابی دیوبندی اور فلاں فلاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب فرقے قران سے تو نہیں ابھرے ۔ یہ سب ہی احادیث پر استوار ہیں ۔ قران پاک میں سیدھا صاف حکم ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان والو روزے تم پہ فرض کیئے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں کسی سنی کسی شیعہ کسی دیوبندی کی تخصیص نہیں کی گئی ۔ اور جہاں تک " وبصوم غد نویت من شہر رمضان " کی بات ہے تو
محترم شیخ محمد صالح المنجد کی سائٹ پر اس سوال و جواب کو ملاحظہ فرما لیں ۔ اور اس میں بیان کردہ احادیث کو کتب احادیث سے تقابل کر لیں ۔۔
ذرا توجہ سے پڑھیئے گا ۔ اور سوچئے گا کہ زبانی کلامی فتوے لگانے اور دل سے نیت میں کیا فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

برصغیر پاک وھند میں روزے کی نیت اس طرح کی جاتی ہے :
اے اللہ میں تیرے لیے یقینی روزے کی نیت کرتا ہوں میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادے ۔
اوریہ بھی کہا جاتا ہے : وبصوم غد نویت شھررمضان ۔ میں رمضان کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ۔
مجھے اس کے معنی ومراد کا علم نہیں ، لیکن کیا یہ نیت کرنی صحیح ہے ، اوراگر ایسا کرنا صحیح ہے توآپ سے گزارش ہے کہ اس کے معنی کی وضاحت کریں یا پھر قرآن وسنت میں سے صحیح نیت بتائيں ؟

الحمد للہ
کوئی بھی عبادت چاہے وہ روزہ ہویا پھر نماز نیت کےبغیرصحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اورہر شخص کے لیے وہی ہے جووہ نیت کرتا ہے ۔۔۔ ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1907 ) ۔
فرضی روزے کے لیے شرط ہے کہ اس کی نیت رات کو طلوع فجر سے قبل کرلی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوشخص طلوع فجر سے قبل روزے کا ارادہ نہ کرے اس کا روزہ نہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 730 )
نسائی کے الفاظ یہ ہيں :
( جوروزے کی نیت رات کو نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے )
سنن نسائي حدیث نمبر ( 2334 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 583 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
حدیث کا معنی یہ ہےکہ جورات کو روزہ رکھنے کاارادہ اورنیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے ۔
اورنیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ کل روزہ رکھےگا ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتا تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یااس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔
صحیح نیت یہی ہے کہ انسان دل سے ارادہ کرے کہ وہ صبح روزہ رکھے گا ، اسی لیے شیخ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :
جس کے دل میں یہ بات آگئي کہ وہ صبح روزہ رکھے گا اس کی نیت ہوگئي ا ھ۔ ۔
دیکھیں الاختیارات صفحہ نمبر ( 191 ) ۔
لجنہ دائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا ؟
انسان کورمضان میں روزے کی نیت کس طرح کرنی چاہیے ؟
تولجنۃ کا جواب تھا :
روزہ رکھنے کے عزم سے نیت ہوجائے گی ، اوررمضان میں ہررات کوروزے کی نیت کرنا ضروری ہے ۔ اھ۔
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 246 ) ۔
 

یوسف-2

محفلین
  1. برصغیر پاک وھند میں روزے کی نیت اس طرح کی جاتی ہے :
    اے اللہ میں تیرے لیے یقینی روزے کی نیت کرتا ہوں میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادے ۔
    اوریہ بھی کہا جاتا ہے : وبصوم غد نویت شھررمضان ۔ میں رمضان کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ۔
  2. مجھے اس کے معنی ومراد کا علم نہیں ، لیکن کیا یہ نیت کرنی صحیح ہے ، اوراگر ایسا کرنا صحیح ہے توآپ سے گزارش ہے کہ اس کے معنی کی وضاحت کریں یا پھر قرآن وسنت میں سے صحیح نیت بتائيں ؟

  1. گویا برصغیر کا اسلام کوئی الگ اسلام ہے :p بات یہیں سے شروع ہوئی تھی کہ ”
    وبصوم غد نویت شھررمضان“ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اور اس کا مطلب بھی غلط ہے لہٰذا اس غلط اور غیر مسنون نیت کو کیوں ادا کیا جائے۔
  2. اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا :) جب قرآن و حدیث میں روزہ رکھنے کی نیت کے الفاظ موجود ہی نہیں ہے تو آپ کو کہاں سے لاکر دیا جائے۔
  3. آپ کا اسی نیت پر اصرار ہے، تو آپ ادا کرتے رہئے۔ جنہیں بات سمجھ آگئی ہے، وہ اس غیر مسنون اور غلط معنی والے نیت پر اب ان شاء اللہ اصرار نہیں کریں گے۔
 

نایاب

لائبریرین
  1. گویا برصغیر کا اسلام کوئی الگ اسلام ہے :p بات یہیں سے شروع ہوئی تھی کہ ”
    وبصوم غد نویت شھررمضان“ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اور اس کا مطلب بھی غلط ہے لہٰذا اس غلط اور غیر مسنون نیت کو کیوں ادا کیا جائے۔
  2. اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا :) جب قرآن و حدیث میں روزہ رکھنے کی نیت کے الفاظ موجود ہی نہیں ہے تو آپ کو کہاں سے لاکر دیا جائے۔
  3. آپ کا اسی نیت پر اصرار ہے، تو آپ ادا کرتے رہئے۔ جنہیں بات سمجھ آگئی ہے، وہ اس غیر مسنون اور غلط معنی والے نیت پر اب ان شاء اللہ اصرار نہیں کریں گے۔
میرے محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ آپ کی سادگی پر ہنسی آر ہی ہے ۔۔
برصغیر ہی کیا آج کل " اسلام " ہے کہاں ؟
ہر جگہ صرف فرقے ہیں ۔ اور ان فرقوں کے منادی ۔ جو کہ اسلام کی تعلیمات کی اپنی من پسند خواہشات کی چھری سے تدوین کر رہے ہیں ۔۔
اس وضاحت کو جو کہ اس کلمے "وبصوم غد نویت من شہر رمضان " کی حقیقی دلیل ہے کس صفائی سے چھپا گئے آپ ۔۔۔۔؟
قران پاک بھی آپ کے نزدیک نیت کے بارے عاجز ٹھہرا ۔۔۔۔۔۔۔
عجیب بات ہے کہ آپ کو قران پاک میں " روزے " کی نیت ہی نہ مل سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سبحان اللہ
" اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ کل روزہ رکھےگا ،"
۔۔۔۔۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
مگر حضور بات کو الجھائے جا رہے ہیں ہیں آپ اور ڈھاک کے تین پاٹ ثابت کرنے کے چکر میں کہاں سے کہاں جا رہےہیں۔ آپ سے یہیں عرض کیا تھا کہ سیدھی سی بات کریں اور اپنی بیان کردہ ہر حدیث کی کتب میں سے کچھ احادیث سے یہ ثابت کر دیں کہ مروجہ سحری کی دعا ٹھیک ہے مگر آپ بجائے ٹو دی پوائنٹ بات کرنے کے خود بھی الجھ رہے ہیں اور پڑھنے والوں کو بھی مزید شکوک و شبہات میں ڈال رہے ہیں۔
کافی اصرار کے بعد آپ کی بیان کردہ دلیل بہت ہی بے وقت ثابت ہوئی ہے۔ اس میں واضح لکھا ہے کہ رات کو صبح کے روزے کی نیت کرے تو اس صورت میں تو مروجہ دعا ٹھیک ہو گی لیکن سحری کے وقت کل کے روزے کی نیت کرنا ابھی تک الجھا ہوا ہے۔ پھر اس پر بس نہیں بلکہ آپ اسی دلیل کے سہارے اپنے موقف کو اپنے تئیں مضبوط کر رہیں ہیں۔ مجھے اتنے چھوٹے سے مسئلے پر اتنی لمبی بات کرنا اور پھر اتنا بحث و مباثحہ کرنا سخت کوفت دے رہا ہے مگر آپ نے بات کو گول مول کر کے الجھا دیا ہے آپ کے پاس کوئی واضح دلیل نہیں ہے تو بات ختم کریں اور کہہ دیں کہ اس کا کوئی واضح حکم نہیں اور جو بھی کرتا ہے یا نہیں کرتا خود جانے میں تو کروں گا، تو بات ختم۔۔۔۔۔۔۔!
 

محمدقاسم

محفلین
محترم بھائی ۔ احادیث کی کتب آج کل تو ہر طرح سے وافر اور آسانی سے مل جاتی ہیں ، آپ ان کا بغور مطالعہ کریں ۔
اور چالیس سال کے روزوں کا ذکر صرف اس نیت کے اثبات کا ہی ہے کہ ۔ جب سے روزہ رکھنا شروع کیا ان ہی نیتوں کو ہمراہ رکھا ۔۔۔
اور ان نیتوں کا اختیار کرنا بھی کتب احادیث کے مطالعہ پر استوار رہا ۔ وہ کتب احادیث جو کہ 1970 کے بعد سے اک متعین و متفق تدوین کے مراحل سے گزر رہی ہیں ۔ ۔
یہ تو کوئی اشکال نہیں کہ اس نیت میں " غد " یعنی کل سے کیا مراد ہے ۔۔۔؟
میں نے رمضان کا چاند دیکھا یا کسی معتبر ہستی سے سنا کہ رمضان کا چاند دکھ گیا ہے ۔۔
تو یہاں یہی نیت ہوگی کہ "میں نے کل کے روزے کی نیت کی "
"الیوم" کی نیت تو ناممکن ہو گی ۔
نایاب جیسے آپ نے افطارکے وقت کی دعا کا حوالا دیا ہے(أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 : 294، رقم : 2358) اسی طرح براے مہربانی روزے کی نیت کا بہی کسی حدیث سے حوالہ دے دیں تاکہ ہماری اصلاح ہوسکے.
 
کیا واقعی یہ دونوں دعائیں حدیث سے ثابت نہیں؟ فلیز ذرا رہنمائی کریں اس معاملے میں
ذیل میں ایک عدد رابطہ درج ہے جہاں سے مختلف موضوعات پر ایک عمدہ کاوش موجود ہے اپنی ضرورت کے مطابق کتاب حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی اس سے متفق ہو تو اسے اختیار کر لے۔ اور اگر متفق نا ہو تو مزید تحقیق کی بھی گنجائش موجود ہے یا پھر چھوڑدیں۔
‫01 محمد اقبال کیلانی‬‎ - Google Drive
 

محمدقاسم

محفلین
روزے کی نیت کو ماننے والو!
جیسے آپ لوگوں نے روزہ افطار کرنے کی دعا کاحوالہ دیا ہے"(اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 : 294، رقم : 2358)"
اسی طرح روزے کی نیت"(وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَيْتَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)"اسکا بہی کسی حدیث سے کوئی حوالہ دے دو اگر سچے ہو تو اگر یہ بات سچ نہی ہے تو پہرادہر أدہرکی باتیں زرور کرنا
 

جنید اقبال

محفلین
وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ.

’’میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔‘‘

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ روزہ رکھنے کی دعا کسی حدیث مبارکہ میں منقول نہیں۔ اصل نیت فرض ہے جو دل کے ارادے کا نام ہے۔ نیت کا مطلب کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں نیت کا مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ کرنا۔

نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ جیسی عبادات میں نیت فرض ہے لیکن الفاظ فرض نہیں۔ البتہ آج کل ذہن منتشر ہوتے ہیں، لہٰذا ایک تو زبان سے کہہ لینے سے دل کا ارادہ و قصد ظاہر ہو جائے گا، دوسرا زبان سے بولا جانے والا ہر لفظ نیکیوں میں لکھا جائے گا کیونکہ رضائے الٰہی کی خاطر کیا جانے والا کام جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو، تو اسلام اس کو قبول کرتا ہے۔ امر مستحسن کے طور پر اس کام پر اجر و ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں۔ لہٰذا روزہ رکھتے وقت مروجہ دعا کے الفاظ بطور نیت دہرانا بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔

ملا علی قاری، مرقة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 2 : 304

جب کہ روزہ افطار کرنے کی دعا مختلف الفاظ کے ساتھ کتبِ حدیث میں بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے :

اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.

أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 : 294، رقم : 2358

’’اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کی۔‘‘

بعض کتب حدیث میں یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، جیسے وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ (اور میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا) یا فَتَقَبَّلْ مِنِّی، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (پس تو (میرا روزہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے)؛ لیکن ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں :

اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.

’’اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی۔‘‘



واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 

جنید اقبال

محفلین
وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ.

’’میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔‘‘

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ روزہ رکھنے کی دعا کسی حدیث مبارکہ میں منقول نہیں۔ اصل نیت فرض ہے جو دل کے ارادے کا نام ہے۔ نیت کا مطلب کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں نیت کا مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ کرنا۔

نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ جیسی عبادات میں نیت فرض ہے لیکن الفاظ فرض نہیں۔ البتہ آج کل ذہن منتشر ہوتے ہیں، لہٰذا ایک تو زبان سے کہہ لینے سے دل کا ارادہ و قصد ظاہر ہو جائے گا، دوسرا زبان سے بولا جانے والا ہر لفظ نیکیوں میں لکھا جائے گا کیونکہ رضائے الٰہی کی خاطر کیا جانے والا کام جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو، تو اسلام اس کو قبول کرتا ہے۔ امر مستحسن کے طور پر اس کام پر اجر و ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں۔ لہٰذا روزہ رکھتے وقت مروجہ دعا کے الفاظ بطور نیت دہرانا بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔

ملا علی قاری، مرقة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 2 : 304

جب کہ روزہ افطار کرنے کی دعا مختلف الفاظ کے ساتھ کتبِ حدیث میں بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے :

اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.

أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 : 294، رقم : 2358

’’اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کی۔‘‘

بعض کتب حدیث میں یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، جیسے وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ (اور میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا) یا فَتَقَبَّلْ مِنِّی، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (پس تو (میرا روزہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے)؛ لیکن ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں :

اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.

’’اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی۔‘‘



واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 

جنید اقبال

محفلین
وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ.

’’میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔‘‘

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ روزہ رکھنے کی دعا کسی حدیث مبارکہ میں منقول نہیں۔ اصل نیت فرض ہے جو دل کے ارادے کا نام ہے۔ نیت کا مطلب کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں نیت کا مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ کرنا۔

نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ جیسی عبادات میں نیت فرض ہے لیکن الفاظ فرض نہیں۔ البتہ آج کل ذہن منتشر ہوتے ہیں، لہٰذا ایک تو زبان سے کہہ لینے سے دل کا ارادہ و قصد ظاہر ہو جائے گا، دوسرا زبان سے بولا جانے والا ہر لفظ نیکیوں میں لکھا جائے گا کیونکہ رضائے الٰہی کی خاطر کیا جانے والا کام جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو، تو اسلام اس کو قبول کرتا ہے۔ امر مستحسن کے طور پر اس کام پر اجر و ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں۔ لہٰذا روزہ رکھتے وقت مروجہ دعا کے الفاظ بطور نیت دہرانا بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔

ملا علی قاری، مرقة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 2 : 304

جب کہ روزہ افطار کرنے کی دعا مختلف الفاظ کے ساتھ کتبِ حدیث میں بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے :

اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.

أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 : 294، رقم : 2358

’’اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کی۔‘‘

بعض کتب حدیث میں یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، جیسے وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ (اور میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا) یا فَتَقَبَّلْ مِنِّی، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (پس تو (میرا روزہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے)؛ لیکن ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں :

اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.

’’اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی۔‘‘



واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 

زیک

مسافر
وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ.

’’میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔‘‘
اس نیت میں کل کا ذکر کیوں ہے؟ کہتے ہیں کہ یہودی کیلنڈر کی طرح اسلام میں بھی اگلی تاریخ کا آغاز مغرب سے ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو روزے کی نیت آج کی ہونی چاہیئے۔ اس دعا سے تو لگتا ہے کہ نئے دن کا آغاز فجر یا طلوع آفتاب سے ہوتا ہے
 
Top