روزہ کھولنے اور بند کرنے کی دعا

نزرانھ بٹ

محفلین
روزھ کھولنے اور بند کرنے کی دعا

سحری کے ٹایم کی دعا
وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَيْتَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ



افطاری کی دعا
اللَّهُمَّ اِنِّى لَكَ صُمْتُ وَبِكَ امنْتُ [وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ] وَعَلَى رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ
 

یوسف-2

محفلین
  1. تمام علما ئے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ سحری کے وقت کی یہ دعا یا نیت ”غیر مسنون“ ہے۔ یعنی کسی حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
  2. اس نیت میں لفظ غَدِ آیا ہے جس کا مطلب ہے ” آنے والا کل“ اس نیت کا ترجمہ یہ ہے ۔۔۔ ”میں کل کے روزہ کی نیت کرتا یا کرتی ہوں“ ۔ جبکہ رات یا سحری مین نیت یہ کرنا چاہئے کہ میں آج کے روزہ کی نیت کرتا یا کرتی ہوں۔۔۔۔ نویت الیوم من شہر رمضان ۔۔۔۔ جیسے یکم رمضان کا آغاز مغرب کے بعد ہوجاتا ہے۔ یکم رمضان کی رات کو تراویح اور دن کو روزہ رکھا جاتا ہے۔ جب یکم رمضان کی تاریخ مغرب سے اگلی مغرب تک ایک ہی ہے تو اس دوران روزہ کی نیت میں آج کے روزہ کی نیت کرنی چاہئے نہ کہ آنے والے کل کی۔
واللہ اعلم بالصواب
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ یوسف بھائی۔

افطار کے وقت کی جو دعا مندرجہ بالا مراسلے میں لکھی گئی ہے، وہ بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
کیا واقعی یہ دونوں دعائیں حدیث سے ثابت نہیں؟ فلیز ذرا رہنمائی کریں اس معاملے میں

  1. روزہ رکھنے کی نیت (جسے آپ روزہ بند کرنے کی دعا کہہ رہی ہیں :) ) کے بارے میں تو اوپر وضاحت موجود ہے کہ اس کا مطلب بھی غلط ہے اور یہ حدیث سے ثابت بھی نہیں ہے۔
  2. دوسری افطار کی دعا کے بارے میں مجھے کنفرم نہیں ہے۔ لیکن اگر شمشاد بھائی کی تحقیق ہے تو یقیناَ یہ دعا بھی حدیث سے ثابت نہیں ہوگی ۔ افطار کی اس دعا کے بارے میں کل ایک مفتی صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر اس دعا کو پڑھنا بھی ہو تو افطار کھولنے کے بعد پڑھنی چاہئے نہ کہ افطار کھولنے سے پہلے، جیسا کہ ہم لوگ کرتے ہیں کہ پہلے دعا پڑھتے ہیں پھر روزہ کھولتے ہیں
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف-2

محفلین
سوال: رمضان المبارک میں افطار کے وقت کھجور روزہ کھولنے کی دعاء سے پہلے کھانا چاہئے یا دعاء پڑ ھ کر کھانا چاہئے؟

جواب: افطار کے موقع پر دعا کس وقت پڑھی جائے افطار سے پہلے یا افطار کے بعد ؟اس سلسلہ میں سنن ابوداؤد شریف، کتاب الصیام، ج۱ ص۳۲۱ میں حدیث پاک ہے ۔
کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا افطر قال ، ذہب الظمأ وابتلت العروق وثبت الاجران شاء اللہ
(سنن ابوداود شریف کتاب الصیام ، باب القول عندالافطار ، حدیث نمبر: ۲۰۱۰)
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار فرماتے تو دعافرماتے : ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ العُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُاِنْ شَائَ اللّٰہ ُ۔
ترجمہ: تشنگی ختم ہوئی، رگیں ترہوئیں اور ثواب ثابت ہوا اللہ تعالی کی مشیئت سے ۔

سنن ابوداؤدشریف میں ایک اور روایت ہے :
عن معاذبن زہرۃقال ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذاافطرقال اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت ۔
ترجمہ :سیدنا معاذبن زہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار فرماتے تویہ دعا فرما تے:
اللھم لک صمت وعلی رزقک۔ اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا۔

مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے افطار کیا جا ئے پھر دعاپڑھی جائے ،

مذکورہ بالادونوں احادیث شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے ملا علی قاری رحمہ اللہ الباری نے افطار کے بعد دعاء پڑھنے کاذکر کیا ہے : اذاافطرای بعد الافطارقال ذہب الظمأ۔ ۔ ۔ کان اذا افطرقال ای دعاوقال ابن الملک ای قرأ بعد الا فطارومنہ اللہم لک صمت۔ ۔ ۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ ج ۲ ص۵۱۴)
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف-2

محفلین
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے :
اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 : 294، رقم : 2358
’’اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کیا۔‘‘
 

نایاب

لائبریرین
روزھ کھولنے اور بند کرنے کی دعا

سحری کے ٹایم کی دعا
وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَيْتَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ


افطاری کی دعا
اللَّهُمَّ اِنِّى لَكَ صُمْتُ وَبِكَ امنْتُ [وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ] وَعَلَى رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ


بہت شکریہ بہت دعائیں محترم نذرانہ بٹ صاحب

  1. تمام علما ئے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ سحری کے وقت کی یہ دعا یا نیت ”غیر مسنون“ ہے۔ یعنی کسی حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
  2. اس نیت میں لفظ غَدِِ آیا ہے جس کا مطلب ہے ” آنے والا کل“ اس نیت کا ترجمہ یہ ہے ۔۔۔ ”میں کل کے روزہ کی نیت کرتا یا کرتی ہوں“ ۔ جبکہ رات یا سحری مین نیت یہ کرنا چاہئے کہ میں آج کے روزہ کی نیت کرتا یا کرتی ہوں۔۔۔ ۔ نویت الیوم من شہر رمضان ۔۔۔ ۔ جیسے یکم رمضان کا آغاز مغرب کے بعد ہوجاتا ہے۔ یکم رمضان کی رات کو تراویح اور دن کو روزہ رکھا جاتا ہے۔ جب یکم رمضان کی تاریخ مغرب سے اگلی مغرب تک ایک ہی ہے تو اس دوران روزہ کی نیت میں آج کے روزہ کی نیت کرنی چاہئے نہ کہ آنے والے کل کی۔
واللہ اعلم بالصواب


واہہہہہہہہہ
سبحان اللہ ۔ گویا اس حدیث کو یہ اعزاز حاصل ہوچکا کہ " امت مسلمہ " کے تمام علمائے کرام نے چودہ سو سال کی تحقیق کے بعد اس حدیث کو حدیث ماننے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔ یہ علمائے کرام کون کون سے ہیں ۔ براہ مہربانی ان کے بارے آگہی سے نوازیں ۔


گویا چودہ صدیوں کے مسلمانوں کے رکھے روزے جو کہ ان " نیتوں " پر استوار تھے وہ سب غلط نیت کا شکار ہوئے ۔۔۔۔؟
چودہ سو سال تک مسلمان ان نیتوں پر روزے رکھتے رہے اور آج کے تحقیقی علماء نے ان نیتوں کو ہی مشکوک فرما دیا ۔۔۔۔۔
سبحا ن اللہ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات سچ لگتی ہے احادیث بارے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ
ماضی میں کچھ بیٹھے بیٹھے انہیں گھڑا کرتے تھے ۔ اور حال میں کچھ بیٹھے بیٹھے انہیں چھانٹتے " امت مسلمہ " کو ہی " چھانٹ " دیتے ہیں ۔
احادیث نے ہیں جانے کتنے فساد پھیلائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کے بندو ہمارے لیئے قران کافی و شافی ہے ۔ جو کہ بہت آسان اور صاف سیدھی راہ دکھلاتا ہے ۔۔
جس دن امت مسلمہ احادیث سے دامن چھڑا قران پر قائم ہوجائے گی ۔ فساد کی راہ بند اور فلاح کی راہ کھل جائے گی ۔۔۔۔۔

جزاک اللہ یوسف بھائی۔


افطار کے وقت کی جو دعا مندرجہ بالا مراسلے میں لکھی گئی ہے، وہ بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

محترم شمشاد بھائی ۔ یہ " حکم " آپ نے کہاں سے حاصل کیا ۔۔۔۔۔۔۔؟
 

نایاب

لائبریرین
شکریہ نایاب کیا یہ صحیح ہے کہ یہ دعائیں خدیث سے ثابت نہیں۔ آپ اس سے اتفاق نہیں کرتی؟

محترم بٹ صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ ثابت کی دلیل صرف اتنی کہ پچھلے چالیس سال کے روزے انہی سحری و افطاری کی نیتوں کے ساتھ مکمل ہوئے ہیں ۔ یہ تو آج محترم یوسف بھائی اور محترم شمشاد بھائی کی پوسٹس سے علم ہوا کہ یہ تو " ثابت " ہی نہیں ہیں ۔
جبکہ ان احادیث کو کم و بیش " حدیث " کی ہر اک کتب میں پایا جا سکتا ہے ۔ روزوں اور رمضان کے بیان میں ۔۔۔۔۔
 

نزرانھ بٹ

محفلین
اوووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو حیران ہوں۔۔۔۔ بندہ سیکھے بھی تو کہاں۔۔ آپکا بہت بہت شکریہ۔ آپ سے کچھ سیکھا۔
کوڈ:
جبکہ ان احادیث کو کم و بیش " حدیث " کی ہر اک کتب میں پایا جا سکتا ہے ۔ روزوں اور رمضان کے بیان میں
اور کیا آپ ان احادیث کا حوالہ دے سکتی ہیں فلیز۔
 

نزرانھ بٹ

محفلین
میرا ایک گزارش ہے آپ لوگوں سے کہ اگر ایک اسلامی بات کی سمجھ نہیں ہے تو وہ بات پر بحث ہی نہ کریں۔ کیونکہ لوگ آج کل سیکھنے کے لئے نٹ اور فورمز کی طرف آرہے ہیں اور اگر ان لوگوں کی غلط رہنمائی ہو جائے تو اللہ سزا اسے دے گا جس نے غلط رہنمائی کی ہے۔ تو آپ سب کو یہ میری ریکوسٹ ہے کہ ایسی باتوں سے اجتناب کریں۔ فلیز اللہ کا واسطہ ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
برادر نایاب بھائی ۔۔۔ نیت تو در اصل آپ کے دل کے ارادے کا نام ہے اور یہ نیت ہی ہے جو آپ ک بڑے عمل کو چھوٹا اور چھوٹے عمل کو بڑا کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ باقی ان دعائیہ کلمات کو ادا کر نا ضروری نہیں ہوتا ۔ آپ کا ارادہ تو شعبان یا اس سے بھی پہلے پورے روزے رکھنے کا ہو تا ہے۔:)
جہاں تک رواج پا جانے کا تعلق ہے تو تحقیق سے ان کے درست نہ ہونے پر جھٹکا تو لگتا ہے۔یہ قدرتی بات ہے۔ جب ثابت شدہ کلمات موجود ہوں تو رواجوں کی کیا اہمیت ۔۔ٖرآن حدیچ ہی ہمارا سرمایہ ہیں اور حفظ مراتب ہمارا شعار ہونا چاہئے اور بس۔
 

نایاب

لائبریرین
اوووووو۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ میں تو حیران ہوں۔۔۔ ۔ بندہ سیکھے بھی تو کہاں۔۔ آپکا بہت بہت شکریہ۔ آپ سے کچھ سیکھا۔
کوڈ:
جبکہ ان احادیث کو کم و بیش " حدیث " کی ہر اک کتب میں پایا جا سکتا ہے ۔ روزوں اور رمضان کے بیان میں
اور کیا آپ ان احادیث کا حوالہ دے سکتی ہیں فلیز۔

محترم بٹ صاحب مجھے اپنا بھائی جانیئے ۔۔۔۔۔
ابھی کچھ ہی وقت کے بعد آپ کو یہاں حوالوں کی بھرمار کا سامنا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا احادیث کو آپ " رمضان کے بیان " کے تحت " احادیث " کی مختلف کتب میں تلاش کر سکتے ہیں ۔
آسان ترین " گوگل " پر " روزہ اور اس کے فضائل " لکھ کر سرچ کریں ۔ اک لمبی فہرست آپ کے سامنے ہوگی ۔
ذرا توجہ سے اس پیراگراف کو پڑھیں ۔ بات کھل جائے گی ۔ ان شاءاللہ
روزہ افطار کرنے کی دعا مختلف الفاظ کے ساتھ کتبِ حدیث میں بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے :
اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 : 294، رقم : 2358
’’اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کی۔‘‘
بعض کتب حدیث میں یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، جیسے وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ (اور میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا) یا فَتَقَبَّلْ مِنِّی، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (پس تو (میرا روزہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے)؛ لیکن ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں :
اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.
’’اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی۔‘‘
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
۔۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
مگرمحترم یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی کہ پچھلے چالیس سال کے روزے اگر اسی دعا سے رکھے گئے تو یہ دعا ٹھیک ہی ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ جس کام کو کرتے کرتے زیادہ عرصہ گزر جائے تو وہ صیح کہلایا جا سکتا ہے، چاہے غلط ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔!
میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یہ ہم روزہ آج رکھ رہے ہوتے ہیں اور نیت کل کے روزے کی کر رہے ہوتے ہیں تو اسکی وجہ کیا ہے:) ذرا اسکی وضاحت ہی کردیجیئے کہ مذکورہ دعا سے کل کے روزے کی نیت کیوں کی جاتی ہے۔۔۔۔۔!
بحث برائے بحث کرنے کے اور اگلے کو صرف "اسکی" وجہ سے غلط کہہ دینے سے فائدہ۔۔۔۔۔ یہاں ایک کنفیوژن پیدا ہو گئی ہے، بقول آپکے ایک طرف سالوں کی ریاضت ہے اور دوسری طرف آنے والے کل کی ریاضت۔۔۔۔ تو برائے کرم مندرجہ ذیل جملے کی روشنی میں کچھ احادیث بارے اسکے بھی آپ بیان کر دیں تا کہ ہم کم علم شک و شبے سے نکل کر کسی ایک دعا پر روزہ رکھ سکیں۔۔۔۔!
جبکہ ان احادیث کو کم و بیش " حدیث " کی ہر اک کتب میں پایا جا سکتا ہے ۔ روزوں اور رمضان کے بیان میں ۔۔۔ ۔۔
 

نایاب

لائبریرین
برادر نایاب بھائی ۔۔۔ نیت تو در اصل آپ کے دل کے ارادے کا نام ہے اور یہ نیت ہی ہے جو آپ ک بڑے عمل کو چھوٹا اور چھوٹے عمل کو بڑا کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ باقی ان دعائیہ کلمات کو ادا کر نا ضروری نہیں ہوتا ۔ آپ کا ارادہ تو شعبان یا اس سے بھی پہلے پورے روزے رکھنے کا ہو تا ہے۔:)
جہاں تک رواج پا جانے کا تعلق ہے تو تحقیق سے ان کے درست نہ ہونے پر جھٹکا تو لگتا ہے۔یہ قدرتی بات ہے۔ جب ثابت شدہ کلمات موجود ہوں تو رواجوں کی کیا اہمیت ۔۔ٖرآن حدیچ ہی ہمارا سرمایہ ہیں اور حفظ مراتب ہمارا شعار ہونا چاہئے اور بس۔

میرے محترم بھائی ۔۔۔ کسی بھی فرض کی ادائیگی کسی بھی حجت و عذر سے بےنیاز ہوتی ہے ۔
یہ " رواج " کیسے پائی اک بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ صدیوں کا سفر کیسے طے کیا اس نے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ملحوظ رہے میرے محترم بھائی ۔
یہ " تحقیق " کہاں سے ابھری ہے ۔۔۔۔۔؟
یہ " احادیث " جنہوں نے جمع فرمائیں ۔ دنوں کا چین راتوں کی نیند قربان کی ۔ یہ احادیث قریب ساڑھے تیرہ سو سال تک امت مسلمہ میں متفقہ رائج رہیں ۔ اور حال میں یہ کونسا سائنسی تحقیق کا پیمانہ تحقیق کاروں کے ہاتھ لگ گیا جو کہ مسلمانوں کو جھٹکے دے رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
مگرمحترم یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی کہ پچھلے چالیس سال کے روزے اگر اسی دعا سے رکھے گئے تو یہ دعا ٹھیک ہی ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ جس کام کو کرتے کرتے زیادہ عرصہ گزر جائے تو وہ صیح کہلایا جا سکتا ہے، چاہے غلط ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ ۔۔۔ !
میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یہ ہم روزہ آج رکھ رہے ہوتے ہیں اور نیت کل کے روزے کی کر رہے ہوتے ہیں تو اسکی وجہ کیا ہے:) ذرا اسکی وضاحت ہی کردیجیئے کہ مذکورہ دعا سے کل کے روزے کی نیت کیوں کی جاتی ہے۔۔۔ ۔۔!
بحث برائے بحث کرنے کے اور اگلے کو صرف "اسکی" وجہ سے غلط کہہ دینے سے فائدہ۔۔۔ ۔۔ یہاں ایک کنفیوژن پیدا ہو گئی ہے، بقول آپکے ایک طرف سالوں کی ریاضت ہے اور دوسری طرف آنے والے کل کی ریاضت۔۔۔ ۔ تو برائے کرم مندرجہ ذیل جملے کی روشنی میں کچھ احادیث بارے اسکے بھی آپ بیان کر دیں تا کہ ہم کم علم شک و شبے سے نکل کر کسی ایک دعا پر روزہ رکھ سکیں۔۔۔ ۔!

محترم بھائی ۔ احادیث کی کتب آج کل تو ہر طرح سے وافر اور آسانی سے مل جاتی ہیں ، آپ ان کا بغور مطالعہ کریں ۔
اور چالیس سال کے روزوں کا ذکر صرف اس نیت کے اثبات کا ہی ہے کہ ۔ جب سے روزہ رکھنا شروع کیا ان ہی نیتوں کو ہمراہ رکھا ۔۔۔
اور ان نیتوں کا اختیار کرنا بھی کتب احادیث کے مطالعہ پر استوار رہا ۔ وہ کتب احادیث جو کہ 1970 کے بعد سے اک متعین و متفق تدوین کے مراحل سے گزر رہی ہیں ۔ ۔
یہ تو کوئی اشکال نہیں کہ اس نیت میں " غد " یعنی کل سے کیا مراد ہے ۔۔۔؟
میں نے رمضان کا چاند دیکھا یا کسی معتبر ہستی سے سنا کہ رمضان کا چاند دکھ گیا ہے ۔۔
تو یہاں یہی نیت ہوگی کہ "میں نے کل کے روزے کی نیت کی "
"الیوم" کی نیت تو ناممکن ہو گی ۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
آپکی مرضی محترم لیکن اعتراض آپکی طرف سے ہوا اور یوسف بھائی کو آپ نے جھٹلایا تو حدیث پیش کرنا آپ کا ہی فرض بنتا ہے۔ ان کے کہے پر اعتراض کر کے آپ نے خود کو خود ہی پابند کیا اور اگر آپ ایسی چند احادیث پیش فرما دیں تو سارا قصہ ہی ختم ہو جائے گا اور یہ بحث بنے گی ہی نہیں وگرنہ گریز سے خواہ مخواہ مزید شکوک پیدا ہوں گے۔
میں اگر اس بات کے لیے نیٹ کو کنگالنا شروع کر دوں تو فائدہ۔۔۔۔۔ مجھے تو یہ بات مفید لگی ہے اگرچہ میرے کئی سالوں کے روزے بھی مذکور دعا سے ہی بند ہوتے رہے۔۔۔۔۔۔! آپ نے اعتراض کیا تو نیٹ تو ماشاءاللہ آپ کے پاس بھی ہے آپ اپنی بات کے حق میں چند احادیث پیش فرما بحث ہی ختم کر دیں پھر جس کو جو پسند آئے اور احسن لگے اسے اس پر عمل کرنے میں آسانی ہو گی اور شک و شبہ ختم ہو جائے گا۔
دوسرا آپکی وضاحت میری سمجھ میں نہیں آئی، دیکھا اور دکھ گیا کا کل سے کیا تعلق ہے۔۔۔۔۔! کیا عربی اتنی ہی محدود زبان ہے کہ سیدھا سا ایک جملہ بھی نہیں ہو پایا۔۔۔۔۔ بس سیدھا سا کہہ دیا جاتا کہ میں آج کے روزے کی، یا میں روزے کی نیت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔!
 
Top