فارسی شاعری می رقصم - شیخ عثمان مروَندی معروف بہ لال شہباز قلندر کی غزل

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
یہ مجھے معلوم نہیں ان کا دیوان میرے پاس موجود نہیں مگر کئی محققین کی رائے میں یہ کلام لعل شہباز قلندر کا ہی ہے
آپ کی بات سے مجھے جستجو ہوئی ہے کی میں دیوانِ قلندر سے تصدیق کروں جب بھی دیوان مہیا ہوا یہ ضرور کروں گا
یاد رکھیے: مجھے بھی اس بات کاقطعی اصرارنہیں کہ یہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی یا بقول دیگراں ہرونی کا کلام ہے یا پھرحضرت لعل شہباز قلندر کا۔
جس کسی کا ہو کلام قابل قدر اور نا قابل فراموش ہے۔ چونکہ ہمارا واسطہ رات دن لکھنے پڑھنے والے لوگو ں سے پڑتا رہتاہے اس لیے ہماری معلومات
معتبر اور اپ ڈیٹیڈ ہونی چاہیے۔ جب کبھی دیوان مہیا ہو تصدیق کر کے ہمیں بھی ضرور مطلع کیجیے گا۔
 
سہون کے ایک قدیمی رہائشی بزرگ سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ غزل لعل شہباز قلندر کی ہی ہے

اس کے مزید تین اشعار معلوم ہو سکے ہیں جو شامل کر رہا ہوں
سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم

سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس بیخودی پر میں قربان جاؤں،کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد ناچتا ہوں
مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم

اے ظاہر دیکھنے والے مدعی !مجھے طعنہ مت مار،میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار ناچتا ہوں
کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم

عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتا ہے،کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ،کبھی کانٹے پر ناچتا ہوں
 

مغزل

محفلین
سہون کے ایک قدیمی رہائشی بزرگ سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ غزل لعل شہباز قلندر کی ہی ہے

اس کے مزید تین اشعار معلوم ہو سکے ہیں جو شامل کر رہا ہوں
سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم
سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس بیخودی پر میں قربان جاؤں،کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد ناچتا ہوں
مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم
اے ظاہر دیکھنے والے مدعی !مجھے طعنہ مت مار،میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار ناچتا ہوں
کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم
عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتا ہے،کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ،کبھی کانٹے پر ناچتا ہوں
جزاک اللہ وجاہت وارثی صاحب سلامت باشید روز بخیر روح سرشار کردی آپ نے ۔۔ واہ مزا آگیا
 
مجھے ایک ایرانی بلاگ پر اس غزل کے کچھ مزید اشعار ملے ہیں۔ پر ان کی صحت کے بارے میں بھی حتماً کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ز عشق دوست هر ساعت درون نار می‌رقصم
گهی بر خاک می‌غلطم گهی بر خار می‌رقصم
گھے بر خاک می غلطم ہے یا کہ خلطم ہے؟؟؟
شدم بدنام در عشقش، بيا ای پارسا اكنون
نمي ترسم ز رسوایی، به هر بازار می‌رقصم

بیا ای مطرب مجلس سماع و ذوق را در ده
که من از شادی وصلش قلندروار می‌رقصم

مرا خلقی همی گويد، گدا چندين چه ميرقصی؟
به دل داريم اسراری ، از آن اسرار می‌رقصم

مرا خلقی ہم ایں گوید گدا چند ایں چہ می رقصی
بہ دل دار ام اسراری، از آں اسرار می رقصم
ماخذ
بہت عمدہ حسان
 

اوشو

لائبریرین
جو مزاج " روحانی بابا " میں آئے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
چوں چرا کی کیا مجال ۔۔۔ محترم اوشو سرکار
بہت دعائیں

لیکن یہ "شیر میانداد۔۔۔۔۔۔" کیا کہوں میں اس بندے کو۔ تلفظ دیکھیں اس کا انداز دیکھیں
دل کر تا ہے بندہ لمیاں پا لے
رہی سہی کسر رقصِ درویش کی مت مارنے والوں نے پوری کر دی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لیکن یہ "شیر میانداد۔۔۔ ۔۔۔ " کیا کہوں میں اس بندے کو۔ تلفظ دیکھیں اس کا انداز دیکھیں
دل کر تا ہے بندہ لمیاں پا لے
رہی سہی کسر رقصِ درویش کی مت مارنے والوں نے پوری کر دی۔
لمیاں پا لے۔
اس کا مطلب کیا ہے ؟ کچھ وضآحت اگر ہو جائے ۔
 
السلام علیکم
مندرجہ بالا کلام میرا بھی انتہائی پسندیدہ ہے اور نصرت فتح علی خان صاحب کی ایک قوالی "تیرے میں عشق نچایا" میں اس کلام کا منظوم پنجابی ترجمہ بھی موجود ہے جو کہ مجھے اردو ترجمہ سے زیادہ پسند آیا، ٹائپ میں نے خود کیا ہے، کوتاہی ہو تو معذرت

پیش خدمت ہے

"نمی دانم" معہ منظوم پنجابی ترجمہ

منظوم پنجابی ترجمہ

پتا نئیں کیوں میں ویکھنڑ ویلے اپڑیں یار دے نچاں
پرے او مان ہے مینوں میں اگے یار دے نچاں

تو نغمہ جد شروع کردا میں اوسے ویلے نچ پینداں
تو جس رنگ وی نچاوندہ ایں میں بدلے یار دے نچاں

تو او قاتل تماشے لئی لہو میرا وہاوندہ ایں
میں او زخمی ہاں جو نیچے تیری تلوار دے نچاں

ذرہ آ ویکھ محبوبا کہ جانبازاں دے جھرمٹ وچ
بہت بے آبرو ہو کے میں وچ بازار دے نچاں

کدی شبنم دا قطرہ نوک کنڈے تے نہیں ٹِکیا
میں او قطرہ ہاں شبنم دا جو اُتے خار دے نچاں

سجن منصور دا عثمانِ ہارونی ہے ناں میرا
بھاویں خِلقت دَوَّے طعنے چڑھ اُتے دار دے نچاں

اصل کلام

ﻧﻤﯽ ﺩﺍﻧﻢ ﮐﮧ ﺁﺧﺮ ﭼﻮﮞ ﺩﻡِ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ
ﻣﮕﺮ ﻧﺎﺯﻡ ﺑﮧ ﺍﯾﮟ ﺫﻭﻗﮯ ﮐﮧ ﭘﯿﺶِ ﯾﺎﺭ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ

ﺗﻮ ﮨﺮ ﺩﻡ ﻣﯽ ﺳﺮﺍﺋﯽ ﻧﻐﻤﮧ ﻭ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﻣﯽ رقصم
ﺑﮧ ﮨﺮ ﻃﺮﺯِ ﮐﮧ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﺎﻧﯿَﻢ ﺍﮮ ﯾﺎﺭ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ

ﺗُﻮ ﺁﮞ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﮧ ﺍﺯ ﺑﮩﺮِ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﺧﻮﻥِ ﻣﻦ ﺭﯾﺰﯼ
ﻣﻦ ﺁﮞ ﺑﺴﻤﻞ ﮐﮧ ﺯﯾﺮِ ﺧﻨﺠﺮِ ﺧﻮﮞ ﺧﻮﺍﺭ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ

ﺑﯿﺎ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﮐﻦ ﮐﮧ ﺩﺭ ﺍﻧﺒﻮﮦِ ﺟﺎﻧﺒﺎﺯﺍﮞ
ﺑﮧ ﺻﺪ ﺳﺎﻣﺎﻥِ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﺳﺮِ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ

ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻗﻄﺮﮦٔ ﺷﺒﻨﻢ ﻧﮧ ﭘﻮﯾَﺪ ﺑﺮ ﺳﺮِ ﺧﺎﺭﮮ
ﻣﻨﻢ ﺁﮞ ﻗﻄﺮﮦٔ ﺷﺒﻨﻢ ﺑﮧ ﻧﻮﮎِ ﺧﺎﺭ ﻣﯽ رقصم

ﻣﻨﻢ ﻋﺜﻤﺎﻥِ ﻣﺮﻭﻧﺪﯼ ﮐﮧ ﯾﺎﺭﮮ ﺷﯿﺦ ﻣﻨﺼﻮﺭﻡ
ﻣﻼﻣﺖ ﻣﯽ ﮐﻨﺪ ﺧﻠﻘﮯ ﻭ ﻣﻦ ﺑﺮ ﺩﺍﺭ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻣﺮﻭﻧﺪﯼ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﻟﻌﻞ ﺷﮩﺒﺎﺯ ﻗﻠﻨﺪﺭ (رحمتہ اللہ علیہ)

صرف اس شعر کا منظوم پنجابی ترجمہ نہیں مل سکا کسی دوست کے پاس ہو تو عنایت کر دے

ﺧﻮﺵ ﺁﮞ ﺭﻧﺪﯼ ﮐﮧ ﭘﺎﻣﺎﻟﺶ ﮐﻨﻢ ﺻﺪ ﭘﺎﺭﺳﺎﺋﯽ ﺭﺍ
ﺯﮨﮯ ﺗﻘﻮﯼٰ ﮐﮧ ﻣﻦ ﺑﺎ ﺟﺒّﮧ ﻭ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﻣﯽ رقصم
 
Top