جون ایلیا ہر خراش نفس ، لکھے جاؤں

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہر خراش نفس ، لکھے جاؤں
بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں​
ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس
روشنی کے برس لکھے جاؤں​
ان بسی بستیوں کا سارا لکھا
ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں​
مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں
بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں​
ہے جہاں تک خیال کی پرواز
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں​
ہیں خس و خار دید ، رنگ کے رنگ
رنگ پر خارو خس لکھے جاؤں​
 
مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں
بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں​
ہے جہاں تک خیال کی پرواز
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں​
کیا کہنے جون صاحب کی کیا بات ہے​
ایک صاحب اسلوب شاعر جس کا اسلوب اس کے ساتھ ہی ختم ہو گیا​
شراکت کا شکریہ​
شاد و آباد رہیں​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں​
بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں​
ہے جہاں تک خیال کی پرواز​
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں​
کیا کہنے جون صاحب کی کیا بات ہے​
ایک صاحب اسلوب شاعر جس کا اسلوب اس کے ساتھ ہی ختم ہو گیا​
شراکت کا شکریہ​
شاد و آباد رہیں​
بالکل جون صاحب اپنے مزاج کے شاعر تھے۔۔ انکا اسلوب سب سے منفرد تھا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے :)
 
بالکل جون صاحب اپنے مزاج کے شاعر تھے۔۔ انکا اسلوب سب سے منفرد تھا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے :)
شاید آپ کو معلوم ہو جون صاحب نے 17 سال ایک کمرے میں کتابوں کے ساتھ گزار دئے اور کثرت مطالعہ سے اس کی دماغی حالت پر بھی فرق پڑ گیا سنی سنائی بات ہے اس میں کہاں تک صداقت ہے احباب ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شاید آپ کو معلوم ہو جون صاحب نے 17 سال ایک کمرے میں کتابوں کے ساتھ گزار دئے اور کثرت مطالعہ سے اس کی دماغی حالت پر بھی فرق پڑ گیا سنی سنائی بات ہے اس میں کہاں تک صداقت ہے احباب ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں
جی اتنے سال کی صداقت پر تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر علامہ تھے۔ عربی، اردو فارسی کے علاوہ عبرانی پر بھی عبور حاصل تھا۔ بہت وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ جسکا ادراک ان کی نثر اور شعر دونوں سے ہوتا ہے۔ خود اپنے مشاعرے میں فرماتے ہیں کہ
"مجھے روشنی سے ڈر لگنے لگا تھا۔ کمرے میں بیٹھا رہتا تھا۔ نفسیاتی مریض بن گیا تھا میں۔ اور آپ اس شاعر کا کلام سننے کو آگئے ہیں جسکی شاعری کی کتاب کل چھپ رہی ہے۔ اور ابھی اس نے خود بھی نہیں دیکھی۔" اور اک اور جگہ فرماتے ہیں کہ
"میری ساری عمر رائیگاں گئی۔ رائیگاں کیوں نہ جاتی۔ ایسا آدمی جس کو اس کے باپ نے یہی سبق پڑھایا ہو کہ علم بڑی دولت ہے۔ اس کی عمر تو رائیگاں ہی جائے گی۔"
یہی انداز ان کے اشعار سے جابجا چھلکتا نظر آتا ہے۔
شہر غدار جان لے کہ تجھے​
ایک امروہوی سے خطرہ ہے​
اور​

جون ہی تو ہے جون کے درپے​
میر کو میر ہی سے خطرہ ہے​
 
جی اتنے سال کی صداقت پر تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر علامہ تھے۔ عربی، اردو فارسی کے علاوہ عبرانی پر بھی عبور حاصل تھا۔ بہت وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ جسکا ادراک ان کی نثر اور شعر دونوں سے ہوتا ہے۔ خود اپنے مشاعرے میں فرماتے ہیں کہ
"مجھے روشنی سے ڈر لگنے لگا تھا۔ کمرے میں بیٹھا رہتا تھا۔ نفسیاتی مریض بن گیا تھا میں۔ اور آپ اس شاعر کا کلام سننے کو آگئے ہیں جسکی شاعری کی کتاب کل چھپ رہی ہے۔ اور ابھی اس نے خود بھی نہیں دیکھی۔" اور اک اور جگہ فرماتے ہیں کہ
"میری ساری عمر رائیگاں گئی۔ رائیگاں کیوں نہ جاتی۔ ایسا آدمی جس کو اس کے باپ نے یہی سبق پڑھایا ہو کہ علم بڑی دولت ہے۔ اس کی عمر تو رائیگاں ہی جائے گی۔"
یہی انداز ان کے اشعار سے جابجا چھلکتا نظر آتا ہے۔
شہر غدار جان لے کہ تجھے​
ایک امروہوی سے خطرہ ہے​
اور​

جون ہی تو ہے جون کے درپے​
میر کو میر ہی سے خطرہ ہے​
ان کے بڑے بھائی ریئس امروہی فلسفہ منطق نفسیات کے بہت بڑے عالم تھے مطالعہ ان کا بھی بہت وسیع تھا مگر وہ اس کی وسعت اور گہرائی کو پا گئے اور جون اس میں ڈوب گئے یہ ہی ان دونوں بھائیوں کی کہانی ہے اور دونوں میں فرق بھی یہ ہی ہے
 
Top