نوٹ :محمد اسامہ بھائی سر سری کے شکریے کیساتھ جنھوں نے اسکے نوک پلک سنوار کر محفل میں شائع ہونے لائق بنایا ۔
محمد علم اللہ اصلاحی
چھوٹا سدھیر
جمعدار بے چارہ نو بجے ہی جگا گیا تھا۔ اس نے کمرے میں جھاڑو دی اور پوچھا​
بھی کیا ، لیکن میں گھوڑے بیچ کرسوتا رہا۔ فجر کی نماز کے ساتھ ہی ناشتا بھی گول کیا۔ آج اتوار کا دن جو تھا، مگر کیا میں اتوار کے علاوہ عام دنوں میں جلدی اٹھ جاتا ہوں۔​
شاید نہیں!!​
یا اللہ! میں اس ان دنوں اس قدر سست اور کاہل کیوں ہوتا جا رہا ہوں۔دہلی میں رہنے کے دوران میری زندگی میں اس قدر جمود کبھی نہیں رہا۔ میں خود پریشان ہوں، مجھے کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔​
جمعدار پورے کمرے کی صفائی کرکے فارغ ہو گیا۔​
میں دیر تک اپنے بارے میں اور اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ اسی دوران نہ جانے کب دوبارہ آنکھ لگ گئی اور اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں میری کھڑکی سے گزر کر کمرے کے اندر داخل ہونے لگیں۔​
اٹھا تو دیکھا کمرے میں اخبار پڑا ہے۔ پورا کمرا جو کل تک عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔ ترتیب اور صفائی کے لحاظ سے چما چم ہو رہا تھا۔​
غسل خانے میں منہ دھونے گیا تو جمعدار وہاں اپنے کام میں منہمک تھا۔​
”ابھی ذرا انتظار کیجیے صاحب جی! بس تھوڑی دیر اور لگے گی ، بڑی مہربانی جی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔​
میں اپنے کمرے میں واپس آ گیا اور منہ دھوئے بنا ہی اخبار پڑھنے لگ گیا، لیکن آج مجھے کوئی خبر سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔​
پتا نہیں کیوں، میرا ذہن بار بار اس جمعدار ہی کی طرف جا رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ کس قدر پیار ہے اسے اپنے کام سے، واہ رے انہماک اور دل چسپی۔​
اس سے پہلے بھی ایک جمعدار آتا تھا جھاڑو لگانے، لیکن وہ عجیب انسان تھا۔ اگر اسے ایک مرتبہ کہہ دیا جاتا: ”ارے چھوڑو یار!“ تو وہ چھوڑ کر چلا جاتا اور کبھی کبھی تو ہفتوں جھاڑو نہیں لگتی، اسے بلایا جاتا، لیکن وہ کنی کترا جاتا۔​
لڑکے اسے گالیاں دیتے، برا بھلا کہتے، شاید ہاسٹل انتظامیہ نے بھی اسی لیے اسے ہر کمرے کے طالب علم سے رجسٹر پر روزانہ دستخط کرانے کے لیے بھی کہا ہوا تھا کہ اس سے اس بات کی تصدیق ہو کہ اس نے سچ مچ جھاڑو لگائی ہے۔​
مجھےیاد آنے لگا کہ کبھی کبھی تو وہ جھاڑو ہی نہیں لگاتا تھا اور کہتا:​
”بھائی صاحب! دستخط کر دونا!!“​
میں مسکراتا اور تکیے کے نیچے سے قلم نکال جھٹ دستخط کر دیتا یا پھر کبھی کہہ دیتا:​
”ابھی سونے دو یار، بعد میں کرا لینا۔“​
اور ایک یہ ’’چھوٹا سدھیر ‘‘ہے جو بلا ناغہ آتا ہے۔کبھی کبھی کاہلی میں اگر میں یہ کہہ بھی دوں:​
”چھوڑو یار! کل آکر کرجانا۔“​
تو سدھیر کہتا ہے:​
”صاحب جی! آج کا کام کل پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ آپ صرف دروازہ کھول دو، میں جھاڑو لگا کر چلا جاؤنگا۔“​
مجبورًا میں اٹھ کر دروازہ کھول دیتا اور وہ خوش دلی سے اپنا کام کرکے چلا جاتا ہے۔ نہ اس کے پاس کوئی رجسٹر ہے اور نہ ہی وہ مجھے دستخط کے لیے کہتا ہے۔​
”کیا یہ اسی وجہ سے مجھے عزیز ہے؟“ میں اکثر خود سے پوچھتا ہوں۔​
۔۔۔۔


نیلم
محمد بلال اعظم
سیدہ شگفتہ
تعبیر
قیصرانی
مہ جبین
زبیر مرزا
تلمیذ
حسان خان
نیرنگ خیال
شمشاد
باباجی
انیس الرحمن
عائشہ عزیز
عاطف بٹ
عسکری
ملائکہ
محسن وقار علی
ابن سعید
عینی شاہ
کاشف عمران
حسیب نذیر گل
مقدس
الف عین
منیب احمد فاتح
محمد خلیل الرحمٰن
محمد یعقوب آسی
محمداحمد
عبدالروف اعوان
انجم خان
محمد اسامہ سَرسَری
 

نایاب

لائبریرین
اک اچھی سبق آموز تحریر
جو اپنے کام سے مخلص ہوتے ہیں زمانہ انہیں یاد کرتا ہے ۔۔۔۔۔
 
اک اچھی سبق آموز تحریر
جو اپنے کام سے مخلص ہوتے ہیں زمانہ انہیں یاد کرتا ہے ۔۔۔ ۔۔

نایاب بھائی جان شکریہ تبصرہ کرنے میں آپ ہمیشہ بازی لے جاتے ہیں ۔یہ میرے لئے سرمایہ افتخار ہے ۔کمیوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی کیا کیجئے اس سے مجھے مزید بہتر لکھنے کا گر معلوم ہوگا ۔
 
میری کیا اوقات کہ نوک پلک درست کروں۔:)
ماشاءاللہ اچھا لکھنے لگے ہو۔
اللہ تعالیٰ نظربد سے محفوظ رکھے۔
اور تمھاری ”سستی“ بھی دور کرے۔:)(جیسا کہ تحریر سے نظر آرہا ہے)
 
مختصر سی مگر گہرے تاثر کی حامل ایک عمدہ اور مصنف کے نام کی طرح اصلاحی کہانی ہے۔
مگر اس میں زبان و بیان کی غلطیاں بہت ہیں، چند ایک کی نشان دہی کرتا چلوں۔
نوک و پلک (نوک پلک)، لیکن میں گھوڑا بیچ کرسوتا رہا (گھوڑے بیچ کر)، میں اس قدر ان دنوںسست اور کاہل کیوں (میں ان دنوں اس قدر)، دہلی میں رہنے کے دوران میں (دوران : یہاں میں زاید ہے)، میری زندگی کے اندر (زندگی میں)، دیر تککبھی اپنے بارے میں اور کبھی اس کے بارے میں سوچتا رہا ( دیر تک اپنے بارے میں اور اس کے بارے میں سوچتا رہا)، اسی درمیان (اسی دوران)، پورا کمرا جو کل تک عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔ چما چم ہو رہا تھا۔ (عجیب منظر کس لحاظ سے؟ ترتیب اور صفائی کے لحاظ سے؟ اس کا مختصر سا ذکر تو ہونا چاہئے)۔ وہاں بھی جمعدار اپنے کام میں منہمک صفائی کرنے میں لگا تھا۔ (بھی زائد ہے: اپنے کام میں منہمک تھا، یا صفائی کر رہا تھا) ۔۔۔ کہانی کے اختتام تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
 
استاذ محترم بہت بہت شکریہ
مگر یہ کیا ہے ؟
کہانی کے اختتام تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
سمجھ میں نہیں آیا ۔
 
نوٹ :استاذ محترم جناب
محمد یعقوب آسی
صاحب کی توجہ دہانی اور اصلاح کے بعد دوبارہ قارئین کی نذر ہے ۔
چھوٹا سدھیر
محمد علم اللہ اصلاحی
جمعدار بے چارہ نو بجے ہی جگا گیا تھا۔ اس نے کمرے میں جھاڑو دی اور پوچھا بھی کیا ، لیکن میں گھوڑے بیچ کرسوتا رہا۔ فجر کی نماز کے ساتھ ہی ناشتہ بھی گول کیا۔ آج اتوار کا دن جو تھا، مگر کیا میں اتوار کے علاوہ عام دنوں میں جلدی اٹھ جاتا ہوں؟ شاید نہیں!! یا اللہ! میں ان دنوں اتنا کاہل کیوں ہوتا جا رہا ہوں۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا ۔ میں خود پریشان ہوں، مجھے کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ دہلی میں رہنے کے دوران تو میرے معمولاتِ زندگی میں اتنا جمود کبھی نہیں رہا۔

جمعدار پورے کمرے کی صفائی کرکے فارغ ہو گیا۔ میں دیر تک اپنے بارے میں اور اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ نہ جانے کب دوبارہ آنکھ لگ گئی اور اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں کھڑکی کے راستے کمرے کے اندر داخل ہونے لگیں۔ دن کے بارہ بج رہے تھے ۔ پورافرش چم چم کر رہا تھا ۔ اخبار سلیقے سے کرسی پر رکھا تھا ۔ یہی کمرہ جو کل تک کاغذ پتروں کے ڈھیر، بے ترتیب سامان ، بکھرےجوتے چپل اور بے ترتیبی کے بیسیوں مناظر پیش کر رہا تھا۔ سلیقے کا شاہکار بنا ہوا تھا۔ میں عالمِ حیرت و استعجاب میں منہ دھونے گیا تو غسل خانے میں جمعدار اپنے کام میں منہمک تھا۔ وہ دیوار میں لگے آئینہ کو صاف کر رہا تھا۔ شاید اس نے آئینہ میں میرا عکس دیکھ لیا ۔

”ابھی ذرا انتظار کیجیے صاحب جی! بس تھوڑی دیر اور لگے گی ، بڑی مہربانی جی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں کمرے میں واپس آ گیا اور منہ دھوئے بنا ہی اخبار پڑھنے لگ گیا، لیکن آج کوئی خبر میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ پتا نہیں کیوں، خیال بار بار جمعدار کی طرف ہی جا رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ کس قدر پیار ہے اسے اپنے کام سے، واہ رے انہماک اور دل چسپی!۔

اس سے پہلے بھی ایک جمعدار آتا تھا جھاڑو لگانے، لیکن وہ عجیب شخص تھا۔ اگر اسے ایک مرتبہ کہہ دیا جاتا: ”ارے چھوڑو یار!“ تو وہ چھوڑ کر چلا جاتا اور یوں تو ہفتوں جھاڑو نہ لگتی، اسے بلایا جاتا، تو وہ کنی کترا جاتا۔ لڑکے اسے گالیاں دیتے، برا بھلا کہتے، شاید ہاسٹل انتظامیہ نے بھی اسی لیے اسے ہر کمرے کے طالب علم سے رجسٹر پر روزانہ دستخط کرانے کے لیے کہا ہوا تھا، اس بات کی تصدیق ہو کہ اس نے سچ مچ جھاڑو لگائی ہے۔ یوں بھی ہوتا کہ جھاڑو ہی نہیں لگاتا تھا اور کہتا: ”بھائی صاحب! دستخط کر دونا!!“ میں مسکراتا اور تکیے کے نیچے سے قلم نکال دستخط کر دیتا یا کہہ دیتا: ”ابھی سونے دو یار، بعد میں کرا لینا۔“ لیکن وہ ضد کرنے لگتا اور مجھے دستخط کرنے پڑتے۔

اور ایک یہ ’’چھوٹا سدھیر‘‘۔ مجال ہے کبھی اپنی ذمہ داری سے غافل ہو۔ بلا ناغہ آتا ہے۔کبھی کبھی کاہلی میں اگر میں یہ کہہ بھی دوں: ”چھوڑو یار! کل آکر کرجانا۔“
تو کہتا ہے: ”صاحب جی! آج کا کام کل پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ آپ صرف دروازہ کھول دیں، میں جھاڑو لگا کر چلا جاؤنگا۔“ خود پر جبر کرتے ہوئے، نہ چاہتے ہوئے بھی میں اٹھ کر دروازہ کھول دیتا اور وہ خوش دلی سے اپنا کام کر کے چلا جاتا ہے۔

نہ تو اس کے پاس کوئی رجسٹر ہے اور نہ وہ مجھے دستخط کے لیے کہتا ہے۔ اسے کہنے لکھوانے کی ضرورت ہی کہاں ہے!
 
نوٹ :استاذ محترم جناب
محمد یعقوب آسی
صاحب کی توجہ دہانی اور اصلاح کے بعد دوبارہ قارئین کی نذر ہے ۔
چھوٹا سدھیر
محمد علم اللہ اصلاحی
جمعدار بے چارہ نو بجے ہی جگا گیا تھا۔ اس نے کمرے میں جھاڑو دی اور پوچھا بھی کیا ، لیکن میں گھوڑے بیچ کرسوتا رہا۔
جمعدار نے مجھے نو بجے ہی جگا دیا تھا،اس اثنا میں وہ کمرے کی صفائی بھی کر چکا تھا،
فجر کی نماز کے ساتھ ہی ناشتہ بھی گول کیا۔ آج اتوار کا دن جو تھا، مگر کیا میں اتوار کے علاوہ عام دنوں میں جلدی اٹھ جاتا ہوں؟ شاید نہیں!! یا اللہ! میں ان دنوں اتنا کاہل کیوں ہوتا جا رہا ہوں۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا ۔ میں خود پریشان ہوں، مجھے کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ دہلی میں رہنے کے دوران تو میرے معمولاتِ زندگی میں اتنا جمود کبھی نہیں رہا۔

جمعدار پورے کمرے کی صفائی کرکے فارغ ہو گیا۔
جمعدار کمرے کی صفائی کر چکا تھا۔
میں دیر تک اپنے بارے میں اور اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ نہ جانے کب دوبارہ آنکھ لگ گئی اور اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں کھڑکی کے راستے کمرے کے اندر داخل ہونے لگیں۔ دن کے بارہ بج رہے تھے ۔ پورافرش چم چم کر رہا تھا ۔ اخبار سلیقے سے کرسی پر رکھا تھا ۔ یہی کمرہ جو کل تک کاغذ پتروں کے ڈھیر، بے ترتیب سامان ، بکھرےجوتے چپل اور بے ترتیبی کے بیسیوں مناظر پیش کر رہا تھا۔ سلیقے کا شاہکار بنا ہوا تھا۔ میں عالمِ حیرت و استعجاب میں منہ دھونے گیا تو غسل خانے میں جمعدار اپنے کام میں منہمک تھا۔ وہ دیوار میں لگے آئینہ کو صاف کر رہا تھا۔ شاید اس نے آئینہ میں میرا عکس دیکھ لیا ۔

”ابھی ذرا انتظار کیجیے صاحب جی! بس تھوڑی دیر اور لگے گی ، بڑی مہربانی جی۔“
تھوڑی دیر اور انتظار کیجیے صاحب جی،بڑی مہربانی
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں کمرے میں واپس آ گیا اور منہ دھوئے بنا ہی
اخبار پڑھنے لگ گیا،
اخبار پڑھنے لگا
لیکن آج کوئی خبر میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ پتا نہیں کیوں، خیال بار بار جمعدار کی طرف ہی جا رہا تھا۔میں سوچنے لگا کہ
لیکن میر ا دھیان خبروں کے بجائے جمعدار کی طرف تھا میں نے اکتا کر اخبار رکھ دیا اور سوچنے لگا
کس قدر پیار ہے اسے اپنے کام سے، واہ رے انہماک اور دل چسپی!۔

اس سے پہلے بھی ایک جمعدار آتا تھا جھاڑو لگانے، لیکن وہ عجیب شخص تھا۔ اگر اسے ایک مرتبہ کہہ دیا جاتا: ”ارے چھوڑو یار!“ تو وہ چھوڑ کر چلا جاتا اور یوں تو ہفتوں جھاڑو نہ لگتی، اسے بلایا جاتا، تو وہ کنی کترا جاتا۔ لڑکے اسے گالیاں دیتے، برا بھلا کہتے، شاید ہاسٹل انتظامیہ نے بھی اسی لیے اسے ہر کمرے کے طالب علم سے رجسٹر پر روزانہ دستخط کرانے کے لیے کہا ہوا تھا، اس بات کی تصدیق ہو کہ اس نے سچ مچ جھاڑو لگائی ہے۔ یوں بھی ہوتا کہ جھاڑو ہی نہیں لگاتا تھا اور کہتا: ”بھائی صاحب! دستخط کر دونا!!“ میں مسکراتا اور تکیے کے نیچے سے قلم نکال دستخط کر دیتا یا کہہ دیتا: ”ابھی سونے دو یار، بعد میں کرا لینا۔“ لیکن وہ ضد کرنے لگتا اور مجھے دستخط کرنے پڑتے۔

اور ایک یہ ’’چھوٹا سدھیر‘‘۔ مجال ہے کبھی اپنی ذمہ داری سے غافل ہو۔ بلا ناغہ آتا ہے۔کبھی کبھی کاہلی میں اگر میں یہ کہہ بھی دوں: ”چھوڑو یار! کل آکر کرجانا۔“
تو کہتا ہے: ”صاحب جی! آج کا کام کل پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ آپ صرف دروازہ کھول دیں، میں جھاڑو لگا کر چلا جاؤنگا۔“ خود پر جبر کرتے ہوئے، نہ چاہتے ہوئے بھی میں اٹھ کر دروازہ کھول دیتا اور وہ خوش دلی سے اپنا کام کر کے چلا جاتا ہے۔

نہ تو اس کے پاس کوئی رجسٹر ہے اور نہ وہ مجھے دستخط کے لیے کہتا ہے۔ اسے کہنے لکھوانے کی ضرورت ہی کہاں ہے!
 
فقرے مختصر اور چست رکھا کریں غیر ضروری طوالت سے گریز کیا کریں

ابھی سیکھ رہے ہیں ۔انشائ اللہ ۔آئندہ ضرور خیال رکھیں گے ۔مجھے خوشی ہے کہ محفل میں کچھ بھی شائع کرتے ہی ۔ اس کو اور بھی بہتر سے بہتر اور مزید نکھار لانے کے لئے آپ مخلصین توجہ دہانی اور ہمت افزائی فرماتے رہتے ہیں ۔اللہ سب کو جزائے خیر دے ۔اور صحت و عافیت سے نوازے ۔(آمین)
 
Top