کیا قومی ، سرکاری اور علاقائی زبانیں علیحدہ ہیں ؟

یہ موضوع دراصل میرے اور جہانزیب کے درمیان جاری ایک تیز و تند بحث جاری ہے جس کا بنیادی موضوع یہ ہے

کیا قومی زبان ( national language) کا وجود آج کے دور میں بھی ہے یا اب کسی ملک میں موجود بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جاتا ہے؟

کیا قومی اور سرکاری زبان(official language) میں فرق موجود ہے یا اب سرکاری زبان کو ہی قومی زبان کہا جائے گا؟

کیا علاقائی زبانوں (regional languages) کو علاقائی زبانیں کہنا چاہیے یا ایک قوم کی زبانیں ہونے کے ناطے قومی زبانیں کہنا چاہیے ؟

یہ تو ہو گئے بنیادی سوالات اب کچھ سوالات جن کے جوابات سے کچھ شماریات پر بھی روشنی پڑے گی۔

امریکہ کی قومی اور سرکاری زبان کونسی ہے ؟

انڈیا کی قومی زبان کونسی ہے ؟

جرمنی کی قومی زبان کونسی ہے ؟

کینیڈا کی قومی زبان کونسی ہے ؟

چین کی قومی زبان کونسی ہے ؟

میکسیکو کی قومی زبان کونسی ہے؟
 

شکریہ فاتح، میں اس صفحہ پر گیا تھا اور یہاں سے کچھ حقائق بھی پیش کیے مگر جیسا کہ وہاں بھی لکھا ہے کہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ سرکاری اور قومی زبان میں تفریق ہر جگہ ممکن نہیں رہتی اور اکثر جگہ اسے ایک دوسرے کے متبادل بھی لیا جاتا ہے۔

اس پر مجھے تفصیلی آراء چاہیے تاکہ گفتگو کو آگے بڑھایا جا سکے اور مسئلہ کو مختلف زبانوں اور ممالک کے حساب سے سمجھا جا سکے۔
 
اب تک ویکیپیڈیا ہی معلومات کا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔ وہاں سے قومی اور سرکاری زبان پر اس طرح سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔


قومی اور سرکاری زبان کو ایسے دو تصورات اور قانونی زمرہ جات کے طور پر سمجھا جاتا ہے جس میں معنی کی حدود اکثر آپس میں باہم مل کاتی ہیں یا کبھی انہیں دانستہ علیحدہ رکھا جاتا ہے۔
سرکاری زبان کا درجہ ایک قومی ریاست ہی عموما دیتی ہے مگر شاذ و نادر غیر ریاستی قوم کی زبان بھی قومی زبان تصور کر لی جاتی ہے۔

چند زبانیں مقبولیت کی بنا پر "قومی زبان" کہلائی جاتی ہیں جبکہ کچھ زبانیں اعلی سرکاری شناخت حاصل کر لیتی ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح، میں اس صفحہ پر گیا تھا اور یہاں سے کچھ حقائق بھی پیش کیے مگر جیسا کہ وہاں بھی لکھا ہے کہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ سرکاری اور قومی زبان میں تفریق ہر جگہ ممکن نہیں رہتی اور اکثر جگہ اسے ایک دوسرے کے متبادل بھی لیا جاتا ہے۔

اس پر مجھے تفصیلی آراء چاہیے تاکہ گفتگو کو آگے بڑھایا جا سکے اور مسئلہ کو مختلف زبانوں اور ممالک کے حساب سے سمجھا جا سکے۔
یہ گفتگو تو لسانیات کے ماہرین کو کرنی چاہیے اور یہاں شاید سوائے دوست کے باقی سب کو اس موضوع کی الف بے بھی معلوم نہیں۔ ایسے احباب کی گفتگو کو جھک ماری سے بڑھ کر کیا اہمیت حاصل ہو گی؟
 
یہ گفتگو تو لسانیات کے ماہرین کو کرنی چاہیے اور یہاں شاید سوائے دوست کے باقی سب کو اس موضوع کی الف بے بھی معلوم نہیں۔ ایسے احباب کی گفتگو کو جھک ماری سے بڑھ کر کیا اہمیت حاصل ہو گی؟

لسانیات کی بحث میں نہیں جا رہے بلکہ جو بحث جاری ہے اس یہاں لکھ کر باقی احباب کی رائے جاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔

شاکر کو ٹیگ کرکے بالکل صحیح سمت میں گفتگو کو موڑا ہے ، میرے ذہن سے اہم ترین آدمی ہی نکل گیا تھا۔ :)

بات صرف قومی اور سرکاری زبان تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ نکتہ آغاز ہے ۔ اصل بحث مقامی زبانوں اور ان کی اہمیت بالمقابل قومی اور سرکاری زبان کے ہے۔ ابھی میں توقع کر رہا ہوں کہ شاید جہانزیب اپنے دلائل خود لکھے ورنہ پھر میں اس کی طرف سے ہی لکھنا شروع کروں گا۔
 

ماما شالا

محفلین
قومی اور سرکاری زبان میں فرق سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ خود ایک زبان کی حدبندی یا لمٹ کا تعین ممکن ہے یا نہیں ؟ دراصل ایسا کرنا تقریبا ناممکن ہے۔
کیونکہ زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے انسان اپنا مافی ضمیر دوسروں تک پہنچاتا ہے، گویا زبان یا لینگویج انسان کے معاشرتی جاندار ہونے کا بنیادی ذریعہ ہے۔

زبان کی اس حیثیت کو طے کرنے کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا زبان کسی حد بندی کی تابع ہوتی ہے؟
نہیں ۔
زبان بہت جلد نفوذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ معاشرتی رابطوں میں زبان محض ذریعہ اظہار نہیں بلکہ اس رابطے کے دوران منتقل بھی ہوتی ہے۔ اور اسی وجہ سے زبان کو ایک مخصوص حد اور قاعدے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔
جب بھی کسی زبان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سب سے نمایاں یہی بات ہوگی کہ مختلف زبانوں اور لہجوں کے ملنے سے ایک زبان میں مسلسل تبدیلی اور ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔
چنانچہ ہر زبان کی طرح علاقائی یا قومی زبان کے خدوخال از خود ترتیب پاتے رہتے ہیں اور استعمال کے اعتبار سے ہی زبان کو کسی جگہ استعمال ہونے والی زبان مانا جاتا ہے۔

البتہ سرکاری زبان وہ ہوتی ہے جو کسی قانون یا ضابطے کے تحت کسی ملک کے سرکاری معاملات میں مستعمل ہو۔

یہ زبان کی خصوصیت اور سوال نمبر دو کا جواب تصور ہوگا
 
تلاش پر Ralph Fasold کی کتاب The Sociolinguistics of Society میں سے یہ اقتباس ملا ہے۔

قومی اور سرکاری زبان میں فرق کو Fasold نے اس طرح سے واضح کیا ہے :

سرکاری زبانیں بنیادی طور پر قومی وجوہات کی بنا پر وجود میں آتی ہیں جن کا تعلق روزمرہ کے عملی انتظامی امور سے ہوتا ہے۔
قومی منصب قومی تحریک ، متحد اور علیحدگی پسند عوامل ، نشاة ثانیہ سے ربط اور سند سے متعلق ہوتا ہے ۔

Fasold آگے چل کر یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ قومی منصب میں چھ سماجی لسانی وصف موجود ہونے چاہیے:

زبان ایک استعارہ ہے قومی یکجہتی کا اکثر لوگوں کے لیے۔

یہ کثرت سے روزمرہ اور غیر سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہو مگر لازما گھر یلو زبان نہ ہو۔

ایک خاصا بڑا حصہ آبادی کا اس زبان کو روانی سے بولتا ہو۔

اس قومی زبان کا کوئی قابل ذکر متبادل موجود نہ ہو اگرچہ دوسری زبانیں علاقائی سطح پر گروہی خدمات سرانجام دے رہی ہوں۔

زبان مستند ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین بھی محسوس ہونی چاہیے۔

زبان روشن ماضی کی ایک کڑی نظر آنی چاہیے۔

Fasold کے مطابق اگر زبان بطور قومی زبان ان میں سے کسی ایک اصول پر بھی پوری نہ اتری تو وہ شاید قومی منصب حاصل نہ کر سکے۔
 

دوست

محفلین
ساری زبانیں قومی زبانیں ہوتی ہیں جی۔ سرکاری زبان وہ ہوتی ہے جو سرکار چن کر اس کی معیار بندی کر لیتی ہے۔ کبھی یہ معیاری زبان ایک لہجہ ہوتی ہے جیسے بی بی سی کی انگریزی برطانیہ کے کئی علاقائی لہجوں میں سے ایک تھا، شاہی خاندان کا لہجہ ہونے کی وجہ سے اسے معیاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ ساری لکھت پڑھت اسی میں ہوتی ہے۔ کبھی کوئی ایک زبان سرکاری زبان کے طور پر چن لی جاتی ہے۔ جیسے اردو کے ساتھ کیا گیا۔ اردو، جو ہندوستان کے وسطی صوبوں کی مادری زبان تھی لیکن جسے سیاسی وجوہات کی بناء پر ایک نئے ملک پاکستان کی علاقائی زبانوں پر فوقیت دی گئی۔ اس کی کچھ حد تک معیار بندی کی گئی اور آج اسے لے کر 'قومی زبان' کی ڈفلی بجائی جاتی ہے۔ حالانکہ ابھی تک پنجاب میں بھی اگر بات کریں تو چند بڑے شہروں میں ایلیٹ کلاس اور مڈل کلاس نے پنجابی سے منسلک منفی رویوں کے باعث اپنے بچوں کو یہ زبان سکھانا شروع کی ہے۔ لیکن پنجابی اس ملک کی سب سے بڑی زبان ہے، اس کے بعد سندھی، پشتو، بلوچی، ہندکو، سرائیکی وغیرہ وغیرہ ہیں۔
زبان کسی کی شناخت بناتی ہے۔ کراچی میں لسانی تعصب اسی سیاسی اور سماجی شناخت سے کھلواڑ کا شاخسانہ ہے۔ سرکاری سطح پر جب کوئی زبان اپنا لی جائے تو اس کو "نیشن اسٹیٹ" کے مغربی تصور کے مطابق "ایک ملک، ایک قوم، ایک زبان" کے سیاسی مقصد کے تحت فروغ دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کہا جاتا ہے حالانکہ قرائن، حالات اور تاریخ ہر چیز چیخ چیخ کر فریاد کناں ہے کہ اس ملک میں درجنوں قومیں بستی ہیں۔ لیکن ان کی زبانوں کو ہمیشہ اگنور کیا گیا۔ پشتو اور سندھی بولنے والوں کے انتہائی حد تک لسانی محبت یا تعصب اور لسانی فخر نے انہیں اپنی زبانوں کے لیے جد و جہد کرنے پر مجبور کیا۔ لیکن پنجابیوں نے ہمیشہ اپنی ماں بولی کے مقابلے میں اردو کو ترجیح دی۔ تقسیم سے پہلے پنجابی سکھوں کی زبان تھی اور اردو مسلمانوں کی، اور پھر اردو قومی زبان ہو گئی اور پنجابی گالی گلوچ، جگت بازی اور گھٹیا بازاری پنے کی زبان ہو گئی۔
بھارت میں 22 سرکاری زبانیں ہیں۔ وہاں لسانی گروہ ڈنڈا دے کر اپنا لسانی حق لیتے ہیں۔ ان کے سو کے نوٹ پر 22 زبانوں میں "ایک سو روپیہ" لکھا ہوتا ہے۔
کینیڈا میں 2 سرکاری زبانیں ہیں انگریزی اور فرانسیسی۔ فرانسیسی اقلیت کی زبان ہے لیکن انہوں نے اپنا حق لیا اور انہیں ان کا حق دیا گیا۔
امریکہ کے بعض علاقوں میں اتنے ہسپانوی لاطینی آباد ہیں کہ وہ امریکہ لگتا ہی نہیں میکسیکو لگتا ہے، جس کی وجہ سے ان ریاستوں / علاقوں میں بھی اقلیتی قومی زبانوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
نیشن اسٹیٹ والی قومی زبان ایک سیاسی الوژن ہے جس کا مقصد صرف اور صرف سیاسی مفادات کا حصول ہے۔ پاکستان میں صرف ایک زبان، جو رابطے کی زبان ہونا تھی کو "قومی زبان" کا ٹائٹل دے کر اسے مقدس گائے بنا دیا گیا۔ اور جو ڈنڈا دے کر اپنا لسانی حق لے سکا لے گیا ورنہ سرکار سائیڈ پر بیٹھ گئی۔
آج تک کسی نے کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا کہ یہ ملک کثیر السانی ہے۔ اس ملک میں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن میں سے کئی موت کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایک لسانی پالیسی تشکیل دی جائے۔ جس میں ہر زبان کو اس کے جائز حقوق دئیے جائیں۔ تمام زبانوں کی تدریس کا بندوبست کیا جائے۔ زبان کے فروغ کے نام پر ہر سال چند لاکھ کی گرانٹ، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی (جو مٹھی بھر لوگ ہی کرتے ہیں)، سی ایس ایس میں اچھے نمبروں کے حصول کے لیے پنجابی جیسے پرچے کا انتخاب۔ یہ ہے ہماری لسانی پالیسی۔ اور اگر کوئی لسانی حقوق کی بات کر دے اور وہ پاکستان کا دشمن، اسلام کا دشمن، غدار اور امریکی ایجنٹ بن جاتا ہے۔
یہ ہے اس ملک کا حال۔
 

arifkarim

معطل
کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایک لسانی پالیسی تشکیل دی جائے۔ جس میں ہر زبان کو اس کے جائز حقوق دئیے جائیں۔ تمام زبانوں کی تدریس کا بندوبست کیا جائے۔
پھر شاید آپنے تحریک انصاف کی تعلیمی پالیسی نہیں دیکھی؟ اسمیں مڈل تک تعلیم مادری زبان میں سکھانے پر زور دیا گیا ہے۔
 

arifkarim

معطل
امریکہ کی قومی اور سرکاری زبان کونسی ہے ؟
انگریزی۔


انڈیا کی قومی زبان کونسی ہے ؟
کوئی نہیں۔ علاقائی زبانیں بہت سی ہیں۔


جرمنی کی قومی زبان کونسی ہے ؟
جرمن


کینیڈا کی قومی زبان کونسی ہے ؟
کوئی نہیں۔ فرانسیسی اور انگریزی سرکاری زبانیں ہیں۔


چین کی قومی زبان کونسی ہے ؟
چینی، بیجنگ والی۔


میکسیکو کی قومی زبان کونسی ہے؟
اسپینش۔ گو کہ علاقائی زبانیں بہت سی ہیں۔

بحوالہ:
http://en.wikipedia.org/wiki/National_language#National_and_official_languages
 
زبان ہو یا بولی، باہمی ربط و تعلق کا ذریعہ و آلہ ہوتی ہیں مگر ان دونوں کی اصطلاح الگ الگ ہے چنانچہ جس کلام کے الفاظ، قواعد و انشاء یعنی گرائمر کے پابند ہوں اسے زبان اور جسکے آزاد ہوں اسے بولی کہتے ہیں​
اگرچہ عرف عام میں بولی کو بھی زبان کہہ دیا جاتا ہے مگر زبان و بولی دونوں باہم منفرد ہیں زبان معروف عام ہوتی ہے اور بولی کی معرفت مخصوص افراد تک محدود ہوتی ہے۔​
زبان مختلف لہجوں کی وسعت رکھتی ہے اور عرف عام میں اس کے ہر لہجہ پر ایک منفرد بولی کا اطلاق متصور ہے جیسا کہ اداء کلام کو بھی بولی کہتے ہیں کیونکہ لہجے بھی بولی کی طرح قواعد و انشاء سے بری ہیں۔​
مزید برآں زبان حیوان ناطق کے ساتھ خاص ہے جبکہ بولی حیوان غیر ناطق (جانور اور چرند و پرند) بھی بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانوں کی بولی کو جانوروں سے تشبیہہ دے دی جائے۔ بلکہ انسانوں کی بولی از قسم کلام بری از قواعد و انشاء ہے اور جانور کی بولی از قسم اداء و لہجہ ہے چنانچھ اسی لیے تو اکثر چیخ و پکار اور شور کرنے والے آدمی کو جانور سے تشبیہہ دے دی جاتی ہے​
امید ہے اس تفصیل سے زبان کی فوقیت کا بولی پر ہونا از خود سمجھ لیا جائے​
لفظ قوم و ملت متحد المعنٰی ہیں وہ گروہ جو نظریہ و قانون کی بنیاد پر بنا ہو قوم کہلاتا ہے چاہے وہ مختلف المقام ہو، مختلف اللسان ہو یا مختلف النسل۔ محض علاقائی یا لسانی یا نسلی نسبت سے لفظ قوم کا استعمال درست نہیں بلکہ ان نسبتوں کے حامل بالترتیب الفاظ، قبیلہ، طبقہ اور کنبہ ہیں​
بلا تفصلیل مزید، اب آپ کے سوالوں کی طرف آتا ہوں​
( national language)​
کیا قومی زبان کا وجود آج کے دور میں بھی ہے​
یا اب کسی ملک میں موجود بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جاتا ہے؟​
مجھبے تو آپ کے سوالات کی تُک سمجھ نہیں آتی۔ جب آج کے دور میں اقوم کا وجود اور زبانوں کا تحقُق موجود ہے تو قومی زبان کے وجود پر سوال کیسا؟؟؟​
ہر ملک و ریاست، وضع و نفاذ کے لحاظ سے مخصوص قوانین کا مختار ہے اس لحاظ سے ہر ملک ایک الگ قومی حیثیت رکھتا ہے اور ملکی سطح پر جوعام فہم زبان ہو اسے قومی زبان کی حیثیت دی جاتی ہے اس میں چھوٹی بڑی زبان کی کوئی نسبت نہیں ہوتی​
(official language)​
کیا قومی اور سرکاری زبان میں فرق موجود ہے یا اب سرکاری زبان کو ہی قومی زبان کہا جائے گا؟​
قومی زبان اپنی نسبت مخصوصہ سے منفرد زبان ہے اور سرکاری زبان کی الگ تعریف ہے​
ملک کے انتظامی قوانین جس زبان میں وضع ہوں عموما وہی اس ملک کی سرکاری زبان ہوتی ہے​
قوانین کے نفاذ و عمل کرانے کی ذمہ داری مخصوص انتظامی اداروں پر ہوتی ہے اور اداروں میں مرتب دستاویزات جس زبان پر مشتمل ہوتی ہیں وہ دفتری زبان کہلاتی ہے۔ اگر قوانین اور دستاویزات قومی زبان میں مرتب ہوں تو قومی و سرکاری زبان ایک ہی ہو گی ورنہ الگ الگ​
(regional languages)​
کیا علاقائی زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا چاہیے یا ایک قوم کی زبانیں ہونے کے ناطے قومی زبانیں کہنا چاہیے ؟​
کسی جگہ کا مخصوص حصہ علاقہ و خطہ کہلاتا ہے اور علاقائی زبانوں کو علاقائی زبان ہی کہا جائے گا کسی قوم کا وجود علاقہ و خطہ کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ کسی علاقے کو کسی زبان سے اور کسی زبان کو کسی علاقے سے بطور مجاز نسبت دے دی جائے​
 

دوست

محفلین
بولی اور زبان کا فرق خود ساختہ اور لسانی مشاہدے کی بجائے عام لوگوں کے خیالات کا عکاس ہے. ہر نام نہاد زبان پہلے بولی ہی تھی. اس کی لکھاوٹ بعد میں وجود میں آئی. ہر بولی کے کئی لہجے ہوتے ہیں. کوئی زبان کسی سے کمتر برتر نہیں. زبانوں کا سرکاری سطح پر انتخاب ہمیشہ سیاسی مقاصد کی وجہ سے ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں فروغ دیا جاتا ہے. سیاسی وجوہات کی بناء پر ہی زبانوں کے ساتھ مثبت اور منفی رویے وابستہ ہو جاتے ہیں. ہر زبان ایک مکمل نظام ہوتی ہے جو اپنے اہل زبان کی پیغام رسانی سمیت تمام لسانی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.
 

دوست

محفلین
زبان یا بولی کا ہر لہجہ اپنی گرامر اور لسانی قوانین کا حامل ہوتا ہے. یہ کہنا کہ کوئی لہجہ بنا گرامر ہے غیر لسانیاتی اور غیر تحقیقی نکتہ نظر کو ظاہر کرتا ہے.
 
ہمیں اندازہ تھا کہ اس خالصتاً علمی بحث کی ٹانگ بیچاری اردو پر ہی ٹوٹنی ہے، سو آخر وہی ہوا۔ کیا اس بحث کا منطقی نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے جو اہمیت حاصل ہے اس کا انکار کردیا جائے؟
ایک کتاب کے کچھ حصے پیش کرتے ہوئے چند ماہ پیشتر ہم نے اپنی کچھ دل کی باتیں بھی شیئر کی تھیں، وہی یہاں دہرا دیتے ہیں۔

’’جب ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کا یہ مقام ہے تو پاکستان جو اسلامی جمہوریہ ہے اس میں تو ’’ ادرو‘‘ ہی کا سرکاری اور قومی زبان کی حیثیت سے رائج ہونا ایک فطری تقاضہ تھا ۔ البتہ اسکا رسم الخط عربی ہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر عبداللہ نافع
ڈاکٹر نافع کا آخری جملہ یوں تو بہت خوبصورت ہے لیکن اندر ایں حالات ایک نہایت افسوس ناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے۔ ہندوستان میں تو جو صوترحال ہے سو ہے ، اس کے نتیجے میں سرکاری اور غیز سرکاری دونوں سطحوں پر اردو کی حیثیت کو گھٹاکر اسے ایک علاقائی زبان کی طرح صرف اقلیتی مسلمان طبقے کی زبان کے طور پر نہ صرف پیش کیا جاتا ہے بلکہ اس کے شعوری کوششیں بھی جاری ہیں۔ ممبئی کی فلم انڈسٹری ایک بہت طاقتور انڈسٹری ہے لیکن اسے کبھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ اردو کے بجائے ہندی میں فلمیں بنا سکے۔ البتہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے اس کام کو بخوبی انجام دیا ہے۔ ان ٹی وی چینلز نے ہندی پرگراموں کی بھرمار کردی ہے تاکہ اگلی نسل کو اردو سے بیگانہ کرکے ہندی کو بطور رابطے کی زبان کے متعارف کروایا جائے۔ خود ہندوستان میں اس کا کیا اثر ہورہا ہے اس کا تو علم راقم الحروف کو نہیں البتہ پاکستان میں ، جہاں یہ چینلز خاصے مشہور ہیں، لوگوں کی زبانوں پر جابجا ہندی الفاظ چڑھتے نظر آرہے ہیں۔ جس کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں
مُدّا ۔۔ بمعنی معاملہ
وغیرہ وغیرہ
ادھر پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اردو کو رابطے کی زبان تو مانتا ہے ، جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ اور کوئی زبان کم از کم پاکستان کے سولہ کروڑ عوام میں رابطے کی زبان بن ہی نہیں سکتی، البتہ اسے قومی زبان کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں معدودے چند افراد پڑھے لکھے ہیں لہٰذا انگریزی اونچے طبقے کی زبان تو بن سکتی ہے ، لیکن رابطے کی زبان نہیں بن سکتی۔ ہمارے چار صوبوں میں سے لگ بھگ تین میں بنیادی تعلیم قومی زبان اردو زبان اردو کے بجائے صوبائی زبان میں دی جاتی ہے۔
یہ صورتحال راقم الحروف کے لیے خاصی افسوس کا باعث تھی۔ اب سے کوئی دس سال پہلے راقم کو متحدہ امارات میں دوسال گزارنے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ اردو ایک خود رو جنگل کی طرح ایک ایسی زبان ہے جس کا کوئی والی وارث نہ ہونے کے باوجود اس زبان کو کوئی اس کی موجودہ مروجہ بین لاقوامی رابطے کی زبان سے کوئی مائی کا لال نہیں ہٹا سکتا۔ پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان ، برما نیپال اور بھوٹان کے علاوہ، ایران، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں میں رابطے کی واحد زبان اردو ہی ہے، اور اردو ہی رہے گی۔ مثال کے طور پر ٹی وی چینلز میں سے بی بی سی ہندی، نیشنل جیوگرافک، اور اس قبیل کے کئی ایک چینلز جو ہندی نشریات کے ذمہ دار ہیں انھیں کتنے فیصد لوگ دیکھ اور سن کر سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اردو جو ممبئی کی فلم انڈسٹری کی زبان ہے ، اس کے گانے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ راقم الحروف نے مسقط میں بلوچ عرب بچوں کو یہ گانے گاتے ہوئے سنا اور اسے یہ یقین ہوگیا کہ اردو کی مسلمہ رابطے کی حیثیت کو مٹانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک پھلتی پھولتی، پھیلتی ، ترقی یافتہ زبان ہے ، جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو شامل کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتّم موجود ہے جو اس کی کامیابی ایک راز بھی ہے۔
اللہ اردو کو پھلتا پھولتا ہی رکھے اور اسے لوگوں کے دلوں میں بسائے رکھے۔
رابطہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ‘‘
 

دوست

محفلین
اچھا جب پاکستان کی بقیہ زبانوں کے حقوق کی بات کی جائے اور جواب میں اردو کے رونے شروع ہو جائیں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے. ذیل کے کچھ حقائق واضح کرتے ہیں کہ اردو کتنی مسکین زبان ہے یا اس کا والی وارث کوئی نہیں بنتا.
پاکستان کے نوے فیصد میڈیا کی زبان اردو ہے. میں چند الفاظ کے ہیر پھیر کو اردو کی کوئی مسکینیت نہیں گردانتا. ہر زبان وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے اردو کوئی انوکھی زبان نہیں.
پاکستان میں اردو اتنی طاقتور ہے کہ دو انگریزی چینل اشتہار نہ ملنے پر دو سال میں بند ہو گئے اب کوئی انگریزی نیوز چینل نہیں ہے. پنجابی اور دوسرے علاقائی چینل بھی روزی روٹی کے لیے اردو اشتہار چلانے پر مجبور ہیں.
نیشن اسٹیٹ کے تصور کے تحت اردو کو حاصل سرکاری سرپرستی نے اسے سماجی لسانی پیمانے پر سب مقامی زبانوں سے اوپر لا کھڑا کیا ہے اور پشاور سے لاہور اور کوئٹہ سے کراچی تک ہر بڑے شہر میں مڈل اور اپر کلاس طبقہ اپنے بچوں کو اردو سکھا رہا ہے، جی ہاں بطور مادری زبان.
پاکستان میں اردو کے فروغ کے لیے مقتدرہ قومی زبان سمیت کئی سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں.
انگریزی کے علاوہ سرکار اگر کسی زبان کو لفٹ کراتی ہے تو اس کا نام اردو ہے.
پارلیمان اور سرکاری و سیاسی سرگرمیوں کی زبان اردو ہے.
پاکستان کا ہر علاقائی زبان بولنے والا اردو بولتا ہے، بارہ سال اردو لازمی زبان کے طور پر سیکھتا ہے. ان پڑھ بھی ہو تو میڈیا کی بدولت سمجھنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے. یاد رہے علاقائی زبانیں اتنی خوش قسمت نہیں.
اور پھر بھی میں حیران ہوں کہ پتا نہیں کس خود روئیت، مسکینیت اور والی وارث نہ ہونے کی بات کی جاتی ہے.
 
Top