کیا قومی ، سرکاری اور علاقائی زبانیں علیحدہ ہیں ؟

حسان خان

لائبریرین
فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے زبانوں کو اک دوسرے پر برتری حاصل ہے۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ فصاحت و بلاغت اور شیرینی کے لحاظ سے آپ کسی زبان کو دوسرے پر ترجیح دے سکتے ہیں۔ جیسے میں فارسی کو اپنی اردو سے بھی زیادہ عظیم اور فصیح و بلیغ، اور ترکی کو اپنی اردو سے بھی زیادہ شیریں مانتا ہوں۔ لیکن یہ نہ تو اردو کے کسی لحاظ سے کمتر ہونے پر دال ہے نہ ہی اِس کا یہ مطلب ہے کہ اردو میں وہ لسانی ضروریات پوری کرنے کی قابلیت نہیں جو بطور مثال فارسی سے پوری کی جا سکتی ہیں۔
ویسے یہ تو کچھ کچھ ذاتی پسند ناپسند کی بات بھی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے جو زبان میرے نزدیک شیریں اور عظیم ہے وہی دوسرے کے نزدیک بھدی اور گھسی پٹی ہو۔
 
ذاتی پسند، ناپسند اور ترجیحات سے ہٹ کر، خالص معروضی انداز میں بات کروں گا۔​
جناب محب علوی صاحب کے سوالوں کے جواب میں میری گزارشات۔​
سوال۱:​
کیاقومی زبان( national language) کا وجود آج کے دور میں بھی ہے یا اب کسی ملک میں موجود بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جاتا ہے؟​
جواب: یہاں پہلے قوم کے سیاسی تصور کو ڈیفائن کرنا ہو گا۔ کسی ایک سیاسی وحدت میں ایک قوم رہتی ہے یا ایک سے زائد؟ اور کیا ان میں سے ہر قوم کی زبان میں فرق یا واضح امتیاز موجود ہے؟ ایسے میں جتنی قومیں اس سیاسی وحدت میں رہ رہی ہیں، ان سب کی زبانیں اپنے اپنے دائرے میں قومی زبانیں کہلائیں گی۔ پاکستان کے حوالے سے عمومی طور پر تسلیم شدہ قومیں چار ہیں: پختون، پنجابی، سندھی اور بلوچ۔ اس حوالے سے ان چاروں کی بڑی یا معروف بڑی زبانیں اپنی اپنی قومی زبانیں ہوں گی۔​
دوسری صورت یہ ہے کہ ایسی تمام قوموں کو مشترکہ طور پر ایک قوم تسلیم کیا جائے، مثلاً ہم کہتے ہیں کہ پاکستانی ایک قوم ہیں۔ تب ہمیں کسی ایک زبان کو قومی زبان ماننا پڑے گا۔ رسمی طور پر ’’اردو‘‘ کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جاتا ہے۔​
سوال ۲:​
کیا قومی اورسرکاری زبان(official language) میں فرق موجود ہے یا اب سرکاری زبان کو ہی قومی زبان کہا جائے گا؟​
جواب: اصولی بات تو یہی ہے کہ جس سیاسی وحدت کے باسیوں کو ایک قوم کہا اور سمجھا جائے، ان کے لئے قومی زبان بھی ایک ہو گی۔ بہترین طرزِ عمل تو یہی ہے کہ اعلان شدہ قومی زبان کو جملہ سرکاری معاملات میں نافذ کیا جائے۔ اس طرح قومی زبان، سرکاری زبان اور دفتری زبان ایک ہی ہو گی۔ پاکستان میں عملاً ایسا ہو نہیں رہا۔ ایک زمانے میں ایک سرکاری حکم نامہ جاری ہوا کہ پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں دفتری زبان اردو ہو گی۔ اسی حکم نامے میں اردو کوفوری طور پر نافذ کر دیا گیا تھا۔ اب اس کو کیا کہئے گا کہ وہ حکم نامہ انگریزی زبان میں تھا۔فائلوں میں کہیں دب دبا کر رہ گیا، اور بس۔ پاکستان کے دفاتر میں انگریزی جیسے آزادی سے پہلے چل رہی تھی، ویسے ہی چلتی رہی۔ سو، اب ہماری سرکاری زبان عملاً انگریزی ہے کہنے کو جو چاہے کہہ لیجئے۔​
سوال ۳:​
کیا علاقائی زبانوں (regional languages) کو علاقائی زبانیں کہنا چاہیے یا ایک قوم کی زبانیں ہونے کے ناطے قومی زبانیں کہنا چاہیے ؟​
جواب: اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں چار قومیں بستی ہیں تو پھر چار زبانوں کو ماننا ہو گا، اور اگر یہ چاروں اور دیگر قومیتیں (اگر کوئی مزید ہیں) مل کر ایک قوم (پاکستانی) کا درجہ پاتی ہیں تو پھر ہمیں قومی سطح پر ایک ایسی زبان کی ضرورت ہو گی جو مذکورہ سب قومیتوں میں رابطے کی زبان بن سکے۔ رسماً ہم اسے اردو کہتے ہیں۔ اور پشتو، بلوچی، سندھی، پنجابی وغیرہ کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے۔​
اپنے تو گھر کے حالات ایسے ہیں، دوسروں کو ہم کیا کہیں؟​
 

حسان خان

لائبریرین
لیکن ہم ایک پاکستانی قوم رہتے ہوئے بھی تو ساری پاکستانی زبانوں کو بطور قومی زبان قبول کر سکتے ہیں، یا یہ ناقابلِ عمل بات ہے؟ مثلاً بھارت میں بھی تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک بھارتی مگر غیر نسلی قوم بستی ہے جس کی مختلف ثقافتیں اور مختلف زبانیں ہیں۔ اُن کا نعرہ ہی یہ ہے کہ کثرت میں وحدت۔ کیا پاکستان میں بھی اسی طرح لسانی کثرت کو قومی یکجہتی اور یگانگت کو فروغ دینے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے؟
 

دوست

محفلین
سائیں آپ کا موقف یہی کوئی سو سال پرانا ہے۔ لکھاوٹ کو ترجیح دینا، ادب کو افضل زبان سمجھنا، اور شاہی بولی کو کسی زبان کی بہترین قسم سمجھنا یہ بہت پہلے مسترد کیا جا چکا ہے۔ بولی سے مراد سپیچ ہے۔ بولی سے مراد وہ الفاظ ہیں جو زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ بولی بنیادی ہے، لکھاوٹ ثانوی ہے۔ بولی میں الفاظ کا اتار چڑھاؤ، ایک کھنگھورا مار کر ہی جو معانی کمیونیکیٹ کر دیا جاتا ہے وہ لکھاوٹ کئی نقطے، کالن، سیمی کالن لگا کر واضح کر پاتی ہے۔ بولی کی گرامر ہوتی ہے۔
آپ کی گرامر سے کیا مراد ہے؟
معذرت کے ساتھ میں پچھلے چھ سال سے لسانیات میں پھنسا ہوا ہوں اور یہاں گرامر اسم، فعل، فعل موصول، فعل مجہول، فاعل، فعل، مفعول وغیرہ وغیرہ کو کہتے ہیں۔ بولی میں یہ سب کچھ پایا جاتا ہے، لکھاوٹ میں اسی بولے گئے کو لکھا جاتا ہے۔ گرامر کہاں نہ ہوئی پھر؟ براہِ کرم میرے الفاظ کی گرفت کر کے اور علم الکلام کی ٹیکنیکیں استعمال کر کے بحث برائے بحث نہ کریں۔ کوئی تاریخی، علمی یا لسانی حوالہ دیں۔ مجھے بتائیں کونسی بولی ہے جس کی گرامر نہیں ہے۔ کوئی ایک بولی؟؟؟؟؟؟
یہاں قرآن کا ذکر نہیں ہوا، یہاں لسانیات کا ذکر ہوا ہے۔ قرآن جس کو بولی کہتا ہے اسکو ماڈرن لسانیات جانوروں کی کمیونیکیشن کے نام سے جانتی ہے۔ لسانیات وحی سے حاصل کردہ علم نہیں۔ لسانیات زبان کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔ وحی سائنس سے ماوراء چیز ہے۔ قرآن اگر جانوروں کی زبان کو بولی کہتا ہے تو وہ اللہ کی ذات سمجھتی ہے یا اس کے انبیاء۔ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے لیے بولی سے مراد انسانی بولی ہے۔ جو میں آپ سب "بولتے" ہیں۔ اور پھر اسی بولنے جیسے کو "بولنے" کی بجائے "لکھتے" ہیں۔
بچے کی بولی بھی مکمل زبان ہوتی ہے۔ وہ آداب کے موافق گفتگو سیکھ جاتا ہے لیکن لکھنا کب سیکھتا ہے؟ جب تک وہ پانچ سات برس کا نہیں ہو جاتا۔ یہ ایک اور دلیل ہے کہ بولی بنیادی ہے لکھاوٹ ثانوی ہے۔ زبان اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب کوئی اسے بولنا شروع کر دیتا ہے، چاہے اسے لکھے یا نہ لکھے۔ بیرونِ ملک ٹیکسی چلانے والا پاکستانی اگر وہاں کی انگریزی یا عربی سیکھ لے تو وہ بولی رہے گی کیا زبان نہیں ہو گی؟ آپ کی دلیل مان لی جائے تو بولی کی تو گرامر ہی کوئی نہیں۔ یعنی بولی الفاظ کا ایک جمبل اپ اکٹھ ہے جو کسی کے منہ سے جیسے چاہے مرضی ادا ہو رہا ہے بلا کسی قانون و قاعدے کے۔ تو دوسرے اس بولی کو لوگ سمجھ کیسے جاتے ہیں؟ آپ بھی 24 گھنٹوں میں گئی گھنٹے یہی بولی بولتے ہوئے گزارتے ہیں اور پھر بھی بولی کو گرامر سے عاری سمجھتے ہیں۔ اور آخری بات قواعد و انشاء سے اگر آپ کی مراد گرامر نہیں بلکہ وقفہ، سوالیہ نشان، انشائیہ، کوما، سیمی کالن اور کالن ہیں تو بولی میں یہی کچھ ٹون کے اتار چڑھاؤ سے سمجھا دیا جاتا ہے۔ بولی اور آپ کے معانی والی "زبان" میں سب کچھ ایک جیسا ہے بس بولی بولی جاتی ہے اور "زبان" لکھی جاتی ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ زبان بولی جائے یا لکھی جائے، زبان کہلاتی ہے۔ اس دنیا میں چھ ہزار سے زائد زبانیں ہیں، اور کئی ہزار زبانیں صرف بولی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زبان نہیں ہے۔ یہ زیادتی والی بات ہے، غیر لسانی اور غیر سائنسی نقطہ نظر ہے۔ اور اس کو لسانیات سختی سے مسترد کرتی ہے۔ انہیں نام نہاد بولیوں میں ہی ادب اور لوک کہانیوں کی سینہ بہ سینہ ایسی ایسی روایات موجود ہوتی ہیں کہ ادب پر فخر کرنے والی نام نہاد زبانیں بھی ان کے سامنے شرمائیں۔ کیا نبی ﷺ کے دور کی عربی بولی تھی؟ نہیں تھی، وہ زبان تھی ایک ترقی یافتہ زبان۔ اس کو لکھا کم جاتا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زبان نہیں تھی۔ جو چیز انسان کے منہ سے ادا ہو گی وہ زبان ہو گی، چاہے بولی جائے یا لکھی جائے۔ جو چیز جانور کے منہ سے ادا ہو گی وہ کمیونیکیشن سسٹم تو ہو سکتا ہے ہم اسے زبان نہیں سمجھتے۔ قرآن کی بات نہیں، مذہب کی بات نہیں یہان سائنسی بنیادوں پر زبان کا مطالعہ ہو رہا ہے۔ اس لیول پر پر جا کر دیکھنا ہمارے اور ہمارے آلات کے بس کی بات نہیں، اللہ کہتا ہے کہ چرند پرند میری تسبیح کرتے ہوں گے تو کرتے ہیں ہمارا ایمان ہے۔ لیکن ان کی کمیونیکیشن انسانی زبان نہیں، اس سے مختلف چیز ہے۔ زبان وہی جو انسان کے منہ سے ادا ہو، ہاتھ سے لکھی جائے۔ کسی بھی میڈیم میں ہو، بولی ہو لکھی ہو وہ زبان ہے۔
بقیہ شام کو، ابھی ذرا کچھ کام کر لیا جائے۔
 

عسکری

معطل
عسکری پائین چُک کے رکھو. بابا وی مرنے سے پہلے کہہ گیا کہ اردو قومی زبان ہو گی. اس سے اگلے دن فساد پھوٹ پڑے اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ بنگالی بھی قومی زبان بنی. اور پھر تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ بنگالی اپنی قومی زبان کے ساتھ کھلواڑ (جمع اضافی گڈیز) کی وجہ سے اس ملک سے الگ ہو گئے.
یا تو پاکستان کو آمریت تلے لے آؤ. ایران کی مجبوری ہے ہر 'انقلابی' ملک کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو باور کرائے وہ ایک اکائی ہے. سیاسی مقصد یعنی. تو انہوں نے فارسی ٹھوک دی قومی زبان. یا تو ادھر بھی ایسا کچھ کرا لو. ابھی تو یہ صورتحال ہے کہ ادھر پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی، مہاجر، کشمیری، بلتی، وغیرہ بستے ہیں اور پاکستانی کبھی کبھی بستے ہیں. مثلاً جب اردو قومی زبان ہے کا نعرہ لگانا ہو تو پاکستانیت یاد آتی ہے.
پا جی آپ ہی بتاؤ ہم اور کیا لکھ پڑھ سکتے ہین ؟ سوری ٹو سے پر مجھے اردو پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ مین پاکستان مین ہوں ۔ ہماری دفتری لکھائی ہمارے سائنز ہر علاقے مین اردو سمجھی اور بولی جاتی ہے لکھی جاتی ہے ۔ اگر کوئی مجھے کہے کہ پنجابی سرائیکی میں درخواست لکھو تو میں کیا لکھوں گا؟ اسی طرح سندھ میں جو سندھی لکھی ملتی ہے وہ ہمیں تو تھوڑی بہت سمجھ آ جاتی ہے ۔ اردو ہماری شناخت بھی بن چکی ہے غیر ملک میں کروڑوں لوگ یہی سمجھتے ہین پاکستانیوں کی زبان اردو ہے ۔ ہمین آخر تکلیف کیا ہو سکتی ہے ایک زبان ہم سب بول سمجھ لکھ لیتے ہیں تو وہ یکجہتی کی قومی زبان ہی ہوئی نا ہماری ؟
 

سعود الحسن

محفلین
اصل میں یہ لسانی بحث نہیں ہے بلکہ سیاسی معاملہ ہے۔ کسی ریاست میں سرکاری ، قومی یا علاقائی زبانوں کا استعارہ ایک اضافی (Relative) ہے۔ آپ کو زبانوں کی اتنی ساری قسمیں مہذب معاشروں میں نہیں ملیں گی۔

سرکاری زبان کا تصور تو تقریبا دنیا کی ہر ریاست میں پایا جاتا ہے ، یہ اصل میں "سرکار " کی زبان ہوتی ہے۔ :) اصل میں آپ اسے وہ زبان سمجھ لی جیے جس زبا ن میں دستوری طور پر یا قانونی طور پر "قوانین" بنتے ہیں، بعد میں ان قوانین کا دس اور زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جاتا ہے تاکہ اگر کسی کو وہ "سرکاری" زبان نہ آتی ہو تو بھی وہ سمجھ سکے ، تو یہ تو قانونی مجبوری ہوگئی۔ سرکاری زبان کونسی زبان ہونی چاہیے ؟ عام طور ہر کثیر القومی ریاستوں میں سرکاری زبان اس زبان کو بنایا جاتا ہے جو بین الاقوام رابطہ کی زبان ہو ، لیکن جہاں آمریت ہو یا اکثریتی زبان بولنے والے اقتدار پر مکمل قابض ہوں یا اتنی بڑی اکثریت میں ہو ں کہ دوسری زبانوں کی حثیت ثانوی ہوجاے اور اکثریتی زبان ہی رابطہ کی زبان بن جاے تو وہ زبان ہی سرکاری زبان بنا دی جاتی ہے۔ نوآبادیات سے ظاہری آزاد لیکن غلام قوموں میں عام طور پر پرانے آقاوں کی زبان ہی سرکاری زبان قائم رکھی جاتی ہے تاکہ ان کے قائم مقام آقاوں کو اقتدار میں مشکل نہ ہو۔ جیسا کہ پاکستان اور انڈیا میں بھی ہے۔

قومی زبان کا تصور سراسر ایک اضافی تصور ہے ، اور یہ آپ کو نوآبادیات سے ظاہری آزاد لیکن ذہنی غلام قوموں میں ہی ملے گا اور اس کا مقصد اصل میں عوام کو بے وقوف بنانا ہے تاکہ وہ قومی زبان کے لولی پوپ میں مصروف رہیں اور سرکاری زبان کے جھنجٹ میں نہ پڑیں۔ دستور یا قانون میں قومی زبانیں ایک ہوں یا ایک سو کیا فرق پڑتا ہے ؟ قانون تو کسی ایک ہی زبان میں بننے ہیں جو کہ سرکاری زبان ہی ہو گی، کیا سندھ میں جہاں سرکاری طور پر اردو اور سندھی دونوں قومی زبانیں ہیں قانون سازی انگلش ہی میں نہیں ہوتی۔ لہذا کوئی زبان بھی قومی زبان نہیں ہونی چاہیے، یا پھر اگر صرف نام دینے ہی کی بات ہے تو صرف اردو کیوں پاکستان میں بولی جانے والی ہر زبان کو قومی زبان کا درجہ دیں دے کیا فرق پڑتا ہے ، نہ ہینگ لگے نہ پہٹکری اور رنگ بھی چوکھا ۔

علاقائی زبان بھی ایک اضافی استعارہ ہے ورنہ تقریبا ہر زبان کی کسی نہ کسی قوم کی قومی زبان ہی ہوتی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے کہ اسے اس کی زبان بولنے اور اس کی ترویج کا حق ہو، تمام قوانین اور ضابطہ اس کی زبان میں اس تک پہنچائے جائیں ، اسے اس کی زبان میں بنیادی تعلیم دی جاے، پاکستان میں بولی جانے والی کسی بھی زبان کو مرنے نہ دیا جاے، اور ان کی ترویج کے لیے متوازن انداز میں وسائل استعمال کئے جائیں یعنی ہر زبان کو اس کا جائیز مقام دیا جاے۔

لہذا زبان یا تو سرکاری ہوتی ہے ، ورنہ ملک میں بولی جانے والی ہر زبان برابر کی حثیت رکھتی ہے اور برابر کی توجہ چاہتی ہے۔ یہ قومی زبان کچھ نہیں ہوتی۔

اب اردو پر اجائیں، اردو یا کسی بھی زبان کو اگر کوئی اضافی حثیت دینی ہے تو وہ سرکاری زبان کی ہو سکتی ہے اور بس ، یعنی آپ قانون سازی اس زبان میں کریں تاکہ قانونی حوالے کے لیے اس زبان میں لکھے قانون کو استعمال کیا جاے ، جبکہ ریاست کی زمہ داری ہونی چاہیے کہ تمام قوانین اور ضابطوں کو کم از کم پاکستان میں بولی جانے والے تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ کرایا جاے اور کسی بھی علاقہ میں اس علاقہ میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں ہی تمام سرکاری فارم اور کاروائی کی جاے جیسے سندھ میں تمام سرکاری فارم "انگلش اور اردو" یا "انگلش اور سندھی" میں چھپے ہوتے ہیں حتاکہ ایف آئی آر اور شناختی کارڈز بھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک سوال اور۔ فننش زبان کافی پرانی اور ارتقائی عمل سے گذر چکی ہے اور ابھی تک گذر رہی ہے۔ لیکن اس میں کئی جگہوں پر اہل زبان اور زبان کے اساتذہ نے صاف کہا ہے کہ بے شک تمام جملہ اصول، گرائمر، لاجیک، سے یہ بات ایسے ہونی چاہیئے لیکن یہ بات ایسے نہیں بلکہ ایسے ہی لکھی اور بولی جائے گی۔ کیا یہ زبان کی خصوصیت ہے یا کہ بولی کی؟ یعنی جس کو بولتے یا لکھتے وقت کئی جگہوں پر آپ کو مروجہ اصولوں اور ضوابط کو ایک طرف رکھ کر محض اندازے سے بات کرنی پڑے؟
یعنی استثناء کی کیا اہمیت ہے؟ اب مثال دیکھیں کہ فننش زبان میں ٹو، فرام، آف، آن وغیرہ نہیں بلکہ مطلوبہ لفظ یا الفاظ کے بعد تین چار اضافی حروف لگا دیئے جاتے ہیں۔ مثلاً میں Helsinkiجانا ہے تو menen Helsinkiin, اگر میں ہیلسنکی سے آیا ہوں تو tulin Helsingista۔ تاہم بعض شہروں کے نام ایسے ہیں جہاں یہ اصول نہیں لگتا۔ Virrat ایک ایسا ہی شہر ہے کہ جہاں آپ نے جانا ہو یا جہاں سے آپ نے آنا ہو تو اچھے خاصے اہلِ زبان بات کو گھما پھر کر یا گول مول کر کے بات کرتے ہیں کہ وہ خود بھی نہیں جانتے کہ اس شہر کے نام سے ساتھ اضافی الفاظ کیا لگیں گے اور کیوں اور کیسے
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک سوال اور۔ فننش زبان کافی پرانی اور ارتقائی عمل سے گذر چکی ہے اور ابھی تک گذر رہی ہے۔ لیکن اس میں کئی جگہوں پر اہل زبان اور زبان کے اساتذہ نے صاف کہا ہے کہ بے شک تمام جملہ اصول، گرائمر، لاجیک، سے یہ بات ایسے ہونی چاہیئے لیکن یہ بات ایسے نہیں بلکہ ایسے ہی لکھی اور بولی جائے گی۔ کیا یہ زبان کی خصوصیت ہے یا کہ بولی کی؟ یعنی جس کو بولتے یا لکھتے وقت کئی جگہوں پر آپ کو مروجہ اصولوں اور ضوابط کو ایک طرف رکھ کر محض اندازے سے بات کرنی پڑے؟
یعنی استثناء کی کیا اہمیت ہے؟ اب مثال دیکھیں کہ فننش زبان میں ٹو، فرام، آف، آن وغیرہ نہیں بلکہ مطلوبہ لفظ یا الفاظ کے بعد تین چار اضافی حروف لگا دیئے جاتے ہیں۔ مثلاً میں Helsinkiجانا ہے تو menen Helsinkiin, اگر میں ہیلسنکی سے آیا ہوں تو tulin Helsingista۔ تاہم بعض شہروں کے نام ایسے ہیں جہاں یہ اصول نہیں لگتا۔ Virrat ایک ایسا ہی شہر ہے کہ جہاں آپ نے جانا ہو یا جہاں سے آپ نے آنا ہو تو اچھے خاصے اہلِ زبان بات کو گھما پھر کر یا گول مول کر کے بات کرتے ہیں کہ وہ خود بھی نہیں جانتے کہ اس شہر کے نام سے ساتھ اضافی الفاظ کیا لگیں گے اور کیوں اور کیسے
ابھی میں نے اپنی باس سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اگر Virrat جا رہے ہوں تو menen Virroille اور اگر آ رہے ہوں تو tulen Virroilta استعمال ہوگا۔ تاہم یہ مروجہ اصول کے عین "خلاف" ہے :)
 

دوست

محفلین
لسانیات میں، جیسا کہ عرض کیا، بولی بھی زبان ہی ہے.
زبان کنونشن یا رسم رواج کا نام ہے. اس میں منطق نہیں چلتی. جو جیسے کہا جاتا ہے اور جیسے کمیونٹی اسے بطور گرامیٹیکل قبول کرتی ہے وہ ویسا رہے تو اس کمیونٹی کی زبان کہلائے گی. ورنہ آپ اسے جو مرضی کہہ لیں. فنش کے اہل زبان ایک جملے کو فنش کا جملہ مانتے ہیں تو اچھا، نہیں تو میں آپ بیرونی لوگ غیر اہل زبان اس پر اعتراض نہیں کر سکتے کہ یہ ایسا کیوں نہیں. زبان منطق کی پیروی نہیں کرتی رائج رواج کنونشن کی پیروی کرتی ہے.
 

جہانزیب

محفلین
اگر کوئی مجھے کہے کہ پنجابی سرائیکی میں درخواست لکھو تو میں کیا لکھوں گا؟
اگر کوئی آپ سے کہے کہ انگریزی میں درخواست لکھیں تو بلاشبہ آپ وہ بھی لکھ لیں گے مگر اپنی مادری زبان میں درخواست بھی نہیں لکھ سکتے ۔ میری درخواست یہ کہ ان وجوہات پر غور کریں کہ آپ کو اپنی مادری زبان لکھنے میں مشکل کس لئے درپیش ہے ۔ کیا آپ کسی ایسے فرانسیسی سے ملے ہیں جسے فرانسیسی لکھنی نہ آئے مگر انگریزی فرفر لکھ لے؟ یا کسی ایسے انگریز سے واسطہ پڑا ہو جسے انگریزی نہ لکھنی آتی ہو مگر عربی زبان میں اسے مہارت ہو؟
اردو ہماری شناخت بھی بن چکی ہے غیر ملک میں کروڑوں لوگ یہی سمجھتے ہین پاکستانیوں کی زبان اردو ہے ۔
اگر معیار اسے ہی بنانا ہے تو میں آپ کو یقین سے بتا سکتا ہوں کہ اس سے کہیں زیادہ لوگ ہمیں دہشت گرد بھی سمجھتے ہیں ۔ تو کیا ہم یہ بات بھی مان لیں؟
 

عسکری

معطل
اگر کوئی آپ سے کہے کہ انگریزی میں درخواست لکھیں تو بلاشبہ آپ وہ بھی لکھ لیں گے مگر اپنی مادری زبان میں درخواست بھی نہیں لکھ سکتے ۔ میری درخواست یہ کہ ان وجوہات پر غور کریں کہ آپ کو اپنی مادری زبان لکھنے میں مشکل کس لئے درپیش ہے ۔ کیا آپ کسی ایسے فرانسیسی سے ملے ہیں جسے فرانسیسی لکھنی نہ آئے مگر انگریزی فرفر لکھ لے؟ یا کسی ایسے انگریز سے واسطہ پڑا ہو جسے انگریزی نہ لکھنی آتی ہو مگر عربی زبان میں اسے مہارت ہو؟

اگر معیار اسے ہی بنانا ہے تو میں آپ کو یقین سے بتا سکتا ہوں کہ اس سے کہیں زیادہ لوگ ہمیں دہشت گرد بھی سمجھتے ہیں ۔ تو کیا ہم یہ بات بھی مان لیں؟
بھائی جان ہماری مشترکہ زبان اردو ہی ہے اب مزید بکھیڑے کھڑے نا ہی ہوں تو اچھا ہے جیسا چل رہا ہے ٹھیک ہے صوبے ویسے بھی ٹی وی چینلز کتابیں اور سب کچھ اپنی زبانوں میں کر رہے ہیں کس نے روکا ہے پر اردو اب پاکستان کے تمام علاقوں میں اچھی طرح سیٹ ہے ۔ دہشت گرد :(
 

جہانزیب

محفلین
یہ بات درست نہیں ہے۔ انڈونیشیا پاکستان سے بھی بڑھ کر کثیر اللسان ملک ہے، لیکن وہاں تین فیصد لوگوں کی مالے زبان چُن کر، اور اُسے معیاری شکل دے کر انڈونیشا کی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ پھر ہمارا پڑوسی ایران ہی ایک واضح مثال ہے، جہاں صرف آذری ترک ہی ۳۵ فیصد ہیں۔ لیکن وہاں قومی و سرکاری زبان فارسی ہے۔
اسی لئے میں کہیں بھی تمام ممالک کا حوالہ نہیں دیا بلکہ کہا ہے کہ بہت سے ممالک میں ایسا رائج ہے، ان میں سے چند ممالک کا تحریر میں ذکر بھی کیا تھا ۔
 

دوست

محفلین
ہاں جی اور اب بات کر لی جائے فصاحت و بلاغت کی۔
فصاحت و بلاغت کا تصور آتا ہے عربی سے۔ جس کے بولنے والوں کو اس پر تعصب کی حد تک فخر تھا، اور غیر عربیوں کو گونگے کہتے تھے۔ اب آپ دیکھ لیں کہ اس کے پیچھے کتنی سائنسی سوچ کار فرما ہے اور کتنی جانبداری، اپنی نسلی اور علاقائی برتری موجود ہے۔ فصاحت و بلاغت یعنی زیادہ سے زیادہ تصورات کو بیان کرنے کی صلاحیت کو اگر معیار بنا لیا جائے تو انگریزی عربی سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ دنیا کی تمام زبانیں برابر ہیں تو ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہر زبان اپنے اہلِ زبان کی لسانی ضروریات کو پورا کرنے کی عین صلاحیت کی حامل ہوتی ہے۔ بھئی مجھے جب اونٹ کی درجن بھر اقسام بارے جاننے کی ضرورت ہی نہیں تو میں عربی کی فصاحت و بلاغت کو کیا کروں؟ میرے کلچر میں میرے سماج میں تو اونٹ بس اونٹ ہے۔ عربوں کے کلچر میں اونٹ ان کی زندگی کا حصہ ہے، میرے کلچر میں زراعت اور اس سے متعلقہ الفاظ جتنی فصاحت و بلاغت سے موجود ہیں عربی بدو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تو کیا میری زبان ان کی زبان سے افضل ہو گئی؟ نہیں، زبان کوئی بھی کمتر یا برتر نہیں۔ زبان اپنی کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کرتی ہے تو اس کے زبان ہونے، اور اس پر فخر کرنے کے لیے یہ بالکل کافی بات ہے۔
زبانوں کا انتخاب سیاسی، اقتصادی، سماجی اور انتظامی مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ ہر اس مقصد کے نیچے ایک جانبداری چھپی ہوتی ہے۔ فیصلہ کرنے والا ایک سماج میں رہ رہا ہوتا ہے خلا میں نہیں۔ اور وہ ان تمام رویوں سے متاثر ہو کر ہی فیصلہ کرتا ہے۔ غیر جانبداری انسان ہوتے ہوئے ممکن نہیں۔
زبانوں کے حقوق سے مراد ہے کہ میری مادری زبان میں سرکاری دستاویزات دستیاب ہوں، میری مادری زبان اسکولوں میں سکھائی جائے، میری مادری زبان کی ترویج کے لیے لغات اور گرامر لکھی جائیں، میری مادری زبان میں اور کچھ نہیں تو بنیادی سطح تک تعلیم دی جائے۔ یہ ہیں زبانوں کے حقوق۔ اور ان کا کسی زبان کی فصاحت و بلاغت اور اس کی ادبیت یا غیر ادبیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اردو جب آسمانوں پر ہی تھی تو پنجابی میں بابا فرید جیسے شاعر شاعری کر رہے تھے۔ پنجابی کی ادبی روایت اتنی ہی مضبوط ہے جتنی کسی اور زبان کی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ آج کے پنجابی اسے "اون" نہیں کرتے۔ منفی رویے نا جی۔
اور رہی فصاحت و بلاغت تو اردو کہاں کی فصیح و بلیغ تھی، اس میں تراجم ہوئے ،اس کی معیار بندی کو کوششیں ہوئیں تو یہ آج جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے تصورات کو بیان بھی کر لیتی ہے۔ اگر اردو ہے تو پھر میری مادری زبان کیوں نہیں۔ اس میں تراجم کیے جائیں، اس کے لیے لغات اور گرامر لکھنے کے لیے گرانٹس مہیا کی جائیں، اس میں تعلیم کا بند و بست کیا جائے۔ تو میری زبان کیوں نہ فصیح و بلیغ ہو۔ جب اسے صرف یہ کہہ کر مسترد کر دیا جائے کہ اس میں تو کچھ بھی نہیں ہے جی، بولی ہے جی بولی، بلکہ اب لوگ بولنا بھی چھوڑ گئے تو یہ تو کوئی بات نا ہوئی سائیں۔
پنجابی کا ماجھی لہجہ اس کا معیاری لہجہ ہے۔ پنجابی گرمکھی اور شاہ مکھی میں لکھی جاتی ہے۔ آپ کی "زبان" کی تعریف پر ہی بات کر لی جائے تو پنجابی تو زبان ہو گئی نا۔ بولی تو نہ رہی۔
اصل میں مسئلہ بس یہی ہے۔ پنجابی ہمارے لیے کچھ بھی نہیں ہے، بولی بھی نہیں۔ یہ جسٹ نتھنگ ہے۔ اور اردو ایوری تھنگ ہے۔ اس لیے ہمارے بچے اردو سیکھ رہے ہیں۔ ہم پنجابی میں صرف نوکروں سے بات کرتے ہیں۔ ہمارے بچے پنجابی میں بات کریں تو ہم انھیں جھڑک دیتے ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے۔
سندھی میں ایف آئی آر لکھے جانے کے لیے کونسی فصاحت و بلاغت درکار ہے؟ پشتو میں بنیادی تعلیم کے لیے کونسی فصاحت و بلاغت درکار ہے؟ اس کے لیے کوئی فصاحت و بلاغت نہیں بس باڈی کے اپر پورشن میں تھوڑی سی سوچ درکار ہے۔ اور وہ سوچ بس اتنا کہتی ہے کہ اردو ہی سب کچھ ہے۔ ہم ایک قوم ہیں، ہم اردو قوم ہیں، تو ہم پاکستانی قوم ہیں۔ یہ سوچ یہ نہیں سوچ سکتی کہ ہم پنجابی قوم، سندھی قوم، پشتو قوم، بلوچی قوم ہو کر بھی پاکستانی قوم ہو سکتے ہیں۔ یہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے والی بات ہی ہے ورنہ آج بھی پاکستانی قوم سے پہلے یہ ساری قومیں آتی ہیں، پھر پاکستانی قوم آتی ہے۔ تو اسے مان لیا جائے، تسلیم کر لیا جائے، اسے سانچے میں ڈھال لیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اگر میرے بچے وہی زبان سیکھ لیں جو میں نے اپنی ماں کی گود میں سیکھی تھی تو کیا حرج ہے؟ لیکن حرج ہے۔ سارا حرج ہی تو یہی ہے کہ اردو کو دفتر، سرکار، اسکول کی زبان کے بعد اب اس ملک کے ہر بچے کی مادری زبان بنایا جائے۔ اور جو مادری زبانیں پہلے موجود ہیں انہیں دیس نکالا دیا جائے۔ میں یہ بات انہیں فورمز پر اور بلاگز پر کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اور پھر دوہرا رہا ہوں آئندہ پچاس برس میں پنجابی کی حیثیت انتہائی حد تک گھٹنے والی ہے۔ ایک پوری نسل جو پنجابی سے بے بہرہ ہے وہ پل رہی ہے، اردو بولنے والی نسل۔ جس کو اپنی ماں بولی اور اس سے جڑی ثقافت و روایات کا علم نہیں ہو گا۔ کم سے کم شدید الفاظ بھی استعمال کروں تو پنجاب کے شہروں سے پنجابی کا صفایا ہونے جا رہا ہے، دیہات میں شاید کہیں بچ ہی جائے۔ اور یہی صورتحال مجھے باقی صوبائی زبانوں کی نظر آ رہی ہے جن کے ساتھ پنجابی جیسے رویے وابستہ ہیں، یا جو حاکموں کی کوڑھ مغزی اور کور نظری کا شکار ہیں۔
 
پنجابی زبان پر مشتمل پیغامات کو میں علیحدہ کرکے ایک نیا دھاگہ بنا رہا ہوں کیونکہ پنجابی کا المیہ علیحدہ سے گفتگو کا متقاضی ہے اور مجھ سمیت کئی پنجابی اس بہانے پنجابی کے دکھ سکھ "پھول" لیں گے ۔ :)
 
سب سے پہلے جو چند سوالات تھے ان کے مختصر جوابات جس پر کافی گفتگو کی گنجائش موجود ہے۔
قومی زبان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مقبولیت کی بنا پر قوم کی زبان کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اور کبھی اسے سرکاری طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے اور کبھی غیرسرکاری طور پر اسے یہ درجہ حاصل ہوتا ہے۔

امریکہ کی قومی اور سرکاری زبان کونسی ہے ؟
انگریزی نہ قومی زبان ہے اور نہ سرکاری البتہ غیرسرکاری طور پر انگریزی ہی سرکاری زبان ہے مگر کسی بھی زبان کو سرکاری معاملات میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور جاتا ہے۔ انگریزی کو سرکاری زبان بنانے کے لیے کئی بار بل پیش ہوئے جن میں تازہ ترین پچھلے سال ہی تھا۔
انگریزی غیرسرکاری طور پر قومی زبان ہے۔

انڈیا کی قومی زبان کونسی ہے ؟
انڈیا کی قومی زبان بھی ہندی نہیں ہے البتہ سرکاری زبان ملکی سطح پر ہندی اور انگریزی ہے۔
غیر سرکاری طور پر ہندی کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔
گجرات ہائی کورٹ نے 2009 میں واضح کیا تھا کہ سرکاری طور پر ہندی کو قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں ہے گو نارتھ انڈیا کی اکثریت اسے قومی زبان تصور کرتی ہے۔

جرمنی کی قومی زبان کونسی ہے ؟
جرمن سرکاری زبان ہے اور غیر سرکاری طور پر قومی بھی ۔

کینیڈا کی قومی زبان کونسی ہے ؟
کینیڈا کی قومی سرکاری زبانیں انگریزی اور فرنچ ہیں جبکہ علاقائی سطح پر چند اور زبانوں کو بھی ان کے علاقوں میں سرکاری حیثیت حاصل ہے۔


میکسیکو کی قومی زبان کونسی ہے؟
سرکاری طور پر کسی بھی زبان کو قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں ۔ غیر سرکاری طور پر ہسپانوی قومی زبان ہے جو تقریبا پورے جنوبی امریکہ کی زبان ہے سوائے ایک بڑے ملک برازیل کے ۔
2003 میں میکسیکو نے تمام ملکی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے دیا ہے۔


چین کی قومی زبان کونسی ہے ؟
مینڈارن (Mandarin) یا Putonghua اس وقت جین کی سرکاری اور قومی زبان ہے مگر یہ 53 فیصد سے زیادہ لوگ نہیں سمجھتے حتی کہ شنگھائی کے لوگوں کی چینی زبان کا لہجہ Wu ہے جو Mandarin سے تقریبا 30 فیصد ہی ملتا ہے۔
چینی زبان کے تقریبا 1500 لہجے موجود ہیں اور چین ایک کلاسیکل مثال ہے کہ آپ تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے کر قوم میں یکجہتی اور علم کا فروغ نہیں کر سکتے بلکہ آپ کو زیادہ بولنے والی کسی زبان پر اتفاق کرنا پڑتا ہے اور پھر اسے قومی اور ملکی سطح کی زبان بنانا پڑتا ہے جو رابطہ کا کام بھی سرانجام دیتی ہے اور سرکاری اور علمی خدمت بھی ملکی سطح پر۔

ایک دفعہ پھر نقل کر رہا ہوں قومی زبان کی خصوصیات جو لسانیات کے ایک پروفیسر کی مشہور کتاب سے اقتباس ہے۔ اس کے بعد میں چند اور مقالات سے اقتباسات بھی پیش کروں گا جن میں قومی اور سرکاری زبان کے المیے اور ان کی مشکلات اور فوائد پر بات ہوگی۔



سرکاری زبانیں بنیادی طور پر قومی وجوہات کی بنا پر وجود میں آتی ہیں جن کا تعلق روزمرہ کے عملی انتظامی امور سے ہوتا ہے۔
قومی منصب قومی تحریک ، متحد اور علیحدگی پسند عوامل ، نشاة ثانیہ سے ربط اور سند سے متعلق ہوتا ہے ۔

Fasold آگے چل کر یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ قومی منصب میں چھ سماجی لسانی وصف موجود ہونے چاہیے:

زبان ایک استعارہ ہے قومی یکجہتی کا اکثر لوگوں کے لیے۔
یہ کثرت سے روزمرہ اور غیر سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہو مگر لازما گھر یلو زبان نہ ہو۔
ایک خاصا بڑا حصہ آبادی کا اس زبان کو روانی سے بولتا ہو۔
اس قومی زبان کا کوئی قابل ذکر متبادل موجود نہ ہو اگرچہ دوسری زبانیں علاقائی سطح پر گروہی خدمات سرانجام دے رہی ہوں۔
زبان مستند ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین بھی محسوس ہونی چاہیے۔
زبان روشن ماضی کی ایک کڑی نظر آنی چاہیے۔

Fasold کے مطابق اگر زبان بطور قومی زبان ان میں سے کسی ایک اصول پر بھی پوری نہ اتری تو وہ شاید قومی منصب حاصل نہ کر سکے۔
 
پنجابی زبان پر مشتمل پیغامات کو میں علیحدہ کرکے ایک نیا دھاگہ بنا رہا ہوں کیونکہ پنجابی کا المیہ علیحدہ سے گفتگو کا متقاضی ہے اور مجھ سمیت کئی پنجابی اس بہانے پنجابی کے دکھ سکھ "پھول" لیں گے ۔ :)

محترمی محب علوی صاحب۔
یہ فقیر اپنی ایک کوشش تو کر چکا۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/پنجابی-دی-املاء-دے-رَولے.31342/

پنجابی کا اصل مسئلہ بلکہ ’’اصل المسائل‘‘ یہ ہے کہ پنجاب والے اس کے حروفِ ہجاء اور املاء پر ہی متفق نہیں۔
کوئی دکھ سکھ دی سانجھ کرے گا تے پھرولو گے نا! بھاء جی!!
 
ذاتی پسند، ناپسند اور ترجیحات سے ہٹ کر، خالص معروضی انداز میں بات کروں گا۔​
جناب محب علوی صاحب کے سوالوں کے جواب میں میری گزارشات۔​
سوال۱:​
کیاقومی زبان( national language) کا وجود آج کے دور میں بھی ہے یا اب کسی ملک میں موجود بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جاتا ہے؟​
جواب: یہاں پہلے قوم کے سیاسی تصور کو ڈیفائن کرنا ہو گا۔ کسی ایک سیاسی وحدت میں ایک قوم رہتی ہے یا ایک سے زائد؟ اور کیا ان میں سے ہر قوم کی زبان میں فرق یا واضح امتیاز موجود ہے؟ ایسے میں جتنی قومیں اس سیاسی وحدت میں رہ رہی ہیں، ان سب کی زبانیں اپنے اپنے دائرے میں قومی زبانیں کہلائیں گی۔ پاکستان کے حوالے سے عمومی طور پر تسلیم شدہ قومیں چار ہیں: پختون، پنجابی، سندھی اور بلوچ۔ اس حوالے سے ان چاروں کی بڑی یا معروف بڑی زبانیں اپنی اپنی قومی زبانیں ہوں گی۔​
دوسری صورت یہ ہے کہ ایسی تمام قوموں کو مشترکہ طور پر ایک قوم تسلیم کیا جائے، مثلاً ہم کہتے ہیں کہ پاکستانی ایک قوم ہیں۔ تب ہمیں کسی ایک زبان کو قومی زبان ماننا پڑے گا۔ رسمی طور پر ’’اردو‘‘ کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جاتا ہے۔​
سوال ۲:​
کیا قومی اورسرکاری زبان(official language) میں فرق موجود ہے یا اب سرکاری زبان کو ہی قومی زبان کہا جائے گا؟​
جواب: اصولی بات تو یہی ہے کہ جس سیاسی وحدت کے باسیوں کو ایک قوم کہا اور سمجھا جائے، ان کے لئے قومی زبان بھی ایک ہو گی۔ بہترین طرزِ عمل تو یہی ہے کہ اعلان شدہ قومی زبان کو جملہ سرکاری معاملات میں نافذ کیا جائے۔ اس طرح قومی زبان، سرکاری زبان اور دفتری زبان ایک ہی ہو گی۔ پاکستان میں عملاً ایسا ہو نہیں رہا۔ ایک زمانے میں ایک سرکاری حکم نامہ جاری ہوا کہ پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں دفتری زبان اردو ہو گی۔ اسی حکم نامے میں اردو کوفوری طور پر نافذ کر دیا گیا تھا۔ اب اس کو کیا کہئے گا کہ وہ حکم نامہ انگریزی زبان میں تھا۔فائلوں میں کہیں دب دبا کر رہ گیا، اور بس۔ پاکستان کے دفاتر میں انگریزی جیسے آزادی سے پہلے چل رہی تھی، ویسے ہی چلتی رہی۔ سو، اب ہماری سرکاری زبان عملاً انگریزی ہے کہنے کو جو چاہے کہہ لیجئے۔​
سوال ۳:​
کیا علاقائی زبانوں (regional languages) کو علاقائی زبانیں کہنا چاہیے یا ایک قوم کی زبانیں ہونے کے ناطے قومی زبانیں کہنا چاہیے ؟​
جواب: اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں چار قومیں بستی ہیں تو پھر چار زبانوں کو ماننا ہو گا، اور اگر یہ چاروں اور دیگر قومیتیں (اگر کوئی مزید ہیں) مل کر ایک قوم (پاکستانی) کا درجہ پاتی ہیں تو پھر ہمیں قومی سطح پر ایک ایسی زبان کی ضرورت ہو گی جو مذکورہ سب قومیتوں میں رابطے کی زبان بن سکے۔ رسماً ہم اسے اردو کہتے ہیں۔ اور پشتو، بلوچی، سندھی، پنجابی وغیرہ کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے۔​
اپنے تو گھر کے حالات ایسے ہیں، دوسروں کو ہم کیا کہیں؟​

ایسا لگا کہ جیسے میرے دل کی باتیں آپ نے میرے کہنے سے پہلے بیان کر دی ہو۔
 
Top