بارے نقشے کے کچھ معلومات درکار ہیں

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہاں بہت سے ایسے دوست موجود ہوں گے جو نقشے کے بارے میں جانتے ہونے اور نقشے کی معلومات بھی ہونگی ان کے پاس اسی لیے یہ دھاگہ شروع کر رہا ہوں۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ نقشے میں جو لائنز لمبائی اور چوڑائی میں لگائی جاتی ہیں اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ وہ کس چیز کو ظاہر کرتی ہیں
world_pol495.jpg


802649.jpg
 
انھیں خطوط عرض البلد و طول البلد latitude and longitude کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی مدد سے سطح زمین پر کسی بھی جگہ کی نشاندگی کی جاتی ہے۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے آپ گوگل کر سکتے ہیں کیوں کہ ہم نے آپ کو متعلقہ کی ورڈ فراہم کر دیا ہے۔ دوسری تصویر میں جو اوپر سے نیچے گلابی لکیریں ہیں وہ در اصل ٹائم زون کی لکیریں ہیں۔ :) :) :)
 
جناب خرم شہزاد خرم۔
جناب ابن سعید کے ارشاد کے تسلسل میں مختصر اور آسان سی تفصیل بتانے کے کوشش کروں گا۔ بچوں کے لئے اور اپنی تفہیم کے لئے ایک گلوب خرید لیں تو بہت مفید رہے گا۔ وہ ایسا ہوتا ہے جیسے ہم پوری زمین کا نقشہ جیسی وہ ہے دیکھ رہے ہیں۔ ٹو۔ڈی نقشوں میں اصل نقشہ کو کسی قدر تبدیل کرنا پڑتا ہے، اس کو ٹیکنیکی ضرورت کہہ لیجئے۔
 
گلوب پر دیکھئے، تو شمالاً جنوباً پوری زمین پر 360 خطوط لگائے گئے ہیں۔ ان کو طول بلد خطوط کہتے ہیں
خط نمبر 0 برطانیہ کے ایک مقام گرینچ سے گزرتا ہے۔ اس کے مشرق کی طرف خطوط نمبر 1 درجہ مشرق، 2 درجے مشرق ۔۔۔ 180 درجے مشرق تک اور مغرب کی طرف 1 درجہ مغرب، 2 درجے مغرب ۔۔۔ 180 درجے مغرب تک۔
180 درجے مشرق اور 180 درجے مغرب ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتے ہیں یعنی یہ حقیقتاً ایک ہی خط ہے جو براعظم ایشیا کے مشرق اور براعظم شمالی امریکہ کے مغرب سے گزرتا ہے اور زیادہ تر سمندر میں ہے۔ 180 درج مشرق سے آگے مشرق ہی میں چلتے رہیں تو 179 درجے مغرب آ جاتا ہے۔
 
دوسرے نقشے میں گلابی خطوط جو دئے گئے ہیں وہ ٹائم زون کو ظاہر کرتے ہیں۔ سورج کے حساب سے تو ٹائم زون شمالاً جنوباً پورے کرہ ارض پر ایک ہی ہوتا ہے تاہم سیاسی تقسیموں کو لحاظ میں رکھتے ہوئے اس کو شرقاً غرباً تھوڑا سا ادھر ادھر کر لیا گیا ہے، تا کہ ایک ہی ملک جو ایک سے زیادہ ڈگری طول بلد پر پھیلا ہوا ہو اس کی ساری مملکت میں ٹائم کو ایک ہی رکھا جا سکے۔

آسان ترین زبان میں جب گرینچ میں عین دوپہر ہو (دن کے بارہ بجے) اس وقت ڈیٹ لائن (180 درجے مشرق = 180 درج مغرب) پر ٹھیک نصف شب (رات کے بارہ بجے) کا وقت ہوتا ہے اور تاریخ بدل جاتی ہے، اس لئے اس خط کو ڈیٹ لائن بھی کہتے ہیں۔ ہم اگر ڈیٹ لائن سے مشرق کی سمت سفر میں ہوں تو وہاں ہمیں اپنی گھڑیاں ایک دن پیچھے کرنی ہوں گی، اور اگر مغرب کی سمت سفر میں ہوں تو ایک دن آگے کرنی ہوں گی۔ تفصیلی نقشے انٹرنیٹ پر بہت دستیاب ہیں۔
 
دوسری طرف قطب شمالی سے قطب جنوبی تک زمین کو کل 180 درجوں میں بانٹا گیا ہے۔ ان خطوط کو عرض بلد کہتے ہیں۔ ان کی گنتی قطبین کے ٹھیک درمیان یعنی خط استوا سے کی جاتی ہے۔ خطِ استوا صفر درجہ عرض بلد ہے۔ 1، 2، 3 شمال کی طرف چلتے چلتے 90 درجے شمال پر قطب شمالی ہے اور اسی طور جنوب کی طرف 90 درجے پر قطب جنوبی ہے۔ خطِ استوا پر زمین دو نصف کروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ بر اعظم ایشیا سارے کا سارا، بر اعظم افریقہ کا زیادہ علاقہ، بر اعظم یورپ اور شمالی امریکہ شمالی نصف کرے میں ہیں۔ برِ اعظم آسٹریلیا سارے کا سارا، بر اعظم افریقہ کا کچھ حصہ اور بر اعظم جنوبی امریکہ کا 90 فی صد سے زیادہ حصہ جنوبی نصف کرہ میں ہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ابن سعید بھائی بالکل آپ نے درست فرمایا۔ اگر گوگل ہی کرنا ہے تو پھر میں یہاں کس لیے آیا ہوں۔ پھر تو میں گوگل پر اپنا ایک اکاونٹ بنا لیتا ہوں ساری معلومات وہاں سے لیا کروں گا۔ :)
نقشے پر جو لمبائی اور چوڑائی کی لائنز ہیں یہ خطوط عرض البلد و طول البلد کے نشاندہی کرتی ہیں اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کون سا ملک کون سے ملک سے کتنا دور ہے۔ اور ٹائم زون والی جو لکیریں ہیں وہ ہمیں ٹائم کے بارے میں بتاتی ہیں۔ جی ایم ٹی (گرین وچ مین ٹائم) گرین وچ لندن میں موجود ہیں۔ مجھے جو معلوم ہے کہ ٹائم وہاں سے شروع ہوتا ہے مطلب وہ مقام صفر ہے اس سے آگے جتنے مقام ہے وہاں جمع اور اس سے پیچھے جتنے مقام ہے ان پر نفی ٹائم ہوتا ہے۔ یعنی نقشہ کے مطابق جو درمیان والی لکیر ہے وہ صفر پر ہے اور اس لکیر کے ساتھ جتنے ممالک ہونگے ان سب میں ایک ہی ٹائم ہو گا اور جو اس لکیر سے لیفٹ سائیڈ پر ہونگے یعنی وہ گرین وچ سے بعد میں ہونگے اور ان کا ٹائم نفی میں آئے گا یعنی ان کے ٹائم کے ساتھ جی ایم ٹی اور اس کی تعداد کے ساتھ نفی لکھا جائے گا اور جو اس سے آگے ہونگے اس کا جی ایم ٹی کے ساتھ جمع کا نشان لگے گا۔ مثال کے طور پر اگر نقشے کو دیکھا جائے۔ تو پاکستان انگلینڈ سے آگے ہے ، چار یا پانچ گھنٹے آگے ہیں اس لیے پاکستان کے ٹام کے ساتھ جمع 5 جی ایم ٹی لگتا ہے۔ اب پاکستان میں جو ٹائم اس وقت ہو رہا ہے انگلینڈ میں پانچ گھنٹوں بعد وہ ٹائم ہوگا جو اس وقت پاکستان میں ہے۔ کچھ اس طرح کے مطلب ہیں ان لکیروں کے۔ اور ان لکیروں سے سمت کا پتہ چلایا جاتا ہے جہاز اسی لکیروں کی مدد سے سفر کرتے ہیں۔ میرے پاس تو اس طرح کی معلومات ہے۔ جو کچی پکی ہیں اگر کوئی اس سے بہتر سمجھا سکے بلکہ سمجھا سکنے والے موجود ہیں تاکہ مجھے بھی اپنی غلطیاں درست کرنے کا موقعہ ملے
 
نقشوں میں روس، کینیڈا، گرین لینڈ، اینٹارکٹکا شرقاً غرباً جتنے پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں حقیقتاً ان کا پھیلاؤ اتنا نہیں ہے۔ اس کا صحیح تخمیہ گلوب سے ہوتا ہے۔

مزید پھر کبھی سہی۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جناب خرم شہزاد خرم۔
جناب ابن سعید کے ارشاد کے تسلسل میں مختصر اور آسان سی تفصیل بتانے کے کوشش کروں گا۔ بچوں کے لئے اور اپنی تفہیم کے لئے ایک گلوب خرید لیں تو بہت مفید رہے گا۔ وہ ایسا ہوتا ہے جیسے ہم پوری زمین کا نقشہ جیسی وہ ہے دیکھ رہے ہیں۔ ٹو۔ڈی نقشوں میں اصل نقشہ کو کسی قدر تبدیل کرنا پڑتا ہے، اس کو ٹیکنیکی ضرورت کہہ لیجئے۔
گلوب پر دیکھئے، تو شمالاً جنوباً پوری زمین پر 360 خطوط لگائے گئے ہیں۔ ان کو طول بلد خطوط کہتے ہیں
خط نمبر 0 برطانیہ کے ایک مقام گرینچ سے گزرتا ہے۔ اس کے مشرق کی طرف خطوط نمبر 1 درجہ مشرق، 2 درجے مشرق ۔۔۔ 180 درجے مشرق تک اور مغرب کی طرف 1 درجہ مغرب، 2 درجے مغرب ۔۔۔ 180 درجے مغرب تک۔
180 درجے مشرق اور 180 درجے مغرب ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتے ہیں یعنی یہ حقیقتاً ایک ہی خط ہے جو براعظم ایشیا کے مشرق اور براعظم شمالی امریکہ کے مغرب سے گزرتا ہے اور زیادہ تر سمندر میں ہے۔ 180 درج مشرق سے آگے مشرق ہی میں چلتے رہیں تو 179 درجے مغرب آ جاتا ہے۔
دوسرے نقشے میں گلابی خطوط جو دئے گئے ہیں وہ ٹائم زون کو ظاہر کرتے ہیں۔ سورج کے حساب سے تو ٹائم زون شمالاً جنوباً پورے کرہ ارض پر ایک ہی ہوتا ہے تاہم سیاسی تقسیموں کو لحاظ میں رکھتے ہوئے اس کو شرقاً غرباً تھوڑا سا ادھر ادھر کر لیا گیا ہے، تا کہ ایک ہی ملک جو ایک سے زیادہ ڈگری طول بلد پر پھیلا ہوا ہو اس کی ساری مملکت میں ٹائم کو ایک ہی رکھا جا سکے۔

آسان ترین زبان میں جب گرینچ میں عین دوپہر ہو (دن کے بارہ بجے) اس وقت ڈیٹ لائن (180 درجے مشرق = 180 درج مغرب) پر ٹھیک نصف شب (رات کے بارہ بجے) کا وقت ہوتا ہے اور تاریخ بدل جاتی ہے، اس لئے اس خط کو ڈیٹ لائن بھی کہتے ہیں۔ ہم اگر ڈیٹ لائن سے مشرق کی سمت سفر میں ہوں تو وہاں ہمیں اپنی گھڑیاں ایک دن پیچھے کرنی ہوں گی، اور اگر مغرب کی سمت سفر میں ہوں تو ایک دن آگے کرنی ہوں گی۔ تفصیلی نقشے انٹرنیٹ پر بہت دستیاب ہیں۔
دوسری طرف قطب شمالی سے قطب جنوبی تک زمین کو کل 180 درجوں میں بانٹا گیا ہے۔ ان خطوط کو عرض بلد کہتے ہیں۔ ان کی گنتی قطبین کے ٹھیک درمیان یعنی خط استوا سے کی جاتی ہے۔ خطِ استوا صفر درجہ عرض بلد ہے۔ 1، 2، 3 شمال کی طرف چلتے چلتے 90 درجے شمال پر قطب شمالی ہے اور اسی طور جنوب کی طرف 90 درجے پر قطب جنوبی ہے۔ خطِ استوا پر زمین دو نصف کروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ بر اعظم ایشیا سارے کا سارا، بر اعظم افریقہ کا زیادہ علاقہ، بر اعظم یورپ اور شمالی امریکہ شمالی نصف کرے میں ہیں۔ برِ اعظم آسٹریلیا سارے کا سارا، بر اعظم افریقہ کا کچھ حصہ اور بر اعظم جنوبی امریکہ کا 90 فی صد سے زیادہ حصہ جنوبی نصف کرہ میں ہیں۔
نقشوں میں روس، کینیڈا، گرین لینڈ، اینٹارکٹکا شرقاً غرباً جتنے پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں حقیقتاً ان کا پھیلاؤ اتنا نہیں ہے۔ اس کا صحیح تخمیہ گلوب سے ہوتا ہے۔

مزید پھر کبھی سہی۔
جزاک اللہ جزاک اللہ
مزید کا انتظار رہے گا
 
پرانے حساب کے مطابق خطِ استوا پر زمین کا محیط تقریباً چوبیس ہزار میل ہے۔ یوں زمین کی اپنے محور کے گرد کھومنے کی رفتار خطِ استوا پر تقریباً 670 میل فی گھنٹہ ہے، دس منٹ میں گیارہ میل۔ حتمی اعداد انٹر نیٹ سے لئے جا سکتے ہیں۔
 
خطِ استوا سے ساڑھے تیئس درجے شمال میں ایک فرضی خط ہے (بالکل فرضی بھی نہیں، تفصیل آگے آئے گی)، جسے خطِ سرطان کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مقابل ساڑھے تیئس درجے جنوب میں خطِ جدی ہے۔ زمین کی وہ پٹی جو خطِ جدی سے خطِ سرطان تک پہیلی ہوئی ہے اسے منطقہ حارہ (زمین کا گرم منطقہ) کہتے ہیں۔ جاپان سے آسٹریلیا کے نصف شمالی حصے تک۔ جنوبی ہند، مصر، لیبیا، مراکش وغیرہ ہے جنوبی افریقہ کی نوک تک، شمالی امریکہ کی جنوبی دُم سے جنوبی امریکہ کی شمالی پٹی تک کے علاقے اس منطقہ میں ہیں۔ ’’ابلیسی تکون‘‘ بھی شاید اسی پٹی میں آتی ہے۔
منطقہ حارہ کا موسم سارا سال گرم رہتا ہے، سردی اور گرمی کے درجہء حرارت میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا۔
 
ادھر قطبین سے ساڑھے تیئس ڈگری استوا کی طرف یعنی ساڑھے سڑسٹھ ڈگری شمال سے قطب شمالی تک منطقہ باردہ شمالی (زمین کا انتہائی شمال) اور ساڑھے سڑسٹھ ڈگری جنوب سے قطب جنوبی (زمین کا انتہائی جنوب) تک منطقہ باردہ جنوبی ہے۔ (نام کی توثیق کر لیجئے گا)۔ ان دونوں خطوں میں بارشیں اور برف باری زیادہ ہوتی ہے۔ اور تقریباً سارا سال برف جمی رہتی ہے۔ دل چسپ بات یہ کہ جسے پرانی داستانوں میں کہا جاتا تھا کہ ’’فلاں بادشاہ کی حکومت ان علاقوں تک تھی جہاں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے‘‘ یہی قطبین کے منطقے ہیں۔
 
منطقہ حارہ اور دونوں باردہ منطقوں کے درمیان کی پٹیوں کو معتدلہ منطقے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں پٹیوں میں موسم بہت متنوع ہیں اور سردی اور گرمی کے موسموں میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔
تقریباً سارا ایشیا، سارا یورپ اور سارا شمالی امریکہ منطقہ معتدلہ شمالی میں ہیں۔
براعظم افریقہ اور جنوبی امریکہ کے جنوبی حصے اور آسٹریلیا کا زیادہ حصہ منطقہ معتدلہ جنوبی میں ہیں۔
 
پرانے حساب کے مطابق خطِ استوا پر زمین کا محیط تقریباً چوبیس ہزار میل ہے۔ یوں زمین کی اپنے محور کے گرد کھومنے کی رفتار خطِ استوا پر تقریباً 670 میل فی گھنٹہ ہے، دس منٹ میں گیارہ میل۔ حتمی اعداد انٹر نیٹ سے لئے جا سکتے ہیں۔
معذرت خواہ ہوں، درستی فرما لیجئے گا۔ تقریباً ایک ہزار میل فی گھنٹہ، ایک منٹ میں سترہ میل سے کچھ کم۔
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ آسی بھائی کی جغرافیہ کی معلومات قابلِ رشک ہے، بلکہ یوں کہوں کہ اب تک بھولے نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ میری طرح کچھ ملازمت میں بھی اس سے تعلق رہا ہو۔ میں تو جیالوجسٹ ہوں نا پیشے اور تعلیم کے لحاظ سے۔
 
جناب الف عین۔ آپ کا حسنِ ظن ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے، کچھ راہنمائی نقوش سے لے لی۔
آپ جیسے اہلِ علم و فن سے جو کچھ سنتا ہوں آگے پہنچا دیتا ہوں۔

ملازمت میں تو یہ فقیر اکبر حسین اکبر الٰہ آبادی کا وصی رہا ہے۔ یعنی ’’کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا‘‘۔

بہت آداب۔
 
Top