جمال احسانی غزل ۔ ہے جس کے ہات میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں ۔ جمال احسانی

محمداحمد

لائبریرین
غزل

ہے جس کے ہات میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں
کہ فکرِ آئینۂ جسم و جاں ، یہاں بھی نہیں

جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں

اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سننے کو
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں

وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے
کہ رہنے کا متحّمل تو یہ مکاں بھی نہیں

زمیں پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں

سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں

نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں

مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمال
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں

جمالؔ احسانی
 

محمداحمد

لائبریرین
اطہر نفیسؔ کے نام ۔۔۔۔
ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں
کہ فکرِ آئینہء جسم و جاں، یہاں بھی نہیں
جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں
اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں
وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے
کہ رہنے کا متحمل تو یہ مکاں بھی نہیں
زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں
سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں
نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں
مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمالؔ
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں
جمال احسانیؔ (ستارہ ء سفر)
 
زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں۔
واہ بہت خوب انتخاب ھے ۔ شکریہ ارسال کرنے کے لیے احمد صاحب۔​
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ کیا خوب غزل ہے جمال احسانی کی۔۔۔ لطف آ گیا
زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں۔
واہ بہت خوب انتخاب ھے ۔ شکریہ ارسال کرنے کے لیے احمد صاحب۔​

بہت شکریہ توجہ اور انتخاب کی پسندیدگی کا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
محمد وارث بھائی السلام علیکم،

کیسے ہیں آپ؟

حیرت ہے کہ میں نے یہ غزل پوسٹ کرنے سے پہلے تلاش کی تھی کیونکہ مجھے شبہ تھا کہ شاید یہ غزل میں پہلے پوسٹ کر چکا ہوں، لیکن تلاش کے نتیجے میں مجھے کچھ نہیں ملا سو میں نے اسے پوسٹ کردی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ احمد صاحب، خیریت سے ہوں۔ آج کچھ وقت ملا تو پسندیدہ کلام کی پچھلی کارگزاری دیکھ رہا ہوں اور مکرر موضوعات کو ضم کرنے کا ناگوار فریضہ انجام دے رہا ہوں :)
 

محمداحمد

لائبریرین
شکریہ احمد صاحب، خیریت سے ہوں۔ آج کچھ وقت ملا تو پسندیدہ کلام کی پچھلی کارگزاری دیکھ رہا ہوں اور مکرر موضوعات کو ضم کرنے کا ناگوار فریضہ انجام دے رہا ہوں :)

بہت معذرت بھائی۔۔۔۔! میں ہر ممکن احتیاط کرتا ہوں لیکن اس بات غلطی ہو ہی گئی۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے
کہ رہنے کا متحّمل تو یہ مکاں بھی نہیں
بہت خوب!

زمیں پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں
بہت خوبصورت ۔۔۔

سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں
واہ کیا حقیقت ہے!

نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں
پوری غزل ہی بہت خوبصورت ہے۔ شریکِ محفل کرنے کے لئے شکریہ۔
 

برگشتہ بخت

محفلین
اطہر نفیسؔ کے نام ۔۔۔۔

ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں
کہ فکرِ آئینہء جسم و جاں، یہاں بھی نہیں


جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں


اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں


وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے
کہ رہنے کا متحمل تو یہ مکاں بھی نہیں


زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں


سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں


نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں


مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمالؔ
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں


جمال احسانیؔ (ستارہ ء سفر)
السلام علیکم جناب!

کیا ستارۂ سفر کے اس صفحے کا عکس مل سکتا ہے جہاں سے یہ غزل ٹائپ کی گئی ہے؟ دراصل مقطع سے پہلے شعر کے بارے میں تصدیق کرنی ہے کہ یہاں ”اس کو“ ہے یا ”اس کی“۔۔۔ کلیاتِ جمال جو کہ ۲۰۱۷ میں عقیل عباس جعفری صاحب نے مدوّن کیا۔۔۔ اس میں ”اس کی“ لکھا ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top