شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

ہُوئے جو ماجرے خلوت سرائے راز میں اُس سے
نہ کُفر اب تک ہُوا واقِف، خبر اُس کی نہ اِیماں کو

اضغؔر گونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین

نہ دیکھوں میں اُسے ، پھر بھی اُسی کو دیکھتا ہُوں میں
نگاہوں میں وہی اِک چہرۂ خوشتاب رہتا ہے

تابؔش دہلوی
(مسعوُدالحسن
)
 

طارق شاہ

محفلین

کبھی تو پا ہی لیں گے ہم اُسے تعبیر کی صُورت
جو ، اِن بیدار آنکھوں کے لئے بھی خواب رہتا ہے


تابؔش دہلوی
(مسعوُدالحسن
)
 

طارق شاہ

محفلین

تیرے دِیوار و دَر کے سایوں پر
مجھ کو ہوتا ہے سانپ کا دھوکہ

بُوٹا بُوٹا ہے سانپ کی تصوِیر!
پتّا پتّا ہے سانپ کا ٹیکہ

آسماں جیسے سانپ کی کنڈلی!
تارا تارا ہے سانپ کا منکا

آرہی ہے لکِیر سانپوں کی
ہر گلی پر ہے سانپ کا پہرا

سانپ ہی سانپ مَیں جِدھر دیکھوں
شہر تیرا تو گڑ ھ ہے سانپوں کا

تیرے گھر کی طرف سے میری طرف
بڑھتا آتا ہے ایک سایا سا

دُھوپ سا رنگ، برق سی رفتار
جسم شاخِ نبات سا پَتلا

پُھول سا پھن، چراغ سی آنکھیں
یہ تو راجا ہے کوئی سانپوں کا

ہاں مِری آستیں کا سانپ ہے یہ
کیوں نہ ہو مجھ کو جان سے پیارا


ناصؔر کاظمی

 

طارق شاہ

محفلین

اے ارضِ وطن! مجھے تیری قسم
جب تجھ کو ضرُورت ہو میری
شمشیر بنے گا میرا قلم

مَیں تیرے لیے پھر آؤں گا
ہر عہد میں تیری نسلوں کو
خوشیوں کے گیت سُنا ؤں گا


ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

پی، فو، جن


اُس کے ریشمی پھرن کی سر سر ، اَب خاموش ہے

مر مر کی پگڈنڈی دُھول سے اَٹی ہُوئی ہے
اُس کا خالی کمرہ کتنا ٹھنڈا ، اورسُونا ہے
دروازوں پر گِرے ہُوئے پتّوں کے ڈھیر لگے ہیں

اُس سُندری کے دھیان میں بیٹھے
مَیں اپنے دُکھیارے من کی کیسے دِھیر بندھاؤں


ناصؔر کاظمی
(منظوم ترجمۂ نظم: وی تی )
 

طارق شاہ

محفلین

شب کٹ گئی فُرقت کی دیکھا نہ فراقؔ آخر!
طُولِ غمِ ہجراں بھی ، بیکار نظر آیا


فراقؔ گورکھپوُری
(رگھو پتی سہائے)
 

طارق شاہ

محفلین

یاؔس! بیداریِ موہُوم ہے ساری ہستی !
آنکھ ہو بند، تو سب خواب پریشاں ہوجائے

مِرزا یاس، یگانہ،چنگیزی
(مِرزا واجد حسین عظیم آبادی )
 
Top