Living Among Giants by Michael Carroll - اردو ترجمہ

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زہیر عباس صاحب ! بہت ہی قابل ستائش کام کرہے ہیں یہ آپ ۔ اگرچہ میں نے اسے صرف سرسری نظر سے جہاں تہاں سے دیکھاہے لیکن معیاری کام لگ رہا ہے ۔ ایسی کتب کا اردو ترجمہ اردو کی بڑی خدمت ہے ۔ صد تحسین آپ کیلئے!!
:thumbsup2::thumbsup2:
 

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری

حصّہ دوم - منزل


چوتھا باب - 1


گیسی اور برفیلے دیو



خاکہ 4.1 زحل کے حلقوں کے بالائی حصّہ پر ، ایک تیرتا ہوا تفریحی جہازحلقے بی کے باہری کونے پر موجود شیوران (انگریزی حرف V کی شکل جیسی ساخت) پر نگاہ جمائے ہوئے ہے۔ یہاں پر ننھے چاند کی وجہ سے ہونے والی ثقلی اتھل پتھل مادّے کی 2.5کلومیٹر اونچی لہر کو پیدا کر رہی ہے۔ پس منظر میں (بائیں سے دائیں)میماس ،ٹیتھس اور انسیلیڈس ہیں جبکہ حلقے کے بائیں طرف وسط میں چھوٹا حلقے میں پیوست چاند موجود ہے۔


فرانسیسی تاثر پسند مصّور پئیری آگسٹی رینوئر کھلی فضا میں تصویر بنانا پسند کرتا تھا۔ اس تجربے میں اس کو اپنے کینوس پر تازگی اور وجدان ملتا تھا ۔ وہ چاہئے جتنی مرتبہ بھی گیورنی کے باغ یا فونٹین بلیو کے جنگلات میں تصویر بناتا ، ہر مرتبہ قدرت اسے متحیر کر دیتی تھی۔ اپنے روزنامچے میں اس نے تبصرہ کیا، "آپ قدرت کے پاس اپنے نظریات لے کر آتے ہیں اور وہ ان تمام کو چت کر دیتی ہے۔" شاید وہ سیاروی سائنس کے بارے میں بات کر رہا ہوگا ۔

خلائی دور کی آمد کے ساتھ ہی کئی نظریات چت ہو گئے۔ اس سے پہلے مشاہدہ کرنے والے عظیم فاصلوں پر انتہائی کم روشنی کے اندر بیرونی نظام شمسی کو کھوجنے کی جدو جہد میں مصروف عمل رہتے تھے۔ یہاں تک کہ ١٩٦٠ء کی دہائی تک بھی دوربینیں پراسرار دیوہیکل سیاروں کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں بتاتی تھیں۔ ماہرین فلکیات مشتری کے عظیم سرخ دھبے اور تقابلی دھبوں کے بارے میں صدیوں سے جانتے تھے۔ ایک شوقین شاہد اسکاٹ لینڈ کے رہائشی "ولیم تھامسن ہائے " نے زحل پر عظیم سفید دھبے کو دریافت کرلیا تھا، یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ سنہری سیارہ بھی مشتری جیسے موسم رکھتا ہے۔ یورینس اور نیپچون کافی ضدی ثابت ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے کسی بھی قسم کے رازوں کو آشکار کر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جیسا کہ پیٹرک مور نے ١٩٦١ء میں ' تازہ علم کے خلاصے' میں لکھا:

دو بیرونی دیوہیکل کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں ہے، یورینس اور نیپچون دونوں ایک دوسرے کے جڑواں لگتے ہیں۔ وہ بعینہ مشتری اور زحل کے نمونے پر بنے ہوئے لگتے ہیں ، لیکن سطح کی تفصیلات حاصل کرنا کافی مشکل ہیں کیونکہ وہ کافی زیادہ دور ہیں۔۔۔ دونوں بیرونی سیاروں کے سیارچے ہیں۔ یورینس کے پانچ جبکہ نیپچون کے دو ہیں۔ ان میں سے ایک نیپچون کا مصاحب (ٹرائیٹن) تین ہزار میل سے بھی زیادہ رقبے پر مشتمل ہے، دوسرا (نریڈ ) ایک بونا ہے، اور اس کا مدار اتنا بیضوی ہے کہ اس کا نیپچون سے فاصلہ دس سے ساٹھ لاکھ میل کے درمیان رہتا ہے ۔ [1]

سیکھنے کی کافی چیزیں وہاں موجود ہیں، لیکن ایک چیز شروع میں ہی واضح تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ گیسی دنیا کے کرہ فضائی زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم پر مشتمل ہیں۔ ہرچند کہ سائنس دان گیسی اور برفیلے دیو ہیکلوں پر نہیں جا سکتے لیکن وہ ان کے بارے میں کچھ چیزیں تجربہ گاہ میں معلوم کر سکتے ہیں۔ اسٹینلے ملرکے رہنما کام نے دیوہیکل سیاروں کے کرہ فضائی میں اس قسم کے نامیاتی مادّوں اور پیچیدہ ہائیڈرو کاربن کو سمجھنے میں مدد دی ہے جو حیات کے بنیادی جز ہیں ۔[2]

١٩٥٣ء میں ملر اور اس کی شکاگو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ہیرالڈ یوری [3] نے بھاپ کو ہائیڈروجن، میتھین اور امونیا کے امتزاج میں داخل کیا۔ انہوں نے قدیمی گارے پر برق کو خارج کیا، نتیجے میں گہرے نامیاتی مادّہ کی بارش حاصل ہوئی۔ اس مادّہ نے بھورے رنگ کی کیچڑ کو بنایا یہ مادّہ ملر کو اپنی تجربہ گاہ کے نیچے تجرباتی جار میں ملا اور اس کو تھولین کہا گیا۔ امیدیں اس وقت جاگ اٹھائیں جب لائف جریدے کے مصنف نے ١٩٦٦ء میں اپنی کتاب سیاروں میں لکھا:[4]

حیات کی شکل کو سہارا دینے سے معذور: سب کی یہ متفقہ رائے ماضی میں ان چار دور دراز سیاروں - زحل، نیپچون، یورینس اور پلوٹو کے بارے میں تھی۔۔۔ لیکن اس رائے پر اب معقول حد شبہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت کہ زحل، یورینس اور نیپچون کے کرۂ فضائی موجود ہیں جو حیات ماقبل جیسے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔۔۔ حالیہ دریافتوں سے معلوم ہوا ہے کہ (ان کے کرۂ فضائی ) کیمیائی طور پر ان تعاملات کے لئے موزوں ہیں جو حیات کی شروعات کے لئے ضروری ہیں۔ مزید براں کہ ماضی میں ان دور کے سیاروں کے درجہ حرارت کو منفی ٢٧٠ اور اس سے کم ایک جیسا ہی سمجھا جاتا رہا تھا لیکن ایسا نہیں تھا۔ سورج کی حرارت سیاروں کی اندرونی حرارت سے مل کر ہمیشہ کے لئے ان کے کرہ فضائی کے خول میں پھنس جاتی ہے۔

ماہر فلکیات کارل ساگاں اور ماحولیاتی سائنس دان مثلاً جوناتھن لونائن اس تصور کے دلدادہ تھے کہ دیوہیکل سیاروں کی ہی طرح، زحل کا بڑا چاند ٹائٹن بھی تھولین کو سورج کی روشنی کے ساتھ میتھین کے تعامل سے پیدا کر سکتا ہے، تجربہ کار سیاروی سائنس دان بین کلارک اضافہ کرتے ہیں، "تجربہ گاہ میں وہ ٹائٹن پر موجود ماحول کو ان گیسوں کی مدد سے بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے خیال میں وہاں موجود ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ وہاں کس قسم کے ذرّات موجود ہیں۔ اس طرح یہ تھولین کو ایسے ہی پیدا کرتا ہے جیسے کارل ساگاں اور اسٹین ملر نے کیا تھا۔ اس کے ساتھ کام کرنا تھوڑا خطرناک ہے۔ یہ سرطان پیدا کرنے والا ہے کیونکہ اس میں تمام عجیب و غریب کیمیائی مادوں کو ملایا جاتا ہے۔" ہم اب یہ جانتے ہیں کہ یہ عمل بیرونی نظام شمسی کے بالائی کرہ فضائی میں عام ہے، اور تمام گیسی اور برفیلے دیوہیکل سیاروں میں جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حیات کی کیمیائی بنیادیں مشتری، زحل، یورینس، نیپچون اور ٹائٹن کے تمام بادلوں میں بکھری ہوئی ہیں۔[5]


خاکہ 2.4 ملر یوری تجربے میں استعمال ہونے والا آلہ


جاری ہے ۔۔۔۔۔



[1]۔فلکیات کی تاریخ کی تصویر از پیٹرک مور ۔

[2]۔اس وقت سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ قدیمی زمین میں اس طرح کا کرہ فضائی موجود تھا جس طرح کا کرۂ فضائی گیسی دیو کے پاس اب ہے۔ ہرچند کے یہ مفروضہ اب باقی نہیں رہا ، تاہم تجرباتی کام کا اطلاق اب بھی بیرونی سیاروں پر ہوتا ہے۔ ملر کے بعد کا کام مختلف قسم کے گیسوں کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے جن کا قدیمی دنیا میں موجود ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔

[3]۔انہوں نے بعد یہ تجربہ سان ڈیاگو میں واقع کیلی فورنیا یونیورسٹی میں کیا جہاں اس کو ١٩٥٤ء میں شایع کیا گیا۔

[4]۔سیارے از کارل ساگاں ، جوناتھن نورٹن لیونارڈ اور مدیر لائف۔

[5]۔ٹائٹن کا کرہ فضائی ہائیڈرو کاربن بھی پیدا کرتا ہے، لیکن کم کرہ فضائی کے ساتھ اس کے ماحول میں کم کیمیائی تعامل ہوتے ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب - 2

گیسی اور برفیلے دیو


جدید نقطہ نظر

جدید خلائی کھوجی اور دور سے مشاہدہ کرنے کے طریقوں میں جدت کی بدولت ہم سے بیرونی سیاروں کا تعارف بادلوں اور کہر کے جہاں کے طور پر ہوا، ایسی دنیائیں جہاں چنگھاڑتی ہوائیں چلتی ہیں اور کرچی کرچی کر دینے والی آندھی و طوفان ہزاروں میل پر محیط ہوتے ہیں۔ زمین کے حجم جتنے طوفان وہاں پر برسوں یا عشروں سے دھاڑتے، ایک دوسرے میں ضم ہوتے، رنگ بدلتے رنگین کہر میں چھپ جاتے ہیں۔ گیسی جہانوں میں کرۂ فضائی ہائیڈروجن، ہیلیئم اور امونیا سے مل کر بنا ہے، جبکہ نیلے برفیلے دیو کے موسموں میں میتھین کا غلبہ ہے۔ زمین پر ہم امونیا سے اپنے غسل خانے صاف کرتے ہیں اور میتھین سے اپنے چولھے جلاتے ہیں۔ لیکن گیسی اور برفیلے جہاں سن کر دینے والی سردی کے ساتھ موجود ہیں جہاں میتھین بارش کی صورت میں برستی ہے اور امونیا کی برف باری زہریلے بادلوں کے ذریعہ ہوتی ہے ۔

بیرونی جہانوں میں بارش کو نیچے گرنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔ ارضی سیاروں کے برعکس ان کی سطح برف اور چٹان کے بجائے گیسوں اور بادلوں کی ہے۔ تمام گیسی اور برفیلے جہانوں میں ٹھوس اور مائع کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہے، ان دیوہیکل سیاروں پر کھڑے ہونے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ گیسی دیوہیکل سیاروں کے قلب زمین سے زیادہ کثیف ہیں، لیکن جب ان کے قلب مرکز سے آگے بڑھنا شروع ہوتے ہیں تو ماحول چٹانی اور دھاتی ٹھوس سے بدل کر مائع دھاتی ہائیڈروجن کے سمندر میں بدل جاتا ہے، اور اس کے بعد گیس میں۔ یورینس اور نیپچون میں قلب کا دباؤ اتنا نہیں ہے کہ ہائیڈروجن کو مائع دھات میں بدل سکے۔

ہمارے گھر کا کوئی بھی پڑوسی ارضی سیارہ گیسی دیو کے حجم کے آگے بونا لگے گا۔ اصل میں ہمارا نظام شمسی سورج، مشتری اور کچھ حادثاتی ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ مشتری خود تمام دوسرے سیاروں اور تمام مہتابوں کی کمیت کو ملانے کے بعد بھی ان سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ زمین جیسے ١٣٠٠ سیارے اس کے اندر سما سکتے ہیں۔ زحل بھی چھوٹا نہیں ہے۔ اس کے حلقے کے نظام زمین اور چاند کے فاصلے کا دو تہائی حصّے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یورینس اور نیپچون دونوں حجم میں لگ بھگ جڑواں ہیں۔ دونوں کے پاس ٦٠ زمینوں جیسی مادّے کی مقدار موجود ہے۔ یورینس کا موسم اتنا لطیف نہیں ہے جتنا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا اور اس کا موسم نیپچون کو ایک طرح سے مشین کی طرح جوڑتا ہے، یہاں میتھین کے ایسے باد باراں کی آندھی اور طوفان پیدا ہوتے ہیں جن کا حجم کسی بھی ارضی سیارے جتنا ہوتا ہے۔

تمام دیوہیکل سیارے تیزی سے گھومتے ہیں۔ مشتری کا ایک دن ٩ گھنٹے اور ٥٥ منٹ کا ہوتا ہے۔ زحل ایک چکر ١٠ گھنٹے ٣٠ منٹ میں پورا کر لیتا ہے۔ کیونکہ یہ سیارہ مشتری سے کہیں زیادہ کم کثیف ہے لہٰذا اس کا گھماؤ اس کے قطبین کو کافی چپٹا کر دیتا ہے۔ یورینس اور نیپچون ١٢ گھنٹے ١٥ منٹ اور ١٦ گھنٹے میں بالترتیب اپنا ایک چکر مکمل کرتے ہیں۔

مشتری، زحل اور یورینس کے ماحول میں تغیر ہے، ان کے کرہ فضائی میں زیادہ تر غلبہ قدیمی نظام شمسی کو بنانے والی گیسوں یعنی کہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا ہے ۔ ہیلیئم اور ہائیڈروجن میں آپس کی نسبت دونوں مشتری اور زحل میں سورج کی ترکیب جیسی ہی ہے۔ یورینس اور نیپچون کا ارتقاء تھوڑا سا ہٹ کر مختلف گیسوں سے ہوا ہے یہاں میتھین کی فراوانی کافی ہے۔ بیرونی نیلے جہانوں کی ہوا میں کم از کم ١٥ % ہیلیئم موجود ہے لیکن کسی چیز نے مشتری اور زحل کی بالائی فضا سے ہیلیئم کو نکال دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گیسی دیو کے کرہ فضائی میں موجود ہیلیئم قلب کے قریب کثیف مائع دھاتی ہائیڈروجن کے "سمندر" میں غرق ہو گئی ہو۔

چاروں کی چوکڑی میں ، دیوہیکل سیارے اسی طرح کے ایک جیسے میلان رکھتے ہیں جیسا کہ بنیادی فرق۔ چاروں جہانوں میں خط استوا کے متوازی بادلوں کی پٹیاں موجود ہیں۔ بادلوں کے پٹیوں پر ناقابل تصوّر تیز ہوائیں تھپیڑے مارتی ہیں، لیکن یہ ارض بلدی حصّوں میں مستحکم رہتی ہیں۔ زمین پر براعظم ہوا کی رو کو پھیرتے ہیں، جبکہ طوفان ہمہ وقت بادلوں کی پٹیوں کو توڑتے رہتے ہیں۔ ارضیاتی طوفان آتے ہیں اور جاتے ہیں عام طور پر ایک ہی دن کے ہوتے ہیں یا طوفان باد باراں اور مون سون کی طرح ہفتے بھر تک رہتے ہیں۔ لیکن گیسی دیوہیکل سیاروں کے دیوہیکل طوفان عشروں یا پھر صدیوں تک چلتے رہ سکتے ہیں ۔ماہرین فلکیات مشتری کے عظیم سرخ دھبے کو لگ بھگ چار سو برس سے دیکھ رہے ہیں۔ شروع میں انہیں لگا کہ یہ شاید زبردست آتش فشاں ہے، لیکن ان کو بالآخر یہ حقیقت معلوم ہو گئی کہ دیوہیکل جہاں عظیم الجثہ طوفان پیدا کر سکتے ہیں ۔ مشتری کے اس سرخی مائل طوفان میں دو زمینیں سما جانے کے بعد بھی کافی جگہ بچ جائے گی۔


خاکہ 4.3 اوپر سے گھڑی کی طرح :مشتری کا عظیم سرخ دھبہ، نیپچون کا عظیم گہرا دھبہ، اور فیلکس طوفان کا موازنہ (حجم کے پیمانے پر نہیں)۔ زمین پر طوفان ہفتے بھر تک چلتے ہیں، جبکہ عظیم گہرا دھبہ مہینوں تک چلتا ہے۔ مشتری کا ضخیم طوفان صدیوں سے جاری ہے۔

بادلوں کی پٹیاں گیسی دیو مشتری اور زحل پر زیادہ واضح ہوتے ہیں، جہاں سورج زیادہ تر خط استوا پر چمکتا ہے ۔ سورج سے فاصلے کے باوجود ، نیپچون کے بادلوں کے پٹیاں بھی اچھی طرح سے واضح ہیں۔ یہاں تک کہ یورینس جس کا محور اس طرح سے جھکا ہوا ہے کہ سیارہ اپنی اطراف میں ایک طرح سے سورج کے گرد لپٹتا ساہے ، اس کی بھی بادلوں کی لطیف پٹیاں ہیں۔ کافی سیاروی ماہرین موسمیات کے اندازوں کے مطابق سورج سے دور سیاروں پر موسم مقابلے میں پرسکون ہونا چاہئے تھا۔ ہوا کو حرکت دینے کے لئے وہاں پر حرارت کم ہوگی، ماہرین کے اندازے کے مطابق زحل کی ہوائیں مشتری سے ہلکی ہوں گی، اور یورینس اور نیپچون اسی رجحان کے ساتھ پرسکون آسمان والے ہوں گے۔ لیکن فاصلہ سکون نہیں لاتا۔ کالٹک کے اینڈی انجرسول ، جو دنیا کے صف اوّل کے ماہر اوروائیجر کے سیاروی ماحولیات کی تحقیق کے اعلیٰ تفتیش کار ہیں، کہتے ہیں۔ "ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جب آپ سورج سے دور نظام شمسی میں جاتے ہیں تو ہوائیں کم نہیں ہوتیں۔ یہ کافی اہم کھوج ہے۔ یہ ہمیں تب معلوم ہوا جب وائیجر یورینس اور نیپچون کی جانب گیا۔" سب سے زیادہ ڈرامائی میلان نیپچون میں تھا، کیونکہ فاصلے پر موجود سیارے کو صرف مشتری کے مقابلے میں ٥ فیصد سورج کی توانائی ملتی ہے۔ حقیقت میں تمام بیرونی دیوہیکل سیاروں کی ہوائیں زمین سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ "ایسا کیوں ہے کہ بیرونی نظام شمسی میں ہوائیں زیادہ طاقتور ہیں؟"انجرسول پوچھتے ہیں۔ "دیوہیکل سیاروں کے درمیان بھی آیا یہ ہوائیں نیپچون میں مشتری سے زیادہ طاقتور کیوں ہیں؟"

شرقاً غرباً ہوائیں بیرونی سیاروں کے بادلوں کوگہری پٹیوں اور ہلکے علاقوں کے نمونوں میں الگ کرتی ہیں۔ زمین پر بھی کچھ اس سے ملتا جلتا دونوں نصف کروں میں موجود ہے۔ باد مراد (ان ہواوٴں میں سے ایک جو بحرِ اوقیانوس اور بحرُ الکاہل میں خَطِ استوا کی طرف چلتی رہتی ہے) مغربی ہواؤں کی رو کو خط استوا کے قریب ارض بلد پر حرکت دیتی ہیں جبکہ بھاپ کی دھاریں شرقاً بہاؤ کے ساتھ درمیانی ارض بلد پر تیرتی ہیں۔ نیپچون کی پٹیاں بھی اسی طرح دو اہم بہاؤ کے ساتھ ہر نصف کرہ میں چلتی ہیں۔ وائیجر نے یورینس کے صرف ایک ہی نصف کرہ کو دیکھا لیکن زمینی مرکز سے حاصل کردہ اعداد و شمار اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اسی طرح کی پٹیاں پورے سیارے پر موجود ہیں۔ مشتری کے پاس پانچ یا چھ ایسی پٹیاں ہیں اور ہر نصف کرہ میں ایک جیسے ہی تعداد میں علاقے موجود ہیں۔ علاقوں میں ایسا لگتا ہے کہ ہوا کی کمیت سکڑ رہی ہوتی ہے، جب کہ پٹیوں میں اٹھتی ہوئی ہوا موجود ہے۔ زحل کی پٹیاں دیکھنا مشکل ہے، جو سنہرے کہر کے نیچے گھات لگائے بیٹھی ہیں ، لیکن حلقے والے دیو ہیکل کے پاس بھی اسی تعداد میں پٹیاں موجود ہیں لیکن ان میں چلنی والی ہوائیں مشتری میں پائی جانے والی ہواؤں سے کافی تیز رفتار ہیں ۔

مشاہدات اور کمپیوٹر کے نمونے اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ ہر گیسی دیو کے بادلوں میں تین پرتیں موجود ہیں۔ مشتری اور زحل میں سب سے اوپر امونیا موجود ہے۔ اس کے نیچے بھوری برف کی قلموں کا ملغوبہ اور ہائیڈروجن سلفائڈ ہے۔ اس کے نیچے درمیان میں پانی کی برف کا کہر یا گہرائی میں پانی کے بخارات ہیں۔ نیپچون اور یورینس کے بادل بھی اسی طرح سے ترتیب میں لگتے ہیں، لیکن ان کا سرد درجہ حرارت بلند امونیا کے بادلوں کو نہیں بننے دیتا۔ اس کے بجائے میتھین کے سفید بادل گہری نیلی پرت کے اوپر تیرتے ہیں۔ نیچے والی بادلوں کی تہ بھی میتھین کی ہو سکتی ہے۔ اس سے کافی نیچے، پانی کے بادلوں میں امونیا موجود ہو سکتی ہے لیکن اگر ایسا ہے، تو وہ درمیانی تہ کے نیچے چھپی ہوئی ہے۔

بیرونی سیاروں کے آسمانوں کے اندر ثمر آور اور پیچیدہ کیمیائی کی نمو کرنے والے بے تحاشہ تعاملات بشمول اٹھتی ہوئی اندرونی حرارت کی رو، بادلوں کی تشکیل ( عمل تکثیف) اور ضیا افتراقی (وہ عمل جس میں سورج کی روشنی گیس کے سالمات کو توڑتی ہے) کی افزائش ہو رہی ہے۔ سیاروی پیمانے کے کیمیائی تجربات کے نتیجے میں، مشتری اور زحل کے بادل گہرے نارنجی، گندمی، بھورے اور نیلے رنگ کے ہو گئے ہیں۔ مزید آگے جائیں تو میتھین نے یورینس اور نیپچون کو روشنی کے طیف کے نیلے حصّے کی جانب جھکا کر ہلکا رنگ دے دیا ہے۔ نیپچون کی صاف ہوا نے مرغابی کی صورت کے بادل کا عرشہ سا بنا دیا ہے، جبکہ ہائیڈرو کاربن کہر نے یورینس کو ایک ہلکے نیلے ہرے رنگ کا کر دیا ہے۔

ایک خاصیت جو گیس اور برف کے دیو میں مشترک ہے وہ یہ کہ ان میں سے ہر ایک کے گرد حلقے موجود ہیں۔ زحل کے شاندار نظام سے لے کر نیپچون کے غیر مکمل کمان جیسے حلقے تک حلقے حجم ، تکمیل روشنی اور پیمانے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حلقوں میں موجود اختلاف کی ایک وجہ عمر بھی ہو سکتی ہے۔ زحل کا وسیع و عریض حلقوں کا نظام شاید حال ہی میں بنا ہے۔ حلقوں کے نظام کی پیدائش گرما گرم بحثوں کا موضوع رہا ہے۔ کیا حلقے کسی چاند کے تباہ ہونے سے وجود میں آئے ہیں؟ کیا کوئی آوارہ گرد ملبے کا ڈھیر سیارچہ سیارے سے کافی قریب تو نہیں ہو گیا تھا اور پھر ہو سکتا ہے کہ سیارے کی قوّت ثقل کی وجہ سے بکھر گیا ہو؟ کیا حلقے ان مہتابوں کی باقیات ہیں جو "بن کھلے مرجھا گئے" کے مصداق مکمل مہتاب بننے سے پہلے ہی بکھر گئے؟

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب - 3

گیسی اور برفیلے دیو

جہانوں کا بادشاہ


عشروں پر محیط خلائی کھوج اور صدیوں کے مشاہدات نے تفتیش کاروں کو اس قابل کر دیا کہ وہ مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر مشتری کے آسمان کا واضح خاکہ بنا سکیں۔ کرۂ قائمہ ،آسمان کا وہ حصّہ جو زیادہ تر موسم سے بس اوپر ہی ہوتا ہے، میں ہوا صاف ہے۔ یہ ہائیڈرو کاربن کہر کے زہر سے کَس کر بھری ہوئی ہے، یہ سورج کی روشنی کو برقی مقناطیسی انتشار کی وجہ سے بعینہ ویسے ہی نیلے طیف کی طرف منتشر کرتی ہے جیسے زمین کے آسمان میں ہوا کرتی ہے۔ اس تہ کے بالکل ہی نیچے نازک سفید امونیا کے برفیلے قلموں کے لچھے تیر رہے ہیں۔ پیونددار بادلوں کا عرشہ اوپر کی جانب سفر کرتا ہے اور اوپر کرۂ قائمہ اور کرۂ متغیرہ کے درمیان سرحد میں چپٹا ہو جاتا ہے ۔ نیچے درجہ حرارت بڑھتا ہوا گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ روشن امونیا کے بادلوں کے اوپر، زمین پر سطح سمندر پر موجود دباؤ0.1 بار کے دسویں حصّے جتنا دباؤ موجود ہوتا ہے اور درجہ حرارت منفی 152 سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ امونیا کی برف باری بادلوں سے نیچے کی جانب ہوتی ہے۔

اگلے مرحلے پر، زرخیز زردی مائل بھورا عرشہ روئی کے جھالر کی طرح پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے مشتری کی گہری پٹیاں بنی ہیں۔ امونیا ہائیڈرو سلفائڈ کے بادلوں کی اس تہ کے نیچے ، امونیا کے عرشے کے ٨٠ کلومیٹر نیچے، شاید زرخیز معدنی عناصر کو کافی ساری قوّتیں پیدا کر رہی ہیں: حرارت اور تابکاری جو مشتری کے اندر سے نکل رہی ہے، جبکہ امینو ایسڈ کے پیچیدہ سلسلے بادلوں میں طاقتور آسمانی بجلی سے بھی پک رہے ہیں۔ زمین کے آسمان کے مقابلے میں یہاں آسمانی بجلی شاذونادر ہی چمکتی ہے، لیکن برجیسی بجلی کی کڑک میں اتنی توانائی ہوتی ہے کہ ایک چھوٹے سے قصبے کو کئی دن تک روشن رکھ سکتی ہے۔



زمین کے براعظم جتنے حجم کے بیضوی شکل کے طوفان اپنے ارد گرد موجود بادلوں کی پٹیوں کو چبا جاتے ہیں۔ پر دار کہر کا سلسلہ طاقتور چشمے کی دھاروں کے ساتھ سیکڑوں میل دور تک چلا جاتا ہے۔ داغ دار رنگوں کے ایک دوسرے کے گرد ناچ لگاتار رنگ ، حرکت، اور بدلتی شکل کے کھیل میں ملتے اور الگ ہو جاتے ہیں۔ ہلکے سرمئی مائل نیلے بادل امونیم ہائیڈرو سلفائڈ کے گلابی بادلوں میں ادھر ادھر ٹوٹتے رہتے ہیں اور نیچے سے پانی کے بادل ابلتے ہیں۔ پانی کے بادلوں کا عرشہ سب سے نیچے ہے ،یہ لگ بھگ بلند امونیا کی بیل سے ١٠٠ میل نیچے تیرتا ہے۔ یہاں درجہ حرارت پانی کے نقطہ پگھلاؤ سے بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پانی کے بخارات بادلوں میں بدل جاتے ہیں۔ اس بادل کی تہ کے اندر کچل دینے والے دباؤ کے ساتھ ازلی رات اور جھلسا دینے والا درجہ حرارت موجود ہے، ہوا جو زیادہ تر ہائیڈروجن پر مشتمل ہے اس دباؤ پر دب کر مائع بن جاتی ہے اور پھر انتہائی عجیب برقی موصل دھاتی مائع کا سا برتاؤ کرتی ہے۔

مشتری کی پٹیاں اور علاقے ہو سکتا ہے کہ کھال سے تھوڑی زیادہ موٹی ہوں۔ کرۂ فضائی مائع کا سا برتاؤ کرتا ہے۔ گھومتے ہوئے کرہ میں مائع گھماؤ کے محور کے ساتھ قطار میں مل جاتا ہے۔ تمام دیو ہیکل سیاروں کا اندرون ممکنہ طور پر قرص کی قطار کے سلسلوں سے ترتیب دیا ہوا ہے ، جس میں سے ہر قرص اپنی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ سادہ طور پر خطے گھومتے ہوئے سلنڈروں کا سطحی اثر ہو سکتے ہیں۔

مشتری کے گرد باریک دھوئیں کی طرح گرد کے حلقے موجود ہیں۔ یہ حلقے اس قدر پتلے ہیں کہ ان کا سراغ اس وقت تک نہیں لگایا جا سکا جب تک وائیجر خلائی جہاز نے مشتری کی طرف اڑنے کے بعد ان کو نہیں دیکھا ، اس کو چمکتے ہوئے حلقے پیچھے سے نظر آئے۔

مستقبل کے کھوجیوں کے لئے مشتری جاتے ہوئےجس سب سے بڑے مسئلے سے نمٹنا ہوگا وہ اس کی زبردست قوّت ثقل کے میدان اور مہلک تابکاری ہیں۔ اس کے پگھلے ہوئے قلب کا حجم کسی ارضی سیارے جتنا ہے، اور یہ خلاء میں کروڑوں میل دور تک کا مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے۔ اس کے طاقتور مقناطیسی میدان کس قدر مہلک ہیں اس بات کا اندازہ پائینیر اور وائیجر کو بھیجنے سے پہلے (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب) ہی ماہرین فلکیات کو ہو گیا تھا انہوں نے وہاں کچھ وہاں عجیب و غریب سلسلہ جاری دیکھا تھا ۔ طاقتور ریڈیائی شعاعیں برجیسی کرہ فضائی سے مشتری کے گھماؤ کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر نکل رہی تھیں، جبکہ کچھ دوسری مشتری کے چاند آئی او کے مداروی حرکت کا پیچھا کر رہی تھیں۔ یہ تمام سرگرمیاں زمینی لوگوں کے لئے کافی پراسرار تھیں۔ خلائی جہاز پر فوراً ناپنے والے آلات کی بدولت ہمیں معلوم ہوا کہ مشتری کے مقناطیسی میدان زمین کے مقناطیسی میدانوں کے مقابلے میں بیس ہزار گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ الیکٹران اور دوسرے مہلک ذرّات مشتری کے گرد بنے ہوئے بلبلے میں قید ہے ، یہ بلبلہ سیارے کے گرد خلاء میں لگ بھگ تیس لاکھ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ شمسی ہوائیں مشتری سے ایک دُم کو گھسیٹ کر اس کے بعد ایک ارب کلومیٹر دورتک لے جاتی ہیں۔



خاکہ 4.4 پائینیر یاز دہم سے حاصل کردہ تصاویر میں مشتری کی پٹیاں اور علاقے قطبی تناظر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تصویر پر عمل کاری ٹیڈ اسٹرائیک نے کی ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قسم کا معاندانہ ماحول ٹھیک طرح سے جانچا لیا گیا ہے؟ جانس ہوپکنس یونیورسٹی کے شعبے اپلائڈ فزکس لیب کے رالف مک نٹ مسئلے پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔" اگر ہم سمجھتے ہیں کہ آسمان ہی ہماری حد ہے، تو ٹیکنالوجی اور پیسوں کے ساتھ آپ کسی قسم کا بالائی صوت خلائی جہاز کا سوچ سکتے ہیں جو برجیس کے بالائی کرہ فضائی میں اڑ سکتا ہے۔ مشتری کے ثقلی میدان کافی طاقتور ہیں، لہٰذا اس سے پہلے کہ آپ کسی چیز کو اس کی واجبی نظر آنے والی سطح پر اتارنے کی کوشش کریں آپ دسیوں کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار تک اسراع حاصل کر چکے ہوں گے۔ آپ اس ثقلی میدان میں گرنے کی بات کر رہے ہیں جو آپ کی رفتار کو اتنا اسراع دے گی جس رفتار سے زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے۔" اس رفتار پر ایک بالائی صوتی طیارہ اجنبی دنیا کے کافی علاقوں میں اڑان بھر سکتا ہے اور زیادہ تر دیوہیکل جہانوں کے آسمان پر اڑ سکتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب - 4

گیسی اور برفیلے دیو

زحل

شاندار حلقوں کا مالک زحل مشتری کی چوتھائی شمسی توانائی حاصل کرتا ہے (زمین کے مقابلے میں سو گنا کم)۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اس کے موسم مشتری کے مقابلے میں کم قوّت والے ہونے چاہئیں کیونکہ یہ کم شمسی توانائی حاصل کرتا ہے۔ اپنی دوربینوں کے ذریعہ دیکھنے والوں کو بے حس پٹیاں اور علاقے مشتری کا مدھم سا انداز دکھاتے ہیں۔ لیکن وائیجر نے زحل کے موسموں کو بھی فتنہ و فساد انگیز اور منفرد انداز والا پایا۔ قریباً تین عشروں بعد زحل کے گرد مدار میں چکر لگانے والے کیسینی نے سنہری اجنبی خلائی دنیا کو اپنے ہم مادر پدر برجیس جیسا ہی پایا۔ اس کے کہر اور بادلوں کی طویل عمر کی خاصیت زمین کے متلون مزاج موسم پر تحقیق کے برخلاف تھی۔ یہ ایک سبق تھا کہ بیرونی سیارے بار بار نئی چیزیں سکھا رہے ہیں۔ زمین کی تشبیہ کا اطلاق ہمیشہ دیوہیکل سیاروں پر نہیں ہوتا۔

ایک سنہری کہر زحل کے رفیع الشان روپ اور دھیمے خد و خال کی ذمہ دار ہے۔ کہر تب بنتی ہے جب سورج کی بالائی بنفشی روشنی ہائیڈرو کاربن مثلاً ايسيٹيلِيَن یا ایتھین کو بناتی ہے۔ یہ لمبی زنجیر والے ہائیڈرو کاربن بننے کے بعد بتدریج ایک کہر میں تکثیف ہو جاتے ہیں جو پٹیوں اور علاقوں کے اوپر تیرتی ہے۔

سیارے کی ہوائیں نظام شمسی کی سب سے غضب ناک ہوائیں ہیں۔ زحل ایک ایسی دنیا ہے جو فوق صوتی ہوا کے جھکڑوں کے ساتھ چیری جاتی ہے، جہاں پیلے - سفید بادل گہرے پٹیوں میں اس طرح لٹتے ہیں جیسے کہ اولمپک دوڑنے والے پرچم کو لوٹتے ہیں۔ جس وقت کیسینی لمبے عرصے کی چھان پھٹک کے لئے مدار میں اتر ا تھا اس وقت ایک طاقتور گرجنے والے طوفانوں نے جنوبی نصف کرہ کو جنوبی خط استواء سے ٣٧ درجے پر محدود علاقے میں گھیر لیا تھا۔ اس "طوفانی پٹی" نے لمبے عرصے تک قائم رہنے والے روشن بادل بنائے جو برق کو چھوڑ رہے تھے۔

عام طور پر آسمانی بجلی کا تعلق پانی سے ہوتا ہے، اور پانی کے بادل زحل میں کافی گہرائی میں دفن تھے۔ پانی پہلے ٢٠ باد پیما پر تکثیف ہوتا ہے، نظر آنے والے بادلوں کے اوپری حصّے سے کچھ ٢٠٠ کلومیٹر نیچے۔ اندرونی حرارت ان کو اوپر کی جانب ایک ٧٠ کلومیٹر کے عمودی سفر پر اٹھاتی ہے اور پانی کو دس باد پیما ارتفاع پر پہنچا دیتی ہے۔ اس سطح پر یہ برف بن جاتا ہے۔ زمین پر آسمانی بجلی اس بلندی پر بنتی ہے جہاں پانی برف بن رہا ہوتا ہے۔ برف کے ذرّات اور مائع پانی آپس میں ٹکراتے ہیں جو بار کو الگ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ نمونے بتاتے ہیں کہ زحل پر بجلی دس باد پیما کی سطح پر قریباً بادلوں کی چوٹی سے ١٠٠ کلومیٹر نیچے بننا شروع ہو جاتی ہے۔

گرج چمک کو اس مرتکز علاقے تک محدود کرنے کی حقیقت نے محققین کو چکرا کر رکھا ہوا ہے۔ لیکن تحقیق جوں جوں آگے بڑھتی رہی، نمونہ بتدریج آہستہ سا ظاہر ہوتا گیا اور کچھ محققین کو شبہ ہوا کہ شاید یہ صرف ایک دفعہ کا مسئلہ تھا۔ زمین کے ماحول پر ابتری پھیلنے کا وقت کا پیمانہ دنوں سے لے کر ہفتوں تک چلتا ہے۔ گیسی اور برفیلے دیو اتنے بڑے ہیں کہ وہ اس رخ کے کچھ حصّے کو کو نا پیش بین(ناقابلِ پیشگوئی) برتاؤ کی طرح دکھاتے ہیں ، لیکن ممکن ہے کہ وہ لمبے عرصے میں جا کر بنتے ہوں۔ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ اس طوفان کی روش کچھ خاص تھی؟

بدلتے موسم کے ساتھ جواب مل گیا۔ جب خزاں شمالی کرہ کی جانب آئی تو طوفانی پٹی میں موجود طوفان کمزور پڑ گیا ، اور شمال میں بادلوں کے پھٹنے کا سب سے ڈرامائی عمل نظر آنا شروع ہو گیا۔ پانی کے بادل اوپری کرہ میں ابلنے لگے، اور ایک ہی ہفتے میں انہوں نے مکمل طور پر پورے کرہ کو گھیرے میں لے لیا۔ اور شاندار طوفان شمال کے خط استواء سے بالکل اتنے ہی فاصلہ پر ظاہر ہوا جتنا گرج چمک کا طوفان جنوب کے خط استواء سے دور تھا۔ زحل کے عظیم بارش کے طوفان ایسا لگتا ہے کہ موسمی ہیں۔

زحل کا موسم ایک اور خوبصورت للچا دینے والے جیومیٹری کی شکل کو پیش کرتا ہے جس نے قطبین کو گھیرے میں لیا ہوا ہے، ایک عظیم بھنور بادلوں کے بیج سے جھانک رہا ہے۔ طوفان کا نشیبی کنارہ ارد گرد کے بھنور سے ٤٠-٦٤ میل اوپر ہے۔ ٥٥٠ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کے باوجود طوفان جنوبی قطب کے درمیان میں مرکز میں براہ راست ٹھہرا رہتا ہے۔ زحل کے شمالی قطب کے مخالف ، ایک شاندار شش پہلوی کناروں والا زمین کے قطر کا دوگنا موجود ہے۔ ١٩٨٠ء کے عشرے میں وائیجر سے دیکھی جانے والی حیرت انگیز ہوا کی رومستحکم اور لمبی عرصے تک کی تھی۔ کچھ لوگوں کے مطابق وائیجر سے حاصل کردہ تصاویر اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ یہ شش پہلو طوفان تھوڑی عرصے رہنے والی بیکلی ہے جس کو کچھ متصل گردابوں یا دھبوں نے زبردستی بنا دیا ہے۔ لیکن کیسینی سے حاصل کردہ تصاویر نے یہ بات عیاں کی کہ شش پہلو اب بھی وہیں ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ اب بھی اسی حجم اور ہئیت کا ہے۔



خاکہ 4.5 زحل کی "طوفانی پٹی" اپنے خط استواء سے ٣٧ ڈگری درجے پر گھومتے ہوئے گردابوں کا ایک سلسلہ دکھا رہی ہے۔ ٢٠١١ء میں ایک عظیم طوفان اس وقت نمودار ہوا جب شمالی نصف کرہ میں بہار شروع ہوئی۔

زحل کی ایک اور منفرد خاصیت اس کے قطبی علاقوں کے رنگ ہیں۔ جب کیسینی وہاں پہنچا، زحل پر شمالی کرہ میں سردی ختم ہو رہی تھی۔ حلقوں کے سائے نے شمالی کرہ کو کئی برسوں تک اندھیرے میں رکھا تھا، اور باقی سیارے کی نسبت وہاں بادل زیادہ نیلے تھے۔ کیسینی امیجنگ ٹیم پائی کیرولن پورکو وضاحت کرتی ہیں، " حلقوں کے پڑنے والے سائے ماحول کو حقیقت میں سرد کر دیتے ہیں ۔ ایک خیال یہ تھا کہ شاید بادل ڈوب رہے ہیں کیونکہ ہوا اتنی ٹھنڈی ہو گئی ہے کہ کرہ فضائی کی وہ سطح جہاں بادل بنتے ہیں نیچے سے نیچے ہو رہی تھی۔ بادلوں سے اوپر کرہ فضائی صاف سے صاف ہو رہا تھا اور آپ کو وہاں زیادہ اشعاع نظر آ رہی تھیں۔ جب زحل نقطہ اعتدال (جب دن اور رات برابر ہو) کو پار کرتا ہے تو حلقوں کے سائے خط استواء کی طرف سکڑ جاتے ہیں اور شمال گرم ہونا شروع ہوتا ہے، اور زحل کی سنہری چمک وہاں واپس آ جاتی ہے۔ حلقوں کے سائے جب جنوبی کرہ کی طرف منتقل ہوتے ہیں، تو بادل واضح طور پر نیلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، جو ایک زحل کا منفرد موسمی مظہر ہے۔



خاکہ 4.6 طوفان ازابیل کی آنکھ (بائیں) زحل کے شمالی قطبی بھنور کے سامنے پدی سی لگے گی۔



خاکہ 4.7 عظیم شش پہلو طوفان چار زمینوں کو گھیر سکتا ہے۔ اوپر والے منظر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حلقے فریم کے اوپر سیارے کے پیچھے ہیں ۔ اس کے نیچے ایک کونے پر نفیس بادلوں کی تشکیل کی تفصیلات ہیں ۔

تمام دیوہیکل سیاروں میں سب سے عظیم حلقے زحل کے ہیں۔ اندرونی کنارے سے لے کر بیرونی کنارے تک، ٦٧ ریاست ہائے متحدہ کے براعظم اس میں سما سکتے ہیں ۔ اس وسیع قطر کے باوجود، ان کی موٹائی زیادہ تر جگہوں پر صرف تین منزلہ عمارت جتنی ہے۔ بنیادی طور پر یہ برف سے بنے ہوئے لگتے ہیں ، ہرچند کہ کچھ حصّہ میں برف میں لپٹی ہوئی چٹانیں بھی ہیں۔ حلقے کے اندر کئی چھوٹے مہتاب بھی موجود ہیں جو ممکنہ طور پر حلقوں کے بننے کے دور کی باقیات ہیں۔ ماہرین فلکیات نے حلقوں کے نام حروف تہجی میں ان کی دریافت کی ترتیب کے حساب سے رکھے ہیں۔ سب سے روشن مرکزی حلقے کا نام "بی" ہے؛ یہ اپنے ارد گرد موجود "اے" اور "سی" حلقوں کے ساتھ ہی دریافت ہو گیا تھا۔ "ایف" اور دوسرے مدھم حلقوں کو دریافت اس وقت ہوئی جب خلائی جہاز وہاں پہنچا۔

باریک لہریں، موجیں پورے نظام میں بہتی رہتی ہیں، جن کو چھوٹے چاند کی قوّت ثقل پھیلاتی ہے۔ بڑے چاند ذرّات کے ساتھ گمگ پیدا کرتے ہیں اور حلقے میں موجود درزوں کو بھرتے ہیں۔

ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈین دردا جو سیارچوں اور نظام شمسی کے چھوٹے مہتابوں کے ماہر ہیں وہ کہتے ہیں کہ حلقوں کے پاس ہمیں بتانے کو بہت کچھ ہے۔" تمام چھوٹی موجیں اور مرغولہ نما کمیتی لہریں، ہر وہ چیز جو ہم دیکھتے ہیں وہ آئزک نیوٹن کے کھیل کا میدان ہے۔ یہ قوّت ثقل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ذرّات کے درمیان یہ صرف نیوٹنی قوّت ثقل ہے اور اس قدر وسیع ہزار ہا مظاہر کا مظاہرہ جو اس سے بن سکتے ہیں وہ بہت ہی حیرت انگیز بات ہے۔ زحل کے حلقوں کا نظام شاید قدرت کی سب سے بہترین تجربہ گاہ ہیں جہاں ہم ان مظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔" دو چاند جن کی تصاویر کافی قریب سے لی گئی ہیں وہ پین اور اٹلس ہیں اور دونوں میں ایک عجیب چیز مشترک ہے کہ ان کے خط استواء سے واضح ابھار سے نکل رہے ہیں ۔ یہ ابھار حلقوں کا مادّہ لگتے ہیں اور یہ چیز ہمیں ان کے ارتقاء کے بارے میں کچھ بتاتی ہے۔ پورکو کہتی ہیں :

آپ کو انہیں بنانے کے لئے شروعات میں موٹی قرص میں پیوست کرنا ہی ہوگا۔ ایک ایسا دور ضرور ہوگا جب چاند اتنا بڑا نہیں ہوگا کہ وہ بڑے شگاف کو بنا سکے، لہٰذا وہ اس دور میں حلقوں سے ہمیشہ ٹکراتا رہے گا۔ میں اس بات کا تصوّر کر سکتی ہوں کہ ان ذرّات کے چاند پر جمع اور دور ہونے کی شرح ایک ہی ہوگی ۔ لیکن فرض کریں کہ چاند بڑے سے بڑا ہو رہا ہے، اور اس کے ارد گرد بننے والا شگاف بھی بڑے سے بڑا ہو رہا ہے اور بالآخر وہ ٣٦٠ درجے کے علاقے کو صاف کر دیتا ہے۔ ایک مرتبہ جب وہ ایسا کر لیتا ہے، تو اس کے بعد بھی وہ اپنے آپ میں مادّے کو جمع کرنے میں لگا رہتا ہے اور وہ مادّہ جمع کرتا رہے گا بشرطیکہ اس کے گرد حلقوں کا نظام چپٹا ہو چکا ہو۔ یہ بنیادی احتیاج ہے کہ جس حلقے کے نظام سے وہ مادّہ کو کھینچ رہا ہے لازمی طور پر جمع کرنے والے حلقے کے مقابلے میں چپٹا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے پاس چاند پر مادّہ بچنا چاہئے، میرے خیال میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب شگاف بنتے ہیں۔ خالص نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوّت ثقل مادّے کو خط استواء کے آس پاس جمع کر دیتی ہے اور اس کے کچھ عرصے کے بعد جب چاند شگاف کو کھول دیتا ہے تو جمع شدہ مادّہ چھٹ جاتا ہے۔



خاکہ 4.8 حلقوں کے سائے سیارے کے تمام نصف کرہ کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں، اس وجہ سے بادل نیچے ڈوب جاتے ہیں اور قطبی علاقے میں نیلے نظر آتے ہیں۔ کیسینی کی اس تصویر میں اس نے جنوبی قطب کی اس وقت منظر کشی کی ہے جب سردی بڑھ رہی تھی۔



خاکہ 4.9 چھوٹے مہتابوں اٹلس (دائیں) اور پین کے حیرت انگیز ابھار ان کے خط استواء پر موجود ہیں ۔

یہ عمل شاید کافی عرصے پہلے رک گیا تھا کیونکہ دور حاضر میں مہتابوں کے مدار مادّے کو اس کے ارد گرد جمع ہو کر اپنی سطح پر آنے سے روک دیتے ہیں۔ اس دور کو نظام شمسی میں موجود ایک اور مثال سے تقویت ملتی ہے، پورکو کہتی ہیں۔ "آیا پیٹس کے ابھار دیکھیں: یہ پرانے لگتے ہیں، لہٰذا یہ ابھار کچھ وقت تک باقی رہ سکتے ہیں۔ اگر نیپچون کے کمان نما حلقے ماضی کے وسیع حلقوں کے نظام کی باقیات ہیں، تو ہمیں اسی قسم کے ابھار خط استواء پر وہاں پر کچھ دوسرے مہتابوں میں بھی نظر آنے چاہئیں۔"

ٹلمان ڈینک ، جو کیسینی امیجنگ ٹیم کے ایک رکن اور فری یونیورسٹی آف برلن میں کام کرتے ہیں، وہ زحل کے حلقوں کو ایک دوسری نظر سے دیکھتے ہیں: "میں اکثر سوچتا ہوں، اگر بنی نوع انسان زحل کی طرف رخت سفر باندھے گی، تو وہ وہاں کیا کرے گی؟ عوام الناس سے بات کرتے ہوئے، میں اکثر اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ زحل کے نظام میں حلقوں والے مہتابوں پین اور اٹلس کے شمالی اور جنوبی قطب پر بنے ہوٹلوں میں چھٹیاں گزار نا سب سے مزیدار بات ہوگی۔ آپ حلقے کی سطح سے صرف دس سے بیس کلو میٹر اپر ہوں گے، اور یہ انتہائی بڑی قرص گھنٹوں میں (تبدیلی دن کی وجہ سے ) بدلتی رہے گی ایک اور ہوٹل سے دوسرے ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے آپ روشن حصّے کو بھی دیکھ سکتے ہیں یا حلقے کے دوسری طرف بھی دیکھ سکتے ہیں۔"

ڈینک اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ بیرونی بے قاعدہ مہتاب عارضی رکنے کی جگہ فراہم کرتے ہیں۔ ان پر آسانی کے ساتھ پہنچا جا سکتا ہے، وہاں سے زحل کے نظام کا اچھا نظارہ کیا جا سکتا ہے، اور ان کے مستقل برتاؤ کو قابو کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں سے یومیہ کھوجوں کی ابتداء کرکے انہیں مربوط بھی کیا جا سکتا ہے۔"

بہرحال حلقے میں کچھ جگہیں اب بھی نئے مہتابوں کو بنا رہی ہیں۔ ایک ایسا ہی علاقہ ، سیاروی سائنس دان کارل مررے [1] نے اپریل ٢٠١٣ میں دیکھا، ١٢٠٠ کلومیٹر سے زیادہ لمبا حصّہ الگ اور روشن نظر آ رہا تھا۔ مررے اور دوسرے محققین نے اندازہ لگایا کہ یہ چاند ایک کلومیٹر سے کم پھیلا ہوا ہے، اور یہ کیسینی کی آنکھوں سے اس وقت تک چھپا رہا جب تک کوئی چیز اس سے ٹکرائی نہیں، اس ٹکر کے نتیجے میں اس کے گرد حلقے میں موجود مادّہ میں کافی بے کلی پھیلی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چاند حال ہی میں بنا ہو ، دسیوں برس سے لے کر کچھ لاکھوں برس کے اندر لیکن اس کا مقدر معلوم نہیں ہے۔ مادّہ کے ڈھیر کو بطور سیارچہ زندہ رہنے کے لئے اتنے عرصے لے لئے مستحکم رہنا ہوگا کہ وہ حلقے سے نکل کر اپنے واضح اور صاف مدار میں پہنچ جائے۔ سائنس دان دیکھ رہے ہیں اور مستقبل میں وہاں کیسینی کو مزید قریب بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ وہ ایک ایسا منظر دیکھیں گے جو نظام شمسی کی ٤ ارب برسوں پر محیط تاریخ میں بار بار دہرایا جا رہا ہوگا یعنی نئے چاند کی پیدائش۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب - 5

گیسی اور برفیلے دیو

یورینس


یہ "نظام شمسی کا سب سے بیزار کن سیارہ کہلاتا تھا۔ انسانی آنکھ کے لئے، اس کی نیلی ہری قرص کسی بھی قسم کے خدوخال سے خالی ہے۔ لیکن دیوہیکل سیاروں میں سب سے چھوٹا ہماری اوّلین جانچ سے کہیں زیادہ متحرک ہے۔ یورینس کے شاندار رنگ اس کے کرہ فضائی میں موجود میتھین کے مرہون منت ہیں ۔ میتھین سرخ رنگ کو جذب کر لیتی ہے ، یوں طیف کا صرف نیلا حصّہ بچ جاتا ہے جو منعکس ہو کر دیکھنے والے شاہد کو نظر آتا ہے۔ یورینس کا کرہ فضائی گہرائی تک شفاف اور پرسکون ہے۔ ایک گلابی کہر بادلوں کے عرشے کے رنگ کو سبز رنگ کی طرف منتقل کرتی ہے۔

یورینس کی پٹیاں اور علاقے اس کے پڑوسی گیسی دیو کی کم تر صورت ہیں۔ عظیم سبز دنیا سے وائیجر کے ٹکراؤ کے دوران، سورج لگ بھگ جنوبی قطب کے اوپر تھا۔ بہرحال بادلوں کے نمونے دوسرے گیسی دیوہیکل سیاروں کی ہی طرح ترتیب میں تھے، جہاں پٹیاں خط استواء کے متوازی تھیں۔ یورینس اس طرح لگ رہا تھا جیسے کہ مشتری کی چھوٹی تراشیدہ صورت ہو۔ اس سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ سورج بیرونی سیاروں کے موسموں کا تعین نہیں کرتا۔ یہ سیارے کی محوری گردش تھی جو اس پیچیدہ بادلوں کی ترتیب کی ذمہ دار تھی۔

ہرچند کہ پٹیاں، علاقے، بھنور اور طوفان دوسرے تینوں دیو ہیکل سیاروں پر واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں، یورینس کا موسم کافی خاموش ہے۔ کس چیز نے اس کو دوسروں سے جدا کیا ہے؟ مشتری، زحل اور نیپچون تمام کے تمام سیارے اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کر رہے ہیں جتنی انھیں سورج سے مل رہی ہے۔ ان کی اندرونی حرارت موسموں کی رت کو جگا رہی ہے۔ لیکن یورینس اپنی ارد گرد سے کہیں زیادہ سرد ہے۔ یورینس اور نیپچون پر درجہ حرارت لگ بھگ منفی ١٦١ ڈگری ہی ہے، اگرچہ کہ نیپچون سورج کی روشنی یورینس کے مقابلے میں صرف 4/9 ہی حاصل کرتا ہے ۔ اصل میں یورینس کا درجہ حرارت حاصل ہونے والی شمسی توانائی سے متوازن دکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے ایک ایسا کرہ فضائی بنتا ہے جو سطح سے اندرونی حصّے کی جانب کم ملتا ہے۔ کافی سارے محققین یورینس کے کم حرارتی بہاؤ کو سیارے کے اطراف میں گھومنے سے منسوب کرتے ہیں۔ اس کا عجیب رخ بھی ہو سکتا ہے کہ آوارہ گھومتے ہوئے سیارے کے عظیم تصادم کی وجہ سے بنا ہو۔ ایسا کوئی بھی تصادم اندرونی حرارت کے منبع کو منقطع کرنے کے لئے کافی ہوگا، اس طرح سے اس کو یہ موقع مل گیا ہوگا کہ تصادم کے بعد زیادہ موثر انداز سے مختصر عرصے میں گرم ہو سکے۔ کچھ ماہرین اس بات کی بھی تجویز پیش کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ حرارتی منبع مکمل طور پر بند ہو گیا ہو۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس تصادم نے یورینس کو اس کے محور پر عجیب طرح سے جھکا دیا، نظری ماہرین نے سیارے سے نہ نکلنی والی گرمی کی دوسری وجوہات بھی بیان کی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تصوّر ایصال حرارت سے متعلق ہے۔ یورینس کا برفیلا غلاف اس طرح پرت دار بن گیا کہ ایصال حرارت کے عمل کو ہونے نہ دیتا ہو۔ قلب تو گرمی پیدا کر رہا ہے لیکن حرارت کو باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا ہو۔




خاکہ 4.10 چاند کی پیدائش؟ زحل کے "اے"حلقے کے کونے پر اٹھتے ہوئے حلقوں کے ذرّات شاید ایک نئے چاند کی پیدائش کا اشارہ ہوں جو مادّے کو جمع کرنے کے بعد سیارے سے دور ہو جاتا ہے۔

وائیجر جب یورینس کے نظام کی طرف پہنچا ، تو اس وقت ایک گہری کہر کی قطبی چھتری جنوب (روشن قطب) پر پھیلی ہوئی تھی۔ ایک ٹھنڈا علاقہ ١٠ درجے سے ٤٠ درجہ ارض بلد کے درمیان پھیلا ہوا تھا۔ ایک روشن پٹی، جو قطب پر ہی مرتکز تھی، ٥٠ درجے ارض بلد پر نیچے حلقہ بنا رہی تھی۔ یہ پٹی ممکنہ طور پر میتھین کے بادلوں اور اوپر بہتی ہوئی کہر کی وجہ سے بنی تھی۔ تاریک پٹیاں روشن پٹیوں کے اطراف میں قوسین کی طرح ٢٠ درجے اور ٦٥ درجے ارض بلد میں موجود تھیں۔ یہ علاقے تاریک علاقوں کو منکشف کر رہے تھے جہاں ہوا ڈھیروں نیچے اتر رہی تھی۔ مشتری کے برعکس جہاں پر روشن بادل سرد ترین تھے، یورینس کے روشن بادل تاریک علاقوں سے گرم تھے۔ اس تفاوت کی وجہ ممکن ہے کہ یورینس کے میتھین کے بادلوں اور مشتری کے امونیا کے بادلوں میں مخفی حرارت میں ہونے والے فرق کا نتیجہ ہو۔ یورینس کے بادل کرہ فضائی کی گہرائی میں دفن ہیں جس کی ابتدا 0.9 باد پیما کی سطح کے دباؤ سے شروع ہوتی ہے۔ اوپری کرہ فضائی سالماتی ہائیڈروجن پر مشتمل ہے، کچھ جوہری ہائیڈروجن، ہیلیئم اور ہائیڈرو کاربن کی کہر کی تہیں بھی موجود ہیں۔ سائنس دان اس وقت وائیجر کی ریڈیائی لہروں پر نظر رکھے ہوئے تھے جب وہ سیارے کے پیچھے سے گزر رہا تھا، اور نچلی ساخت کو دیکھ سکتا تھا۔ بادلوں کے عرشے کی بنیاد 1.3 باد پیما کی سطح پر موجود لگتی تھی، جہاں پر درجہ حرارت لگ بھگ منفی ١٩٢ سینٹی گریڈ تھا۔ بادلوں کی کافی تنگ پٹیاں سیارے کے خط استواء کے قریب اس کو گھیرے ہوئے تھیں۔ کچھ الگ بادلوں کی استوائی ہواؤں کی سمتی رفتار ٥٨٠ کلو میٹر فی گھنٹہ تک وائیجر نے درج کی ہیں۔ مرئی بادل میتھین کی برف کی قلمیں تھیں اور شاید نیچے سے اوپر کی طرف بہ رہی تھیں۔

وائیجر نے ہمیں ٹھنڈے، دور کے جہاں کو حالت سکون میں بتایا۔ " اس کے بعد کافی لوگوں نے یورینس کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا، کیوں پریشان ہوں؟" ہیدی ہامل کہتے ہیں جنہوں نے دنیا کی کئی اہم رصد گاہوں اور ہبل خلائی دوربین کے ذریعہ تحقیق کی ہے:

اگر وائیجر کچھ نہیں دیکھ سکا تو یقینی طور پر ہم زمین پر موجود دوربینوں سے کچھ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ہبل کو ١٩٩٠ء میں چھوڑا گیا، وائیجر کے وہاں سے صرف چار برس گزرنے کے بعد ، لیکن کوئی بھی یورینس کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا؛ یہ ایک فضول تجویز ہوتی۔ تاہم جب میں ١٩٩٤ء میں سیاروی سائنس کے شعبے کے اجلاس میں موجود تھا تو وہاں ایک پوسٹر ہبل کے ذریعہ یورینس کے گرد موجود مہتابوں کو ڈھونڈنے سے متعلق موجود تھا۔ پوسٹر کے اوپر اس سیارے کی تصویر تھی جس کے گرد مہتابوں پر نشان لگایا ہوا تھا اور میں نے مصنف بن زیلنر سے کہا، "درمیان میں کس چیز کی تصویر ہے؟" وہ بولا، "ہم ہبل سے چاند ڈھونڈنے کے لئے گہرائی میں تصویریں لے رہے تھے لہٰذا یورینس پر تصویر لیتے ہوئے روشنی کچھ زیادہ دیر تک پڑ گئی، تاہم ہر مرتبہ ایک تین سلسلوں کی تصویر لیتے، لہٰذا ہم نے یورینس کی ایک وہ تصویر لی جس پر زیادہ روشنی نہیں پڑی تھی اور وہ اپنے پوسٹر پر لگا لی۔" اور یہ تصویر خدوخال دکھا رہی تھی ، ایک پٹی تھی اور جداگانہ بہت روشن بادل تھے اور میں نے کہا ، "ویسے یہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ یورینس نظر آتا ہے۔" اور اس نے کہا، " یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمیں نظر آتا ہے۔"




خاکہ 4.11 وائیجر کے ذریعہ حاصل کی گئی سب سے بہترین تصویریں بھی کم بادلوں کو ظاہر کرتی ہیں۔

ہامل نے دو مزید تصاویر لیں جن کی مدد سے وہ سیارے کی محوری گردش کی نئی پیمائش کرنے کے قابل ہوا۔ یورینس کا سکون ماضی کا قصّہ تھا، سیارے کا کافی زیادہ حصّہ روشن ہو رہا تھا اور اس کا زاویہ سورج کی طرف اس وقت سے زیادہ تھا جب وائیجر وہاں سے گزر رہا تھا۔

اسی دوران ایرک کوکوشکا نے ہبل سے یورینس کی حاصل کردہ ابتدائی تصاویر پر کام کیا۔ اس نے وہ تصویر لی جس کو ہامل نے یورینس کی "حیرت انگیز" تصویر کہا تھا، جس میں پورا سیارہ ماحولیاتی خصائص سے لبریز تھا۔

ہامل کے لئے یہ تبدیلی کی ابتداء تھی۔" ہم میں سے کافی لوگوں نے اس کو ہبل خلائی دوربین سے دیکھنا شروع کر دیا۔ چیزیں اس وقت کافی ہیجان انگیز ہونا شروع ہو گئیں جب میں نے ایمکے ڈی پے ٹر کے ساتھ مل کر کیک دوربین کے ذریعہ کام شروع کیا۔ میں نے تصاویر لینے کے ایک سلسلے کی تجویز سامنے رکھی تاکہ ہم ہواؤں کی رفتار کا پیچھا کر سکیں۔ یہ بادل شمالی نصف کرہ کی طرف ظاہر ہو رہے تھے، یہ نصف کرہ بالآخر بیس برس کی تاریکی کے بعد منور ہونے لگا تھا۔ ایمکے نےزمین سے کیک رصد گاہ کا استعمال کرتے ہوئے یورینس کا اس وقت جائزہ لینا شروع کیا جب میں ہبل سے تصاویر اتار رہا تھا۔ ہم نے اپنی توانائیوں کو ملا لیا اور اپنے اپنے اعداد و شمار کو ملا کر ایک بہت ہی اعلیٰ مواد کا جوڑا تیار کیا۔ اور یہیں سے ہماری لمبے عرصے کی رفاقت کی شروعات ہوئی۔"

یورینس کے نقطہ اعتدال - وہ نقطہ جب پورا سیارہ قطب تا قطب روشن ہوتا ہے - پر پہنچنے سے چار برس پہلے مشاہدہ کرنے والوں نے کافی روشن خدوخال دیکھنے شروع کر دئیے تھے۔ ہامل اور دوسروں کو لگا کہ جیسے یہ میتھین کے سحابی بادل ہیں جو بادلوں کے عرشے کے درمیان سے نکل رہے ہیں اور پھر واپس انہیں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ٢٠٠٧ء تک ماہرین فلکیات نے ایسے درجنوں بادلوں کا پیچھا کیا۔ "ایک تصویر میں تو آپ کو وائیجر سے دیکھے گئے خدوخال کی نسبت تین گنا زیادہ خدوخال نظر آئیں گے۔" کچھ مواقع پر تو گہرے طوفان پورے سیارے پر ایک دوسرے پر چڑھے جا رہے تھے اور ضم ہو کر ایک بڑے طوفان کو بنا رہے تھے جس نے روشن ہونا تھا۔ ہبل کی تصویر نے مشتری کے عظیم سرخ دھبے کی طرح ایک نشان کو ظاہر کیا۔




خاکہ 4.12 نیا یورینس۔ بادل اور معین پٹیاں اس وقت بن گئے تھے جب یورینس ٢٠٠٧ء میں نقطہ اعتدال تک پہنچا۔

یورینس ویسا سیارہ نہیں تھا جیسا کہ وائیجر نے تین دہائیوں پہلے دیکھا تھا۔ یہ اتنا متحرک کتنے عرصے تک رہے گا؟ ہامل اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ " یہ ایک ٨٤ برس کا دور ہے۔ ١٩٨٦ء میں وائیجر سے لے کر ٢٠٠٧ء تک ہم نے سورج کے گرد ایک چوتھائی نقطہ اعتدال عبور کرلیا ہے۔ دوبارہ پرسکون ہونے کے لئے اس کو مزید ایک عشرہ درکار ہوگا۔ وہ نصف کرہ جو اس قدر متحرک اور متغیر ہے وہ کیا دوبارہ پرسکون ہو جائے گا؟ ان تبدیلیوں کو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔ یورینس اپنے تغیر میں بہت ڈرامائی ہے۔"


جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب - 6

گیسی اور برفیلے دیو

نیپچون


١٩٨٩ء میں خلاء میں بارہ برس گزارنے اور کافی حادثات کو جھیلنے کے بعد (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب) وائیجر دوم نیپچون کے جہنمی ماحول کے پاس پہنچ گیا۔ یورینس کے حلیم سبز چہرے کے برعکس نیپچون کا گہرا نیلمی چہرہ اکھڑا ہوا تھا۔ اس کے بادل خلقی طور پر یورینس سے زیادہ نیلے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے کرہ فضائی میں کوئی رنگنے والی چیز موجود تھی جس نے انھیں آلودہ کر دیا تھا۔ نیپچون کے اس شاندار نیلے رنگ کی وجہ یورینس کے سبز ہونے کی وجہ جیسی ہی تھی یعنی کہ وہاں بھی سرخ روشنی کا فقدان تھا۔ کرہ فضائی کا تین فیصد میتھین پر مشتمل تھا اور میتھین کے سالمات میں سرخ رنگ میں موجود روشنی کی مخصوص طول موجوں کو جذب کرنے کی قابلیت کافی قابل رشک ہوتی ہے۔

نیلا دیو جیسے جیسے وائیجر کے تصویری نظام سے قریب ہوتا گیا ، ویسے ویسے اس تصویری نظام نے بے ہنگم گولے کو تاریک اور روشن بادلوں میں دیکھ لیا۔ بلکہ پہلے کی کچھ تصاویر میں ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ نیپچون میں یورینس کے چار برس قبل کے موسم کے مقابلے میں کہیں زیادہ متحرک موسم ہیں۔ وائیجر نے نیپچون کی منفرد قوس نما حلقوں پر نظر رکھی ہوئی تھی اور آخری دنوں میں اس نے نیپچون کے مہتابوں کی نقشہ سازی شروع کردی۔ وائیجر کی ایک سب سے اہم دریافت یہ تھی کہ مشتری اور زحل کی طرح نیپچون بھی اس سے زیادہ حدت نکالتا ہے جتنی وہ سورج سے حاصل کرتا ہے۔ اندرونی حرارت ہی نیپچون کے آسمانوں کی متحرک حرکت کی ذمہ دار ہیں۔ میتھین کی قلموں کے سفید بادل دھیرے دھیرے پوری لطیف پٹیوں اور علاقوں میں دوڑتے پھرتے ہیں، اور اکثر طوفانی وضع قطع حاصل کر لیتے ہیں۔

مشتری اور زحل کے بادلوں کے برعکس، نیپچون کے بادلوں کا پیچھا کرنا مشکل ہے۔ نیپچون پر جدا روشن بادل کافی تیزی سے بنتے ہیں، لہٰذا ایک رات میں بننے والے بادل آسانی سے اگلے چکر پر شناخت نہیں ہوتے۔ نیپچون کا موسمی نظام مشتری اور زحل کے مقابلے میں کافی کم منظم ہے۔ علاقے تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ایک ارض بلد سے دوسرے ارض بلد کو پار کرتے ہیں، جن کے اوپر لچھے جیسے بادل ہوتے ہیں جو الل ٹپ آتے ہیں اور جاتے ہیں ۔

دوسرے گیسی دیو ہیکل کی طرح نیپچون کے کرہ فضائی میں بھی ہائیڈروجن کا غلبہ ہے جو کائنات کا سب سے ارزاں عنصر ہے۔ دوسری ارزاں گیس وہاں ہیلیئم ہے۔ تیسری گیس میتھین ہے جو اس کو جداگانہ نیلا رنگ دیتی ہے۔ گہرائی میں نیلے بادلوں کے عرشے کے نیچے کرہ فضائی میں پانی اور امونیا لگتا ہے۔

نیپچون کے صاف بالائی کرہ فضائی میں ، درجہ حرارت منفی ١٨٠ سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ زمین پر سمندر کی سطح کے دباؤ کے مقابلے میں درجہ حرارت منفی ١٦٧ ڈگری پہنچ جاتا ہے ۔ اس کے نیچے ہوا اتنی گرم ہوتی ہے کہ میتھین مائع یا بخارات کی شکل میں موجود ہو سکتی ہے۔ میتھین کی برف کی قلموں کے بادلوں کے عرشے کی بنیاد لگ بھگ ایک باد پیما کے دباؤ پر ہوتی ہے، جہاں میتھین ٹھنڈی ہو کر تکثیف ہو کر بادلوں کو بناتی ہے۔ اس بلندی سے بادل بھڑکتے ہیں اور میتھین کو کرہ قائمہ میں لے آتے ہیں۔ تاہم نیپچون کے کرہ قائمہ میں میتھین اس سے کہیں زیادہ ہے جو اس کا کرہ فضائی رکھنے کے قابل ہے۔ بخارات لازمی طور پر گہرائی میں موجود میتھین کے طوفان سے اوپر کی جانب آرہے ہوں گے۔ طوفانوں لازمی طور پر ٥٠ -١٠٠ کلومیٹر کی بلندی پر چل رہے ہوں گے۔

پچھلے تین عشروں سے سائنس دان اس بات کا تصوّر کر رہے ہیں کہ کرہ قائمہ میں موجود بڑی مقدار میں میتھین کے بخارات بڑھتے ہوئے ایصال حرارت کی وجہ سے ہیں یعنی کہ حد درجہ طاقتور طوفان میتھین کے برفیلے ذرّات کے ساتھ اوپر اٹھتے ہیں اور پھر وہاں ٹھنڈے ہو کر برف کے ذرّات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں زمینی دوربینوں کی مدد سے کیے گئے مشاہدات کی روشنی میں محققین نے یہ خیال پیش کیا کہ نیپچون کے قطبین کی ساخت معمول سے ہٹ کر ہے جس کی وجہ میتھین رستے ہوئے وسطی کرہ قائمہ میں نکل جاتی ہے۔ اس وجہ سے میتھین کوعالمگیر طاقتور ایصال حرارت کی ضرورت نہیں ہوتی جس پر کچھ سائنس دان متشکک تھے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یورینس نے اپنے بالائی کرہ فضائی میں اضافی میتھین کو ظاہر نہیں کیا جیسے کہ نیپچون کرتا ہے۔

اپنے تیزی سے بدلتے بادلوں کی ہئیت کے باوجود نیپچون میں کچھ لمبے عرصے تک موجود رہنے والی ساختیں موجود ہیں۔ وائیجر نے جو پہلی دور سے تصویر حاصل کی تھی اس میں پہلی چیز جو نظر آئی تھی وہ ایک بڑا نیلے رنگ کا طوفان ، مشتری کے سرخ دھبے کے مماثل تھا ۔ طوفان سیارے کے حجم کی نسبت لگ بھگ اسی حجم کا تھا۔

سائنس دانوں نے اس کو فوری طور پر "عظیم گہرے دھبے"(GDS-89) کا نام دے دیا ، مشتری کے عظیم سرخ دھبہ کا رشتے دار۔ تاہم جب وائیجر نے اس کی مزید تفصیلات حاصل کیں تو دھبہ کی اپنی منفرد خصوصیات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔ عظیم گہرا دھبہ زمین کے قطر جتنی جگہ پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ بیضوی شکل کا طوفان ہر آٹھ دن کے بعد گھوم یا جھول رہا تھا، اور مشتری کے طوفان کی نسبت مختلف طریقے سے چل رہا تھا۔



خاکہ 4.13 بادلوں کی تشکیل۔ بالائی بائیں جانب روشن بادل ا سکوٹر ہیں۔ اس کے نیچے دائیں طرف وہ طوفان ہے جس کو ہم عظیم گہرا دھبہ دوم یا چھوٹے گہرے دھبے کے نام سے جانتے ہیں۔ نیپچون کا عظیم گہرا دھبہ لگ بھگ زمین کے حجم کا ہی ہے۔

جب ہبل خلائی دوربین نے ١٩٩٣ء میں کام کرنا شروع کیا تو اس وقت ١٩٨٩ء کا وہ عظیم گہرا دھبہ اپنا نشان چھوڑے بغیر غائب ہو چکا تھا۔ تاہم ١٩٩٤ء میں ہیدی ہامل نے ایک ایسا ہی طوفان شمالی کرہ میں ہبل سے لی گئی تصویر میں دیکھا۔ جس کو اب ہم GDS -94 کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ طوفان تھوڑا سا چھوٹا ہے۔ یہ کچھ ہی برسوں میں غائب ہو گیا اور دوسروں نے اس کی جگہ لے لی ۔ گہرے طوفان کی حیات لگ بھگ پانچ برس کی لگتی ہے۔

یورینس اور نیپچون دونوں پر موجود سفید بادل عام طور پر پتلی متوازی لڑیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ نیپچون پر کچھ تو بیل کی طرح سینکڑوں میل تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے پتریوں کی طرح گہرے نیلے بادلوں کے نچلے حصّے میں چند گھنٹوں یا دنوں تک رہتے ہیں۔ وائیجر ٹیم کے ارکان اس قسم کے ایک بادل کو اسکوٹر کہتے ہیں۔ زیادہ تر روشن بادلوں کے برعکس، اسکوٹر کی جڑیں کرہ فضائی کی گہرائی میں موجود ہیں۔ GDS اور دوسرے بادلوں کی نسبت ، یہ بادل شرقاً حرکت کرتے ہیں۔ یہ GDS کے مقابلے میں تیزی سے حرکت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا نام رکھا گیا ہے۔



خاکہ 4.14 وائیجر کے جانے کے بعد سیارے کا نظارہ۔ کیک دوربین سے حاصل کردہ یورینس کی تصویر (اوپر) بمقابل ہبل سے حاصل کی گئی نیپچون کی تصویر کے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب - 7

گیسی اور برفیلے دیو

بادلوں میں بسے شہر – ذرا ہٹ کر





خاکہ 4.15 ایک تیرتی ہوئی چوکی جیفری لنڈس کا تخیل

ناسا کے جان گلین ریسرچ سینٹر میں مستقبل کی خلائی مہمات کے لئے جدید تصورات پیش کرنے کے علاوہ، جیفری لنڈس نے ہیوگو اور ہینلین ایوارڈ بطور سائنس فکشن مصنف کے حاصل کیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ناسا کے مالی تعاون سے ایک تحقیق مکمل کی ہے جس میں اس بات کو دکھایا گیا ہے کہ زہرہ کے بادلوں میں بستی بسانے کے لئے کیا کرنا پڑے گا۔ تیرتی ہوئی بستی کرہ فضائی میں ٥٠ کلومیٹر اپر گشت کر رہی ہوگی جہاں پر نسبتاً شفیق ماحول ہوگا کیونکہ ہوا کا دباؤ زمین پر سطح سمندر کے دباؤ جتنا ہی ہوگا جبکہ درجہ حرارت عام کمرے کے درجہ حرارت جتنا گر جاتا ہے ۔لنڈس نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ زہرہ میں زرخیز ذرائع موجود ہیں۔ اس کا کثیف ماحول کائناتی شعاعوں سے حفاظت کرتا ہے اور بادلوں کے اوپر وافر مقدار میں شمسی توانائی موجود ہے۔ زہرہ کے محل وقوع کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ زہرہ کے کاربن ڈائی آکسائڈ ماحول کی کثافت کی وجہ سے، اصل میں سانس لینے والی ایک تیراک فضا موجود ہے جو بطور اٹھان والی گیس کے استعمال ہو سکتی ہے جیسے کہ زمین پر ہیلیئم استعمال کی جاتی ہے۔ ایک ٤٠٠ میٹر نصف قطر کا غبارہ جو ایک چھوٹے کھیل کے میدان کے حجم کا ہو وہ ٣٥٠ ہزار ٹن یعنی امپائر اسٹیٹ بلڈنگ جتنی کمیت کو اٹھا سکتا ہے۔

لنڈس کی رپورٹ نتیجہ اخذ کرتی ہے، "مختصراً زہرہ کا کرہ فضائی نظام شمسی میں سب سے زیادہ زمین جیسا ہے۔۔۔لمبے عرصے کے لئے مستقل بنیادوں پر بستیاں شہروں کی صورت میں اس طرح بنائی جا سکتی ہیں کہ زہرہ کے کرہ فضائی میں ٥٠ کلومیٹر کی بلندی پر معلق رہیں۔"

گیسی اور برفیلے دیو ہیکل سیاروں کے بادلوں میں شہر بسانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ مشتری ،زحل، یورینس اور نیپچون پر ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسوں کا غلبہ ہے جو سب سے ہلکی گیسیں ہیں۔ اس وجہ سے "ہوا سے ہلکے" غبارے بنانے ممکن نہیں ہے۔ تاہم لنڈس کہتے ہیں کہ اس کا حل موجود ہے۔ " گرم ہائیڈروجن گیس کے غباروں کو تیرا یا جائے - جب تک خول کے اندر موجود گیس کو ارد گرد ماحول سے زیادہ گرم رکھا جائے گا تو وہ تیرنے لگے گی۔ بہرحال اس کے لئے توانائی درکار ہوگی۔"

مشتری کے اطراف میں غضب ناک تابکاری کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔ مشتری کی تابکاری کی سطح برجیسی بادلوں کی تہوں کی سطح پر کافی گر جاتی ہے جبکہ درجہ حرارت بھی کافی شفیق ہوتا ہے۔ چیر ڈالنے والی ہوائیں بلا کی قیامت خیز ہوتی ہیں لیکن ایک پٹی یا علاقے میں رو پر سوار ہوائیں کافی مستحکم ہوتی ہیں۔ شاید جو اصل مسئلہ وہ ان دیوہیکل سیاروں کے گرد رہتے ہوئے ہوگا کہ آپ کا گھر مستقل ہوگا۔ کوئی ایسا طریقہ عملی طور پر موجود نہیں ہے جو مشتری کی زبردست قوّت ثقل کے کنوؤں کو مات دے کر واپس زمین کی طرف لوٹنے دے۔


حتمی رائے

انسانوں کے لئے بذات خود جا کر گیسی دیو ہیکل سیاروں کی آسمانوں کی کھوج کرنا بجز نیابتی طریقے کے ممکن نہیں ہے۔ رالف مک نٹ کے خیال میں روبوٹ اور انسان مل کر سب سے بہتر طریقے سے اس کام کو کر سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں گینی میڈ یا کیلسٹو پر انسانی ارضی قیام گاہ بنائی جائے جہاں عملہ دور سے بیٹھ کر مشتری کے کرہ فضائی میں بھیجے گئے ڈرون کو قابو کرکے اڑائے۔ "شاید یہاں بات کسی قسم کے بالائی صوتی ہوائی جہاز کی ہو رہی ہے، بہت تیز رفتار ہونے کے باوجود مشتری بہت بڑا ہے لہٰذا آپ اس کے بہت ہی تھوڑے حصّے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ تاہم ہم خلائی کھوج میں جس چیز کو ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی چیز کو دس گنا زیادہ دیکھنے کے لئے پہلا قدم بڑھایا جاتا ہے، تو ہمیں مزید اور چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ عام طور پر اس میں پچھلے سوالات کے کافی جوابات موجود ہوتے ہیں جو بالکل نئے جہانوں کو ہم پر ہویدا کرتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد دنیا اصل میں کیسی لگتی ہے یہ اس کو کھوجنے کے تجرباتی فہم کا حصّہ ہے ۔"



خاکہ 4.16 ایک حقیقی خلائی جہازوں کے بیڑے نے بیرونی سیاروں اور ان کے مہتابوں کا چکر لگایا ہے ۔ اس بات پر غور کریں کہ ان کی تعداد کس طرح سے بیرونی برفیلے دیوہیکل سیاروں کی طرف جاتے ہوئے کم ہو رہی ہے ۔

مشہور راکٹ انجنیئر کرافٹ ایرک اکثر انسانی خلائی کھوج پر لیکچر دیتے ہیں۔ وہ اپنے لیکچر کا آغاز اس طرح سے کرتے ہیں، " اگر خدا بنی نوع انسان کو خلاء میں بھیجنا چاہتا، تو وہ بالکل ہمارے پڑوس میں سیارے کو رکھتا۔" اپنے اس تبصرے کے بعد ایرک چاند کی سلائڈ دکھاتے ہیں۔ اسی طرح سے ہم بھی قدرتی بستیاں گیسی دیوہیکل جہانوں کے بالکل پڑوس میں یعنی کہ ان کے قدرتی سیارچوں پر بنا سکتے ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 1



گلیلائی چاند



خاکہ 5.1 مشتری کے ضخیم چاند کیلسٹو پر موجود عجیب و غریب برف کے ستون مستقبل کے مسافروں کے لئے مینار راہ ہوں گے۔

جرمن ماہر فلکیات سائمن موریس وہ چیزیں دیکھنے جا رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں تھیں۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو اسے بین الاقوامی سطح پر گرما گرم مباحثوں میں گھسیٹنے والی تھیں۔ ١٦٠٨ء کی خزاں میں موریس کی ایک جاننے والے سےمڈبھیڑہوگئی جس کے پاس حیران کن کہانی تھی۔ جان فلپس فچس توپ خانے کا افسر اور لارڈ پریوی مارگریوز آف برانڈنبرگ – انسبچ کا کونسلر ابھی ابھی فرینکفرٹ کے قریب منعقدہ میلے سے لوٹے تھے۔ اس میلے میں موجود ایک پرتگالی نے ایک چھوٹی سی نلکی دکھائی جو دور کی چیزوں کو "ایسے دکھاتی ہے جیسے کہ وہ کافی قریب ہوں۔" فچس نے ان جاسوسی عینکوں کو خریدنے کی کوشش کی، لیکن قیمت پر بات نہیں بنی۔

فچس اور موریس نے کوشش کی کہ وہ دوربین کو عینکوں کے عدسوں کی مدد سے بنا سکیں، لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک برس بعد یہ نئی دریافت جب کافی عام اور سستی ہو گئی تو موریس اس قابل ہوا کہ وہ اس کو خرید سکے۔ ١٦٠٩ء کے نومبر یا دسمبر میں ، موریس نے مشتری کو نظم و ترتیب کے ساتھ دیکھنا شروع کیا۔ اس نے دیکھا کہ ستارے جیسی چیزیں اس کے ساتھ حرکت کر رہی ہیں جیسا کہ اس نے ١٦١٤ء میں لکھا، "۔۔۔جوں ہی مشتری پیچھے کی طرف لوٹنے لگا، میں تب بھی ان ستاروں کو اس کے ساتھ پورے دسمبر دیکھتا رہا ، پہلے تو میں کافی حیران رہا؛ تاہم اس کے بعد دوسرا نظارہ کرتے وقت سمجھ گیا کہ جس طرح سے یہ ستارے مشتری کے گرد حرکت کر رہے ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ پانچ شمسی سیارے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔"

موریس نے اپنے اس مشاہدے کو ٢٩ دسمبر ١٦٠٩ء میں جولیس تقویم کے حساب سے درج کرنا شروع کیا۔ یہ تاریخ گریگورین تقویم کے لحاظ سے ٨ جنوری ١٦١٠ء بنتی تھی[1] جو اتفاق سے اس دن کی دوسری رات تھی جب اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی نے مشتری کے مصاحبین کی دستاویزات کو ضبط تحریر کیا۔ گلیلیو نے فلکیاتی پیغام بر مارچ ١٦١٠ء میں شایع کیا۔ اس مقالے میں گلیلیو کے بنائے ہوئے ستر سے زائد چاند کے مرحلے اور شگاف، برج اور سب سے اہم مشتری کے اپنے مہتابوں کے ساتھ خاکے موجود تھے۔

گلیلیو نے برجیسی مہتابوں کا ذکر اپنے ایک اور پہلے خط میں بھی کیا تھا جس کی تاریخ ٧ جنوری تھی لہٰذا غالب گمان یہ ہے کہ اس نے مشتری کے چار بڑے مہتابوں کو موریس سے کم از کم ایک رات پہلے دریافت کیا تھا۔ موریس نے اپنی تحقیق کو کئی برسوں تک شایع نہیں کیا۔ جب اس نے ١٦١٤ء [2]میں اس کو شایع کیا تو اس نے دریافت کا سہرا اطالوی ماہر فلکیات کو یہ کہتے ہوئے دیا، " لہٰذا اٹلی میں ان ستاروں کی پہلی دریافت کا سہرا گلیلیو کو جاتا ہے اور وہ اس کا ہی رہے گا " لیکن موریس کے مداحوں نے اس بات کا مطلب یہ لیا کہ گلیلیو کواس دریافت کا سہرا صرف اٹلی میں جاتا ہے جب کہ موریس نے اصل دریافت جرمنی میں کی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ موریس اس بارے میں کیا محسوس کرتا تھا، لیکن وہ گلیلیو سے پہلے ہی نووا کے تنازعہ میں کافی برسوں پہلے سے الجھا ہوا تھا۔ بلاشبہ وہ کسی بھی دوسرے تنازعے سے بچنا چاہتا تھا۔ اس کے باوجود موریس کے چاہنے والوں کے دباؤ پر گلیلیو مجبور ہوا کہ موریس کی دریافت کے "دعووں " کی تردید کرے۔

موریس کے ١٦١٤ء کے مندرجات مہتابوں کی مخصوص حرکت کی پہلی تفصیل تھی اور یہ موریس ہی تھا جس نے ان ناموں کی تجویز دی تھی جو ان کو تفویض کئے گئے ہیں، مشتری کی محبوباؤں کے نام ۔ ان ناموں کی تجویز اس کو جوہانس کیپلر نے اپنے خط بتاریخ اکتوبر ١٦١٣ء میں دی تھی۔ اس طرح سے اگرچہ مشتری کے بڑے مہتابوں کو گلیلائی سیارچے کہتے ہیں لیکن ان کے نام موریس نے رکھے تھے۔

دوربینوں کے طاقتور ہونے کےباوجود گلیلائی علم تھم سا گیا تھا۔ برجیسی نظام اس قدر دور ہے اور اس کے مہتاب اس قدر چھوٹے ہیں کہ دوربینوں کے ذریعہ انتہائی کم تفصیلات حاصل کی جا سکتی تھیں۔ تفصیلات متاثر کرنے کی حد تک تو تھیں تاہم وہ ان مہتابوں کی اصل نوعیت کو بیان کرنے سے پریشان کن حد تک قاصر تھیں۔ ٣٠٠ برس بعد ١٩٣٣ءمیں اپنی کتاب [3]Sur Les Autres Mons” میں لوشین روڈیکس جو پیرس کی میڈون رصد گاہ کا منتظم تھا نے لکھا، "کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ اہم سیارچے ہمارے چاند سے بڑے ہیں اور کئی سیاروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ گینی میڈ کا قطر لگ بھگ مریخ کے جتنا ہے اور عطارد سے بڑا ہے، مؤخر الذکر تو [گینی میڈ سے] چھوٹا ہے ۔" روڈیکس نے گلیلائی سیارچوں کا مقابلہ زمین کے پڑوسی سیاروں سے کیا۔ "آپ سرمئی رنگ کے چھوٹے پیوند دیکھ سکتے ہیں جو قدرتی طور پر بنی ہوئی مختلف سطحی ساختوں کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ پس اس لئے چاند اور سیاروں کی طرح انھیں ہم زمین سے دیکھ سکتے ہیں۔



خاکہ 5.2 موریس منڈس جوویلس (بائیں) اور گلیلیو سڈریس ننسیس کی کوور پلیٹ

ہمارے لئے یہ ممکن ہے کہ ہم سطح کو سمجھ سکیں، لیکن ہم ان جگہوں کے بارے میں اور کیا جان سکتے ہیں؟ کیا ہم رنگوں کے حادثوں کو دیکھ رہے ہیں؟ کیا وہ ہموار ہیں یا کھردرے؟ کیا وہ جراثیم سے پاک ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں یہ بات ناممکن ہے کہ ہم بالکل درست بات معلوم کر سکیں۔" روڈیکس بطور فن کار اور ماہر فلکیات اس خیال سے مزاحمت نہیں کر سکا کہ یہ چھوٹی دنیائیں انسانی پیمانے پر کیسی دکھائی دیتی ہوں گی۔ "یہ ممکن ہے کہ وہاں جایا جا سکے۔ لیکن ان میں سے کس پر ہمیں جانا چاہئے؟"

اگلے بیس برسوں میں دوربین کے مشاہدات نے ماہرین فلکیات کو ان چار چاندوں کی کمیت اور حجم کے بارے میں کافی بہتر طور پر اندازے قائم کرنے میں مدد کی، لیکن ان کی ہئیت کو سمجھنے کے سلسلے میں بہت ہی کم معلوم ہو سکا۔ روئے گیلنٹ ١٩٥٨ء کی اپنی کتاب "سیاروں کی کھوج" میں [4] چند مختصر سے پیراگراف میں حالیہ گلیلائی مہتابوں سے متعلق سائنسی معلومات کو کوزہ بند کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔ ان کی تحریر کا کچھ حصّہ ایسا ہے :

آئی او ۔۔۔ کے متعلق غالب گمان یہ ہے کہ وہ ایک چٹانی کرہ ہوگا جس میں ہر جگہ دھاتیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ دوسرا بڑا سیارچہ یوروپا ہے ۔۔۔ سورج کی روشنی کو بہت اچھے طرح سے منعکس کرنے والا ، کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے خط استواء پر اس نے گہری پٹی پہنی ہوئی ہے اور ہلکے قطبی علاقے دکھا رہا ہے۔ عموماً سیارچہ سفید نظر آتا ہے ۔۔۔[گینی میڈ] میں گہرے پیوند ہیں، نہروں جیسے نشان اور قطبی چوٹیاں مریخ جیسی ہیں۔ ہمارے چاند کی طرح ، گینی میڈ کو لازمی طور پر سرد جہاں ہونا چاہئے جہاں حد درجے لطیف کرہ فضائی ہوگا۔۔۔ کیلسٹو ۔۔۔ روشنی کا برا منعکس کرنے والا ہے اور گہرے استواء کے ساتھ سرمئی مائل نیلا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ سیارچے کی تاریکی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ کیلسٹو اپنے دوسرے ساتھیوں سے الگ ہے۔ کچھ فلکیات دان اس کو ٹھوس برف کی گیند سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ اس کا قلب برف سے ڈھکا ہوا ہے۔" بہرحال ١٩٧٠ءکے عشرے میں کئی محققین سمجھتے تھے کہ گلیلائی مہتابوں کی سطح پر گڑھے موجود ہوں گے اور وہ بنجر ہوں گی۔۔۔[گینی میڈ] کی زمین ممکنہ طور پر ہمارے چاند جیسی ہوگی۔۔۔ وہاں جمی ہوئی گیسیں چٹانی میدانوں پر چڑھی ہوئی ہوں گی۔[5]

ہرچند کہ برجیسی مہتابوں کا اژدہام اپنے راز چھپائے ہوئے تھا، لیکن انہوں نے اپنے مرکزی سیارے کی اندرونی ساخت کے بارے میں بھی کچھ معلومات فراہم کی۔ ان کی حرکت کو انتہائی احتیاط کے ساتھ درج کرنے کے بعد، طبیعیات دان مہتابوں کی کمیت کا کافی قریبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مہتابوں کا یہ ناچ دوسری طرف مشتری کے حجم کو بھی بیان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ گلیلائی مہتابوں کو روشنی کی رفتار ناپنے کے تجربات میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔

مہتابوں کی کمیت کو بیان کرنے کے لئے ، فلکیات دانوں نے ان کے اندرون کی ساخت کو جاننے کی کوشش کی۔ ١٩٦٠ء کے ابتدائی عشرے تک، اس بات پر سب ہی متفق ہو گئے تھے کہ گلیلائی مہتاب پانی کی برف اور پتھروں پر مشتمل ہیں۔ یہ امتزاج کیسے حاصل ہوئے اس کے بارے میں بس اندازے قائم کئے جا رہے تھے۔ آیا کیا مہتاب صرف منجمد برف اور پتھروں کی روڑی کے ملغوبے کا شوربہ تھے؟ برف کے کرے کثیف چٹانوں/ لوہے کے قلب کے ساتھ؟ ایک چیز تو صاف تھی۔ جس طرح سے سیارے اپنے مرکزی ستارے کے گرد چکر لگاتے ہیں ، گلیلائی چاند جو اپنے مرکزی سیارے سے نزدیک تھے وہ زیادہ ضخیم تھے اور دور والا کیلسٹو کم ضخیم تھا۔ ایک طرح سے گلیلائی چاند چھوٹا سا نظام شمسی بناتے ہوئے نظر آتے تھے۔

١٩٦٤ء کی شروعات میں ۔ فلکیات دانوں نے ان ستاروں کا احتیاط کے ساتھ مشاہدہ کرنا شروع کیا جب وہ مہتابوں کے پیچھے جا کر غائب ہوتے تھے اس مظہر کو "احتجاب کوکب" کہتے ہیں۔ اگر مہتابوں کا کرہ فضائی موجود ہوا تو ستارے کی روشی بتدریج کم ہوتی ہوئی ایسے نظر آئے گی جیسا کہ ستارے چاند کے پیچھے جا رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا؛ یہ بات عیاں ہو گئی تھی کہ سیاروں کے حجم والے مہتابوں کا کرہ فضائی موجود نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو بہت ہی معمولی تھا۔


[1]۔بطور کیتھولک گلیلیو نے گریگورین تقویم کا استعمال کیا تھا۔
[2]۔یا "مشتری کی دنیا ١٦٠٩ء میں ولندیزی جاسوسی عینک کے ذریعہ دریافت ہوئی۔"
[3]۔یا ۔۔۔ دوسرے جہانوں پر اصل میں اوجی جیلن ، ہولئیر – لاروسے نے ١٩٣٧ءمیں شایع کی تھی۔ اس کو دوبارہ ١٩٩٠ء میں شایع کیا گیا۔ ایک مشاق شاہد ہونے کے علاوہ روڈیکس ایک مصوّر بھی تھا۔ اس کی تصاویر نے پہلی مرتبہ سائنسی بنیادوں پر تاریخ میں درست طور پر خلاء کو بیان کیا۔
[4]۔ سیاروں کی کھوج از روئے اے گیلنٹ ، ڈبل دے اینڈ کو ١٩٥٨ء۔
[5]۔ چاند اور سیارے از جوزف سڈل ؛ شایع کردہ پال ہملین ،لندن ١٩٦٥ء۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 2


خاکہ 5.3 گلیلائی سیارچوں کا نقشہ از اے سی ڈولفس بذریعہ استعمال ٦٠ سینٹی میٹر کی پک ڈو میڈی رصد گاہ کی دوربین، جدید گلیلائی سیارچوں کا نقشہ

فلکیات دانوں نے بھی دوسرے کافی کرتب اپنی آستینوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ بڑھتی ہوئی دوربینی طاقت کے ذریعہ وہ سیارچوں کا درجہ حرارت ناپنے کے قابل ہو گئے تھے۔ درجہ حرارت سطح پر موجود مادّہ کے بارے میں نشاندہی کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہوتا ہے۔ سب سے بڑا اور آسانی کے ساتھ لائق تحقیق گینی میڈ تھا۔ جب مشتری کا سایہ چاند پر گرتا تھا تو درجہ حرارت میں بدلاؤ مشاہدہ کرنے والوں کو بتاتا تھا کہ سطح پر موجود مادّہ حرارت کا اچھا موصل نہیں ہے۔ اس معلومات کو دوسرے اعداد و شمار کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ " ہو سکتا ہے کہ برف کی تہ – پانی اور امونیا کے وسیع سمندرنے سیارچے کو ڈھکا ہوا ہو اور اس گہرے سمندر کے نیچے چٹان اور آئرن آکسائڈ سے بنا ہوا قلب موجود ہو۔"[1]

ایک اور اہم جدت ان کی ہئیت کو سمجھنے کے لئے ١٩٧٣ء میں اس وقت آئی جب پائینیر دہم خلائی جہاز مشتری کے قریب سے گزرا، اور اس نے سیارے اور اس کے مہتابوں کی تصاویر کو اتارا۔ پائینیر یاز دہم ایک برس بعد اس کے پیچھا کرتا ہوا گزرا۔ دونوں میں سے کوئی بھی خلائی جہاز کیمرہ لے کر نہیں گیا تھا (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب) بلکہ ان میں تقطیعی ضیائی تقطیب پیما موجود تھا جس سے تصاویر کو بنایا جا سکتا تھا۔ آج کے معیار کے لحاظ سے تصاویر کافی خام تھیں، سب سے بہترین گلیلائی مہتابوں کی تصاویر ١٦٠ کلومیٹر فی پکسل حاصل کی گئیں۔ دور سے دیکھنے کے باوجود رنگوں اور درجہ بیاض (کسی سیارے یا سیارچے پر پڑنے والی ضیائی کرنوں کی اس امر کے ساتھ پیمائش کہ کتنی کرنیں خارج ہوئیں اور کتنی پہنچیں) میں تبدیلی دیکھی جا سکتی تھی۔ (ملاحظہ کیجئے خاکہ 5.5)۔ پائینیر یاز دہم نے آئی او کا سب سے بہتر نظارہ کیا تھا، جس میں سیدھا ایک نارنجی قطبی علاقے کو سفید قطبی پٹیوں کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ آئی او نے محققین کو اپنے چمکدار رنگوں کی سطح اور طیف میں پانی کی مکمل غیر موجودگی سے دق کرنا جاری رکھا۔ ریزولوشن ٣٧٦ کلومیٹر فی پکسل کی تھی۔

یوروپا کی ایک ہی مرتبہ پائینیر دہم سے تصویر لی گئی ہے۔ تصویر میں رنگوں میں فرق کافی کم تھا۔ ایک تاریک علاقہ نصف روشن کرے کے مرکز کو قطع کر رہا تھا بعینہ جیسے روڈیکس نے چار دہائیوں پہلے دیکھا تھا۔ یوروپا کی بہترین منعکس کرنے والی سطح اس شک کو یقین میں بدل رہی تھی کہ اس کی سطح پانی کی برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔

دو تصاویر نے گینی میڈ کے سانولے چہرے کو دکھایا جو تقریباً ایک جیسے ہی رنگ کا تھا تاہم ایک گہرا بیضوی علاقہ اس کے مرکز میں تھا اور ایک روشن قطب اس کے شمال میں تھا۔ سیاہی مائل کیلسٹو ، جو گلیلائی چاندوں میں سب سے زیادہ تاریک ہے ، اس کی تصویر ٣٩١ کلومیٹر پر محیط دور کے فریم سے لی گئی تھی۔ صغیر تغیر رنگ اور درجہ بیاض خط استواء کے قریب ہلکے علاقوں کے علاوہ اور کچھ نہیں بتا رہے تھے۔

پائینیر نے ہوائی انجینیروں کو کمیت کے بارے میں کافی بہتر معلومات فراہم کیں لیکن تفصیلات جاننے کے لئے انہیں مزید ٦ برسوں کا انتظار اس وقت تک کرنا تھا جب تک وائیجر وہاں پہنچتا۔ وائیجر نے سیاروی سائنس کی بنیاد ہی کو کئی طرح سے بدل کر رکھ دیا۔ سیاروی ارضی طبیعیات دان ولیم مک کننون جو واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبے مک ڈونل سینٹر فار دی اسپیس سائنس میں کام کرتے ہیں وہ وائیجر کی اڑان سے آنے والی کایا پلٹ کو کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں۔ "لوگوں کی کافی تعداد زمین پر برسوں سے چھان پھٹک میں لگی ہوئی ہے اوراس کے باوجود زمین کے بارے میں ہمیںحال ہی میں معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ وائیجر نے برفیلی دنیاؤں کا پہلا نظارہ ہمیں ٣٥ یا اس سے زائد برسوں میں دیا ہے۔ وہاں پر جانا ہی ہمیں نئے طرز فکر سے روشناس کروا سکتا ہے۔"

ایک نئی چیز جو ہمیں معلوم ہوئی ہے وہ مدوجزر سے حاصل ہونے والی حرارت ہے۔ مشتری کے گرد چکر لگانے والا چھوٹا جہاں لوشین روڈیکس کے اندازے کے مطابق زمین کے چاند کی برفیلی صورت ہی تھا۔ لیکن پڑوسی مہتابوں اور مشتری کی قوّت ثقل ارضیاتی اشکال کے جمعہ بازار لگانے کی وجہ سے پیدا ہوئی اندرونی حرارت اس کو اندازے سے کہیں زیادہ متحرک کیے ہوئے ہے۔ " مدوجزر اور اس کے اثر کے بارے میں قیاس کیا جا رہا تھا، لیکن ہم نے ایسی کوئی چیز اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی، اور نہ ہی کسی نے اس کی اصل قوّت کے بارے میں سوچا تھا۔ ننھے جہاں بھی کافی متحرک ہیں۔" مک کینن یاد کرتے ہیں۔ سب سے پہلے وائیجر کا مشتری کے ساتھ سامنا صبح ٤ بج کر ٤٢ منٹ بروز ٥ مارچ ١٩٧٩ء کو ہوا۔ بہار کی صبح میں پاساڈینا میں ہوا کافی خوش گوار تھی لیکن سائنس دان جے پی ایل کے مرکز میں وان کرمان آڈیٹوریم میں گھنٹوں سے الگ تھلگ بیٹھے ہوئے تھے۔ سب سے قریب آمنے سامنے کا اصل وقت صبح ٤ بج کر ٥ منٹ تھا لیکن اس فاصلے سے اشاروں کو خلاء سے زمین پر واپس آنے میں ٣٧ منٹ لگے۔

وائیجر اوّل اپنے اس راستے میں کیلسٹو، گینی میڈ اور یوروپا کی کئی تصاویر اتار چکا تھا۔ دلفریب تصاویر واضح دھبے، داغ اور خطوط کو دکھا رہے تھے تاہم ان کی ریزولوشن کافی پست تھی (١٠٠ کلومیٹر فی پکسل کے لگ بھگ) جس سے کوئی بہت واضح معلومات حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن مزید چیزوں کو آنا تھا۔ دنیاؤں کے بادشاہ کی چھان پھٹک کے بعد وائیجر اوّل نے گلیلائی مہتابوں کا سروے قریب سے کرنا شروع کی۔ اس میں ایک چھوٹا سا منفرد سیاروی نظام گیسی دیو کے گرد چکر لگاتا ہوا دکھائی دیا۔ چار ماہ بعد وائیجر دوم نے تکمیلی دورے میں کافی مہتابوں کا مطالعہ خاصی قریب سے کیا جس کو اس سے پہلے گزرنے والے اس کے جڑواں خلائی جہاز نے کافی دور سے دیکھا تھا۔

گلیلائی سیارچوں کی اب تک مفصل تفصیلات گلیلیو اوربیٹل مشن سے سولہ برس بعد حاصل ہوئیں (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)۔ بجائے وہاں سے گزر کر آگے جانے کے گلیلیو برجیسی نظام کے مقناطیسی کرہ سے لے کر حلقوں تک اور اس کے سیارچوں پر لمبے عرصے کی تحقیق کے لئے اس کے مدار میں ٹھر گیا۔ جے پی ایل کے رابرٹ پپلارڈو گلیلیو سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ہماری بنیادی تفہیم میں ہونے والی تبدیلی کو یوں بیان کرتے ہیں:

گینی میڈ کے مقناطیسی میدان کا تصور فوراً دماغ میں آتا ہے ۔ یہ تصوّر ہی کافی بڑا ہے کہ گینی میڈ اندرونی طور پر اس قدر گرم ہے کہ اس کے اپنے مقناطیسی میدان موجود ہوں۔ اس کے بعد یہ بات ظاہر ہوئی کہ سیارچے ،کم از کم تین، تو ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہیں [ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس نقطے پر نمو پائی جہاں ہلکے عناصر پرت سے اوپر اٹھ گئے ہوں گے جبکہ بھاری عناصر مرکز میں کثیف ہو کر بیٹھ گئے ہوں گے]۔ اب ہم اس کو یوں ہی لیتے ہیں، لیکن پہلے ہم پوچھتے تھے، "کیا وہ ایک جیسے ہیں، یا ان میں کوئی چٹانی قلب بھی ہے؟" یوروپا کا سمندر تو دیوانے کی بڑ نظر آتا تھا، لیکن اب ہمارے پاس یہ نیا تصوّر ہے کہ سمندر بھی ایک خول کے اندر موجود ہو سکتے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ جب تک برف کا خول ایصال حرارت کے لئے موٹا ہوگا تو پوری چیز منجمد ہو جائے گی [باہری قشر سے لے کر قلب تک]، لہٰذا ان میں سے کسی کے پاس بھی سمندر نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک بڑا کام تھا۔

ولیم مک کینون اضافہ کرتے ہیں، " حرارت کے لئے برف میں سے نکلنا مشکل ہوتا ۔ کچھ عرصے کے لئے ہم نے ایصال حرارت کے بارے میں سوچا، ایک برفانی تودے جیسی حرکت اندرونی حرارت سے پیچھا چھوڑا دے گی۔ اس کے باوجود لوگ پھر بھی سوچتے تھے کہ یوروپا بلکہ انسیلیڈس کے نیچے بھی سمندر ہو سکتے تھے، اعداد و شمار ہمیں کھینچ کراس جگہ لے گئے جہاں ہم چیخنے لگے کہ برفیلے مہتابوں میں سمندر عام بات ہیں۔

" یوروپا کی سطح کی عمر بھی ایک حیرت کا جہاں بنی جو گلیلیو مہم کے نتائج سے معلوم ہوئی، پاپالارڈو کہتے ہیں۔ " وہاں پر پگھلی ہوئی زمین ہے – تالاب جو ہم وائیجر خلائی جہاز سے دیکھتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ آیا یہ اندر سے پیدا ہوئے ہیں یا بہت زیادہ تصادموں سے پیدا ہوئے ہیں موخّرالذکر صورت میں ان کو کافی عمر کا ہونا چاہئے تھا۔ بہرصورت یہ تصادم سے بنے ہوئے گڑھے نہیں تھے۔ یہ پرانے نہیں تھے، اور یہی بنیادی تبدیلی تھی۔ جب وہاں جا رہے تھے تو ہم سمجھ رہے تھے کہ سیارچے چٹانوں اور برف کے ملغوبے کا کافی یکساں امتزاج ہوں گے اور شاید ایک چھوٹا قلب بھی موجود ہو۔ کیلسٹو کا دوسرے سیارچوں کی روشنی میں ان سے الگ نہ ہونا ایک پہیلی تھی ۔"

کچھ اسرار جو گلیلیو سے بھی حل نہیں ہوئے تھے ان پر سے بھی جلد ہی پردہ اٹھ جانا تھا۔ مشتری کی جانب کافی مہمات یا تو بننے کے مرحلے میں ہیں یا وہاں بھیجی جا چکی ہیں (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)۔ اسی دوران، زمینی تحقیقی مراکز مسلسل آگے بڑھتے رہے۔

سب سے بڑی دوربین میں بھی آئی او ایک یا دو پکسل جتنا نظر آتاتھا۔ مشاہدہ کرنے والوں کو کافی چالاک ہونا چاہئے تھا تاکہ وہ اعداد و شمار سے تفصیلات کو حاصل کر سکیں۔ جے پی ایل کے ایشلے ڈویز کہتی ہیں۔" آپ کے پاس چند پکسل پر پھیلا ہوا آئی او ہے، لہٰذا آپ پورا سیارچہ ایک ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ آئی او پر آپ کے پاس مختلف حرارتی منبع ہیں ، لہٰذا جب آئی او گھومتا ہے تو دوسرے کچھ منبع گھومتے ہوئے سامنے آ جاتے ہیں جبکہ کچھ گھوم کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی بڑا شرارتی غائب ہو جائے تو حرارتی بہاؤ [حرارت میں فرق] نیچے چلا جاتا ہے، اور جب گھوم کر واپس آتا ہے تو بہاؤ پھر بڑھ جاتا ہے۔ اس کے باوجود آپ تمام توانائی کو پوری قرص سے آتا ہوا کسی بھی وقت دیکھ رہے ہوتے ہیں، آپ اب بھی اونچے درجہ حرارت کے واقعات کا سراغ لگا سکتے ہیں۔"


[1] ۔ نئے جہاں : ہمارے نظام شمسی سے ہونے والی دریافت از وان براؤن اور اورڈ وے (اینکر پریس ١٩٧٩ء)۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 3

آئی او کا قریب سے جائزہ

٣٦٣٦ کلومیٹر کے قطر کے ساتھ آئی او زمین کے چاند جتنا ہی ہے، اس کی سطح شمالی امریکہ کے برابر ہے ۔ آئی او اور دوسرے گلیلائی مہتاب بھی اپنے مداروں میں مدوجزر سے بندھے ہوئے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک ہی نصف کرہ ہمیشہ مشتری کے سامنے رہے گا۔ آئی او کا دن اپنے مدار کے وقت یعنی ٤٣ گھنٹے کے برابر ہے۔

انسانی تجربے کے پیمانے پر آئی او کی ملتانی مٹی کا ارضیاتی نظارہ شمالی امریکہ کے عظیم میدان یا روسی دشت کی آن بان جیسا لازمی ہوگا۔ لہر دار سنہری منظر جن پر جگہ جگہ سبز رنگ کا چھڑکاؤ اور کہیں کہیں سلفر کا نارنجی آتش فشانی دہانے کا تڑکا لگا ہوا ہو۔ اگرچہ زمین کے شمالی میدان سخت سردی کے لئے بدنام ہیں آئی او کا شمالی بارد جیسا موسم جمی ہوئی سلفر ڈائی آکسائڈ کے کمبلوں کو سنگ دار کھوکھلے غلاف کی سطح پر جما دیتا ہے ۔ لیکن سیاحوں کو اس منظر سے تیزی سے محظوظ ہونا ہوگا۔ آج کے حالیہ خلائی کپڑے پہن کر وہ برجیسی تابکاری سے منٹوں کے اندر ہی ہلاک ہو جائیں گے۔

شیکسپیئر کی جولیٹ رومیو سے مشہور زمانہ سوال پوچھتی ہے، "نام میں کیا رکھا ہے؟" مشتری کے گلیلائی مہتابوں میں سے زیادہ قریبی چاندوں کا نام مشتری کی محبوباؤں پر رکھا ہوا ہے ۔ مشتری اور آئی او میں آپس میں ایک منفرد گندھا ہوا رشتہ موجود ہے ۔ آئی او مشتری کے مدار میں 421,800 کلومیٹر پر مشتری کی مہلک تابکاری کی گہرائی میں چکر لگا رہا ہے۔ تابکاری اور برقی بہاؤ مسلسل آئی او کی زمین پر گولہ باری کر رہے ہیں اور مشتری اور اس کے مہتاب کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے۔ گلیلیو خلائی جہاز نے تصدیق کی ہے کہ آئی او کے قلب میں نکل اور لوہا موجود ہے۔ اس کا قلب مشتری کے اس مقناطیسی کرہ سے تعامل کرتا ہے جو سیارے کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے ۔

٢٠٠١ء کے اگست اور اکتوبر کے مہینے میں جب گلیلیو مدار گرد نے آئی او کے قطبین کے پاس پرواز کی تو وہ چاند کے قلب سے نکلنے والے مقناطیسی میدان کی تلاش میں تھا۔ لیکن اس کو کچھ بھی نہیں ملا۔ مقناطیسی میدان کے بجائے خلائی جہاز نے ان بار دار ذرّات میں دس گنا زیادہ اضافہ دریافت کیا جو آئی او کو مشتری سے جوڑتے تھے۔ آئی او ہزار تجارتی نیوکلیائی ری ایکٹروں کے مقابلے میں زیادہ برقی رو پیدا کر رہا تھا اور اس میں سے زیادہ تر مشتری کے میدانوں کے ساتھ بہہ رہے تھے۔ گلیلیو نے دو عامل آتش فشانوں کے عین اوپر توانائی کے خطوط کا سراغ لگا لیا۔ الیکٹران اور برق پارے مقناطیسی خطوط کے ساتھ راستوں پر دوڑ رہے تھے اور آئی او کے منبع کو مشتری سے جوڑ رہے تھے۔ توانائی کی اس شاہراہ کا نام بہاؤ کی نلکی رکھا گیا ہے۔ جو توانائی کو آئی او سے مشتری اس کے قطبی علاقوں کے قریب بھیج رہی ہے اور یوں طاقتور قطبی روشنیاں سیارے اور چاند پر پیدا ہو رہی ہیں۔ آئی او کی یہ حرکات اصل میں مشتری کے طاقتور میدانوں اور ذرّات کو مضبوطی فراہم کر رہی ہیں ۔ جیسا کہ سیاروی ارضیات دان ولیم مک کینون اس طرح سے کہتے ہیں، "مشتری آئی او کی وجہ سے ہی برا بنا ہے ۔ آئی او سلفر کو مقناطیسی کرہ میں بھرتا ہے۔ سیارچوں کے نظام [دوسرے سیاروں کے ]چھوٹے ہوتے ہیں اور اس طرح سے مقناطیسی میدان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔"

آئی او کے آس پاس نہلا دینے والی تابکاری نے خوفناک ماحول کو جنم دیا ہے، ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سیاروی سائنس دان جان اسپینسر کہتے ہیں۔ "آئی او واقعی میں اپنے رس میں ہی گل رہا ہے۔ یہ اپنا تمام آتش فشانی مادّہ باہر نکال رہا ہے اور وہ برجیسی مقناطیسی کرۂ میں فرار ہو رہا ہے اور پھر وہ وہاں جا کر مشتری کے نظام کے طاقتور مقناطیسی میدان کے ذریعے ناقابل بیان توانائی کا اسراع حاصل کرکے واپس آئی او کی جانب کم از کم اس کا کرۂ فضائی میں واپس لوٹتا ہے۔ اور وہاں جا کر وہ مزید مادّے کو نکالتا ہے اور یوں ایک چکر بن جاتا ہے ، اس طرح سے تمام برجیسی مقناطیسی کرہ اس بلند توانائی کی حامل آکسیجن/ سلفر کے جوہروں اور الیکٹران سے بھر جاتا ہے جو اس کے قریب غلطی سے بھٹکنے والے کسی بھی اس انسان کی جان لینے کے لئے کافی ہیں ۔ یہ کسی خلائی جہاز کے لئے بھی کافی مہلک ہیں؛ کوئی ایسا خلائی جہاز بنانا جو اس قسم کے ماحول میں صحیح سلامت رہ سکے کافی مشکل کام ہے۔" بلند توانائی کےحامل الیکٹران کے سمندر آئی او کے مختلف حصّوں کو روشن کرتے ہیں۔ آئی او کا آسمان اپنے اس سوڈیم کے بادلوں کی چمک سے لبریز ہوگا۔ سوڈیم کافی چمکدار ہوتا ہے جو اچھی کارکردگی کے حامل چراغوں کو بنانے کے کام آتا ہے۔ یہ پیلے نارنجی چراغ جلنے کے بعد چشم عریاں سے رات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آئی او کی وہ تصاویر جب چاند مشتری کے سائے میں سے گزرتا ہے، تو آتش فشانوں سے نکلنے والی روشنی سطح پر دانوں کی طرح نظر آتی ہے جو جلنے کی غماز ہے۔ نکلنے والا دھواں بھی اس طرح منور ہوتا ہے جیسے وہ چھوٹے چاند کی قرص کے گرد موجود پتلی کرۂ فضائی ہو۔ یہ چمک آئی او کے کرۂ فضائی سے اوپر بھی چلی جاتی ہے جہاں مشتری کے مقناطیسی میدان کے خطوط ایک ایسی جگہ پر براہ راست ملتے ہیں جو مشتری کی قریب اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ روشنی کے بادل مشتری کے ہر چکر کے ساتھ ڈگمگاتے ہیں کیونکہ سیارے کے مقناطیسی میدان جھکے ہوئے ہیں۔ ان جوڑوں کی جگہ بدلتی رہتی ہے جب مقناطیسی کرۂ اپنی جگہ بدلتے ہیں۔ آئی او کے آتش فشانوں کی اوّلین دریافت اس کی سطح کا مشاہدہ کرنے سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے موجود ستاروں کا مشاہدہ کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔ آئی او کے قریب پہنچنے کا صرف تیسرا دن تھا ، 8 مارچ کے دن جب وائیجر اوّل نے راستے کی نشاندہی کے لئے ستاروں کی تصاویر اتارنے کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ان تصاویر میں سے ایک نے سورج سے روشن ایک کونا یا آئی او کے ہلال کا کچھ حصّہ دیکھا۔ ٣٠٠ کلومیٹر چاند کی سطح کے اوپر معلق چھتری کی شکل دھند کا ایک حصّہ لگ رہی تھی۔ اسی طرح کی ایک چیز خاتم (دن اور رات کے درمیان سرحد) کے وقت بھی چمکی تھی۔



خاکہ 5.4 طاقتور میدان اور ذرّات مشتری کے آتش فشانی چاند کو سیارے سے جوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم ان کو دیکھنے کے قابل ہوتے تو ہمیں بہاؤ کی نلکی آئی او کے قطبین سے نکل کر مشتری کے مقناطیسی کرۂ کے قطبین تک جاتے ہوئے نظر آتی۔ اس وقت آئی او ایک فوق بار ڈونٹ کے اندر تیر رہا ہوتا ہے آئی او کا پیندا مشتری کے گرد ایک میدان میں لپٹا ہوا ہے اور یہ میدان خط استواء سے تھوڑا سے جھکا ہوا ہے۔

ماہر جہاز رانی لنڈا مرابیٹو نے اس بھوت جیسے سائے کو بادل سمجھا۔ یہ جاننے کے بعد کہ آئی او کا کوئی کرۂ فضائی نہیں ہے ، صرف ایک ہی منطقی بات ان کو سمجھ میں آ رہی تھی کہ یہ کوئی ناقابل تصوّر متشدد آتش فشانی پھٹاو تھا جس نے آسمان میں گیس اور غبار کی چھتری کو چھوڑ دیا تھا۔ تصویر لینے والی ٹیم کے محققین اس بات پر متفق تھے اور زیریں سرخ حساسئے اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ چھوٹے چاند کی پوری سطح پر گرم جگہیں موجود ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 4




خاکہ 5۔5 آئی او کے حصّے کے اوپر آتش فشانی مکھی پر سورج کی کرنیں۔ نیو ہورائیزن نے آئی او کے شمالی قطب کے اوپر ٣٣٠ کلومیٹر اڑتے ہوئے اس عظیم دھوئیں کی تصویرلی۔ یہ دھواں تواشتر سے آ رہا ہے۔

یہ پہلی مرتبہ تھا کہ محققین نے مدوجزر کو اس طرح کا برتاؤ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ مشتری اور دوسرے گلیلائی مہتابوں کی دھکم پیل آئی او کی سطح کو روزانہ ٤٥ میٹر تک اوپر اٹھاتی اور پھر نیچے گراتی ہے۔ اس طرح سے مسلے جانے کی وجہ سے اس چھوٹے چاند کے اندرون میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ وائیجر نے ٤٠٠ کے قریب متحرک آتش فشاں دیکھے۔ دو عشروں بعد گلیلیو خلائی جہاز نے جب چاند سے پہلی مرتبہ آ منا سامنا کیا تو اسے ١٢٠ سے زائد نئے منبع ملے۔ ماہرین ارضیات کے اندازوں کے مطابق لگ بھگ ٦٠٠ متحرک جگہیں موجود ہیں یہ اتنی ہی ہیں جتنی کہ پوری سطح زمین پر پائی جاتی ہیں۔

"زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ آئی او کی کہانی وائیجر کے ساتھ شروع ہوئی لیکن ہم جانتے ہیں کہ زمین پر موجود مرکزوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار نے اس میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔" ٹورینس جانسن وائیجر کی تصویری ٹیم کے سربراہ کہتے ہیں۔ جانسن اور ڈینس میٹسن نے آئی او کا زمین سے کافی مفصل طور پر مشاہدہ کیا۔" ہم نے گینی میڈ اور یوروپاپر پانی کو جذب ہوتے دیکھا لیکن ایسا کچھ آئی او پر نظر نہیں آیا، ہرچند کہ آئی او بھی اتنا ہی روشن تھا۔ ہم نے آئی او کو مشتری کے مقناطیسی کرۂ کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے دیکھا اور ہم نے وہاں سوڈیم کو بھی پایا۔" اکثر محققین نے خلائی جہاز کے وہاں تین دن پہنچنے سے قبل ہی وہاں پر آتش فشانی حرکت کے بارے میں رائے قائم کی ہوئی تھی۔[1]

جب محققین آئی او کی مخصوص ہئیت کو سمجھنے کے لئے جدو جہد کر رہے تھے تب ان کے آلات نے اس کی سطح پر کافی زیادہ درجہ حرارت کومحسوس کیا تھا۔ حاصل کردہ اعداد دماغ ہلا دینے والے تھے۔ آئی ہو کے پاس زمین کے مقابلے میں ١٠٠ گنا زیادہ حرارت تھی جو اس کی سطح پر سے بہ رہی تھی۔ آئی او لگ بھگ ہر سیکنڈ میں ایک لاکھ ٹن مادّہ پھینک رہا تھا۔ ہرچند اس سے اٹھنے والے مادّے کی زیادہ تر مقدار واپس اس کی سطح پر جمی ہوئے سلفر کی صورت میں ایسے برستی ہے جیسے مشین گن سے گولیاں برسائی جا رہی ہوں۔ تاہم پھر بھی اس میں سے کچھ دس ٹن کے لگ بھگ ہر سیکنڈ میں برجیسی مقناطیسی کرۂ کے ارد گرد فرار ہو جاتی ہے۔ 5 فیصد سے زیادہ آئی او کی سطح آتش فشانی دہانوں سے بھری ہوئی ہے۔" پہیلی کا جو حصّہ غائب تھا وہ حرارتی عمل تھا،" جانسن کہتے ہیں۔ " اسٹین پیلی نے مدوجزر کی حرارت کی تجویز پیش کی، لیکن اس کی ٹیم بھی نہیں سمجھتی تھی کہ آئی او متحرک آتش فشانوں کو پکانے کے لئے حرارت پیدا کر سکتا ہے۔" ایک مرتبہ جب سائنسی سماج نے مدو جزر کی قوّت کو شناخت کر لیا تو سیاروی سائنس دان تیزی سے "وائیجر دور کی تبدیلی" پر مرتکز ہو گئے جس میں مدو جزر کی حرارت نظام شمسی کی ارضیات میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

آئی او کے سطح پر ہر جگہ پھٹاؤ سے پیدا ہونے والے درجہ حرارت نے سائنس دانوں کو اس کی اصل ہئیت کے بارے میں معلومات فراہم کی۔ وائیجر سے حاصل ہونے والی ابتدائی معلومات نے کم درجہ حرارت ، سلفر سے بنے آتش فشانوں کی نشاندہی کی تھی لیکن گلیلیو کی بہتر ریزولوشن نزدیکی زریں سرخ کمیتی طیف پیما نے مزید درست اعداد و شمار فراہم کئے۔ گلیلیو کے روبوٹوں کی آنکھ سے نظر آنے والا درجہ حرارت حد درجہ گرم تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اونچا درجہ حرارت کا منبع سیلیکٹ کے پھٹاؤ کی وجہ سے تھا، لیکن زیادہ تر محققین درجہ حرارت کو ارضیاتی پھٹاؤ سے زیادہ نہیں سمجھ رہے تھے۔ زمین کی ابتدائی تاریخ میں بلند میگنیشیم کے لاوے نے فوق حرارت کے پھٹاؤ کو جنم دیا جس کا درجہ حرارت ١٥٠٠ سینٹی گریڈ تک ہوتا تھا۔ لیکن گلیلیو سے حاصل ہونے والے ابتدائی اعداد و شمار آئی او پر درجہ حرارت کو زبردست ١٧٠٠ سینٹی گریڈ تک کا بتا رہے تھے ۔ اس وقت کے نظریات اس درجہ حرارت کو بیان کرنے سے قاصر تھے۔ جانسن مزید کہتے ہیں :" وہ درجہ حرارت بوکھلا دینے کی حد تک گرم تھے، چٹان کے لئے بھی۔"

تین قسم کے آئی او کے آتش فشانوں نے آئی او کی دوزخی زمین کو بنانے کے لئے مدد کی ہے۔ پہلا اور سب سے زیادہ پایا جانے والا آتش فشانی زخم لاوا کی جھیلیں ہیں، میدان کی سطح پر منہدم سوراخ۔ اس ساخت کی سب سے اچھی مثال لوکی پٹیرا (جس کا نام نورس کے آگ کے دیوتا کے اوپر رکھا گیا ہے) ہے۔ لوکی ایک آتش فشانی گڑھا یا دہانہ ہوتا ہے جو لاوے کی ٢٠٠ کلومیٹر پر پھیلی ہوئی جھیل سے بھرا ہوتا ہے۔ اس کے تاریک مرکز میں کھولتے ہوئے میدان عظیم الجثہ جمے ہوئے سلفر ڈائی آکسائڈ کے برفیلے تودے کو ابال کر گومڑ سی شکل میں ڈھالتے ہیں۔ یہ ضخیم تودہ افریقہ کی جھیل وکٹوریہ کے حجم کا ہے۔ اس جیسی ارضی لاوا کی جھیلوں میں ٹھنڈا لاوا ایک قشر بناتا ہے جو آتش فشاں کے دھانے کے ساتھ ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہے۔ گلیلیو کی زیریں سرخ موجوں کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ ایک دہکتا ہوا کنارہ جھیل کے ایک کونے پر ہوائی کی کیلا یوا اور ہیل مو مو لاوا جھیلوں جیسا ہی ہے۔

آتش فشاں کی دوسری قسم جو آئی او پر عام پائی جاتی ہے وہ لاوے کا بہنا ہے۔ خلائی جہاز سے حاصل کی گئی تصاویر میں پگھلی ہوئی چٹان ہر مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ سب سے لمبا بہاؤ امیرانی ہے جو ٣٠٠ کلومیٹر کے مڑے ہوئے میدانوں میں پھیلا ہوا ہے۔ بہاؤ کی ایک بڑی تعداد غیر موصل ہے مطلب کہ ٹھنڈے لاوا کی قشر نے اس کو ڈھکا ہوا ہے۔ بہاؤ کے رخ پر میگما اکثر قشر کو توڑ کر کئی کلومیٹر تک باہر نکل آتا ہے۔

ایک وسیع بہاؤ پرومیتھیس آتش فشاں کے دھانے سے نکلتا ہے جس سے نکلنے والا مادّہ خلاء میں ٨٠ کلومیٹر دور تک چلا جاتا ہے۔ وائیجر اور گلیلیو کے درمیان سترہ برسوں میں، پرومیتھیس سے نکلنے والا دھواں مغرب میں کچھ ٧٠ کلومیٹر دور تک ہٹ گیا۔ "یہ حقیقت میں ایک پہیلی ہے،" جے پی ایل کے ماہر برکانیات روسلے لوپس کہتے ہیں۔ سائنس دان گلیلیو سے حاصل کردہ اطلاعات کا مطالعہ کرکے اس بات کو جان چکے ہیں کہ اصل میں پرومیتھیس کے آتش فشاں کا منبع اپنی جگہ سے نہیں ہلا بلکہ لاوے کے بہنے نے اپنی جگہ بدل لی ہے ۔" جب لاوا سطح کے ساتھ حرکت کرتا ہے تو وہ قشر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ٧٠ کلومیٹر دور لاوا اس کو دوبارہ سے توڑ ڈالتا ہے اور سلفر ڈائی آکسائڈ کی برف سے تعامل کرتا ہے ۔" وہ وضاحت کرتی ہیں۔ یہ تعامل ان آج نظر آنے والے دھوئیں کو جنم دیتی ہیں۔

آتش فشانوں کی تیسری قسم تو سب سے زیادہ ڈرامائی ہے۔ پیلے کی جوالا مکھی نظام شمسی میں کہیں پر بھی سب سے اونچے اور طاقتور دھوئیں کے بادل چھوڑتے ہیں ان کی دریافت حادثاتی طور پر ہوئی۔ ٢٠٠٠ء کے دسمبر کے مہینے میں گلیلیو تاوشتار کیٹینا کے علاقے میں اڑ رہا تھا۔ اس وقت روشن لاوے کا پردہ ٢٢ کلومیٹر لمبے فوارے سے بن رہا تھا جو عظیم داہنے کی زمین کے ایک سوراخ میں سے نکل رہا تھا۔ ایک قریبی دھوئیں نے پھٹ کر گیسوں کو کالے آسمان پر ١٠٠ کلومیٹر دور تک بکھیر دیا۔ اب تک کا دیکھا جانے والا سب سے طاقتور دھواں ٥٠٠ کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا جو ہوا میں ایک آتش فشاں پیلن سے نکلا تھا۔ پیلن کے دہانے آئی او کے پراسرار درجہ حرارت کے منبع ہیں۔ فوق حرارت پیلن پھٹاو نظام شمسی میں کافی منفرد لگتے ہیں۔

ایک عام خاصیت جو ارضیاتی آتش فشانوں کی ہے وہ حیرت انگیز طور پر آئی میں نہیں ہے اور وہ ہے ڈھالی یا آتش فشاں کے دھانے کے گرد بننے والے پہاڑ ہیں۔ آئی او کی سطح پر آتش فشاں ہمہ وقت قشر پر قشر چڑھا کر نئی سطح بنا رہے ہیں لیکن اس کی چپٹی زمین سے کوئی اونچی ساخت کی چیزیں نہیں بن رہی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آتش فشانوں کا پھٹنا ہر جگہ پر ہے جس کی وجہ سے کسی ایک جگہ کو دوسری جگہ سے بلند ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ مزید براں آئی او پر موجود زیادہ تر دھانے سطح میں سوراخ کی طرح ہیں۔ وہ اپنے مادّہ کو اندر ہی باز یافت کر لیتے ہیں۔ خلاء میں جوالا مکھی پھٹ کر پھیل جاتے ہیں۔ زیادہ تر دھوئیں کا مادّہ باریک ذرّات یا گیس سے بنتے ہیں ۔ دھانے کے منبع پر بہت ہی کم کچھ بن پاتا ہے۔اگرچہ آئی او پر پہاڑ آتش فشانوں کی وجہ سے نہیں بنے ہیں لیکن ان کا کچھ تعلق ان سے لگتا ہے۔ آئی او کے کافی سارے بڑے پہاڑ دھانے سے قریب ہیں۔ اس کی وجہ سے کچھ سائنس دان اس بات کو سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آئی او کے پہاڑوں کا بننا اپنی ہئیت میں کافی الگ ہے۔ لگتا ہے کہ پہاڑ شگاف میں دھکا لگنے کی وجہ سے بنے ہیں اور اسی شگاف میں مزید نیچے جا کر جوالا مکھی پھٹتے ہیں۔ گہرائی میں سطح کے نیچے موجود ساخت میں ہونے والی شکستگی لاوا اور گیس کو فرار ہونے کے لئے نئے راستے بنا کر دیتی ہے۔ ایک ایسی ہی جگہ توہل کے پہاڑ ہیں جو ایک چھ کلومیٹر ہلال کی شکل کی ڈھلان ہے جو دہانے کے ساتھ موجود ہے۔ کافی ساری پہاڑی کی ٹوٹ پھوٹ نے توہل کی پہاڑی ڈھلانوں کو داغ دار کیا ہوا ہے ، لیکن گرد و غبار ایک متصل دہانے کے فرش پر غائب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بظاہر گڑھے کا اندرون اکثر پہاڑی کٹاؤ کے بعد تازہ لاوے کے بہاؤ سے بھرا ہوا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے توہل آتش فشانی گڑھوں سے متصل شگافوں کے ساتھ اوپر اٹھا ہوا ہے یا پھر شگاف کے ساتھ پہاڑ کے اٹھنے کے بعد دہانہ بنا ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔




[1]۔پیلی ایس جے کیسن پی، رینالڈس آر ٹی ۔ " آئی او کی پگھلائی بذریعہ مدو جزر انتشار " سائنس ، ٢ مارچ ١٩٧٩ء۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 5


ایک اور نہ حل ہونے والی آئی او کی پہیلی اس کے غیر معمولی رنگ ہیں (ملاحظہ کیجئے خاکہ 5.6) اس کی سطح کی زیادہ تر رنگت تو سلفر ڈائی آکسائڈ کے رہین منت ہے ۔ تجربہ گاہ میں کی گئی جانچ بتاتی ہے کہ سلفر ڈائی آکسائڈ ٹھنڈا ہوتے ہوئے ڈرامائی انداز میں رنگ بدلتا ہے۔ پگھلا ہوا اکثر مادّہ کالا ہوتا ہے ، ٹھنڈا ہوتے ہوئے اپنا رنگ پہلے سرخ کرتا ہے، اس کے بعد نارنجی اور پھر پیلا۔ سلفر ڈائی آکسائڈ جمنے کے بعد اکثر زمین کو نیلی اور سفید پاؤڈر داغ دار کر دیتا ہے۔

آئی او کے کچھ حصّوں کو تو گالف کورس کہا جاتا ہے۔ آئی او کے گالف کورس نفیس رحجان نہیں رکھتے جیسے کہ سنگریزوں سے ڈھکی ہوئی ساحل لیکن یہ ڈرامائی طور پر سبز ہیں۔ گالف کورس کے سبز میدان کا رنگ شاید سلفر یا پھر ایک بلورین آتش فشانی شیشے جس کو اولی وائن کہتے ہیں کی وجہ سے ہے۔ آئی او پر کام کرنے والی متحرک ارضیاتی قوّتیں اس بات کی ضمانت دیتی ہیں کہ اس وقت جب انسان اس متشدد چاند پر قدم رکھے گا ہمارے بنائے ہوئے نقشے بہت ہی کم کام کریں گے۔



خاکہ5.6 اوپر: پائینیردہم اور یازدہم سے حاصل ہونے والے گلیلائی مہتابوں کے حیران کن نظارے۔ بائیں سے دائیں: آئی او، یوروپا، گینی میڈ، اور کیلسٹو ۔ یہ حجم کے مطابق نہیں ہیں۔ نیچے: متحرک آتش فشاں کولان پیٹرا (اوپری مرکز) آئی او کی روشن پرت دکھا رہا ہے۔ یہ توہل مونس کی چوٹی کے شمال میں واقع ہے۔ دونوں سرخ اور پیلے لاوے کے بہاؤ کولان کے ہیں اس کے علاوہ سرخ اور پیلے سلفر کے ذرّات دھماکے دار دھوئیں سے منتشر اندرونی اور بیرونی حلقے۔ پگھلی ہوئی سلیکٹ چٹان زیر زمین سلفر اور سلفر آکسائڈ کے منبع سے مل کر دھوئیں کو بناتی ہیں۔ سبز رنگ کولان کے مرکز میں اور پرانے توہل پیٹرا (دائیں مرکزی حصّے میں)آتش فشاں کے اندر شاید گالف کورس کے علاقے بناتے ہیں جب سرخ سلفر کے دھوئیں گہرے کالے سلیکٹ کے لاوے کے بہاؤ پر پڑتے ہیں اور سبز پرت بناتے ہیں۔ چھوٹا سفید پیوند توہل مونس کی پہاڑی کے قریب شاید سلفر ڈائی آکسائڈ کی برف کا ذخیرہ ہو جو شاید دراڑ اورسرد پہاڑی علاقوں کی ڈھلوانوں کی بنیاد میں جمع ہو گئی ہو۔ اوپر دائیں جانب آئی او کا کروی نظارہ ہے جس میں وہ رنگ برنگی جگہوں کا محل وقوع دکھا رہا ہے۔

اس چھوٹے جہنمی دنیا میں محفوظ ٹھکانے کے لئے جان اسپینسر کہتے ہیں کہ نصف کرہ تابکاری سے تھوڑا سا زیادہ محفوظ ہوگا کیونکہ مشتری کا پلازما پیچھے کی طرف سے آتا ہے، "لیکن میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی جگہ محفوظ ہوگی بجز زیر زمین کے، اور اس وقت آپ کو صرف لاوے کی فکر کرنا ہو گئی۔ اس کو دور سے دیکھنا اچھا ہے، اس میں غرق ہونا کوئی مزیدار بات نہیں ہوگی۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ تمام خوفناک چیزیں اب بھی کافی دلچسپ ہیں۔ آئی او سے نظارہ کرنا ناقابل تصوّر طور پر زبردست ہوگا۔" جب وہ متحرک آتش فشانوں کے حلقوم پر نظر نہیں جما کر رکھتے تو ایشلے ڈیویز جو ایکپاساڈینا، کیلی فورنیا کے جیٹ پروپلزن لیبارٹری میں محقق سائنس دان ہیں ۔ وہ آئی او پر سفر کرنے کے ممکنات کے بارے میں کیا کہتی ہیں:

جو چیز مجھے برطانیہ سے جے پی ایل امریکہ لائی ہے وہ ڈینس میٹسن اور ٹورینس [جانسن] کے ساتھ زمینی مرکز میں ان کے مشاہدات کی جانچ کرنے کا کام تھا تاکہ آتش فشانی عمل کے وقوع ہونے کی حال حقیقت کو سمجھا جا سکے۔ یہ ١٩٩٤ء کی بات ہے جب ہم زریں سرخ دوربین کا استعمال مونا کیا (ہوائی) میں کر رہے تھے۔ اسے اگلے برس تک گلیلیو (مشتری تک )نہیں پہنچا تھا۔

جس بات نے مجھے [آئی او کے بارے] میں حیرت میں ڈالا ہے وہ اس کا ناقابل تصور متحرک عمل ہے جو اس پر جاری ہے، ناقابل تصوّر قسم کی آتش فشانی حرکت ، سب سے زیادہ طاقتور آتش فشانوں کے پھٹنے کا عمل جو ہم نے کسی بھی سیاروی جسم پر کبھی نہیں دیکھا۔ یہ پھٹاو کا عمل بہت ہی عظیم تھا۔ ایک چیز جو سمجھی نہیں گئی تھی کہ اس چھوٹی سی چیز پر آخر ہو کیا رہا ہے۔ آئی او پر دیکھے جانے والا کوئی بھی آتش فشانی پھٹا و زمین کے سب سے بڑے آتش فشاں کے پھٹنے سے بھی زیادہ طاقتور تھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آیا یہ ریزولوشن یا آلات کی حساسیت کا کیا دھرا ہے یا پھر یہ آئی او کے آتش فشانوں اور میگما کے اندرون سے بیرون کی طرف منتقل ہونے کی حد کی وجہ سے ہے۔ ہم اس چیز پر حالیہ [گلیلیو] سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی روشنی میں تحقیق کر رہے تھے۔ ہمیں کوئی چھوٹے آتش فشانی پھٹنے کے منظر نہیں مل رہے تھے۔

دور سے محسوس کرنے کی نسبت جو قریب سے دیکھنے کا ایک فائدہ ہے وہ یہ کہ آپ پیچیدہ چیزوں کو وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ بلاشبہ ٹیکنالوجی کے مسائل کو اس سے پہلے حل کرنا ہوگا کہ وہاں کے متشدد ماحول میں کسی کو بھیجا جائے ۔ یہ بہت ہی زیادہ متحرک نظام ہے اور ارضیاتی عمل وہاں پر حیران کر دینے والے پیمانے پر وقوع پذیر ہو رہا ہے۔

اگر ٹیکنالوجی کی مجبوری نہیں ہوتی تو میں لوکی کے کنارے پر کھڑا ہونا پسند کرتی اور کچھ سند حاصل کرنے والے طالبعلموں کو اس کی قریبی جانچ کرنے کے لئے نیچے بھیجتی۔ آپ کو سند حاصل کرنے والے طالبعلموں کی اچھی خاصی تعداد اس وقت چاہئے ہو گی جب آپ آئی او پر تحقیق کے لئے جائیں گے۔ میں واقعات کے وقوع ہونے کے وقت کو دیکھنا چاہوں گی مثلاً کیسے پھٹنے کا عمل شروع ہوتا ہے، وہ کیسے بنتے ہیں، وہ کیسے نیچے جا کر ختم ہوتے ہیں، وہ قشر اور سطح پر موجود نازک مادوں سے کیسے تعامل کرتے ہیں۔ اصل میں سطح پر ہے کیا؟ سطح کی ساخت کیا ہے؟ میں پیٹرا کی دیواروں ، پہاڑیوں اور ان میں بننے والے دھکوں سے شگافوں کی جانچ کرنا چاہوں گی۔ میں جاننا چاہوں گی کہ اصل میں آتش فشاں کیسے کام کرتے ہیں۔

میں لوکی پیٹرا میں بھی جانا چاہوں گی تاکہ یہ معلوم کرسکوں کہ بنیادی طور پر دوبارہ سطح پر آنے کا کیا نظام ہے۔ فرض کریں کہ آپ پیٹرا کے کونے کی طرف سے اٹھتے ہوئے اتھلے میں چہل قدمی کرنا چاہتے ہیں، کونے پر پہنچتے ہیں اور افق کی طرف کھینچتا ہوا دیکھتے ہیں ۔۔۔ نظارہ۔۔۔۔ہمم۔۔۔مرحبا ! اچھا تو یہ چل رہا ہے! رقص و موسیقی اور مہ نوشی۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 6

یوروپا

یوروپا کا نام آتے ہی ماورائے ارض سمندروں اور ماورائے ارض حیات کی تلاش کا تصوّر ذہن میں آتا ہے۔

مشتری کا چھوٹا بڑا چاند جو چمکتی ہوئی پانی کی برف کی شاندار سفید شکستہ اور شگافوں والی سطح سے جھلملاتا ہے۔ اس کی قدیمی سطح کافی نوزائیدہ ہے ایک اندازے کے مطابق اس کی عمر صرف 5 کروڑ برس کی ہے۔ ایک شاندار خطاطی اس کی سطح پر متوازی اور پیالہ نما پٹیوں پر منقش ہے جو طاقتور ٹیکٹونک قوّتوں کی غماز ہے۔ محققین نے یوروپا کی عجیب و غریب رخنہ دار بناوٹ کی سطح جو نرم برف سے لے کر سو میل گہرے سمندر پر مشتمل ہے کو بیان کرنے کے لئے کافی مختلف نمونے بنائے ہیں۔ اس کے اندرون کی جو کچھ بھی اصل شکل ہو، یوروپا "پانی کا وہ جہاں" ہے جو زمین کبھی بھی نہیں رہی۔

گلیلیو جہاں گرد سے حاصل کردہ بہتر ریزولوشن کی تصاویر نے مجبور کر دینے والی مفصل شہادتیں یوروپا پر موجود ایک سمندر کے بارے میں دی ہیں۔ پٹی سے کھینچے ہوئے سیدھی لکیریں پورے منجمد فرش پر دھاریں بنا رہی ہیں جس کے ارد گرد اونچی پہاڑیاں جو سینکڑوں فٹ کالے آسمان میں اٹھی ہوئی ہیں۔ پہاڑیوں کی سطح برف کے شہتیروں سے بنے وسیع حصّے میں بٹی ہوئی ہے۔ یہ شہتیر دوبارہ ٹھوس بن کر جمنے سے بظاہر گھومتے اور منتقل ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسری جگہیں جن کو انتشاری علاقے کہتے ہیں ایک سمندر جیسی کیچڑ میں منہدم ہوتے نظر آتے ہیں جو معمے کے ٹکڑوں میں بٹنے کے بعد منجمد ہوتے نظر دکھائی دیتے ہیں اور اس بات کے انتظار میں ہیں کہ سائنس دان اس معمے کے ٹکڑوں کو کب جوڑتے ہیں۔

بصری نشانوں کے علاوہ یوروپا ایک ایسا مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے جو مائع نمک کے پانی سے میل کھاتا ہے۔ ٢٠٠٠ء کے پہلے ہفتے میں، گلیلیو خلائی جہاز نے یوروپا کی سطح سے صرف ٣٤٦ کلومیٹر اوپر سفر کیا۔ خلائی جہاز نے جوانمردی کے ساتھ قریبی مشتری کی مہلک تابکاری کو جھیل لیا، لیکن اس کے مقنا پیما نے یوروپا سے آنے والے مقناطیسی میدان میں تبدیلی محسوس کی۔ میدان اور ذرّات کے ماہرین کے مطابق یہ سمتی تبدیلیاں کچھ جانی پہچانی لگتی ہیں – یہ زمین کے سمندروں جیسی ہی لگتی ہیں، یہ تبدیلیاں اس قسم کی ہو سکتی ہیں جو یوروپا کی اوپری سطح کے علاقے میں مائع میں ہونے والے برقی بہاؤ سے پیدا ہوتی ہیں۔

زمین کی قلب سے نکلنے والی برقی رو کے برعکس، یوروپا کے میدان تحریصی ہیں یعنی یہ مشتری کے غیر معمولی میدانی خطوط کے جواب میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ تحریصی میدان ہمہ وقت مشتری کے تیزی سے گھومتے ہوئے مقناطیسی میدانوں کے جواب میں بدلتے رہتے ہیں۔ یوروپا عظیم الجثہ سیارے کے گرد صرف ساڑھے تین دن میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے، مشتری اپنے محور پر ہر دس گھنٹے میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس کے مقناطیسی میدان اس کے محوری گھماؤ سے ١٠ درجے جھکے ہوئے ہیں۔ اور مشتری کی رفتار اس کے گرد یوروپا سے گزرتے ہوئے جھولا دیتی ہے۔ اس وحشی ماحول میں اس میدان سے ہٹایا جا نے والا کوئی بھی امالی مادّہ ایک مقناطیسی میدان پیدا کرے گا تاکہ تیزی سے بدلتے بیرونی مقناطیسی میدانوں کی تلافی کر سکے۔ یہ تحریصی میدان بعینہ وہی ہیں جو سائنس دانوں نے گلیلیو خلائی جہاز سے اس وقت مشاہدہ کئے جب وہ یوروپا کے قریب سے گزرا۔ تحریصی مقناطیسی میدانوں کی موجودگی نے محققین کو اس نتیجہ پر پہنچایا کہ سطح کے قریب ایصالی پرت مثلاً حل ہوئے نمک کے ساتھ سمندر کی موجودگی ہی اس کا سبب ہے۔

یوروپا اپنا آدھا چکر اس وقت مکمل کرتا ہے جب آئی او اپنا ایک اور گینی میڈ اپنے دو چکر پورا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے بہن بھائیوں کی قوّت ثقل کی پکڑ کے ساتھ یوروپا آئی او کی "چٹان" اور گینی میڈ کی "سخت جگہ" کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ مہتابوں کی قوت ثقل کی پکڑ کی وجہ سے مدو جزر سے حرارت یوروپا کے اندرون کو گرما دیتی ہے اگرچہ اس کی شدت آئی او سے کہیں کم ہے۔ روایتی آتش فشاں یوروپا کی سمندر کی تہ جہاں سیلیکٹ سمندر سے اوپر جا کر ملتا ہے وہاں ہو سکتے ہیں۔ یوروپا کی تہ آتش فشانوں سے بھرپور ہو سکتی ہے جو سمندر کی کھائی میں ابل رہے ہوں گے۔ اگرچہ وہ ہمیشہ کی تاریکی میں ہوں گے اس پاتال کے ماحول کو یوروپا کی حیاتی اشکال میں ایک چیز کا فائدہ ہوگا، یہ مشتری کی مہلک تابکاری سے محفوظ ہوگی۔ برف کی پرت یوروپا پر ہونے والی مہلک توانائی کی بمباری کی بارش سے اس کوایک دیوار کی طرح بچائے گی۔ لیکن سطح اس سخت حملے سے بمشکل ہی بچ سکتی ہے۔

برجیسی مقناطیسی کرہ ایک دیوہیکل ذرّاتی اسراع گر کی طرح کام کرتا ہے۔ مشتری کا مقناطیسی کرہ سطح کو اتنی تابکاری سے ڈھانک دے گا کہ وہ کسی بھی خلیہ کی دیوار کو لمحوں میں توڑ ڈالے گی۔ ایک بغیر ڈھال کے خلاء نورد کو بھی دن میں مہلک تابکاری کی خوراک مل جائے گی۔ لیکن یوروپا پر کچھ علاقے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہیں۔ کیونکہ مشتری یوروپا کے گرد چکر لگانے سے زیادہ تیزی سے گھومتا ہے، لہٰذا سیارے کا مقناطیسی کرہ اصل میں چاند سے آگے نکل جاتا ہے (جیسا کہ آئی او کے ساتھ بھی ہوتا ہے)۔ اس کے فوق توانا ذرّات ہمہ وقت چھوٹے چاند سے گھسٹتے ہیں ، اس پر پیچھے سے بمباری کرتے ہیں، لہٰذا زیادہ تابکاری تعاقب کرنے والے نصف کرہ پر ہوتی ہے۔ سب سے محفوظ جگہ وہ اونچے درجہ کے عرض البلد والے علاقے ہیں جو آگے والے نصف کرہ میں یا ذیلی اور ضد برجیسی بلند عرض البلد والے حصّے ہیں۔ (ملاحظہ کیجئے دسواں باب)۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 7

ایک کونے پر رہنا

ایک سب سے معقول دلیل یوروپا کو کھوجنے کی یہاں پر حیات کا ممکن ہونا ہے۔ یہ صرف ١٩٧٧ء کی ہی بات ہے جب کھوجیوں نے سمندر کی تہ میں آتش فشاں کو سمندر کے فرش پر گالا پگوس دراڑ میں گالا پگوس بحر الجزائر میں دریافت کیا ۔ سائنس دانوں نے زیر سمندر گرم دھوئیں کے بادلوں کا دیکھا لیکن ان کی ہئیت اور منبع ایک اسرار ہی بنا رہا تاوقتیکہ گہرے سمندر میں جانے والی آبدوز الون نے سلفر پر مشتمل مرکبات کو سمندر کے فرش سے ڈرامائی طور پر چمنی سے نکلتا ہوا نہیں دیکھ لیا۔

اس کے آنے والے برسوں میں، محققین کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ سمندر کی تہ میں موجود آتش فشانوں کی تعداد زمین پر موجود ٥٠٠ سے ٦٠٠ آتش فشانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ زیر سمندر گرم آبی رخنے وسطی سمندری ڈھلان کے ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں جہاں پر نئی قشرسمندر کی پھیلتی ہوئی زمین کی پتھریلی منقالہ پٹی میں بنتی ہے۔ ہرچند کہ زیر سمندر آتش فشاں صرف پرتوں کی سرحدوں تک محدود نہیں ہیں، وسطی سمندری ڈھلانی علاقے ممکنہ طور پر زمین پر موجود سب سے زیادہ آتش فشانی ہو سکتے ہیں۔

سوراخ جتھوں کی جماعت کی صورت میں جمع ہو گئے بعینہ جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے یلو اسٹون پارک میں ہیں۔ زمین کا غلاف ان ابدی تاریکی علاقوں کی سطح تک صرف چند سو میٹر تک بن گیا۔ سمندری پانی نے زمین کی قشر سے ٹپک کر بالآخر ١٢٠٠ سینٹی گریڈ میگما کے ساتھ رابطہ بنا لیا۔ زبردست دباؤ پانی کو ابلنے سے روکے رکھتا ہے لہٰذا یہاں پر پانی ٥٤٠ سینٹی گریڈ تک گرم ہوتا رہا۔ گرم سیال نے اپنا راستہ چٹانوں میں پائی جانے والی دراڑوں میں بنا لیا اور ساتھ میں اپنے ساتھ معدنیات کو بھی لے گیا۔ بالآخر جب وہ سمندروں میں گرا تو وہ پیچیدہ معدنیات سے لبریز تھا۔ ان ماخذوں سے نکلنے والا پانی کا بہاؤ معدنیات سے لدا ہوا تھا اور مخروطی اور چمنی جیسی پیچیدہ ساختوں کو بناتا چلا جن میں سے کچھ تو سمندر کی تہ سے درجنوں فٹ اوپر مینار بن گئے۔ پانی کے بہاؤ اکثر ان مادوں کے ساتھ آتے تھے جنہوں نے اپنی صورت کی وجہ سے نام دیا۔ کچھ دراڑوں کو ہم کالے دھوئیں سے جانتے ہیں ، جبکہ دوسرے سفید دھوئیں کہلائے۔

زیر سمندر تمام ایکسٹریمو فائلز (شدت آشنا) گرم پانی کے رہنے والے نہیں ہیں۔ یوروپا کے سمندروں کی تہ میں بھی متحرک آتش فشاں ہو سکتے ہیں۔ حیاتیاتی خطے کی ان جگہوں پر مثلاً گالا پگوس شگاف مکمل طور پر سورج پر انحصار کرنے والی خوراک کی زنجیر سے آزاد ہیں ۔ ان کی توانائی آتش فشانی ریخوں سے نکلنے والی کیمیائی عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ یوروپا نے اسی طرح کی حیاتیاتی زنجیر کو باہر کی جانب گرم ابلتے ہوئی پانی سے اپنے طریقے سے بنا لیا ہو۔ سو کلومیٹر سمندر کی گہرائی میں، ہمیشہ تاریک رہنے والا ماحول مشتری کی مہلک تابکاری سے بچا ہوا ہے، سورج کی روشنی کی مکمل غیر موجودگی کو شاید سمندر کی تہ میں موجود شگافوں سے آتے ہوئے زرخیز معدنیات نے پورا کر دیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو بلاشبہ مستقبل کے ڈبکی لگانے والے جہاز ان آتش فشانی جگہوں کو دیکھنے کے لئے بھیجے جائیں گے جہاں ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے نظام شمسی میں پہلی مرتبہ خلائی مخلوق کو دیکھ سکیں گے۔

سطح پر ہونی والی کیا شاندار سرگرمی ہے؟ اس وقت جب سائنس دان گلیلیو سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو چھان رہے تھے تو ان کو معلوم ہوا کہ کافی ساری خصوصیات برفیلے آتش فشانوں یا چشموں جیسے ابلنے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ چاند پر موجود درجنوں علاقے اس بات کی جانب اشارہ کر رہے تھے کہ ماضی میں ہونے والے پھٹنے کے واقعات میں پانی بھی موجود رہا ہوگا جو یوروپا کے خالی کرہ فضائی کے قریب جلد ہی منجمد ہو جاتا ہوگا۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے ایک اشارہ "تہرے جتھے" میں ہی موجود تھا، ایک سڑک جیسی متوازی پٹی جو ٹوٹے ہوئے انڈے کے چھلکے جیسے یوروپا کی بناوٹ کی ذمہ دار ہے۔ یہ لینیا کہلاتی ہیں ، یوروپا کی یہ منفرد بناوٹ روشن خطوط پر مشتمل ہے جو تاریکی کے مرکز میں ایک اچھی سے پٹی کی صورت میں جا رہی ہیں۔ یہ پٹیاں ١٥ کلومیٹر سے بھی کم علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن یوروپا کی سطح پر ہزار ہا کلومیٹر علاقے چل رہی ہیں۔

یہ لینیا سمتی دراڑیں ہیں۔ شمالی نصف کرہ میں یہ شمال مشرق کی سمت جا رہی ہیں جبکہ جنوبی دراڑیں جنوب مغرب کی طرف۔ یہ سمتی جھکاؤ یوروپا کے مدار میں ہونے والے دباؤ کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ گلیلیو کا تصویری نظام جو وائیجر سے کہیں بہتر تھا اس نے ان پٹیوں کے کناروں میں کافی سارے بے ترتیب علاقوں کو غائب ہوتا ہوا منکشف کیا۔ یہاں تک کہ درمیانہ روشن والے داغ دار علاقوں میں روشن مادّے سے بنے ہالے تاریک بیرونی پٹیوں پر بکھرے ہوئے ہیں۔ سہ جتھوں نے اس مختلف البیاضی یا روشنی کی سطح کے مادّوں کو ریخوں سے چاند کی دمکتی ہوئی سطح پر نکلتے ہوئے ایسی صورت دے دی ہے جیسا کہ موتیوں کا ہار۔ آیا کی یہ باقیات فرار ہونے والے پانی کے بخارات کی ہیں؟ یا ماضی کے چشموں کی یادگار ہیں؟

سہ جتھوں کی بناوٹ کے بارے میں ایک نظریہ مدو جذر کی وجہ سے پیداہونے والا شگاف ہے جو سمندر کے نیچے برف کو توڑ کر بنا ہے۔ ایک نمکین پانی کے برفیلے لاوے نے اوپر رستے ہوئی ریخ کا منہ بند کر دیا ہے جبکہ چشموں جیسے فوارے کمزور جگہوں سے نکل رہے ہیں۔ برفیلے آتش فشاں کی یہ قسم "منضبط دباؤ کا برفیلا آتش فشانی پھٹاو " میں پانی کا اخراج پتلی ریخوں سے شاید اس طرح ہوتا ہے جیسے کہ ہوائی میں شگافوں سے نکلنے والا میگما۔ جب شگاف کے گرد موجود جگہ عمودی طور پر بنتی ہے تو نمو پاتی ہوئی ریخ کا وزن آس پاس کی برف کو کھینچ لیتا ہے نتیجتاً متوازی ریخیں بن جاتی ہیں۔ یہ ریخیں مزید متوازی ریخوں کو جنم دیتی ہیں اور یہ عمل یوں ہی دہرایا جاتا ہے اور جتھے کا گھیر پھیلتا جاتا ہے۔

خاکہ 5.8 بائیں: یوروپا کی چپٹی زمین پر ایک دوسرے کو کاٹتی مختلف ڈھلانوں کے مجموعے ۔ مختلف ریخیں یا شگافوں نے سطح کے حصّوں کو افقی طور پر جگہ سے ہٹا دیا ہے۔ بائیں: گلیلیو خلائی جہاز نے جب یوروپا کا سب سے قریبی چکر لگایا تو اس ناہموار چاند کی عجیب و غریب سطح کی یہ تصویر لی۔ اس تصویر میں لگ بھگ 1.8 کلو میٹر کا علاقہ نظر آ رہا ہے۔ تاریک مادّے روشن برف کی کھوکھلی چوٹی میں جمع ہوئے ہیں۔ تصویر کے مرکز میں ابتری سے پھیلی ہوئی چھانٹی گئی پہاڑیاں یوروپا کے مشہور ڈھلانی سطح پر ہیں ۔ اوپر اور نیچے ۔

دوسرے ماہرین رکازیات کا کہنا ہے کہ لینیا کو سطح سے ٹوٹتے مائع کے بجائے ٹھوس برف بناتی ہے۔ وہ اس کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں بشمول یہ حقیقت کہ ان میں سے کافی جتھے آس پاس کے میدان سے کئی سو میٹر اوپر اٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے ہمیں مائع کے بجائے ملائم اور لچکیلی برف کا معلوم ہوتا ہے (وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ مائع اس طرح کی بلند ساخت میں نہیں اٹھ سکتا)۔ کچھ علاقوں میں عام پائے جانے والے ان ٹیلوں اور گنبدوں کا آغاز اس منظر نامے میں کافی معقول لگتا ہے، وہ وجہ بیان کرتے ہیں۔ مزید براں متصل ڈھلانوں اور وادیوں میں مادّے کا سیلاب نظر نہیں آتا جو اس وقت لازمی ہونا چاہئے تھا جب لینیا مائع سے بھری ہوئی ہوتی۔

پہاڑیاں عام طور پر دباؤ سے بنتی ہیں ، پرت کے دو ٹکڑے دبتے ہیں۔ شگاف دباؤ کے نتیجے میں بنتے ہیں جو بھربھری پرت کو چٹخا دیتے ہیں اور وہ الگ ہو جاتی ہے۔ دونوں طرح کی ٹیکٹونک حرکات یوروپا پر عام ہیں۔

قشر کس قدر دبیز ہے؟ کچھ تحقیقات یوروپا کے گرد کافی وسیع و عریض برف کے خول کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو لازمی طور پر دسیوں کلومیٹر نیچے تک موجود ہے۔ یوروپا کی ساخت اور دبازت کافی پیچیدہ ہے اور گرما گرم بحث کا موضوع رہا ہے۔ کچھ محققین یہ بات وثوق سے کہتے ہیں کہ تصادم کے نتیجے میں بننے والے گڑھے اور مخلوط "بے ترتیب علاقے" خط استواء کی طرف ایک دو کلومیٹر کی پتلی تہ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ قشر شمال اور جنوب کی جانب جاتے ہوئے دبیز ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر شواہد بتا رہے ہیں کہ یوروپا کے اندر ایک سیاروی سمندر موجود ہوگا، ایک وسیع زیر زمین سمندر جو برف کے نیچے ایک قطب سے دوسرے قطب کی جانب بہ رہا ہوگا۔ سائنس دان اس قابل ہو گئے ہیں کہ یوروپا کے اندروں کی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تصویر کو جوڑ سکیں ۔ ویسے یوروپا کی قوّت ثقل گلیلیو خلائی جہاز کے راستے پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ جب خلائی جہاز رفتار پکڑتا ہے تو اس کے اشارے تبدیل ہو جاتے ہیں بعینہ جیسے قریب سے گزرتے ہوئی فائر بریگیڈ کے سائرن کی آواز بدلتی ہے۔ یوروپا کی سطح کی بدلتی ہوئی ساخت اس ڈوپلر اثر میں ہلکی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جس سے سائنس دان چاند کے اندرونی ساخت کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ سب سے نزدیکی اڑان سے ڈوپلر اثر کے حاصل شدہ اعداد و شمار ایک ١٠٠ سے ٢٠٠ کلومیٹر گہری پانی کی تہ سے لپٹے ہوئے چٹانی قلب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ چند کلومیٹر دبیز تہ ایک ضخیم سمندر کے اوپر نازک سی تہ ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 8

کچھ محققین اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یوروپا کے زیر زمین سمندر ایک اور طرح کے مدو جذر کی وجہ سے مائع میں بنے رہے ہوں گے۔ اس کے چھوٹے ترچھے پن ( غیر دائروی مدار) مشتری کی قوّت ثقل روزبی امواج کو پیدا کرتی ہے۔ یہ سست حرکت کرتی ہوئی لہریں کافی معنی خیز توانائی پیدا کر سکتی ہیں۔ حقیقت میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق یوروپا مدوجذر کی حرارت ہی صرف ٢٠٠٠ گنا زیادہ تک حاصل کرتا ہے۔ پانی کے بخارات کے فرار سے متعلق قیاس اور نظریات ٢٠١٣ء میں آنے شروع ہوئے جب ہبل خلائی دوربین سے حاصل کردہ تصاویر کے ایک سلسلے میں یوروپا کے جنوبی نصف کرہ کے اوپر معلق پانی کے نشان ملے۔ یوروپا کے گرد موجود کونیاتی بادلوں میں پانی کی مقدار کو دیکھتے ہوئے کچھ تفتیش کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ چاند ہر سیکنڈ میں ٧ ٹن پانی پھینک رہا ہے۔ عظیم پانی کی دھار ٢٠٠ کلومیٹر بلندی تک پہنچ جاتی ہے اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ چشموں سے فواروں کی صورت میں نکلنے والے پانی کی رفتار ٧٠٠ میٹر فی سیکنڈ یا مسافر جہاز کی رفتار سے تین گنا زیادہ تک ہو۔



خاکہ 5.9 چغلی کرنے والے اشارے ؟ کچھ محققین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسٹے پلائی لینیا دباؤ کی وجہ سے سطح کی تہ بندی کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔ لگتا ہے کہ برف ایک علاقے میں پھیل کر چٹخ رہی ہے جبکہ شمالی پہاڑی اوپر اٹھ گئی ہے۔

سائنس دان مزید تصدیق کے انتظار میں ہیں لیکن قرینہ دریافت ثابت کر دے گی کہ مائع پانی سطح کے قریب ہے۔ وہ مقامی تالابوں میں موجود ہو سکتا ہے یا پھر ان بخارات/ چشموں کے براہ راست تعلق نیچے گہرے سمندر سے ہو سکتا ہے۔ دونوں طرح سے اگر یہ اخراج کرنے والی جگہیں معلوم ہو سکتی ہیں تو وہ مستقل کے فلکی حیات دانوں کا اہم ہدف ہوں گی جو اس کھوج میں ہوں گے کہ یوروپا کی برفیلی سطح کے نیچے آخر کیا چیز موجود ہے۔ ہرچند کہ پانی کی برف سطح پر اپنا غلبہ جمائے ہوئے ہے، آلات نے دوسرے اہم مادّے برف کے ساتھ ملے ہوئے بھی پائے ہیں اور کچھ اعداد وشمار اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ مادّہ نیچے موجود سمندر سے اوپر آئے ہیں۔ نقلما، اکثر شعاعی بے رنگی چشموں جیسی جگہ سے نکلنے کی وجہ سے ہوتے ہیں ممکنہ طور پر ہبل نے ان کا سراغ لگا لیا ہے۔ ایسی داغ دار جگہیں "رنگیں علاقے" کہلاتی ہیں۔ اس قسم کی کافی چیزیں یوروپا پر موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر شگافوں یا ریخوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بھورے سے زردی مائل بھورے رنگ کے داغ دروں زاد ( اندر سے پیدا ہونے والے ) لگتے ہیں لیکن آیا ان کی نوعیت مقامی واقعات کی ہے یا سیاروی یہ جاننا ابھی باقی ہے۔ کچھ کی اچھی طرح بنائی ہوئی ، بہتی ہوئی یا جوہڑوں کے کناروں جیسی صورت ہے۔ جبکہ دوسری منتشر ہیں جو کنارے پر جاتے ہوئے ہلکی ہو جاتی ہیں۔ اکثر تاریک مادّے کی چادر آس پاس کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جو سیال کے سیلاب کے بجائے جداگانہ مادّے کی لگتی ہے۔



خاکہ 5.10 محققین نے کوشش کی ہے کہ یوروپا کی سطح کی خصوصیات کو یا تو دبیز برف کی پرت سے بیان کریں جو ایک اتھلے سمندر کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے (بائیں) یا ایک پتلی پرت ایک گہرے سمندر کے ساتھ موجود ہے۔



خاکہ 5.11 نیلے پکسل جو وائیجر سے لئے ہوئے یوروپا کی تصویر کے اوپر موجود ہیں وہ ہبل خلائی دوربین سے پانی کے بخارات کے سراغ کو دکھا رہے ہیں جو جنوبی قطب کے اوپر تیر رہے ہیں۔

یہ گہرا مادّہ کیا ہے؟ گلیلیو خلائی جہاز پر موجود آلات نے محققین کو کافی مواد دیا ہے جس کی بدولت کافی ممکنہ عناصر کی شناخت ہو سکتی ہے۔ گلیلیو کے زیریں سرخ روشنی سے حاصل کردہ تصاویر کے طیف سے مختلف نمکیات میگنیشیم سلفیٹ (مثلاً اپسم نمک) یا کلورائیڈ نمک کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ بہرحال کچھ تفتیش کار بحث کرتے ہیں یوروپا کا طیف آبیدہ گندھک کے تیزاب سے زیادہ ملتا ہے۔ ہرچند کے نمکیات نہیں بلکہ گندھک بھورا ہوتا ہے۔ اندرونی برجیسی نظام آئی او کے اخراج کی بدولت گندھک سے نہایا ہوا ہے۔ مواد میں سے گارے کو نکالنے میں بھی کافی مشکلات ہوئی تھی۔ خیال ہے کہ یہ معدنیات سیارچوں یا دم دار تاروں کے سطح پر ٹکراؤ کی وجہ سے یہاں پہنچے ہیں۔ دوسرے سائنس دان کے مطابق یہ لوہے کے مرکبات ہیں جو قلب سے نکلے ہیں۔

لوئیس پراکٹر جانس ہوپکنس یونیورسٹی ، لوریل ایم ڈی کے شعبے اپلائڈ فزکس لیبارٹری میں سیاروی سائنس دان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ " یوروپا پر برف کے خول کو توڑ کر اس کی گنبد کی شکل بناتا ہوا اوپر کی جانب حرکت کرتا ہوا مادّہ موجود ہے، ایک طرح سے برفیلا آتش فشانی مادّہ ہے جو سطح کو توڑتا ہوا اوپر کی جانب آ رہا ہے۔ اس میں سے کچھ سطح کے اوپر پہنچ کر جم جاتا ہے اور اس سے پہلے کہ حالت سکون میں آئی تصادم کے نتیجے میں واپس نیچے چلا جاتا ہے۔ آپ برف گاڑی یا پھسلواں بے پہیوں کی تختہ گاڑی چلا سکتے ہیں۔ ایک کم قوّت ثقل کی بدولت سست رفتار سے حرکت کرتی ہوئی برف گاڑی میں بیٹھا ہوا شخص تابکاری سے بچ سکتا ہے کیونکہ وہ ڈھلانوں کے درمیان ہوگا۔ موسم سرما کے وہ کھیل یہاں کھیلے جا سکتے ہیں جن کو ہم نے ابھی سوچا بھی نہیں ہے۔ ٢٠٦٤ء کے اولمپک کھیلوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ شاید میں اپنا وقت نوکری میں ضائع کر رہی ہوں، مجھے تو باہر جا کر اس کی اشتہاری مہم چلانا چاہئے۔"

مذکورہ بالا سرخی مائل رنگ آس پاس کے علاقے سے زیادہ گہرا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ نمکین زیر زمین جھیلوں کا نشان ہو۔ اشعاع سطح پر موجود برف کو زنگ زدہ رنگ یا سبزی مائل سرمئی رنگ سے رنگ دیتی ہے خاص طور سے پیچھے والے نصف کرہ میں۔ ایک محقق کہتے ہیں کہ " یوروپا میں غیر صحت مندانہ چاشنی موجود ہے ۔" ایک مرتبہ جب سطح داغ دار ہو جاتی ہے تو وہ وقت گزرنے کے ساتھ روشن ہوتی رہتی ہے۔ پرانے لینیا کے البیاض قریباً آس پاس کے میدانوں جن پر وہ موجود ہیں ان کے قریب ہی ہیں۔ یوروپا کے مداروی دباؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین ارضیات کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ یوروپا کی سمندر کی سطح آتش فشانی ریخوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان کی عظیم گہرائی شاید کسی بھی سطح کی براہ راست مداخلت سے ان کو بچا کر رکھتی ہے، لہٰذا یوروپا کسی بھی قسم کے سمندر کی تہ کے متعلق سراغ نہیں دکھائے گا۔ باوجود اس کے پرت کے نیچے پراسرار قوّت کے ساتھ موجود ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہم انتشاری علاقے ہیں۔ یہاں پر پہاڑیاں ایک دوسرے میں سے پھسلتی ہوئی بغلی شگافوں پر پھیلی ہوئی ہیں جبکہ پہاڑیوں کی فرشی باقیات ٹوٹ کر شہتیروں میں بدل گئی ہیں اور گرد کے گارے میں گھوم رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر شہتیر اس طرح سے جڑ تے ہیں جیسے کہ کونیاتی آڑا کٹا معمہ ، جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کبھی یہ ایک ہی سطح کے حصّے ہوتے تھے جو اب الگ ہو کر دوسری جگہ چلے گئے ہیں۔ منتشر سطح اکثر ایک دوسرے کے ساتھ آرام سے، گڑھوں کے بغیر رہتی ہیں۔ منتشر علاقے آرکٹک علاقوں میں موجود سمندری برف جیسے لگتے ہیں۔ زمینی صورت میں ٹھوس برف ٹوٹ کر نئے جگہ پر تیرتی ہے اور اس جگہ پر دوبارہ جم جاتی ہے۔



خاکہ 5.12 انتشار کے دو منظر۔ یوروپا پر موجود بے ترتیب علاقوں کے یہ مفصل مناظر غیر ہموار منتشر زمین کے ہیں۔ اوپر والا منظر پرت کے دو غیر ہموار حصّے دکھا رہا ہے جو ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہیں جبکہ نیچے والی تصویر ایک الگ ہوئی زمین دکھا رہا ہے جو اوپر جا کر پہاڑی میدان سے متصل ہو رہی ہے۔

کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ گرم پانی کی پھواریں سمندر کی سطح پر موجود آتش فشانی ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں جو برف کو پتلا کر سکتی ہیں جو بالآخر پگھلنے کا ایک سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ برف ٹوٹ کر سطح پر موجود شہتیروں کو اچھال کر تیزی سے جمتی ہوئی جھیل میں چکر دیتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو شہتیر کو اسی سمت میں گھومنا ہوگا جس سمت میں قیاسی پھوار گھوم رہی ہے (شمال میں گھڑی کی طرف)۔ صورتحال ایسی ہی لگتی ہے اگرچہ اعداد و شمار محدود ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 9

یہ بھی ممکن ہے کہ انتشاری علاقے بالواسطہ طور پر بنے ہوں۔ اصل بات جو سیاروی ماہرین ارضیات دیکھ رہے ہیں وہ یوروپا کے سمندر کی تہ اور اس کے سطح کی پرت کے درمیان موجود فاصلہ ہے۔ اگر نمونے درست ہیں تو دھاروں والے مادّے کو سمندر کی تہ سے سطح پر آنے میں ہفتے بلکہ مہینے بھی لگ جاتے ہوں گے۔ مزید براں انتشاری علاقوں کو کافی وقت تک گرم ہونے کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ پرتوں کی مشاہدہ کی ہوئی حرکات کو بیان کر سکیں۔ کچھ محققین نے دھاروں کے فاصلے کو گرم برف کے شہتیروں سے بنا کر مسئلے سے جان چھڑا لی۔ اس صورتحال میں ایک گرم دھار لمبے عرصے تک برف کو حرارت دیتی ہے۔ حرارت برف میں سے اس طرح حرکت کرتی ہے جیسے کہ لاوا کے چراغ میں جلتا ہوا مادّہ حرکت کرتا ہے۔ برف کے ذریعہ مکمل طور پر پگھلنے کے بجائے یہ عمل بتدریج اور مسلسل ہوتا رہتا ہے اور برف کو اس قدر نرم کر دیتا ہے کہ شہتیر کافی عرصے کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں۔ مزید براں برف میں موجود کثافت اس عمل کے لئے نقطۂ پگھلاؤ کو کم کرکے مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ تھوڑی مقدار میں نمک یا گندھک کا تیزاب – جنہیں گلیلیو نے تجرباتی طور پر شناخت کیا ہے – اس قدر قوّت پیدا کر سکتا ہے دسیوں کلومیٹر برف میں سے گنبد سے بن سکتے ہیں۔ ایک عام طور پر مانے جانے والے نظریئے کے مطابق جب برف کو نیچے سے گرم کیا جاتا ہے – ممکنہ طور پر سمندر کی تہ میں موجود دھاروں سے – تو برف پگھلتی نہیں ہے۔ اس کے بجائے ایک ابھرتی ہوئی ٹھوس چیز (نوکیلی ) پرت میں سے نکلتی ہے اور بالآخر سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ نوکیلے گنبد پھنسے ہوئے نمکین پانی سے بھی تعامل کرتے ہیں۔ انتشاری علاقوں کو تیزی سے بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک لمبے اور بتدریج عمل کے ذریعہ بنتے ہیں۔ نوکیلے گنبد کا نمونہ تاریک دھبوں یا علاقوں کو بھی بیان کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ دھبے مختلف شکلوں بشمول چھوٹے انتشاری علاقوں ، جوہڑوں ، دبی ہوئی جگہوں اور گنبدوں کی صورت میں آتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر تاریک دھبے آس پاس کے زمین میں جھکے اور داغ دار ہوتے ہیں۔ گلابی برف نمکین ہوتی ہے جو اس تصوّر کو اور پکا کرتی ہے کہ تاریک مادّے سطح پر رس رہے ہیں - یا خارج ہو رہے ہیں۔ وہی قوّت جو آئی او پر اس کے پانی سے محروم کرتی ہے اور اس کے قلب کے اندرون کو پگھلاتی ہے اس کا یہاں پر اثر یوروپا سے الگ ہوتا ہے۔ یہ برف کی دنیا جس میں خم دار شگاف ، متوازی پہاڑیاں، اور منتشر ارض موجود ہے مستقبل کے مسافروں کو کھوجنے کے لئے ایک پیچیدہ جہاں فراہم کرتی ہے۔ صحیح آلات کے ساتھ شاید وہ یہاں پر تیرنے کے بھی قابل ہو سکیں گے۔



خاکہ 5.13 اوپر: سرخ زمین کے جڑواں علاقے، تھیرا اور تھریس ماکولا یوروپا کے پرانے برفیلے ناہموار میدان پر خارج ہوتے ہوئے۔ تھیرا (بائیں) لگ بھگ ٧٠ کلومیٹر چوڑا اور ٨٥ کلومیٹر اونچا ہے اور آس پاس کی زمین سے تھوڑا سا نیچے لگتا ہے۔ اس کے اندر برفیلی پرتیں آس پاس کے انتشاری علاقے کے کناروں سے ٹوٹ گئیں ہیں ۔ تھریس (دائیں) لمبا ہے اور پرانے آس پاس کے روشن میدانوں کے اوپر گنبد جیسا لگتا ہے ۔ نیچے: ایجینور لینیا ایک روشن پٹی یوروپا کے برفیلی سطح پر پھیلی ہوئی ہے۔ تصویری ماہرین نے ایجینور کی زیادہ ریزولوشن کی رنگین تصویر کو کم ریزولوشن کی علاقائی تصویر سے آراستہ کیا ہے۔ ایجینور ایک تہری پٹی ہے جس کے دونوں جانب گہرا سرخ مادّہ موجود ہے۔

رابرٹ پاپالارڈو جیٹ پروپلشن لیبارٹری ، پسادینہ کیلی فورنیا کے شعبہ سائنس ڈویژن کے پلانیٹری سائنس ڈویژن میں سینیئر سائنسی محقق ہیں۔ گلیلائی چاندوں میں اگرچہ ان کا سب سے پسندیدہ گینی میڈ ہے ، لیکن دوسرا یوروپا ہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں یوروپا اتنا کیوں پسند ہے:

ستر کی دہائی کے آخر میں مشتری پر بھیجی جانے والی وائیجر کی مہمات نے گلیلائی چاندوں میں میری دلچسپی کو ابھارا ۔ میرے پاس اب بھی فلکیاتی جریدے میں چھپنے والا مضمون "چار نئے جہاں" از ٹورینس (جانسن) اور دیگر موجود ہے۔ جب میں اسکول کا طالبعلم تھا تو میں ران گریلی کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اس کو یوروپا پر بھیجے جانے والے گلیلیو کے تصویری نظام کی منصوبہ بندی کا کام سونپا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ جب بھی کسی میٹنگ سے آتے تھے تو کہتے " سیارچوں نے بہترین نفع دیا اور ہم نے گوہر نایاب یعنی یوروپا کو پا لیا ۔" میں نے اس وقت اپنی پی ایچ ڈی مکمل ہی کی تھی اور ران کے ساتھ اس کی کچھ منصوبہ بندی میں حصّہ لیا تھا۔ یہ کام کرتے ہوئے ہم وائیجر کی تصاویر کو دیکھ رہے تھے اور اسی چیز سے رادامانتھس لینیا کے تیا پانچہ کرنے والے ارضیاتی ثبوتوں کی طرف پہنچے۔ مجھے گینی میڈ سے بھی اتنا ہی پیار ہے ، لیکن میرے لئے یوروپا ذرا زیادہ پراسرار ہے، گینی میڈ کو تھوڑا ہم جان گئے ہیں۔ اجلاس میں جذباتی مباحثے نہیں ہوتے تھے یا یہ بڑے اسرار۔ گینی میڈ کے بارے میں کافی حیرت انگیز چیزیں موجود تھیں لیکن یوروپا کو ہم اب تک ٹھیک سے نہیں سمجھ سکے۔

آسمان میں مشتری کا بدلتا ، گھومتا اور بتدریج بدلتا نظارہ دیکھ کر سانس لینا بہت ہی مشکل ہوگا۔ میں تصوّر میں اپنے چھوٹے باغ کی کرسی یوروپا پر کہیں ڈالے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ کم تابکاری والا علاقہ ایک اچھی جگہ ہوگی، جو مشتری کی طرف والے نصف کرۂ پرشمال سے دور اور جنوب سے کچھ قریب کہیں پر موجود ہوگی ۔ میں کہوں گا کہ شمال تاکہ چیزیں الٹی سیدھی نہ ہوں۔ مجھے کچھ اچھی انتشاری زمین درکار ہے، ایک بڑی چوٹی وہیں کہیں پر، اور بائیں طرف ایک بڑی پہاڑی جو افق تک کھینچی ہوئی ہو۔ اور آس پاس کہیں کوئی اچھی سے دھار سے بنی کہر موجود ہوگی۔

میں وینس کے ساحل کے قریب رہتا ہوں۔ یہ پورے دو کلومیٹر دور ہے۔ اور عام طور پر یوروپا پر پائی جانے والی دہری ڈھلوان کی چوڑائی بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ وہ سو میٹر اونچی اور ٢ کلو میٹر چوڑی ہوتی ہیں۔ یہ آدھے گھنٹے کی سیر ہے اور سو میٹر کچھ زیادہ اونچائی نہیں ہوتی لیکن ١٠ درجے کی ڈھلان کافی اچھی ہوتی ہے۔ کچھ جگہوں پر تو اس کا درجہ ٣٠ ڈگری تک ہو جاتا ہے جو ٹھیراؤ کے آخری زاویہ کی حد ہے۔ اس کے باوجود یہ پھر بھی اتنی اونچائی ہے کہ چیزوں وسطی طشت پر گریں گی جہاں پر کچھ اخراج جاری ہوگا ہمارے شمال میں ایک خوبصورت وادی ہوگی جو کاریزو میدان کہلاتی ہے ۔ سان اینڈریاس کا شگاف اس کو بیچ سے کاٹ رہا ہے ۔ وہاں پر موجود سان اینڈریاس کی مقامیت کافی مختلف ہے۔ یہ اوپر اٹھتی ہے، وہاں پر ایک وادی ہے جہاں شگاف خود سے ابھار کے ساتھ ساتھ ہے اور پھر وہ دوبارہ نیچے چلا جاتا ہے۔ یہ دہری پہاڑی ہے۔

اس طرح میں یوروپا کا تصوّر کرتا ہوں۔ یوروپا پر اب بھی اونچائی ہے۔ وسط میں موجود گہرائی کچھ فٹ بال کے میدانوں جتنی چوڑی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ٹوٹا پھوٹا ہوگا۔ ہم نے پہاڑیوں کی بنیاد پر اینٹوں جیسی چیز کے ثبوت دیکھے ہیں، جہاں پر چیزیں اوپر سے گرتی ہیں اور جب آپ ٣٠ درجے کی ڈھلان دیکھتے ہیں تو وہ جمع کرنے کا زاویہ تجویز کرتا ہے ،[جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ] اس غیر جمع شدہ ملبے نے ہی ڈھلوان کو بنایا ہے۔ یہاں اونچائی پر تھوڑے زیادہ روڑے موجود ہو سکتے ہیں۔ آپ کو وہاں کچھ اچھے جوتوں کی ضرورت ہوگی۔

یوروپا سے مشتری کا شاندار نظارہ ملے گا اور یہ وہ جگہ ہے جہاں اکثر فلکی حیاتیات دان موجود ہوں گے۔ اگر آپ حیات کی تلاش میں ہیں تو یوروپا ہی وہی جگہ ہے۔


خاکہ 5.14 یوروپا پر پھیلی پٹیاں
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 10

گینی میڈ

برجیسی مہتابوں کا مکھیہ گینی میڈ ہے۔ ٥٢٦٨ کلومیٹر پر پھیلے ہوئے اس کے قطر نے سیارے عطارد کو ٤ سو کلومیٹر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ گینی میڈ اپنے آپ میں ایک سیارہ ہے۔ ابھی تک کا یہ واحد معلوم چاند ہے جس کے اپنے پیدا کئے ہوئے مقناطیسی میدان ہیں ، جس کا مطلب ایک گرم اتصالی پگھلا ہوا لوہا رکھنے والی قلب کی موجودگی ہے۔ خلائی جہاز نے یوروپا کی طرح مقناطیسی میدان کے ثبوت بھی حاصل کئے ہیں جو ایک گہرے اندرونی مائع نمکین پانی کے سمندر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ گینی میڈ اور کیلسٹو دونوں کی کثافت اس بات کی طرف اشارے کر رہی ہیں کہ دونوں بڑے سیارچوں میں ٦٠ فیصد چٹان اور ٤٠ فیصد پانی ہے۔ اس پانی میں سے کتنی برف ہے اور اگر وہاں کوئی سمندر ہے تو اس میں سے کتنا گہرے مائع پانی کا سمندر ہے یہ ایک کھلی بحث ہے۔ ان کے اجزاء میں برف کی ضخیم مقدار موجود ہونے کی وجہ سے یہ چاند زمین سے کم ضخیم ہیں جس کی وجہ سے ان کی قوّت ثقل چاند کے مقابلے میں ٧ حصّوں میں سے ٦ ہے اور زمین کے مقابلے میں ٧ حصّوں میں سے ایک کی ہے۔

اپنے دوسرے خاندان کے مہتابوں مثلاً آئی او اور یوروپا کی طرح گینی میڈ کی ارضیات کافی پیچیدہ ہے جو اس کے میدانوں میں موجود واضح طور پر نشانات کو دکھاتی ہے۔ گہرے ارضی ٹکڑے، گڑھوں سے پر، اس کی سطح کا ایک تہائی حصّہ ہیں، جبکہ دوسرے دو تہائی حصّے روشن پٹیوں ، کھانچے دار زمین جو ممکنہ طور پر برفیلے آتش فشانوں کے اخراج اور ٹیکٹونک قوّتیں کی بدولت پیدا ہوئے ہیں ، پر مشتمل ہیں۔ وائیجر کے مشتری سے ملنے کے بعد یہ بات کافی حد تک واضح ہو گئی تھی کہ گینی میڈ بنتے وقت منجمد تھا۔ پراکٹر جانس ہاپکنس یونیورسٹی آ پلائیڈ فزکس لیبارٹری کی سینیئر سیاروی سائنس دان ہیں، وہ کہتی ہیں :

مجھے یہ بات سوچنے میں کافی اچھی لگتی ہے کہ گینی میڈ یوروپا میں بدلنا شروع ہو جائے۔ پرانے گڑھوں سے بھری ہوئی سطح ٹوٹنا شروع ہو گئی یا کسی طرح سے کھینچنا شروع ہو گئی لیکن پھر رک گئی۔ ایک طرح سے یہ کیلسٹو اور یوروپا کے درمیان اعراف یا برزخ میں لٹک گیا ۔ یوروپا جہاں پر ہر چیز وقوع پذیر ہو رہی ہے اور کافی تہ و بالا مچا ہوا ہے اور شاید یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور کیلسٹو جو نظام شمسی کے بننے کے بعد سے خاموشی سے ایک جگہ بیٹھ کر مشاہدہ کر رہا ہے ان دونوں کے درمیان یوروپا نے ایک اچھی جگہ کو پا لیا ہے۔ گینی میڈ پر آپ کو ایسی زمین بھی مل جائے گی جو واقعی پرانی اور نسبتاً غیر تغیر پذیر ہے ساتھ ساتھ یہاں پر کافی حیرت انگیز جگہیں ساختی ماہرین ارضیات کے لئے موجود ہیں کہ وہ وہاں جائیں اور اس کا تجزیہ کریں کیونکہ اس کی حیران کن سطح موجود ہے: دو تہائی پھٹ کران شاندار ، عظیم الجثہ برفیلے راستے نما دراڑوں کی وجہ سے الگ ہو گئی ہے اور ہم اب تک یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ آیا یہ بنی کیسے ہیں۔ کسی چیز نے گینی میڈ کو اس عظیم انقلاب سے روشناس کروایا ہے؟



خاکہ5.15 سان اینڈریاس شگاف یوروپا پر موجود دہری پہاڑی کی شبیہ جیسا ہے۔


گہری قدیمی ارضی سطح کیلسٹو جیسی ہے جبکہ روشن علاقے کچھ یوروپا کی طرح کے ہیں۔ لیکن گلیلیو سے حاصل کردہ نئے اعداد و شمار اور برف کے مہتابوں کے ماہرین کو معلوم ہو گیا کہ گینی میڈ کافی پیچیدہ ہے اور اس کی تاریخ اتنی سادہ نہیں ہے۔

گینی میڈ کی بھوری سرمئی سطح قدیمی لگتی ہے، تہ چڑھی ہوئی سطح کھلے گہرے مادّے میں ڈوبی ہوئی ہے جس میں جگہ جگہ برفیلی ڈھلانیں موجود ہیں۔ یہ تاریک ارضیاتی میدان جیفری کولنس کو پڑوسی چاند کیلسٹو پر موجود تاریک میدانوں کی یاد دلاتے ہیں۔ کولنس کو معلوم ہے کیونکہ وہ گینی میڈ کے تاریک علاقوں کی اپنی پیشہ ور زندگی کے زیادہ تر حصّے میں تحقیق کرتے رہے ہیں۔ "تاریک علاقے اس گہرے مٹی میں لپٹے ہوئے لگتے ہیں۔ آپ کے پاس تاریک بھربھرے مادّے میں گھسی ہوئی برف کی روشن گانٹھ موجود ہے۔"

گینی میڈ کے تاریک علاقے گڑھوں سے لبریز ہیں اور چار ارب برس سے زیادہ قدیمی جانے جاتے ہیں۔ اس کی ترکیب بتاتی ہے کہ اس میں برفیلی روشن سطح سے زیادہ چٹانی مادّہ موجود ہے۔ تاریک علاقے بشمول ٹیکٹونک کی حرکت کافی سارے ارضیاتی عمل کے نتیجے میں تبدیل ہوئی ہے۔ جیفری کولنس دستیاب شدہ سب سے مفصل تصاویر کا مطالعہ کرتے ہیں جو گلیلیو خلائی جہاز نے لی ہیں۔ " مٹھی بھر تعداد میں ٢٠ میٹر یا اس سے بہتر پہنچ کی تصاویر موجود ہیں۔ ان میں سے چند ایک میں تاریک علاقے موجود ہیں، اور آپ اس تاریک مٹی کو ان روشن برف کے ڈونٹ کی طرح دیکھتے ہیں جہاں گڑھوں کی کگر نکل رہی ہیں۔" ان تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ گہرے علاقے پتلے ہیں شاید تازہ برف پر مادّے کا ایک کمبل سا لپٹا ہوا ہے۔ روشن سطح تاریک قدیمی علاقوں سے یکایک تبدیل ہو گئی ہے۔ کولنس کہتے ہیں۔ "اکثر جب آپ ایک چیز سے دوسری چیز کو بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو یہ اس پرانے منظر جیسا ہوتا ہے جس کی سطح گڑھوں سے لبریز ہو کر جیسے رک گئی ہو اور وہاں یہ چوٹی نمودار ہو گئی ہو۔" روشن سطح تاریک سطح سے نیچے لگتی ہے۔ شاید یہ کم از کم ٢ ارب برس پرانی ہے لہٰذا گڑھے کی سطح کو داغ دار کر رہی ہے ، لیکن یہاں پر موجود گڑھے تاریک علاقے سے کہیں کم تعداد میں ہیں۔

متوازی وادیاں اور پہاڑیاں جن کو کھانچے دار میدان کہتے ہیں گینی میڈ کے روشن علاقوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ دسیوں کلومیٹر چوڑی برف کے تہ ہوئے راستے گینی میڈ کی سطح پر سینکڑوں کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ہیں اور تاریک علاقے میں پٹیوں کو کاٹ کر ان کو عظیم الجثہ کثیر الزاویہ چیزوں میں توڑ رہے ہیں۔ پہاڑیاں خود سے اس طرح نہیں بنی ہیں جیسے کہ زمین پر پہاڑی سلسلے بنتے ہیں جہاں پر پرتیں آپس میں ایک دوسرے پر چڑھ جاتی ہیں اور سطح کو سکیڑ کر اوپر اٹھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ وادیاں اس طرح لگتی ہیں جیسے کہ برف کے شہتیر شگاف کے خطوط کے ساتھ جھک کر ٹوٹ گئے ہوں۔ " ہر پہاڑی ہمالیہ کی طرح قوّت سے اوپر نہیں اٹھی ہے، بلکہ یہ کتابوں کے شیلف میں رکھی ہوئی جھکی ہوئی کتاب کی طرح ہے ، تابکاری کی حرارت نے ان کھانچوں کو شاید بنایا ہے۔"

ایسا لگتا ہے کہ مشتری اور دوسرے گلیلائی چاندوں کی قوّت ثقل نے چاند کی ضخیم پرت کو کھینچا ہے۔ ان وسیع شگافوں نے لمبوترے گڑھوں کو بھی پیدا کیا ہے ، [1] سطح کے نیچے پھسلنے کی وجہ سے وادیاں بھی بنی ہیں۔ گلیلیو سے حاصل کردہ اچھی ریزولوشن کی کافی تصاویر نے سطح پر بکھری ان روشن پہاڑیوں کی کافی تفصیل بہم پہنچائی ہے۔ لیکن یہ ساختیں وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہیں، چھوٹے گڑھوں سے مٹتی رہی ہیں اور برف کے طوفانوں سے نرم ہوتی رہی ہیں۔ بٹے اور دوسرے ملبے کی قطاریں چوٹی کی بنیاد بنی ہیں۔ کچھ پہاڑیاں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ روڑوں کی خطی قطروں کی صورت میں الگ ہو رہی ہیں۔ جس کسی نے بھی روشن سطح کو بنایا ہے وہ کافی عرصے پہلے بنایا ہوگا۔

اگرچہ گینی میڈ پر موجود کچھ پہاڑیاں یوروپا جیسی ہیں، لیکن ان کو بنانے کی قوّت الگ ہے۔ یوروپا پر میدان کی لمبی پٹیاں متشدد طریقے سے کھینچ کر علیحدہ کردی گئی ہیں۔ جب وہ پھیلتی ہیں تو نیا مادّہ خالی جگہ کو بھرنے کے لئے آ جاتا ہے۔ اس عمل کے ثبوت کو ہم ان جگہوں پر دیکھ سکتے ہیں جہاں میدان کا ایک نمونہ ان پٹیوں کے دوسرے جانب بھی جاری ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یوروپا کے اس غیر ضروری کام سے بچنے کے لئے گینی میڈ میں اس طرح کے فالتو (سوائے چند کمیاب صورتوں کے) عمل نہیں ہیں۔ اس کے بجائے گینی میڈ کے تاریک علاقے ٹوٹنے کے بعد کھینچے ہوئے لگتے ہیں اور پھر کسی طرح سے روشن علاقوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پراکٹر کا مشاہدہ ہے ۔" روشن علاقے کھانچے دار ہیں۔ کم ریزولوشن پر یہ ہموار لگتے ہیں ، لیکن جب سے ہم نے بہتر تصاویر لے کر انہیں دوسرے اجسام سے دریافت کیا ہے تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں پر تو بہت ہی کم ہموار جگہیں ہیں۔ روشن علاقوں میں مادّے کی بڑی متوازی قطاریں ہیں؛ یہ مروڑی اور پھولی ہوئی بھی ہو سکتی ہیں لیکن زیادہ تر خطی ہیں۔ ہم ان کھانچوں کو جتنا نیچے جاتا ہوا دیکھ سکتے ہیں دیکھتے ہیں۔ آپ جتنا اندر دیکھ لیں آپ کو یہی نظر آئیں گے۔ کافی ساری قطاریں بڑی ، علاقائی ہیں اور سینکڑوں کلومیٹر تک جا رہی ہیں۔" گینی میڈ کے روشن علاقوں کی ترکیب میں زیادہ تر خالص پانی کی برف ہے، جو برفیلے آتش فشاں یا پھر اندرون سے نکلنے والے سیلاب کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ لیکن اس کی پہاڑیاں اور وادیاں ٹیکٹونک حرکت کے سبب ہیں۔ کچھ ثبوت یہ بھی بتا رہے ہیں کہ تاریک مادّے بالکل ہی تاریک نہیں ہیں۔ بلکہ وہ علاقے گندی برف سے بنے ہیں جہاں سطح سے ٹھوس مادّے کے بخارات بننے[2] کی وجہ سے تاریک قید خانہ (پیچھے بچے ہوئے مادّہ کا ) بن گیا۔ اس منظر نامے میں ٹیکٹونک اس کے ساتھ آتی ہیں اور سطح کو چیر کر صاف برف کو آگے کرتی ہیں۔

[1]۔ لمبوترا گڑھا لفظ جرمن الفاظ خندق سے نکلا ہے۔ عہد وسطیٰ میں یورپ کی کافی ثقافتوں میں لوگوں کو قبرستان میں ایک کے اوپر ایک کرکے دفنایا جاتا تھا تاکہ جگہ کی بچت کی جا سکے۔ عام طور پر صنوبر سے بنے ہوئے تابوت گزرنے والے کے وزن سے منہدم ہو جاتے تھے اور فرش ڈھے جاتا تھا جس طرح سے ارضیاتی لمبوترے گڑھے ہوتے ہیں۔

[2]۔ٹھوس کے بخارات بننے کا عمل خلاء یا کم دباؤ والے ماحول میں ہوتا ہے جہاں پر پانی یا گیس براہ راست برف سے بخارات میں بنتی ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 11


خاکہ 5.16 یہ سب سے اعلیٰ ریزولوشن کی تصویر تاریک اور روشن علاقوں کے درمیان سرحد کی ہے۔ تاریک علاقے بائیں طرف جبکہ روشن دائیں طرف ہیں۔ روشن برف کے روڑے آبی درّے کے فرش کو پر کئے ہوئے ہیں جہاں پر شگافوں نے انہیں بیچ سے کاٹا ہوا ہے جبکہ قدیمی بچی ہوئی تاریک سطح پہاڑی کی چوٹی پر محفوظ ہے۔ کچھ گڑھے پرانے اور نرم ہیں؛ جبکہ دوسرے علاقوں میں وہ روشن برفیلے ڈونٹ کے حلقے تاریک غلاف سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ تودے کی ٹوٹ پھوٹ نے نالے اور ڈھلانوں پر لہروں کو چھوڑ دیا ہے۔ دائیں طرف مادّے نے اپنا کردار بدلنا شروع کر دیا۔ پرانے نرم گڑھے غائب ہو گئے ہیں اور مجموعی طور پر کم گڑھے باقی بچے ہیں۔

گینی میڈ کا یہ اصل میں ایک ایسا اسرار ہے جس کو ابھی حل ہونا باقی ہے۔ محققین کے سامنے اس نے کافی چناؤ رکھ دیے ہیں۔ آیا کیا روشن علاقے تاریک علاقوں سے الگ ٹوٹ کر بنے ہیں اور انہوں نے اپنے نیچے موجود روشن برف کو ظاہر کر دیا ہے یا نیا مائع پانی "لاوا کا بہاؤ" کا سیلاب سطح پر امنڈ آیا ہے جس نے تاریک علاقے کو ڈھانپ لیا ہے؟ کولنس اور پراکٹر جیسے تفتیش کار ورطہ حیرت میں غرق ہیں۔ پراکٹر کہتی ہیں، "گلیلیو کی مہم کے ساتھ ہم کھانچے دار سطح کے بننے کی پہیلی کو حل کرنے کی امید لگائے بیٹھے تھے ، ہرچند کہ ہمیں معلوم تھا کہ بڑھوتری اس کی بناوٹ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن پھر بھی سطح پر مادّے کا آنے کے بارے میں یا آیا یہ صرف گندی ، تاریک سطح ہے جو ٹوٹ گئی ہے جس سے نیا مادّہ کھل کر نظر آتا ہے ان دونوں باتوں میں کچھ ابہام تھا۔ جیفری کولنس مزید کہتے ہیں، "وہاں کچھ جگہیں ہیں جہاں پر دونوں میں سے کوئی بھی بات کہی جا سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سوال کا کوئی ایک جواب نہ ہو۔ یہ ایسی چیز ہے جو مجھے اب بھی حیرت انگیز لگتی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ کسی دن ہمارے پاس اتنی معلومات موجود ہوگی کہ ہم اس کو کسی طرح حل کر لیں گے۔"

گینی میڈ کے ایک بصری سروے نے کیلسٹو اور یوروپا جیسی مشترک اور ان سے مختلف چیزوں کا پتہ دیا ہے۔ یہاں پر دی گئی ہوئی مثال سے یہ بات اور واضح ہوتی ہے۔

تمام سیاروں اور مہتابوں کی طرح گینی میڈ پر سیارچوں ، دم دار تاروں اور شہابیوں کی بارش ہوئی ہے۔ گڑھوں نے اپنے پیچھے اس بات کا سراغ چھوڑا ہوا ہے کہ ان کی سطح کس چیز سے بنی ہے اور ان کے نیچے کیا ہے۔ گینی میڈ کے چہرے پر تصادموں نے ہر پیمانے پر نشان بنائے ہوئے ہیں نتیجتاً چند فٹ پر پھیلے ہوئے چھوٹے پیالے سے لے کر ٨٠٠ کلومیٹر پھیلے ہوئے گلگامیش طاس تک جیسی چیزیں موجود ہیں۔ چھوٹے گڑھے کبھی کبھار تاریک فرش کو کھود دیتے ہیں یا تاریک مادّے کی شعاعیں پھینکتے ہیں۔ یہ تاریکی ممکن ہے کہ شمسی تابکاری کی وجہ سے ہو اور برف میں موجود آلائش کی وجہ سے تاریک ہو یا ہو سکتا ہے کہ تصادم کے نتیجے میں بچنے والے مادّے کی وجہ سے ہو۔ بڑے گڑھے چاند کی گہرے سرمئی مائل نیلی سطح پر پھیلے ہوئے ہیں جس پر روشن برف کے چھینٹے پڑے ہوئے ہیں۔ گڑھوں کی بڑھتی عمر کے ساتھ یہ شعاعیں مدھم ہو جاتی ہیں۔

درمیانی حجم اور بڑے گڑھوں کے درمیان میں عجیب سے جوہڑ موجود ہیں۔ یہ ساختیں شاید گرم برف کا نتیجہ ہیں جو تصادم کے بعد نیچے سے نکل کر اوپر آئی ہے یا پھر تصادم سے پڑنے والے چھینٹوں کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ بڑے گڑھوں میں جوہڑوں کے درمیان میں ٹیلے اس کی اسراریت میں اضافہ کرتے ہیں ۔



خاکہ 5.17 گینی میڈ کا اربیلا سلکس علاقہ (اوپر) یوروپا کے تھائینیہ لینیا (نیچے) سے مشابہ ہے، جہاں پرت الگ ہو کر نئے مادّہ سے بھر گئی ہے۔ یہ تصاویر ایک ہی پیمانے کی ہیں۔ غور کریں کہ گینی میڈ پر یوروپا جیسا پہاڑی نظام (تیر) بناوٹ میں تو ایک جیسے ہیں پر حجم میں نہیں۔ یوروپا کی سطح کی نو عمری اس پر تصادم نہ ہونے کی عکاس ہے۔

جیسا کہ گینی میڈ کے گڑھے غائب ہوئے تو وہ برفیلے گانٹھوں میں ٹوٹ کر تاریک سطح سے نکل کر ابھر آئے۔ برف اکثر سائے دار ڈھلانوں میں جمع ہو جاتی ہے۔ قدیمی گڑھوں کی کگر اور غائب ہوتی پہاڑیوں نے تاریک سمندر پر تیرتے ہوئے جھاگ کی سی صورت اختیار کر لی ہے۔

گینی میڈ کے کئی منجمد میدانوں میں ، گڑھوں کے بھوت ان کو ویران بیابان بنا رہے ہیں۔ سائنس دان ان کو چرمی کاغذ کہتے ہیں۔ یہ نام اس وقت سے سنا گیا ہے جب مصنفّین اپنا پیغام چرمی کاغذ یا چمڑے پر لکھتے تھے۔ یہ مادّہ قلیل اور مہنگا ہوتا تھا تو جب چرمی کاغذ اپنا مقصد پورا کر لیتا تھا تو اس کی سطح سے لکھائی کو مٹا دیا جاتا تھا جس کے لئے اکثر دودھ اور جو کی چوکر استعمال کی جاتی تھی۔



خاکہ 5.18 گینی میڈ کا گلیلیو ریجیو (اوپر) اور کیلسٹو کا وسیع ولہلا گڑھے والا طاس دونوں مرتکز موجوں کی شکل کو بیان کر رہے ہیں۔ غور کریں کہ گینی میڈ کی تصویر پر بے قاعدہ وسطی افقی پٹی اعداد و شمار کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔

پرانے چرمی کاغذوں کی طرح ، گینی میڈ کے قدیمی پیغام اس کی سطح پر آتے ہیں۔ چرمی کاغذی گڑھے گینی میڈ کی تخلیق کے ابتدائی دور کے ہیں جب شہابیوں نے سخت برف کی پرت کو توڑ دیا تھا اور چورا ہوا مادّہ اس کی کھانچے دار سطح پر امنڈ پڑا تھا جس کو اب بھی بھوتی گڑھوں کے کناروں کے قریب، چرمی کاغذ کی سطح کے نیچے ماضی کی منجمد وادیوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ چرمی کاغذوں میں گڑھوں نے تاریک سطح کو چھیدا ہوا ہے۔ ان گڑھوں کی ساخت بتا رہی ہے کہ یہ پتلی قرص کے ہلکے مادّے ہیں۔



خاکہ 19.5 دسمبر ١٩٩٤ء میں ، دم دار تارا شو میکر لیوی 9 مشتری کے قریب سے گزرا اور ٹوٹ کر درجنوں حصّوں میں بٹ گیا اور مہینے بعد مشتری سے ٹکرا گیا، اور برجیسی بادلوں پر برسنے کے بعد دھماکے سے زمین کے حجم کا ڈونٹ جیسا دھواں پیدا کیا۔ اس طرح کے دوسرے واقعات کے ثبوت دونوں گینی میڈ (بائیں) اور کیلسٹو پر گڑھوں کے سلسلے کی صورت میں موجود ہیں۔



خاکہ 5.20 گینی میڈ کے گڑھوں کا غائب ہونا کیلسٹو کی نقل ہی لگتا ہے۔ دونوں صورتوں میں برف کے کگریں اور بلند علاقوں کے میدان تاریک مادے کے میدانوں سے اوپر ہیں۔

کئی گڑھے علیحدہ اور کھنچ کر ٹوٹ گئے ہیں یابرفیلی سطح کی عظیم "پرتوں" کے منتقل ہونے کی وجہ سے مٹ گئے ہیں۔ لیکن سیارے کے حجم والے چاند نے شگافوں کی یہ صورت مورت زمین کے مقابلے میں بہت ہی الگ طرح سے حاصل کی ہے۔ زمین کی پرتیں ایک دوسرے کے نیچے گھستی ہیں، سمندر کے فرش پر پھیل کر اس کو پھیلاتی یا دبا کر لپٹا کر پہاڑی سلسلے کو بناتی ہیں جبکہ سیارے کا ایک حصّہ سکڑتا ہے تو دوسرا پھیلتا ہے اور یوں سیارے کی سطح کو برابر کر دیتا ہے۔ گینی میڈ پر روشن کھانچے دار علاقہ صرف توسیع پاتا ہی دکھائی دیتا ہے ، یعنی کہ کھانچے اصل میں صرف پھیلاؤ کے بجائے سیاروی توسیع کے داغ ہیں۔ مختصراً گینی میڈ جمتے ہوئے سوجھتا ہے اور اپنی سطح کو چٹخاتا ہے۔
 
Top