Living Among Giants by Michael Carroll - اردو ترجمہ

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 2

ٹائٹن کا کرۂ فضائی



ان گھاٹیوں ، جھیلوں اور ریت کے ٹیلوں کو دھندلا کرتی ہوئی ٹائٹن کی نائٹروجن اور میتھین کی گہری چادر کی اپنی ہی ایک کہانی ہے۔ زمین اور ٹائٹن دونوں پر، موسم قدرتی طور پر درجہ حرارت اور دباؤ میں توازن قائم رکھنے کی ایک قدرتی کوشش ہوتی ہے۔ حرارت سورج سے آتی ہے، اور ہوا گرم ہوا کو ٹھنڈے علاقوں تک لے جاتی ہے۔ صرف ہماری دنیا سے ١٤ کروڑ ٩٠ لاکھ کلومیٹر کی دوری پر سورج ہمہ وقت زمین کے نظام میں غیر معمولی توانائی کو بھرتا رہتا ہے اس سے ہمارا کرۂ فضائی زور آور اور متحرک جگہ بن جاتی ہے۔

ہماری ہوائی چادر کے نیچے ٹھوس سطح ہوا کے بہاؤ کو توڑ دیتی ہے اور درجہ حرارت میں درجہ بدرجہ تبدیلی وقوع پذیر ہو جاتی ہے لہٰذا کرۂ فضائی موسمی نظام کو لمبے عرصے تک نہیں روک کر رکھ سکتا۔ ہماری متلون مزاج موسمیات دور دراز ، منجمد ٹائٹن سے کافی الگ ہے۔ ہمارے کثیر گرج چمک کے طوفان ٹھنڈی جگہوں کے ذریعہ آگے دھکیلے جاتے ہیں اور کسی خلیج میں گرم علاقے میں ٹہر جاتے ہیں، جہاں سفید بادلوں کی پٹیوں کو منتشر کرتے ہیں وہ نظارہ موسمی خبروں پر نظر رکھنے والوں کے لئے کافی شناسا ہوگا۔ زمین کے طوفان باراں گرم ہوا سطح کے قریب سے لیتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بلند ی پر لے جاتے ہیں۔

ٹائٹن پر اس طرح نہیں ہوتا۔ ٹائٹن زمین کے مقابلے میں سورج کی روشنی کو سو گنا کم حاصل کرتا ہے۔ سورج کی بہت ہی کم روشنی اس کے کرۂ فضائی میں داخل ہو تی ہے، یوں ہوا میں دھیمی آمیزش ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پر انفرادی موسمی واقعات کافی کم ہوں گے۔ کبھی کبھار پیدا ہونے والا ایک طوفان شاید برسوں میں آتا ہوگا۔

تجزیہ نگار ماحولیاتی حرارت کو چولہے پر رکھے ہوئے پانی کے برتن سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جب شعلے کو پہلی دفعہ جلایا جاتا ہے، تو کبھی پانی کا بلبلہ برتن کے نیچے سے نکل کراس کے اوپر آتا ہے، اور تھوڑی سے ہلچل پیدا کرتا ہے۔ جیسے وقت گزرتا ہے پانی گرم ہوتا ہے ، اور مائع میں سے زیادہ بلبلے نکل کر اوپر آنے لگتے ہیں۔ برتن میں موجود موسم پانی کے اپنے ابلنے سے پہلے ہی کافی متلاطم ہو جاتا ہے ۔ ٹائٹن کا ماحول شاید اس مرحلے کی شروعات ہے، جہاں پر بلبلہ شاذ و نادر ہی اوپر آتا ہے۔ زمین کا ماحول مائع کے برتن کے ابلنے والے مرحلے کی طرح ہے۔

ٹائٹن کے ڈرامائی موسم کی کمیابی اور یہ حقیقت کہ کیسینی نے ٹائٹن پر کبھی کبھار پر ہونے والی تھوڑی عرصے کے لئے ہلچل کا مشاہدہ کیا ہے ، یہ تمام باتیں مل کر موسم کی دریافت کو انتہائی مشکل بنا رہی تھیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود کیسینی نے جنوب میں حمل حرارت والے بادلوں کے ثبوت کو تلاش کرلیا تھا۔ بالخصوص اونٹاریو لاکوس کے قریب جنوبی علاقے میں جھیل کے نمونے کافی جگہوں پر تبدیل ہوئے تھے۔ مشاہدین کا خیال تھا کہ میتھین کے طوفانوں نے اس علاقے میں کافی نئی جھیلوں کو بنایا تھا۔

ٹائٹن کی بارشیں شاید مون سونی تھیں؛ ہو سکتا ہے کہ بارشیں شدید موسمی لہر کے ساتھ آتی تھیں۔ کافی دریائی گزر گاہوں کو ٹائٹن کی سطح پر نقشہ بند کیا گیا اور ان کو بنانے کے لئے عام طور سے شدید سیلابوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاروی ماہر موسمیات کہتے ہیں صرف بوندا باندی سے تو یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ٹائٹن کے طوفان زیادہ سے زیادہ ارضی ریگستانوں میں آنے والے طوفان جیسے ہوں گے جو زمین کو تو گیلا کرتے ہوں گے بلکہ خشک گزرگاہ کو بھی بنا دیتے ہوں گے لیکن معنی خیز مائع کے ذخیروں کو نہیں بنا سکتے ہوں گے۔

سرگرم میتھین کے بادلوں کے نظام اور سیلابی میدانوں کو بنانے کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ میتھین کی بارش ٹائٹن پر زمین پر ہونے والی بارش کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہے۔ بطور خاص استوائی علاقوں میں ٹائٹن کافی زیادہ صحرائی سیارہ ہے جہاں زمین کے مقابلے میں بارش حد درجہ نایاب ہے۔ جہاں پر بارش ہوتی ہے وہ سیلابی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ سیلابی بارش موسمی ہے یا پھر یہ پورے سال کا مظہر ہوتا ہے؟ ہرچند کے میتھین کی نمی ہائی گنز کی اترنے والی استوائی جگہ پر ٤٥ فیصد تھی ، یہ اتنی ہے کہ زمین پر طوفان باراں کو جاری کر سکتی ہے، لیکن دور فاصلے پر موجود سورج کی حرارت اتنی کمزور ہے کہ نم ہوا اوپر جا کر موجودہ صورتحال میں طوفان کو پیدا نہیں کر سکتی۔ بڑے بادلوں کے نظام کو زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹائٹن کا استوائی علاقہ کافی خشک ہے۔

لیکن مکمل طور پر ایسا نہیں ہے۔ ٢٠٠٨ء میں کیسینی نے طوفانی بادلوں کو استوائی علاقوں کے اوپر بنتے ہوئے دیکھا۔ وہ تیزی سے جنوب مشرق کی طرف نکلے۔ جب طوفانی بادل تیرتے ہوئے دور گئے تو انہوں نے پیچھے تاریک زمین کو چھوڑ دیا جس کا مطلب سطح پر ہونے والی تبدیلی کی وجہ بارش تھی۔ اس طرح کا مظہر کافی نایاب ہو سکتا ہے، لیکن ان تمام باتوں سے قطع نظر ٹائٹن نے ہمیں بتایا کہ ایسا ہوتا ہے۔

محققین کے اندازے کے مطابق ٹائٹن پر ہونے والی سالانہ بارش ٥ سینٹی میٹر ہے۔ یہ موت کی وادی میں ہونے والی بارش کے برابر ہی ہے۔ یہ بارش عجیب و غریب قسم کی زمین پر ہوتی ہے۔

ٹائٹن کا کرۂ فضائی وقت میں دور تک جھانکے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ زیادہ تر سائنس دان سمجھتے ہیں کہ اس کی نائٹروجن گرم ابتدائی سیاروی قرص جس سے خود زحل بھی بنا تھا اس کے دور میں ہی بن گئی تھی۔ لیکن ناسا اور ای ایس اے کی نئی تحقیقات ایک دور کے منبع کی جانب اشارہ کر رہی ہیں - نظام شمسی کا بیرونی کنارہ۔ ٹائٹن کی نائٹروجن کے دو ہم جا ، نائٹروجن -١٤ اور نائٹروجن -١٥کی نسبت ہے، یہ وہ ہم جا ہیں جن کو اورٹ بادل میں برفیلے دم دار ستاروں کی جگہ پر بننا چاہئے جو سورج کے اثرو رسوخ سے کافی دور کی جگہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹائٹن کی نائٹروجن نظام شمسی کے کافی ابتدائی دور میں بنی تھی اس دور میں جب وہ سیارہ بن رہا تھا جس کے گرد اب یہ چکر لگا رہا ہے۔ آج شاید ٹائٹن کے ماحول میں ابتدائی نظام شمسی کے ماحول کی حالت کے نشان محفوظ ہوں، جو اسے ان سائنس دانوں کے لئے ایک انتہائی اہم ہدف بناتے ہیں جو سیاروی نظام کے ارتقاء کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔


خاکہ 7.5 ٹائٹن کی پیچیدہ کہر کی تہ جو میتھین اور ہائیڈرو کاربن کی بارش کو سبب بنتی ہے جو ریت کے ٹیلوں کو بناتے ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 3
ٹائٹن کے عجیب ریت کے ٹیلے


شروع سے ہی کیسینی وی آئی ایم ایس (بصری اور زیریں سرخ نقشہ ساز طیف پیما - (Visual and Infrared Mapping Spectometer اور آئی ایس ایس (تصویری سائنس ذیلی نظام - (Imaging Science Subsystem کے آلات نے گہرے علاقوں کو چاند کے نقاب زدہ چہرے سے نکال کر منکشف کیا۔ مزید تفصیلی ریڈار نے کچھ خطی خدوخال کو حل کرلیا جو کم از کم ان کچھ تاریک علاقوں کو ڈھانپے ہوئے تھے ۔ اطلاقی طبیعیاتی تجربہ گاہ کے رالف لورینز کہتے ہیں کہ پہلے پہل حاصل کردہ تصاویر گمراہ کن تھیں۔


خاکہ 7.6 سفید میتھین کے طوفانی بادل سرمئی سطحی خدوخال پر تیرتے ہوئے کیسینی ریڈار سے عظیم جنوبی جھیل اونٹاریو لاکوس کے علاقے کی لی گئی تصویر میں دکھائی دے رہے ہیں۔ تاریک علاقوں کے اندر بدلتے ہوئے نمونوں کو سطح پر دیکھیں جب روشن بادل ان کے اوپر تیرتے ہیں۔

"ایک طرح سے ہم اس وقت کافی بد قسمت رہے جب ہم نے ٹائٹن کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ ہم چیزوں پر اس طرح کا سرنامہ لگا رہے تھے مثلاً "بلی کی کھرنچیں۔" اکتوبر ٢٠٠٤ء میں پہلی قریبی ریڈار کی پرواز ناقابل فہم تھی۔"

بہرحال کیسینی کے دوسرے ریڈار کی اڑان میں جس کو شاندار ہائی گنز کے کچھ ہفتوں بعد وہاں بھیجا گیا تھا کچھ قابل فہم ساختیں سامنے آئیں۔ ریڈار کے راستے میں دو عظیم شہابی گڑھے اور ایک الگ دریاؤں کی شاخوں کا نظام سامنے آیا۔ "ہائی گنز کھوجی پہلے ہی دریائی گزر گاہوں کو کافی قریب سے دیکھ چکا تھا، لہٰذا یہ دریافت پہلے ہی ہائیگنز کھوجی تاریخی حادثے میں لے اڑا تھا۔ لیکن اس اڑان میں یہ تمام تاریک پٹیاں بھی ملی تھیں اور یہ مکمل طور پر اس علاقے میں متوازی نہیں تھیں۔ یہ اکثر "Y" کی شکل میں کامیابی سے شاخ در شاخ بٹ رہی تھیں۔ ہمیں لگا کہ شاید یہ ہوائی - ہوا کے چلنے سے بننے والی – ہیں تاہم ہمیں یقین نہیں تھا وہ کسی اور قسم کی سطح پر بہنے والی جیسا کہ یہ دریائی مٹی کا جمع ہونا جیسی نہیں تھیں۔ یہ واضح طور پر ان چیزوں سے الگ تھی جس کو ہم دریاؤں کے پاس دیکھتے ہیں لیکن ہم اس کے بارے میں پر یقین نہیں تھے۔" لورینز کہتے ہیں۔

ایک نظریہ جس پر محققین کام کر رہے تھے وہ ان ریڈار سے حاصل کردہ ساختوں کا مطالعہ ہے جنہیں انٹارکٹکا میں دیکھا گیا ہے اور جو عظیم ٹیلے کہلاتے ہیں۔ یہ پہاڑ نہیں ہیں؛ ان کی مغلوب مقامیت لگ بھگ کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن کافی حد تک لورینز اور ان کے رفقائے کار ان چیزوں سے گمراہ ہو گئے جنھیں انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا لہٰذا انہوں نے شہابی گڑھوں اور دریائی گزر گاہوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ صرف پانچ مہینے بعد ایک اور اڑان بھری گئی (اکتوبر ٢٠٠٥ء ) جس میں انہوں نے ٹائٹن کے اس حصّے کو قریب سے دیکھا جو استواء کے قریب تھا اور جس کو پہلی اڑان میں اتنے نزدیک سے نہیں دیکھا گیا تھا یہ وہ حصّہ تھا جہاں پر دوربینوں نے بڑے تاریک پیوند دیکھے تھے۔ ریڈار سے حاصل کردہ نئی تصاویر میں یہ خطی خدوخال مکمل طور پر ڈھکے ہوئے تھے، اور اب یہ صرف تاریک پٹیاں روشن پس منظر میں نہیں تھیں، لورینز کہتے ہیں۔ " ہم ریڈار سے حاصل کردہ تصاویر میں روشن اور تاریک نمونوں کو دیکھ سکتے تھے ، ریڈار کی جانب اور اس سے دور ڈھلوانیں تھیں، لہٰذا ہمیں معلوم ہوا کہ یہ پہاڑیاں ہیں۔ یہ کافی یکساں تھیں ، چند کلومیٹر دور پھیلی ہوئی، کچھ جگہوں پر یہ بیس کلومیٹر سے کے کر سینکڑوں کلومیٹر لمبی تھیں۔ کیونکہ یہ اٹھی ہوئی تھیں لہٰذا ہمیں پہلا سراغ جمع ہوئے ٹیلوں کے لئے ملا، اور اصل میں ہوا بھی ایسا ہی۔ جس لمحے بالآخر ہمیں یہ معلوم ہوا ہم خلائی جہاز سے حاصل کردہ نامب ریت کا سمندر دیکھ رہے تھے جہاں اگرچہ ریت مختلف تھی اور قوّت ثقل بھی الگ تھی اور ہوا بھی مختلف تھی لیکن پھر بھی آپ بعینہ وہی دیکھ رہے تھے۔ یہ بڑے خطی ٹیلے ٢ کلومیٹر تک پھیلے ہوئے تھے اور سو اور دو سو میٹر اونچے اور دسیوں سے لے کر سینکڑوں کلومیٹر طویل تھے۔

کیسینی کے زحل پر پہلے چار برسوں میں سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ان ٹیلوں سے سطح کا ممکنہ طور پر ١٠ فیصد حصّہ گھرا ہوا ہے۔ مزید چھان بین کے بعد یہ تبدیل ہو گیا، بریگھم ینگ یونیورسٹی کے سیاروی ریتیلے ٹیلوں کے ماہر جانی ریڈ با کے مطابق۔ " اب ہمارا اندازہ ہے کہ کم از کم ٹائٹن کی ٢٠ فیصد سطح ان ٹیلوں سے ڈھکی ہے شاید ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ۔" موازنے کے لئے دیکھیں کہ زمین کی سطح ٥ فیصد جبکہ مریخ کی سطح ١ فیصد سے بھی کم ان ٹیلوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ٹائٹن کے لمبے ٹیلے ایک طرح سے موسمی باد نما کا کام سرانجام دیتے ہیں، اور چاند کی پر چلنے والی ہواؤں کا اتباع کرتے ہیں۔ ٹائٹن کا کرۂ فضائی زمینی سطح سمندر پر موجود کرۂ فضائی کی کثافت سے کم از کم ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ صفر درجے سے ١٤٣ درجے نیچے سست رفتار ہوا ٹائٹن کی سطح پر اس طرح چلتی ہے جیسا کہ سیاروی مدو جذر کی موجیں۔ ٹیلوں کی سمت اور شکل بتاتی ہے کہ ہوائیں مغرب سے مشرق کی جانب چلتی ہیں۔ فروری ٢٠٠٩ء تک محققین نے ١٦ ہزار ٹیلوں کو نقشہ بند کرنے کے بعد ان کی تصدیق کردی ہے۔ مزید ملنے کی توقع ہے۔


خاکہ 7.7 عظیم ریت کے سمندر جو ٹائٹن کے استوائی علاقوں پر پھیلے ہوئے ہیں کیسینی کے تصاویر اتارنے والے نظام میں کہر میں تاریک انباروں کی صورت میں دکھائی دیئے۔

ٹائٹن کے ٹیلے سیارے کی سب سے عجیب خاصیت میں سے ایک ہیں۔ ان کی نوعیت کو سمجھنے کے جتنا ٹائٹن کی سطح کو دیکھا جا سکے دیکھا جانا چاہئے، بین کلارک کہتے ہیں۔ "ٹائٹن کی سطح میں چٹانیں ہیں تاہم چٹانیں پانی کی برف سے بنی ہوئی سمجھی جاتی ہیں۔ آپ کے پاس یہاں پانی ہے لیکن وہ ٹھوس پتھر کی طرح جمع ہوا ہے۔" اگر یہ زمینی ٹیلوں کے مشابہ ہوتے - سیلیکا ریت فرش کی چٹان سے نکل کر اوپر آ جاتی – ٹائٹن کے ٹیلے برف کے ہونے چاہئیں۔ لیکن ٹائٹن کے ٹیلے صرف پانی کی برف سے نہیں بنے ہیں۔ اصل میں وہ اس مادّے سے بنے ہو سکتے ہیں جو آسمان سے گرا ہو۔ کیسینی کے بصری اور زیریں سرخ نقشہ ساز طیف پیما تمام ٹیلوں کو تاریک دیکھتے ہیں۔ اگر وہ پانی کی برف کے ہوتے تو روشن نظر آتے۔ کیسینی کے ریڈار نے ایک اور سراغ دیا۔ بصری تصویر مہیا کرنے کے علاوہ ریڈار نے اس بات کے بارے میں بھی جانکاری دی کہ مادّہ کس طرح کا برتاؤ کرتا ہے۔ ریڈار کی موجیں سطح سے ٹکراتے ہوئے برق گزاری مستقل کو ناپتی ہیں، اعداد و شمار سائنس دانوں کو مادّے کے حجم اور ہئیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ٹائٹن کے ٹیلے وہ برق گزار مستقل دکھا رہے ہیں جو پانی کے ساتھ میل نہیں کھاتے بلکہ وہ باریک دانے والے نامیاتی مادّوں کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ راکھ جیسا ہائیڈرو کاربنی مادّہ آسمان سے برسا ہوگا جو سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں اور ٹائٹن کے کرۂ فضائی میں موجود میتھین کے باہمی تعامل کا نتیجہ ہوگا۔ "مادّہ وافر مقدار میں ہے،" لورینز کہتے ہیں،" لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کو جمع ہونے میں ارب ہا برس لگ گئے ہوں گے۔ کسی بھی ایک دن گرنے والی مادّہ کی مقدار نہایت خفیف ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ٹیلے اسی مادّے سے بنے ہیں جس نے ٹائٹن کے کرۂ فضائی کو نارنجی اور دھندلا کیا ہوا ہے۔ روشنی سے تبدیل ہوا کیمیائی مادّہ جس نے کرۂ فضائی کو بنایا ہے لگتا ہے کہ نیچے بہت ہی باریک ذرّات مائکرون کے ایک تہائی جتنے کہر کی صورت میں گرتا ہوگا لہٰذا ایک طرح سے یہ کہر کے گرنے جیسا ہی ہوگا۔ لیکن یہ اصل میں برف کے طوفان کی طرح نیچے نہیں گرتا ہوگا۔ آپ اس کو جمع ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اب اس مادّے نے جس نے ٹیلے کو بنایا ہے رنگ میں کافی گہرا لگتا ہے، اور اس کو لازمی طور پر کافی مقدار میں ہونا چاہئے تھا۔"

ایک خیال جو حال میں ہی پیش کیا گیا ہے اس میں ہائیڈرو کاربن کو آسمان سے تیرتے ہوئے سمندر میں اترتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔ مائع میتھین اور ایتھین کی کثافت ایسی ہوتی ہے کہ لگ بھگ اس میں ہر چیز ڈوب جاتی ہے۔ "آپ کسی بہت ہی پھولی ہوئی چیز کا تصوّر کریں جیسے مسام دار پتھر ، لیکن کوئی بھی قرین قیاس مادّے کا ڈھیر ٹائٹن کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔ چیزیں بہت آہستہ سے ڈوبیں گی کیونکہ قوّت ثقل کم ہے اور ذرّات اور مائع کے درمیان کمیت کا فرق کم ہوگا، تو میسو یخنی کا تصوّر کریں۔" لورینز کہتے ہیں۔


خاکہ 7.8 کیسینی "بلی کی کھرونچیں " (بائیں جانب) خطی ٹیلوں کی شکل میں اس وقت ابھرے جب ریڈار سے اچھی طرح ان کی چھان بین کی گئی۔

ذرّات آخر کار بیٹھ جاتے ہیں لیکن برق رسائی رو اتنی ہوتی ہے کہ ذرّات کو اوپر اٹھا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذرّات کے لئے کے ٹائٹن کے سمندر میں بیٹھنے سے پہلے جھنڈ بنانے کے خاصے موقع مل جاتے ہیں۔ لمبے برفانی دور جیسے عرصے میں ٹائٹن کا سمندر اصل میں خشک ہو گیا۔ یہ لمبے عرصے تک جاری رہنے والے چکر کرول میلانکو وچ چکر کہلاتے ہیں۔ ان چکروں کا انحصار سیارے کا سورج کے گرد اطمینان سے تبدیل ہوتے ہوئے مداری راستے پر ہوتا ہے۔

ٹائٹن کی صورت میں اس کے کرول میلانکو وچ چکر خود زحل کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جب زحل کا مدار آگے بڑھتا ہے تو زحل اور ٹائٹن دونوں پر ایک نصف کرۂ میں موسم لمبا ہوتا ہے جبکہ دوسرے پر چھوٹا۔ یہ تبدیلی ٹائٹن کے ایک نصف کرۂ پر سمندر کو خشک کرتی ہے اور دوسری جگہ میتھین کی نمی میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ ہمیں زمین کے سلسلے میں ایسے ہی ارضیاتی مظاہر دیکھنے کو ملے ہیں۔ نمک کی عظیم پرتیں بحیرہ ارب اور بحیرہ روم کے نیچے بچھی ہوئی ہیں، کیونکہ وہ کسی زمانے میں سمندری طاس تھے جو بالآخر خشک ہو کراب بند ہو گئے ہیں۔[1]


خشک ہوتے اس عمل میں ٹائٹن کے سمندر میں باریک ہائیڈرو کاربن کے ذرّات آپس میں قریب بطور دانے آ گئے تاکہ ریت کو بنا سکیں۔ ریت اڑ کر اپنا راستہ بناتی ہوئی استوائی حصّہ میں پہنچ گئی۔ ٹائٹن کے ماہرین سیاروی ایسی گاد کو دیکھتے ہیں جس میں ریت بنتی ہے، ہجرت کرکے بالآخر غائب ہو جاتی ہے۔ یہ سیاروی گاد کا منظرنامہ ٹائٹن کی سب سے بڑی پہیلی بنی ہوئی ہے۔ اصل میں یہ کافی حد تک مریخ جیسا سوال ہی ہے۔

خلائی جہاز سے کئے جانے والے لمبے عرصے کے مطالعہ اور ہمارے کمپیوٹر نمونوں کی بدولت ہم نے مریخ کے ماضی کے موسمیاتی حالات کے بارے میں کافی معلومات اکٹھی کی ہوئی ہے مریخ پر بھی بعینہ یہی کرول میلانکووچ چکر کی قسم کے ادوار پائے گئے ہیں جن کے چکر کا تخمینہ ٥٠ ہزار سے ایک لاکھ برس تک لگایا گیا ہے۔ اور اسی طرح کی مدار کے مخروط اور خمیدگی میں ہونے والی تبدیلیوں اور اس تبدیلی کہ گرمیوں میں کس قدر سورج کی روشنی میسر ہے ، کو مریخی قطبین میں گرد اور برف کی تہوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ اگر ٹائٹن کے دریا آج خوابیدہ ہیں لیکن یہ آبی گزرگاہیں مریخ کی آبی گزر گاہوں جیسی ہیں جو آج کے موجودہ حالات میں نہیں بن سکتی ہیں۔ مریخ کے اکثر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مریخ پر مختلف موسموں کے ہونے کا ثبوت ہیں، ایک گرم نم ماضی۔ اب تفتیش کاروں نے ٹائٹن کے بارے میں یہ تجربہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے، ہر چند کہ ٹائٹن کا موجودہ موسم اپنے متحرک مائیاتی چکر کے ساتھ مریخ کے حالیہ موسم سے کہیں زیادہ سرگرم ہے۔ حالیہ حاصل ہونے والی اطلاعات کی بدولت تفتیش کار وقت کے ساتھ ٹائٹن کے ارتقاء کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔


خاکہ 7.9 ٹائٹن کے ٹیلے سیاروی باد نما کے طور پر کام کرتے ہیں۔ تیر کے نشان ہوا کا رخ سیاروی پیمانے پر بتا رہے ہیں۔

سیاروی پیمانے پر ہونے والی ہمہ وقت نامیاتی ذرّات کی برسات کے ساتھ ٹائٹن کو شمال سے جنوب تک ٹیلوں سے ڈھکا ہوا ہونا چاہئے تھا، تاہم ایسا نہیں تھا۔ درحقیقت زیادہ تر ٹیلے استواء سے ٢٥ درجے یا ٣٠ درجے کی پٹی میں موجود ہیں۔ ان کا محل وقوع ٹائٹن کے ماحولیاتی چکر کا اہم اور بنیادی عامل لگتا ہے۔ زمین کے زیادہ تر ٹیلے استواء سے دو پٹیوں میں ٢٠ درجے یا ٣٠ درجے میں موجود ہوتے ہیں، کیونکہ زمین کافی تیزی سے گھومتی ہے ، اور استواء سے گرم اٹھتی ہوئی ہوا قطب کی جانب جاتی ہے اور زمین کی گردش سے کٹ جاتی ہے۔ لورینز واضح کرتے ہیں : "نیچے کنویں کی شاخ والی ہوا لگ بھگ ٢٠ سے ٣٠ درجے پر ہوتی ہے اور کیونکہ اس میں بادل بنتے ہیں، تو جو ہوا نیچے آتی ہے وہ خشک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو یہاں زمین پر ریگستان بناتی ہے۔ ٹائٹن پر گردش کیوں کہ بہت سست ہے لہٰذا یہاں پر استوائی پٹی پر خشکی ہوتی ہے۔" اس کی وجہ ٹائٹن کا ضخیم ٹیلوں کا علاقہ بنا ہے۔ سب سے بڑا ٹیلے کا سمندر بیلٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ٣ ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے ٹیلے کی چوٹی کی اونچائی ١٥٠ میٹر ہے۔


خاکہ 7.10 اونچی بلندی یا بلند عرض بلد پر (نیچے بائیں، فینسل )، ٹائٹن کے ٹیلے پتلے اور زیادہ پھیل کر الگ ہوئے ہیں جہاں مہین ریت سے ڈھکے ہوئے خالی جگہیں موجود ہیں۔ بیلٹ علاقے (اوپر بائیں) میں موجود ٹیلے چوڑے ہیں جن کے درمیان ریت کی موٹی چادر موجود ہے ۔

جنوبی افریقہ اور نمیبیا میں موجود کالا ہاری ٹیلے ایک ایسے علاقے میں موجود ہیں جہاں محدود تعداد میں گاد میسر ہے (نیچے دائیں) یہ فینسل ٹیلوں جیسا ہی اثر دکھاتی ہے۔ ٹائٹن میں موجود بیلٹ ٹیلے زمین پر عمان، یمن اور سعودی عرب کے ٹیلوں سے کافی مشابہ ہیں جہاں پر کافی گاد میسر ہے (اوپر دائیں)۔ عرض بلد کا اثر بتاتا ہے کہ "ریت"( جو لگتا ہے کہ ہائیڈرو کاربن پر مشتمل ہے) کو ٹیلے بنانے کی ضرورت زیادہ تر ٹائٹن کے نچلے حصّوں میں ہے۔ عمانی ٹیلے کی تصویر کو ہم ربع الخالی یا خالی ربع کے نام سے جانتے ہیں۔ ربع کی تصویر کو ایڈوانسڈ اسپیس بورن تھرمل ایمیشن اور ریفلیکشن ریڈیو میٹر (اے ایس ٹی ای آر) سے حاصل کیا گیا ہے ایک آلہ جو ناسا کے ٹیرا سیٹلائٹ پر لگا ہوا ہے۔

زمین پر ساحلی ٹیلے سانپ کی طرح جھیلوں اور سمندروں کے ساحل کے ساتھ چلتے ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی ٹیلہ زحل کے چاند پر نہیں ہے، جانی ریڈبا کہتے ہیں۔ "یہ واقعی دلچسپ بات ہے کہ ہمیں اس معمے کو حل کرنا ہے۔ کوئی بھی ٹیلہ ٦٠ درجے ارض بلد سے اوپر نہیں ہے۔" ٹیلوں کو بننے کے لئے کافی ہوا اور گاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو کافی خشک حالات بھی درکار ہوتے ہیں ، لہٰذا ریڈبا تجویز کرتے ہیں کہ قطبی علاقوں میں ٹیلوں کی عدم دستیابی ، جہاں پر میتھین کی جھیلوں کے ثبوت موجود ہیں، شاید میتھین کے بخارات کی بلند سطح کی وجہ سے ہے۔

ریڈبا نے چند خال خال ٹیلوں کو شناخت کیا ہے جو استواء سے اور دور ہیں۔ وہ زیادہ کثیف لگتے ہیں۔ تفتیش کار ریڈار کے گہرے مادّہ کو کم کثافت کے ساتھ نسبت دیتے ہیں، جس طرح سے نامیاتی دھول ۔ ریڈار کے روشن مادّے برف یا چٹان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ دورافتادہ ٹیلے روشن لگتے ہیں جس سے لگتا ہے ان کی بناوٹ مختلف ہے۔ ایک امکان یہ ہے کہ یہ منجمد ٹیلے ہیں جو کسی طرح ایک دوسرے سے جڑ گئے۔ ان کا رخ استوائی علاقے کے اہم ریت کے سمندر سے مختلف ہے، لہٰذا ایک خیال یہ ہے کہ یہ پرانے موسمی دور کی باقیات ہیں جب ہوائیں مختلف سمت میں چل رہی تھیں تو ان کے رخ کو بدل دیا تھا ۔ شاید نمی ماضی کے ادوار میں مختلف رہی ہے جن نے ریت کو مزید شمال میں دھکیل دیا تھا۔ یہ منظرنامہ مزید کرول میلانکو وچ تصویر کو واضح کرتا ہے۔

یہ ریت کا منبع ماضی سے جڑا ہوا ہے اور مریخ جیسے سیارے یا ٹائٹن میں کافی لمبی یادداشت ہوتی ہے۔ ٹیلوں کی تاریخ شاید ماضی میں ہزار برس یا بلکہ لاکھوں برس پیچھے تک جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑے ٹیلے کو بننے میں مخصوص ہوا اور موسمی حالت کے ساتھ دسیوں ہزار برس لگے ہوں گے۔ لیکن جب یہ حالات بدلتے ہیں تو ٹیلوں کی سمت اور بناوٹ موجودہ موسم کے لحاظ سے ترچھی ہوتی ہے۔ چھوٹے ٹیلوں کے خدوخال بنتے اور تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ لورینز اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مریخ کے بھی ایسے ہی حالات اس کے ٹیلوں کے ساتھ تھے۔ "بڑے ٹیلے مریخ کی وہ یادگار ہیں کہ اس کی ہوائیں کسی زمانے میں کیسی تھیں۔" اسی طرح ٹائٹن کا قریبی تجزیہ شروع کرتے ہی اس بات کو بتاتا ہے کہ جبکہ ٹیلوں کے نمونے بہ حیثیت مجموعی کافی ترتیب سے ہیں جو ایک پختہ حالت کے ختم ہونے کی نشانی ہیں، کچھ چھوٹے خدوخال کچھ ٹیلوں کے کناروں پر شاید بدلتے ہوئے موسم کا عندیہ دے رہے ہیں۔"

دونوں لورینز اور ریڈ با سمجھتے ہیں کہ ٹائٹن ٹیلوں کے میدان آج بھی کافی سرگرم ہیں۔ ریڈبا اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ کیسینی کے ریڈار نے کسی مخصوص تبدیلی کا سراغ نہیں لگایا لیکن ان کو اس کی امید بھی نہیں تھی۔


خاکہ 7.11 ریتیلے ٹیلوں نے ایک بڑے شہابی گڑھے پر قبضہ کر لیا جس کا قطر ٤٠ کلومیٹر کا تھا۔

ہماری ریزولوشن کافی کم تھی۔ زمین پر بھی جہاں ہوائیں اونچی ہوتی ہیں ١٧٠ میٹر بلندی پر کچھ برسوں تک سرگرمی کو دیکھنا بھی کافی لمبا عرصہ ہو سکتا ہے۔ تاہم کچھ ایسی نشانیاں ہیں جو یہ بتا رہی ہیں کہ یہ ٹیلے کچھ زیادہ ہی جوان ہیں بلکہ کافی سرگرم بھی لگ رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہاں بارش ہوتی ہے، اس کے باوجود ہم وہاں مضبوط دریائی گزر گاہوں کے ثبوت ٹیلوں کو کاٹتے ہوئے نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔

نمیبیا میں بھی بڑی، سوکھی دریائی وادی ٹیلوں کے درمیان بنی ہوئی ہے جس کو اب ہوا اپنے ساتھ اڑا رہی ہے۔ مزید براں جیسا کہ ویمس نے دیکھا کہ بین ٹیلہ علاقے ایسے صاف ہیں جیسے کسی نے یہاں جھاڑو لگا دی ہو ان تمام باتوں کے باوجود بھی اگر وہ زبردست قطع و برید کے عمل سے گزر رہے ہیں تو اندرونی ٹیلوں کو لازمی طور پر ڈھکا ہوا ہونا چاہئے تھا جس طرح سے نیبراسکا ریت کی پہاڑیاں ہیں ۔ میں تو فی الحال حرکت کرتے ہوئے ٹیلوں کے ساتھ ہوں۔

ٹائٹن کے ان عجیب ہائیڈرو کاربن سے بنے ہوئے ٹیلوں کی بناوٹ اور منتقلی کا انحصار چاند کی متحرک کثیف ہوا پر ہے۔ اور ہرچند کہ ٹائٹن کے کرۂ فضائی کی اکثریت نائٹروجن پر مشتمل ہے اس کا دوسرا سب سے وافر جز میتھین ہے جو کیمیا اور موسموں کو بنانے والا اصل محرکی قوّت ہے۔ کیونکہ سورج کی روشنی میتھین کو تباہ کر دیتی ہے، لہٰذا گیس کو ٹائٹن کے کرۂ فضائی میں بہت تھوڑے عرصے تک رہنا چاہئے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ کوئی چیز اس کو دوبارہ سے بھر رہی تھی۔



[1] ۔ بے شک بحیرہ روم اور بحیرہ عرب پانی سے بھرے ہوئے ہیں تاہم یہ بات ان کو ٹائٹن میں واقع کچھ شمالی جھیلوں سے اور زیادہ بہتر طور پر تشبیہ دیتی ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 4
برفیلے آتش فشاں اور دوسرے ٹپکنے والے ماخذات


سیاروی سائنسی دنیا میں اس بات پر اتفاق قائم ہو رہا ہے کہ ٹائٹن کا اندرون اس کے آسمانوں میں ارتقائی ادوار میں میتھین کو اس میں بھر رہا ہے ۔ تشکیل کے ابتدائی برسوں میں جب چاند شمسی سحابیہ سے بن رہا تھا ، تو ایک چٹانی قلب پانی کے غلاف کے نیچے بن گیا تھا۔ پانی کی برف غلاف کے اوپر چڑھ گئی تھی۔ کچھ لاکھوں برس کے دوران چاند بننے کے دوران پیدا ہونے والی حرارت نے قلب میں تابکار عناصر کی تابکاری سے پیدا ہونے والی گرمی کے ساتھ مل کر قشر کو پگھلا دیا جس سے میتھین کو نکلنے کا موقع ملا۔


دوسری مرتبہ میتھین لگ بھگ ٢ ارب برس پہلے اس وقت نکلی جب ٹائٹن کے سیلیکٹ قلب نے ایصال حرارت شروع کی۔ حرارت کے اس ارضیاتی پھٹاؤ نے دوبارہ قشر کو پگھلا دیا اور یوں میتھین باہر نکل گئی۔ پانی کی برف کے ساتھ امونیا نے مل کر قدرتی طور پر ضد انجماد کا کام دیا، شاید اسی وجہ سے وسیع پیمانے پر برفیلے آتش فشاں پھیلے۔


جب اس شدید دور سے گزر کر ٹائٹن پرسکون ہوا تو میتھین اور پانی کی برف کے آمیزے نے جالی سی بنا دی جس کو مشبّک کہتے ہیں۔ اس مشبّک قشر نے خالص برف کی تہ پر بتدریج موٹا ہونا شروع کر دیا۔ ایصال حرارت اس بیرونی پرت میں خود سے شروع ہو گئی ہوگی، اور یوں اس میں قید ہوئی میتھین کو آزادی چشموں کی دھاروں یا گیس کے زمین سے نکلنے کی صورت میں مل گئی ہوگی۔ چاہئے ٹائٹن کے سیاروی ارتقاء نے اس تفصیل پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو، اکثریت کا خیال ہے کہ میتھین آج لازمی فرار ہو رہی ہوگی اور کرۂ فضائی کو ایک مستحکم شرح سے بھر رہی ہوگی۔ لیکن اگر ایسا ہے تو یہ آ کہاں سے رہی ہے؟


خاکہ 7.12 دوممکنہ برفیلی آتش فشانی جگہیں۔ بائیں: بہاؤ نے ہو ٹے آرکس کے ارد گرد سطح پر داغ ڈال دیا ہے۔ وسط میں: سورٹا پٹیرا کا محل وقوع، ایک دائروی پہاڑی بناوٹ، جو کمپیوٹر سے بنائے ہوئے سہ جہتی نمونے کے ساتھ (دائیں طرف)


گیسوں کے برفیلے آتش فشانوں سے باہر نکلنے کے ثبوتوں کی تلاش جاری ہے۔ جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں سائنس دان کافی آتش فشانوں سے متعلق کافی چیزوں کا مطالعہ کر رہے ہیں، بشمول اس علاقے کے جس کو ہوٹے آرکس کہتے ہیں۔"ویمس نے دو علاقوں میں روشن تبدیلیاں دیکھیں ہیں، ہوٹے ریجیو اور مغربی زناڈو دونوں جگہ، ریڈار نے شکلیات کا بہاؤ برفیلے آتش فشانوں سے ملتا ہوا دیکھا ہے۔" جے پی ایل کے روسالے لوپس کہتے ہیں۔ اکتوبر ٢٠٠٥ء سے لے کر مارچ ٢٠٠٦ء تک کیسینی نے ہوٹے آرکس کے قریب سے تین مرتبہ اڑان بھری۔ لوپس اور دوسرے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ویمس کی تصاویر نے ہر مرتبہ سطح کو پہلے سے زیادہ تاریک دکھایا ہے۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ - برفیلے آتش فشاں، فوق سرد آتش فشانی سرگرمی ہو سکتی ہے۔ ہوٹے کی جانچ یو ایس جیالوجیکل سروے ،فلیگ اسٹاف کے رینڈل کرک بھی کر رہے ہیں۔ کرک ویمس کے اعداد و شمار کے بارے میں متشکک ہیں، اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ہوٹے آتش فشانی بہاؤ کی خاصیت رکھتا ہوا لگتا ہے ۔"ریڈار سے پہلے پہل دیکھنے میں باہر کو نکلی ہوئی چیز اور کونا اور گوشے دار جیسی قسم لگتی ہے جو لاوے کے بہاؤ یا دوسرے لیس دار مادّوں کے ساتھ اکثر ملتی ہے۔ کچھ کے خیال میں یہ گاد کے ذخیرے تنگ گزر گاہوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اس علاقے میں بہ رہی تھیں۔" پھر کرک کی ٹیم نے دوسری اڑان میں ریڈار سے حاصل کردہ معلومات کو پرکھا، جس سے وہ اس قابل ہوئے کہ علاقے کی تصویر بنا سکیں۔ "ہم نے وہاں ان کی موٹائی ١٠٠ سے ٢٠٠ میٹر تک پائی تھی؛ آبی گزرگاہیں بنیادی سطح پر آ گئی تھیں۔"


نئے حاصل ہونے والے اعداد و شمار نے بتایا کہ آبی گزرگاہیں سطح سے اوپر مینار بنانے والے بہاؤ کا ذخیرہ نہیں کر سکتی تھیں۔ کافی ساری دوسری جگہوں پر ممکنہ برفیلے آتش فشانوں کے نشان دیکھے گئے۔ کچھ جگہوں پر تو میدان میں سوراخ بھی ملے، جس طرح سے دہانہ یا آتش فشانی گڑھا ہوتا ہے جس میں سے گاڑھا سانپ کی طرح بل کھاتا بہاؤ بعینہ سیلیکٹ لاوے کے بہاؤ جیسا نکلتا نظر آ رہا تھا ۔ ایک اور علاقے ٹیو ریجیو میں بھی یہی منفرد طیف ملا جو ہوٹے میں تھا اور یہاں پر بھی ایسے ہی بہاؤ جیسی خاصیت موجود تھی۔ ٹائٹن پر بہت ساری بناوٹوں کی طرح کچھ بہاؤ پریشان کن اور پراسرار ہیں۔ واضح طور پر کوئی چیز سطح پر تو بہی ہے ، لیکن بہاؤ کے نمونے اتنے زیادہ منتشر ہیں کہ وہ مہین یا موٹے دونوں اور آتش فشانی بھی یا پھر میتھین کی بارش سے دھلنے والے بھی ہو سکتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 5
ٹائٹن کے پہاڑ

سائنس اور انتباہ



ٹائٹن کی تحقیق کافی تنبیہی کہانیاں دیتی ہے۔ کیسینی مہم کی شروعات میں ایک شاندار ساخت نظر آئی جس نے تفتیش کاروں کو دوسرے جہانوں کے آتش فشانوں کی یاد دلا دی۔ ریڈار کی تصاویر نے ایک ١٨٠ کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے دائروی خدوخال کا پتا لگایا جس کا نقشے بنانے والوں نے گنیزا ماکولا نام رکھا۔ ہرچند کہ پہلی اڑان میں اس کی مقامیت سے متعلق کچھ زیادہ مواد موجود نہیں تھا ، لیکن پہاڑی خدوخال زہرہ یا زمین پر موجود آتش فشانوں جیسے تھے، بالخصوص چپٹے کیک جیسے گنبد یا ڈھالی آتش فشانوں جیسے۔


گنیزا اسی حجم کا تھا جس حجم کا بڑا ڈھالی آتش فشاں زمین پر ہے۔ گنبد کی چھت نسبتاً چپٹی تھی جبکہ وسطی جھکاؤ ٢٠ کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ محققین نے اس جھکاؤ کو آتش فشانی دہانہ سمجھا۔ سینوس گزرگاہ نے مرکزی شہابی گڑھے سے پہاڑی کے اندر جاتے ہوئے گزرگاہ کو زخمی کیا تھا ، یوں یہ بالکل تمام جہانوں میں نظر آنے والے پہاڑ کے ایک جانب گزرنے والے برفانی لاوے کی گزر گاہوں جیسی لگتے تھے۔ مزید براں بہاؤ کے خدوخال جو گنبد سے خارج ہوتے نظر آتے تھے وہ ترجیحی طور پر جنوب اور مشرقی حصّے کی جانب تھے جو اتار چڑھاؤ کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ ایک آتش فشانی ماہر نے تبصرہ کیا، "قیاسی بہاؤ کی شکلیات جو گنیزا کے جنوب اور مشرق جانب سے نکل رہی ہیں یہ کسی لیس دار چیز کے بہاؤ کا نشان نہیں ہیں۔ اس کے برعکس وہ مہین، چادر جیسی اور چوڑی ہیں۔" اگر گنیزا اصل میں ٹائٹن کے آتش فشانوں کو اگلنے والی ہوتی، تو اس کا پہلو پانی کے لاوا کے بہاؤ سے کسا ہوا ہوتا جو یک بیک پہاڑ کی جانب سے ایسے گرتا جیسا کہ ارضیاتی برفانی تودے۔



ایک دوسری ریڈار کی اڑان یہاں پر کافی برسوں بعد کی گئی جس نے تفتیش کاروں کو گنیزا کی تصویر کو جوڑنے میں مدد دی۔ گنبد جیسا ہونے کے بجائے "پہاڑ" لگ بھگ سیدھا چپٹا نکلا۔ اس کے بہاؤ اور شکلیات اب بھی اسرار میں ہی ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر ای ایس اے کے ہائی گنز کھوجی نے دوسرے سراغ حاصل کیے جو آتش فشانوں کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ سطح کی تصاویر ایسے کوئی بھی خدوخال نہیں دکھا رہے ہیں جو صریحی طور پر برفانی آتش فشانی ہوں، لیکن ہائی گنز نے ٹائٹن کے کرۂ فضائی میں آرگان کے تابکار ہم جا کا سراغ لگایا ہے۔ اس کی موجودگی اس جانب اشارہ ہے کہ کرۂ فضائی کا رابطہ لازمی طور پر زیر زمین پوٹاشِيَم سے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹائٹن کے قلب میں پوٹاشِيَم والا مادّہ زیادہ تر سیلیکٹ چٹانوں نے ہی بنایا ہے۔ برفانی آتش فشاں تو صرف ایک ذریعہ ہیں جو اس مادّے کو سطح پر لے کر آتے ہیں۔



خاکہ 7.13 گنیزا ماکولا کا کیسینی کے ریڈار سے حاصل کردہ پہلی تصویر، اوپر، جس نے مشاہدین کو یہ نتیجہ اخذ کروایا کہ یہ خدوخال شاید زہرہ کے چپٹے کیک جیسے آتش فشاں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ نیچے ایک ابتدائی – اور غلط توضیح ہے۔


پہاڑ​


مذکورہ بالا ساختیں چاہے آتش فشانی ہوں یا نہ ہوں اس بات کو ابھی جاننا باقی ہے۔ متشکک تجویز کرتے ہیں کہ ہوٹے اور دوسرے نظریاتی آتش فشانی علاقے شاید نیچے سے اوپر اٹھنے کے عمل یا پہاڑوں کے بنانے کے دوسرےعوامل کا نتیجہ ہوں۔ لیکن ٹائٹن میں دوسری قسم کے پہاڑ موجود ہیں جو اتنے ہی پراسرار ہیں۔


کافی لوگوں کے لئے ٹائٹن کی پہاڑی چوٹیاں کافی حیرانگی کی بات ہیں۔ صرف اس حجم کے دو دوسرے چاند کیلسٹو اور گینی میڈ پر شہابی گڑھوں کا راج ہے اور گینی میڈ پر تو کھانچے دار سطح موجود ہے۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ ٹائٹن پر زیادہ تر پہاڑ شہابی گڑھوں کی باقی بچے ہوئے کنارے یا وسطی چوٹیاں ہیں۔ ماہرین ارضیات ان پہاڑوں کے ماخذ کی چار ممکنہ وجوہات بیان کرتے ہیں:

١۔ پہاڑ نیچے سے پھٹ کراس وقت نکلے ہیں جب قشر کے دو علاقوں نے ایک دوسرے کو دبانے کے عمل میں دھکا دیا ہوگا۔

٢۔قشر کے دو حصّے الگ ہو گئے؛ ایک باقی رہا جبکہ دوسرا چھٹ گیا، جس نے لمبوترا گڑھا یا ارضی ابھار بنایا، پہاڑی ڈوبے ہوئے حصّے کے بعد بچ گئی۔ اس عمل کو توسیع کہتے ہیں جو ممکنہ طور پر گینی میڈ پر غالب ہے (پانچواں باب دیکھیں)۔

٣۔ پہاڑیاں اس مادّے کی باقیات ہیں جو بڑے شہابی تصادم کے باعث نکلا تھا۔

٤۔ کٹاؤ نے مادّے کو پہلے سے موجود میدان سے دور کر دیا جس کی وجہ سے چھوٹے نسبتاً اونچے قطعہ زمین بچ گئے۔ (ہم اس عمل کو یورینس کے چاند ایریل پر آٹھویں باب میں دیکھیں گے۔)


کچھ یا تمام کے تمام عوامل شاید کام کر رہے تھے، جانی ریڈ با کہتے ہیں۔ "یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کہاں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں پر کافی لمبی زنجیریں ہیں۔۔۔ جو متوازی ہیں اور ان کا رجحان مشرق/مغرب کی جانب ہے۔ ہم ان کے منقبض تشکیل کے آگے کی جانب جھک رہے ہیں۔" لیکن شہابی گڑھے سن لیپ سے ٢٠٠ کلومیٹر دور بہت ساری پہاڑیاں بالکل الگ ہی نوعیت کی ہیں۔ شروع میں سرخی مائل دکھنے والی یہ چوٹیاں شہابی گڑھے کے وسط سے نکلتی ہوئی لگتی ہیں جیسا کہ یہ تصادم کے نتیجے میں سن لیپ سے خود سے نکلی ہوں۔ حساب بتا رہے ہیں کہ ٹائٹن کا کثیف کرۂ فضائی اور کم قوّت ثقل کی وجہ سے تصادم سے نکلنے والے مادّے کا کافی سارا حصّہ نسبتاً محفوظ حالت میں باہر آیا ہوگا۔ لیکن بعد کی تحقیق اس منظر نامے کی تردید کرتی ہوئی لگتی ہے۔" ریڈ با کہتے ہیں۔ "یہ باقیات کے سلسلہ کا حصّہ لگتے ہیں جس کو سیلابی یا ہوائی عمل نے چاک کر دیا ہے۔ یہ بات حقیقت میں اس ایک ممکنہ نمونے کے خلاف ہے جو میں نے پہاڑی مقالہ میں پہلے اس پر لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ شہابی گڑھے سے نکلے ہوئے پہاڑ ہونے چاہئیں - میں نہیں سمجھتا کہ ثبوت یہاں پر موجود ہیں۔"


جنوب سے دور اور سن لیپ کے مغرب میں ایک علاقہ زیناڈو کہلاتا ہے جہاں لگتا ہے کہ ناہموار پہاڑوں کو دریائی عمل نے کاٹا ہے۔ زیناڈو پہاڑی چوٹیوں کا وسیع علاقہ ہے جو ایک دوسرے میں گھسی ہوئی ہیں جن کو دریائی وادی نے قطع کیا ہوا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کہ پورے میدان میں انہوں نے مادّے کو بکھیر دیا ہے۔ رینڈل کرک کہتے ہیں کہ "پوری گھاٹیوں کا نظام چپٹے سطح مرتفع میں ڈھل گیا ہے جنوب مشرق صحرا کی طرح ۔۔۔ بالکل بریس گھاٹی کی طرح۔"


ٹائٹن کی برفیلی پہاڑیاں کوئی بڑے پہاڑی سلسلے نہیں ہیں؛ ان کی دھیمی کھنچی ہوئی ڈھلانیں ہیں۔ اونچائی ١٢٠ میٹر سے لے کی ١٠٠٠ میٹر تک کی ہے۔ یکساں ارتفاع حیرت انگیز ہے۔ آخر کیوں تمام چوٹیوں کی اونچائی ایک جیسی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ پہاڑیاں قدیمی ہوں اور بہت زیادہ کٹاؤ کے عمل سے گزری ہوں۔ شاید ان کے اوپر ایک گرم برف کی تہ موجود ہو جو ایک مخصوص اونچائی تک پہنچنے کے بعد مزید اضافہ نہ کرنے دیتی ہو۔ ان کے کٹاؤ کی شرح ٹائٹن کی سطح بنانے والی پانی کی برف میں کثافت کے ساتھ متغیر ہو سکتی ہے۔ مزید تفصیل سے تصاویر لینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ تمام پہاڑ قدیم ہیں یا اگر وہ بننے کے مختلف مراحل میں موجود ہیں تو کس چیز سے منضبط ہیں۔



خاکہ 7.14 ایڈیری علاقے میں موجود متوازی پہاڑی سلسلے(بائیں) اور زیناڈو کی شمالی سرحد۔


خاکہ 7.15شگافی خط سلوٹوں والے پہاڑوں کو دو علاقوں میں ٹائٹن کے میدان میں کاٹ رہے ہیں۔ شہابی گڑھے سے خارج زدہ لاوے جیسے سن لیپ کو کبھی یہ سمجھا جاتا تھا کہ انہوں نے پہاڑی سلسلوں کو بنایا ہے۔


ٹائٹن کی پہاڑیاں دوسرے سیاروں کی اوپر اٹھی ہوئی سلوٹوں والی پہاڑیوں سے الگ ہیں۔ یہ زہرہ کے پہاڑی سلسلوں سے بھی مختلف ہیں، جو سطح پر تہ کی ہوئی لگتی ہیں۔ اس قسم کی تہ کا کوئی بھی ثبوت زحل کے چاند پر نہیں پایا گیا۔ بہرحال یہ زمین پر موجود پانی کے کٹاؤ والی پہاڑیوں سے ملتی ہیں۔ ریڈ با کہتے ہیں کہ یہ اہم بات ہے۔" زمین پر دریائی گزر گاہوں سے بنی زمین کا غلبہ ہے۔ دوسرے سیاروں پر شہابی گڑھوں سےداغ دار زمین کا غلبہ ہے۔ اب ہم نے ٹائٹن کو دیکھا جہاں سطح کے اہم حصّے کو زمین کی طرح دریاؤں نے بنایا ہے۔" جنوبی علاقوں میں گزرگاہیں میدانوں کو مختلف شدت کے ساتھ کاٹتی ہیں ۔ کچھ سطح کو رگڑتی ہیں، جبکہ کچھ گھاٹیوں کو ڈھلوان کی صورت میں کاٹتی ہیں۔ فرق شاید اس مادّہ کی کثافت میں تفاوت کی وجہ سے ہوتا ہے جو اس کی سطح پر بہت ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 6
ٹائٹن کی جھیلیں اور دریا

ہمارے جہاں کے علاوہ ٹائٹن وہ واحد جگہ ہے جہاں پر دریاؤں اور جھیلوں سے ہونے والی تبخیر سے بارش کا ایک سرگرم چکر چل رہا ہے۔ اس کی دریائی وادیاں مائع سے بھرے طاس کی نکاسی کرتی لگتی ہیں، کچھ تو بحیرہ اسود جتنی بڑی ہیں۔ سائنس دان ٹائٹن کی سطح پر مائع میتھین اور ایتھین کے پائے جانے کا ١٩٦٠ء کی دہائی کے اواخر سے اندازہ لگا رہے ہیں۔ وائیجر کے بعد سیاروی سمندر کا خیال تو رائج تھا۔ لیکن دور سے سراغ لگانے والے زمینی اور ہبل خلائی دوربین سے حاصل کردہ اعداد و شمار کیسینی سے حاصل کردہ شروع کی اطلاعات کے ساتھ مل کر بتا رہے تھے کہ ٹائٹن ایک صحرائی دنیا ہے۔ مائع کے سطح پر ذخیرے ٢٠٠٦ء تک صرف امید بھری قیاس آرائیاں ہی تھیں۔

اسی برس کیسینی خلائی جہاز پر موجود امیج سائنس سب سسٹم نے پہلی جھیل کا مشاہدہ کیا۔ تصویر ایک گہری جگہ جنوبی قطب کے قریب دکھا رہی تھی جس کو اب ہم لاکوس اونٹاریو کے نام سے جانتے ہیں۔ ریڈار سے گہری نظر والی یہ جھیل شمالی امریکہ کی اسی نام کی عظیم جھیل جیسی لگ رہی تھی۔ علاقے کی ریڈار کے آلات نے کافی مفصل تصویر حاصل کی تھی۔ بعد میں کیسینی کے ریڈار کی آنکھوں نے نارنجی کہر کے نیچے جھانکا اور اس کو سینکڑوں چھوٹی جھیلیں ملیں جس میں زیادہ تر کھوکھلی جگہ پر ٹائٹن کے شمالی قطبی علاقے کی جانب تھیں۔

کافی سطحی ثبوت اس بات کی ترجمانی کر رہے تھے کہ وہ علاقے بجائے سادے میدانوں کے جھیلیں تھیں: (١)ان کی شکلیات ارضی جھیلوں جیسی اور ان کا تعلق دریا جیسے خدوخال (آبی گزر گاہوں، ڈیلٹا وغیرہ) سے تھا ؛ (٢) نچلا ریڈار معکوس انتشار بتا رہا تھا کہ سطح کافی ہموار ہے؛(٣) قطبی علاقوں میں میتھین کی کافی زیادہ نمی ، یہ تمام باتیں کمپیوٹر کے ماحولیاتی اور موسمی نمونہ جات سے لگائے گئے اندازوں کے عین مطابق تھیں۔؛ (٤) اشعاع پیما سے ان علاقوں کی حاصل کردہ روشنی کی سطح آس پاس کے علاقے سے کافی درجے زیادہ تھی، یہ چیز بلند اشعاعیت کے ساتھ اس قسم کی مائع کے سطح سے ملتی جلتی تھی جیسے میتھین، ایتھین ، بٹھین اور اس سے ملتے جلتے مادّے۔ اشعاع پیما کی روشنی ریڈار کی روشنی سے الگ ہوتی ہے، یہ آلہ بتا سکتا ہے کہ سطح سے کتنی توانائی خارج ہو رہی ہے۔ گرم سطح ٹھنڈی سطح کے مقابلے میں زیادہ توانائی خارج کرتی ہے، اور جھیلیں زیادہ توانائی خارج کرتی ہوئی لگ رہی تھیں – وہ آس پاس کی زمین سے زیادہ گرم تھیں۔

بعد کی اڑانوں نے عظیم الجثہ جھیلوں کا پتا دیا جو حجم میں بعینہ ارضی اندرونی سمندروں جیسی تھیں۔ اپنے حجم کی وجہ سے ان کو جلد ہی ماریا کہا جانے لگا جس کا لاطینی میں مطلب سمندر ہی ہے۔ اس وقت تک ابھی تین ہی ایسی ملی ہیں۔ چھوٹی سے لے کر بڑی ترتیب میں ان کے نام یہ ہیں، پونگا مئیر ، لیجیا مئیر، اور کریکن مئیر۔ ٹائٹن کی جھیلیں اور سمندر حجم میں بہت زیادہ متنوع فیہ ہیں کیسینی ریزولوشن کی حد( ٣٠٠ سے لے کر ١٠٠٠ میٹر ) کریکن مئیر سے چار لاکھ مربع میل اوپرتک ۔ موازنے کے لئے شمالی امریکہ کی جھیل برتر ٨٢ ہزار مربع کلو میٹر ہے اور یورپ اور ایشیا کا بحیرہ اسود ٤٣٦٤٠٠ مربع کلومیٹر ہے۔

ٹائٹن پر پائےجانے والے بڑے سمندر کی ناہموار ساحل اسکینڈی نیویا کی فیورڈ چٹانی کھاڑی کی رشتے دار لگتی ہے۔ چند بڑی جھیلوں میں بھی اس قسم کے ناہموار خدوخال ہیں، لیکن چھوٹوں کے بہت ہی مختلف خصائص ہیں۔ یہ زیادہ تر دائروی، بیضوی یا خمیدہ ساحل ہیں اور ان کے کنارے کافی ڈھلوان والے ہیں۔ ان کھڑی چٹانوں کے کناروں کی وجہ سے کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ جھیلیں منہدم یا پگھلنے کے نتیجے میں بنیں ہیں، جس طرح سے گول جھیلیں پگھلتی ہوئی برف کا نتیجہ ہوتی ہیں جو زمین پر جاتے ہوئے برف کے تودے کے بعد پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اس قسم کی زمین معدنی علاقہ کہلاتی ہے۔ زمین پر ایسے علاقے کافی مسام دار اور اکثر شکستہ ہوتے ہیں ، جن کے نیچے زیر زمین پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔ ٹائٹن پر بھی ایسا ہو سکتا ہے، یہ جھیل کے علاقے زیر سطح میتھین کے آب اندوخت کی نکاسی کرتے ہیں جو اپنا راستہ نیچے کی طرف بناتی ہیں اور بالآخر سمندر کو بھرتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ زیر زمین دریاؤں کا جال ٹائٹن کے میتھین کے کرۂ فضائی کا ایک بہت ہی اہم حصّے دار ہوگا۔


خاکہ 7.16 لگ بھگ ٥٠٠ کلومیٹر پھیلا ہوا، شاندار لیجیا مئیرٹائٹن پر دوسری بڑی مائع کا ذخیرہ کرنے والی ہے۔ یہاں پر اس کی ریڈار میں نظر آنے والی تصویر بناوٹی رنگ میں ہے۔ بشمول: پراسرار غائب ہوتا " جادوئی جزیرہ"

اگر جھیلوں کا ماخذ معدن ہے، تو وہ ٹائٹن کی جھیلوں اور سمندروں کی کیمیا کے مضمرات کے بارے میں بیان کر سکتی ہیں۔ جھیل میں ہائیڈرو کاربن کی درست آمیزش معلوم نہیں ہے، لیکن لگتا یہی ہے کہ اس آمیزے میں ایتھین اور میتھین کا ہی غلبہ ہوگا۔ ہرچند کہ میتھین کی بارش کا اندازہ ایتھین سے سو گنا زیادہ لگایا گیا ہے - جو شاید رسوبیت سے ملتی ہے - میتھین ، ایتھین کے مقابلے میں زیادہ جلد اڑنے والی ہے۔ سطح پر موجود میتھین تیزی سے تبخیر ہو جائے گی۔ وقت کے ساتھ ایک ساکن مائع جسم پائیدار ایتھین سے جلد ہی بھر جائے گا اس صورت میں ایتھین کا غلبہ ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اب تک کوئی نہیں جانتا کہ ٹائٹن کے زیر زمین کتنا مائع تقسیم ہوا ہے۔ اگر اور مزید چھوٹی جھیلیں معدن ہوئیں تو یہ ممکن ہے کہ تمام قطبی جھیلوں کے علاقے میں زیر زمین وسیع دریائی نظام ہوگا جس نے جھیلوں کو سمندروں سے غیر مرئی آبی گزر گاہوں کے جال کی صورت میں جوڑا ہوا ہوگا۔ اگر بہاؤ ایک سمت سے اونچی اوپر جھیلوں سے نیچے سمندر کی طرف ہوگا تو سمندروں میں ایتھین کی زیادتی ہوگی کیونکہ زیادہ تر ایتھین سمندروں میں ہی جمع ہوگی۔ چھوٹی جھیلوں میں شاید زیادہ مائع میتھین کی مقدار ہوگی۔

یہ بتانا مشکل ہے کہ ٹائٹن کی جھیلیں کتنی بھری ہوئی ہیں۔ اصل میں مہم کے شروع میں کچھ ٹائٹن کے محققین تو اس بارے میں متشکک تھے کہ آیا کہ کیسینی نے مائع کو دیکھا بھی ہے کہ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹائٹن کی جھیلیں اور سمندر ریڈار آلات میں شفاف نظر آتے ہیں۔ مائع کی سطح ہموار ہوتی ہے، لہٰذا وہ آئینہ کی طرح برتاؤ کرتی ہے۔ آنے والی ریڈار کی اشعاع تھوڑے سے اچٹتے ہوئے زاویہ سے پڑتی ہے اور منعکس ہو جاتی ہے اور یوں تاریک تصویر ملتی ہے۔ لیکن مائع میتھین ریڈار کی کچھ اشعاع کو گہرائی میں جانے دیتی ہے، جس طرح سے روشنی صاف پانی کی جھیل سے گزرتی ہے۔ یہ ریڈار کی شعاعوں کو کچھ دس بلکہ سینکڑوں میٹر تک آہستہ آہستہ غائب ہونے سے پہلے یا جھیل کی ناہموار فرش سے ٹکرا کر واپس جانے سے پہلے سرایت کرنے دیتی ہے۔ یہ شفافیت میتھین /ایتھین کے چشموں کے کنارے یا ساحل کے شروع ہونے کے بارے میں کافی مشکل صورتحال پیدا کرتی ہے۔

کچھ زیر سطح آبی گزرگاہیں ٹائٹن کے سمندروں کے اندر میں دیکھی گئی ہیں، اور محققین ان کی گہرائی کو– یا کم از کم عمومی ڈھلان - کو لمبائی کے ساتھ ناپنے کے قابل ہو گئے تھے ۔ کیونکہ دریا پہاڑ سے نیچے بہتے ہیں، یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اگر یہ پہاڑ کے نیچے دریائی وادیاں ہیں تب تو آبی گزرگاہیں بتدریج نیچے جاتے ہوئے تاریک ہوتی جائیں گی، کیونکہ خلائی جہاز ان کو بتدریج گہرے مائع میں سے دیکھے گا۔ حقیقت میں اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے۔


خاکہ 7.17ٹائٹن کی کچھ شمالی جھیلوں کی ناہموار ساحلی پٹی اسکینڈنیویا فیورڈ کی یاددہانی کراتی ہے۔ وسط : عظیم جزیرہ میاڈا انسولا ٹائٹن کے سب سے بڑے سمندر کریکن مئیر جو بحیرہ اسود جتنا بڑا ہے اس کے اندر واقع ہے۔ دائیں: ریڈار کی مختلف تاریکیاں شاید ان کی گہرائی یا پھر میتھین کی کیچڑ کو بیان کر رہی ہیں۔ ان دائروی جھیلوں کی ہئیت شاید معدن کی ہے ۔

٢٠٠٩ء میں ویمس نے سب سے بڑے سمندر کریکن مئیر کے اوپر سورج کی روشنی کی کوند کو دیکھا، اور یوں باقی بچا ہوا شک بھی دور ہو گیا کہ اصل میں ٹائٹن کے تاریک علاقے سمندر ہی ہیں۔ محققین اب کیسینی ویمس کا استعمال کرتے ہوئے موجی حرکت کی تلاش اس علاقے میں کر رہے ہیں جہاں سورج کی روشنی نے سطح پر کوند پیدا کی تھی۔ وہ موجوں کا سراغ دوسرے طریقوں سے بھی ریڈار کے ذریعہ لگا رہے ہیں۔ کچھ مخصوص حجم کی موجیں کیسینی کے سینتھیٹک آپرچر ریڈار کی موجوں کو منتشر کرتی ہیں اور یوں تصویر روشن ہو جاتی ہے۔ جب ریڈار کو مقام نگاری کے لئے نیچے کیا جاتا ہے تو ریڈار کے تاریک علاقے ٣ ملی میٹر سے کم کی موجوں کو دکھا سکتے ہیں۔ ابتدائی تجزیوں نے کافی ممکنہ موجی حرکت کو جھیلوں کے اوپر دکھایا ہے۔ ایک اور مظہر اس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ موجیں سطح پر بلبلے یا جھاگ بناتی ہیں۔ کیسینی نے ایک روشن جزیرہ اپنی جولائی ٢٠١٣ ء کی اڑان میں دیکھا ہے۔ یہ روشن علاقہ پرانی اڑانوں میں لیجیا میئر میں مکمل طور پر غائب تھا۔ یہ پراسرار طریقے سے جس طرح سے غائب ہوا تھا ویسے ہی واپس ظاہر ہو گیا۔ یہ سولہ دن بعد کی اگلی اڑان میں نمایاں طور پر غائب ہو گیا تھا۔

آگے آنے والی موجوں کے علاوہ ضو فشانی شاید بلبلوں کی وجہ سے تھی جو سمندر کی تہ سے یا سطح پر تیرتی ہوئی برفیلی کیچڑ سے نکل رہے تھے۔ میتھین کی برف مائع میتھین سے زیادہ کثیف ہوتی ہے، لہٰذا کیچڑ کو ہلکا مادّہ ہونا چاہئے شاید یہ پولی ايسيٹيلِيَن کی زنجیر تھی۔ ٹائٹن کے ماہرین مزید تصاویر کے انتظار میں ہیں تاکہ اس کا سراغ لگایا جا سکے۔[1]

ٹائٹن کی متحرک دنیا میں اضافہ کرتے ہوئے جھیلیں اپنی ہئیت بھی تبدیل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ٹائٹن کی سب سے بڑی جنوبی جھیل اونٹاریو لاکوس کا ساحل صرف چار برسوں میں ١٠ کلومیٹر تک پیچھے ہٹا ہے۔ کچھ عارضی جھیلیں تو اسی دوران مکمل طور پر ہی غائب ہو گئیں۔ شمال میں موجود جھیلوں کی الگ کہانی ہے۔ ان کا ساحل ایک عشرے کی دیکھ بھال کے اندر بھی غیر متغیر رہیں۔ واضح طور پر یہ جنوبی حصّے میں پائی جانے والی جھیلوں کے مقابلے میں زیادہ پائیدار ہیں۔ شمالی جھیلیں زیادہ تعداد میں ہیں اور ان کی ڈھلوان ساحل کا مطلب یہ ہے کہ اوپری سطح میں تبدیلی ساحل کو پیچھے نہیں کرے گی اس طرح یہ ناقابل سراغ ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شمال میں موسم کافی مختلف ہوگا جو اس عمل کو ٹائٹن کے برسوں میں کم طور پر منتقل کرے گا۔

شمالی تالاب شاید کافی گہرا اور کم تبخیر ہونے والا ہوگا، لیکن زیادہ تر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوب میں جھیلیں بہ نسبت شمال کے زیادہ شفاف اور موسمی ہیں۔ ٹائٹن پر موجود زیادہ تر اجنبی جھیلیں اور سمندر پیچ در پیچ وادیوں یا مخرجی علاقے ہیں۔ ہرچند کہ ان کی گہرائی اور مقدار معلوم کرنا مشکل ہے، ٹائٹن پر میتھین اور ایتھین کی وسیع جھیلیں، دریا اور سمندر ٹائٹن کے ہائیڈرو کاربن کے چکر کے ساتھ دھسنے اور بطور روک ہر دو طرح سے نہایت اہم ہیں۔ اگر یہ مریخ جیسا ہوتا، تو مائع کے وسیع ذخیرے سطح کے نیچے موجود ہوتے، تب مائع میتھین کی مقدار ٹائٹن پر کافی زیادہ مقدار میں موجود ہوتی۔ – اور منتقلی کا عمل سطح کے نیچے ، سطح سے اوپر کے مقابلے میں کافی زیادہ پیچیدہ ہوتا۔

ہم مزید طویل المیعاد تبدیلیوں کے بارے میں جاننا چاہئیں گے کیونکہ اس عجیب دنیا میں موسم آتے اور جاتے رہتے ہیں، تاہم بیرونی نظام شمسی میں وقت کا پہیہ کافی سست گھومتا ہے۔ اس وقت جب کیسینی کو زحل کے کرۂ فضائی میں ٢٠١٧ء کے آخر میں داخل ہونے کا حکم دیا جائے گا،[2] تو اس نے دو مکمل موسموں سے بھی کم کا عرصہ ان پراسرار ، کہر سے ڈھکے چاند پر دیکھے ہوں گے۔

استوائی خطوں میں ٹائٹن ایک طرح سے آراکس ہے، ایک ٹیلہ نما جہاں جو میتھین کے بادلوں کی پھوار سے دھلتا رہتا ہے۔ لیکن قطبی علاقوں میں ہمیں ایک الگ کہانی دیکھنے کو ملی ہے۔ یہاں پر موسمی برسات ہوتی ہے اور میتھین بطور مائع اور گیس کی شکل میں موسم کا اہم جز ہے۔ ٹائٹن کا موسم زمین کے موسم سے الگ ہے اور مریخ اور زہرہ سے کافی الگ ہے۔ ایک طرح سے ٹائٹن مستقبل میں جھانکنے کا موقع ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت زمین کیسی لگے گی جب بوڑھا ہوتا ہوا سورج زیادہ روشن ہوگا اور سمندروں کو خشک کر دے گا۔ اس وقت زمین کے پاس وسیع استوائی ٹیلوں کے سمندر موجود ہوں گے اور جو بھی پانی باقی رہ گیا ہوگا وہ قطبین کی طرف منتقل ہو گیا ہوگا۔

ٹائٹن اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور دلچسپ دنیا ہے جو کسی نے سوچی بھی نہیں ہے۔ سیارے کے حجم کے چاند نے ہمارے عظیم دماغوں کو چکرا کر گومگو صورتحال سے دوچار کیا ہوا ہے اور یہ ہمیں اس وقت سے للکار رہا ہے جب سے پہلے خلائی جہاز کا اس سے سامنا کرنے کی شروعات ہوئی ہے۔ رالف لورینز کہتے ہیں کہ اس کے ٹیلے صرف ایک مثال ہیں:

یہ ایک ارتقائی کہانی ہے۔ شاید اگر ہم زیادہ ہوشیار ہوتے، شاید ہمارے پاس کچھ ریت کے ٹیلوں کے ماہر ہوتے جو ان اوّلین حاصل ہونے والی تصاویر کو دیکھ رہے ہوتے، وہ جلد ہی سمجھ جاتے لیکن یہی کھوج کی خاصیت ہے۔ آپ کو پہلے سے نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کیا دیکھنے جا رہے ہیں۔ اگر میں اپنے آپ کو پہلے سے کسی کیفیت میں رکھتا تو میں مجھے ٹائٹن پر تو ریت کے ٹیلے ملنے کی بالکل توقع نہیں تھی کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ ٹائٹن کے کرۂ فضائی میں میتھین موجود ہے، اور ہم جانتے تھے کہ میتھین بارش کی طرح ایک دوسرے مادّے کے ساتھ جو روشنی سے کیمیائی طور پر تبدیل ہوتا ہے اور ایتھین جو ٹائٹن کی سطح کے درجہ حرارت پر مائع ہوتی ہے گرتی تھی لہٰذا ہم ٹائٹن کو نم زدہ سمجھتے تھے۔ جب کوئی چیز نم ہوتی ہے تو آپ ریت کو آس پاس حرکت نہیں دے سکتے۔ ہمیں سمندروں اور سمندروں میں پھنسی ہوئی ریت کو پانے کی امید تھی ۔ لہٰذا ہمیں ٹیلوں کو دیکھنے کی امید تو بالکل بھی نہیں تھی۔ ہم بہت زیادہ ہوشیار نہیں تھے۔ کیسینی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہم ٹائٹن کے بارے میں ایک جہتی سوچ کے ساتھ غور کرتے تھے 'ٹائٹن کی سطح کیسی نظر آتی ہوگی؟' 'یہ شاید ایکس جیسی ہوگی "۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹائٹن ایک وسیع دنیا ہے جو بہت زیادہ رنگا رنگ ہے۔ بالخصوص اس کے لمبے سال اور ہائیڈرو کاربنی چکر ہیں، وہاں پر کافی مضبوط موسمی اور عرض بلدی اثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ ماحولیاتی چکر کو بناتے ہیں جس میں وہ نیچےعرض بلد کو خشک کر دیتا ہے اور زیادہ تر نمی بلند عرض بلد پر مرتکز رہتی ہے لہٰذا آپ کو سمندر شمالی قطب کے پاس اور ریت کے ٹیلے استوائی علاقوں میں ملیں گے۔ اس دو شاخیت کا زمینی منظرپر گہرا عمیق اثر بطور عرض بلد ایک ایسی چیز تھی جس کا اندازہ ہم پہلے سے نہیں لگا سکتے تھے چاہئے ہم جتنے بھی ہوشیار ہوتے۔

شاید لورینز نے سب سے گہرا سبق دے دیا ہے۔ ٹائٹن ایک یکساں برف کی گیند نہیں ہے، نہ ہی وقت میں منجمد کیمیائی تجربہ گاہ ہے، نہ ہی کوئی دور دراز کا چاند ہے کہ اس کو دیکھیں اور حیران ہوتے رہیں۔ یہ ایک متنوع فیہ اور متحرک جہاں ہے جو وعدوں اور تخلیقی کام کی تحریکوں سے بھرا ہوا ہے ۔



خاکہ 7.18 بائیں: میتھین کا بہاؤ بظاہر کافی مفصل گھاٹی اور وادیاں اس پہاڑی علاقے میں بنا رہا ہے۔ دائیں: کچھ دریا جو ناہموار زیناڈو علاقے کے کنارے پر آج بھی سرگرم ہیں، پیچ دار وادی اور ڈھلوان گھاٹیاں زبردست میتھین کے کٹاؤ کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ شاید بارش اور رسنے دونوں کی وجہ سے زیر سطح ، زمین کے اندر موجود مائع کی وجہ سے منہدم ہو گئی ہے۔


[1]۔ دیکھئے "شفاف خاصیت ٹائٹن کے سمندر میں" از جے ڈی ہوف گارٹنر اور دیگر ۔، نیچر جیو سائنس آن لائن اشاعت ٢٢ جون ء٢٠١٤۔


[2] ۔ ہرچند کیسینی کے پاس اب بھی ایندھن موجود ہے لیکن ہوائی انجنیئر اس کو زحل کے ماحول میں خود سے تباہ ہونے کے احکامات دیں گے تاکہ یہ ٹائٹن یا انسیلیڈس سے نہ ٹکرائے جہاں پر ماورائے ارض حیات کے ہونے کا امکان موجود ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 7

ٹائٹن کی سیر - ذرا ہٹ کے



خاکہ 7.19اسکاٹ لینڈ میں کوری ریکن میں ہونے والی مدو جذر کی دوڑ۔ مدو جذر کا بہاؤ ناہموار آبی گزر گاہوں کے فرش سے باہمی تعامل کرتا ہے تاکہ جامد لہریں اور بھنور بن جائیں۔ اسی طرح کا مظہر شاید ٹائٹن کے "کریکن کے حلقوم" میں واقع ہوتا ہے۔


رالف لورینز جو اب اے پی ایل میں ہیں ان کی تربیت بطور خلائی انجنیئر ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی معاش زندگی ای ایس اے میں بطور زیر تربیت شاگرد کے گزاری ہے، جہاں پر ٹائٹن خلائی کھوجی کے نقشے اس وقت زیر غور تھے۔ لورینز نے بلآخر ایک تاریخی اترنے والے جہاز کے آلات بنائے۔ وہ اپنی عہد لڑکپن سے ہی ٹائٹن کے بارے میں متحیر رہتے تھے جب انہوں نے اس عجیب چاند کے بارے میں کارل ساگاں کی کتاب "کوسموس" میں پڑھا تھا۔ دیکھیں وہ ٹائٹن پر ممکنہ سفر کے بارے میں کیا کہتے ہیں:


ٹائٹن بہت دلچسپ ہے۔ اگر آپ کوئی "زمین جیسے" ماحول کی بات کریں جہاں پر بغیر حفاظتی لباس کے انسان لمبے عرصے تک جی سکے، تو زمین کے بعد ٹائٹن ہی ایسی جگہ ہوگا۔ کسی خلا نورد کو زہرہ کی سطح پر اتاریں اور وہ زمینی سطح سمندر کے دباؤ سے ٩٠ گنا زیادہ دباؤ کی وجہ سے کچلا جائے گا جہاں کا درجہ حرارت ٧٠٠ کیلون ہوگا۔ حقیقت میں یہ اس کو فوری پکا دے گا۔ مریخ پر دباؤ اس قدر کم ہوگا کہ وہ آپ کے پھیپڑوں میں موجود تمام ہوا کو نکال لے گا اس طرح سے آپ چند ہی سیکنڈ میں اس دار فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ ٹائٹن پر آپ سانس لے سکتے ہیں۔ ماحولیاتی دباؤ زمین سے تھوڑا سا زیادہ ہوگا، لہٰذا آپ ایک منٹ تک تو اس کی سطح پر اس وقت تک چل سکتے ہیں جب تک آپ کے جسم سے آکسیجن ختم نہ ہو جائے۔ اگر آپ کے پاس آکسیجن کا ماسک موجود ہو - صرف آکسیجن کا ماسک بغیر کسی حفاظتی لباس کے – تو آپ کافی عرصے تک ٹھیک رہ سکتے ہیں۔ یہ کافی سرد جگہ ہے، لہٰذا کچھ ہی منٹوں میں آپ ٹھنڈے ہو جائیں گے، لیکن کوئی موٹی سرپوش یا حاجز شدہ لباس آپ کو کافی لمبا چلنے کے قابل کر سکتا ہے۔ لہٰذا آپ تصوّر کر سکتے ہیں کہ ٹائٹن پر کہیں بھی خلائی جہاز اتر سکتا ہے اور اس میں سے مخصوص لباس پہنے انسان بھی اس کی سطح پر اتر سکتا ہے لیکن اس لباس کو دوسری خلائی جگہوں کی بہ نسبت بہت زیادہ پیچیدہ نہیں ہونا ہوگا۔


ٹائٹن کے ماحول میں سانس لینا شاید دلچسپ ہوگا۔ اس میں کافی زیادہ نامیاتی مادّوں کی مقدار موجود ہوگی، لہٰذا یہ ایسا لگے گا جیسا کہ آپ کسی آئل کے کارخانے کے پاس سانس لے رہے ہوں۔ لمبے عرصے اس فضا میں سانس لینے سے سرطان جیسا مرض ہو سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہاں پر کچھ عناصر جیسے کہ بنزین موجود ہے ، زمین پر اس کے مضر صحت اثر سے بچنے کے لئے خبردار کیا جاتا ہے ۔ یہ آپ کو شاید دس برس میں جان سے ختم کر ڈالے۔ لیکن کم عرصے کے دوران یہ انسانی صحت کے لئے اس سے زیادہ مضر صحت نہیں ہیں جن شدید زہریلی چیزوں کی توقع ہم مثال کے طور پر چاند کی مٹی اور کاٹ دینے والی مریخی دھول میں کرتے ہیں۔ چاند کی مٹی کافی نوکیلی اور رگڑ دینے والی ہوتی ہے ، اور اس قسم کی مٹی میں سانس لینے میں صحت سے جڑے خطرات اس سے کہیں زیادہ فوری ہوں گے جو ٹائٹن پر ہیں۔


مجھے ٹائٹن کے سمندر سے خاص الفت ہے۔ بالخصوص ہم جانتے ہیں کہ بڑے سمندر کریکن مئیر میں دو بڑے طاس ہیں جن کے درمیان ایک بہت ہی تنگ آ بنائے ہے جس کو ہم نے "کریکن کے حلقوم" کا نام دیا ہے۔ اس کا حجم لگ بھگ آ بنائے جبل الطارق جتنا ہی١٧ کلومیٹر کا ہے۔ یہاں پر ٹائٹن کے سمندر میں مدو جزر کی لہریں ٹائٹن کے زحل کے گرد بیضوی مدار کی وجہ سے اٹھتی ہیں لہٰذا وہاں پر مدو جذر کی رو لازمی ہونی چاہئے جو ایک جانب اس تنگ آ بنائے سے ٹائٹن کے مدار کے ایک حصّے میں جاتی ہوگی اور آٹھ دن بعد یہ دوسری جانب جاتی ہوگی ، ایک مدو جذر کی دوڑ لگی رہتی ہوگی۔ وہاں ہوا نہ ہونے کے باوجود ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مدو جذر کی لہریں سمندر کو اس طرح سے ناہموار کر دیں جیسے کہ مدو جذر کی موجیں زمینی سمندر کو کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسکوکم چک (کینیڈا)، ناروٹو آبنائے جاپان اور ایک وہاں ہے جہاں کا میں ہوں۔ اسکاٹ لینڈ کی کوری ریکن۔ یہاں مدو جذر کے آ بنائے پر آپ تیز رفتار بوٹ کی سیر کر سکتے ہیں یہاں پر بھنور بھی ہیں اور کافی ناہموار سمندر کی سطح بھی، لیکن کچھ جگہوں پر یہ ناہموار اس لئے ہوگی کہ کیونکہ یہ مدو جذر کے بہاؤ ان اچھال والی جگہوں کے گرد گرداب بناتے ہوئے سمندر کی تہ تک مینار بناتے ہیں، خارج ہوتے گرداب اور ان کے پیچھے بننے والی مائع کی موجیں ۔ آپ حقیقت میں ان کی چنگھاڑوں کو سن سکتے ہیں۔


ساحل پر کھڑے ہونا یا اس مدو جذر کے آخر میں موجود پہاڑی چوٹی پر کھڑے ہو کر اس مدو جذر کی چنگھاڑ کو سننا کافی مزیدار بات ہوگی – آپ اس کو ٹائٹن پر کھڑے ہو کر سن سکتے ہیں کیونکہ اس کا کرۂ فضائی موجود ہے جو آواز کو بہت اچھی طرح ارسال کرتا ہے – چنگھاڑ کو سن اور سمندر کی سفید جھاگ والی لہر کو ان مدو جذر کی لہروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ تھوڑے سے تخیل اور کچھ تقطیبی رنگین چشموں کے ساتھ تاکہ کہر کے اثر کو کم کیا جا سکے ایک نقطہ پر آکر آپ آسمان میں زحل کو بھی دیکھنے پر قادر ہو سکتے ہیں۔ بلاشبہ ٹائٹن سے دیکھنے پر زحل اسی طرح سے مرحلوں میں نظر آئے گا جیسے کہ زمین کا چاند نظر آتا ہے۔


ریت کے سمندر پر ان لہروں پر اڑنا اور ایک قطب سے لے کر دوسرے قطب تک پھیلے ہوئی ان عظیم ٹیلوں کا منظر بھی انتہائی شاندار ہوگا۔ اس بات کا تصوّر کرنا کہ وہاں آپ کیا کیا شاندار نظارے کریں گے بہت ہی تفریح کی بات ہے۔​
 

عبیر خان

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پیش لفظ - حصّہ اوّل


1 by Zonnee, on Flickr
خاکہP-1 انسانوں کی بستی بسانے کی اگلی معقول جگہ مریخ ہے۔ لیکن کیا دوسری جگہیں بھی کسی قسم کی امید دلا رہی ہیں؟

بیرونی نظام شمسی مستقبل میں انسانی سفر کے لئے کوئی قابل ذکر جگہ نہیں لگتی چہ جائیکہ کہ وہاں انسانوں کے لئے رہنے کی کوئی بستی بسائی جائے۔ سرد دور اور دور دراز کے گیسی، پتھر اور برف کے جہاں ہمیں مائل کرنے کے بجائے جان چھڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بنی نوع انسان چاند پر جاچکی ہے اور اب اگلے پڑاؤ کے لئے اپنی نظریں مریخ اور سیارچوں کی پٹی پر جمائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا انسانیت کے مستقبل کے منظر نامے میں بیرونی نظام شمسی کوئی کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے؟


اگر انسانیت کو نظام شمسی کی آخری سرحدوں کو کھوجنا اور وہاں جا کر بالآخر رہنا ہے تو ہم ہر چیز تو اپنے ساتھ وہاں نہیں لے جا سکتے۔ فاصلے نہایت عظیم الشان ہیں۔ ایک طرح سے ہمیں اپنی زمین سے دور رہنا ہوگا۔ ایک اور جگہ ایسی ہے جو وہاں سے ہماری نسبت کافی قریب ہے اور اس کے پاس کافی وسائل بھی موجود ہیں یعنی کہ سرخ سیارہ، مریخ۔


مریخ کے بارے میں کافی کچھ جانا جا چکا ہے، ہرچند مریخ زمین سے زہرہ جتنا قریب تو نہیں ہے، لیکن اس کا کرۂ فضائی اتنا شفاف ہے کہ اس کی سطح کو ہم دوربین سے دیکھ سکتے ہیں۔ مریخ نے سب سے پہلے ہمیں اپنے زمینی موسمی جھکاؤ ، دن و رات کی گردش ، قطبین اور اپنے پراسرار گہرے ہچکولے لیتے تاریک علاقوں سے متحیر کیا۔ چوب پرچم اٹھائے ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے مریخی نہروں کو جنون کی حد کر مشہور کر دیا تھا، اس نے مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے اور قیاس کی بنیاد پر مریخ پر موجود حیات کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ مصنفین جیسے کہ ویلز ، بروز اور بریڈ بری نے ان فلکیات دانوں مثلاً لوئل [1] کے کام سے ہی مواد لے کر انیسویں اور بیسویں صدی میں سرخ سیارے سے پیار کی ثقافت کو فروغ دیا۔
Percival-Lowell-Artificial-Canals-on-Mars by Zonnee, on Flickr
ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے قیاس کی بنیاد پر مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے۔

ہمیں ان سائنس دانوں اور لکھاریوں کے ورثے پر چھوڑ دیا گیا۔ ان کے کاموں میں مریخ کو اس وقت کے دور میں بیان کیا گیا ہے جب تک وہاں پر خلائی کھوجی نہیں بھیجے گئے تھے، لیکن مریخی حیات کو کھوجنے کی ہماری خواہش چاہئے وہ خرد بینی شکل میں ہی کیوں نہ موجود ہو اب بھی جاری ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق مریخی حیات کی اس کھوج نے خلائی تحقیقات میں ہماری ترجیحات کو آلودہ کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی ڈیویژنفار پلانٹری سائنسز کی ایک میٹنگ میں ایک محقق نے طنزاً کہا ، "اگر ہم مریخ کو جاننے کا موازنہ گینی میڈ کو جاننے سے کریں ، تو وہ قابل شرم بات ہوگی۔"


اب بھی اگر انسان چاند سے آگے جانے کا جوکھم اٹھانا چاہتا ہے تو سب سے بہتر جگہ وہ ہوگی جہاں ہم زمین کے بغیر بھی رہ سکیں۔ مریخ کے پاس ایسا کرنے کے لئے ذرائع موجود ہیں۔ یہاں پر پانی کے کافی ذخائر موجود ہیں اور اس کی لطیف فضا ٩٥ فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے، ایک ایسا سالمہ جو کاربن اور آکسیجن پر مشتمل ہے۔ پانی کو برق پاشیدگی کے ذریعہ ہائیڈروجن اور کاربن میں توڑا جا سکتا ہے۔ ہائیڈروجن مریخی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ سے تعامل کر سکتی ہے تاکہ میتھین بنائی جا سکے جو ایک موثر خلائی راکٹ کا ایندھن ہو سکتا ہے اور ساتھ میں مزید پانی بھی بنے گا جس کو دوبارہ برق پاشیدگی کے عمل سے گزرا جا سکے گا۔ اس طرح سے حتمی پیداوار میں میتھین اور آکسیجن حاصل ہوں گی۔


Terraforming by Zonnee, on Flickr
مریخ کی ارض سازی ہمارا ایک خواب ہے۔

آکسیجن ایک ایسی گیس ہے جس میں سانس لینا ہر کھوجی کی کوشش ہوگی اور یہ خلائی جہاز کے ایندھن کا بھی اہم حصّہ ہوتی ہے۔ مریخی پانی پینے کے استعمال میں بھی لیا جا سکے گا جو مریخی کاربن ڈائی آکسائڈ کا استعمال کرکے خود سے آکسیجن پیدا کرے گا۔


اہم خلائی کمپنیوں سے لے کر نجی صنعت کے گروپ مختلف قسموں کے انجینئرنگ کی تحقیقات میں مصروف عمل ہیں تاکہ انسان بردار مریخی مہمات اور مریخ میں انسانی بستیوں کو بسانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ان کی پیش بینی کے مطابق خلائی گاڑیوں سے لے کر زیر زمین گھروں تک ہر چیز مریخی مٹی کی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنائی جائے گی۔ ان کے جادوئی آئینے میں مریخ پر قائم مستقبل کے گرین ہاؤسز بانسوں کے درختوں سے لبریز نظر آرہے ہیں جو تیزی سے بڑھتے ہوئے مضبوط عمارتی سامان بنانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کچھ تو جینیاتی طور پر تقلیب کی گئی بکریوں، ٹلاپیا (دریائے نیل میں پائی جانے والی سخت جان مچھلی)، اسٹرابیریز اور پوئی (ہوائی کا ایک کھانا جسے لوف/تارو کی جڑ سے بنایا جاتا ہے) سے زمین سے آنے والے مسافروں کی تواضع کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔


republic_cruiser_by_radojavor-dqqw6n by Zonnee, on Flickr
سائنس دان مریخ کو مستقبل میں درختوں سے لبریز ہونے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔

[1]۔ لوئل نے بونے سیارے پلوٹو کو بھی دریافت کرنے میں مدد کی تھی۔ یورینس اور نیپچون کے مشاہدات کا استعمال کرتے ہوئے ، اس نے اندازہ لگایا کہ نیا سیارہ کہاں ہونا چاہئے اور اس نے اس کی تلاش بھی جاری رکھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ بہرحال یہ بعد میں دریافت ہوا کہ لویل رصدگاہ نے سیارے کی تصاویر کو ١٩١٥ء میں اتار لیا تھا، لویل کی موت سے ایک برس پہلے۔ پلوٹو کو ١٩٣٠ء میں کلائیڈ ٹام بو (Clyde Tombaugh)نے دریافت کیا۔ لوئل کی تحقیقاتی کاوشوں کے اقبال میں سیارے کے نشان میں پرسیول لوئل کے دستخط کے ابتدائی حروف پی ایل شامل کر لئے گئے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
بہت بہت ہی عمدہ پوسٹ کی ہے آپ نے۔ :)
 

زہیر عبّاس

محفلین
آٹھواں باب - 1

ایریل ،مرانڈا اور ٹرائیٹن – یورینس اور نیپچون کے چاند





خاکہ 8.1 ایریل کی کوریگن اور پکسی کھائیوں کے سنگم پر ڈھلوان دیواروں والی کھڑی پہاڑیاں یورینس کا ایک ڈرامائی نظارہ پیش کرتی ہیں۔ ایریل کے دہانوں کے فرش کی ساخت قدیمی برفیلے آتش فشانوں کی سرگرمی کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔


١٧٨١ء میں سر ولیم ہرشل نے دیوہیکل برفیلے سیارے یورینس کو موسم بہار میں دریافت کیا۔ صرف ٦ برسوں کے دوران اس نے اس کے دو چاندوں ٹائٹینیا اور اوبرائن کو بھی ڈھونڈ لیا تھا۔ ١٨٥١ء میں جوہان گیل نے نیپچون[1] کو دیکھا اور اس کے صرف ١٧ دن بعد ہی ولیم لیزل نے اس کا سب سے بڑا مصاحب ٹرائیٹن ڈھونڈ نکالا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بیرونی نظام شمسی میں مہتابوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ درحقیقت ایسا ہی تھا۔ بیرونی نظام شمسی نے انسانی تحقیق ، کھوج اور کھلواڑ کرنے کی مہم جوئی کے لئے کئی ہدف رکھے ہوئے تھے۔

یورینس کے اب تک کے دریافت کردہ ٢٧ مہتاب جبکہ نیپچون کے سردست ١٤ مصاحب موجود ہیں۔ مشتری کے ٦٧ اور زحل کے ٦٢ مہتابوں کے ساتھ بیرونی نظام شمسی میں موجود معلوم مہتابوں کی تعداد ١٧٠ ہو گئی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اب بھی وہاں کافی سارے بالخصوص یورینس اور نیپچون[2] کے پاس چھپ کر بیٹھے ہوں۔ زحل نے ہمیں اپنے حلقوں کی اہمیت مہتابوں کے حوالے سے ہمیں جتلا دی ہے۔ برفیلے دیو کے بھی حلقے اور قوس موجود ہیں جہاں بلاشبہ ان دیکھے مہتاب موجود ہو سکتے ہیں۔ برفیلے دیوہیکل سیاروں کے چاند اور حلقوں کا درجہ بیاض (کسی سیارے یا فلکی اجسام پر پڑنے والی ضیائی کرنوں کی اس امر کے ساتھ پیمایش کہ کتنی کرنیں خارج ہوئیں اور کتنی پہنچیں) کافی کم ہے جیسا کہ وہ کوئلے کی گرد میں نہائے ہوئے ہوں، لہٰذا ان کا سراغ لگانا کافی مشکل ہے۔

١٩٨٦ء کے موسم گرما کے آخر میں وائیجر دوم یورینس کے نظام کے پاس پہنچا۔ خلائی جہاز پرانا اور تھکا ہوا تھا، اور اپنے چھوڑے جانے کے ایک دہائی کے عرصے سے لے کر اس وقت تک خلاء میں موجود شعاعوں سے نبرد آزما رہا تھا۔ جب خلائی جہاز وہاں قریب پہنچنا شروع ہوا تو یورینس کے منکسرالمزاج چاند نمودار ہونا شروع ہوئے ۔ یورینس کے گلیلائی یا ٹائٹن کی طرح دیوہیکل چاند موجود نہیں تھے۔ لیکن محققین نے زحل اور مشتری میں سبق حاصل کر لیا تھا۔ زحل کے درمیانے حجم کے چاند ارضیاتی حشر سامانیوں سے لبریز تھے اور یورینس کے نئے دریافت ہونے والی مہتاب بھی اسی قسم کی وعید لے کر آرہے تھے۔

"درمیانی حجم کے سیارچے بہت اچھی طرح سے نہیں سمجھے گئے تھے اور یورینس کے تمام سیارچے ہی اسی جماعت میں درجہ بند تھے۔ ہم زحل کے تمام درمیانی درجے کے سیارچوں کے پاس پہنچے جہاں برفانی آتش فشانی پانی کا چھڑکاؤ کرتے نظر آئے اور انسیلیڈس تو ارضیاتی سرگرمی کے لئے کافی چھوٹا تھا بلکہ اس کو اس حد تک سرگرم ہونے کا تو کوئی حق ہی نہیں تھا۔ واضح طور پر ہم اس جماعت کے سیارچوں کو نہیں جانتے تھے۔ آپ انسیلیڈس کی سرگرمی اور بغیر سرگرمی کے میماس کو تو بیان کر سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمارے اندازے کے مطابق ہی نکلیں" جان ہوپکنز آ پلائیڈفزکس لیبارٹری کی سیاروی سائنس دان ایلزبتھ ٹرٹل کہتی ہیں۔

زحل کے نظام کے مہتابوں کے جہان حیرت کو دیکھتے ہوئے محققین یورینس کے بارے میں قیاس لگانے سے گریزاں تھے۔ غیر متوقع دریافتیں جاری رہیں اور مزید قبول عام اصولوں کو چھوڑنا پڑا، ٹرٹل کہتی ہیں۔" جب آپ یورینس نظام میں پہنچے تو [درمیانے حجم] کے سب سے چھوٹے مہتاب مرانڈا کو دیکھا جس کی سطح مکمل طور پر تشدد زدہ تھی۔" ایریل میں بھی واضح طور پر حالیہ ارضیاتی سرگرمی کے ثبوت موجود تھے جبکہ بڑے مہتاب زیادہ خاموش اور قدیم معلوم ہوتے تھے۔ "یہاں پر ملنے والی وہ چیزیں نہیں تھیں جن کا ہم نے اندازہ لگایا تھا۔"

جیسا کہ گیسی دیوہیکل سیاروں کے ساتھ تھا بعینہ ویسے ہی شاید یورینس حلقوں کے نظام یا تہہ دار ٹکیہ میں ایک سلسلے میں بنا تھا اور اس لمبے عرصے والے سلسلے میں وہ سیارہ بننے کی جانب گامزن ہوا تھا۔ بہرحال اندازہ لگایا گیا ہے کہ سیارہ بننے کے ابتدائی دور میں ہی الٹ گیا تھا اور جیسا کہ ہم نے چوتھے باب میں دیکھا تھا کہ یورینس کا جھکاؤ ٩٨ درجے کا ہے۔

فرانس کے شہر نائس میں واقع آبزر وا ٹووائر ڈی لا کوٹڈ آ زر میں ہونے والی کمپیوٹر نقول سے معلوم ہوتا ہے کہ کافی بڑے تصادموں نے یورینس کو اس کے حالیہ جھکاؤ پر آنے پر مجبور کیا ہے جو کسی بھی سیارے کو لگنے والی سب سے خطرناک ٹکریں ہوں گی۔ آج نظر آنے والی مہتابوں کو دھول کے گھومتے ہوئے بادل سے بننے کے لئے ایک سے زیادہ درستگی اور موزونیت کے ساتھ تصادم درکار تھے۔ جب سیارہ اپنی ابتدائی جگہ سے ہلا ہوگا تو اس کے گرد موجود گرد کی قرص نے گھومنا جاری رکھا ہوگا جس سے استوائی سطح پر قرص کی صورت بن گئی ہوگی۔ اس قرص نے بالآخر ان کامیاب مہتابوں کی پیدائش کی ہوگی جن کو ہم آج دیکھتے ہیں۔

ان میں سے پانچ درمیانے حجم کے چاند مرانڈا کے ٣٠٠ کلومیٹر سے لے کر ٹائٹینیا کے ١٥٠٠ کلومیٹر تک کے مہتاب ہیں۔ تمام مہتاب چٹانوں اور میتھین، امونیا اور پانی کی برف سے بنے ہیں۔ گلیلائی مہتابوں کے برعکس یہاں پر موجود مہتابوں کی ضخامت اپنے سیارے سے دور جاتے ہوئے بڑھ جاتی ہے۔ وہ زحل کے درمیانے حجم کے برفیلے مہتابوں سے زیادہ ضخیم ہیں جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں برف سے زیادہ چٹانیں موجود ہیں۔ مرانڈا کو بہت کم کمیت کے ساتھ اِستثنیٰ حاصل ہے۔

ہرچند کہ پانی کی برف یورینس کے پانچوں مہتابوں کو ڈھکے ہوئے ہے، تاہم یہ کسی قسم کے تاریک مادّے کے ساتھ بھی ملی ہوئی ہے۔ نظریات یورینس کے محور سے تصادم کے وقت سیارے کے الٹنے کی وجہ سے نکلنے والی کاربن مونوآکسائڈ اور نائٹروجن سے لے کر سطح پر موجود شمسی اشعاع سے تاریک ہونے والی میتھین کا سبب بتاتے ہیں۔ کسی بھی صورت کے درست ہونے کی وجہ سے یورینس کے تمام مہتاب بڑے سے لے کر چھوٹے تک سب کے سب اپنے حلقے کے نظام کی طرح کوئلے جیسے تاریک ہیں۔






[1] ۔ گیل کی دریافت کی بنیاد اس ریاضیاتی اندازے پر قائم ہے جو مشہور فرانسیسی ریاضی دان اربین لی وئیریر نے واضح کی تھی۔


[2] ۔ اس کتاب کو لکھتے وقت تک کیسینی خلائی جہاز مسلسل زحل کے مہتاب باقاعدہ بنیادوں پر دریافت کر رہا ہے، بالخصوص جو حلقوں کے درمیان پیوست ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
آٹھواں باب - 2
ایریل (یورینس کا چاند)


سبز دیوہیکل سیارے کے گرد بادلوں سے ١٧٥ ہزار کلومیٹر اوپر چکر لگاتا ہوا ایریل یورینس کے پانچ اہم مہتابوں میں چوتھا بڑا چاند ہے۔ اپنے چھوٹے حجم کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ مرانڈا کے بعد سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ شگافتہ گھاٹیوں کے درمیان ایریل کا چہرہ حیرت انگیز طور پر چوپی فرش کے مماثل ہے۔ پرانے شہابی علاقے بلند سطح مرتفع جو عجیب وادی کی سطح سے بلند ہو کر دوبارہ سے ہموار مادّے کے بہاؤ کی وجہ سے نمودار ہو گئے ہیں۔ یہ منجمد دریا مرکز میں چڑھے ہوئے ہیں اور مرکزی حصّے میں سے ہو کر پیچ دار نالیاں گزر رہی ہیں۔



خاکہ 8.4 اوپر: ایریل ، بائیں جانب مرنڈا کا تقابل بحیرہ روم اور مشرق وسطیٰ سے ۔ نیچے: چنے ہوئے عجیب و غریب سیارچوں کا موازنہ گلیلائی چاند کے سب سے چھوٹے چاند یوروپا (پیچھے)سے کیا گیا ہے۔ ان کے نام آئیاپیٹس ، ایریل، انسیلیڈس ، مرنڈا اور ڈائی اونی ہیں۔



جس چیز نے بھی ان وادیوں پر سیلاب کی صورت میں دھاوا بولا ہے وہ زحل کے مہتابوں پر دیکھے جانے والی مہتابوں کے مقابلے میں زیادہ کمیت اور چپچپا ہے۔

ایریل نے گھاٹی سے باہر کسی چیز کے ممکنہ طور پر سیارے کی پوری زندگی میں حال ہی میں دوبارہ نکلنے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اس کی برف یورینس کے تمام سیارچوں میں پائی جانے والی برف کے مقابلے میں روشن اور تازہ ہے۔ ایریل کا چہرہ نظام شمسی کے شروع کے دور میں ہونے والی بمباری کے کچھ عرصے بعد بنا ہوا لگتا ہے۔ اس دور میں آج سے ٣ ارب ٩٠ کروڑ برس پہلے شہابیوں اور سیارچوں کی بارش ہوئی تھی۔ مرنڈا کے نصف قطر سے دوگنا ایریل کی سطح بھی اتنے فی مربع فٹ ہی سیارچوں کا نشانہ بنی ہوگی تاہم اس کے باوجود اس کی سطح پر شہابی گڑھوں کے کم نشان ہیں۔ سطح پر ١٠٠ کلومیٹر کے کئی شہابی گڑھے موجود نہیں ہیں جو اس پر ہونے والی ارضیاتی سرگرمی اپنے بہن بھائیوں امبریل اور اوبرائن کے مقابلے میں زیادہ دیر سے ہوئی ہوگی ۔ کافی تصاویر میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ختم ہوتے یا زیادہ قدیمی شہابی گڑھے موجود ہیں لیکن اچھے طرح سے باقی بچے ہوئے شہابی گڑھے ارضیاتی طور پر غیر عامل مہتابوں کے شہابی گڑھوں کی نسبت چھوٹے اور زیادہ چھدرے ہیں ۔ شہابی گڑھوں سے نکلتا ہوا مادّہ زیادہ روشن اور شاید زیادہ تازہ برف اس مادّے سے متعلق ہے جو سطح پر بہا ہوا ہے۔ دوسرے سیاروں کے سیارچوں کی طرح یورینس کے مہتابوں کی کثافت سورج کی روشنی میں تاریک ہو جاتی ہے۔ اگر تازہ برف نکل کر سطح پر بہہ کر پھیلتی ہے تو وہ شمسی اشعاع کی وجہ سے تاریک پرت بنا لے گی لیکن اس کے نیچے موجود ہلکی برف باقی بچی رہے گی۔ ایریل کے شہابی گڑھوں کے گرد موجود روشن ہالے اصل میں سطح کے بالکل نیچے قدیم روشن بہاؤ کا ثبوت ہیں۔

اے پی ایل کی ایلزبتھ ٹرٹل کہتی ہیں، "ایریل اور ٹائٹینیا دونوں کے پاس ایسے علاقے موجود ہیں جو بڑی دراڑوں والی وادیوں جیسے لگتے ہیں جہاں ان کی سطح کے ساتھ بہاؤ موجود تھا جو ماضی کے کسی دور میں ہونے والی برفیلے آتش فشانوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ تصاویر اتنی اچھی نہیں ہیں کہ تمام باتوں کو بتا سکیں۔ وہاں پر لازمی طور پر کچھ تو چل رہا ہے، اور جو کچھ بھی ہی وہ سوائے انسیلیڈس کے دوسرے مہتابوں کی نسبت کافی زیادہ ہے۔"

ماضی میں برفیلے آتش فشانوں کی سرگرمی نے شاید مداروی گمگ کو پیدا کیا ہوگا جو اب ایریل کو کسی طرح سے متاثر نہیں کر رہی ہے۔ بہت ساری جماعتیں [1]یورینس کے سیارچوں کو بنانے کے نمونوں کا مطالعہ کر رہی ہیں اور یہ نمونے ہمیں بتا رہے ہیں کہ شاید ایریل بہت زیادہ گمگ کے ادوار سے گزرا ہے جو اتنے طاقتور تھے کہ آتش فشانی اخراج کا باعث بنے ہوں گے (ممکن ہے کہ ٹائٹینیا کے ساتھ - بالخصوص امبریل کے ساتھ ٣ اور ١ کی نسبت سے گمگ میں رہا ہے )۔ " لوگ اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ کس طرح سے گمگ اور مدوجزر انتشار [قریبی مہتابوں کی قوّت ثقل کا چاند کی محوری گردش کو آہستہ کرنا] نے ماضی میں کام کیا ہوگا، واضح طور پر کسی نقطے پر جا کر کچھ ہوا ہوگا۔ صرف ان پر نظر مار کر ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ یہ چھوٹے سطح مرتفع کافی قدیم لگتے ہیں لہٰذا سطح ٹوٹ گئی ہوگی اور چیزیں نیچے گر گئی ہوں گی اور پھر ان دراڑ والی وادیوں کی سطح کے ساتھ بہتی گئی ہوگی۔" ایلزبتھ ٹرٹل کہتی ہیں۔

چھوٹے مہتابوں پر موجود شہابی گڑھوں کی ضخامت بتا رہی ہے کہ ایریل ماضی کے کسی حصّے میں بلاشبہ کافی عرصے تک ارضیاتی طور پر متحرک رہا ہوگا، اس لمبے عرصے کو صرف تابکاری سے حاصل ہونے والی حرارت سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ مزید اس کو سہارا دینے کے لئے یہ تصوّر بھی موجود ہے کہ مدوجزر کی حرارت ماضی میں ہونے والی امبریل اور ٹائٹینیا سے پیدا ہونے والی گمگ سے حاصل ہوئی ہوگی۔ جس طرح سے گلیلائی مہتاب برجیسی نظام میں ہجرت کے ادوار سے گزرے تھے بعینہ ایسے ایریل بھی کافی مرتبہ ابتدائی نظام کی ہجرت کے ادوار سے گزرا ہوگا۔

ہرچند کہ محققین نے کسی مخصوص قسم کے آتش فشانوں کے منبع کو نہیں دیکھا لیکن جانچ کے لئے انھیں لاوے کی طرح کے بہاؤ کی کافی چیزیں مل گئی ہیں۔ اور یہ بہاؤ مشتری اور زحل کے مقابلے کے ہی ہیں۔ یہاں پر مہین بہاؤ وسیع میدانوں کو بناتے ہوئے لگ رہے ہیں۔ یورینس کے ایریل اور مرنڈا پر اور نیپچون کے ٹرائیٹن پر یہ بہاؤ سینکڑوں میٹر موٹے ہیں۔ ایک ممکنہ وجہ ان کے اجزائے ترکیبی کا اختلاف ہو سکتا ہے ۔ ہرچند کہ مشتری اور زحل پر موجود زیادہ تر برف پانی اور امونیا پر مشتمل ہے لیکن یورینس اور نیپچون پر موجود برف سیارچوں کی طرح طیران پذیر مادّوں جیسا کہ میتھانول اور فارمَل ڈی ہائيڈ پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ اجزائے ترکیبی میں فرق ہی کثافت میں ہونے والے فرق کو ظاہر کرتی ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ گیسی دیوہیکل کے مقابلے میں برفیلے دیوہیکل میں زیادہ چپچپا برفیلے آتش فشاں موجود ہوتے ہیں ۔

وہ برفیلے آتش فشانوں کا وہ مسئلہ جویورینس سیارچوں پر محققین کو بھوت بن کر تنگ کرتا رہا ہے وہ وائیجر سے حاصل کردہ تصاویر کی کوالٹی ہے۔ کیرولن پورکو، کیسینی امیجنگ ٹیم کی سربراہ کہتی ہیں کہ زحل نے ہمیں ایک نصیحت آموز سبق دیا ہے:
ہم نے آتش فشانوں سے متعلق ثبوت اس طرح سے نہیں دیکھے جس طرح سے وائیجر کے دور میں زحل کے نظام میں لوگوں نے سوچا تھا۔ اس دور میں جب ہم نے ڈائی اونی اور ریا کے لچھے دار ارضی میدان دیکھے تھے تو ہم سمجھے تھے کہ یہ برف کا اخراج ہے۔ لہٰذا میں پوری طرح اس بات کی امید کر رہی تھی کہ بڑے ٹیلے نما ان مہتابوں کی سطح سے باہر کو نکلی ہوئی برف آڑے ترچھے داغوں کی صورت میں دیکھوں گی۔ ان تمام تر توقعات کے برخلاف ہم نے جو دیکھا وہ ذیلی متوازی برفیلے شگافوں کا نظام تھا جہاں پر تمام تازہ برف ایک ہی جگہ کی طرف رخ کئے ہوئے تھی۔ یہ صرف ایک بصری دھوکہ تھا جو ان تازہ شگافوں کی جتھوں نے دیا تھا۔ یہاں تک کہ انسیلیڈس پر بھی کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر برف آکر اس طرح سے سطح سے نکل جائے جس طرح سے میگما نے ہمارے چاند پر ماریا کو بنایا ہے۔ ہم نے اس طرح کی کوئی بھی چیز نہیں دیکھی اور یہ کیسینی کا کافی بڑا حاصل تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ زحل کے نظام میں فی الوقت موجود نہیں ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ قریب جانا کتنی اہمیت کا حامل تھا۔​

قسمت کی دیوی کی مہربانی اور سماوی میکانیات کے ساتھ وائیجر یورینس کے ایک اور اہم چاند مرنڈا کے قریب سے گزرا۔ اور وہ چاند سب سے عجیب ہی نکلا۔



خاکہ 8.5 بائیں: وائیجر دوم سے اعلیٰ کوالٹی کی ایریل کے سائیلف گھاٹی کی تصویر میں بہاؤ گمنام ہوتے یا شہابی گڑھے کے حصّہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آرہے ہیں۔ دائیں: ایک وادیوں اور نالیوں کا پیچیدہ جال جو شہابی گڑھے کی چوٹی کے ارد گرد ہے۔ غور فرمائیں کہ کس طرح سے وادی کی سطح ایک دوسرے میں ضم ہوئی ہے ، یہ بات اس جانب اشارہ ہے کہ ٹیکٹونک عمل کے دوران بننے کے بعد کس طرح سے یہاں پر سیلاب آیا تھا۔ وائیجر دوم سے لی گئی سب سے بہتر تصویر میں فی پکسل 1.3 کلومیٹر کا علاقہ نظر آتا ہے۔




[1] ۔ اس کے لئے ملاحظہ کیجئے "لانگ ٹرم ڈائنامکل ایولوشن آف دا یورینس از کیرا ٹیکن اور نوئلز ، رائل آبزر ویٹری آف بیلجیئم شایع کردہ اے اے ایس ، ٢٠١٣ء۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
آٹھواں باب - 3
مرنڈا (یورینس کا چاند)


مرنڈا کا نام ولیم شیکسپیئر کے ناول "طوفانی" (دی ٹیمپسٹ) میں موجود واحد لڑکی کا کردار ادا کرنے والی مرنڈا پر رکھا گیا ہے۔ اس کے نام کا مطلب " ستائش کے قابل" یورینس کے سب سے حیران کر دینے والے سیارچے کے لئے یہ اسم بامسمّٰی ہے۔ سماوی جسم مرنڈا پراسرار ارضیات کا بھنڈار پیش کر رہا ہے ۔ یہ خالص خوش بختی ہی تھی کہ وائیجر دوم کا ١٩٨٩ء میں لگایا گئے چکر میں یہ یورینس کے تمام مہتابوں کی بنسبت اس سے زیادہ قریب ہو گیا تھا۔ خلائی جہاز کو یورینس سے قریب ہونے کی ضرورت اس لئے تھی کہ اس سے جھولا لے کر اس کو اپنی اگلی منزل نیپچون پر جانا تھا۔ مرنڈا ٹھیک اسی وقت اس کے راستے میں تھا۔

یورینس کا چھوٹا چاند کافی چیزوں سے نبرد آزما رہا ہے۔ صرف ٤٧٠ کلومیٹر کے نصف قطر کے ساتھ یا زمین کے چاند کے ساتویں حصّے جتنا ہے، باوجود اس کے یہ ماضی میں حیرت انگیز طور پر سرگرم رہا ہے۔ ننھے جہاں نے سیاروی سائنس دانوں کے سماج میں بے کلی وائیجر دوم کے دور سے پھیلائی ہوئی ہے جب اس نے جنوبی حصّے کی تصویر لی تھی۔ کافی اسرار جاننے باقی ہیں کیونکہ آدھے سے بھی کم کے رقبے کو تفصیل سے دیکھا گیا ہے۔ یہ نصف کرۂ تین سلوٹ دار ، لمبوترے علاقوں سے زخمی ہوا ہے جس کو کرونا کہتے ہیں۔ اس قسم کے خدوخال ہمارے نظام شمسی میں اور کہیں نہیں دیکھے گئے ہیں۔ عظیم شیوران میں پڑے متوازی پہاڑیوں کے داغی حصّے موجود ہیں جبکہ دوسرے علاقوں میں برف سطح پر بہی ہوئی ہے جس نے قدیمی شہابی گڑھوں کو گہنا دیا ہے۔ بلند و بالا شگاف تیزی سے گرتے ہوئے کچھ دسیوں میل تک سطح پر لڑھکتے دکھائی دیتے ہیں۔

آیا کیوں یہ تمام تر سرگرمی اتنے چھوٹے چاند پر ہوئی ہے؟ وائیجر سے لی گئی تصاویر نے نظریات کا سمندر جنم دے دیا ہے جس میں ایک نظرئیے میں ایک تصادم سیارچے کو ختم کرنا ہی چاہتا تھا ۔ یہ بات اب بھی جاری امتیاز کے عمل سے عیاں ہے۔ سائنس دان اس طرح کے واقعہ کے ثبوت سرکش زمین پر اس چھوٹے سے جہاں کے تشدد زدہ چہرے پر تلاش کر رہے ہیں۔

وسیع انتشاری علاقے جس کو کرونا کا نشان کہتے ہیں وہ مرنڈا کی ایک غیر معمولی خاصیت بن گیا ہے۔ ٣٠٠ کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ علاقہ مرتکز پہاڑیوں اور نالیوں پر مشتمل ہے۔ تصادم سے نبرد آزما نظریات کہتے ہیں کہ کرونا کافی ضخیم، کاربن سے لبریز قدیمی قلب کا حصّہ تھا جس کو سطح پر آنے پر زبردست تصادم نے مجبور کیا تھا اور اس سے پہلے کہ مادّہ واپس قلب میں جاتا اس کو جما دیا تھا۔ بہرحال احتیاط سے کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ یہ علاقے شاید شگافوں پر باہر سے قوّت لگنے سے اوپر اٹھنے کی وجہ سے بنے ہیں شاید اس وقت جب چاند کی برف ٹھنڈی ہو کر پھیلی۔ ہرچند کچھ پہاڑیاں شگافوں کی کارستانیاں لگتی ہیں لیکن دوسری آتش فشانی بہاؤ کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہیں۔ ان بہاؤ میں شاید پانی اور کچھ دوسرے مادّوں سے بنی ہوئی چیزیں بہی ہیں جنہوں نے ضد انجماد کے طور پر کام کیا شاید مائع میتھین یا امونیا ۔ کرونا شاید مرنڈا کے قلب سے نکلتی ہوئی حرارت سے ابھرتے ہوئے مادّے کی پھواروں کے اوپر بنے ہیں۔ اس منظر نامے میں جب مادّہ پھیلا اور اس نے سطح سے ٹکر کھائی تو اس نے برفانی آتش فشانوں کا سلسلہ یا کم از کم برفانی سیلاب کو شروع کیا۔ کافی جگہ پر ریخوں سے سیلابی ذخیروں کا رساؤ اس جانب اشارہ کر رہا ہے۔ متوازی پہاڑیاں اصل میں موٹا برفیلے لاوا بھی ہو سکتی ہیں جو جھریوں سے نکلا ہوگا۔ کچھ جگہیں اس جانب بھی اشارہ کر رہی ہیں کہ مرتکز پہاڑیاں مرکز سے ہجرت کرکے آئی ہوں گی جنہوں نے کناروں پر شہابی گڑھوں والے علاقے کو ڈھک لیا ہوگا۔ کرونا پر شہابی علاقے تاریک مزید قدیم علاقوں سے زیادہ ترو تازہ نظر آتے ہیں اور چند تو ایسے ہیں جو اور کم عمر ہیں۔ کرونا کے اندر ہی پہاڑیاں شیوران کی ترتیب میں ایک دوسرے کو قطع کر رہی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ڈرامائی انورنیس کرونا کے مرکز میں موجود ہے۔ یہاں پر ایک روشن پہاڑیوں کا سلسلہ ١٠٠ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے جس کے ارد گرد ہموار پہاڑیاں بھی موجود ہیں۔ سب سے عام شگاف اس کو کاٹ رہا ہے۔ ان میں سے ایک ویرونا روپس شہابی گڑھے میں دور تک7 کلومیٹر تک نکلا جا رہا ہے جس میں قریباً عمودی ١٤ کلومیٹر کے قریب ڈھلان بھی ہے جو نظام شمسی میں سب سے شاندار پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک ہے۔



خاکہ 8.7 ایک روشن شیوران انورنیس کرونا کو قطع کر رہا ہے۔ ایلسی نوری کرونا کا کنارہ دائیں طرف اوپر کی جانب دکھائی دے رہا ہے۔


مرنڈا کے تاریک مختتم حصّے میں غائب ہوتی ہوئی عظیم ڈھلوانی دیوار کے پیچھے کچھ حصّے اس کے متوازی طور پر ڈھلتے ہوئے لگتے ہیں۔ پہاڑی کے اوپر کے بڑے حصّے غیر محفوظ طور پر حاشیہ دار ہیں جیسے کہ کسی بھی لمحے گہری کھائی میں گر جائیں گے۔ شاید عظیم الجثہ برف کے طوفانی نشیب مستقبل کے کھوجیوں کا انتظار کر رہے ہیں سورج کی روشنی سے تھوڑا پرے جہاں پر وائیجر جھانک نہیں سکا۔

ایک بات تو واضح ہے: اس چھوٹے چاند پر کافی زیادہ حرکت اور تھرتھراہٹ موجود ہے اور کوئی تو چیز ان تمام تر سرگرمیوں کے پیچھے ہے۔ مدوجزر کی حرارت - وہی طاقت جو انسیلیڈس کے چشموں اور آئی او کے آتش فشانوں کے پیچھے سرگرم ہے شاید اس اندرونی حرارت کی ذمہ دار ہو سکتی ہے جس نے مرنڈا کی سطح کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔ ماضی میں مرنڈا ثقلی طور پر یورینس اور اپنے پڑوسی چاند امبریل کے ساتھ متعامل تھا۔ امبریل اور چھوٹا چاند 3 اور 1 کی نسبت گمگ میں الجھے ہوئے تھے(یعنی ہر مرتبہ جب مرنڈا یورینس کے تین چکر مکمل کرتا تو امبریل کا یورینس کے گرد ایک چکر مکمل ہوتا تھا)۔

آج مرنڈا دوسرے مہتابوں کے ساتھ گمک میں نہیں ہے اور کافی پرسکون زندگی گزار رہا ہے اور خاموشی کے ساتھ سبز برفیلے دیو کے گرد چکر کاٹنے میں مصروف ہے۔ لیکن اس نے اپنی ماضی کے انوکھے مدار کے بارے میں ہمارے لئے نشانات جھکے ہوئے حالیہ مدار میں چھوڑ دیئے ہیں اس کا مدار دوسرے تمام مہتابوں کی نسبت سطح سے جھکا ہوا ہے جبکہ دوسرے تمام مہتاب سیارے کی استوائی سطح پر ہی چکر کاٹ رہے ہیں ۔ مرنڈا چار درجے پر نیچا اور اوپر جاتا ہے۔ شاید اس کی اندرونی حرارت کافی عرصے پہلے ہی ختم ہو گئی تھی اس نے یورینس کے نظام میں ہجرت کے دور کی صرف اپنی ایک پرچھائی ہی چھوڑی ہے جس دوران اس نے اپنی سطح اور قلب پر تشدد کرنے والی ثقلی جنگ کا سامنا کیا تھا ۔

اپنے دوسرے بہن بھائی مہتابوں کی طرح مرنڈا میں بھی شہابی گڑھے تھے لیکن کافی جگہوں پر ان کو ٹیکٹونک یا برفیلی آتش فشانوں کی حرکت نے غائب کر دیا تھا۔ ایک جگہ پر ایلسی نور ی کرونا کے اندر ہی ایک برفیلے آتش فشاں کا منبع نظر آتا ہے۔ مرنڈا کے ختم ہونے کے کنارے پر سائے سے نظر آنے والا ایک اٹھا ہوا شہتیر ہے جس کو کسی بہاؤ نے توڑ ڈالا ہے ، یہ بہاؤ کافی حد تک ارضیاتی لاوے کی کوئی قسم لگتا ہے۔

دوسری زمین کی بناوٹ بجائے کسی ایک واقع میں بننے کے ہمیں مرنڈا کے توسیعی دور میں ہونے والی اتھل پتھل کے بارے میں بتاتی ہے۔ شگافوں نے دونوں کرونا اور شہابی میدانوں کوسطح کے نیچے موجود تبدیلی کو نظرانداز کرتے ہوئے کاٹا ہوا ہے۔ ان میں سے کئی تو متوازی جوڑے ہیں، جو نیچے پھیلتی ہوئی برف کا نشان ہیں۔



خاکہ 8.8 ویرونا روپس (اوپر مرکز کی چوٹی پر ختم ہوتی ہوئی) نظام شمسی کے قدرتی عجائب میں سے ایک ہے، یہ آس پاس کے شہابی میدان سے لگ بھگ ١٠ کلومیٹر بلند ہے۔


مرنڈا مفسرین کے آگے استقامت کا مسئلہ رکھتا ہے۔ تین اہم کرونا علاقوں میں سے ایلسی نوری اور آرڈین کرونا کو تصادم کے نظرئیے سے بہتر طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تیسرا والا انورنیس اپنے روشن شیوران کی وجہ سے پیچیدہ ہے اور اس کی عمومی ساخت برفیلے آتش فشاں سے بنی ہوئی ساخت کی طرف زیادہ اشارہ کرتی ہے۔ ریخیں اور شگاف کچھ جگہوں پر تو یکساں طور پر پھیلے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جگہوں پر حیرت انگیز طور پر الگ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مرنڈا کا ماخذ اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا کہ اس کی دور حاضر کی ارضیات ہے۔ اس چاند کا نام کس قدر مناسب طور پر شیکسپیئر کے اس کردار کے اوپر رکھا ہوا ہے جو کہتا ہے ، "اے نئی بہادر دنیا!"[1]






[1] طوفانی ، ایکٹ 1 کا آخر ، منظر نامہ نمبر 5۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
آٹھواں باب - 4
ایریل اور مرنڈا (یورینس کے چاندوں) کا سفر



جانس ہوپکنز آپلائیڈ فزکس لیبارٹری کی ایلزبتھ ٹرٹل کے خیالات ان مہتابوں کا بذات خود دورہ کرنے کے بارے میں درج ذیل ہیں:


میں نے فلکی طبیعیات کا مطالعہ کالج میں شروع کیا تھا میں سیاروں کو اس لئے پسند کرتی تھی کیونکہ یہ بہت زیادہ نزدیک ہیں؛ آپ یہاں پر حقیقت میں چیزوں کو بھیج سکتے ہیں، نمونے اکھٹے کر سکتے ہیں، چٹانوں پر چڑھ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے اجزاء کیا ہیں۔ لہٰذا میں نے سیاروں کو چنا۔ یورینس کے نظام کا نظارہ کسی بھی مہتاب سے انتہائی شاندار ہوگا۔ یورینس مشتری جتنا بڑا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ آسمان کے ایک بڑے حصّے پر قابض ہوگا۔ اگر آپ اعتدالین کی طرف جائیں تو وہاں کافی زیادہ کرۂ فضائی کی سرگرمی پائیں گے۔​



خاکہ 8.9 ممکنہ برفیلے آتش فشانی بہاؤ کی ایلسی نوری کرونا میں جگہ ۔ گڑھی ہوئی چیز مفصلات متوازی خطوط کے ساتھ دکھا رہی ہیں جو اٹھی ہوئی سطحی بناوٹ کے ساتھ کھینچے ہوئے ہیں اور دائیں طرف کی بناوٹ کی صورت میں ممکنہ منبع اور بہاؤ کا میلان نیچے دائیں جانب ہے۔


میرے خیال میں مرنڈا میں انتہائی دلچسپ کھیل منعقد ہو سکتے ہیں کیونکہ مقامی جغرافیہ کافی خطرناک جب کہ قوّت ثقل نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے خیال میں ان دونوں کے امتزاج سے آپ کو وہاں کافی مزہ آئے گا۔ خالص زبردست نظاروں سے لبریز مرنڈا کا مقامی جغرافیہ یقینی طور پر جیت جائے گا۔ شاندار مقام نگاری کے لئے شاید مرنڈا ہی وہ جگہ ہے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتی ہوں کہ ایریل ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں پر چہل قدمی کرنا واقعی میں تفریح ہوگی۔ یورینس پر آپ کو تابکاری والے مسئلہ کا سامنا نہیں ہوگا جس کی وجہ سے اس کے تمام مہتاب گلیلائی چاندوں کی بنسبت آسان ہدف ہوں گے۔ آپ اوبرائن یا ٹائٹینیا پر کچھ بھی چیز رکھ سکتے ہیں لیکن بطور ماہر ارضیات میں تو کہوں گی کہ ایریل جانے والی جگہ ہوگا۔ اگر آپ ان قطار میں لگی گھاٹیوں پر پہنچ جائیں تو وہاں سے اس کی شاخ میں سے آسمان میں یورینس کو دیکھ سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتی کہ وہاں پر جانے کوئی غلطی کا سودا ہوگا۔​

جنوب مغرب تحقیقاتی ادارے کے جان اسپینسر کہتے ہیں:
یورینس کا سب سے اچھا نظارہ مرنڈا سے کیا جا سکتا ہے۔ ہم دوسرے قریبی مہتابوں کے بارے میں اتنا اچھا نہیں جانتے، تاہم وہ عجیب و غریب اور مکمل طور پر غیر متوقع ہوں گے۔ مرنڈا پر آپ کے پاس یہ عظیم الجثہ برفیلی چوٹیاں ہوں گی اور وہاں پر کافی روشن اور تاریک مادّے موجود ہوں گے اور ہمیں نہیں معلوم کہ وہ آخر ہیں کیا لہٰذا آپ کو سطح پر کافی زیادہ تنوع ملے گا۔ وہاں پر ارد گرد کافی نشان ہیں جس طرح کے انسیلیڈس سے پھواروں کی صورت میں نکل کر بنتے ہیں، لہٰذا آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ ماضی میں کسی وقت یہاں پر پھواروں جیسی کوئی سرگرمی رہی ہوگی۔ اب تو اس کا کوئی نشان نہیں ہے اور فی الوقت ہم اس کی امید بھی نہیں کرتے کیونکہ ابھی کوئی مدوجزر کی حرارت نہیں ہے جو مرنڈا کی سطح پر جمع ہو رہی ہو۔ بلاشبہ کسی چیز نے ماضی میں اس کو گرم کیا تھا جس کو گزرے ہوئے کافی عرصہ نہیں بیتا کیونکہ کچھ علاقوں میں واقعی شہابی گڑھے موجود نہیں ہیں۔​


خاکہ 8.10 یورینس کے سیارچوں ایریل اور مرنڈا کے قطبی نقشے ۔ وائیجر کے سفر کے دوران - صرف وہ اچھے معیار کا مواد جو ہمیں حاصل ہوا ہے - اس میں ہر مہتاب کے جنوبی نصف حصّے کی جگہ یورینس کے عجیب و غریب جھکاؤ کی وجہ سے روشن ہے۔ جیسا کہ تمام سیارچوں کے نقشوں میں ہوتا ہے کہ ٠ درجے طول البلد خط براہ راست سیارے کی جانب رخ کرتا ہے، جبکہ ١٨٠ درجے اس سے دور کا رخ ہوتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
آٹھواں باب - 5
ٹرائیٹن (نیپچون کا چاند) حصّہ اوّل


ہمارے اہم سیاروی نظام کی بیرونی سرحد پر نیپچون کے عقب میں پژمردہ علاقے میں سفر کرتے ہوئے ، چکر لگاتا ہوا ٹرائیٹن ملے گا یہ سب سے دور اور سرد مہتاب وہ ہے جہاں کوئی بھی خلائی جہاز اب تک گیا ہے۔

جب ہم چاند کو دیکھتے ہیں تو ٹرائیٹن بڑا اور مخالف سمت میں چکر لگاتے ہوئے پاتے ہیں۔ یعنی کہ نیپچون کے گھماؤ کی مخالفت میں۔ اگر ٹرائیٹن نیپچون کے نظام کے ساتھ بنا ہوتا تو طبیعیات ہمیں بتاتی ہے کہ اس کا مدار اس کو اس کی مخالف سمت میں گھماتا یعنی کہ یہ سیارے اور اس کے مقامی سیارچوں کے ساتھ ایک ہی سمت میں چکر کھاتا۔ ٹرائیٹن کی ایک اور عجیب خاصیت یہ ہے کہ اس کا مدار استواء کے طرف جھکا ہوا ہے۔ مزید براں مشتری، زحل اور یورینس کے مقابلے میں یہ مدار میں اسی نسبتی علاقے میں چکر لگاتا ہے - بمقابل اپنے مرکزی سیارے کے – جس کو تمام اہم سیارچوں نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔ لیکن صرف ایک ہی ایسا ہے پروٹیس ۔ باقی دوسروں کا کیا ہوا ہے؟

اس سوال کا جواب نہ صرف ٹرائیٹن سے ملے گا بلکہ اس کے ساتھی بھی اس کو حل کرنے میں مدد کریں گے۔ وائیجر نے نیپچون کے نظام سے گزرتے ہوئے چھ نئے مہتابوں کا عقد کھولا تھا۔ پروٹیس سب سے بڑا ٤٢٠ کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کے قابل ذکر حجم نے اس کو اسی کلب میں جگہ دلوا دی تھی جس میں زحل کا چاند میماس اور انسیلیڈس یورینس کا چاند مرنڈا موجود تھے۔ میماس کی طرح (لیکن انسیلیڈس اور مرنڈا کے برخلاف)، پروٹیس کی سطح پر بھاری شہابی گڑھے موجود تھے، ناہموار جسم اپنی تخلیق کے بعد سے تھوڑا ہی تبدیل ہوا تھا۔ اور خاندان میں پروٹیس کے بھائی بہنوں کے بجائے یہ ایک ایسے علاقے کو پیش کر رہا تھا جو بڑے مہتابوں سے خالی تھا۔

اس علاقے کے دوسرے حصّہ میں ایک قابل قدر ٣٥٠ کلومیٹر نصف قطر کا غیر معمولی نیریڈ تھا، نیپچون کو سب سے دور دراز کا معلوم چاند۔ نیریڈ کا مدار اب تک کے دریافت شدہ کسی بھی سیارے کے چاند کے مقابلے میں سب سے زیادہ بیضوی مدار ہے۔ نیپچون کے مہتابوں کا یہ بے ترتیب مدار شاید ابتدا میں ہونے والے اس عظیم تصادم کا نتیجہ ہیں جس میں ٹرائیٹن نیپچون کے اس قدر نزدیک سے گزرا کہ اس کا قیدی بن کر رہ گیا۔ اس متشدد تعامل نے ٹرائیٹن کو مخالف سمت میں گھومنے پر مجبور کر دیا اور کافی زیادہ اہم مہتابوں کو یا تو تباہ کر دیا تھا یا نیپچون کے اہم مہتابوں کو نکال کر باقی بچ جانے والے چاندوں کو عجیب و غریب مدار میں ڈال دیا تھا۔ ٹرائیٹن کا مدار بالآخر دائروی ہو کر اس راستے پر گامزن ہو گیا تھا جس کو ہم آج دیکھتے ہیں اور اس نے اپنے پیچھے اہم کمیاب مہتاب چھوڑ دیے تھے۔ تمام چھوٹے بچ جانے والے مہتاب ٢٢٠ کلومیٹر سے بھی کم نصف قطر کے ہیں۔

نیپچون کے خدام مہتابوں کی تصاویر کم ریزولوشن کی ہیں ، اور اگرچہ ان کا چھوٹا حجم سادگی اور قدامت ہئیت کا گواہ ہے بیرونی نظام شمسی نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ وہ شاید کچھ حیرت انگیز چیزیں اپنے اندر چھپا کر رکھے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ تاہم ٹرائیٹن نے بہت سیارے سیاروی سائنس بشمول ولیم مک کنن دانوں کے تخیل کو بھی اڑا کر رکھ دیا ہے۔ "ٹرائیٹن ایک وحشی اور عجیب و غریب دنیا ہے۔ نیپچون پر شمسی ہوائیں کمزور ہوتی ہیں، لہٰذا وہاں پر کافی شفیق ماحول ہوتا ہے۔ وہاں آپ کے پاس تصعید کرۂ فضائی اور میلوں اونچے چشمے ہوں گے۔ میں تو وہاں لمبے جوتے پہننا پسند کروں گا۔" ٹرائیٹن کا عجیب و غریب ماحول شاید کچھ حد تک اس کے بننے کے بعد سے سیاروی سطح کے دوبارہ نمودار ہونے کی وجہ سے ہے۔ جب مداخلت کار نیپچون کے نظام میں داخل ہوا تھا تو یہ کافی حد تک شہابی گڑھوں سے پر ایک برفیلی گیند کی طرح تھا۔ قید کے دوران ثقلی طاقت نے اس کی سطح پر رگڑ سے اتنی حرارت پیدا کردی جو سطح پر موجود برف کو پگھلا سکتی تھی۔ سیارچے میں موجود کسی بھی چٹان کے پاس اس امتیازیت حاصل کرنے کے عمل میں کافی وقت تھا ، اور وائیجر دوم سے کی گئی ثقلی تحقیق اس کے اچھے ثبوت مہیا کر رہی ہے۔ تاہم اس کے چٹانی قلب کے اوپر موجود برف مکمل طور پر پگھل کر سمندر میں بدل گئی ہوگی کیونکہ نیپچون کی ثقلی قوّت نے اس کو بیضوی مدار سے دائروی مدار میں لانے کے لئے زور آزمائی کی ہوگی۔ بالآخر پانی برف کی پرت میں تبدیل ہو گیا ہوگا، لیکن یہ عمل شاید آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے وہ چاند کو عجیب و غریب طریقوں سے کندہ کر رہا ہے۔

صرف چاند کا ایک تہائی حصّہ ہی کی تصاویر درمیانی سے لے کر بہترین ریزولوشن(٤٠٠ میٹر فی پکسل) میں لی گئی ہیں۔ کرۂ کے اتنی ہی حصّے میں محققین کو صرف ١٥ شہابی گڑھے مل سکے ہیں۔ شہابی گڑھوں کی کمیابی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ٹرائیٹن کی سطح پر چلنے والی ارضیاتی سرگرمی کس حد تک حالیہ دور کی ہے۔

ٹرائیٹن کی زمین پر پائے جانے والے عام گڑھے والی چپٹے میدان کینٹالوپ میدان کہلاتے ہیں۔ جنوب مغرب تحقیقاتی ادارے کے جان اسپینسر اس کی تحقیق میں ٹرائیٹن کے دوسرے مظاہر کے ساتھ مصروف ہیں ساتھ ساتھ وہ کائپر پٹی میں موجود بونے سیاروں کی بھی تحقیق میں مصروف عمل ہیں:

بلاشبہ کینٹالوپ میدان مختلف ہیں۔ یہ بالکل ایسے لگتے ہیں جیسا کہ پلیٹوں کی قطار کو میز پر الٹا کرکے ترتیب میں رکھا ہے۔ یہ عجیب ٹوٹی ہوئی زمین ہے۔ ہمارے پاس اس کی ایک مفصل تصویر ہے، آخری لیکن بہتر ریزولوشن کی تصویر جو وائیجر نے لی تھی ، جہاں پر کینٹالوپ میدان کا ایک ترچھا نظارہ دکھائی دے رہا ہے اور آپ کو تھوڑا سے اندازہ ہوگا کہ اگر آپ وہاں سطح پر کھڑے ہوں تو زمین کیسی دکھائی دے گی۔ وہاں پر پہاڑیاں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی ہیں، لیکن تمام پہاڑیاں ٹیڑھی ہیں جس طرح سے کسی نے ان پر مشعل سے حملہ کیا ہو۔ وہاں پر کافی کچھ چل رہا ہے جس کی ہمیں کچھ سمجھ نہیں ہے۔ یوروپا کی پہاڑیاں کافی سیدھی اور پرانی ہیں جیسا کہ وہ کل کی ہوں۔ ٹرائیٹن پر ہر چیز اکھٹا ہو کر نیچے کی طرف اور ٹیڑھی اور گھسی ہوئی اور عجیب طرح سے دفن ہے۔


خاکہ 8.12 وائیجر سے حاصل کئے گئے بہترین نظارے، پروٹیس، لاریسزا ، ڈیسپنا اور نیریڈ لگ بھگ اپنے بلحاظ حجم ۔ غور کریں کہ نیریڈ کی تصویر کافی دور سے کم ریزولوشن کی ہے۔


اس کی دوسری ارضیاتی خصوصیات سے نسبت کو دیکھتے ہوئے، کینٹالوپ میدان شاید ٹرائیٹن پر سب سے قدیم علاقوں کو پیش کرتا ہے۔ اس کی پلیٹ جن کو کاوی کہتے ہیں وہ ٢٥-٣٠ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کو آپس میں جڑی ہوئی پہاڑی وادیوں نے کاٹا ہوا ہے۔ کینٹالوپ کو بنانے کا عمل شاید کوئی نامعلوم کٹائی کی سرگرمی ہے یا پھر یہ میدان شاید برف کے تبخیر بننے کے عمل سے وجود میں آئی ہیں۔ کئی جگہوں پر، نیچی چوٹیوں کے کنارے پلیٹ جیسے میدان ہیں۔ جبکہ دوسرے علاقوں میں چوٹیاں مرحلہ وار نیچے جاتے ہوئے ہموار میدان بناتی ہیں۔ ان میں سے کچھ میدانوں میں سیلاب آیا ہوگا شاید برفیلا آتش فشانی بہاؤ۔ بالخصوص روآچ پلانٹیا اپنی فرش پر منجمد لہروں کی طرح لگتا ہے۔ اس کے مرکز میں ایک منہدم جوہڑ ہے جو آتش فشانی دھانے کی خاصیت کا بھی حامل ہے۔ ایک وسیع روشن نارنجی رنگ کا مادّہ خطاطی کرتا ہوا ٹرائیٹن کے جنوبی نصف حصّے پر پھیلا ہوا ہے جو وائیجر سے حاصل کردہ تصاویر میں دکھائی دے رہا ہے۔ وائیجر سے سامنے کے دوران، ٹرائیٹن جنوب میں گرمی کے موسم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گلابی مادّہ سطح پر موجود جمی ہوئی نائٹروجن کی برف لگتا ہے۔ برف کے کنارے پر پیچیدہ جھیل جیسی ساخت روشن مادوں کے ہالے کے اندر موجود ہے۔ ان کو گٹا ئی یا لاکس (لاطینی زبان میں جس کا مطلب "جھیل" ہے) کہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کو ٹرائیٹن کے واپس جاتے ہوئے قطبی ٹوپیوں نے یہاں چھوڑا ہے، جان اسپینسر بیان کرتے ہیں۔ "لاکس والے علاقے مجھے پگھلی ہوئی موم کی یاد دلاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی مائع سطح پر بہا ہو، لیکن یہ پانی کے بہاؤ جیسا یا بہتے ہوئے لاوے جیسا نہیں لگتا، یہ موم کی طرح زیادہ لگتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کسی قسم کی برفیلے آتش فشاں کی برف ہے لیکن یہ تمام کی تمام کافی اجنبی ہے۔



خاکہ 8.13 پراسرار کینٹالوپ میدان شاید ٹرائیٹن کی سطح پر موجود قدیمی زمین میں سے ایک ہیں۔



خاکہ 8.14 روآچ پلانٹیا اپنی سیڑھیوں جیسی چوٹی اور آتش فشانی جیسے مرکزی جوہڑ کے ساتھ شاید یہ ایک قدیمی برفیلا آتش فشاں رہا ہو۔ بائیں طرف وائیجر سے حاصل کردہ اصلی تصویر ہے، جبکہ دائیں طرف کمپیوٹر سے حاصل کردہ ترچھا نظارہ حجم کا بڑھا کر دکھایا گیا ہے تاکہ واضح ہو۔


لاکس علاقے میں کافی عجیب حاشیہ دار کنارے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ جو کوئی بھی مائع چیز وہاں تھی وہ کناروں پر پگھل کر منہدم ہوتی ہوئی ان کو کھا کر کاٹ رہی تھی۔ وہاں پر کافی زبردست کام جاری تھا۔"​
 
Top