Living Among Giants by Michael Carroll - اردو ترجمہ

زہیر عبّاس

محفلین
آٹھواں باب - 6

ٹرائیٹن (نیپچون کا چاند) حصّہ دوم


ٹرائیٹن کی سب سے غیر معمولی خاصیت اس کے متحرک پھٹاؤ تھے۔ وائیجر دوم نے ٹرائیٹن کے جنوبی قطب پر ٢٥ اگست ١٩٨٩ء پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور اسٹیریو تصاویر حاصل کیں جس میں دو گہری اونچی پھواریں سطح سے 8 کلومیٹر اوپر پہنچ رہی تھیں اور ١٥٠ کلومیٹر دور تک اپنے نشان چھوڑ رہی تھیں۔ ٹرائیٹن کے جنوبی نصف حصّے کی دوسری تصاویر میں ١٠٠ تاریک، دھاری دار ذخیرے ، جن کا رخ ترجیحی طور پر شمال مشرق یعنی جنوبی قطبی ٹوپی سے دور تھا ۔ یہ دھاریاں سطح پر دس سے لے کر سینکڑوں کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں جو پھواروں جیسی سرگرمی کے بہت ہی عام ہونے کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ محققین کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ٹرائیٹن پر یہ آتش فشانی سرگرمی کتنا زیادہ پھیلی ہوئی ہے کیونکہ شمالی قطبی حصّہ وائیجر کے وہاں پر اڑان بھرنے کے وقت تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ برفیلے میدانوں میں نچلے درجے کے طول بلد پر ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن برفیلے قطب پر اس کی سرگرمی محدود لگتی ہے۔

ٹرائیٹن کافی سرد ہے سطح کا درجہ حرارت منفی ٢٣٥ سینٹی گریڈ ہے۔ یہ جنوبی قطب کو بنانے والی نائٹروجن کو منجمد کرنے سے کافی نیچا کا درجہ حرارت ہے ۔ زمینی دوربینوں نے ٹرائیٹن کی سطح کے طیف میں دونوں نائٹروجن اور میتھین کا سراغ لگایا ہے۔ جبکہ کاربن مونوآکسائڈ اور کاربن ڈائی آکسائڈ بھی قلیل مقدار میں پائی گئی ہیں۔ ٹرائیٹن کا مہین کرۂ فضائی زیادہ تر نائٹروجن پر مشتمل ہے۔ کرۂ فضائی نائٹروجن کو ایک قطب سے لے کر دوسرے قطب تک ہر ٹرائیٹن کے برس اس وقت منتقل کرتا ہے جب ایک قطب تصعید کے عمل میں گیس میں بدلتا ہے جبکہ دوسرا ٹھنڈا قطب دوبارہ منجمد ہو جاتا ہے۔ نائٹروجن کی ہجرت ایک قطب سے دوسرے قطب تک سطح کا درجہ حرارت ہر جگہ قریباً ایک ہی جیسا رکھتی ہے۔

اس عجیب برفیلے آتش فشانی دنیا میں آتش فشانی سرگرمی کس طرح ہوتی ہے؟ ٹرائیٹن پر برفیلی آتش فشانی مشتری اور زحل کے سیارچوں کے مقابلے میں بہت ہی الگ ہے۔ اگرچہ پھواروں چشموں کی طرح ہی سمجھی گئی ہیں لیکن اس کی وجہ نائٹروجن کے قطب میں ہونے والا شمسی تصعیدی عمل ہے - یعنی برف کا براہ راست پگھل کر بخارات بن جانے کا عمل۔ متحرک پھواریں اس جگہ پائی گئی ہیں جو اس علاقے سے قریب ہیں جہاں سورج براہ راست چمکتا ہے۔

ایک نظریہ کہتا ہے کہ پھواریں نائٹروجن کی برف میں سے سورج کی روشنی کے گزرنے کی وجہ ہے یہ کافی واضح بات ہے۔ سورج کی توانائی ایک طرح کی نباتاتی خانے کے اثر والی ٹھوس برف میں حرارت میں بدل جاتی ہے۔ حرارت اندر جمع ہوتی ہے نائٹروجن کی برف کو نائٹروجن گیس میں بدلتی ہے۔ بخارات کا دباؤ بنتا ہے اور بالآخر ٹرائیٹن کے کرۂ فضائی میں قریبی فضا میں جا کر پھٹ پڑتا ہے۔



خاکہ 8.15 جھیل جیسی ساخت گٹا ئی حقیقت میں منجمد ٹھوس نامعلوم تاریک مادّے کے تالاب ہیں۔ یہ نظام شمسی میں منفرد ہیں۔ پیش منظر میں نظر آنے والے الٹے کھمبیوں کی شکل والے یہ گٹا ئی ١٠٠ کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔

اگر یہ نظریہ درست ہوا تو ٹرائیٹن پر برفیلی آتش فشانی سرگرمی بجائے اندرونی حرارت سورج کی روشنی کی ضمنی پیداوار ہوگی ۔ جان اسپینسر مزید کہتے ہیں، " جو دلچسپ بات ہے وہ یہ خیال ہے کہ اس نظرئیے کو ١٩٩٠ء میں باب براؤن اور رینڈی کرک نے پیش کیا تھا اور تب سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعینہ ایسا ہی نظام مریخی قطبین پر جاری ہے، اور آپ مکڑی کی عنکبوتی ساخت جیسی چیز حاصل کرتے ہیں جو اسی نظام کی پیداوار لگتی ہیں۔ سورج موسمی کاربن ڈائی آکسائڈ میں سے جذب ہو کر اس کی تبخیر کرتا ہے اور یہ برف میں موجود ریخوں میں سے گزر کر اندر آتی ہے اور دھاروں کو پیدا کرتی ہیں۔ مجھے ہمیشہ سے یہ خیال اچھا لگتا ہے کہ نظام شمسی کے لئے پیش کئے جانے والا ہر نظریہ سچا ہو، تاہم یہ اکثر ان اجسام کے لئے درست نہیں ہوتا جن کے لئے اس کو پیش کیا جاتا ہے۔"

بیرونی سیاروں کے ماہرین نے دو دہائیوں قبل وائیجر کے وہاں کے سفر کے دوران تیار ہو کر نیپچون کے عجائب حیرت والے چاندوں کی طرف دیکھا تھا۔ تب سے ٹرائیٹن کے موسم نے جنوب سے لے کر بعید جنوبی خزاں تک گرمیوں کے وسط سے لے آگے بڑھنا شروع کیا۔ ( یورینس اور ٹرائیٹن میں اعتدالین ٢٠٠٧ء میں آیا جب سورج براہ راست خط استواء پر طلوع ہوتا ہے ، اب یہ شمال کی طرف جا رہا ہے۔)

وائیجر کے ٢٥ برس کے بعد مشاہدین نے اس چاند کے بارے میں کافی کچھ جان لیا ہے لیکن یہ پہلے کی طرح زیادہ تفصیلی نہیں ہے۔ زمیں پر موجود دوربینوں نے ٹرائیٹن کے رنگ میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلی کو درج کیا ہے۔ تعدیلی خاکستری رنگ سے چٹخ بھورا مائل سرخ ہوتا ہوا کچھ محققین اس سیارچے کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کے نیپچون سے قربت کی وجہ سے رنگوں کی جانچ کرنا کافی مشکل ہے، رنگوں کے تغیر کی کافی متبادل توجہات موجود ہیں جن میں سے کچھ آلات کو بھی ذمہ دار ٹھہراتی ہیں تاہم خود مختار طور پر کافی مختلف جماعتوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔



خاکہ 8.16 سب سے بہترین معیار کی نیپچون کے چاند ٹرائیٹن کی پچی کاری جو حال میں وجود رکھتی ہے۔ خط استواء لگ بھگ افقی طور پر تصویر کے درمیان سے گزر رہا ہے۔ گلابی مادّہ نائٹروجن کی برف ہے۔


اگر نائٹروجن کا رنگ آفاقی طور پر تبدیل ہو رہا ہے، تو رنگوں میں تبدیلی کی وجہ قطب پر ہونے والی چشموں کی سرگرمی ہو سکتی ہے جو مہین کرۂ فضائی کو سرخی مائل کہر سے بھر رہی ہوگی۔ متبادل طور پر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کسی قسم کے فوق پھواروں کے اخراج کی وجہ سے ہو جہاں بڑے علاقے دوبارہ سے نمودار ہو گئے ہوں۔ اسپینسر موخّرالذکر خیال کے حق میں ہیں ۔ "میں کہر کے نظرئیے کو ترجیح دیتا ہوں ( جو شاید چشموں جیسی کسی سرگرمی میں اضافہ کی وجہ سے شروع ہوئی ہو، جس کا عالمگیر اثر ہو سکتا ہے ہرچند کہ چشمے صرف جنوبی نصف حصّے میں ہی کیوں نہ ہوں) کیونکہ پورے ٹرائیٹن کے رنگ کو تبدیل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے، زمین سے دیکھنے پر اوسط کرہ کا رنگ تبدیل کرنے کے لئے شاید یہی چیز درکار ہے۔" محققین نہیں جانتے کہ سطح پر کہاں موسمی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ٹرائیٹن کے گھومنے کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہیں اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہو سکتا ہے کہ شاید وہ قطبین کے قریب ہونے کے بجائے استوائی حصّہ میں ہیں۔ یہ تبدیلیاں بجائے براہ راست چشموں کی سرگرمی کے پالے کے بتدریج تبخیر کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔ ٹرائیٹن کیمیائی طور پر کافی زرخیز ہے۔ سائنس دانوں نے زیریں سرخ اشعاع کے ذریعہ اس کا مفصل طیف حاصل کر لیا ہے اور اس کی روشنی کا تجزیہ کرنے سے وہاں میتھین، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، کاربن مونوآکسائڈ اور پانی کا پتا لگا ہے۔ چاند کے گھومنے کے ساتھ مختلف نصف حصّے سامنے آتے ہیں جو مختلف کیمیا کو بیان کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وائیجر کے اوپر جدید طیف پیما نہیں لگے ہوئے ہیں۔ ٹرائیٹن کی سطح پر موجود رنگ و روپ کی بوقلمونی کا جدید آلات کی مدد سے حاصل کئے گئے اس کے طیف سے کوئی جوڑ نہیں مل رہا۔ دوربینوں کی ریزولوشن کی وجہ سے طیف مل کر ایسے اوسط میں ملتے ہیں جس سے چاند کے ایک حصّے کو دوسرے حصّے سے جدا کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ طیف کو وائیجر کے دیکھے گئے رنگ سے ملا کر دیکھا جاتا ہے جو شاید پچھلے ٢٥ برس میں کافی تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ یہ کافی پیچیدہ کام ہے تاہم محققین مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی ادھیڑ بن میں لگے ہوئے ہیں۔

دوربین کے ساتھ اپنا تمام وقت بتا نے کے بعد بیرونی سیاروں کی ماہر ہیدی ہیمل اس کے مشکل مشاہدے کی عادی ہو گئی ہیں۔ ان کو ٹرائیٹن بہت دلچسپ لگتا ہے۔" وہ بذات خود ایک زبردست چاند ہے۔ وہ متحرک ہے۔ وہ جوان ہے۔ وہاں چیزیں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ ہم وہاں پر جو دیکھ رہے ہیں وہ بلاشبہ اس سے کہیں زیادہ الگ ہے جو وائیجر نے دیکھا تھا۔ یہ مجازی طور پر پلوٹو کا جڑواں ہے، ایک برادرانہ جڑواں بھائی۔ یہ کائپر پٹی کا جسم ہے جسے نیپچون نے قید کر لیا تھا۔ ہم یہ بات اس کے مدار میں مخالف سمت میں گھومنے کی وجہ سے جانتے ہیں۔ آپ پلوٹو کو لے کر نیپچون سے اس کو قید کروا لیں اور پگھلا کر اس عمل میں اس کو الٹ پلٹ کر دیں۔ ہم پلوٹو کی جانب ایک خلائی جہاز چند برسوں میں روانہ کر رہے ہیں لہٰذا ہمارے پاس ایک شاندار تقابل کرنے کی چیز موجود ہوگی۔" وہ کہتی ہیں۔

اب بھی نیپچون کے نظام میں بھیجے جانے والی دونوں روبوٹک اور انسان بردار مہمات کو سوچتے ہوئے ہیمل نیپچون کے بڑے سیارچے کی ایک اور خاصیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔" ٹرائیٹن ایک بڑا چاند ہے، لہٰذا آپ نیپچون اور ٹرائیٹن کی قوّت ثقل کو اپنا مدار درست کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ یورینس کا سب سے بڑا چاند بھی اس طرح کا کام کرنے کے قابل نہیں ہے۔" ٹرائیٹن مستقبل کے کھوجیوں کو تب شاید قوّت ثقل کا ایسا پلیٹ فارم مہیا کرے گا جہاں سے وہ مزید آگے دیوہیکل عجائب جہاں کو کھوجنے کے لئے آگے جا سکیں گے۔ ٹرائیٹن بذات خود سے ہمیں بطور منزل بلانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کی شاندار ارضیات، بہترین برفیلے آتش فشاں اور اس کی دیوہیکل سیارے کے پاس تزویراتی مقام ٹرائیٹن کو مستقبل میں انسان بردار سفر کے لئے ایک اہم کھلاڑی بنا دے گا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
آٹھواں باب - 7
ٹرائیٹن (نیپچون کے چاند) کی زیارت



جنوب مغرب تحقیقاتی ادارے کے جان اسپینسر ٹرائیٹن کو قریب سے دیکھنے کے بارے میں ان خیالات کا اظہار فرماتے ہیں:

جب ہم نے ١٩٨٩ء میں پہلی مرتبہ ٹرائیٹن کی تصاویر حاصل کی، تو میں اس وقت رات کے تین بجے ان کو آتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا، 'یہ اس نسبت سے ایک ایسا حیرت انگیز جہاں ہے جیسا کہ مریخ جہاں پیچیدہ چیزیں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔' یہ ایسا تھا جیسا کہ آپ نے ایک گھنٹے کے لئے مریخ دیکھا تھا اور بس یہی آپ اپنی پوری زندگی میں دیکھ سکتے تھے۔ وہاں بہت ہی کم چیزیں دیکھی تھیں جس سے ہم اس کی سطح کو سمجھ سکتے۔ سطح کیمیائی طور پر اس قدر پیچیدہ تھی کہ ہم نے نظام شمسی میں کوئی ٹھوس جگہ اس سے زیادہ پیچیدہ نہیں دیکھی تھی۔ اس کا کرۂ اور موسم بھی تھے، اور یہ پھواریں – آپ ان کو جو چاہئے کہہ لیں - لہٰذا یہ حقیقت میں ایک زرخیز ماحول تھا۔
یہ گھومنے کے لئے ایک شاندار جگہ ہوگی۔ میں تو کسی ایک پھوار کے قریب اترنا پسند کروں گا۔ جہاں پر یہ پھواریں ہیں وہاں سے آپ نیپچون کا شاندار نظارہ کر سکتے ہیں۔ مشتری اور زحل کے بڑے چاندوں کے برخلاف جہاں آپ استوائی علاقے پر پرسکون طریقے سے چل سکتے ہیں اور آپ ہمیشہ استوائی منظر ہی دیکھیں گے، ٹرائیٹن پر آپ کو ناہموار سفر کرنے کو ملے گا۔ آپ کو شمالی قطب کی طرف اونچائی پر جانا ہوگا اور پھر استواء پر نیچے آتے ہوئے جنوبی قطب کی طرف جانا ہوگا اور واپس دوبارہ آنا ہوگا اور آپ یہ کام ہر چھ دنوں میں مکمل کر سکتے ہیں۔ نیپچون کا منظر نہایت ہی ڈرامائی انداز سے ہر مرتبہ اس وقت تبدیل ہو جائے گا جب آپ نے ایک چکر مکمل کر لیا ہوگا۔ آپ حلقوں کو اس وقت دیکھ سکیں گے جب وہ زاویائی طورپر نظر آنے کے قابل ہوں گے۔ وہ ہمیشہ بدلتے رہیں گے۔ یہ بات ہم وائیجر کی تصاویر کو ہبل سے حاصل کی گئی تصاویر کے تقابل کے بعد جانے ہیں اور یہ حلقے بہت ہی تیزی کے ساتھ ارتقاء پذیر ہو رہے ہیں۔ وہ گھٹوں کی طرح ہیں لہٰذا آپ حلقوں کے گرد کے پاس سے گزرتے ہوئے ان بے ڈھنگی چیزوں کو دیکھ سکیں گے۔ واقعی یہ ایک شاندار نظارہ ہوگا۔ سطح پر متحرک برفیلے آتش فشاں بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کس چیز نے ان کو توانائی دی ہے، لیکن بلاشبہ یہ حال ہی میں ہونے والی سرگرمی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس وقت بھی جاری ہو۔ یہاں پر ایسی زمینی قطعے موجود ہیں جو ہم نے پورے نظام شمسی میں اور کسی جگہ نہیں دیکھے ہیں۔ یہ چپٹے ہیں۔ یہاں پر چوٹیاں ہیں، لیکن یہ بہت ہی نیچے ہیں اور یہاں پر کوئی اونچے پہاڑ نہیں ہیں، لیکن یہ گھومنے اور دیکھنے کے لئے ایک حیرت انگیز دنیا ہوگی کہ اصل میں یہ ہے کیا۔ بلاشبہ آپ چشموں کو اس صورت میں نہیں دیکھنا چاہیں گے جب وہ سرگرم ہوں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ میں تصوّر کرتا ہوں کہ یہ سطح پر شگاف ہیں جہاں سے تیز رفتار دھاریں اس مادّے کی نکل رہی ہیں جو سطح کے نیچے پگھل رہا ہوگا اور یہ آسمان میں 5 یا 8 میل اوپر جا رہا ہوگا اور دھوئیں کی لمبی پھواریں سی اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہوگا۔ آپ کو یہ چیز کہیں اور نہیں نظر آئے گی۔
میرے خیال میں جب آپ سیدھا اوپر دیکھیں گے تو آسمان کالا ہوگا لیکن ہمیں وائیجر نے بتایا ہے کہ افق کے قریب ہمارے پاس کہر کی پرتوں کی تصاویر موجود ہیں یعنی کہ اگر آپ نیچے کی طرف دیکھیں گے تو کبھی کبھار لچھے دار کہر کی پرتیں آپ کو بتائیں گی کہ وہاں پر کرۂ فضائی موجود ہے۔ اگر آپ ان میں سے کسی ایک پھوار کے نیچے موجود ہوں گے تو آپ کہر کے بہاؤ کے اپنے اوپر سے گزرتا ہوا دیکھ سکیں گے اور آپ کو کرۂ فضائی بھی دکھائی دے گا کیونکہ کہ یہ اتنا ضخیم ہے کہ وہ ستاروں کے نظارہ کو بھی روک دیتا ہے اور شاید نیپچون کو بھی چھپا سکتا ہے اگر آپ اس مخصوص زاویہ پر کھڑے ہیں۔ یہ واقعی ایک عجیب بات ہے۔​



خاکہ 8.17 نیپچون کے سب سے بڑے چاند ٹرائیٹن میں موجود زمینی قطعات کی بوقلمونی باقی مانندہ نظام شمسی سے کہیں زیادہ ہے، یہاں پر پس منظر میں دیکھی جانے والی پراسرار کینٹالوپ میدان تصویر کے نچلے حصّے میں دکھائی دے رہے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 1
دیوہیکل سیاروں کے درمیان میں رہنے کی ٹیکنالوجی

حصّہ سوم - نئے جہاں

باب نہم - ٹیکنالوجی اور دیوہیکل سیاروں کے درمیان میں رہنا​




خاکہ 9.1 روبوٹک کھوج کے عشروں کے بعد انسان زیر زمین انسیلیڈس کے سمندر میں جانے کے لئے تیار ہے۔ ایک دباؤ والا گنبد 'شیر کی دھاریوں' کی وادی کے فرش پر موجود ہے جو سمندر کے پانی کے ابال کو خلاء میں جانے سے روکے ہوئے ہے۔ گنبد اور اس کا ہوائی تالا (دائیں) سطح پر چٹان جیسی سخت برف کے چورے سے بند ہوا ہے۔



وہ ستاروں کی رہنمائی میں چھوٹے بحری جہازوں میں خلائی جگہوں سے نمودار ہوئے۔ ان کا ہر بحری جہاز 19 میٹر لمبا اور 5 میٹر چوڑا تھا۔ اس کے باوجود وہ پہنچ گئے۔ انھوں نے جواں مردی کے ساتھ فلک شگاف لہروں، متشدد ہواؤں اور جھلسا دینے والی دھوپ کا سامنا کیا۔ بالآخر وہ کامیاب ہوئے اور انہوں نے ہوائی جزیرے کے بَحرُالجَزائر میں پہلی باقی رہنے والی تہذیب کی داغ بیل ڈال دی۔

بیرونی نظام شمسی کے پہلے کھوجی انجینیروں اور سائنس دانوں کے رحم و کرم پر وہاں گئے تھے جنہوں نے انھیں بنایا تھا۔ انھوں نے ظلمات کے گھٹا ٹوپ سمندر میں اپنے سفر کی ابتداء 1970ء کے عشرے میں کی ۔ بانسوں کے بستر کے بجائے بے باک کھوجی سونے اور کالے پلاسٹک کے کمبل میں لپٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے ناقوس کو سفید انٹینا سے اور لکڑی کے پتواروں کو ہیڈرازین راکٹ سے بدل لیا تھا۔ ابتدائی پولی نیشیائی ملاحوں کی طرح انہوں نے بھی وہاں نئی زمین کے بارے میں اطلاعات کو بھیجا، جیسا کہ ٹھنڈے لاوے کی زمین، دھانوں اور پہاڑوں اور پراسرار گہرے پانی کے سمندر۔

ان کے پیچھے کون جائے گا؟ کیا مستقبل کے انسانی کھوجی اپنے پیش رو پولی نیشیائی کے نقش قدم پر چلیں گے اور پہلے سے معلوم کونیاتی سمندر کے کناروں کو آباد کریں گے؟ وہ پہلے روبوٹک مسافروں کے طے کردہ راستے پر تین صدیوں بعد کہاں جائیں گے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ ابتدائی پولی نیشیائی ہجرت اور خلاء میں مستقبل کے انسان کی ہجرت کے درمیان کافی مماثلت ہے۔ پولی نیشیائی سماج سے تاہیتی اور مار کیزی جزیروں میں 1,000 برس سے بھی زیادہ پہلے پہنچ گئے تھے۔ ان کے سفر کا آغاز آباد ہونے کے بجائے کھوج کرنے کا تھا۔

ہوائی کے جزیرے سے حاصل کردہ آثاریاتی ثبوت بتاتے ہیں کہ مارکیزی سے آئے ہوئے کھوجیوں نے 800 بعد مسیح کے قریب زمین پر قدم رنجا فرمائے۔ سیپ، ہڈی اور خول سے بنی اشیاء مارکیزی ڈیزائن کی ہیں۔ علاقے کی ہوائی رو اس کی تائید کرتی ہے۔ اگر مارکیزی ڈونگی شمال کی طرف ،بطور حوالہ شمالی ستارے (آسمان میں واحد ثابت ستارہ)سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے جاتی تو باد صبا ان کو 15 درجے سے 20 درجے تک مشرق کے طول البلد تک لے جاتی۔ ہوائی یونیورسٹی کے ڈاکٹر رچرڈ گریگ کے مطابق یہ "اس قابل ہوتی کہ ہوائی کے اونچے جزیروں میں کسی بھی مشرقی جگہ میں لے جاتی"۔[1]

تین صدیوں بعد 1100 سے 1300 بعد مسیح کے درمیان پولی نیشیائی لوگوں نے ذہن میں کچھ اور سوچ کر سفر کا آغاز کیا۔ ان کی دہری مٹر کے چھلکے کی طرح کی ڈونگیاں ہوائی میں دوبارہ اتریں اور اپنے ساتھ کچھ 30 اقسام کے پھل اور صحت بخش پودے، سور، کتے، مرغیاں اور چوہے لے کر آئے۔[2]یہ کوئی حادثاتی سفر نہیں تھا بلکہ انتہائی احتیاط کے ساتھ منصوبہ بندی کے بعد کیا جانے والا سفر تھا۔ پولی نیشیائی کھوجی پہلے بھی آئے تھے، نئے ہوائی کے لوگ جانتے تھے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور انہوں نے وہیں رکنے کا منصوبہ بنایا۔
"اگر آپ کو کہیں رکنا ہوتا ہے تو آپ اپنے سور اور مرغیاں اور عورتوں کو ساتھ لے کر آتے ہیں،" سائنس کے فنکار اور عالم جون لومبرگ کہتے ہیں۔ "یہی وجہ ہے کہ پرانی توجیح 'کچھ مچھیرے گئے اور دوسرے جزیرے پر پہنچ گئے' کام نہیں کرتی۔ اگر آپ مچھلیاں پکڑنے جا رہے ہیں تو آپ مرغیاں، سور اور سدابہار درختوں کے نوخیز پودے لے کر نہیں جاتے ۔ یہ باقاعدہ سے آبادکاری کی نیت سے کئے جانے والے سفر تھے۔ کشتی ہے جزیرہ تھی اور جزیرہ ہی کشتی تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ لوگ سفر کر رہے تھے۔ اصل میں وہ اب جزیرے کا حصّہ تھے، مٹی بھی جزیرے کی تھی، پودے بھی جزیرے کے تھے اور ہاں چاہئے آپ پسند کریں یا نہ کریں کیڑے بھی ساتھ ہی تھے۔​
وہ یہ بھی جانتے تھے: ' ہاں، واپس آنا کسی دن ممکن ہو سکتا ہے۔' تاہم آپ کو لمبے عرصے کے لئے جانا ہوتا ہے۔ یہ کوئی تفریح سفر نہیں تھا۔"​

اگر لوگ لمبے فاصلوں کے سفر کو سیکھنا چاہتے ہیں بحرالکاہل وہ جگہ ہیں جہاں وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ فلپائن اور انڈونیشیا آپس میں ایک دوسرے سے کافی قریب ہیں کہ آپ آسانی کے ساتھ ان میں آ جا سکتے ہیں۔ سفر کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ مسافر اپنی منزل کو دیکھ سکتے ہیں۔ پولی نیشیائی لوگوں نے بحری جہاز بنانے اور بحری سفر میں مہارت حاصل کرنے میں اپنی نسلیں لگا دیں ۔ بالآخر وہ اس قابل ہو گئے کہ لمبے سفر پر جا سکیں۔ "یہ پہیوں کو تربیت دینے کی طرح ہے،" لومبرگ کہتے ہیں۔

جب آپ بحرالکاہل میں سے ہوتے ہوئے مشرق کی جانب جاتے ہیں، تو جزیروں کے گروہوں کے درمیان جگہ چوڑی سے چوڑی ہوتی جاتی ہے۔ تاہم جب آپ کی ثقافت وہاں تک پہنچتی ہے تو آپ کی 25 نسلیں کشتیوں کو بناتے اور اس میں سفر کرنے میں مہارت حاصل کرنے میں گزار دیتی ہے کہ آپ کو اپنے ساتھ کیا لے کر جانا چاہئے اور پانی کو کیسے رکھنا چاہئے۔ لہٰذا آپ ایک ایسے جزیرے پر قیام کرنے کے لئے سفر کی شروعات کرتے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ ایک ماہ کی طوالت پر ہو؛ ایک مرتبہ جب آپ ہوائی سے نکل جاتے ہیں تو فاصلے بہت طویل ہو جاتے ہیں۔ زنجیر میں موجود جزیروں کے علاوہ کوئی بھی دوسری جگہ وہاں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر موجود ہے۔ لہٰذا لمبے سمندری سفر کو کرنے کے لئے آپ کو مناسب کشتی درکار ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ناسا ہماری انجینئرنگ اور مادّی سائنس کی ثقافت کی معراج پر ہے ۔ یہ کشتیاں اور سفری طریقے ان کے لئے ویسے ہی ہیں۔

جیسے پولی نیشیائی لوگوں نے بتدریج طویل سے طویل سفر کرنے کو سیکھا بعینہ ویسے خلائی انسانی مسافروں نے ایسے خلائی جہاز بنائے جو ذیلی مدار میں اڑان بھر سکیں اور اس کے بعد زمین کے نچلے مدار میں۔ امریکی اور روسی خلا نوردوں نے اونچا اور آگے جانے کا جوکھم اٹھائے رکھا اور مدار میں بڑی چیزیں بنائیں جیسا کہ میر۔ ان مسافتوں کا انجام ماورائے مہتاب اور مہتاب پر اترنے کی صورت میں نکلا۔ ہوائی انجنیئرز وہ تیکنیک سیکھ رہے ہیں جو بالآخر انسان کو بیرونی نظام شمسی کے سفر کرنے کے قابل بنا دے گی۔






[1] ۔پورے جنوبی بحرالکاہل میں ہونے والی پولی نیشیائی ہجرت کے بہترین عمومی جائزے کے لئے ملاحظہ کیجئے، بَحرُالجَزائر کی ابتداء میں: ہوائی جزیروں کا اصل اور دریافت از ڈاکٹر رچرڈ ڈبلیو گریگ۔ (آئی لینڈ ہیریٹیج پبلشنگ، 2012ء)۔

[2] ۔ ماہرین بشریات اور آثاریات کے درمیان بحث چل رہی ہے کہ آیا چوہے منصوبہ بندی کے تحت لائے گئے تھے تاکہ تیز رفتار پروٹین کی پیداوار حاصل کی جا سکے یا پھر وہ ویسے ہی آئے تھے جیسے کہ قدرتی طور پر چوہے پھیل جاتے ہیں۔ دوسرے داخل اندازوں میں جیکو اور اسکینک بھی شامل ہیں۔ اس دن کے بعد سے ہوائی میں سانپ نہیں ہوتے ۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 2

آئی او کی بیابانی سے ملئے

مادام پیلے کا عطیہ – آئی او کی بیابانی سے ملئے – ذرا ہٹ کے​


بحرالکاہل کے قدیمی آباد کاروں کی طرح جدید ڈیزائنر خلاء کی طویل سفر بلکہ دوسرے جہانوں کی آبادکاری کے لئے اسی طرح کی فہرست پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر فور فرنٹیئرز کارپوریشن بانسوں کو تیز رفتار بڑھوتری اور مستقبل کی سبز خانے کے مضبوط مادّے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ریشے دار مادّے کو تعمیرات کے علاوہ آکسیجن کو تیز رفتاری سے بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سدابہار درخت، ہوائی کی ایک اور اختراع، مقوی پھلوں کو بڑی تعداد میں پیدا کر سکتے ہیں۔ ان درختوں کا اصل فائدہ یہ ہے کہ یہ پورے سال پھل دیتے ہیں لہٰذا ان کو موسمی اثرات زیادہ نقصان نہیں پہنچاتے۔


خاکہ 9.2 سدابہار پھل موسمی تبدیلی کو خاطر میں نہیں لاتے۔

ہوائی کے بَحرُالجَزائر کے اطراف میں موجود گہرے سمندر یوروپا اور گینی میڈ کے آگے بلکہ شاید انسیلیڈس کے آگے بھی بونے ہیں، تاہم ایک کھلے ہوئے جہاز کے مسافر کے لئے گہرائی تمام تر باتوں کے باوجود قابل احترام ہوتی ہے۔ جزیروں کے لوگ سمندر کے ساتھ رہتے ہیں، اس کے مزاج اور طبیعت کو جانتے ہیں، اور بہت اچھی طرح سے خونخوار جانداروں، دغا باز روں اور تلے میں موجود دوسرے خطرات کو پہچانتے ہیں۔ تاہیتی، فجی ، سموا اور مارکیزی سے کشتیوں نے ہزار ہا میل کا سفر طے کیا ہے۔

عظیم متلاشی کپتان جیمز کک نے مشاہدہ کیا،" کس طرح سے پتھر کے دور کے لوگوں نے بغیر آلات اور نقشوں کے زمین کا ایک تہائی حصّہ کھوج کر سفر کیا؟" اس کا کچھ جواب یہ ہے کہ ان کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ سچ، قدیمی مسافر اکثر ستاروں کے نقشوں کو ستلی اور سونٹے سے بنا لیتے تھے، تاہم ان کے پاس دوسری تیکنیک بھی تھیں۔ وہ لہروں اور موجوں کے پھیلنے کو دیکھتے تھے تاکہ دور دراز ساحل کے غماز اشاروں کو سمجھ جائیں۔ وہ جھالروں کی طرح کے بادلوں کے ڈھیر کو دیکھتے جو جزیرے کے اوپر جمع ہوتے اور وہ ان بادلوں کی جڑوں میں منعکس ہوتی ہوئی جنگل کی ہری تمازت پر اور مرجانی چٹانوں پر نظر رکھتے تھے۔

نسل در نسل انہوں نے باد صبا کے آنے اور جانے اور کب ان کی سمت تبدیل ہوتی ہے اور طوفان آتے ہیں کے علم کو آگے بڑھایا۔ جن لوگوں نے ہمت کرکے انجان جگہوں کا سفر کیا وہ بھی ستاروں، سورج اور چاند کا موسم کے لحاظ سے نسبتی محل وقوع یاد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ پرندے بھی ان کی مدد کرتے تھے؛ ہجرت کرتے ہوئے جھنڈ عالمگیر سمت کی طرف اشارہ کرتے تھے اور ساحلی پرندے صبح کے وقت سمندر میں جاتے تھے جبکہ رات کے وقت واپس اپنی جگہ پر پہنچتے تھے۔ ان کا سفر بھی ساحل کی طرف اشارہ کرتا تھا۔


خاکہ 9.3 ہوکیولہ ، قدیم پولی نیشیائی دری کھلے مٹر کے چھلکے جیسی ڈونگی کا جدید نمونہ۔ اس طرح کی کشتیاں پوری جنوبی بحرالکاہل کے علاقے میں ایک ہزار برس کے دور میں پھیل گئی تھیں۔



"ہوائی کے لوگوں کے پاس رسم الخط نہیں تھا بحرالکاہل میں کاغذ تھا ہی نہیں جس پر لکھا جاتا،" جون لومبرگ کہتے ہیں، "لہٰذا بحرالکاہل کے علاقے میں کوئی لکھی ہوئی زبان نہیں تھی۔" وہ مزید فرماتے ہیں:
لیکن آپ اپنے جسم پر لکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے جسم کو گود کر نقش بنانے شروع کئے۔ لفظ ٹیٹو تاہیتی ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ان کے پاس سنگی نقش بھی تھے۔ نقشے عملی طور پر کارآمد نہیں تھے، لہٰذا نقشوں کے بجائے ان کے پاس گیت تھے۔ گیت زندگی کے تمام شعبوں کے لئے تھے۔ ان کے موت کے گیت، پیدائش کے گیت، شادی کے گیت اور اسی طرح ہر چیز کے گیت تھے۔ تاہم ان کے پاس بحری سفر کے لئے بھی گیت تھے جو کہتے تھے :' اگر آپ ساموا سے گوام کی طرف جانا چاہتے ہیں، تو جب آپ سفر شروع کریں تو یہ وہ ستارے ہیں جن کی جانب آپ کو سفر کرنا ہے۔' یہ طلوع و غروب ہوتے ہوئے ستارے بحری راستوں کے لئے سب سے زیادہ کارآمد ہیں۔ ہماری طرح ان کے لئے بھی گیت یا گانا یاد رکھنا آسان ہوتا تھا۔ وہ ان گیتوں کو یاد کرتے اور اپنے علم کو دوسری نسل تک آگے بڑھاتے تھے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 3
اتباع نقش پا


تین صدیوں میں بہت کچھ واقعہ ہو چکا تھا یا یوں کہیں کہ ایک ہی صدی میں کافی ساری چیزیں وقوع پذیر ہو گئی تھیں۔ صرف ١٠٠ برس سے بھی کم کے عرصے میں، صنعتی انقلاب نے معاشیات، زمینی منظر نامے اور طرز زندگی کو یورپ میں طبقہ اشرفیہ سے لے کر کان کنی تک ہر چیز کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔ طاقتور سوویت یونین ایک ایسی قوم بن کر ٧٠ برس کے عرصے میں آئی اور چلی بھی گئی جس کی فوج اور اشتراکی فلسفے نے آدھی سے زیادہ دنیا پر اپنا اثر ڈال دیا تھا۔ بیسویں صدی کا آغاز طاقتور اڑانوں کی ایجاد کے ساتھ ہوا؛ کافی دقت کے ساتھ انسانوں نے چاند کی طرف کا دو تہائی فاصلہ طے کیا۔ ہم ابلی ہوئی گوبھی سے لے کر گندھے ہوئے آٹے کی سوئیاں مائکروویو میں پکا کر کھانے کے قابل ہوئے ۔ جدت کا یہ سفر صرف طبقہ اشرافیہ تک محدود نہ رہا تھا بلکہ ہر کوئی چاہے وہ سڑک چھاپ ہو، دفتر میں میز پر بیٹھا ہوا کوئی بابو ہو یا پھر چیزوں کو جوڑنے والا کوئی کارخانے میں کام کرنے والا مزدور ہو ہر کوئی اس سے استفادہ اٹھا رہا ہے۔ چاہئے کتنی بھی جدید ٹیکنالوجی کیوں نہ ہو بالآخر انسانیت بحیثیت مجموعی اس کا فائدہ اٹھا ہی لیتی ہے۔ آیا کیا یہ کوئی بڑی لمبی چھلانگ ہوگی اگر ہم اپنی ایجادات کو لے کر زحل یا نیپچون یا یورینس کے چاندوں تک اگلی صدی کے اندر ہی لے جائیں؟

تاریخی اعتبار سے جس چیز کا اہم اثر پڑا یا جس نے کھوج کرنے کے راستے کا تعین کیا وہ ٹیکنالوجی ، سائنس ، تحقیق اور جغرافیائی سیاست ہے۔ ان میں سے موخّرالذکر سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ کولمبس امریکا یہ دیکھنے کے لئے نہیں آیا تھا کہ وہاں کس قسم کے پودے اگتے ہیں۔ وہ زیادہ موثر تجارتی راستے کی تلاش میں تھا، اور اس کی مالی معاونت سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط حکومت نے کی تھی۔ اپالو منصوبے نے سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں میں انقلاب برپا کیا ، لیکن اس کی تحریک بنیادی طور پر ارضی سیاست کی تھی، قومی حمیت کے لئے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سوویت یونین کو ہرانا اس کا اہم مقصد تھا۔

بیرونی سیاروں کے لئے کون ارضی سیاست کا کھلاڑی ہوگا؟ ایک صدی سے چین دنیا پر اپنا زبردست اثرو رسوخ دکھا رہا ہے، لیکن یہ اگلی صدی تک کیسا ہوگا کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ یورپ اور ریاست ہائے متحدہ کی طاقت اور بہاؤ کم ہو رہا ہے، جبکہ اقوام جیسا کہ برازیل معاشی اور سیاسی طور پر طاقتور ہو رہی ہیں۔ ٹھہرا ہوا روس اپنی آپ کو دوبارہ سے ایک نئی ریاست کی شکل میں لانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، لیکن شاید یہ کوششیں بنیادی طور پر سوویت یونین کے خلائی دور کے ماضی سے مختلف ہیں۔ آج ہندوستان بھی ایک عالمگیر کھلاڑی کی حیثیت سے موجود ہے ، اس کی خام قومی پیداوار دنیا میں گیارہویں نمبر پر سب سے بڑی ہے، اس کی آبادی دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہے، اور اس کا ایک پرجوش خلائی پروگرام بھی ہے۔ آنے والے دور میں ہندوستان بھی ایک بڑی سیاسی قوّت ہو سکتا ہے، ہرچند کہ کچھ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ فوق براعظم کمزور معیشت اور لنگڑاتے اثر کے اشارہ دینا شروع ہو گیا ہے۔

ایک بات تو یقینی ہے۔ جب بات عالمگیر ارضی سیاست کی ہو تو کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ تاہم ٹیکنالوجی کی ایک الگ کہانی ہے۔ تاریخ نے سیڑھی بہ سیڑھی ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی ہوئے دیکھی ہے اور ہم شرط لگا سکتے ہیں کہ ہمارے باکمال انجنیئر اور موجدین شاید اگلی صدی کے اندر ہی ہمیں بیرونی نظام شمسی میں لے جانے کا جوکھم اٹھا لیں گے۔

اکیسویں صدی کے آغاز کو دماغ میں رکھتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ آنے والی چند دہائیوں میں سائنس فکشن میں دکھائی جانے والی کافی چیزیں حقیقت کا روپ دھار چکی ہوں گی۔ پوری دنیا میں موجود تجربہ گاہیں جدید دھکیل کے میدان میں مصروف بہ تحقیق ہیں ("سریع از نور رفتار۔")، انسانی خوابیدگی ("اپنے پنجے مجھ سے دور کرو لعنتی گندے بندر!")، غذا کی پیداوار کشش اصغر میں ("آپ ان چیزوں کو میرے جنگل میں استعمال نہیں کر سکتے۔") اور لمبے سفر کے دوران انسانوں کا آپس میں باہمی میل ("ڈیو مجھے افسوس ہے؛ مجھے لگتا ہے میں نہیں کر سکوں گا۔") تحقیق کافی جدید میدانوں میں جاری ہے۔[1]



[1] ۔ حواشی اسٹار ٹریک فلم سے لئے گئے ہیں، اصل سلسلے سے۔ ١٩٩٦ء -١٩٦٩ء؛ پلانٹ آف دی آپس، ١٩٦٨ء؛ سائیلنٹ رننگ ، ١٩٧٢ء اور ٢٠٠١ء: اے اسپیس،١٩٦٨ء۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 4
بس کسی طرح سے بیرونی نظام شمسی میں پہنچ جائیں - حصّہ اوّل

دھکا : بس وہاں پہنچ جائیں کسی طرح سے​


دیوہیکل جہانوں کی کھوج میں جس سب سے بڑے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بہت سادہ یعنی کہ فاصلے کا ہے۔ ہمارا سب سے قریبی ہدف مشتری زمین سے سب سے قریب ہونے کے وقت بھی ٥٨ کروڑ ٨٠ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتا ہے، لیکن ہم اس چھوٹے راستے پر براہ راست سفر نہیں کر سکتے۔ دوسرے جہاں میں سفر کرنا چوہے بلی کا کھیل ہے، زمینی جہاز ایک ایسی قوس پر سفر کرتا ہے جو نظام شمسی میں ہمارے ہدف زدہ سیارے تک کھینچی ہوئی ہوتی ہے۔ حقیقت میں خلائی جہاز کو اپنے آپ کو اس مقام پر رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ سیارے کو پکڑ سکے۔[1]


مزید براں کروڑوں کلومیٹر خلاء میں سے گزرنے میں وقت لگتا ہے اور انسانی عملے کے لئے وقت کا یہ دورانیہ لمبے عرصے تک انھیں تابکار اشعاع کے سامنے رکھے گا، وسیع ثقلی اصغر ماحول کا سامنا کرنا ہوگا اور وسیع تعداد میں انہوں خوراک وغیرہ کا استعمال کرنا ہوگا۔ خلائی جہاز کے آزمودہ کار ایلون ڈریو کہتے ہیں، "جتنا لمبا آپ وہاں رکیں گے اتنا ہی نقل و حمل کے مسائل کا سامنا ہوگا - آپ کو پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانا ہوگا، خوراک پیدا کرنی ہوگی، اپنے ماحول کو بنانا ہوگا۔" ایک حل تو یہ ہے کہ سفر کے وقت کو مزید بہتر اور طاقتور دھکیل کے نظام کو بنا کر کم کیا جائے۔



خاکہ 9.4 دو قسم کے روایتی راکٹ انجن اٹلانٹس خلائی جہاز کو زمین سے خلاء میں بھیجنے کے لئے دھکیل کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں: ٹھوس ایندھن کا افزوں گر بائیں اور تین خلائی جہاز کے اہم انجن، جن کو توانائی ایک زیادہ اثر آفریں مائع ایندھن سے حاصل ہوتی ہے جو دائیں طرف ہیں۔ وسط میں: برق پاروں کی نیلی روشنی ڈیپ اسپیس اوّل کے تجربے میں نکل رہی ہے جو شمسی توانائی سے چلنے والا برق پارے سے دھکیلنے والی مہم کا حصّہ ہے۔ دائیں : ایڈ آسٹرا کارپوریشن کا جدید واسیمر انجن جس میں دھکیل کے بہترین تیکنیک کو جمع کیا گیا ہے۔

انجنیئر، سائنس دان، تجربہ کرنے والے اور سائنس فکشن مصنفین سب ہی مختلف قسم کے دھکیل کو کھوجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج کل کے زیادہ تر خلائی جہازوں میں استعمال ہونے والا شناسا کیمیائی ایندھن کے علاوہ ، نیوکلیائی دھکیل، برق پاروں سے چلنے والے انجن اور شمسی بادبان پر تجربات جاری ہیں۔ اب تک صرف دو قسم کے دھکیل کا استعمال کرتے ہوئے سیاروں پر مہمات کو بھیجا گیا ہے، ایک تو روایتی کیمیائی راکٹ انجن ہیں اور دوسرا شمسی برق یا برق پاروں سے چلنے والے انجن ہیں۔


کیمیائی راکٹ


روایتی یا کیمیائی راکٹ انجن جو خلا نوردوں کو چاند پر یا سویز اور شٹل کے مدار میں لے کر گئے ہیں ان میں ایندھن اور تکسیدی عمل الگ جگہ پر ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ جب ایندھن اور تکسیدی عامل ملتا ہے تو ایک منضبط دھماکہ پیدا ہوتا ہے جس کو راکٹ کے ایک سرے پر انجن کے ناقوس سے بھیجا جاتا ہے۔ اصل میں راکٹ کمیت کو خارج کرنے کی مخالف سمت میں حرکت کرتا ہے ۔ راکٹ کا ایندھن کافی جگہ گھیرتا ہے اور کافی وزنی ہوتا ہے۔ اخراج میں جتنا زیادہ درجہ حرارت ہوگا اتنی ہی تیزی سے خلائی گاڑی چلے گی۔ دھکیل کی وہ مقدار جو راکٹ کا انجن ایک مخصوص مقدار کی طاقت کو پیدا کرنے میں استعمال کرتا ہے اس کو مخصوص ضرب کہتے ہیں۔ ٹھوس راکٹ افزوں گر - مثلاً ایس آر بی شٹل کے مرکزی ٹینک کے اطراف میں بندھے ہوتے ہیں - کی مخصوص ضربیں جو ٢٥٠ کے قریب ہوتی ہیں ان کو سیکنڈوں میں ناپا جاتا ہے ۔ روایتی انجن میں سب سے اثر آفریں مائع ایندھن سے چلنے والے خلائی جہاز کے انجن کی زیادہ سے زیادہ مخصوص ضرب ٤٥٥ فی سیکنڈ ہیں۔ روایتی راکٹ کے ساتھ زیادہ تر ایندھن تو اڑان کے شروع میں اس کو اسراع دینے میں ہی استعمال ہو جاتا ہے کیونکہ ایندھن کا ذخیرہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

لیکن ایک مرتبہ زمین کے کرۂ فضائی سے باہر نکل جائے تو پھر جدید گہرے خلائی کھوجی زیادہ اثر آفریں دھکیل کی صورت استعمال کرتے ہیں جو ان کو استقامت کے ساتھ لمبے فاصلوں پر بیرونی سیاروں کی کھوج کے لئے دھکیل کی قوّت فراہم کرتا ہے - یعنی برق پاروں یا برقی دھکیل۔ کیمیائی مادّوں کو گرم کرنے کے بجائے برق پارے کا انجن گیس کو گرم کرکے پلازما میں بدلتا ہے۔

برق پارے سے چلنے والے انجن


برق پارے سے چلنے والا انجن کم ایندھن کے ساتھ تیز چل سکتا ہے۔ برق پارے کے انجن کی مخصوص ضرب کافی زیادہ ہوتی ہے یعنی کہ ٣٠٠٠ فی سیکنڈ لیکن اسراع اس میں بتدریج حاصل کیا جاتا ہے۔ روایتی انجن کے برخلاف برق پارے کا انجن کافی لمبے عرصے تک چل سکتا ہے۔ مستقلاً ساکن مدار میں رہنے والے سیارچے باقاعدگی کے ساتھ برق پاروں کی دھکیل کا استعمال اپنے مدار میں ٹکے رہنے کے لئے کرتے ہیں۔۔ شہابئے- سیارچے کی طرف بھیجے جانے والے ڈیپ اسپیس اوّل خلائی جہاز نے بھی ٢ برس سے زائد کے لمبے سفر کے لئے برق پارے کا انجن استعمال کیا تھا، اور ڈان مہم میں بھی زینون گیس سے چلنے والا برق پارے کا انجن استعمال کیا گیا تھا تاکہ وہ سیارچے ویسٹا کے مدار میں پہنچ جائے۔

اس کے بعد یہ ایک اور دوسرے مدار میں سے سب سے بڑے سیارچے سیریز کے پاس جائے گا۔ ایک نقطہ پر تو ڈان نے برق پارے سے دھکیل حاصل کرنے کے لئے اپنے انجن کو ٢٧٠ دن لگاتار چلا کر رکھا۔ ڈان کے برق پارے کا انجن کھڑے جہاز کو صرف چار دن میں ٩٦ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اسراع دے سکتا ہے۔ اس کا مقابلہ اگر ہم روایتی راکٹ سے کریں تو وہ ٢٧٣٦٠ کلومیٹر کی رفتار صرف دس منٹ میں حاصل کر لیتا ہے۔

برق پارے کا انجن دھکیل کو اسراع دینے کے لئے برق کا استعمال انجن کے پیچھے سے کرتا ہے۔ شمسی برقی دھکیل مقناطیسیت اور بجلی کا فائدہ اٹھا کر خلاء میں آگے بڑھاتی ہے۔ جہاز کے شمسی توانائی پیدا کرنے والے آلات بجلی بناتے ہیں اور مثبت برقی بار کو خانے کے اندر موجود جوہروں میں بھیجتے ہیں۔ مقناطیسی میدان جوہروں کو دوبارہ جہاز کے پیچھے کی طرف کھینچتے ہیں، جہاں پر ان کو ایک مخالف مقناطیسی میدان کا استعمال کرتے ہوئے جہاز سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ یہ مستقل مزاجی سے برق پاروں کا خلائی جہاز سے نکلتا ہوا دباؤ دھکیل کی قوّت پیدا کرتا ہے۔ برقی دھکیل عام طور پر کیمیائی راکٹ کے مقابلے میں دھکے کی طاقت کم استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کی اخراج کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ دھکیل کیمیائی دھکے کے مقابلے میں کافی کمزور ہوتی ہے تاہم انجن چند منٹوں کے بجائے کافی مہینوں تک چلتا رہتا ہے۔


[1] ۔ ایک بڑے جہاز کے ساتھ براہ راست اڑان فرض کرتے ہوئے، سیاروی سفر میں ثقلی غلیل کے اثر کے استعمال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ اتنی سمتی رفتار حاصل ہو جائے جو بیرونی نظام تک لے جانے کے قابل ہو۔ مشتری جانے والے گلیلیو نے کافی مرتبہ ثقلی مدد حاصل کی تھی اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اس نے تین ارب ٨٦ کروڑ کلومیٹر کا سفر کیا تھا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 5

بس کسی طرح سے بیرونی نظام شمسی میں پہنچ جائیں - حصّہ دوم

حرارتی نیوکلیائی راکٹ​


نیوکلیائی حرارت سے چلنے والا راکٹ نیوکلیائی انشقاق (اور بالآخر گداخت)سے پیدا ہوئی حرارت استعمال کرتا ہے تاکہ اسراع حاصل کرکے دھکیل پیدا کر سکے۔ شمسی توانائی کے حامل برق پاروں کے انجن یا پلازما انجن ( جیسا کہ ڈان خلائی جہاز میں استعمال ہوا تھا)کے برخلاف نیوکلیائی انجن بحیثیت مجموعی وہی کام سرانجام دیتے ہیں جو کیمیائی راکٹ دیتا ہے لیکن وہ اس کام کے لئے صرف آدھا ایندھن ہی خرچ کرتے ہیں۔

نیوکلیائی دھکیل میں کئے گئے ابتدائی یو ایس کے تجربات کا نتیجہ نروا (Nuclear Engine for Rocket Vehicle Application) کی صورت میں نکلا تھا، ایک نیوکلیائی حرارتی راکٹ انجن پروگرام جو بتدریج دو عشروں تک آگے بڑھتا گیا۔ اس کا مقصد خلائی کھوج کے لئے ایک قابل اعتماد انجن کا حصول تھا اور ١٩٦٨ء کے اختتام پر انجینیروں نے تصدیق کردی تھی کہ تازہ ٹرین نروا انجن جس کا نام این آر ایکس/ایکس ای تھا وہ مریخ پر انسان بردار جہاز کی تمام تر احتیاجات کو پورا کرتا تھا۔ نروا انجن کو بنایا اور جانچا بذریعہ سند یافتہ ہوائی اجزاء سے تھا۔

جیسے ہی انجن کو اصل خلائی جہاز میں لگانے کا اعلان ہوا ویسے ہی نکسن انتظامیہ نے یو ایس خلائی منصوبے کا کافی حصّہ منسوخ کر دیا بشمول مریخ پر انسان بردار مہم بھیجنے کے۔ نروا ایل ناقابل تصوّر کامیاب منصوبہ تھا۔ آج کے زیادہ تر وہ ڈیزائن جو نیوکلیائی حرارتی راکٹ میں استعمال ہوتے ہیں وہ نروا کی ٹیکنالوجی کا ہی استعمال کرتے ہیں۔


نیوکلیائی دھکیل کا ایک نیا جدید نسخہ نیوکلیائی انجمادی دھکیلی مرحلہ (Nuclear Cryogenic Propulsion Stage) یا NCPS کہلاتا ہے۔ نروا کے انجن کے ڈیزائن کے وقت سے لے کر اب تک کیونکہ نئے ہلکے مادّے دستیاب ہو گئے ہیں جو زیادہ درجہ حرارت اور دباؤ کو برداشت کر سکتے ہیں۔ فی الوقت انجن بنانے کا منصوبہ ایندھن کے ساتھ ٤٠ ٹن کا ہے۔ حفاظت کی خاطر خلائی جہاز کو ری ایکٹر کے خطرناک ہونے سے پہلے ہی نکالا جا سکتا ہے۔خلاء میں چھوڑے جانے کے وقت اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوتا ہے تو تابکار مادّہ صرف ١٠٠-١٥٠ کلوگرام یورینیم کا ایندھن ہوگا۔ اگر ایک بالائی سطح پر اس کا استعمال کیا جائے گا تو این سی پی ایس کو اس وقت ہی چلایا جائے گا جب خلائی جہاز خلاء میں کامیابی کے ساتھ پہنچ جائے گا۔ خلائے بسیط میں کھوجی بھیجے جانے کی صورت میں این سی پی ایس کو اس وقت تک نہیں چلایا جائے گا جب تک خلائی جہاز مدار کو چھوڑ نہیں دیتا۔

اگلا قدم دھکیل کے میدان میں صاف گداختی نیوکلیائی انجن ہے۔ ناسا نے کافی ابتدائی نوعیت کے گداختی منصوبوں کی مالی معاونت کی ہے۔ کچھ تخمینہ جات کے مطابق مریخ تک خلا نوردوں کو پہنچنے میں ٣٠ دن لگیں گے۔ زحل تک جانے کا وقت کم ہو کر کئی مہینوں تک کا رہ جائے گا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ زمین پر عملی گداختی ری ایکٹر ابھی تک نہیں بنے ہیں۔ عشروں کی تحقیق کے باوجود ابھی تک کے بننے والے نیوکلیائی گداختی ری ایکٹر اتنی ہی توانائی چلنے کے لئے لیتے ہیں جتنی وہ پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن کافی دھکیل کے ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں گداختی انجن ایک حقیقت ہوں گے اور وہ وقت مستقبل میں جلد ہی آئے گا۔


شمسی بادبان​


شمسی بادبانوں کو ہوا کے بغیر خلاء کے ماحول میں روایتی طریقے سے بھیجنے کے بعد چلایا جا سکتا ہے یہ مکمل طور پر جامد ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی کے دباؤ سے بعینہ ایسے چلتے ہیں جیسا کہ کشتی ہوا کے ذریعہ سمندر میں چلتی ہے۔ جاپان کی خلائی ایجنسی جیکسا نے ٢٠١٠ء میں دنیا کی پہلا بین السیاروی شمسی بادبانی مہم کا آغاز اکاروس کو خلاء میں چھوڑ کر کیا ۔ ١٤ میٹر چوڑی پتنگ جیسی شکل کے بادبان میں شمسی خانے بادبانی مادّے میں ہی لگے ہوئے ہیں تاکہ بجلی کو پیدا کر سکیں۔ مائع قلمی پینل کا استعمال کرتے ہوئے وہ سطح کی انعکاسیت کو تبدیل کرتے ہوئے وہ اپنی سمت کو بدل سکتا ہے۔ ایل سی ڈی پینل میں سے برقی رو گزرتے ہوئے انعکاسیت کو بڑھا کر اکاروس کو آگے بڑھایا جاتا ہے جبکہ رو کو موڑ کر سورج کی روشنی کا دباؤ کم کیا جا سکتا ہے۔ جیکسا نے ٥٠ میٹر شمسی بادبان کو برق پارے کے انجن کے ساتھ بیرونی نظام شمسی میں بھیجنے کا منصوبہ بھی بنایا ہوا ہے۔ یہ جدید دوغلی نسل کا بادبان مشتری اور کچھ گھات لگائے قریبی سیارچوں سے جلد ہی ملاقات کرے گا۔[1]

دوسرے شمسی بادبانوں کے منصوبے جاری ہیں۔ سیاروی سوسائٹی کا روشن بادبان – الف ایسا خلائی جہاز ہے جو بادبان کو چھوڑنے اور بذات خود خلائی جہاز کی انجینئرنگ کے لئے ہلا کر رکھ دینے والا ہوگا۔ روشن بادبان – ب منضبط شمسی بادبانی کا مظاہرہ کرے گا۔ ایک ایکڑ کے ایک تہائی رقبے پر پھیلا ہوا شمسی بادبان نومبر ٢٠١٤ء میں اسپیس ایکس فالکن ٩ افزوں گر کے ساتھ چھوڑا جائے گا۔

ایک اور فالکن ٩ سن جیمر کو چھوڑے گا جو ایک بڑا بادبان ہے جس کو ایک ذیلی پخ کی طرح قومی سمندری اور ماحولیاتی انتظامیہ کے گہرے خلائی ماحولیاتی رصدگاہ کے ساتھ ایک ثقلی طور پر پائیدار محل و وقوع میں چھوڑے گا جس کو سورج –زمین لگرینج پائنٹ ١ کہتے ہیں جو ہمارے سیارے سے ١٥ لاکھ کلومیٹر دور ہے۔ اب تک کا بھیجا جانے والی سب سے بڑا اور سب سے ہلکا بادبان ہوگا۔ سن جیمر کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ سیارچوں کو شمسی طوفان کی پہلے سے خبر دے دے تاکہ نظام محفوظ طرح سے زمین کے نچلے مدار سے گرد کو صاف کر دیں۔ ناسا بنیادی ٹھیکیدار ایل گارڈے انکارپوریشن آف ٹسٹن ، کیلی فورنیا کے انجنیئروں کے ساتھ مل کر سن جیمر کو بنانے میں مدد دے رہی ہے۔


خاکہ 9.5اکاروس شمسی بادبان جاپان کی جیکسا خلائی ایجنسی نے زہرہ سے صرف ٨٠ ہزار کلومیٹر کی دوری پر ٢٠١٠ء میں چھوڑا۔

١٩٧٠ء کے عشرے میں طبیعیات دان رابرٹ فارورڈ نے ایک مختلف قسم کے روشنی کے بادبان کی تفصیلات بنائیں جس کو فوق لیزر کے ذریعہ دھکیلا جا سکتا تھا۔ لیزر سے چلنے والا شمسی بادبان تیز سمتی رفتار شمسی دباؤ سے چلنے والے بادبان کے مقابلے میں کم وقت میں حاصل کر سکتا تھا۔ فارورڈ کے مطابق طاقتور گیگا واٹ توانائی کی حامل لیزر توانائی کو بادبان پر مرتکز کرکے خلاء میں بین السیاروی بلکہ بین النجمی سفر پر بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ جب کھوجی اپنی منزل پر پہنچے گا تو بیرونی حصّہ مرکزی حصّے سے الگ کر دیا جائے گا، بیرونی بادبان زمین پر موجود لیزر کو اندرونی بادبان پر مرتکز کرے گا تاکہ وہ اپنی رفتار کو کم کرکے اپنے پسند کے سیارے کو پکڑ سکے۔ روایتی بریک کا نظام بھی مدار میں داخل ہونے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایک اور طریقہ ایسے تاروں کے گچھے ہیں جن میں اتنی ہی جگہ ہونی چاہئے جتنی کہ میزر کی خرد امواج میں ہوتی ہے تاکہ اس سے بنے شمسی بادبان کو افزوں کرنے کا میزر کا استعمال ہو سکتا ہے۔ خرد امواج کو بصری روشنی کے مقابلے میں آسانی سے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ اپنی لمبے طول موج کی وجہ سے میزر بصری روشنی کے مقابلے میں تیزی سے پھیلتی ہے لہٰذا اس کی لمبی اثر دار پہنچ نہیں ہوتی۔ میزر کو رنگی ہوئی شمسی بادبان کو توانائی پہنچانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فارورڈ کے تصوراتی خلائی بادبان کو ایک ایسی کیمیائی پرت سے لیپا جا سکتا ہے جو اس وقت طیران پذیر ہو جائے گی جب اس پر میزر کی اشعاع پڑے گی۔ یہ تبخیر کا عمل خود سے دھکیل کو پیدا کرے گا۔




[1]۔ گھات لگائے ہوئے سیارچے مشتری کے پیچھے یا سامنے لیکن سورج کے گرد اس کے مدار کے اندر ہی چکر لگاتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 6
بس کسی طرح سے بیرونی نظام شمسی میں پہنچ جائیں - حصّہ سوم

پلازما راکٹ​


زیادہ مستقبل کی ٹیکنالوجی میں نیوکلیائی ضربی دھکیل اور ضد مادّہ شامل ہیں۔[1] لیکن آج انجنیئروں کے پاس پسند کرنے کی اور بھی چیزیں ہیں: تیز اسراع اور کیمیائی راکٹ کی طاقت، یا بلند کارکردگی کی حامل اور تکلیف دہ لیکن بتدریج اسراع حاصل کرنے والی برق پارے کے انجن۔ بہرحال اس جمعہ بازار میں ایک اور بچے کی آمد ہے، ایک ایسا انجن جو اونچے درجے کی مخصوص ضربیں مختصر سفر کے وقت میں دینے کی وعید لایا ہے اور اس کا ذمہ دار کوسٹا ریکن کا اسکول کا طالبعلم ہے جو بس خلاء نورد بننا چاہتا تھا۔

سان جوز ، کوسٹا ریکا میں پیدا ہونے والا چانگ ڈیاز ریاست ہائے متحدہ میں اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے آیا اور اس عمل کے دوران انگریزی سیکھی۔ یہیں سے اس نے اپنے اسکول میں شاندار کارکردگی دکھائی اور پی ایچ ڈی کی سند پلازما کی طبیعیات میں ایم آئی ٹی سے حاصل کی۔ بالآخر اس نے اپنا خلاء نورد بننے کا خواب حاصل کرلیا یہ واحد ناسا کا خلا نورد ہے جو دہری شہریت کا حامل ہے۔ اس نے سات مرتبہ خلائی سفر کیا ہے (بشمول ایس ٹی ایس -٧٥، جس نے سیارچہ ٹی ایس ایس – آئی آر کا ابتدائی تجربہ کیا تھا)۔ تاہم فرینکلن چانگ ڈیاز کا شوق مستقبل کے انسانی بردار خلائی جہاز میں ہے اور وہ مستقبل کو پلازما کی طبیعیات میں دیکھتا ہے۔

دو دہائیوں سے چانگ ڈیاز متغیر مخصوص ضربی مقنا پلازما راکٹ(Variable Specific Impulse Magnetoplasma Rocket) یا واسیمر انجن کو بنا رہا ہے۔ واسیمر خرد امواج کو دھکیل کو گرم کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تاکہ وہ پلازما میں تبدیل ہو جائے۔ چانگ ڈیاز کہتے ہیں، "ہمارا واسیمرانجن اصل میں ایک برقی راکٹ ہے۔ یہ کیمیا کا استعمال نہیں کرتا، یہ نیوکلیائی توانائی کا استعمال بھی نہیں کرتا، یہ برق کا استعمال کرتا ہے۔ بجلی کو کہیں سے تو آنا ہے۔ لہٰذا ہماری شروع کے واسیمر کے استعمال میں ہم شمسی اجتماع کو بجلی بنانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ بجلی کا استعمال پلازما پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے تاکہ ہمارا دھکیل کام کر سکے۔"

چانگ ڈیاز بیان کرتے ہیں کہ واسیمر کچھ دوسرے برقی دھکیل والے نظام کی خصوصیات کا استعمال بھی کرتا ہے۔

ڈان اور ڈیپ اسپیس اوّل برقی تھے؛ وہ زینون کو بطور دھکیل کے استعمال کرتے تھے اور وہ برق کا استعمال زینون کو حرارت دے کر پلازما بنانے کے لئے کرتے تھے۔ برق پارے کے انجن کا یہی کام ہے۔ یہی چیز ہال دھکیل سے ساتھ بھی ہے، یہ اس میدان میں ایک دوسری قسم کا برقی دھکیل ہے۔ ہال دھکیل برق پارے کے انجن کے مقابلے میں تھوڑا سا زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ برق پارے کے انجن کم طاقت کے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک کلوواٹ ۔ ایک کلوواٹ تو ہیئر ڈرائر استعمال کرتا ہے۔

ہال دھکیل تو اب ٤ یا ٥ کلوواٹ تک جا پہنچے ہیں لہٰذا پانچ ہیئر ڈرائر تو چل سکتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار بھی وہی ہوتا ہے۔ یہ بجلی کو لیتے ہیں، دھکیل کو حرارت دیتے ہیں جو کہ زینون گیس ہوتی ہے، پھر یہ اسے پلازما میں تبدیل کرتے ہیں، پھر پلازما ایک برق پارے کی کرن کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور ہال دھکیل میں بھی یہی چیز سرانجام پاتی ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ ہال دھکیل چار یا پانچ گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ واسیمر اور دوسرے پلازما کے انجن میں فرق یہ ہے کہ واسیمر زیادہ توانائی پر کام کر سکتا ہے۔ واسیمر توانائی کی گھڑی ٢٠٠ کلوواٹ کی ہوتی ہے، ٢٠٠ کلوواٹ کا مطلب ایک ایس یو وی ہے ۔۔۔۔۔ اب آپ کچھ زیادہ سنجیدہ بات کر رہے ہیں ایک ایسی چیز کے بارے میں جو زیادہ بوجھ اٹھا کر خلاء میں لے جا سکتی ہے۔

برق پارے کی زندگانی میں کچھ مسئلہ حرارت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب انجن ایک توسیعی وقت تک چلتا ہے تو ہارڈویئر گرم ہو جاتے ہیں اور کام کرنے والے حصّے کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ لیکن واسیمر مقناطیسی میدان کا استعمال کرتے ہوئے گرم پلازما کے بہاؤ کو الگ کر لیتا ہے جس کو چانگ ڈیاز ایک نادیدہ پائپ کی تشبیہ دیتے ہیں۔" یہ آپ کے لئے یہ کرتا ہے کہ آپ کو ایک پائپ دیتا ہے جس کے ذریعہ پلازما راکٹ کو بنانے والے مادّے کو چھوئے بغیر گزر جاتا ہے۔"

مقناطیسی میدان ایک حاجز کے طور پر خط کش کی طرح کردار ادا کرتا ہے جو دوسرے برق پاروں کے دھکیل کی قسموں کو حد میں رکھتے ہوئے زیادہ درجہ حرارت کے لئے ناممکن الدخیل ہوتا ہے۔ واسیمر پلازما کو لاکھوں ڈگری درجہ حرارت تک پہنچانے کے قابل ہے، لہٰذا اپنی طاقت بڑھا سکتا ہے۔ ٢٠٠ کلوواٹ انجن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کو توانائی بھی ٢٠٠ کلوواٹ کی درکار ہوتی ہے۔ یہی چیز واسیمر ٹیکنالوجی کی راہ میں حائل ہے۔ "آپ کو لازمی طور پر بہت ہی جدید شمسی پینل، جو کافی بڑا اور طاقتور ہو درکار ہوگا،" چانگ ڈیاز کہتے ہیں۔ آپ کتنا طاقتور شمسی پینل بنا سکتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ شمسی پینل جو ٢٠٠ کلوواٹ پیدا کر سکیں جلد ہی آ جائیں گے۔ مثال کے طور پر ایک شمسی پینل جس کا حجم آئی ایس ایس کے ایک شمسی پینل جتنا ہے وہ لگ بھگ ١٠٠ کلوواٹ آج پیدا کرتا ہے اور زیادہ اثر آفریں شمسی پینل بننے کے مرحلے میں ہیں۔

بہرصورت بھدے شمسی پینل نے کچھ ڈیزائنر کو دوسرے انتخاب کی جانب راغب کیا ہے – نیوکلیائی توانائی۔ واسیمر نیوکلیائی دھکیل انجن نہیں ہے، لیکن اس کو کام کرنے کے لئے درکار بجلی زیادہ جلدی نیوکلیائی بجلی گھر سے آسکتی ہے جس کی پیداوار کو میگاواٹ میں ناپا جاتا ہے، شمسی توانائی کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے۔ انسانوں کے لئے نیوکلیائی منبع سے پیدا ہوئی توانائی سیارچوں سے دور لمبے سفر کے لئے قابل ترجیح ہوگی۔ اس قسم کی سطح کی چیز کی جب آپ بات کرتے ہیں ، چانگ ڈیاز کہتے ہیں، "تو آپ ٧٤٧ کو اڑانے جیسی قوّت کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ٢٠٠ میگاواٹ کے لگ بھگ ہے۔" اس طرح کی توانائی کی سطح انسان بردار مریخ کی مہم کا وقت ٦ یا ٨ ماہ سے کم کرکے ٢ ماہ سے بھی کم کا عرصہ کر دے گا۔ آج نہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس یہ نہیں آ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہمیں اس کا خاکہ اور بعد میں اسے عملی طور پر بنانا ہوگا۔ نیوکلیائی خلائی توانائی میں بہت سارے کام کرنے کے ہیں۔ کام کو واقعی میں کافی نچلی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم ریاست ہائے متحدہ میں لوگ اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے سے بہت زیادہ شرماتے ہیں۔" لیکن ریاست متحدہ ہی واحد نیوکلیائی طاقت رکھنے والی قوم نہیں ہے۔ نیوکلیائی قوّت رکھنے والی اقوام میں اضافے کے ساتھ جو خلائی سفر میں شامل ہو رہی ہیں، نیوکلیائی خلائی ری ایکٹر شاید چین، ہندوستان، روس یا یورپ بنا لیں۔ "نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم خلاء میں کافی دور نہیں جا سکتے اگر ہم ان چیزوں کو نہیں بنائیں گے۔"

چانگ ڈیاز ٹیکنالوجی میں ہونے والی اختراع کو بیرونی نظام شمسی میں پہنچنے کے لئے کافی اہمیت دیتے ہیں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ واسیمر جیسے نظام اس قسم کی ایجاد کو پیش کرتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے۔" میرے خیال میں اس ٹیکنالوجی میں زبردست کام کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اسے کھیل کا رخ بدلنے والا کہتے ہیں۔ تہ و بالا کرنے والا۔ یہ وہ الفاظ ہیں جس سے لوگ اس ٹیکنالوجی کی بیان کرتے ہیں کیونکہ اصل میں یہ اتنی توانائی کو برداشت کر سکتی ہے جتنی آپ اس میں ڈالیں گے۔ یہ توانائی کی کافی بلند سطح تک جا سکتی ہے۔ اس سے آپ غیر معمولی کارکردگی حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں جو کام یہ کرے گی اس سے تمام بیرونی نظام شمسی انسانی کھوج کے لئے کھل جائے گا۔"

تجزیہ نگاروں کے مطابق جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ دیوہیکل سیاروں کے سفر میں لگنے والا وقت غیر معمولی طور پر کم ہو جائے گا۔ مزید براں خلائی ماحول کے خطرات کو کم کرنے کے لئے ، اڑان میں کمی کا مطلب یہ کہ ہر استعمال ہونے والی چیز میں کمی، پانی سے لے کر آکسیجن ، اور خوراک سے لے کر ایندھن و توانائی تک۔ لمبے عرصے کے سفر میں توانائی درکار ہوتی ہے جس کو بہت زیادہ اعلیٰ کارکردگی کا حامل یا پھر تعداد میں زیادہ ہونا چاہئے۔ تشبیہ کے لئے رابرٹ زبرین اسپٹ فائر ، راف کے جنگ عظیم دوم کے لڑاکا ہوائی جہاز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اس کے پاس ١٠٠٠ ہارس پاور کا انجن تھا۔ ایک منٹ کے لئے ذرا سوچیں۔ یہ آج کے معیار کے لحاظ سے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ ایک سو برس پیچھے چلے جائیں، جب ہر کوئی گھوڑا استعمال کرتا تھا، تو یہ ١٠٠٠ گھوڑوں کے برابر تھا ! ایک ہزار گھوڑے مل کر جہاز کو کھینچتے۔ آج ایسے بھی جہاز ہیں جن کی کم از کم طاقت ہی اسپٹ فائر سے سو گنا زیادہ ہے۔ لہٰذا آج وہ ایک لاکھ گھوڑوں کے برابر ہے۔ یہ اتنے گھوڑے ہیں جتنے کہ چنگیز خان کی فوج میں کل ملا کر تھے، جو ایک درمیانی حجم کے ہوائی جہاز کو دھکا لگاتے ہیں – جیسا کہ ٧٣٧ – اور ہمارے پاس ایسے ہزاروں طیارے موجود ہیں جو جگہ جگہ اڑتے ہیں۔


سابق شٹل خلائی نورد ایلون ڈریو تبصرہ کرتے ہیں
اگر آپ ایک اچھا طاقتور انجن لیں جو ایندھن کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا حامل ہو، جس طرح سے فرینکلن چانگ ڈیاز کاواسیمر انجن ہے تو یکایک آپ بیرونی سیاروں کی اس پرانی کیپلر ساحل کا سفر نہیں کریں گے بلکہ آپ کے پاس وہ طاقت ہوگی جس سے آپ اور آگے جا سکیں گے۔ بجائے آپ مشتری پر پہنچ کر واپس یہاں پلٹیں، آپ دوسری جگہ پر جانے کے لئے آدھے راستے پر ہوں گے۔ پھر آپ گھومیں اور بریک پر پیر رکھیں، اور مشتری اور زحل کے نظام کی طرف رفتار ہلکی کریں۔ یہی کام آپ کو واپس آنے کے لئے کرنا ہوگا، لہٰذا برسوں تک اس کام کے کرنے کی وجہ سے آپ ماہ بلکہ ہفتے آنے جانے میں لگا دیں گے اور میرے خیال میں جب ایسا ہوگا تو واقعی بیرونی نظام شمسی کو کھوجنا قابل عمل ہوگا۔​

[1]۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لئے دیکھئے جارج ڈیسن کی کتاب پروجیکٹ اورائن - جوہری خلائی جہاز 1957ء تا 1965ء (پینگوئن)۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 7
مصنوعی ثقلی قوّت



لمبے عرصے تک سفر کے لئے اڑان بھرنے والوں کے لئے خلائی سفر میں سب سے زیادہ مسئلہ ثقل اصغر کے ماحول کا ہے۔ جیسے ہی انسانی جسم ثقلی دباؤ سے دور جاتا ہے ہڈیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ چاہے جتنی بھی کیلشیم خلا نوردوں کی خوراک میں شامل کر دیں، ہڈیاں خلاء کی کٹھور ثقل اصغر کی وجہ سے مسلسل گھلتی رہتی ہیں ۔ مزید براں آدھے سے زیادہ خلا نورد خلائی مطابقت کی علامت سے گزرتے ہیں، ایک ایسی صورتحال جس میں زبردست متلی اور ماحول ناشناسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مکانی سمت میں کام کرنے کے لئے قوّت ثقل ایک جزو لازم حصّہ ہے۔ دماغ اس وقت پریشان ہو جاتا ہے جب اس کو نیچے کا احساس نہیں ہوتا۔ زیادہ تر خلا نورد وقت کے ساتھ اس بیماری پر قابو پا لیتے ہیں اور کچھ دوائیں متلی کو کم کرنے کے لئے لیتے ہیں۔

بہرحال لمبے عرصے تک بے وزنی کی حالت کی وجہ سے جسم پر اثرات بیرونی سیاروں پر سفر کرنے کے دوران اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔ ڈھانچے کی کمزوری کے ساتھ کچھ اندرونی شمسی نظام میں خلائی مسافروں کے لئے دیکھنے میں تکلیف ہوگی۔ قلب و عروقی نظام کمزور ہوگا اور پٹھے لاغر ہو جائیں گے۔ مدار میں موجود خلا نورد روزانہ گھنٹوں بجائے مہم سے متعلق کام پر توجہ دینے کے ان اثرات سے نمٹنے کے لئے مشق کرتے ہیں۔ مصنوعی قوّت ثقل شاید ان تمام مسائل کو حل کر سکتی ہو۔

١٩٥٠ء کے عشرے کی سائنسی فلموں میں ڈونَٹ کی شکل کے مداری چوکیاں اور پہیے جیسے خلائی اسٹیشن کافی مروج تھے۔ فلموں میں عظیم الجثہ چھلے زمین کے مدار میں شاہانہ انداز میں گھومتے ہوئے دکھائی دیتے تھے جبکہ ان پر رہائشی لوگ کافی پی رہے ہوتے تھے اور بین الاقوامی لاؤنج میں اجتماع لگائے ہوتے تھے جہاں پر حلیم خم دار فرش اور چھت موجود ہوتی تھی۔

ان تمام ڈیزائنوں میں یہ دکھایا جاتا تھا کہ گھومتا ہوا اندرونی حصّہ اجسام کو ڈونَٹ کے باہر پکڑ کر رکھتا تھا، جو اصل میں رہائشیوں کے لئے فرش بن جاتا تھا۔ ایک گھومتا ہوا خلائی جہاز مرکز گریز قوّت کا استعمال کرتے ہوئے قوّت ثقل کو پیدا کر سکتا ہے۔ گھومتے ہوئے مرکز سے اجسام دور جاتے ہیں۔

اس طریقہ میں مسائل موجود ہیں۔ انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے ایک گھومتی ہوئی ساخت مہم کو ڈیزائن کرنے میں کافی پیچیدگیاں پیدا کر دے گی۔ پہیے نما خلائی جہاز کو اس قابل ہونا ہوگا کہ وہ گھومتی ہوئی طاقت کو سنبھال سکے، اور گھومنے کے دوران اپنی پرواز اور عملے کو سنبھال سکے اور اس وقت بھی جب وہ اپنی منزل پر پہنچ کر ساکن ہو جائے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ صرف خلائی جہاز کا ایک حصّہ گھومے، جبکہ دوسرے حصّے ساکن رہیں۔ یہ طریقہ کامیابی کے ساتھ گلیلو خلائی جہاز کو مشتری پر بھیجتے ہوئے آزمایا گیا ہے (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)، لیکن تجرباتی مہم کو ایک بڑے پیمانے پر کرنے سے موڑ کے وقت پیدا ہونے والی صورتحال اور بین ہئیتی مسئلہ بن سکتے ہیں۔

٢٠١١ء میں ناسا کی ٹیکنالوجی ایپلیکیشن اسس منٹ ٹیم نے ایک تصوّر پیش کیا جو کثیر انسانی بردار خلائی جہاز مہم کہلایا۔ اس میں خلائی جہاز جس کا نام نوٹیلس - ایکس تھا، اس کا مقصد ایک ایسی جگہ پیش کرنی تھی جو چھ اشخاص پر مشتمل عملے کو لمبے عرصے کے خلائی سفر میں خلائی بسیط میں لے جا سکے۔

نوٹیلس – ایکس میں ایک ڈونَٹ کی شکل کا مرکز گریز علاقہ ہے جہاں پر عملے کے رہنے کی جگہ میں مصنوعی قوت ثقل باقی مانندہ جہاز کے آپریشن کو چھوڑ کر مہیا کی گئی ہوگی۔ ایک اور دوسرا طریقہ مصنوعی قوّت ثقل کو مہیا کرنے کا یہ ہے کہ خلائی جہاز کو رسی کے آخر میں گھمایا جائے۔ یہ طریقہ پہلے جیمنی ١١ مہم میں ستمبر ١٩٦٦ء میں استعمال کیا گیا تھا ۔ اجینا سے اوپر فضا میں ملنے کے بعد، خلا نورد ڈک گورڈن نے خلائی جہاز کو چھوڑ کر دونوں گاڑیوں کو جوڑا اور ایک رسی سے باندھ دیا ۔ اس کے بعد خلائی جہاز کو الگ کر دیا گیا اور جیمنی ١١ ٣٦ میٹر اس رسی کے آخر میں چلا گیا جس نے خلائی جہاز کو بندھا ہوا تھا۔ خلائی گاڑی کے امیر پیٹ کونارڈ نے جیمنی کیپسول کو ہلکے سے دونوں گاڑیوں کے مرکزی نقطے سے گھمانا شروع کیا ، اور کوشش کی کہ رسی تنی رہے اور خلائی جہاز ایک مستقل فاصلے پر موجود رہے۔ شروع میں جھٹکے تو لگے تاہم ٢٠ منٹ بعد وہ کمزور پڑ گئے۔ رسی کے آخر میں ہونے والی دائروی حرکت نے تھوڑی سی مصنوعی قوّت ثقل کے اسراع کو جیمنی ١١ کے اندر ظاہر کرنا شروع کیا، پہلی مرتبہ ایسی مصنوعی قوّت ثقل کا مظاہرہ خلاء میں کیا گیا تھا۔ ٣ گھنٹوں کے بعد رسی کو چھوڑ دیا گیا، اور خلائی جہاز مزید آگے چلا گیا۔ ہرچند کہ عملے نے قوّت ثقل کی طاقت نہایت خفیف محسوس کی تھی (لگ بھگ 0.00015g)، لیکن انہوں نے اجسام کو کیپسول کے فرش کی طرف حرکت کرتا ہوا دیکھا تھا۔ مزید دوسری رسی والی مہمات کو بھی جانچا گیا۔ مثال کے طور پر سیڈی اوّل (Small Expendable Deployer System) خلائی جہاز میں ایک ٢٠ کلومیٹر لمبی رسی کو اسپینٹ ڈیلٹا دوم کے اوپری حصّے سے متوازن کیا گیا تھا۔ خلائی شٹل کولمبیا میں ٹی ایس ایس ١ آر کو جہاز کے سامان رکھنے کی جگہ سے چھوڑا گیا جس نے ١٩ کلومیٹر کی رسی کو شارٹ سرکٹ سے تار کو نقصان پہنچنے سے پہلے گھمایا ۔ دونوں مہمات نے مستقبل میں رسی کے استعمال کے بارے میں قابل قدر معرفت دی۔

مصنوعی قوّت ثقل کے لئے رسی والی تیکنیک انسان بردار خلائی کھوج بشمول رابرٹ زبرین کے مارس ڈائریکٹ کے لئے ایک اہم جزو ہے۔ اس مہم میں زمین اور مریخ کے سفر کے لئے بنیادی ڈھانچے کو بنانے کے لئے ایک کم خرچ بتدریج طریقہ پیش کیا گیا ہے۔ مریخ کی طرف جانے والے خلائی جہاز اپنے آپ کو اوپری سطح سے رسی کے ذریعہ جوڑیں گے اور اس کو عبور کرنے کے عرصے میں مصنوعی قوّت ثقل کے لئے بطور متوازن استعمال کریں گے۔

جہاز کو گھماتے ہوئے قوّت ثقل کو پیدا کرنے میں کافی مسائل ہیں۔ ایک مسئلہ کوریو لس اثر ہے۔ اس اثر میں کسی متحرک چیز کے رخ میں انحراف سے مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ گھومتے ہوئے ماحول میں بظاہر طاقت زاویہ قائمہ پرمحور کے اصل گھماؤ پر اثر انداز ہوتی ہے اور اجسام کی حرکت کو گھماؤ کے مخالف میں حرکت دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک رہائش والی جگہ پر خلا نورد محوری گردش سے دور جا رہا ہوگا، وہ اس احساس کو محسوس کرے گا کہ خلا نورد کو گماؤ کی سمت کے مخالف بھیجا جا رہا ہے۔ یہ احساس اندرونی کان کے کام کرنے کے انداز کو متاثر کرے گا اور سمت کے تعین میں مسئلہ ہوگا اور متلی اور چکر آنے شروع ہو جائیں گے۔ لمبے عرصے کے گھماؤ (لمبی محوری گھماؤ) اس اثر کو کم کریں گے۔

خاکہ 9.6 نوٹیلس – ایکس ، ایک پیش کردہ بین السیاروی خلائی جہاز جو مخروطی گھومتا ہوا حصّہ استعمال کرکے عملے کو قوّت ثقل مہیا کر ے گا۔

حالیہ دور میں ہونے والی کافی انجینئرنگ تحقیقات نے دوسرے خیالات کا بھی جائزہ لیا ہے، یعنی محوری گردش کا استعمال کرنا جو بہت چھوٹے ہوں۔ خیال ہے کہ چھوٹے نصف قطر کی مرکز گریز قوّت کو محدود وقت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے شاید مشق کرنے کے دوران میں۔ یہ چھوٹی مرکز گریز عملے کے ارکان کو لے کر بہت تیزی سے دو سیکنڈ میں ایک مرتبہ گھوم سکتی ہیں جس سے زمین کے برابر قوّت ثقل پیدا ہوگی۔ انجینئرنگ کی اس تحقیق کو نیشنل اسپیس بائیو میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، ہیوسٹن، ٹیکساس سے بھی مدد ملتی ہے جو اس بات کو جاننے کے لئے کوشاں ہیں کہ آیا چھوٹے نصف قطر کی مرکز گریز قوّت کی مدد سے کی جانے والی مشق وہ اثرات پیدا کر سکتی ہے جو ہڈیوں، پٹھوں اور ہمارے جسم میں موجود مائع کے لئے ثقل اصغر کے اثرات سے لڑنے کے لئے ضروری ہیں۔



خاکہ 9.7 دائیں: اجینا اوپری حصّہ رسی کے آخر میں تیر رہا ہے، جیمنی ١١ کی کھڑکی سے نظر آنے والا منظر۔ یہ پہلا تجربہ تھا جس میں رسی کو انسان بردار جہاز میں مصنوعی قوّت ثقل پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ بائیں: رابرٹ زبرین کے مارس ڈائریکٹ جیسی مہمات میں رسی کو مریخ پر جانے اور وہاں سے آنے کے لمبے سفر کے لئے قوّت ثقل کی نقل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔



خاکہ 9.8 تھوڑی سی قوّت ثقل کیا تبدیلی لاتی ہے! نمک اور کالی مرچ زمینی طریقے سے (پیچھے) نمک دانی سے نکالی جا سکتی ہے۔ آئی ایس ایس پر موجود مدار میں خلا نوردوں کو اپنی نمک اور کالی مرچ کو تیل میں بند رکھنا ہوتا ہے (پیش منظر)۔



مصنوعی قوّت ثقل کے لئے سب سے قدرتی چیز اسراع ہے۔ ناسا کے ایلون ڈریو کہتے ہیں:
مستقل اسراع آپ کو تھوڑی سی قوّت ثقل مہیا کرتی ہے۔ یہ زبردست طریقے سے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ذرا ایک انڈے کے خاگینہ کا ثقل اصغر میں بنانے کا تصوّر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام خوراک زمین پر ہی بنا لی جاتی ہے اور مدار میں ہم صرف اس کو گرم کرکے کھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں یہاں آ جاؤں تو پھر میں سینکی ہوئی چیز، انڈے یا پیاز کو اتوار کی تعطیل کی طرح ناشتے میں نہیں کھا سکتا ، لہٰذا اس کو پہلے سے ہی تیار کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت کیا ہوگا کہ اگر میرے پاس ایک جی کا دسواں حصّہ بھی خلائی جہاز میں موجود ہو؟ اب پانی برتن میں ہی رہے گا لہٰذا غسل خانہ یا بیت الخلاء ایسے ہی کام کرے گا جیسا کہ زمین پر کرتا ہے۔ کھانا بنانا تھوڑا مشکل ہوگا کیونکہ تیل کم قوّت ثقل میں چھینٹے اڑائے گا لہٰذا آپ کو فرائی پین سے گرنے والے تیل کو پورے باورچی خانے سے صاف کرنا ہوگا۔ ان تمام باتوں کے باوجود تھوڑی قوّت ثقل بھی کافی مدد گار ثابت ہوگی۔​


کچھ پروازی انجینیروں کے مطابق جدید دھکیلو نظام کی مستقل دھکیل اس بے وزنی کی کیفیت کا آخری حل ہوگی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 8

تابکاری سے بچاؤ کی ڈھال



دو قسم کی تابکاری بیرونی نظام شمسی جاتے ہوئے کھوجیوں پر حملہ کرے گی۔ پہلی تو قریب میں موجود سورج کی ہے۔ ہمارا قریبی ستارہ بلند توانائی والے ذرّات کے ریلے بالخصوص شمسی طوفان کے دوران بھیجتا ہے جس کو شمسی ذرّات کے وقوع کہتے ہیں۔ ان واقعات کے دوران ریڈیائی اور ٹیلی ویژن کی ترسیل میں خلل آ سکتا ہے اور یہاں تک کہ سیارچوں کو ناکارہ بھی کر سکتا ہے، تاہم ان میں یہ قابلیت بھی ہوتی ہے کہ زمین کی حفاظتی مقناطیسی میدان سے باہر موجود خلا نوردوں کی طرف مہلک اشعاع کو پھینک سکے۔

ایک دوسری قسم کی تابکاری نظام شمسی سے دور خلائے بسیط سے آتی ہے۔ یہ کائناتی اشعاع ہیں اور ان کے مخصوص منبع کا معلوم نہیں لیکن ان میں سے اکثر سپرنووا یا کہکشانی مرکز سے نکلتی ہیں۔ کائناتی اشعاع لمبے عرصے میں صحت پر زبردست منفی اثرات ڈال سکتی ہیں جس میں کینسر، معدے کی بیماریاں، ڈی این اے کا نقصان اور مرکزی حساسی نظام، موتیا اور دوسری بیماریاں شامل ہیں۔

خوش قسمتی سے عملے کو شمسی تابکاری سے تو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ہرچند کہ بھاری کچھ قسم کی دھاتیں شمسی طوفانوں سے تو بچا سکتی ہیں۔ کچھ فٹ پانی اور خالص ہائیڈروجن ایک اثر انگیز ڈھال کا کام کرکے کچھ خطرناک قسم کے شمسی طوفانوں سے بھی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ خلائی جہازوں کو طوفانی پناہ گاہوں کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے، چھوٹے خانے جہاں عملہ اس قسم کے واقعات کے دوران پناہ لے سکتا ہے۔ ان پناہ گاہوں کے اطراف میں جہاز کا ایندھن ہوگا بالخصوص ہائیڈروجن، یا اس کی دیوار میں عملے کے زیر استعمال پانی کو بھر دیا جائے گا۔ جب پانی عملے کے استعمال میں آ جائے گا تو دوسری دیوار استعمال شدہ پانی سے بھر دی جائی گی تاکہ حفاظتی اثر قائم رہے۔ کائناتی تابکاری ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ اس کے کثیف ذرّات الیکٹران کے بغیر آسانی کے ساتھ ٹھوس دھاتوں بلکہ یہاں تک کہ سیاروں کے قلب میں سے بھی گزر جاتے ہیں۔ زمین کی حیاتیاتی برادری سیارے کی مقناطیسی کرۂ کی بدولت محفوظ ہے، جو ایک حفاظتی بلبلے کی طرح کرہ کے گرد موجود رہ کر شمسی اشعاع کو سطح سے دور رکھتا ہے۔ یہی حفاظتی ڈھال ہمیں کائناتی تابکاری سے بھی بچاتی ہیں۔

١٩٦٠ءکی دہائی سے انجنیئر غور و فکر میں مصروف ہیں کہ آیا اس طرح کا کوئی حل خلائی جہاز کے لئے نکل سکتا ہے۔ کیا عملے کو ایک خلائی جہاز کے گرد ایک مصنوعی مقناطیسی کرہ کی مدد سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟ ایک حالیہ تحقیق برطانیہ، پرتگال اور سویڈن کے طبیعیات دانوں نے کی ہے جس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ کافی سستے میں خلائے بسیط میں موجود خلائی جہاز کے گرد حفاظتی ڈھال بنا کر حفاظت کی جا سکتی ہے۔ ایک برقی مقناطیسی کھوجی کو بطور خلائی جہاز کے استعمال کرنے کے بعد ٹیم کو معلوم ہوا کہ ان کا مقناطیسی خلائی جہاز پلازما کو موڑ دیتا ہے اور اپنے ارد گرد جگہ کو صاف رکھتا ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق خلائی جہاز کو ایک ایسے نظام کا استعمال کرکے ١٠٠-٢٠٠ میٹر کے بلبلے کے اندر محفوظ رکھا جا سکتا ہے جس کو آسانی کے ساتھ خلاء میں لے جایا جا سکتا ہے۔ ایک اور دوسری حالیہ تحقیق ایس آر 2 ایس سرن میں کی جا رہی ہے جہاں اس کے ساتھ دوسرے فرانسیسی ، اطالوی اور بین الاقوامی یورپی اتحادی بھی شامل ہیں۔ ایس آر 2 ایس میں امید ہے کہ کافی مختلف اقسام کی ٹیکنالوجیوں کو بنا لیا جائے گا جو عملے کو تابکاری سے محفوظ رکھیں گی۔ ان کا مقصد ایک ایسی حفاظتی مقناطیسی میدان کو اپنے خلائی جہاز کے گرد فوق موصل مقناطیسوں کا استعمال کرکے بنانا ہے ۔

جانسن اسپیس سینٹر میں محققین اونچے درجہ پر فوق موصل ساختوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ حفاظتی میدان کو پیدا کیا جا سکے۔ ان کی تحقیق بتاتی ہے، "عمل اور جامد نظام کے امتزاج سے تابکاری سے بچاؤ کی ڈھال اس مسئلے کو سب سے امید افزا حل دیتی ہے۔" جے ایس سی کے انجنیئر ایک بڑا، نہایت ہلکا ، پھیلنے کے قابل گچھے کو "لمبے عرصے تک جاری رہنے والی مہمات میں خلائی جہاز میں رہنے والے انسانوں کے لئے اشعاعی تابکاری کو قابل قبول سطح تک لانے کے لئے " دیکھ رہے ہیں۔

فرینکلن چانگ ڈیاز کا واسیمر انجن اپنا مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے۔ اس میدان کو عملے کی حفاظت کے لئے بھی ڈھالا جا سکتا ہے، وہ کہتے ہیں۔" یہ انجن کی بناوٹ کی کافی دلچسپ ضمنی پیداوار ہے۔ آپ کے پاس کافی مضبوط مقناطیسی میدان ہوگا۔ جی ہاں، آپ ایک مقناطیسی ڈھال کو اپنے خلائی جہاز کے گرد بنانے کو سوچ سکتے ہیں جو عملے کے اراکین کو کچھ اشعاع سے تو بچا لے گا۔

واسیمر کی ٹیکنالوجی جو مقناطیسی میدان کو پیدا کرتی ہے وہ فوق موصلیت ہے یعنی وہ ٹیکنالوجی جو مقناطیس کو مکمل موصل بنا دیتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ان میں سے ایک ہے جس پر کیا جانے والا کام ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ "کچھ نہایت دلچسپ فوق موصل اب بھی موجود ہیں جو بہت برقی رو کو بہت ہی بلند سطح تک لے جا سکتے ہیں جس سے مضبوط مقناطیسی میدان بنتے ہیں۔ یہ موصل کافی ہلکے ہیں۔ یہ اس درجے حرارت پر کام کرتے ہیں جو ابتدائی فوق موصل سے کہیں زیادہ اوپر ہے، ابتدائی فوق موصل کو مطلق سفر تک ٹھنڈا رکھنا ہوتا تھا۔ آپ کو اب اس چیز کی مزید ضرورت نہیں ہے۔"

ہمارے سیارہ کھوجیوں کو ایک اور قسم کی تابکاری کا سامنا کرنا ہوگا جب وہ اپنی منزل پر پہنچیں گے یعنی وہ توانائی جو سیارے کے اپنے قلب سے آ رہی ہوگی۔ بجز مشتری کے گیسی اور برفیلے دیوہیکل سیاروں کے مقناطیسی کرۂ کافی شفیق ہیں۔ تمام صورتوں میں ان توانا میدانوں کو آسانی کے ساتھ سیارے سے فاصلہ رکھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ گلیلائی سیارچوں کی صورت میں دو اہم ہدف یوروپا اور آئی او مشتری کے گہرے شعاعی علاقے میں موجود ہیں۔ زائرین شاید وہاں کچھ ایسے علاقے ڈھونڈ لیں جہاں انہوں پناہ مل سکتی ہو (دسواں باب ملاحظہ کیجئے)، لیکن زیادہ تر تحقیق دور دراز سے بیٹھ کر چلانے والی روبوٹوں کے ذریعہ کی جا سکے گی جن کو گینی میڈ یا کیلسٹو پر بنے کیمپ سے قابو کیا جائے گا۔

مستقبل کے خلا نورد تابکاری سے بچاؤ کے لئے شاید دھاتی یا برقی مقناطیسی ٹول باکس کا نہیں بلکہ نسخے کا استعمال کریں گے۔ دوا شاید اس کا حل ہوا۔ تابکاری سے ہونے والی تباہی پیمانے کی وجہ سے غیر محسوس ہوتی ہے۔ وہ ہمارے خلیہ کے اندر جینیاتی مادّوں کو تباہ کر دیتی ہے اور ہمارے دماغی خلیوں کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔ ادویہ کی ایک قسم جو ریڈیائی محافظ کے نام سے جانی جاتی ہے کا استعمال کافی کامیابی کے ساتھ ان مریضوں پر کیا گیا ہے جنہوں نے تابکار ماحول کا سامنا کیا تھا اور دوسری ادویہ نے تو وقت سے پہلے ہی کافی امید دلا دی ہے۔ جینس ٹین ایک مانع تکسید کی ایک قسم ہے۔ نہ صرف یہ زہر سے پاک ہے بلکہ یہ قدرتی طور پر کچھ غذاؤں میں بھی پائی جاتی ہے اور اس کا بندوبست لمبے عرصے کے لئے بغیر کسی ذیلی اثرات کے کیا جا سکتا ہے۔


تالیفی نباتیاتی مرکب کو کائی کے پودے سے حاصل کیا جاتا ہے جس میں زبردست مانع تکسیدی اثرات ہوتے ہیں۔ حالیہ تجرباتی تجزیوں [1]سے معلوم ہوا ہے کہ دوا نے اس چوہے کی حفاظت کی جس کو تابکاری کا سامنا کرنے سے پہلے دوا دی گئی تھی۔ فلگراسٹم کو ان مریضوں پر استعمال کیا جاتا ہے جنہوں نے بھاری تابکاری کا سامنا کیا ہوتا ہے اور جن کے خون کے سفید خلیہ پست ہو جاتے ہیں۔ اس کو ابھی تابکاری کے علاج کے لئے بطور خاص منظوری نہیں ملی ہے تاہم تحقیق جاری ہے۔ ایک اور دوا امیفوسٹین کو کینسر کے مریضوں میں تابکاری کے اثرات کو کم کرنے کافی زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لمبے عرصے کی خلائی پروازوں میں اس کو ناسا نے اپنی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔


[1]۔ڈلاس میں واقع ٹیکساس یونیورسٹی کے ساؤتھ ویسٹرن ،میڈیکل سینٹر میں تجربات کئے گئے جس کے نتائج کو آرلینڈو ، فلوریڈا میں واقع امریکی سوسائٹی برائے ثقلی و خلائی تحقیق میں نومبر 2013ء کو پیش کئے گئے ۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 9

انسانی جائے روئیدگی کی نقل - حصّہ اوّل



خاکہ 9.9 مریخ ٥٠٠ مسکن کا باہری حصّہ۔ مریخ ٥٠٠ میں عملہ ١٧ ماہ تک رہ سکتا ہے۔ ہوائی تالا اور مریخ کا ماحول بائیں جانب ہے۔


تابکاری کو چھوڑیں، خلاء میں لمبے خلائی سفر کے اثرات کو خلا نوردوں میں کس طرح جانچا جائے گا؟ اور کس طرح کے مسائل کا سامنا لمبے عرصے خلائی جہاز میں رہنے والے عملے کے اراکین کو کرنا ہوگا جب وہ دور دراز کی دنیا میں اتریں گے؟ پروازی منصوبہ ساز مختلف ذرائع سے اعداد و شمار کو حاصل کر رہے ہیں لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ محققین اکثر سب میرین یا بحری جہازوں پر کام کرنے والوں کو لمبے عرصے والے خلائی سفر سے تشبیہ دیتے ہیں۔

١٩٧٠ء کے عشرے میں نیو لندن، کنیکٹیکٹ میں واقع نیوی سب میرین میڈیکل ریسرچ لیبارٹری نے ان سب میرینر کا ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کیا جنہوں نے رضاکارانہ کافی برسوں تک خود کو پیش کیا۔ اسی طرح ایک ١٠٠٠ شخصی ہوابازوں پر تحقیق نیول ایرو اسپیس میڈیکل ریسرچ لیبارٹری ، پنساکولا، فلوریڈا میں ہوئی۔ دونوں جگہوں میں معمولوں کو کسی شدید ماحولیاتی حالات میں زندگی گزارنے کے پس منظر میں نہیں بلکہ ان کے خاص پیشے کی وجہ سے طبّی اور نفسیاتی طور پر بہت ہی احتیاط کے ساتھ جانچا گیا۔[1] تاہم طبّی جانچ کے لئے بنائے گئے بنیادی ڈھانچے کا استعمال کرتے ہوئے سب مرینر اور دوسری مسلح افواج کے لوگوں پر ہونے والی تحقیق ہمیں کافی اہم معلومات فراہم کر سکتی ہے جو ہم مستقبل میں لمبے سفر پر جانے والے مسافروں کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔

سرد جنگ کے وقتوں سے ہی سائنس دان ان مہمات کی نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مریخ ٥٠٠ کی مہم ماسکو میں ٢٠٠٧ء میں شروع ہوئی تاہم اس کی جڑیں انسان بردار چاند کے مشن کے وقت سے ہی موجود ہیں۔ نومبر ١٩٦٧ء میں رشین اکیڈمی آف سائنس کے انسٹیٹیوٹ آف بائیو میڈیکل پرابلم نے تین رضاکاروں کو ایک برس تک ایک الگ خانے میں رکھا جسے محبت سے وہ "نالی" کہتے تھے ۔ یہ تجربات کا وہ پہلا سلسلہ تھا جس میں تجربات کو پھیلاتے ہوئے انسانوں کو بند منضبط نظام کے ماحول میں رکھا گیا تھا جہاں پانی اور ہوا کو بازیافت کیا جاتا تھا۔ ١٩٧٠ء تک یہ سہولت بڑھ کر تین نمونہ جاتی نقول تک پہنچ گئی جس کو مارسو لٹ یا مریخی اڑان کا نام دیا تھا اس میں نباتاتی خانے کا اثر بھی شامل تھا۔ مستقبل کی جانچ میں قید کو کافی بڑھا دیا تھا۔ برداشت کرنے والے اس تجربے میں روس، یورپی یونین اور چینی محققین اور معمول شامل تھے۔ عملے کے اراکین کو تین مختلف پیچیدہ نمونوں سے گھمایا گیا جن میں سے ایک قابل رہائش نمونے کی نقل تھا جبکہ دوسرا طبّی سہولت کا تھا اور تیسرا افادے کا نمونہ تھا سب کو ایک بنیادی خلائی جہاز کی طرح بنایا تھا۔ ایک مریخ منتقل کرنے والی گاڑی، جو مریخی سطح کے ماحول کے علاقے سے ملی ہوئی تھی اس کو صرف عملے کے تین اراکین نے ٣٠ دن کے "مریخی کھوج کے دوران" استعمال کیا تھا۔ انہوں نے ایک ہفتہ مریخ کے نقل شدہ ماحول میں گزارا تھا جہاں انہوں نے اپنی مرکزی خلائی گاڑی پر واپس آنے سے پہلے تین الگ خلائی گاڑی سے باہر نکل کر یا مریخ پر چل کر کام سرانجام دیئے تھے۔

حتمی مہم کل ملا کر ٥٢٠ دن تک متصل نقلی خلائی کمپلیکس میں چلی۔ عملے کے چھ اراکین میں سے تین روسی تھے۔ ای ایس اے نے ایک فرانسیسی اور ایک کولمبین نژاد اطالوی شریک کار دیا تھا۔ چھٹے رضاکار کے لئے چین کو موقع ملا تھا۔ عملے نے ٣ جون ٢٠١٠ء کو خلائی مہم کی نقل بہت ہی محدود خوراک کی رصد سے کرنا شروع کی۔ نمونہ جات میں ڈیٹا اور کنٹرول سسٹم، مواصلاتی آلات، ہوا، پانی کا ذخیرہ اور ادھورا بازیافتگی کا نظام شامل تھا۔ نمونے میں لگے ہوئے پرواز کو قابو کرنے والے آلات نے وقت کے فرق کو بڑھانا شروع کیا تاکہ زمین سے مریخ تک جانے والے خلائی جہاز کی نقل کر سکے. باہر کی دنیا سے رابطوں کو حد درجہ محدود کر دیا تھا۔ عملے کی اکثریت بے خوابی کی کیفیت سے گزری اور کچھ توایک وقت میں اس قدر بے زار ہو گئے تھے کہ بتائی ہوئی مشق یا کرنے کے کام ہی نہیں کرتے تھے۔

٢٠١٣ء کی ایک رپورٹ [2] جو نیشنل اکیڈمی آف سائنس کو پیش کی گئی اس میں بتایا گیا، " عملے کی اقامت پوری مہم پر بڑھتی رہی جو چلنے کے ماحول کی کم فراہمی (یعنی کہ عافیت گزینی )، زیادہ سونے اور آرام کرنے کا نتیجہ تھی ۔" اراکین کو نیند کے چکر میں خلل کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا، " جو بلا ناغہ تفریحی کی عدم فراہمی کو ظاہر کرتا تھا۔" تجربے سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ مستقبل کے اراکین کو خلائی جہاز کے ماحول میں سفر کرنے کے لئے ارضی طبیعی خصوصیات کی نقل کرنی ہوگی (مثال کے طور پر ٢٤ گھنٹے کا دن/ رات کا چکر اور باقاعدہ کھانے کا وقت)۔

کچھ انجنیئر تو اس سے بھی بڑھ کر اگلے قدم کو بطور مکمل نقل کے دیکھنا چاہتے ہیں جس میں دو انسانوں پر مشتمل عملہ آئی ایس ایس پر رہے۔ اس صورت میں دو خلا نورد آئی ایس ایس کا سفر کریں گے مریخ تک جانے کی نقل میں ٩ ماہ وہاں گزاریں گے اور پھر ایک مہینے کے لئے زمین پر آئیں گے۔ زمین پر تھوڑا عرصہ گزارنے کے بعد مہم کے ختم ہونے کے بعد زمین پر واپس جانے سے پہلے دوبارہ آئی ایس ایس پر ٩ ماہ کے لئے چلے جائیں گے۔ اس طرح سے پروازی انجنیئروں ، نفسیات دانوں اور طبّی عملے کو احتیاط کے ساتھ جانچ کرنے کا موقع مل جائے گا جس میں وہ دیکھیں گے کہ اس طرح کے خلائی سفر میں انسانی جسم اور دماغ کیا کرتا ہے۔

شٹل آزمودہ کار ایلون ڈریو کہتے ہیں کہ لمبے عرصے میں شناسائی کا اثر مہم کی کامیابی پر کافی عمیق ہوگا۔ " آپ کو نئی حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے کافی زیادہ بوجھ اٹھانے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ بہت ساری چیزوں کو ہم معمولی سمجھتے ہیں مثلاً یکایک ہی آپ کے شعور کا حصّہ یہ بن جاتا ہے کہ کس طرح سے توازن کو قائم رکھ کر چلتے ہیں ۔ ہم تمام لوگ اس مرحلے سے گزرتے ہیں جس کو ہم "خلائی احمق" کہتے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ فرض کرتے ہیں کہ خلاء میں جاتے ہی کے ساتھ ہمارا آئی کیو آدھا ہو جاتا ہے۔" وہ چیزیں جو زمین پر پیدائشی لگتی ہیں ان کے لئے پہلے سے کافی مشق کرنی پڑتی ہے کیونکہ جب خلا نورد خلاء میں جاتے ہیں تو سادہ چیزیں بھی ان کو ایسی دشوار گزار لگ سکتی ہیں جن کا کوئی حل نہ ہو۔ ڈریو اس مظہر کے وقوع پذیر ہونے کو اس حقیقت سے جوڑتے ہیں کہ "میں نئی دنیا میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں جہاں جن چیزوں کو معمول کے مطابق ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتی ہیں۔ یہاں پر جس طرح سے آپ چیزوں کو رکھتے ہیں ویسے زمین پر نہیں رکھتے۔ جس طرح سے آپ پانی لیتے ہیں یا کھانا بناتے ہیں وہ بالکل ہی الگ طریقہ ہوتا ہے؛ اب آپ کے دماغ کو کافی زور ذہن کے طور پر کام کرنے کے لئے لگانا ہوتا ہے جس سے یہ اصل میں نچلے دماغی فعل کو بھیجتا ہے اور اب آپ کے اوپری دماغ کو اس سے نمٹنا ہوتا ہے۔" ڈریو کے تجربے میں عملہ مطابقت پذیری وقت کے ساتھ آس پاس کے ماحول کو اس طرح بنا کر حاصل کرتا ہے جس ماحول سے خلا نوردوں کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔




خاکہ 9.10 مریخ ٥٠٠ کے نمونے جس میں رہائش اور مریخی گاڑی اور مریخی ماحول شامل تھا۔


[1] ۔نیوی میڈیسن آپریشنل ٹریننگ سینٹر، پنساکولا ، فلوریڈا کےڈپٹی ڈائریکٹر آف ریسرچ ڈاکٹر اسٹیون لینول سے ذاتی گفتگو۔

[2]۔ مریخ کے ٥٢٠ دن کی مہم کی نقل میں عملے کی طویل سست حرکی اور نیند کے وقت اور دورانیہ میں تبدیلی کا معلوم ہوا ہے۔ میتھائس باسنر اور ساتھی؛ پی این اے ایس، منظور شدہ ٢٧ نومبر ٢٠١٢ء۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 10

انسانی جائے روئیدگی کی نقل - حصّہ دوم



خاکہ 9.11 ایک کرسمس درخت جو کانٹوں سے بنا ہے اور جس پر خوراک کے ڈبے ٹنگے ہوئے ہیں۔ اس سے خلا نوردوں کو اسکائی لیب خلائی اسٹیشن میں گھر جیسا ماحول لگتا ہے۔


ایک مثال کے طور پر ڈریو گاڑی چلانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کچھ ماہر ڈرائیور معمولی کاموں پر بھی بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں مثلاً، چابی لگانا، بریک لگانا، شیشوں کو ٹھیک کرنا یا نظر نہ آنے والے حصّوں کی چھان بین کرنا ۔ یہ چیزیں خود سے ہو جاتی ہیں۔ "اب تصوّر کریں، کہ یہ میں تمام چیزیں کار کے مسافروں کی طرف رکھ دوں تو آپ کا کام کس قدر مشکل ہو جائے گا۔" لگ بھگ اسی وقت جب مریخ ٥٠٠ کی جانچ جاری تھی، ناسا ایک تجربات کے سلسلوں کو چلا رہا تھا جو اب بھی جاری ہیں جن کو خلائے بسیط مسکن کا نام دیا تھا۔ ناسا کے ایلون ڈریو اس کے شریک کار تھے:

خلائے بسیط میں مسکن کی تحقیق میں عملے کے نمونہ جات اور عملے کی رہائش کے حصّوں کو ان بین السیاروی خلائی جہازوں میں دیکھنا تھا جو مریخ یا اس سے آگے جانے والے ہیں۔ ہم ان مہمات کو دیکھ رہے ہیں جو ٥٠٠ یا اس سے بھی زیادہ دنوں پر محیط ہوں۔ یہ بنیادی طور پر ایک ریت دان تھا جہاں پر آپ لمبے عرصے کے خلائی سفر کے لئے اپنی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لئے لائے تھے۔ ہم نے ان کو ایک ایسی جگہ پر رکھ دیا تھا جہاں ہر چیز مربوط تھی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے پاس روشنی کا تصوّر ہے تو کیا وہ توانائی کی اسکیم کے ساتھ چل سکے گا یا پھر اطلاعات کی ترسیل کو سنبھال سکے گا؟ لہٰذا تمام لوگ مل کر اپنی چیزیں لائے اور میرا مقصد ان کی چیزوں کو ان کے لئے الگ کرنا تھا اور بتانا تھا کہ اس میں کیا چیز ٹھیک نہیں ہے تاکہ وہ اس کو درست کر لیتے۔

جہاز پر رہتے ہوئے زیادہ تر کام میں تو سیارچے کی چٹان کا چورا ملوث تھا، جس میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ عملے کے ساتھ کون سے اہم نمونے زمین پر لے کر جانے ہیں اور کن کو مدار میں بعد میں حاصل کرنے کے لئے چھوڑ دینا ہے۔ مریخ ٥٠٠ تحقیق میں ترسیل اطلاعات کے وقت میں تاخیر کو ڈال دیا گیا تاکہ جہاز اور اس کے وطن میں بڑھتے ہوئے فاصلے کی نقل کی جا سکے۔ ڈریو کے عملے سے جہاز کو سیارچے سے واپسی کی نقل کرنے کا کہا گیا، اس میں ٹیم کو اطلاعات ٥ منٹ ٥٠ سیکنڈ کی تاخیر سی دی گئیں کیونکہ ان کے نقلی جہاز کا زمین سے فاصلہ اتنا ہی تھی۔

لمبے فاصلوں پر وقت میں تاخیر کافی عرصے سے بیرونی نظام شمسی کی کھوج میں مسئلہ بنا ہوا ہے[1]۔ ایلون ڈریو سمجھتے ہیں کہ جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اتنا ہی زیادہ مسئلہ ہوگا۔ لیکن عملے نے ایک حیرت انگیز چیز دیکھی۔ "ایسا لگا کہ وہاں جہاں سب سے زیادہ مشکل سمت النظیر تھی۔ میرے لئے تو یہ ایک منٹ کی تاخیر تھی۔ اس کے بعد آپ اس طرح سے تبدیل ہو جاتے ہیں جہاں آپ بطور عملہ زیادہ خود مختار ہوتے ہیں۔ آپ ہر چیز کو کنٹرول روم کو نہیں بتانا چاہتے کیونکہ یہ کافی پریشان کن ہوتا ہے۔ جہاز کے اندر آپ کوشش کرتے ہیں اور یہ تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ آپ عبوری وقت کے درمیان ہوتے ہیں جہاں پر آپ خود مختار ہوتے ہیں اور جہاں مہم کو قابو کرنے والے مہم کی تمام تر جزئیات پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔"


خاکہ 9.12 ناسا کے خلائے بسیط کے مسکن کا باہری نظارہ جہاں اوپر ایک طالبعلموں کے لئے سائبان سا بنایا ہوا ہے۔ دو منزلہ رہائشی علاقے کے پہلو میں حفظان صحت کا نمونہ دائیں جانب موجود ہے۔

ایلون کے عملےنے لمبے عرصے کے فاصلوں پر اطلاعات کی ترسیل کے لئے متنی پیغام کو سب سے اثر آفریں پایا۔ " فرض کریں کہ آپ ایک لمبا عددی سلسلہ پڑھ رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں، 'دوبارہ کہو' اگر آپ پانچ منٹ کی تاخیر کے فاصلے پر ہیں تو یہ بات چیت بیس منٹ پر پھیل جائے گی۔" خلائے بسیط کے مسکن کی ٹیم کو فوری پیغام رساں کا استعمال سب سے بہترین لگا۔ دو طرفہ بات چیت کا اتنے بیرونی نظام شمسی کے لمبے فاصلوں پر کوئی آسان طریقہ موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر اطلاعات پیچیدہ اور تیکنیکی اطلاعات سے لدی ہوئی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک پیغام یہ کہہ سکتا ہے، اگر آپ اکیسویں سطر پر دیکھیں دستور ٢٠٣ عشاریہ ٩، وہاں پر ڈیٹا کی قدر 2.1 مائیکرو وولٹ ہے۔ اگر اس اطلاع میں کچھ گڑبڑ ہو گئی تو سب سے زیادہ آسان بات یہ ہوگی کہ آپ اس کو لکھ کر دیں۔

خلا نورد کلام شناس پروگرام کو بھی استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اکثر عملے کے اراکین کے پاس اعداد و شمار کو پروگرام میں داخل کرنے کے لئے وقت کی کمی ہوتی ہے یا وہ جسمانی طور پر یہ کام اس لئے نہیں کر سکتے کہ انہوں نے خلائی لباس پہنا ہوا ہوتا ہے یا ہاتھوں میں دستانے پہنے ہوتے ہیں یا قابو کرنے والا آلات پکڑے ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں خلا نورد مائکروفون فون میں اسکرین کو دیکھ کر بول سکتے ہیں اور آواز سے حکم کچھ اس طرح دے سکتے ہیں، "جی ہاں ، اس طرح سے۔ اسے بھیج دو۔" اکثر اوقات یہ اچھی طرح کام کرتا ہے۔ تاہم ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، ڈریو کہتے ہیں۔ " ایک دفعہ کا ذکر ہے جب ہمیں اس کو روکنا پڑا۔ ہمارے پاس ایک ایکس رے طیف پیما تھا جو ہم چٹانوں سے حاصل کردہ نمونوں کی جانچ کے لئے استعمال کرتے تھے۔ یہ ایکس ریز چھوڑتا تھا جو کہ ایک خطرہ ہوتا ہے۔ اگر ہم کوئی غلط الفاظ یا جملہ کہہ دیتے جیسے، 'کھول دو' تو یہ اپنے آپ کو چالو کرکے ایکس ریز کو چھوڑنا شروع کر دیتی۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ بہتر یہی ہے کہ اس نظام کو خود سے چلائیں بجائے یہ کہ وہ ہمارے حکم کو غلط طور پر لے۔"



[1] ۔ وائیجر دوم نے زحل پر جاتے ہوئے مہتابوں سے ہونے والی کافی قیمتی ملاقاتوں کو پلیٹ فارم کے جام ہونے کی وجہ سے کھو دیا تھا ۔ جام ہونے کی صورت میں اس کے آلات متعلقہ جگہ پر اپنے کیمرے مرکوز نہیں کر سکتے تھے (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)۔ اس وقت تک جب پروازی انجینیروں کو معلوم ہوا کہ مسئلہ کیا ہے وائیجر زحل کے نظام کو چھوڑ رہا تھا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 11
نقول کے دوسرے پروگرام برائے سفر خلائے بسیط




کینیڈا میں شمالی قطب دوسرے آرزو مندانہ نقول کے لئے ایک بہترین جگہ ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک پروگرام مریخ شمالی قطب ٣٦٥ ہے جو مارس سوسائٹی کے فلیش لائن ریسرچ اسٹیشن پر کیا جائے گا۔ شمالی قطب سے صرف ٩٠٠ میل کی دوری پر، اس جگہ کو کینیڈا کے ڈیون جزیرے میں ٢٠٠٠ء کی گرمیوں میں پائے تکمیل پہنچا دیا گیا۔ سلنڈر نما مریخی مسکن 7.7 میٹر بلند ہے۔ اندرونی حصّہ کا پھیلاؤ 8.3 میٹر ہے۔ پہلی منزل پر دو ہوائی تالے ، ایک نہانے کی جگہ اور بیت الخلاء ہے، خلائی لباس کو رکھنے کی جگہ اور تجربہ گاہ اور کام کرنے کی جگہ ہے۔ دوسری منزل پر عملے کے رہنے کی جگہ میں چھ کمرے جس میں سونے کا انتظام، ایک ملنے کی جگہ، ایک باورچی خانہ گیس کے چولہے کے ساتھ، فریج ، برتن دھونے کی جگہ اور مائکروویو چولہا بھی ہے۔ اس سطح کے اوپر ایک سیڑھی بالائی منزل کی طرف جاتی ہے جو ایک ساتویں عملے کے رکن یا کسی چیز کو ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال ہو سکتی ہے۔

ڈیون جزیرہ ایک لمبے عرصے کے خلائی سفر کی نقل کرنے کے لئے ایک بہترین جگہ ہے۔ اس کے برفیلے میدان مریخی زمین سے ارضیاتی طور پر کافی مشابہ ہیں، مثلاً زیر زمین برف ، زیر سطح منجمد زمین کے جیسی زمین یہاں تک کہ ایک شہابی گڑھا جس کا نام ہوٹن شہابی گڑھا ہے۔

مارس آرکٹک ٣٦٥ پروگرام میں محققین ایک سے زیادہ اراکین پر ہونے والی اب تک کی سب سے مفصل نقل کر سکیں گے ایک پوری مہم الگ رہ کر اور سخت ماحول میں کروائی جائے گی۔ تحقیقی میدانوں میں ارضیات، خرد حیاتیات، انسانی فعلیا ت اور نفسیات، غذائیت سے بھرپور خوراک کی جانچ اور ٹیکنالوجی کے وہ تجربات جس میں دور سے چلانے والی گاڑیاں اور قائم شدہ اسٹیشن شامل تھے۔ جیسا کہ پچھلی تمام نقول میں ہوا تھا، اگر کوئی بھی کام باہر کرنا ہوتا تھا تو اس کو خلائی لباس پہن کر کیا جاتا تھا۔ سفر بذریعہ اے ٹی وی کے ہوتا تھا۔



مارس ٣٦٥ بنیادی طور پرروسی مریخ ٥٠٠ کی نقل سے مختلف تھا، مارس سوسائٹی کے سربراہ رابرٹ زبرین کہتے ہیں

مریخ ٥٠٠ کے لئے ماسکو کے ایک کمرے میں لوگ موجود تھے۔ انہوں نے کوئی اصلی کام نہیں کیا تھا۔ ان کا سامنا میدان عمل میں کسی کام سے نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے بھاری آلات کی ناکامی کا سامنا میدان عمل میں نہیں کیا تھا، نہ ہی انہوں نے سردی میں جنریٹر کو ٹھیک کیا تھا۔ انہوں نے جسمانی مشقت نہیں اٹھائی تھی، حقیقتاً وہ الگ نہیں تھے۔ الگ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کمرے میں رہ کر باہر کے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔ الگ ہونے کا مطلب اس عالمگیری پیداواری اور ترسیل کے جال سے دوری ہے یعنی ہماری زندگی کا انحصار جس نظام پر ہے ۔ بالفاظ دیگر فی الوقت آپ کے پاس ٧ ارب لوگوں کا ہنر اور چیزوں تک رسائی ہے – پوری دنیا کی چیزوں کی۔ قیمتاً آپ اکیسویں صدی کے طبّی ماہر تک بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔ اگر کسی کو مریخ ٥٠٠ مشن میں اپنڈکس کا درد ہو تو وہ اس جگہ کو چھوڑ کر سیدھا اسپتال جا سکتا ہے۔ وہاں پر ان کی زندگی کی مکمل حفاظت اور مدد حاصل کرنے کی رسائی کا کبھی بھی کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ ڈیون جزیرے پر ہمارے پاس اس طرح کا ماحول نہیں ہے۔ یہ بہت ہی کمزور رابطہ ہے۔ اگر آپ زخمی ہو جائیں، تو شاید آپ ایک دن میں ٹوئن آوٹر پہنچ جائیں یا دو ہفتے میں بھی نہ پہنچ سکیں ۔ ہم مریخ پر تو نہیں ہیں لیکن ہم ڈیون جزیرے پر موجود ہیں۔ لیکن یہاں پر حقیقی خطرات موجود ہیں۔ یہاں پر اصل خطرہ موجود ہے۔[1]

اب بھی خلاء میں انسانوں کی جانچ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر کی جا رہی ہے۔ بطور خاص عملے کو ہر چھ مہینے میں بدلا جاتا ہے یہ اتنا وقت ہی جتنا مریخ پر جانے میں وقت لگتا ہے۔ تاہم ٢٠١٥ء میں تین عملے کے اراکین ایک لمبے عرصے تک مدار میں ثقل اصغر میں رہنے کی کوشش شروع کریں گے۔[2]

خاکہ 9.13 کینیڈا کے شمالی قطب کے ڈیون جزیرے میں موجود فلیش لائن مارس آرکٹک ریسرچ اسٹیشن ۔ یہ تین منزلہ نمونہ ٣٦٥ دن کے لئے عملہ کو اپنا مہمان بنائے گا اور مریخ کی مہم کی نقل کرے گا۔

اسکاٹ کیلی ایک برس کی اس مہم میں امریکی عملے کے رکن ہوں گے۔ وہ پہلے ہی چھ ماہ مدار میں گزار چکے ہیں، لہٰذا محققین کے پاس کچھ دو اطراف کے اعداد و شمار ہوں گے۔ لیکن کیلی کا ایک اور فائدہ بھی ہے۔ ان کا ایک جڑواں بھائی بھی ہے جس نے دو خلائی مہمات میں حصّہ لیا ہے۔ مارک کیلی کبھی بھی کسی لمبے عرصے کی خلائی پرواز پر نہیں گئے۔ ان کے مقابلے سے ثقل اصغر کے صحت پر اثرات اور اس کا جین اور ماحول پر کردار کے بارے میں کافی گہرائی کی باتیں جاننا آسان ہوں گی۔ دونوں خلا نورد ایک برس تک ساتھ رہیں گے۔ روس میں اس قسم کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ [3] خلاء میں سب سے لمبا عرصہ گزارنے کا اعزاز ولیری پولیاکوف کا ہے جو میر خلائی اسٹیشن پر خلاء میں ٤٣٨ دنوں تک رکے تھے۔


محققین کو امید ہے کہ جب وہ آئی ایس ایس کے ایک برس کے خلائی سفر کو مریخ ٥٠٠ اور مارس آرکٹک ٣٦٥ کے نتائج سے ملائیں گے تو ان کو کافی قابل قدر معلومات حاصل ہوں گی۔


[1] ۔ اس منصوبہ کے لئے مزید دیکھیں http://ma365.marssociety.org ۔

[2] ۔ آئی ایس ایس میں ایک وقت میں چھ لوگوں کی رکھنے کی جگہ ہے ، اس کم جگہ کی وجہ اس سے جڑے ہوئے خلائی جہاز میں موجود کم جگہ ہے جو عملے کو وہاں سے کسی بھی وقت نکالنے کے لئے تیار کھڑا ہے۔

[3] ۔ روسیوں نے دوسرا سب سے لمبا خلاء میں رہنے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا ہے جہاں ٣٨٠ دن تک سرگئی ایودیاف میر پر اگست ١٩٩٨ء سے اگست ١٩٩٩ء تک رہے؛ ٣٦٥ دنوں تک ولادیمیر ٹیٹوف اور موسیٰ مناروف نے میر پر فروری ١٩٨٧ء سے دسمبر ١٩٨٧ء تک گزارے۔ امریکی سنیتا ولیم نے کسی بھی خاتون کا خلائی وقت میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ ان کا ١٩٥ دن کا آئی ایس ایس پر سفر ١٠ دسمبر ٢٠٠٦ء کو شروع ہوا اور ایس ٹی ایس -١١٧ شٹل کے زمین پر ٢٢ جون ٢٠٠٧ء کو اترنے کے ساتھ ختم ہوا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 12
خوراک کی پیداوار




سفر چاہئے زمین کے مدار میں ایک ہفتہ گزارنے کا ہو یا بیرونی نظام شمسی کے سیاروں کا ایک برس لمبا خلا نوردوں کو ماحول کی شناسائی پیدا کرنے کی ایک جگہ کھانے کی میز ہے۔ خلائی ماہرین نفسیات کچھ عرصے سے یہ جان چکے ہیں کہ کھانے کی اقسام، رنگا رنگی اور اس کا معیار عملے کے جوش و جذبے اور ان کو چاق و چوبند کرنے کے لئے زبردست اثرات کا حامل ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ آپ اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ اکثر خلائی پروازی ڈیزائنر اس کہاوت کا اطلاق خوراک پر لاگو کرتے ہیں۔ مریخ پر رہنے والا خلائی جہاز یا چند ماہ کی مہم پر پہلے سے تیار شدہ خوراک ہی قابل عمل ہے۔ تاہم لمبے خلائی سفر میں خوراک کی پیداوار عملے کی صحت کے لئے جسمانی و ذہنی سکون کا سبب بن سکتی ہے۔ تجربات کو خلائی جہازوں میں اور میر اور آئی ایس ایس میں دہرایا جا چکا ہے۔ خلا نوردوں نے مولی، ساگ، اور دوسری کاسنی سبزیاں تھوڑی مقدار میں پیدا کی ہیں۔ عملے نے واضح طور پر یہ بات جان لی ہے کہ سبزیوں کو ثقل اصغر میں اگایا جا سکتا ہے۔ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ تازہ معیاری خوراک چاہئے ڈبہ بند خوراک کے ساتھ استعمال کی جائے ، وہ نفسیاتی طور پر کافی اہم ہے۔ ایلون ڈریو تبصرہ کرتے ہیں۔ " میں پیش رفت [رسد] کے بارے میں جانتا ہوں جہاں کافی تازہ پیاز اور سیب موجود تھے۔ یہ عام طور پر ان لوگوں کے لئے کافی اچھی خبر ہوتی تھی جب رسد پہنچتی تھی تو وہ ان تازہ سبزیوں کو اور کیپسول کو کھولنے سے نکلنی والی خوشبو کو سونگھتے تھے۔"

ساری تحقیق خلاء میں نہیں کی گئی۔ کارنیل کے چھ سائنس دانوں نے ایک ١١٨ دن کا کائناتی کھانا بنانے کی مہم ہوائی کی ماؤنو لوا کی ٢٤٠٠ میٹر اونچی ڈھلان پر کیا۔ جو ہائی سی کہلایا ( ہوائی اسپیس ایکسپلوریشن اینالوگ اینڈ سیمو لیشن )، ٤ ماہ کا دورہ خاص طور پر اس لئے بنایا گیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ لمبے سفر کے دوران عملے کے اراکین کو کیا کھانا دیا جانا چاہئے۔ ٹیم نے پہلے سے ڈبہ بند خوراک اور خود سے بنایا ہوا کھانے کو ملا کر کھایا خود بنایا ہوا کھانا انہوں نے وہاں پر موجود اجزاء سے بنایا تھا۔ اراکین نے کھانے پر تفصیلی تبصرے کئے اپنے مزاج ، وزن اور عمومی صحت کا بھی تفصیلی ریکارڈ درج کیا۔ پورے گروپ پر جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت نظر آئی وہ مسالے ، جڑی بوٹیاں اور گرم چٹنی تھی۔ تسکین پہنچانے والی خوراک مثلاً نٹیلا ، مونگ پھلی کا مکھن اور مارجرین بھی پہلے دس چیزوں کی فہرست میں موجود رہے۔ ریشے سے بھرپور خوراک ایک مسئلہ بنے گی کیونکہ عام طور پر ذخیرہ شدہ خوراک کو کافی زیادہ مراحل سے گزارا جاتا ہے اور اس میں ریشہ کم ہوتا ہے۔ گندم اور رائی کے نمکین بسکٹ، پھلیاں اور خشک میوا جات خوراک میں کافی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ یہ کافی لمبے عرصے تک کارآمد بھی رہتے ہیں۔


کھانے کی اشتہاء کے بارے میں ایلون ڈریو بتاتے ہیں:
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میری پہلی ہی مہم میں کھانے کا ذوق بدل گیا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ ایسا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کھانے کا دل سیم کی پھلی کا چاہا تھا۔ میں اپنے گھر میں سیم کی پھلی کو کھانے کے لئے تو پانچ قدم بھی نہیں چلتا تھا۔ مجھے ایس ٹی ایس -١١٨ کے مدار میں جانا تھا جو میری پہلی مہم تھی اور مجھے خشک سیم کی پھلی اور کھمبیاں کھانے کی اشتہاء چڑھ گئی تھی۔ میں دوسری خوراک کو سیم کی پھلی کے لئے بدلنے کے لئے ہر کسی سے کہہ رہا تھا۔ میں نے پوری زندگی میں سیم کی پھلی کو اس طرح سے نہیں کھانا چاہا۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ یکایک یہ کیا ہوا کہ مجھے سیم کی پھلی کھانے کا بھوت سوار ہو گیا۔ جب میں گھر گیا تو ہر چیز واپس معمول پر آ گئی تھی ۔ اور اسی طرح مجھے سیم کی پھلی پسند نہیں تھی جیسا کہ اس سفر میں جانے سے پہلے تھا۔ اپنی دوسری مہم کے دوران مجھے اس قسم کے عجیب و غریب چیزوں سے واسطہ نہیں پڑا نہ کچھ کھانے کی اشتہاء ہوئی (سوائے سینکے ہوئے گوشت کہ جس کا میں پہلے ہی سے دلدادہ تھا)۔​

بند نظام​


خلائی جہاز کے بند ماحول میں تازہ خوراک کو اگانے سے ایک اہم فائدہ آکسیجن کی پیداوار اور پانی کی بازیافتگی ہے۔ مہم جتنی لمبی سے لمبی ہوگی ، بند نظام یا بازیافتہ نظام کی اہمیت بڑھتی چلی جائے گی۔ ایک بند نظام اہم اجزاء جیسا کہ پانی اور آکسیجن کو بازیافتہ کرکے استعمال شدہ چیزوں کو قابل استعمال چیزوں میں بدلتا ہے۔ ١٩٦٠ء کی دہائی میں بائیو فزکس انسٹیٹیوٹ میں روسی سائنس دانوں نے ایک حیاتی مددگار تجرباتی بند نظام مسکن بنایا جس کو بائیوس ٣ کہا گیا۔ زیر زمین مرکز کو بنیادی طور پر کائی اور دوسرے پودوں کے لئے استعمال کیا۔ ١٩٧٢ء تک عملے کے دو اراکین نے ٣١٥ میٹر کے ایک چوکور خانے میں ٥ ماہ گزارے اور اپنی خوراک اور آکسیجن حاصل کرنے کے لئے اپنے پودے اگائے۔ یہ نظام اس قدر کارگر تھا کہ صرف ٢٠ فیصد خوراک کو باہر سے لانا پڑتا تھا۔

٢٠٠٥ء میں ای ایس اے نے پہلے سے جاری بائیوس ٣ میں اپنی معاونت شروع کی تاہم خلائی ایجنسی کا اپنا بھی ایک منصوبہ ہے۔ ای ایس اے نے ایک تجربہ کیا ہے جس کا نام میلیسا منصوبہ ( متبادل خرد ماحولیاتی حیاتی مدد گار نظام ) ایک خرد حیاتیات اور پودوں پر انحصار کرنے والا ماحولیاتی نظام جو خلا نوردوں کے لئے بند نظام حیاتیاتی خطہ پیدا کرے گا۔ عملے کے اراکین کی ضائع شدہ چیزیں اور ان کی پیدا کی ہوئی ہوائی آلودگی اور خلائی جہاز کے نظام کے مختلف جگہوں سے حاصل کی گئی چیزوں پر پودوں کے قدرتی استحالہ کو استعمال کرکے قابل استعمال بنایا جائے گا۔ وہ پودے خوراک اور صاف پانی اور ہوا کی صفائی کے لئے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔

میلیسا چار خانوں پر مشتمل ہے۔ ایک مائع کو جمع کرنے والا خانہ مہم کے تمام استعمال شدہ پانی جبکہ نا قابل خوراک پودوں کی ریخت کو بھی پودوں کے خانے سے حاصل کرتا ہے۔ یہ گرم خانہ نا ہوا باش جراثیم کا استعمال کرتے ہوئے کچرے کو اس شکل میں بناتا ہے جو دوسرے خانوں کے لئے قابل استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا خانہ چکنے تیزابوں کو توڑتا ہے جبکہ تیسرا خانہ کچرے کو نائٹریٹ میں بدلتا ہے تاکہ پودوں کے استعمال میں آ سکے۔ چوتھا خانہ کائی اور پودوں کو آکسیجن اور خوراک کے لئے استعمال کرتا ہے۔

میلیسا میر یا آئی ایس ایس پر استعمال ہونے والے دوسرے بازیافتہ نظاموں سے کہیں زیادہ جدید ہے۔ مداروی تجربات میں پانی کو صاف کرنا اور خارج کی ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ کو تو بازیافتہ کیا گیا ہے تاہم نامیاتی کچرے کو خوراک بنانے کے لئے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ ای ایس اے کے سائنس دان اس مقصد کی طرف کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خرد اجسام سے پیدا کردہ آکسیجن کے تجربات حال ہی میں آئی ایس ایس پر جاری ہیں۔ اس طرح کا کام روسی میر اور پہلے سالیوت خلائی اسٹیشن پر کر چکے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 13

خلائی جہاز کے روبوٹس کو کس حد تک خودمختاری دی جاسکتی ہے؟

اختیار​


اسٹینلے کوبرک کی فلم ٢٠٠١ء: اے اسپیس اوڈئیسی میں مشتری کے سفر پر گیا ہوا ڈسکوری خلائی جہاز کا عملہ مردم کشی کی کوشش کرنے والے نفسیاتی کمپیوٹر ہال ٩٠٠٠ کو چکمہ دے دیتا ہے۔ لیکن آرتھر سی کلارک کے اس کمپیوٹر ہال کے پیچھے ایک اہم سوال چھپا ہوا ہے۔ ایک جدید خلائی اڑان مہم میں ہم کتنا اختیار دے سکتے ہیں؟ ہمیں کتنا اختیار دینے کی ضرورت ہے؟

شٹل خلا نورد ایلون سوال اٹھاتے ہیں، " کیا ہمیں اپنے خلائی جہاز کو اڑانے کے لئے مصنوعی ذہانت کی ضرورت ہوگی؟ میں خلا نوردوں کو بہت ہی ہوشیار سمجھتا ہوں تاہم چھ خلا نوردوں کا عملہ مہم کو قابو کرنے والے سینٹر میں کام کرنے والے چھ درجن لوگوں کے قریب بھی نہیں ہو سکتے جن کے پاس جدول، کمپیوٹر اور تمام تربیت ہے۔ اس میں سے میں کتنا خلائی جہاز پر رکھ سکتا ہوں – اپنے کمپیوٹر ہال کی شکل میں؟ مثال کے طور پر یہ مجھے بتا سکتا ہے 'یہ بات میں نشانات کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا ہوں، تم اپنا ایک جنریٹر بس ب کو کھو دینے والے ہو۔ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کو وہاں پر بند کر دو، اور، ویسے یہ تمھارے کچھ تجربات اور دورانیہ پر اثر انداز ہونے جا رہا ہے۔' یہ کسی قسم کی ذیلی یا مجازی مہم کو قابو کرنے والی چیز آپ کی مدد کے لئے آپ کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ بالخصوص جب آپ زحل پر ہوں جو زمین سے ایک نوری گھنٹے کی مسافت پر ہے، مہم کو قابو کرنے والے اس قسم کی تفصیلات قابل مدافعت نہیں ہیں۔"

زمین سے ریڈیائی تاخیر ہی وہ ضرورت نہیں ہے جس کی اختیار کو ضرورت ہے۔ کسی بھی ابتدائی تفتیشی دیوہیکل سیارے کے درجنوں مہتابوں کے ساتھ مہم میں بیک وقت کام کرنے کی صلاحیت کافی اہم ہے اور خلا نوردوں کو مدد کی ضرورت ہوگی۔ حساس آلات کو مددگار کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جے پی ایل کی ایشلے ڈویز زمین کا مشاہدہ کرنے والے ایک مصنوعی سیارچے کے نظام پر کام کرتے ہیں جس کا کام زمین پر موجود سرگرم آتش فشانوں کی موجودگی کا سراغ لگانا ہے۔ ڈویز سمجھتی ہیں کہ کافی روبوٹک صورتحال کے لئے اختیار دینا ہی سب سے بہترین طریقہ ہے۔ "یہ اکثر سب سے بہتر طریقہ ہوتا ہے: خلائی جہاز اور خلائی گاڑی کو اختیار دیں تاکہ وہ کسی متحرک واقعہ کو پاتے ہی بروقت کاروائی کر سکیں۔ خلائی جہاز پر خودکار دیکھ بھال کرنے والے نظام کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ خلائی جہاز پر موجود اضافی طیفی اعداد و شمار پر کام کر سکے۔ یہ دلچسپ متحرک طیفی علامات کو دیکھے گا اور اکثر جگہوں پر اگر کسی سریع الزوال واقعہ دیکھے گا تو خلائی جہاز کو مزید اعداد و شمار حاصل کرنے کے لئے کہے گا۔"

بروقت اطلاعات کو چھاننے کی صلاحیت اور ان آتش فشانوں کو ڈھونڈے کے لئے پروگرام لکھنے کی وجہ سے جو پہلے ہی پھٹ کر مادّے کا اخراج کر چکے ہیں ، وہ کہتے ہیں۔ " یہ زمین کے مدار میں چکر لگا رہا ہے اور اپنے لئے کافی اچھا کام کر رہا ہے۔ ہم نہ صرف آتش فشانوں کو دیکھتے ہیں بلکہ آگ پر ، دوسری حرارتی سرگرمیوں پر، برف کی چادروں کو بننے اور ٹوٹنے کے عمل پر ، اور سیلابوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ہم اپنے مستقبل کی ان مہمات پر نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں ہم اسی قسم کا سافٹ ویئر دوسرے خلائی جہازوں پر لگا دیں جہاں وہ اعداد و شمار کو حاصل کرکے اس کا تجزیہ کرکے ہمیں بھیجیں۔ اس سے اطلاعات کی ترسیل کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آپ ہمیشہ اطلاعات بھیجی جانے والی اطلاعات سے زیادہ حاصل کرتے ہیں ، لہٰذا یقینی طور پر ایک ایسا الوگرتھم ہونا کافی فائدہ مند ہوگا جو اطلاعات سے مخصوص چیزیں نکال کر یا ایسی چیزیں جن کو ہم بیان نہ کر سکیں نکال کر واپس بھیج سکے۔" خلائی جہاز پر لگا سافٹ ویئر یا تو اس قسم کی اطلاعات کو اپنے ڈیٹا میں نشان زدہ کر دے گا یا پھر آپ کو اس میں سے کچھ بطور نمونہ بھیجے گا۔ ٢ سے ٣ ہفتے تک کا انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ محققین اس کو ٩٠ منٹ میں حاصل کر لیں۔ اسی دوران خلائی جہاز کو مزید اطلاعات کو حاصل کرنے پر لگایا جا سکے گا۔


"آپ تصوّر کر سکتے ہیں کہ کس طرح سے یہ آئی او کے پاس سے گزرتے ہوئے کام کرے گا،" ڈویز کہتی ہیں:
جب آپ آئی او کی طرف آرہے ہوں گے، تو سافٹ ویئر ان جگہوں کوتلاش کرے گا جہاں دلچسپ واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہوں گے۔ اگر آپ کے پاس کوئی کافی لچک دار آپریشنل منصوبہ موجود ہے تو آپ جب آئی او سے قریب ہوں گے تو مخصوص علاقوں کو ہدف بنا سکیں گے۔ اگر آپ نے کوئی بہت زیادہ روشن چیز دیکھی تو آپ اپنے آلات کا رخ اس کی طرف موڑ سکتے ہیں یا پہلے سے طے کردہ منصوبے کو مختلف مشاہدات کے سلسلے سے بدل سکتے ہیں تاکہ آپ مختلف اوقات میں مختلف چیزوں کو دیکھ سکیں اور فضول اطلاعات کو حاصل کرنے کی خفت سے بچ جائیں۔ اصل میں آئی او پر اصل مسئلہ ہی یہی تھا، کیونکہ جب آپ آرہے ہیں تو آپ حقیقت میں کافی روشن اخراج کو دیکھتے ہیں اور آپ قریبی اعداد و شمار حاصل کرنے چاہتے ہیں، آپ کو آئی او پر دوسری ہر جگہ سے ملنے والی اطلاعات کی قربانی دینا ہوتی تھی – جس کی وجہ سے وہاں بہت ہی کم معلومات مل سکیں۔ اگر آپ آئی او کے پس منظر میں دیکھتے تو آپ کو ان جگہوں کو چھوڑنا پڑتا جہاں بڑے اخراج ہو رہے تھے۔ یہی طریقہ ہے جس سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ان خود مختار نظاموں کے استعمال سے ہم مہم سے ملنے والی زیادہ اطلاعات کو حاصل کر سکتے ہیں۔​


لائق عملے کے ساتھ مل کر جہاز پر موجود خود مختار نظام حاصل کردہ معلومات اور بیرونی دنیا کے سفر کے دوران انسانوں کی حفاظت کو بہتر بنا دے گا۔ ان دور دراز کے جہانوں کی بنیاد اس جگہ سے بالکل ہی علیحدہ ہے جہاں ہمارے خلا نورد پہلے جا چکے ہیں۔ خلائی جہاز کی نوعیت ، پروازوں کی منصوبہ بندی اور چالیں جو ہمیں دیوہیکل جہانوں میں لے کر جائیں گی ان کو بلاشبہ بہتر نتائج کو حاصل کرنے کے لئے بدلنا ہوگا۔

کیونکہ ہماری دیوہیکل سیاروں کی مہم چاند اور کاغذوں میں موجود مریخ پر بھیجے جانے والی مہمات سے الگ ہوگی لہٰذا ہماری تہذیب بھی الگ ہوگی۔ ہم ایک ایسی تہذیب جس کا انحصار رکازی ایندھن پر ہے ، اس سے بدل کر ایک ایسی تہذیب بننے جا رہے ہیں جو زیادہ کارگر اور صاف ایندھن کو بتدریج حیاتیاتی ایندھن، ارضی حرارت، پن بجلی اور شمسی توانائی سے بدل رہی ہے۔ اگر ذمے داری سے کام کیا گیا تو تمام ذرائع قابل تجدید ہیں۔ اور عمل گداخت ہمارے دروازے پر کھڑا دستک دے رہا ہے۔ بیرونی نظام شمسی میں رہنے کی بحث کے دوران کچھ لوگ قصّوں میں موجود چیزوں کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔ تاہم دوسروں کا خیال ہے یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ کمیاب ارضی سیاروں کے ساتھ، قابل استعمال توانائی کے ذرائع مثلاً ہیلیئم ٣ اور دوسرے غیر معلوم ذرائع کے ساتھ بیرونی نظام شمسی شاید انسانیت کے مستقبل کے ذرائع میں ایک اہم کردار ادا کرے۔ تاہم مریخ کے آگے کی دنیا دوسرے طریقے سے بھی نشان راہ بنی ہوئی ہیں۔ انسان کھوجنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں، تاکہ اپنے دائرہ اثر کو بڑھا کر ، تجسس کی اشتہاء کو انسانیت اور کرہ ارض کی بھلائی کے لئے استعمال کر سکے اور دوسری دنیاؤں میں یا ان جہانوں کے ارد گرد گھوم سکے۔ روزمرہ کے نٹ بولٹ ، ثمر نان اور بانس سے آگے وہاں ہمارے انتظار میں کون سی چیزیں موجود ہیں؟​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -1

دیوہیکل سیاروں کے درمیان رہنے کے ثقافتی پہلو

دسواں باب

بیرونی تاریکی میں دنگل: دیوہیکل سیاروں کے درمیان رہنے کے ثقافتی پہلو​




خاکہ 10.1 ایک سفری جہاز ٹائٹن کے "ساحل" پر۔ مستقبل کے مسافر زحل کے سیارچوں پر ایسے سفر کر سکیں گے جیسی کہ وہ آج جزیرہ یونان یا کیریبین میں گھومتے ہیں۔


وہ کیا چیز ہو سکتی ہے جو اوّلین مسافروں کو ایک آرام دہ، خوش حال اور محفوظ زندگی کو چھوڑ کر بپھرے ہوئے سمندروں ، ناہموار پہاڑی سلسلوں اور پر خطر صحراؤں میں جا کر بسنے پر مجبور کرے گی؟ ہمیں کائنات میں آگے بڑھنے کے لئے کون سی چیز دھکا دے گی؟ فضائیات کے انجنیئر رابرٹ زبرین کو یقین ہے کہ کھوج انسانی فطرت کا ناگزیر حصّہ ہے۔ "کسی ایسی جگہ جانا جہاں کوئی نہ گیا ہو ؛ اس طرح کا کام جو کسی نے پہلے نہیں کیا ہو ، اس جگہ تعمیر کرنا جہاں اس سے پہلے کسی نے نہیں کی ہو اس قسم کی جبلی خواہشات حضرت انسان کی ہی ہیں۔ یہی وہ بنیادی خواہش تھی جس نے ہمیں افریقہ سے نکل جانے پر مجبور کیا ہے۔ ہم صرف اسی وجہ سے دنیا کے دوسرے کنارے پر بسے کہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی تھی۔"

کچھ کے لئے جانبازی کی کھوج کے لئے پہلے جانا ہی سب سے بڑا محرک ہے۔ دوسروں کے لئے شاید روحانی یا نفسیاتی وجہ ہو۔ بہرحال لوگوں کی نیک نامی یا بد نامی ہی صرف ایک وجہ اس قسم کے خطرے اور سرمایہ کاری کے لئے کافی نہیں ہے۔ نہ ہی صرف قسمت کافی ہوگی۔ ایلون مسک جو پے پال اور اسپیس ایکس کے بانی ہیں انہوں نے جوکھم اٹھا کر ایک ایسی کمپنی بنائی ہےجو خلائی کھوج کرے گی۔ اس کمپنی کو قائم کرنے کے پیچھے کوئی مالیاتی فوائد حاصل کرنے کا مقصد نہیں تھا، مسک کالٹک میں طالبعلموں کو بتاتے ہیں۔ "پے پال سے جانے کے بعد میں نے سوچا 'وہ کون سے دوسرے مسائل ہیں جو انسانیت کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟' اس لئے نہیں کہ ' پیسا کمانے کا بہترین طریقہ کون سا ہو سکتا ہے؟'"

جو پالیا پائینیر آسٹرو نوٹکس کے بزنس ڈویلپمنٹ مینیجر اور سول انجنیئر کہتے ہیں، "ہو سکتا ہے کہ نیزے کی انی پر کھڑے لوگ اس کو لافانی ہونے کی غرض سے کریں، تاہم اس کام میں مصروف دوسرے لوگ اس کو ایک الگ نقطہ نظر سے دیکھیں۔ کچھ لوگوں کے لئے منافع کمانے کی تحریک ہی سب سے بڑی ہوگی۔ اگر آپ لیوی اسٹراس کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس نے سونے کی کھدائی میں اس لئے حصّہ نہیں لیا تھا کہ وہ کوئی لافانی کردار بننا چاہتا تھا۔ وہ تو صرف جینز کی پتلونوں کو کان کن کو بیچ کر امیر بننا چاہتا تھا! اور ایک اور محرک بھی موجود تھا۔ بہت سارے لوگوں میں سے ایک ہونے سے بہتر ہے کہ چند لوگوں میں سے ایک ہو۔ صف اوّل میں بیٹھ کر زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں۔"

کھوجی لیوائس اور کلارک نے مغربی ریاست ہائے متحدہ کا یو ایس حکومت کی مالیات اور نیلامی کا سروے کیا۔ بحرالکاہل کے شمال مغرب میں موجود مواقع مشرق میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو نظر نہیں آرہے تھے۔ لیکن وہاں نفع کمایا جا سکتا تھا عملی اور آگے بڑھنے کے مواقع سفر اور تجارت کی صورت میں موجود تھے اور جوکھم اٹھا کر فائدہ حاصل کرنے کی نسبت کافی اچھی تھی۔ ایک مرتبہ جب کورپس آف ڈسکوری نے بحرالکاہل شمال مغرب کا سروے کرلیا تو بین البراعظمی کھال کی تجارت شروع ہو گئی۔ ایک وقت جب بنیادی ڈھانچہ رکھ دیا جائے تو نقل مکانی مستعدی سے شروع ہو سکتی ہے۔

دیوہیکل سیاروں کی سلطنت بہرصورت ایک نئے پیمانے کی ہے، خلائی فنکار جون لومبرگ کہتے ہیں۔ "بیرونی نظام شمسی میں بستی قائم کرنے کی باتیں اب ان زائرین کی طرح ہیں جو اس بات سے پریشان ہوتے تھے کہ کس طرح سے پتھریلے پہاڑوں کو پار کریں گے۔ وہ کیا چیز ہے جو کسی کو وہاں جانے کی ترغیب دے گی؟ کیا وہ انسان ہوگا یا مشین ہوگی؟ میرے خیال میں اس بات کا انحصار مکمل طور پر ان چیزوں پر ہوگا جن سے ہم بالکل بے خبر ہیں۔ محرکات اور ذرائع اس سطح سے کہیں زیادہ الگ ہیں جو ہم چاند یا مریخ پر بستی قائم کرنے کے بارے میں سمجھتے ہیں۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر بطور انسان تو ہم زمین اور مریخ سے آگے خلاء میں سفر کریں گے، ٹیکنالوجی جدید ہوں گی جس کی وجہ سے وہاں جانا آسان اور کم خرچ بالا نشین ہو جائے گا۔ رابرٹ زبرین کہتے ہیں کہ ہمیں آنے والے ثبوتوں کے لئے صرف تاریخ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ " کولمبس نے بحر اوقیانوس کو بہت ہی قدیمی جہاز کے ساتھ پار کیا تھا تاہم اس کے پچاس برس کے بعد وہاں پر چھوٹے بادبانی جہاز، اور اس کے بعد وہاں پر تیز رو بحری جہاز اور پھر بھاپ کے جہاز اور بوئنگ 747 نے اس کو پار کرنا شروع کیا۔ مریخ کے اوّلین رہائشیوں کے پوتے مشکل ہی سے ان کہانیوں پر یقین کریں گے جو پریشانیاں ہجرت کرنے والوں نے شروع کے دنوں میں اٹھائی ہوں گی،" وہ کہتے ہیں۔ وہی صلاحیت جو مریخ کے سفر کو آسان بنائی گی وہی بیرونی نظام شمسی کے سفر کو آسان کرے گی اور جب ہم بیرونی نظام شمسی میں پڑاؤ ڈالنا شروع کریں گے، تو وہی ٹیکنالوجی جس نے بیرونی نظام شمسی کے سفر کو آسان بنایا ہوگا وہ بین النجمی سفر کو آسان بنائے گی۔"

انجنیئر جوزف پالیا اس بتدریج عمل کو ہی مستقبل کی کنجی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ " انسانی ہجوم بیرونی نظام شمسی میں پڑاؤ ڈالنے کے لئے جائے گا۔ اگر ہمارے پاس مریخ کی سطح پر صنعتی سماج ہوا تو وہاں پر زمین کی بہ نسبت چیزوں کو اٹھانے کے لئے کم قوّت ثقل کی ضرورت ہوگی۔ خلاء میں ہونے والی صنعتی ترقی کو آگے بڑھتا ہوا ہم اچھی طرح سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم مریخ پر آگے جانے سے پہلے اچھی طرح سے اپنی بستیوں کو قائم کر لیں گے۔"

تاہم اس سے پہلے کہ یہ بنیادی ڈھانچہ ڈالا جائے انسانوں کو پہلی آزمائش میں پورا اترنے کے لئے جوش دکھانا ہوگا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -2​
پہلا نزول - حصّہ اوّل




خاکہ 10.2 لیوائس اور کلارک اکتوبر ١٨٠٥ء میں زیریں کولمبیا میں مقامی امریکی قبیلے چنوکن سے ملے۔ (ایک صدی بعد بننے والی تصویر میں مصوّر چارلس ایم رسل کا تخیل۔)لیوائس اور کلارک کی کورپس آف ڈسکوری نے کھال کی تجارت اور بالآخر یورپی آبادکاری کے لئے راہ ہموار کی۔


دیوہیکل سیارے کے پاس جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک چھوٹے پیچیدہ نظام شمسی کی طرف جانا۔ کافی مہتاب مختلف مداروں میں ، کچھ ایک دوسرے کی مخالفت میں اور کچھ سیارے کی استوائی سطح اور حلقوں کے علاوہ دوسری سطح پر چکر کاٹ رہے ہیں اور یہ مل کر کسی بھی سفر کرنے والے کے لئے ٹھیک ٹھاک پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ تاہم پروازی انجنیئروں نے مشتری کے مدار میں گلیلیو اور حال ہی میں زحل کے مدار میں بھیجا جانے والا کیسینی کے ساتھ اب کافی اڑانوں کی مشق کر لی ہے۔ کیسینی کی کیرولن پورکو زور دیتی ہیں کہ، " کیسینی کی مہم کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہم نے کیسینی کے ساتھ کافی قریبی اڑانیں بھری ہیں - جیسے سوئی میں دھاگہ ڈالتے ہیں، اس طرح اس بات کا یقین کرلیا کہ رفتار بالکل مناسب ہے - اس طرح کا کام ہم نے ایک سو برس سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی پوری خلائی تاریخ میں نہیں کیا تھا ۔"

اپنے اس تمام تجربے کے ساتھ پورکو کہتی ہیں کہ مدار میں جانا یا بہت سے سیارچوں کی سطح پر اترنا تو معمول کی بات ہوگی۔ تاہم لوگوں کے ساتھ خلائی جہاز کو بہت زیادہ سامان لے کر جانا ہوگا تاکہ عملے کے افراد کو صحت مند اور زندہ رکھ سکیں۔ زیادہ تر صورتوں میں سیارچے اتنے چھوٹے اور کم ضخامت کے ہیں کہ نزول و اڑان کے لئے درکار توانائی یہاں تک کہ کسی ضخیم خلائی جہاز کے لئے بھی کی مقدار کافی کم ہوگی ۔ مثال کے طور پر انسیلیڈس پر کھوجیوں کو بھاری تابکاری سے بچنے لے لئے محفوظ حفاظت گاہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ درحقیقت ان کو بمشکل اس بات کی پریشانی ہوگی کہ انسیلیڈس سے اوپر کیسے اٹھ سکیں۔ اصل مسئلہ سیارے کے مدار سے باہر آنا ہے، یہی تمام دیوہیکل سیاروں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

بیرونی سیاروں کی کھوج میں ایک ترکیب تو یہ ہو سکتی ہے کہ چھوٹے مہتابوں پر چوکی بنا لی جائے۔ ان چھوٹے جہانوں کا فائدہ یہ ہے کہ یہ دیوہیکل سیاروں اور ان کے مہتابوں دونوں سے قریب ہوتے ہیں جبکہ آنے جانے کے لئے ان کی قوّت ثقل بھی کم ہوتی ہے۔ خاص طور پر مشتری کے لئے چھوٹے چاند الآرا، ہمالیہ اور لیڈا کے مدار مہلک تابکاری پٹی کے باہر ہیں تاہم یہ سیارے اور اس کے دوسرے مہتابوں سے اس قدر نزدیک ہیں کہ یہاں سے اہم گلیلائی مہتابوں پر بھیجے ہوئے دور سے چلانے والے روبوٹوں کا استعمال کر سکتےہیں ۔ لیڈا سب سے قریب اور چھوٹا ہے۔

زحل پر پینڈورا، پرومیتھیس، جانس، اور ایپیمتھیس اہم مہتابوں پر تحقیق کرنے کے لئے قریبی ٹھکانہ مہیا کریں گے اور ساتھ ساتھ حلقوں کے نظام اور اس کی پیچیدگی پر ہونے والی تحقیق میں بھی مدد گار ثابت ہوں گے۔ یورینس کا چھوٹا چاند اس قسم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا کیونکہ درمیانی حجم کے یورینس کے سیارچے (مرانڈا، ایریل، امبریل، ٹائٹینیا اور اوبرائن ) کی قوّت ثقل کافی کم ہے۔ نیپچون پر کچھ چھوٹے مہتاب شاید اچھا ہدف ہوں کیونکہ ٹرائیٹن اترنے کے لئے ایک مشکل جگہ ہے۔ ٹرائیٹن الٹی طرف یعنی کہ مہتابوں کے قدرتی گھومنے کے رخ سے الٹا گھوم رہا ہے۔ اس وجہ سے ٹرائیٹن پر اترنے کی رفتار کافی تیز ہے۔ اس کی قوّت ثقل بھی اچھی خاصی ہے۔ چاند کی مداری حرکت اصل میں کسی بھی اڑنے والے خلائی جہاز کو غلط سمت میں بھیج سکتی ہے، لہٰذا اڑنے والے خلائی جہاز کو سیدھے مدار میں چکر لگانے والے مہتابوں کے مقابلے میں کافی زیادہ توانائی درکار ہوگی۔ ان اہداف میں پروٹیس ، لاریزہ ، گالاٹیا اور ڈیسپینا شامل ہیں۔ ایک کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر نیریڈ کا انوکھا مدار شاید اس کو دور سے قابو کرنے والے روبوٹوں کے لئے عملی طور پر کارآمد نہیں بناتا۔


خاکہ 10.3 مریخ پر قائم صنعت دیوہیکل سیاروں کے درمیان بنیادی ڈھانچہ بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ قطبین پر موجود طیران پذیر کافی صنعتی فوائد رکھتے ہیں۔


ویٹون کالج کے جیفری کولنز اس ٹیم کا حصّہ ہیں جو حال ہی میں مشتری کے سب سے بڑے مہتاب گینی میڈ کا سب سے مفصل ارضیاتی نقشہ بنا رہی ہے۔ "[نقشہ بناتے ہوئے] بنیادی چیزوں میں سے ایک مستقبل پر اترنے کی جگہوں کو بھی ذہن میں رکھنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں پر دلچسپ جگہیں ہوں گی۔ میں ذاتی طور پر کسی چیز پر اترنے میں پیسے خرچ کرنے سے پہلے اس کی سطح کا کافی تفصیلی معائنہ کروں گا۔ ہمارے پاس تو پورے کرۂ کا نقشہ بھی نہیں ہے۔ نقشے میں کافی بڑی جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمیں جل پریوں اور ڈریگن کو بنانا پڑا ہے۔ وہاں پر حقیقت میں کچھ غیر مبہم چیزیں چھوڑنی پڑی ہیں۔"

یوروپا کو گینی میڈ کے مقابلے میں زیادہ تفصیل سے نقشہ بند کیا گیا ہے۔ کیلسٹو کی سطح کے نقشے کے لئے کم تفصیل میں تصویر کشی کی گئی ہے ان کے درمیان اور آئی او کی کچھ اچھی معیار کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ زحل کے مہتابوں میں سب سے بہترین نقشہ انسیلیڈس کا بنایا گیا ہے۔ کیسینی نے 22 جدولی اڑانیں اس چشمے والے سیارچے کی طرف بھری ہیں۔ تھوڑی تفصیل والے تو آئیاپیٹس ، ڈائیاونی، ریا، میماس اور تیتھس کے نقشے بھی دستیاب ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -3
پہلا نزول - حصّہ دوم



ٹائٹن کا مفصل نقشہ کیسینی کے ہر اڑان کے دوران بنایا جاتا ہے تاہم ریڈار ارض کی تنگ پٹیاں ہی دکھا پاتے ہیں جن کو نوڈلز کہتے ہیں جن کو ملانا ایک سر کا درد ہے۔ یورینس کے تمام مہتاب وائیجر کے سفر کے دوران میں ایک نصف حصّے میں مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے (ملاحظہ کیجئے آٹھواں باب) اور آج تک ان کا مفصل نظارہ ہمیں اسی سے حاصل ہوا ہے۔ پانچ مہتابوں کے نقشے معیار میں ایک دوسرے سے کافی تفاوت رکھتے ہیں، مرنڈا اور ایریل کے سب سے اعلیٰ معیار کے ہیں۔ نیپچون پر جس چاند کو تفصیل سے دیکھا گیا ہے وہ صرف ٹرائیٹن ہے، اور چاند کا صرف 35 فیصد علاقے کی تصویر اس قابل ہے کہ اس سے کوئی کام کا نقشہ بن سکے۔

مثالی طور پر اترنے کے لئے اصلی جگہوں کے لئے کافی جدید تحقیق کی ضرورت ہے۔ جب مثالی اترنے کی جگہوں کی تلاش کی جاتی ہے، تو خلائی اڑان منصوبہ ساز ایسی جگہوں کو تلاش کرتے ہیں جو کافی سارے سائنسی مقاصد کو پورا کر سکیں جبکہ اس کے ساتھ ہی عملے کو بھی اترنے کے لئے محفوظ جگہ فراہم کریں۔ بیرونی مہتابوں پر اترنا کافی حد تک زمین کے چاند پر اپالو کے اترنے جیسا ہی ہوگا، ایک طاقتور اترنے والا راکٹ انجن خالی جگہ میں استعمال کیا جائے گا۔

مشتری کے گلیلائی سیارچوں پر اترتے وقت ایک اور چیز کو مد نظر رکھنا ہوگا – تابکاری۔ " وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں آپ کو تابکاری نہ ملے،" ایمز ریسرچ سینٹر کے جیف مور کہتے ہیں۔ " سوال صرف یہ ہے کہ کس جگہ آپ کو کم تابکاری ملے گی۔"

سب سے بری صورتحال تو مشتری کے مہلک مقناطیسی کرۂ میں دفن آئی او پر ہوگی۔ "آئی او میں ایسا بلند درجہ کا تابکاری والا ماحول ہے کہ وہ نظام شمسی میں سب سے نامہربان جگہ بن جاتی ہے۔ ماہر برکانیات دان (آتِش فشاں پہاڑوں کی ماہیت کے عالِم) روزلے لوپس کہتے ہیں۔ پیزا کی شکل کے مہتاب پر اترنا کسی کی بھی صحت کے لئے خطرہ ہے۔ سرگرم آتش فشاں بغیر خبردار کئے پھٹ پڑتے ہیں اور اس قدر متشدد ہوتے ہیں کہ اترنے والے جہاز کو نقصان پہنچا دیں۔ مزید براں ممکنہ طور پر آئی او کی سطح کئی علاقوں میں غیر مستحکم ہوگی کیونکہ وسیع لاوے کے بہاؤ نے وسیع میدانوں کو بہت ہی مہین پرت سے ڈھانک لیا ہوگا جو خلائی جہاز کا وزن نہیں سنبھال سکے گی اور ٹوٹ کر نیچے پگھلے ہوئے میگما میں گر جائے گی۔

اس کے باوجود وہاں پر انسانوں کے دورے کے لئے مناسب جگہیں موجود ہوں گے اگرچہ وہاں مسکن تو نہیں بنایا جا سکتا۔ لوپس زیر زمین لاوا کی سرنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، غار جو مشتری کی جھلسا دینے والی تابکاری سے حفاظت مہیا کریں گی۔

آئی او پر تو آپ کو مہلک تابکاری منٹوں میں ہی ختم کر دے گی۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ وہاں پر لاوا کی سرنگیں موجود ہوں گی اس کی وجہ وہاں پر بہنے والے لاوا کی قسم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہاؤ ہوائی کے پاہو ہو جیسے ہوں گے۔ بہرحال وہاں پر کسی جگہ کو بنانے کے لئے یہ واقعی میں ایک مختلف جگہ ہوں گی۔ آپ کو لوگوں کو زیر زمین رکھنا ہوگا اور پھر آپ کو وہاں آکسیجن اور دوسری طرح کی چیزیں بنانا ہوں گی۔ آپ کو اس بات کا بھی اچھی طرح یقین کرنا ہوگا کہ لاوا کی سرنگیں کسی دوسرے آتش فشاں کے پھٹنے سے دوبارہ نہ بھر جائیں، اور اس کا آپ کیسے اندازہ لگائیں گے؟ آئی او پر آتش فشاں کافی لمبے عرصے تک متحرک رہتے ہیں، جہاں تک ہم جانتے ہیں وہ دہائیوں تک پھٹتے رہتے ہیں۔ بھلے وہاں خالی لاوا کی سرنگیں بھی موجود ہوں تو کیا آپ تمام تکلیف اور اخراجات اٹھا کر وہاں کچھ بنائیں گے جب وہاں پر مستقبل میں لاوے کے آنے کا خطرہ موجود ہو؟



خاکہ 10.5گینی میڈ کا ارضیاتی نقشہ


آئی او کے ساتھی ان برفیلے مہتابوں پر بھی لاوا کی سرنگوں کے پائے جانے کا امکان ہے جہاں برفیلے آتش فشاں سرگرم تھے ۔ گینی میڈ، انسیلیڈس ، مرنڈا اور ایریل جیسے تمام جہانوں میں برف کے خالی بہاؤ ، اپنے پیچھے زیر زمین پناہ کے خانے چھوڑ گئے ہیں جو مستقبل کے آباد کاروں کی انتظار میں ہیں۔ یہ قدرتی برف سے بنے ہوئے گھر آج کی پرسکون ارضیاتی ماحول میں کافی مستحکم ہیں۔

آئی کے آتش فشاں مستقبل کے مسافروں کے لئے کوئی بری خبر نہیں ہیں، لوپس کہتے ہیں۔ جہاں بھی حرارت ہوگی وہاں توانائی ہوگی۔ "آپ آتش فشانوں سے ارضی حرارت حاصل کر سکتے ہیں، لیکن یہ ایک مشکل کام ہوگا۔ یہ تو زمین پر بھی کافی مشکل ہے؛ اس کو آپ کسی بھی آتش فشاں سے حاصل نہیں کر سکتے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کو کتنا نیچا سوراخ کرنا ہوگا، لیکن سوچیں کہ آئی او کی پرت کے نیچے میگما کا سمندر موجود ہے۔ یہاں پر حرارت پرت سے نکل رہی ہوگی۔ تاہم سب سے آسان کام تو آتش فشانوں کے دھانے پر کھدائی کرنا ہوگا۔"

خاکہ 10.6 آئی او پر کچھ جگہیں ممکنہ طور پر ہوائی کی ٹھرسٹن لاوے کی سرنگوں جیسی ہیں اور انسانی محققین کو زیر زمین مشتری کی تباہ کن تابکار ماحول سے پناہ گاہ بہم پہنچا سکتی ہیں۔





خاکہ 10.7 تابکاری کی سطح مشتری کے چاند یوروپا کے مختلف حصّوں پر مختلف ہے۔ سب سے زیادہ کم تابکاری شمالی اور جنوبی استوائی کے اہم حصّوں پر ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -4
پہلا نزول - حصّہ سوم



تابکاری کے حوالے سے کم خطرناک چاند یوروپا ہے، آئی او جہانوں کے بادشاہ کے مرکز سے 421,700 کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کرتا ہے، جبکہ یوروپا مشتری کے گرد 676,800 کلومیٹر کے فاصلے سے چکر لگاتا ہے جو لگ بھگ چاند کے زمین کے فاصلے سے دگنا ہے۔ پھر بھی یہ چھوٹا چاند برجیسی مقناطیسی کرۂ کے اندر ہی آتا ہے۔ تابکاری کی سطح 530 آر آئی ایم روزانہ کی ہے جو انسان کو مار دینے والی 40 آر آئی ایم سے کہیں زیادہ ہے۔ جے پی ایل کے رابرٹ پاپالارڈو بیان کرتے ہیں:

زیادہ تر مقناطیسی کرۂ (یوروپا) سے ٹکراتا ہے۔ اس کے کافی اثرات ہوتے ہیں۔ یہ کیمیائی عمل بھی کرتا ہے؛ یہ تکسید بناتا ہے، اور یہ [توڑ کر] سطح کو اگلتا بھی ہے۔ یوروپا کی سطح کافی نوخیز ہے کہ یہاں پر رطوبت زیادہ ٹوٹ پھوٹ خارج نہیں ہوتی۔ حقیقت میں یہی ایک وہ دلیل ہے جو یوروپا کی ارضیات کے نوجوان ہونے کی لئے دی جاتی ہے۔ " یہ کافی زیادہ عمر کی نہیں ہو سکتی، کیونکہ اگر سطح پرانی ہوگی، تو تمام ارضیاتی خدوخال کو ختم ہو جانا چاہئے تھا۔" آپ کو زیادہ ٹوٹ پھوٹ اور تابکاری سے ہونے والی تباہی پیچھے والے نصف حصّے میں ملتی، پھر اس کے بعد یہ عجیب خط سامنے والے نصف کرۂ کے گرد آتا ہے جہاں پر آپ کو استوا کے گرد ایک پٹی ملتی ہے۔

مسافروں کے لئے اس کی کیا اہمیت ہوگی؟ کم تابکاری والے علاقے بلند ارض بلد والے ہوں گے جو پیچھے نصف حصّے کو نظر انداز کر رہے ہوں۔

کھوج کے لئے یوروپا میں اس کا زیر زمین سمندر بھی ایک ترغیب دینے کی جگہ ہے۔ کچھ 96 کلومیٹر کے قریب نمکین کھائی منجمد پرت کے نیچے موجود ہے اور سائنس دان جاننا چاہتے ہیں کہ اس کے نیچے کیا ہے۔ حرارتی یا سوراخ کرنے والے آلات کے ساتھ کھوجیوں کو انٹارکٹکا کی جھیل ووستوک اور دوسری جگہوں کو جانچا گیا ہے، تاہم برف سے نکلتے ہوئے ریڈیائی رابطہ قائم رکھنا ایک مشکل کام ہے بالخصوص اگر برف 20 کلومیٹر موٹی ہو۔ تاہم بالآخر جیت ٹیکنالوجی کی ہی ہوگی اور ایک وقت ایسا آئے گا جب انسان وہاں جا سکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یوروپا کی پرت کہیں سے کم موٹی ہو اور پتلے کنویں جیسے سوراخ کے ذریعہ آب دوز جیسی کوئی چیز وہاں ڈالی جا سکے۔ ہو سکتا ہے کہ انسان بھی دباؤ والے لباس پہن کر اجنبی ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال لیں۔

مہم جو اور محققین کو اسی طرح کی صورتحال زحل کے چاند انسیلیڈس پر بھی ملے گی جہاں زیر سطح سمندر جنوبی قطب کی طرف لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انجنیئروں کو پہلے دباؤ والا گنبد کھڑا کرنا پڑے تاکہ کسی بھی واقعہ میں ابلتے ہوئے پانی کو خلاء میں فرار ہونے سے روکا جا سکے۔ اس کے بعد انہیں ایک برف کی پرت میں سے سرنگ سی بنانا ہوگی۔ جب وقت مناسب ہو، تو وہ اپنی آب دوز کو اس میں اتار کر انتہائی تربیت یافتہ عملے کو اجنبی سمندر کے گہرائی میں اتار سکیں۔

سیارہ –چاند ٹائٹن ایک انتہائی منفرد ماحول اترنے کے منفرد چیلنج کے ساتھ موجود ہے۔ اس کی کثیف اور وسیع کرۂ فضائی کی وجہ سے داخل ہونے کے بعد سطح پر اترنے میں 3گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ مریخ میں ہمارے جانے پہچانے خلائی روبوٹ مثلاً اپرچو نٹی اور کیوریوسٹی نے اترنے میں صرف 7 منٹ کا وقت لیا تھا۔ ٹائٹن پر اترنا کافی آسان ہے۔ جب ہائیگنز کھوجی نے پیراشوٹ کو کھولا تھا، تو وہ بہت ہلکا ہو کر اچھلا تھا ۔ یہاں تک کہ اگر اس کا آخری پیراشوٹ بھی دھوکہ دیتا تو بھی شاید وہ اپنے آپ کو اتنا آہستہ کر لیتا کہ بچ جاتا اس کی سادی وجہ کثیف ہوا اور کم قوّت ثقل ہے۔



خاکہ 10.9دوسرے جہاں میں لاوا کی سرنگوں والے غار تابکاری سے بچاؤ کے لئے پناہ گاہیں مہیا کر سکتے ہیں۔ بائیں سے دائیں: زمین، چاند، مریخ اور آئی او کا امیرانی لاوا کے میدان جن کو غار بنانے والے پاہو ہو کی طرح سمجھا جاتا ہے۔

نظام شمسی کے درمیانی حجم کے مہتابوں پر اترنے میں کم توانائی درکار ہوگی۔ اس حجم کے تمام مہتابوں کی کمیت کم اور قوّت ثقل ہلکی ہے۔ ایندھن کے نقطہ نظر سے وہ دوسری جگہوں کے مقابلے میں آسان ہدف ہوں گے۔ تاہم ان کے عجیب کم کشش ثقل ماحول کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ ان کی سطح پر کس قسم کی صورتحال ہوگی۔ انسیلیڈس کے اچھے معیار کی تصاویر میں چشموں کے گرد روئیں دار سطح دکھائی دیتی ہے جہاں پر باریک برف اترنے میں مسئلہ کر سکتی ہے۔

یہاں تک کہ ضخیم کیلسٹو پر بھی کچھ ڈھلانوں پر سفوف جیسی چیزیں ملتی ہیں جو اترنے کے وقت میں مشکلات پیدا کرے گی (اس مشکل کو چاند پر اترنے والے پائلٹ سے معلوم کریں)۔ مہین مٹی کافی تعداد میں کافی چھوٹے مہتابوں پر جمع ہو گئی ہوگی۔ دوسری طرف کیسینی نے آئیاپیٹس، فیبی، ڈائی اونی اور دوسرے درمیانی حجم کے مہتابوں کی ڈھلانوں پر گول پتھر بھی دیکھے ہیں۔ یورینس کی ایریل کی گھاٹی کی دیواروں پر بھی تودوں کے گرنے کے نشانات کے ثبوت وادی کے فرش پر بہنے والے مادّہ کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ ناہموار میدانی دھول ہو سکتی ہے جس سے اترتے وقت تو بچنا ہی بہتر ہے۔ ٹائیٹینا اور مرنڈا کے اوپر شہابی گڑھوں کے خستہ کنارے اور شگاف مزید چٹانی سطح کا پتا دیتے ہیں (باوجود اس حقیقت کہ یہ چٹانیں منجمد پانی سے بنی ہیں)۔

کچھ سیارچوں کے خاصے علاقہ دوسروں کی نسبت سے زیادہ بند ہیں۔ کیسینی نے زحل کے درمیانی حجم کے کافی مہتابوں پر ایک نمونے کو دریافت کیا ہے - ایک کھونٹے کی طرح کی شکل کے مادّوں کے علاقے استواء کے گرد موجود ہیں جو درجہ حرارت کو اپنی ارد گرد کے مقابلے میں زیادہ دیر سے تبدیل کرتے ہیں۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ زحل کے چاندوں پر پیک مین حرارتی شکل کی وجہ بلند توانائی کے حامل الیکٹران کی بمباری ہے جو چاند کے نصف کرہ کے کم طول بلد والے اس حصّے پر برستے ہیں جو زحل کی طرف اپنا رخ کرکے اس کا چکر کاٹتا ہے۔ الیکٹران کا جھمگٹ سفوف نما سطح کو سخت جڑی ہوئی برف میں بدل دیتا ہے۔ نتیجتاً تبدیل شدہ سطح سورج کی روشنی سے تیزی سے گرم یا رات میں باقی سطح کی نسبت جلدی ٹھنڈی نہیں ہوتی۔ میماس اور تیتھس دونوں میں ایک جیسے نمونے پائے گئے ہیں جو بلند توانائی کے الیکٹران کی برفیلے چاند کی سطح کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کو بیان کرتے ہیں۔ کون سی زمین اترنے کے لئے سب سے بہترین ہوگی اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ انسانی پیمانے پر ہمارے پاس ابھی اتنی تفصیلات موجود نہیں ہیں کہ یہ بتا سکیں کہ درمیانی حجم کے مہتابوں پر اترنے کے کیا خطرات موجود ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -5
خلائی قدرتی وسائل - مختصر دستیابی؟




ہرچند کہ خلا نورد آئی او کی رگڑ کی حرارت اور برجیسی مقناطیسی میدان کو بطور توانائی کے منبع کے استعمال کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور کون سے ذرائع ان کے لئے دستیاب ہوں گے؟ اگر کبھی انسان کسی بھی دور میں دیوہیکل سیاروں کی سلطنت میں قدم رنجا فرمائیں گے تو ان کو لازمی طور پر زمین سے اوپر رہنے کے طریقوں کو تلاش کرنا ہوگا۔

پہلی نظر میں گیسی اور برفیلے جہاں اجاڑ اور حیات سے پاک لگتے ہیں۔ تاہم یہ تاریخ میں پہلی بار ایسا نہیں ہوا ہے کہ کھوجیوں کو اس قسم کی اصلاً وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا قدیمی پولی نیشیائی خانہ بدوشوں کو بھی تھا، جون لومبرگ کہتے ہیں۔ "جہاں تک میں جانتا ہوں بحرالکاہل اور ہوائی وسائل کے حوالے سے کافی غریب جگہیں ہیں۔ یہاں پر کوئی بڑے جانور نہیں ہیں۔ یہاں دھاتیں نہیں ہیں؛ کوئی بھی ایسی چیز یہاں پر نہیں ہے جس کو پگھلایا جا سکے۔ یہ جزیرے خوبصورت ہیں، لیکن یہاں پر کام کرنا انتہائی محدود ہے۔" اصل میں بحری ڈونگی بنانے میں بھی وسائل اور پولی نیشیائی سماج کی تمام مہارت درکار تھی۔ جزیروں پر پھیل کر آباد ہونا ان کے سماج کے ارتقاء کی معراج تھی۔"

اسی طرح سے بیرونی نظام شمسی کے لئے خلائی جہازوں کو بنانا ہوگا۔ ہمارا نقل و حمل اور بالآخر ہمارا بنایا ہوا بنیادی ڈھانچہ ہمارے بہترین انجنیئروں اور سائنس دانوں کے لئے ایک للکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم وہاں پر قابل استعمال وسائل موجود ہیں۔ ان مہتابوں کو اپنے ٹھکانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ، آباد کاروں کے پاس ہی وسائل موجود ہوں گے، پانی سے ہائیڈروجن کو بطور توانائی کے ذرائع کے حاصل کیا جا سکتا ہے جبکہ آکسیجن سانس لینے کے کام میں آئی گی۔ کاربن ڈائی آکسائڈ اشیاء کو بنانے اور ایندھن کے طور پر کام آئے گی۔ بیرونی نظام شمسی کی ماہر ہیدی ہامل کہتی ہیں "بیرونی نظام شمسی میں سورج اس قدر دور ہوگا کہ میں نہیں سمجھتی کہ آپ شمسی توانائی کا استعمال کر سکتے ہیں۔ کس کو خبر ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ ضخیم چیزوں کو سورج کی روشنی جمع کرنے کے لئے خلاء میں بھیج دیں۔ تاہم اس بات کی زیادہ امید ہے کہ آپ ریڈیائی تابکار ہم جاؤں کا استعمال کریں گے - یعنی نیوکلیائی توانائی یا کسی قسم کا اثر دار کیمیائی نظام جو وہاں موجود وسائل کا بروقت استعمال کر سکے۔ وہاں پر اتنی سردی ہے کہ یہ برف تو نرم ہونے والی نہیں ہے۔ برف چٹان جیسی سخت ہوگی۔ آپ اس کو اپنے عمارتی سامان کی جگہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ چناؤ کم ہے، جس چیز کی کمی ہے وہ ہمارے اس چناؤ کے علم کی ہے۔"



خاکہ 10.10 زحل کے چھوٹے مہتابوں کی سطح کو مٹی مختلف طرح سے ڈھکتی ہے لہٰذا یہاں پر اترنے کا ماحول بھی اس کے ساتھ ہی تبدیل ہوگا۔ گہرے مادّے کا بہاؤ دیکھیں جو ان چھوٹے چند مہتابوں کی سطح پر موجود ہے۔ گھڑیال کی طرح سے اوپر سے بائیں: ہیلنی، میتھونی ، کیلپسو ، ایپیمتھیس۔


جیسا کہ آئی او کی ارضی حرارتی توانائی ہے ویسے ہی یوروپا کے گرد ایک مہلک چاندی کی پٹی ہے۔ مشتری کی تابکاری کو بطور توانائی کے ذریعہ کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ یورپین خلائی ایجنسی میں ہونے والی ایک تحقیق جو ڈاکٹر کلاڈیو بومبارڈ ڈیلی ( جو اب میڈرڈ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ہیں ) کی سربراہی میں ہوئی تھی اس میں رسی کے استعمال سے برجیسی مقناطیسی کرہ کے اندر بجلی کی پیداوار کے اوپر کھوج کی گئی۔ اس کا تصور جس میں انہوں نے مدار میں اڑنے والے خلائی جہاز کے لئے توانائی کو حاصل کرنے کا سوچا تھا اس کی بنیاد ایک سادے سے اصول پر رکھی تھی یعنی برقی موٹر یا جنریٹر پر - ایک تار مقناطیسی میدان کے اندر گھومتا ہوا برقی رو کو پیدا کرتا ۔

بومبارڈیلی کی ٹیم نے اندازہ لگایا کہ مشتری کے قطب کے پاس ایک خلائی جہاز چند کلوواٹ کی توانائی دو چھوٹے (تقریباً ٣ کلومیٹر طول) کی رسی سے پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ان رسیوں کی لمبائی ٢٥ کلومیٹر کردی جائے تو توانائی کا حصول میگاواٹ میں پہنچ جائے گا۔ گلیلائی چاندوں پر کسی بھی ٹھکانے کا فاصلہ مشتری سے اس سے کہیں زیادہ ہوگا جو بومبار ڈیلی کی تحقیق میں استعمال ہوا ہے اس میں انہوں نے سب سے قریبی فاصلہ مشتری کے 1.3 نصف قطر کا فرض کیا ہے۔ دور دراز مہتابوں پر توانائی پیدا کرنے کے لئے لمبی رسیوں کی ضرورت ہوگی تاہم ان رسیوں کو چاند کی سطح پر بچھا دیا جائے گا جس طرح سے زیر سمندر میں بچھایا جاتا ہے۔ اس طرح سے مشتری کی ایک سب سے مہلک خاصیت کو مستقبل کے آباد کاروں کے فائدے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دیوہیکل جہانوں کے مہتابوں پر پانی چٹان کی طرح ٹھوس ہوتا ہے۔ اس کا بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جس طرح سے شمالی امریکا کے باشندے برف کو اپنے گھر جن کو اگلو کہتے ہیں بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، اسی طرح سے خلا نورد برف کی اینٹیں بنا کر مختلف عمارتوں کو تعمیر کر سکتے ہیں۔ بیرونی نظام شمسی کے حالات میں برف معماری کے لئے زبردست کام کرے گی۔ صرف ایک انتباہ ہے – اس کو اندرونی حرارت سے بچانا ہوگا۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر اور 21 ڈگری پر دیواریں اور فرش پگھلنا شروع ہو جائے گا۔" آپ کو چیزوں کو ایک دوسرے سے حاجز کا استعمال کرتے ہوئے الگ رکھنا ہوگا،" لاک ہیڈ مارٹن کے بین کلارک کہتے ہیں۔ " ٹائٹن پر جانا صرف اس لئے مشکل ہوگا کہ وہاں کا کرہ فضائی دبیز ہے۔ تاہم ہم زمین پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ شمالی قطب اور انٹارکٹکا میں ٹھنڈ سے بچانے کے لئے عمارت کو ماحول سے الگ کر دیتے ہیں۔" ایک اور طریقہ پھلانے والے ٹھکانوں کے بنانے کا ہے، اے پی ایل کے رالف لورینز کہتے ہیں۔

ٹائٹن پر آپ ایک پھولے ہوئے گنبد میں اچھی طرح رہ سکتے ہیں۔ آپ اس کو نیچے لنگر انداز کرنا چاہیں گے۔ ٹائٹن کی سطح پر ذرّات کو ادھر ادھر کرنے کے لئے کافی ہوا موجود ہوتی ہے، جیسا کہ ریت کے ٹیلوں سے بھی معلوم ہوتا ہے لہٰذا بڑے پھولے ہوئے مسکن کو کھینچنے کے لئے کافی بڑا علاقہ مل سکتا ہے۔ لہٰذا آپ اپنے خیمے کے اطراف میں کھونٹے گاڑھ سکتے ہیں اس طرح سے آپ کے پاس کافی مہین دروازوں والا گنبد بن جائے گا۔ اس کو شہابی ٹکراؤ اور اس طرح کی کسی چیز سے نمٹنا نہیں پڑے گا کیونکہ آپ کے اوپر موجود بڑا کرہ فضائی سطح کو اس طرح کی چیزوں سے محفوظ رکھے گا۔ آپ کو صرف کرنا یہ ہوگا کہ اس کو حاجز کرکے دباؤ والے ماحول کو زمین کو پگھلانے سے روکنا ہوگا۔ ہم یقین سے نہیں جانتے کہ ٹائٹن کی سطح کے زیادہ تر اجزاء کیا ہیں۔ کچھ جگہوں پر شاید یہ پانی کی برف ہو سکتی ہے۔ اکثر جگہوں پر یہ نامیاتی لگتی ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو کمرے کے درجہ حرارت پر نرم بھی ہو سکتی ہیں یا پگھل بھی سکتی ہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنا ٹائٹن کا گنبد حاجز بنانا ہوگا بس صرف آپ کو یہی کام کرنا ہوگا۔

پھولے ہوئے ٹھکانے دوسرے خالی ماحول والے مشتری، زحل ، یورینس اور نیپچون کے مہتابوں پر بھی کام آ سکتے ہیں۔ جانسن اسپیس سینٹر ایک عشرے سے بھی زیادہ کے عرصے سے باضابطہ طور پر چاند کی سطح پر آبادکاری کے بارے میں تحقیق میں لگا ہوا ہے۔ کچھ بہتر حاجز کے ساتھ اس ٹیکنالوجی کا اطلاق براہ راست بیرونی نظام شمسی میں کیا جا سکتا ہے۔

پانی کو چھوڑ کر گلیلائی مہتابوں کی سطح پر دوسرے وسائل بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیلسٹو کے پاس مستقبل کے آباد کاروں کے لئے کافی اہم وسائل ہو سکتے ہیں۔ اس کے تاریک اجزاء شاید حیات کو سہارا دینے والے لازمی اجزاء جیسا کہ نائٹروجن، فاسفورس اور کاربن پر مشتمل ہوں۔ کچھ سلیکان اور عام دھاتیں بھی وہاں موجود ہوں۔ تاہم ان کے الگ ذخیروں کے بجائے وہ ایک دوسرے میں ملے ہوئے ہوں گے۔ گینی میڈ اور یوروپا کی سطح کچھ زیادہ خالص پانی کی لگتی ہے جبکہ چٹانی آئی او پر مسافروں کو گندھک کے مرکبات، لاوے میں قلموں کی صورت میں سیلیکٹ اور نمک مل سکتے ہیں۔

ایک سیارچے میں سب سے زیادہ وسائل لگتے ہیں اور یہ زحل کا دیوہیکل مصاحب ٹائٹن ہے، جے پی ایل کے کیون بائینز کہتے ہیں۔ " آپ کے پاس نہ صرف جھیلوں میں تمام ہائیڈرو کاربن موجود ہیں بلکہ آسمان سے بھی نازل ہوتی ہیں۔ لہٰذا سطح پر آپ کہیں بھی جائیں آپ کو ہائیڈروکاربن ملیں گے۔ اگر آپ ہائیڈروکاربن کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنا چاہئیں تو آپ کو ان جھیلوں پر جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ٹائٹن وہ جگہ ہوگی جہاں آپ اپنا ٹھکانہ بنائیں گے۔ آپ کے پاس موجود پانی کو توڑ کر آکسیجن ، ہائیڈروجن مل جائے گی جبکہ کاربن میتھین وہاں پہلے ہی سے موجود ہے لہٰذا آپ تمام مادّے کا استعمال کرتے ہوئے ایندھن کو بہت آسانی کے ساتھ بنا سکتے ہیں۔" ایک فضائیات کا تجزیہ نگار کہتا ہے، " حیات، پلاسٹک اور صنعتی سماج کی تمام بنیادی چیزیں وہاں پر موجود ہیں۔"[1]


خاکہ 10.11 شمالی قطب کی نولاگویک ہوٹل کی طرح کی عمارت جو کوٹزیبیو ، الاسکا میں ہے اس کو لازمی طور پر زیر زمین مستقلاً منجمد رہنے والی برف سے الگ رہنا پڑتا ہوگا تاکہ اسے پگھلنے سے بچایا جا سکے۔ اسپرنگ جیسے ریڈی ایٹر کو دیکھیں جنھیں بنایا ہی اس لئے گیا ہے تاکہ وہ اضافی حرارت کو نیچے نکلی ہوئی بنیاد سے ہٹا سکیں، جس کو براہ راست فرش سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے نوک کی صورت میں الگ کر دیا ہے۔


[1] ۔رابرٹ زبرین سے ہونے والی ذاتی گفتگو۔​
 
Top