Living Among Giants by Michael Carroll - اردو ترجمہ

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -6
میتھین کا محرک



بیرونی نظام شمسی میں سب سے وافر مقدار میں پائے جانے والے وسائل میں میتھین ہے اور ٹائٹن اس سے لبریز ہے۔ حال ہی میں ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر نے ارماڈیلو ایرو اسپیس کے ساتھ مل کر مورفیس پلانٹری لینڈر کے منصوبے میں شرکت کی ہے۔ عمودی اڑان اور اترنے کے ساتھ خلائی جہاز آکسیجن اور میتھین کے امتزاج کا استعمال کرے گا۔ اس کی فی الوقت سامان کو لے جانے کی صلاحیت 499 کلوگرام ہے۔ اس کی خود مختار اترتے ہوئے خطرات سے بچنے کی ٹیکنالوجی کا نظام خلائی جہاز کو وہ قدرت عطا کرتا ہے جس سے وہ خود سے اترنے کی جگہ کو ڈھونڈ کر خود ہی سے خطرات بشمول عمودی ڈھلانوں اور بڑے پتھروں سے بچاتا ہے۔ یہ نظام لیزر ارتفاع پیما، لیڈار اور ڈوپلر اور صدا پیما کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے۔

فی الوقت جس طرح بنایا گیا ہے اس میں خلائی جہاز خلائی گاڑی یا دھکیل تجربہ گاہ کو چاند کی سطح پر لے جا سکتا ہے ، اڈہ بنا سکتا ہے، اور دھکیلو کو زمین کے مدار میں منتقل کر سکتا ہے اور سیارچوں کی مہم پر بھی جا سکتا ہے۔ ایک ایسا ہی خلائی جہاز ٹائٹن کی سطح پر چلایا جا سکتا ہے۔ قدرتی ذرائع کا استعمال بطور ایندھن کرکے گاڑی کو چلایا جا سکتا ہے۔ سطح کی برف کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں توڑا جا سکتا ہے ، یہاں سے حاصل کردہ آکسیجن کو مائع دھکیل میں ٹائٹن کی میتھینی کرہ فضائی کے ساتھ ملا کر جہاز کے لئے ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔

ٹائٹن وہ واحد مہتاب ہے جس کا کرہ فضائی کسی مادّہ کے ساتھ موجود ہے۔ زمین کی طرح اس کا کرہ بھی زیادہ تر نائٹروجن پر مشتمل ہے۔ سطح پر زندہ رہنے کی انسانی ضروریات کافی سادی ہیں ایک آکسیجن کے ماسک اور ایک اچھے گرم لباس کی ضرورت ہوگی۔ مریخ کے بعد ٹائٹن کو ٹھکانہ بنانا سب سے آسان ہے۔ اترنے اور اڑنے کے لئے کم توانائی کی ضرورت ہوگی اور اس جہاں میں کارآمد مادّہ ہر طرف نسبتاً شفیق ماحول میں موجود ہے۔

تاہم یہ کثیف کرہ فضائی دو دھاری تلوار کی طرح اڑتے وقت سامنے آتی ہے۔ اتنے گہرے، کثیف کرہ فضائی کے ساتھ خلا نوردوں کو لازمی طور پر سست رفتار خلائی جہاز کی ضرورت ہوگی۔ نچلے ماحول میں تیز رفتاری سے اڑان بھرنے میں توانائی کا زیاں ہوگا جبکہ خلائی جہاز کے باہر حرارت سے بھی نمٹنا ایک خطرناک عمل ہوگا۔ کئی منظر نامے زیر بحث ہوئے ہیں۔ ایک تجویز تو غبارے سے خلائی جہاز کو چھوڑنے کی ہے۔ ایک اور میں پرواز کا خاکہ ورجن گیلیکٹک اسپیس شپ اوّل کی طرح کا ہے جس میں ایک جہاز بلند ارتفاع پر اڑے گا اور پھر راکٹ کو مدار میں چھوڑ دے گا۔

ٹائٹن کے ماحول کے دوسرے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ آکسیجن سے بھرے پھولے ہوئے گنبد کے اندر رہائش پذیر انسانوں کو باہر قدرتی طور پر پائے جانے والے دوسرے مادّوں سے جیسا کہ بیوٹین،میتھین اور پروپین سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ یہ آکسیجن کے ساتھ سانس لیتے وقت لوگوں کے لئے کافی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔رالف لورینز کہتے ہیں، "اصولی طور پر، آپ اپنی چھوٹی سی کھرپی کو لے کر باہر سے کچھ مٹی کو کرید کر اپنی میز پر ڈال سکتے ہیں، تاہم وہ آکسیجن کے ماحول میں جلنے کے قابل ہوگی۔ یہی وہ خطرہ ہے جس کا کسی کوئلے کی کان میں بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے پاس برش یا چھوٹی ڈیوڑھیاں ہونی چاہئیں جہاں آپ چیزوں کو جھاڑ سکیں، تاہم کم عرصے کے دوران ان میں سے کوئی بھی چیز زہریلی نہیں ہو سکتی۔" مختصراً اس میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو انسانی تلاش کو روک دے۔


خاکہ 10.12 میتھین کی طاقت سے چلنے والا مورفیس خلائی جہاز جانچ کے مرحلے پر کینیڈی اسپیس سینٹر ، فلوریڈا میں۔



مستقبل کے خلائی وسائل ہیلیئم 3کے گرد گھومیں گے۔ ہیلیئم 3 ہیلیئم عنصر کا ایک ہلکا ہم جا ہے۔ زمین پر صرف تجربہ گاہ ہی میں یہ پایا جاتا ہے ، تاہم یہ ہمارے پڑوسی چاند پر بھی دستیاب ہے، اور بیرونی نظام شمسی کے سیاروں میں تو اس کی بہتات ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہیلیئم 3 مستقبل کی توانائی کی تمام ضرورتوں کو نیوکلیائی گداخت کے ایندھن کی صورت میں پوری کر دے گا۔

اب تک ہماری نیوکلیائی توانائی انشقاق کی صورت میں حاصل ہوئی ہے۔ نیوکلیائی انشقاق میں جوہروں کے مرکزوں کو توڑ کر چھوٹے ذرّات میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور اس عمل کے دوران حیرت انگیز توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ تاہم اس عمل کی ایک ضمنی پیداوار تابکار کچرے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے روس میں چیرنوبیل یا فوکو شیما جاپان میں دیکھا تھا ، انشقاق کا عمل انجنیئروں کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اگر سافٹ ویئر یا ہارڈویئر کی خرابی کی وجہ سے مسئلہ کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے یا قدرتی آفت نیوکلیائی پلانٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو تباہی پھیل سکتی ہے۔

نیوکلیائی انشقاق کو ہمہ وقت بے قابو ہونے سے بچانے کے لئے بند کرنے کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے جبکہ کہ گداخت کا مسئلہ بالکل الٹا ہے۔ اگر اس کو خود پر چھوڑ دیا جائے تو بجائے بے قابو ہونے کے بند ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے گداخت کا عمل کافی محفوظ ہے۔ یہ ہمیں بیرونی سیاروں کے نیوکلیائی قوّت سے چلنے والے خلائی جہازوں کے لئے کافی زیادہ توانائی کی وعید دلاتا ہے۔

انشقاقی عمل کے برخلاف، گداختی عمل جوہروں کے مرکزوں پر ایک ساتھ اس طرح قوّت لگاتا ہے جس سے ان کی قدرتی حدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہ کام کرنے کے لئے مرکزوں کو بہت تیزی سے حرکت میں آنا ہوتا ہے۔ جب نیوکلیائی ایندھن کو حرارت دے کر پلازما میں کروڑ ہا ڈگری درجہ حرارت پر بدلا جاتا ہے تو مرکزے گداخت کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں۔ قدرت میں ایک ہی جگہ ایسی ہے جہاں یہ کام انجام پاتا ہے اور وہ ہے ستاروں کا قلب۔ وہاں پر بلند درجے پر جوہری شوربہ قوّت ثقل کی بدولت ایک ساتھ رکھا ہوا ہوتا ہے۔ تاہم گداختی ری ایکٹر میں ہمیں ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ کس طرح سے بلند درجے حرارت پر چیزوں کو ایک ساتھ رکھیں۔ اب مضبوط مقناطیسی میدانوں کے ساتھ تجربات کئے جا رہے ہیں، تاہم ابھی تک یہ عمل صرف کچھ ہی ملی سیکنڈ تک جاری رہ پاتا ہے۔

سردست گداخت کے عمل کے لئے ڈیوٹیریم کا استعمال کیا جاتا ہے جو ہائیڈروجن کا ایک بھاری ہم جا ہے۔ تاہم ڈیوٹیریم کے ساتھ کام کرنے میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی آدھی توانائی تو مقناطیسی میدان میں رس جاتی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہیلیئم 3 کی افادیت شروع ہوتی ہے۔ جب اس کو ڈیوٹیریم کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو رسنے والی توانائی 50 فیصد کے بجائے 2 فیصد تک کی ہوتی ہے۔ اچھی خبر؟ بیرونی نظام شمسی اس میں ڈوبا ہوا ہے۔ دیوہیکل سیاروں میں سے زحل وہ سب سے آسان جگہ ہے جہاں سے ہیلیئم 3 کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی سطحی قوّت ثقل زمین جتنی ہی ہے، تاہم اس کی محوری گردش کی سمتی رفتار بہت تیز ہے تاہم ہمارے اب تک کہ انجینئرنگ کے علم کے ساتھ اس کے مدار میں جایا جا سکتا ہے (اپنے زبردست ثقلی قوّت کے ساتھ مشتری ہمارے حالیہ قابلیت سے کافی دور کی چیز ہے) ہیلیئم 3 کو حاصل کرنے والے زحل کے اوپری مدار میں اتر کر اپنا قیمتی سامان حاصل کرکے نچلے مدار میں واپس آ سکتے ہیں۔ نیوکلیائی توانائی کرۂ فضائی کو حرارت دے کر جیٹ انجن میں کان کنی کے دوران استعمال کر سکتی ہے۔ ہائیڈروجن کو خلائی جہاز کے کرۂ فضائی کی اڑان کے دوران مائع کی صورت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس ہیلیئم 3 کی مائع کو بعد میں بطور راکٹ کے نیوکلیائی ایندھن کے طور پر استعمال کرکے واپس مدار میں جا کر دوسرے خلائی جہازوں کو توانائی دی جا سکتی ہے۔

اگر گداختی عمل کو جاری رکھا جا سکے تو اس سے صاف توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔ جس میں کوئی ریڈیائی تابکاری نہیں ہوگی بلکہ روشن مستقبل ہوگا! مسئلہ بلاشبہ اس ایندھن کو چاند یا بیرونی سیاروں سے حاصل کرکے زمین پر لانے کا ہے۔

دیوہیکل سیارے کافی دور ہیں۔ ان کا استعمال قریبی مہتاب کے مقابلے میں کیا محرک رکھتا ہے؟ گیسی اور برفیلے دیوہیکل سیاروں کی قوت ثقل نے ہیلیئم 3 کو نظام شمسی کو بننے کے ابتدائی دور میں قید کر لیا تھا۔ چاند کی ہیلیئم 3 زمین کی آبادی کی ضروریات کو ہزار ہا برس تک پوری کر سکتی ہے۔ تاہم ہیلیئم 3 کی دیوہیکل سیاروں میں موجود مقدار ارضی سیاروں کی طلب کو ارب ہا برس تک پورا کر سکتی ہے۔[1] ہیلیئم 3 اس لحاظ سے دلچسپ ہوتی ہے کہ اس کی تمام شکلیں بار دار ہوتی ہیں مطلب یہ کہ اس کا اخراج مقناطیسی میدانوں کا استعمال کرکے کروایا جا سکتا ہے۔ رابرٹ زبرین کہتے ہیں کہ حال فی الحال معلوم طبعی نظام سے "ڈیوٹیریم/ ہیلیئم 3 عظیم راکٹ کے بننے کا امکان فراہم کرتی ہے۔ اصل میں اس سے اخراج کی سمتی رفتار روشنی کی رفتار کا 7 فیصد تک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمل گداخت بالعموم اور ہیلیئم 3 بالخصوص کیوں اتنا دلچسپی کا حامل ہے۔ یہ صرف ایک نئی اضافی توانائی کی قسم نہیں ہے؛ یہ نئی قسم کی توانائی ہے۔"

[1] ۔ ہمارا کونیاتی مستقبل از نیکوس پرنٹزوس ، کیمبرج یونیورسٹی پریس 2000ء۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -7
بیرونی نظام شمسی میں سفر کا انداز



زیادہ تر مہتابوں پر سطح زمینی مہتاب جیسی ہو سکتی ہے اور خالی ماحول کی وجہ سے خلائی جہاز کو اپالو چاند گاڑی کی طرح دباؤ والے کمرے بنا کر کیا جا سکے گا۔ ٹائٹن کی سطح پر سفر کرنے کے لئے تھوڑی الگ گاڑی چاہئے ہوگی، جیسا کہ زمین کے لئے چاہئے ہوتی ہے۔ ٹائٹن کی سطح سے ہم نے صرف ایک ہی جگہ کو ہائی گنز کے اترنے کی جگہ پر دیکھا ہے۔ وہاں پر زمین گول پتھروں کے دریائی فرش کی طرح سخت گیلی مٹی کی طرح لگتی ہے۔ زمین پر اس طرح کے فرش پر چلنے کے لئے کافی گاڑیاں بنائی گئی ہیں۔ شاید میتھین سے گیلی چپکی ہوئی مٹی پر چلنے کے لئے بڑے پہئے یا والی گاڑیوں کی ضرورت ہو گی۔ ٹائٹن کے ریتیلے ٹیلے ارضی عربی یا نمیب مٹی کےٹیلوں کے کافی مشابہ ہیں لہٰذا کچھ لوگ ریگستان میں چلنے والی گاڑیوں کا تصوّر ان عظیم ریگستانوں اور سمندروں کے لئے دیکھ رہے ہیں۔ ٹیلوں پر سفر کرنا ایک واقعی مشکل کام ہوگا کیونکہ یہ ٹیلے پھسلنے والے ہوتے ہیں۔



خاکہ 10.13 خالی ماحول میں کام سرانجام دینے والی خلائی گاڑیوں کے چنے ہوئے نمونہ بننے کے عمل میں ہیں۔ برفیلے مہتابوں پر کام کرنے والی گاڑیاں ان کی کچھ تبدیل شدہ شکل ہو سکتی ہیں۔ بائیں: اپالو چاند گاڑی خلائی ماحول کے لئے کھلی ہوئی ہے اور اپالو 17 نے تو 36 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک حاصل کر لی تھی۔ وسط میں: جدید چھکڑا گاڑی (بائیں) ناسا جانسن اسپیس سینٹر میں زیر تحقیق ہے جس کو دباؤ والے کمرے کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے (دائیں)۔دور دائیں طرف: ایک ای ایس اے کے طالبعلم کا ایک چاند گاڑی کا خیال جو چلنے کے لئے ٹانگوں کا استعمال کرے گی۔


ٹائٹن کا ماحول مستقبل کے مسافروں کے لئے کافی دلچسپ ہوگا، بین کلارک تجویز کرتے ہیں۔" ٹائٹن کی ایک سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ کم قوّت ثقل اور کثیف فضائی کرۂ کے ساتھ ہے غبارے اور ہوائی جہاز وہاں کسی بھی اور معلوم جگہ سے کافی سادے اصولوں پر کام کریں گے۔ بڑے پیمانے پر نقل و حمل کے لئے ٹائٹن ایک زبردست جگہ ہے۔ آپ گرم ہوا کے غبارے استعمال کر سکتے ہیں یہ حرارت ریڈیائی ہم جا کے جنریٹر سے نکلنے والی فالتو ضمنی پیداوار ہوگی، آپ ہلکی گیس کے غبارے استعمال کر سکیں گے یا آپ وہاں پر ہوائی جہاز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ ہوائی جہاز کے ساتھ وہاں اڑ سکتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر بھی اچھے طرح سے کام کریں گے۔ معلق جہازوں کے بارے میں بھی سوچا جا رہا ہے۔ سمندر پر آپ کشتیوں کو تیرتا ہوا تصوّر کر سکتے ہیں۔ معلق جہاز ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں جا سکیں گے۔ بلکہ آپ تو وہاں آب دوز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہاں ایک سمندر کم از کم کلومیٹر 60 میٹر گہرا ہے لہٰذا سمندر کی تہ کی چھان بین کرنے کے لئے کسی قسم کی آب دوز کی ضرورت تو ہوگی۔ آپ کے تصوّر میں آنے والی کوئی بھی گاڑی ٹائٹن پر کارآمد ہوگی۔ وہاں میں کافی زیادہ پرجوش مواقع موجود ہوں گے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - 8
بیرونی نظام شمسی کی سیاحت



ایک مرتبہ ہم دیوہیکل سیاروں کے درمیان موجود ذرائع کا استعمال کرنا سیکھ لیں اور ارضی سیاروں سے بیرونی نظام شمسی جانے کا بنیادی ڈھانچے کا جال بنا لیں تو لوگ سائنس اور کھوج کے علاوہ بھی وہاں جایا کریں گے۔ وہ وہاں تفریح اور وقت گزارنے کی خاطر جایا کریں گے۔ انجنیئر اور آجر ایسی جگہوں پر عارضی ٹھکانے بنائیں گے جو سفر میں آسان اور وسائل سے مالامال ہوں۔ برجیسی نظام میں ایسی جگہیں شاید گینی میڈ اور کیلسٹو میں پائی جاتی ہیں جبکہ زحل پر ٹائٹن کا زرخیز کرۂ فضائی ایک اہم کھلاڑی ہو سکتا ہے۔ ان تینوں امیدوار مہتابوں کے پاس سطحی وسائل موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اتنی مضبوط قوّت ثقل بھی موجود ہے جو ان کے شاندار سیاروی نظام میں آنے اور جانے کے لئے مددگار ثابت ہوگی۔

جے پی ایل کے کیون بائینس مستقبل میں زحل کے نظام کی سیاحت کے بارے میں تصوّر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کیریبین یا یونانی جزیروں کی طرح کی ہوگی۔" یہ ایک عظیم سیاحتی جگہ ہوگی۔ یہ یونانی جزیروں پر سمندری جہاز سے جانے جیسا ہوگا ۔ یونان کا ہر جزیرہ منفرد ہے۔ زحل کے مہتابوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔" بائینس ایک دن کا سفر ٹائٹن کے ماحول سے یا شاید عارضی بنائی جانے والی قیام گاہوں سے شروع کرنے کا سوچتے ہوئے آئیاپیٹس کی تہ و بالا ہوئی سطح تک ، اور پھر وہاں سے میماس اور تیتھس کے متشدد میدانوں تک اور پھر وہاں سے انسیلیڈس کے چشموں تک کا کہتے ہیں۔"آپ کا خلائی جہاز مختلف مہتابوں کے اڈوں پر اترے گا۔ آپ کو حلقوں میں سے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی [اس کی وجہ مداروی میکانیات ہوگی] چھوٹا جہاز اس میں سے گزرنا چاہے گا لہٰذا آپ کو اپنے راکٹ کو چلا کر اس سے دور رکھنا ہوگا۔"

بین کلارک ایسے کسی سیارچے کے سفر کو انتہائی تیز رفتاری والے جہاز کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔" طبعی طور پر وہاں جانے کے لئے کافی زیادہ دھکیل کی ضرورت ہوگی۔ وہ تمام کے تمام استوائی میدان میں ہیں ، تاہم آپ کو پہلے وہاں جانا اور پھر وہاں سے آنا ہوگا۔ آپ کیسینی کی طرح ایک سے زیادہ مہتابوں کا چکر لگا سکتے ہیں۔ آپ تیزی سے بھی گزر سکتے ہیں تاہم میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کھیل کار کی دوڑ دیکھنے کے شوقین ہیں اور یہ سفر کچھ اسی طرح کا ہوگا۔"

مستقبل کے دیوہیکل سیاروں کے مسافروں کے لئے زحل کے نظام میں جانا اس سے زیادہ عجیب بات نہیں ہوگی جتنی قرون واسطی کے یورپ کے لئے کیریبین جانا ہوتا تھا۔ کچھ مخصوص ٹیکنالوجی جدت کے ساتھ یہ قدرتی طور پر وقوع پذیر ہوگا۔

بلکہ وہاں پر تو دیکھنے لائق کافی زیادہ چیزیں ہوں گی۔ یورینس نظام کے چھوٹے سیارچوں میں تو نظام شمسی میں سب سے زیادہ ارضیاتی سرگرمی دیکھنے کو ملے گی۔ کوہ پیما گھاٹیوں کی دیواروں پر چڑھنے کی مہم جوئی کریں گی جو یورینس کے نیلمی روشن سے منور ہوں گی۔ ایریل سے یورینس آسمان میں دیکھنے میں 32 مہتابوں کے برابر لگے گا۔ 500 میٹر اونچے آتش فشانی بہاؤ جو نیچے وادی کے میدان پر آوارہ گردی کر رہے ہوں گے جہاں مائع پانی کا برفیلا لاوا کافی پرانے دور میں جم گیا ہوگا وہ مسافروں کے لئے کافی کشش کا سبب ہوگا۔ پڑوسی مرنڈا میں تو مزید اور ڈرامائی پہاڑی چوٹی موجود ہے جو لگ بھگ 20 کلومیٹر گہری ہے۔ کودنے کے جوکھم اٹھانے والے شوقین افراد 12 منٹ کی عمودی ڈھلان کی تہ میں گرنے کا مزہ لیں گے جہاں پر اترتے وقت وہ شاید ہوا کے تھیلوں یا راکٹ کا سہارا لیں گے ۔ نیپچون کا لاڈلا مہتاب ٹرائیٹن لاجوردی برفیلے دیو کا شاندار نظارہ پیش کرے گا۔

مشتری یا زحل کے نظام میں موجود بڑے مہتابوں کے برعکس جو استواء کے گرد بڑے پر وقار طریقے سے غیر متغیر نظارے کے ساتھ چکر لگا رہے ہوتے ہیں، ٹرائیٹن کا مدار ایک اوپر نیچے ناہموار سطح پر چلتی ہوئی گاڑی کی طرح ہے۔ اس کا جھکا ہوا راستہ اس کو شمالی قطب کے اوپر لے جانے کے بعد اس کو جھپٹ کر استواء کے نیچے جنوبی قطب کی طرف اور پھر واپس دوبارہ لے جاتا ہے۔ ٹرائیٹن یہ شاندار آسمانی نظارہ ہر چھ دن کے بعد دوبارہ دہراتا ہے۔ ٹرائیٹن کے چڑھتے دن کے ساتھ نیپچون کا نظارہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس تفریح آسمانی نظاروں کے نیچے سب سے اجنبی خلائی زمین موجود ہے جو انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ بے ترتیب کینٹالوپ کی طرح نسیں دار زمین دمکتے ہوئے برفیلے میدان جن کے چہرے پر شہابی تصادموں اور آتش فشانی دہانوں اور برفیلے لاوے نے نقش و نگار بنائے ہوئے ہیں۔ اس سے دور گلابی نائٹروجن کی برف ہے جہاں ٹرائیٹن کے منفرد 8 کلومیٹر اوپر تک جانے والے چشمے موجود ہیں۔ افق کے پاس مسافر دھند کی ایک پرت کو دیکھیں گے تاہم بلاشبہ آسمان گہرے جامنی یا کالے رنگ کا اوپر پس منظر کے ماحول میں نظر آئے گا۔



خاکہ 10.14 مستقبل میں زحل کے نظام کے سفر آج کے تفریحی پانی کے جہاز کے یونانی جزیروں کے سفر کی طرح ہوں گے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - 9
برفیلے دیوہیکل سیاروں کی مہماتی تحقیق



سیاروی سائنس سماج کی دنیا میں مستقبل کے روبوٹک کھوجیوں کو برفیلے جہاں پر ترجیحاً بھیجنا چاہتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت دنیا کی خلائی ایجنسیوں کی دلچسپی ہے۔ تحقیق میں سیارے کے پاس اڑان بھرنے کے علاوہ، کھوجیوں کے ساتھ مدار میں روبوٹ بھیجنا، سادے مداری کھوجیوں کی ایک جماعت کو بھیجنا، اور کیسینی جیسی مہمات کو برفیلے دیوہیکل جہانوں میں بھیجنا شامل ہیں جہاں شاید وہ ٹرائیٹن پر خلائی گاڑی بھی اتاریں گے۔ درج ذیل میں کچھ چنی ہوئی خلائی مہمات کی مختصر تفصیل ہے۔ غور کریں کہ زیادہ تر یورینس سے متعلق ہیں کیونکہ یہ دور دراز پر موجود نیپچون کے مقابلے میں کچھ آسان ہدف ہے۔

· یورینس پاتھ فائنڈر ۔ ای ایس اے کا درمیانی حجم کا مدار میں چکر لگانے والا جہاز 2020ء میں شاید ایک ماحولیاتی کھوجی کے ساتھ بھیجا جائے گا۔ ایسا کوئی کھوجی مخصوص تعدیلہ گیسوں کی بہتات کا معلوم کرے گا، جس سے سائنس دان جان سکیں گے کہ یورینس شروع میں کہاں بنا تھا اور نائس نمونے کے متعلق اندر کی خبر دیں گے۔ اس تجویز نے ای ایس اے کے لمبے چناؤ کے عمل کو پورا کیا تھا تاہم آخر میں اس کو ختم کر دیا گیا تھا۔

· ناسا کے یورینس کی مہم پر ایک ارب امریکی ڈالر لگیں گے۔ یہ ایک بڑے آلات کا سیٹ لگ بھگ 10 کے قریب آلات کا ہوگا جو زحل کے گرد بھیجے جانے والے کیسینی خلائی جہاز کی طرح کے ہی ہوں گے۔ یہ مہم شاید دو دہائیوں تک تو نہیں بھیجی جائے گی۔

· ناسا کا یورینس پر نئی سرحدی جماعت کا مہم بردار پہلے والے سے آدھی قیمت میں مکمل ہوگا۔ خلائی جہاز زیادہ سے زیادہ پانچ آلات کو لے کر جائے گا۔ اس پیمانے کی مہم کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس کو ایک عشرے کے اندر ہی بھیجا جا سکتا ہے۔

· ناسا کی ڈسکوری جماعت کی مہم آدھا ارب ڈالر سے بھی کم خرچے میں مکمل ہوگی تاہم اس میں صرف چند چیزوں پر ہی توجہ رکھی جائے گا اور ایک ہی آلہ لگا ہوگا۔

· شمسی برقی دھکیل مداروی خلائی جہاز/ کھوجی۔ یہ مہم یورینس پر 13 برس میں پہنچے گی اور زمین کی ایک ثقلی غلیل کا اثر لے گی۔ یورینس پر جا کر یہ مداروی خلائی جہاز ایک روایتی راکٹ کا انجن کھولے گا تاکہ اس کے مدار میں آہستہ رفتار کرکے اتر جائے اور وہاں سے ایک کھوجی کو چھوڑے۔ خلائی کھوجی کرۂ فضائی میں 22 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے داخل ہوگا اور کرۂ فضائی کی رگڑ سے رفتار کو آہستہ کر لے گا۔ ایک مرتبہ جب کھوجی کی رفتار آواز کی رفتار سے کم ہو جائے گی تو وہ اپنا پیراشوٹ کھول کر اطلاعات کو 0.1بار دباؤ ( زمین کے سطح سمندر کے ایک بٹا دس حصّے)کے ساتھ ارتفاع سے 5 بار تک ترسیل کرنا شروع کر دے گا۔ اس کا سفر مداروی خلائی جہاز سے ایک گھنٹے بعد ختم ہو جائے گا۔

· نیپچون /ٹرائیٹن/ کائپر پٹی مہم۔ یو ایس کی جماعت چار مہم کی تحقیقات کر رہی تھی ۔(1) نیپچون کی طرف ایک ہی مرتبہ کا چکر لگانا اور اس کے بعد اپنا راستہ کائپر کی پٹی کی طرف کر لینا؛ (2) نیپچون کے قریب میں مدار میں ایک خلائی جہاز کو بھیجنا جس کا سامنا ٹرائیٹن سے نہیں ہوگا؛ (3) ایک برس کی مہم جس کا مقصد ہی ٹرائیٹن کی جانچ کرنا ہو؛ (4) ایک دو برس کی ٹرائیٹن پر کھوج کرنے والی مہم۔

· اوڈینس (ماخذ، متحرک اور نیپچون اور یورینس کا اندرون ) ای ایس اے کے دو جڑواں خلائی جہاز جو یورینس اور نیپچون کا تقابل کریں گے۔ ہر جہاز ایک لمبوترے اپنے بالترتیب سیارے کے اونچے مدار میں بیٹھ جائے گا ۔ ایک برق پارے انجن کو استعمال کرتے ہوئے وہ اندر کی طرف بھی چکر لگا سکیں گے اور سیارچوں کے نظام کی تحقیق کے بعد سیارے سے قریب ہو جائیں گے۔​
 
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پیش لفظ - حصّہ اوّل


1 by Zonnee, on Flickr
خاکہP-1 انسانوں کی بستی بسانے کی اگلی معقول جگہ مریخ ہے۔ لیکن کیا دوسری جگہیں بھی کسی قسم کی امید دلا رہی ہیں؟

بیرونی نظام شمسی مستقبل میں انسانی سفر کے لئے کوئی قابل ذکر جگہ نہیں لگتی چہ جائیکہ کہ وہاں انسانوں کے لئے رہنے کی کوئی بستی بسائی جائے۔ سرد دور اور دور دراز کے گیسی، پتھر اور برف کے جہاں ہمیں مائل کرنے کے بجائے جان چھڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بنی نوع انسان چاند پر جاچکی ہے اور اب اگلے پڑاؤ کے لئے اپنی نظریں مریخ اور سیارچوں کی پٹی پر جمائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا انسانیت کے مستقبل کے منظر نامے میں بیرونی نظام شمسی کوئی کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے؟


اگر انسانیت کو نظام شمسی کی آخری سرحدوں کو کھوجنا اور وہاں جا کر بالآخر رہنا ہے تو ہم ہر چیز تو اپنے ساتھ وہاں نہیں لے جا سکتے۔ فاصلے نہایت عظیم الشان ہیں۔ ایک طرح سے ہمیں اپنی زمین سے دور رہنا ہوگا۔ ایک اور جگہ ایسی ہے جو وہاں سے ہماری نسبت کافی قریب ہے اور اس کے پاس کافی وسائل بھی موجود ہیں یعنی کہ سرخ سیارہ، مریخ۔


مریخ کے بارے میں کافی کچھ جانا جا چکا ہے، ہرچند مریخ زمین سے زہرہ جتنا قریب تو نہیں ہے، لیکن اس کا کرۂ فضائی اتنا شفاف ہے کہ اس کی سطح کو ہم دوربین سے دیکھ سکتے ہیں۔ مریخ نے سب سے پہلے ہمیں اپنے زمینی موسمی جھکاؤ ، دن و رات کی گردش ، قطبین اور اپنے پراسرار گہرے ہچکولے لیتے تاریک علاقوں سے متحیر کیا۔ چوب پرچم اٹھائے ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے مریخی نہروں کو جنون کی حد کر مشہور کر دیا تھا، اس نے مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے اور قیاس کی بنیاد پر مریخ پر موجود حیات کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ مصنفین جیسے کہ ویلز ، بروز اور بریڈ بری نے ان فلکیات دانوں مثلاً لوئل [1] کے کام سے ہی مواد لے کر انیسویں اور بیسویں صدی میں سرخ سیارے سے پیار کی ثقافت کو فروغ دیا۔
Percival-Lowell-Artificial-Canals-on-Mars by Zonnee, on Flickr
ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے قیاس کی بنیاد پر مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے۔

ہمیں ان سائنس دانوں اور لکھاریوں کے ورثے پر چھوڑ دیا گیا۔ ان کے کاموں میں مریخ کو اس وقت کے دور میں بیان کیا گیا ہے جب تک وہاں پر خلائی کھوجی نہیں بھیجے گئے تھے، لیکن مریخی حیات کو کھوجنے کی ہماری خواہش چاہئے وہ خرد بینی شکل میں ہی کیوں نہ موجود ہو اب بھی جاری ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق مریخی حیات کی اس کھوج نے خلائی تحقیقات میں ہماری ترجیحات کو آلودہ کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی ڈیویژنفار پلانٹری سائنسز کی ایک میٹنگ میں ایک محقق نے طنزاً کہا ، "اگر ہم مریخ کو جاننے کا موازنہ گینی میڈ کو جاننے سے کریں ، تو وہ قابل شرم بات ہوگی۔"


اب بھی اگر انسان چاند سے آگے جانے کا جوکھم اٹھانا چاہتا ہے تو سب سے بہتر جگہ وہ ہوگی جہاں ہم زمین کے بغیر بھی رہ سکیں۔ مریخ کے پاس ایسا کرنے کے لئے ذرائع موجود ہیں۔ یہاں پر پانی کے کافی ذخائر موجود ہیں اور اس کی لطیف فضا ٩٥ فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے، ایک ایسا سالمہ جو کاربن اور آکسیجن پر مشتمل ہے۔ پانی کو برق پاشیدگی کے ذریعہ ہائیڈروجن اور کاربن میں توڑا جا سکتا ہے۔ ہائیڈروجن مریخی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ سے تعامل کر سکتی ہے تاکہ میتھین بنائی جا سکے جو ایک موثر خلائی راکٹ کا ایندھن ہو سکتا ہے اور ساتھ میں مزید پانی بھی بنے گا جس کو دوبارہ برق پاشیدگی کے عمل سے گزرا جا سکے گا۔ اس طرح سے حتمی پیداوار میں میتھین اور آکسیجن حاصل ہوں گی۔


Terraforming by Zonnee, on Flickr
مریخ کی ارض سازی ہمارا ایک خواب ہے۔

آکسیجن ایک ایسی گیس ہے جس میں سانس لینا ہر کھوجی کی کوشش ہوگی اور یہ خلائی جہاز کے ایندھن کا بھی اہم حصّہ ہوتی ہے۔ مریخی پانی پینے کے استعمال میں بھی لیا جا سکے گا جو مریخی کاربن ڈائی آکسائڈ کا استعمال کرکے خود سے آکسیجن پیدا کرے گا۔


اہم خلائی کمپنیوں سے لے کر نجی صنعت کے گروپ مختلف قسموں کے انجینئرنگ کی تحقیقات میں مصروف عمل ہیں تاکہ انسان بردار مریخی مہمات اور مریخ میں انسانی بستیوں کو بسانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ان کی پیش بینی کے مطابق خلائی گاڑیوں سے لے کر زیر زمین گھروں تک ہر چیز مریخی مٹی کی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنائی جائے گی۔ ان کے جادوئی آئینے میں مریخ پر قائم مستقبل کے گرین ہاؤسز بانسوں کے درختوں سے لبریز نظر آرہے ہیں جو تیزی سے بڑھتے ہوئے مضبوط عمارتی سامان بنانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کچھ تو جینیاتی طور پر تقلیب کی گئی بکریوں، ٹلاپیا (دریائے نیل میں پائی جانے والی سخت جان مچھلی)، اسٹرابیریز اور پوئی (ہوائی کا ایک کھانا جسے لوف/تارو کی جڑ سے بنایا جاتا ہے) سے زمین سے آنے والے مسافروں کی تواضع کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔


republic_cruiser_by_radojavor-dqqw6n by Zonnee, on Flickr
سائنس دان مریخ کو مستقبل میں درختوں سے لبریز ہونے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔

[1]۔ لوئل نے بونے سیارے پلوٹو کو بھی دریافت کرنے میں مدد کی تھی۔ یورینس اور نیپچون کے مشاہدات کا استعمال کرتے ہوئے ، اس نے اندازہ لگایا کہ نیا سیارہ کہاں ہونا چاہئے اور اس نے اس کی تلاش بھی جاری رکھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ بہرحال یہ بعد میں دریافت ہوا کہ لویل رصدگاہ نے سیارے کی تصاویر کو ١٩١٥ء میں اتار لیا تھا، لویل کی موت سے ایک برس پہلے۔ پلوٹو کو ١٩٣٠ء میں کلائیڈ ٹام بو (Clyde Tombaugh)نے دریافت کیا۔ لوئل کی تحقیقاتی کاوشوں کے اقبال میں سیارے کے نشان میں پرسیول لوئل کے دستخط کے ابتدائی حروف پی ایل شامل کر لئے گئے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

السلام علیکم!
سر جی کیا یہ سب کچھ ایک کتابی صورت میں میسر ہوسکتا ہے میں اپنے بچوں کو اسے پرنٹ نکال کر دے دوں گا ؟
 

زہیر عبّاس

محفلین
والسلام

سر جی کیا یہ سب کچھ ایک کتابی صورت میں میسر ہوسکتا ہے
بس یہ آخری باب چل رہا ہے۔ اس کے میرے خیال میں تین سے چار حصّے رہ گئے ہیں۔ جوں ہی مکمل ہوتا ہے تمام ابواب کو مائیکروسافٹ ورڈ کی فائل میں کمپائل کرکے اپلوڈ کرتا ہوں۔

میں اپنے بچوں کو اسے پرنٹ نکال کر دے دوں گا ؟
جناب بہت خوشی ہوگی کہ میرے علاوہ بھی کوئی اس کتاب کا اردو ترجمہ پڑھے گا۔ :)
 
والسلام


بس یہ آخری باب چل رہا ہے۔ اس کے میرے خیال میں تین سے چار حصّے رہ گئے ہیں۔ جوں ہی مکمل ہوتا ہے تمام ابواب کو مائیکروسافٹ ورڈ کی فائل میں کمپائل کرکے اپلوڈ کرتا ہوں۔


جناب بہت خوشی ہوگی کہ میرے علاوہ بھی کوئی اس کتاب کا اردو ترجمہ پڑھے گا۔ :)

ماشا اللہ۔ سر بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ اسے سافٹ فارم میں اپلوڈ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ بچوں کو سکھانے کے لیے آسان اور دلچسپ کتاب ہے۔ امید ہے اس سے بہت سے لوگ فیض یاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔آمین
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -10
بیرونی نظام شمسی - ایک نیا صحرا

تاریخ کھوج کو استحصال میں بدلنے کی گواہ رہی ہے، اور موخّرالذکر ہمارے ارد گرد کی خوبصورتی کو اکثر برباد کرتی رہی ہے۔ جیسا کہ بیرونی نظام شمسی انسانی سلطنت کا حصّہ بنے گا تو ہم اس کو کس طرح سے دیکھیں گے؟ ہم اس سے کیسے نمٹیں گے؟ ویرانگی کا مطلب مختلف ثقافتوں میں مختلف ہے۔ نئی سرحدوں کا تصوّر ایک ایسی جگہ جو توسیع اور آبادکاری اور فتح کرنے کی ہو، اسی طرح کی جگہ نے قدیمی یورپیوں کو امریکہ میں نقل مکانی کرنے کے لئے ترغیب دی تھی۔ مغربی نقل مکانی کو کئی لوگ بجائے ایک قدرتی جگہ کے دیکھنے کے قدرتی وسائل یا ایک کھیل کے میدان کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے اس سلسلے میں معاندانہ رویہ رکھا ہوا ہے ان کے مطابق انسانوں کا یہ طریقہ قدرتی کام میں مداخلت کرنے جیسا ہے۔ تاہم ویرانے کو آباد کرنا ایک طرح سے جائے پناہ کی تلاش بھی ہے ۔ دماغی اور روحانی فکروں کا احیاء کرنا ، ایک ایسی جگہ جہاں خوبصورتی کی اہمیت اور حقیقی قدر ہے۔

ذہنوں کی تقسیم نئی دنیا میں اس وقت سے واضح ہے جب یورپی تہذیب نے اپنے قدم مشرق میں جمانے شروع کئے تھے۔ عملی وسائل اور تجارتی راستوں کو حاصل کرنے کے ساتھ ابتدائی مغربی سفر باقاعدگی سے اپنے ساتھ نئی دنیا کے محسوسات اور دریافتوں کے لئے فنکاروں کو بھی لے کر آتے تھے۔ البرٹ بیرسٹاڈٹ اور تھامس موران کی مصوری نے یو ایس کانگریس کو دو پہلے قومی پارک یلو اسٹون اور یوسی مائیٹ میں بنانے میں مدد دی۔ فریڈرک کیتھر ووڈ نے مایا، ازٹیک اور انکان کے کھنڈرات کی دریافت کو درجہ بند کیا جس کو جان لوائیڈ نے ڈھونڈا تھا۔ فریڈرک چرچ نے انٹارکٹکا، جنوبی امریکہ اور دوسرے گردو پیش کی طرف سفر کرکے تاریخ میں موجود کچھ سب سے عمدہ قدرتی سائنس کی منظر کشی کی۔ سماج نے فاتح یا آباد کاروں سے تبدیل ہوتے ہوئے محافظوں کو دیکھا۔



خاکہ 10.15 میسا چوسٹس کے علاقے نارتھیمٹن میں ماؤنٹ ہولیوک سے گرج چمک طوفان کے بعد کے منظر کی تصویر – اوکس بو از تھامس کولی، 1836ء۔ چھوٹی چیز کو نیچے بیچ میں دیکھیں اور دور کے ڈھلوان پر موجود واضح کٹاؤ کو دیکھیں۔


شاید برتاؤ میں اس تبدیلی کی سب سے واضح صورت گری انیسویں صدی کے ہڈسن ریور اسکولآف امریکن پینٹنگ سے دیکھی جا سکتی ہے۔ ہڈسن ریور فنکار نے کھوج، دریافت اور نئی جہانوں کی بنیاد کو بیان کیا ہے، یہی تصوّر دیوہیکل جہانوں کے لئے بھی کارگر ہوگا۔ اس کے اراکین اکثر چھوٹی چیزوں کو بیان کرتے ہیں جیسے چراگاہ، مثالی میدان ،پرامن پرسکون قدرتی مناظر۔ ہڈسن مصوری کی تحریک کے وقت زراعت اور آباد کاری کی وجہ سے ہڈسن وادی سے صحرائی بیابانی تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ عمل اس وقت جاری تھا جب مقامی سماج علاقے کی چکا چوند زمین کو دیکھ کر خوش ہونا شروع ہوا تھا۔

انسان ایک نئے وسیع جہاں کی سرحد پر کھڑا تھا۔ کچھ کے خیال میں یہی وقت ہے کہ ہم اس سے نسبت دیتے ہوئے مستقبل کے منصوبے بنائیں۔ "ہم نے کوشش کی ہے کہ دوسرے وسیع بیابان علاقوں کو محفوظ رکھیں جس میں سے کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے، بطور خاص قطبی علاقے اور سمندر۔ خلائی بیابانوں کی حفاظت کرنا ہمارے سامنے کچھ ہی عشروں میں کھڑی ہو جائے گی۔ ہمیں اس وقت اٹھ کھڑا ہونا چاہئے تاکہ ہم اس بارے میں قواعد ضوابط بنا لیں۔ مصنف پال ایف اہلر اور ولیم پی بشپ کہتے ہیں۔[1]


کیا ہم اکیسویں صدی کے انسان اپنے آپ کو قدرت کے فاتحین کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے گرد موجود ماحول صرف انسانیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے؟ (یہ کافی مشکل ہے کہ بیابانی کو ہم قدرت کو فتح کرنے جیسا سوچیں جب وہ مہلک خلاء اور شدید درجہ حرارت کی حامل ہو!) یا ہم اپنے آپ کو قدرت کا ایک لازمی حصّہ سمجھتے ہیں؛ کیا ہم بیابانی کو اپنے لئے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہیں؟ کیا ہم ان دونوں کے درمیان کہیں کھڑے ہیں؟ جیسے ہماری ٹیکنالوجی اس نقطہ کی جانب رو بہ سفر ہیں جہاں ہم بیرونی نظام شمسی میں آباد ہو سکیں، ہمیں اس کی طاقت کا اچھی طرح ادراک ہونا چاہئے۔ پروفیسر رولسٹن سوم کو بابائے ماحولیاتی اصول کہا جاتا ہے، وہ مستقبل کے حوالے سے سیاروی کھوج اور آبادکاری سے متعلق چھ رہنما اصول پیش کرتے ہیں۔[2]


1۔ان قدرتی جگہوں کو نہ چھیڑا جائے اور ان کی قدر کی جائے جن کا باقاعدہ نام رکھا گیا ہے۔ کچھ اس معرفہ راستوں کی نشاندہی، ارضیات وغیرہ کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ (مثال کے طور پر چار کونوں والا علاقہ یا گلیلیو ریجیو )۔ دوسروں کے نام اپنی مرضی سے دیئے گئے ہیں۔ تاہم کچھ بناوٹیں جگہیں اپنی کائناتی شناختی اہمیت کی وجہ سے نام چاہتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان کو بچا کر رکھنا چاہئے، وہ تجویز پیش کرتے ہیں۔

2۔ اجنبی اور شدید جگہوں کو بچا کر اور ان کی قدر کی جائے۔ دوسرے جہاں قدرتی بناوٹوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں جو زمین یا کسی بھی معلوم جہاں میں وجود نہیں رکھ سکتی۔ یہ منفرد جگہیں محفوظ ہونی چاہیں۔ روسلٹن تشریح کرتے ہیں، " جس طرح سے انسان بوقلمونی کی قدر زمین پر کرتے ہیں، اسی طرح سے انسانوں کو بوقلمونی کی قدر نظام شمسی اور تمام طاقتور ثمر آور قدرتی جگہوں کی کرنی چاہئے۔۔۔ بادی النظر میں تخلیقی واقعات قدرتی طور پر نایاب ہیں، اس کی وجہ اس کی حفاظت ہے۔ ایسی جگہوں پر انسان چیزوں کی ہئیت کے بارے میں کافی کچھ جان سکتے ہیں ۔"

3۔ تاریخی اہم جگہوں کی حفاظت اور قدر کریں۔ مثال کے طور پر انسان جب چاند پر واپس جائیں ، مریخ پر گھر بسانا شروع کریں یا زہرہ کے میدانوں کا جوکھم اٹھائیں، تو اپالو ، وائکنگ اور ونیرہ کا ان پر اترنے والی جگہوں کا کیا ہوگا؟[3]۔ کچھ کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اب اس نقطہ پر آ گئی ہے جہاں اپالو کی چاند کی اترنے والی جگہیں پہلے ہی سے خطرے میں ہیں۔ گوگل لونر ایکس پرائز کا اصل کہتا ہے: اس انعام کو جیتنے کے لئے، ایک نجی کمپنی کو لازمی طور پر محفوظ طریقے سے چاند کی سطح پر اترنا ہے، 500 میٹر اوپر نیچے یا چاند کی سطح پر سفر کرنا ہے اور دوسرے چاند سے ویڈیو کو زمین پر بھیجنا ہے۔ بعد میں ناسا اور گوگل کے ذمہ داران نے اعلان کیا کہ" یہ دوڑ ناسا کے بنائے ہوئے قوانین کا پاس کرے گی جو تاریخی اور سائنسی اہمیت کی چاند کی سطح پر جگہوں کی حفاظت سے متعلق ہوگا۔" تاہم یہاں پر ایک اور مسئلہ ہے ناسا کے قواعد ضوابط جو اپالو کے اترنے والی جگہ سے متعلق ہوں گے اس میں امریکی اثر ہوگا۔ ان کی زبان ان جگہوں جیسی ہے جو یو ایس پارک سروس گائیڈ لائن فار امریکن نیشنل پارکس میں استعمال ہوئی ہے۔ اگر ہم اہم تاریخی جگہوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ جگہیں بین الاقوامی طور پر جانی جائیں گی۔


4۔ تخلیقی اور سرگرم جگہوں کی حفاظت اور قدر کریں۔ یوروپا، انسیلیڈس اور مریخ آج سرگرم حیاتیاتی خطے کے لئے امید وار ہیں۔ تاوقتیکہ ہم حیات کی ہئیت کے بارے میں اور ان جگہوں میں اس کے امکان کے بارے میں مزید جانیں ،رولسٹن تجویز پیش کرتے ہیں کہ ان کو انسانوں کی پہنچ سے دور رکھنا چاہئے۔

5۔ جمالیاتی اہمیت کی حامل جگہوں کی حفاظت اور قدر کریں۔ یہ ممکن ہے کہ کافی ساری ساختیں جو ہم نے برفیلے مہتابوں پر دیکھیں ہیں وہ اتنی نازک ہوں کہ انسانی آمدورفت اس کو نقصان پہنچائے یا تباہ ہی کر دے۔

6۔ان انقلاب پذیر اہمیت والی جگہوں کی حفاظت و قدر کی جائے۔ رولسٹن اس کو ایسے کہتے ہیں: " انسانوں کو ایسی جگہوں کو محفوظ رکھنا چاہئے جو بنیادی طور تناظر کو تبدیل کر دے۔ جس طرح سے یہ قرون وسطیٰ کے یورپ کے لئے اچھی چیز تھی کہ تنگ نظری کو اتار کر پھینک دیں، بصیرت سے سائنسی انقلاب رونما کریں ، یہ بھی زمین کے باسیوں کے لئے ایک اچھی چیز ہوگی کہ وہ زمین کی چیزوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔۔۔ وہ جو قدرت کے ساتھ سنجیدگی سے منتشر نہ ہو سکے انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اس کا سامنا نہیں کیا تھا۔"

اگر ہماری راکٹ کو چلانے کی صلاحیت، اور انجنیئر نگ اگلی صدی میں اس تیزی سے ترقی پذیر ہوئی جس طرح سے وہ پچھلی صدی میں ہوئی تھی اور اگر ارضی سیاسی منظر نامے نے اس بات کی اجازت دی تو کھوجی اگلی صدی میں بیرونی نظام شمسی میں موجود ہوں گے۔ اس مقام پر، انسانیت "سنجیدگی کے ساتھ تباہی " کا سامنا اس کی نوعیت کے ساتھ کرے گی جس طرح سے ہم گیسی اور برفیلے جہانوں کا سامنا کریں گے۔ ہینری ڈیوڈ تھوریا کہتے ہیں: " ہمیں خود سری کا شربت درکار ہے ۔۔۔۔۔ اس وقت جب ہم کھوج اور تمام چیزوں کو سیکھنے کے لئے زانوئے تلمذ بچھائے ہوئے ہیں ، ہمیں تمام چیزیں اسرار اور ناقابل کھوج چاہیں، زمین اور سمندر وحشی، قابل سروے اور ہمارے لئے ناقبول فہم ہیں ۔۔۔" تاہم یہ ویرانگی کس طرح ثقافتی اور نفسیاتی طور پر ہم پر اثر انداز ہوگی؟


[1]۔ پال ایف اہلر اور ولیم پی بشپ، " خلاء میں ویرانگی" از Spaceship Earth: Environmental Ethics and the Solar System، مدیر یوجین سی ہارگروو (سیرا کلب بکس، 1986ء)


[2] ۔ " Spaceship Earth: Environmental Ethics and the Solar System" (سیرا کلب بکس، 1986ء )


[3] ۔ اصل میں تاریخی اترنے والی جگہوں پر پہلے ہی جایا جا چکا ہے: اپالو 12 کا عملہ سرویر سوم خلائی گاڑی سے صرف چند قدم پر اترا تھا، جس کو طوفانوں کے سمندر میں 31 ماہ پہلے بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے ٹی وی کیمرا، مٹی کے نمونے، اور کچھ ایلومینیم کی ٹیوب کو واپس زمین پر تجزیہ کرنے کے لئے لے آئے تھے۔ ٹیمیں چاند پر موجود انسانی چیزوں کو ڈھونڈنے کے لئے بھی مقابلے میں حصّہ لے سکتی ہیں۔۔۔" یہ آخری جملہ وہ ہے جو ماہر آثارات اور مورخین کو خبردار کر رہا ہے۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب -11
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں ثقافت اور اختراع


خاکہ 10.16 عمودی پتھر کے ستون یوروپا کی طرز کے۔ کیونکہ یوروپا کے ہم وزن پتھروں کو اس طرح سے کھڑا کیا جا سکتا ہے کہ وہ آسمان میں موجود مشتری کے محل وقوع کی مدد سے وقت کو بتا سکیں۔

تھامس کولی اور فریڈرک چرچ جیسے لوگ ان لوگوں میں موجود ہوں گے جو دیوہیکل جہانوں کو آباد کریں گے۔ جہاں بھی بنی نوع انسان جائے گی ، یہ اپنے اختراعی نشان چاہئے سنگی نقش کی صورت میں ہوں، اہرام کی صورت میں، سنگی ستونوں کی صورت میں یا عمودی کھڑے پتھروں کی صورت میں ثبت کرتی جائے گی۔ بیرونی سیاروں اور ان کے مہتابوں کا ماحول اختراعی کو بیان کرنے کے لئے نئے طریقے پیش کرے جو جبلی طور پر انسان کا حصّہ لگیں گے۔ جے پی ایل کے رابرٹ پاپالارڈو یوروپا کی طرف اشارہ کرکے ایک مثال دیتے ہیں۔

مشتری تو آسمان میں اپنی ایک جگہ پر موجود ہوگا اور آپ اپنے باغ کی کرسی پر بیٹھ کر اس کا تبدیل ہوتا مقام دیکھ رہے ہوں گے۔ یوروپا تھوڑا سا متامل ہے لہٰذا مشتری تھوڑا سا اوپر نیچے ہوگا، اپنے گرد منتقل ہوتا ہوا کیونکہ یوروپا خود سر خم (اس کے مدار) میں کر رہا ہوگا۔ مشتری طلوع اور غروب نہیں ہوتا تاہم وہ حرکت کرتا ہے۔ شاید آپ مشتری کو آسمان میں دیکھ کر دھوپ گھڑی کی طرح یہ بتا سکیں کہ اس وقت کیا بج رہا ہے ۔ اسی دوران آپ مشتری کے ہلالی مراحل بھی آتے جاتے دیکھ سکیں گے۔ رات میں آپ کو افق پر ایک اچھا روشن مشتری دکھائی دے گا۔ دن کے دوران یہ زیادہ تر تاریک ہوگا تاہم آپ اس کے حلقے سورج کی روشنی میں دیکھ سکیں گے۔

شاید ایک دن کافی سارے انسانی فنکار کچھ اس طرح کی چیز بنا سکیں جو رابرٹ پاپالاراڈو کے یوروپا کی شمسی گھڑی کی طرح ہو، ایک عمودی کھڑے پتھروں کا سلسلہ جو افق پر مشتری کے محل وقوع کے لحاظ سے مقامی وقت کا حساب رکھ سکے۔ خلائی ٹوپوں میں موجود جدید کمپیوٹروں کے ساتھ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوگی تاہم یہ حیرت انگیز ضرور ہوگا۔

جون لومبرگ خبردار کرتے ہیں کہ اگر ماضی کسی قسم کا اشارہ ہے تو اس کام کا اندازہ لگانا مشکل ہوگا کہ انسانی اختراع کی کون سی شکل مستقبل میں ظاہر ہوتی ہے۔

اگر آپ نشاۃ ثانیہ میں ہوتے اور یہ تصور کرنے کی کوشش کرتے کہ اکیسویں صدی میں مصوری کیسی ہوگی؛ اگر واقعی آپ حقیقی تخیلاتی ہوتے تو آپ مختلف قسم کی مصوری سوچتے۔ پانی میں حل پذیر رنگ اور تمام مصوری کا سامان جو ہمارے پاس ہے۔ لیکن کیا آپ کمپیوٹر ترسیمات کا سوچ سکتے تھے؟ میں نہیں سمجھتا کہ آپ کا دماغ کبھی بھی اس سمت میں جا سکتا تھا کیونکہ اس دوران کافی زیادہ چھلانگیں لگی تھیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بھی ایسی لوگ موجود ہوں گے جو سویٹر کو بن رہے ہوں گے اور پانی کے رنگوں سے مصوری کر رہے ہوں گے اور ہماری تمام تیکنیک کو بچائے ہوئے ہوں گے۔ تاہم یہ چیزیں اس وقت کے فنکاروں کے لئے بھی ماضی کی یاد دلانے والی ہوں گی۔ فن ایک ایسی چیز ہے جو ٹیکنالوجی کے بدلنے کے ساتھ متروک نہیں ہوتا۔ پرانی ٹیکنالوجی تاریخی دلچسپی بن جاتی ہے تاہم نئی ٹیکنالوجی بہتر کام کرتی ہے۔ جب آپ غاروں میں بنی ہوئی جانوروں کی تصاویر کو دیکھتے ہیں تو آپ ان کو کسی بھی جانور کی کسی بھی مصور کی بنائی ہوئی تصاویر سے ملا سکتے ہیں ۔ پرانے رابطہ اور پرانے باہمی عمل متروک نہیں ہوں گے میں تو ایسا سوچنا پسند کرتا ہوں۔ ہمیشہ ایسے لوگ موجود ہوں گے جو سہ جہتی پرنٹر کے بجائے اپنے ہاتھ مٹی سے سنگوانا چاہیں گے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - آخری حصہ
منتظر دیوہیکل جہاں


زحل کے حلقوں کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کیسینی کی کیرولن پورکو تبصرے کرتی ہیں، " کبھی میں مایوس ہو جاتی ہوں تو میں اس طرح کی تصویر کو دیکھ کر سوچتی ہوں ،'یا اللہ، میں صرف وہاں جانا چاہتی ہوں!'" خلائی کھوج اطلاعات کو وہاں سے بھیجنے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ یہ تحریک دینے والی ہے۔ یہ بھڑکانے والی ہے۔ برفیلے مہتابوں کے ماہر ٹل مین ڈینک اپنے کام میں ایک عمیق مقصد دیکھتے ہیں۔ "میرے مطابق، نظام شمسی کی کھوج ایک ثقافتی کامیابی ہے، اور کوئی بھی کوشش جو "خشک علم کی تلاش" کے لئے کی جا رہی ہوگی اس کو عام آدمی نہ صرف سراہے گا بلکہ ہمارے کام کی گہرائی کو بھی سمجھے گا۔"

کافی لوگ ٹلمین ڈینک کے خیال سے متفق ہیں۔ نئی دنیاؤں کی کھوج کے بارے میں کچھ اہم چیزیں ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے اور لوگوں کی انتہائی قابلیت کو جانچنے کے لئے نظر آتی ہیں ۔ ہزار ہا لوگوں کی قربانی کے بعد بنی نوع انسان دیوہیکل سیاروں میں بطور انسانی نمائندے کے جا سکی ہے۔ بہت سارے لوگوں کے خیال میں خلائی کھوج انسانی عمل کا سب سے مثبت پہلو ہے۔ وہ لوگ جن کے سر نیزے کی انیوں پر موجود ہیں ، وہ لوگ جنہوں نے دیوہیکل سیاروں سے آنکھ سے آنکھ ملانے کی ہمت کی وہ پوری دنیا میں منصوبے بنا رہے ہیں خواب دیکھ رہے ہیں اور سخت محنت کر رہے ہیں۔ بیرونی دیوہیکل سیاروں کی سلطنت میں جانا ایک لمبا سفر ہے تاہم ایک دن حیاتیاتی سائنس ، راکٹ کو دھکیلنے کی ٹیکنالوجی، ہماری سیاروی ارضیات کے علم میں جدت اور لمبے عرصے تک برفیلے جہاں کے ماحول میں ٹھکانہ بنانے کی ٹیکنالوجی کے ساتھ بنی نوع انسان کی آمد بالآخر بیرونی جہاں میں ہو جائے گی۔ ایک نیا جہاں ہمارا منتظر ہے۔


اعداد کی قدیمی کتاب میں ، ایک جگہ لکھا ہے، " اور وہاں ہم نے دیوہیکلوں کو دیکھا، اناک کے بیٹے، جو دیوہیکلوں کے پاس سے آئے تھے اور ہم ان کی نظر اور اپنی نظر میں بھی ٹڈے جیسا ہو گئے تھے ۔" [1]


جب ہم دیوہیکل جہانوں کے سامنے کھڑے ہوں تو ہمیں حلیم و بردبار ہونا چاہئے۔ زبردست طاقت، شاہانہ خوبصورتی، دہلا دینے والے طوفان، غضبناک تابکاری، نفیس قطبی روشنیاں اور مہتابوں کے وسیع نظام کے ساتھ بیرونی دیوہیکل سیارے ان تمام چیزوں کو چھوٹا کر دیتے ہیں جو ہم ارضیاتی سلطنت میں دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں ان سے ہی آگے بڑھنے کی تحریک کھوجنے کی جستجو اپنے ٹیکنالوجی کو بہتر کرنے کی ترغیب اپنا اثر نئے جہانوں میں بطور نوع ڈالنے کا جذبہ ملتا ہے ۔ نتیجتاً ان دیوہیکل سیاروں سے تحریک پانے والی ٹیکنالوجی زمین پر ہمارا معیار زندگی بڑھاتی ہے اور میتھین، ہائیڈروجن اور برف کے بیابان ہماری ثقافت، ہمارے معاشرے، ہمارے فن اور ہمارے طرز فکر کو بتاتے ہیں۔ یہ ہماری حیات کو ثمر آور کرتے ہیں اور یہ ایسا کرنا مزید گہرائی کے ساتھ جاری رکھیں گے - جب ہم ان کے دیس میں رہنے کی مہم جوئی کریں گے۔

[1] اعداد 13:33 بادشاہ جمیز کی مقدس انجیل۔

-------------تمام شد------------
4،133​
 

رانا

محفلین
والسلام


بس یہ آخری باب چل رہا ہے۔ اس کے میرے خیال میں تین سے چار حصّے رہ گئے ہیں۔ جوں ہی مکمل ہوتا ہے تمام ابواب کو مائیکروسافٹ ورڈ کی فائل میں کمپائل کرکے اپلوڈ کرتا ہوں۔


جناب بہت خوشی ہوگی کہ میرے علاوہ بھی کوئی اس کتاب کا اردو ترجمہ پڑھے گا۔ :)
السلام علیکم زہیر بھائی
اب کافی عرصے بعد کچھ فرصت ملی ہے تو آپ کی ساری ترجمہ کردہ کتب پڑھنے کا خیال بھی آیا ہے۔ کیا تمام کتب فائلز کی صورت مہیا ہیں آفلائن پڑھنے کے لئے؟
 

زہیر عبّاس

محفلین
السلام علیکم زہیر بھائی
اب کافی عرصے بعد کچھ فرصت ملی ہے تو آپ کی ساری ترجمہ کردہ کتب پڑھنے کا خیال بھی آیا ہے۔ کیا تمام کتب فائلز کی صورت مہیا ہیں آفلائن پڑھنے کے لئے؟
والسلام رانا بھائی۔
ایک کتاب کی پی ڈی ایف تو بنائی تھی۔ باقی کسی کتاب کی پی ڈی ایف بنانے کا موقع نہیں ملا۔
 

فہد اشرف

محفلین
آخری تدوین:
Top