23 دسمبر، مینار پاکستان ،سیاست نہیں ریاست بچاؤ اور علامہ طاہرالقادری

کرتے کیوں نہیں۔

ویسے القادری کے مطالبات صرف انتخابی عمل کو درست اور اس کو ائین کے مطابق کرنے کے لیے ہیں۔ اس کا مطالبہ کرنے میں کوئی برائی نہیں
مگر الیکشن کو ملتوی کرنی کی کوئی تک نہیں ہے
ایچ اے خان صاحب صرف اتنی سی بات ہے مگر ہم نے پوری شخصیت کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔
میں بھی یہی کہتا ہوں کہ اگر انتخابی اصلاحات جو کہ آئین پاکستان میں درج ہیں ان کو نافذ کیا جائے تو کیا قباحت ہے۔
نیب کے پاس سبھی لوگوں کے کارنامے موجود ہیں جس جس شخص نے کرپشن کی ہے اسے الیکشن سے کک آئوٹ کر دیا جائے اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔
لیکن یہاں تو جعلی ڈگری پر نااہل ہوتے ہیں اور ضمنی انتخابات میں وہی دوبارہ منتخب ہو کر کامیابی کا پنجدہ دکھاتے ہیں تف ایسی سیاست پر جو بے ایمان لوگوں کو اپنا لیڈر بنانے پر مجبور کرتی ہے۔
 

ساجد

محفلین
بحث کے شرکاء باہمی احترام کا پاس کریں اور ایک دوسرے کے لئے جارحانہ الفاظ استعمال نہ کریں ۔ اسی بنا پر کچھ مراسلے حذف کر دئیے گئے ہیں۔
 

متلاشی

محفلین
متلاشی بھیا!

بیرونی ایجنڈا کی ذرا وضاحت ملاحظہ ہو:
1۔انتخابات میں ٹیکس چوروں کو لڑنے کی اجازت نہیں۔
2۔انتخابات میں کسی بھی محکمہ کے نادہندہ کو حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔
3۔کرپٹ لوگوں کو بھی الیکشنوں کی ہوا سے دور رکھا جائے۔
4۔قانون کی بالادستی خلافت راشدہ کے دور کی سی ہو۔
وغیرہ وغیرہ

محترم یہ سب بیرونی ایجنڈا ہے تو اندرونی ایجنڈا شاید کچھ یوں ہو گا:
لٹیروں کو دوبارہ لڑنے دو۔
موجودہ لیڈران جنہوں نے پانچ سال عوام کی خون چوسا دوبارہ ان کے لیے بڑا پائپ لگائو تاکہ ان کی پیاس کی شدت کم ہو۔
جاگیرداروں، سرمایہ داروں کو پھر سے غریب عوام پر مسلط کرو۔
کرپٹ اور ٹیکس چور لوگوں کو دوبارہ اسمبلیوں کی زینت بنائو۔
وغیرہ وغیرہ
قسم اٹھانے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ اب اگر کسی کے دل میں ایمان نام کی کوئی چیز ہے تو اسے قسم پر یقین کر لینا چاہیے اور شاید آپ مذہبی حوالے سے ان اصولوں کے ابھی تک متلاشی ہیں۔
محترم میں بھی کہہ چکا ہوں کہ قادری صاحب نے نعرے اور دعوے تو بظاہر بہت اچھے کئے ہیں ۔۔۔۔! اوران کی قسم کا سن کر اُن پر یقین کرنے کو بھی جی چاہتا ہے ۔۔۔۔مگر کمبخت کیا کریں ان کی ماضی کا کردار فورا نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے ۔۔۔۔ تو پھر زبان پر یہی مصرعہ جاری ہو جاتا ہے
ہے کواکب کچھ نظر آتے ہے کچھ اور


دوسرا محترم!
مذہب کی ڈگڈگی کسی اور تھریڈ میں جا کر بجائیے گا یہاں صرف سیاسی نکتہ نظر پر تبصرہ کیجئے نہ کہ ذات پر۔ اگر اس جملے کی سمجھ نہ آئے تو بتا دیجئے گا مزید وضاحت کیے دوں گا۔
[/QUOTE]

میرے محترم شعبان نظامی صاحب ۔۔۔! الحمد للہ میری اردو دانی بہت اچھی ہے اس لئے میں نہ صرف آپ کا جملے کا مطلب سمجھ گیا ہوں ۔۔بلکہ یہ بھی سمجھ گیا ہوں کہ اس بات کا آپ کو بھی بخوبی ادراک ہے کہ ان کی ذات اور ان کے کردار پر آپ کو بھی تشویش ہے ۔۔۔
محترم میں آپ کی طرح آنکھیں بند کر کے کسی کے خوبصورت نعروں کا یقین نہیں کرتے بلکہ کسی بھی شخص کی باتوں پر یقین کرنے سے پہلے اس کا سابقہ کردار اور اس کا ماضی دیکھتا ہوں۔۔۔! پھر یقین کرتا ہوں ۔۔۔!
 
میرے محترم شعبان نظامی صاحب ۔۔۔ ! الحمد للہ میری اردو دانی بہت اچھی ہے اس لئے میں نہ صرف آپ کا جملے کا مطلب سمجھ گیا ہوں ۔۔بلکہ یہ بھی سمجھ گیا ہوں کہ اس بات کا آپ کو بھی بخوبی ادراک ہے کہ ان کی ذات اور ان کے کردار پر آپ کو بھی تشویش ہے ۔۔۔
محترم میں آپ کی طرح آنکھیں بند کر کے کسی کے خوبصورت نعروں کا یقین نہیں کرتے بلکہ کسی بھی شخص کی باتوں پر یقین کرنے سے پہلے اس کا سابقہ کردار اور اس کا ماضی دیکھتا ہوں۔۔۔ ! پھر یقین کرتا ہوں ۔۔۔ !
محترم دوسروں کا ماضی دیکھئے جھوٹے نعروں پر یقین بھی ہرگز نہ کیجئے۔ گذارش صرف اتنی ہے کہ پرسکون ہو کر گفتگو کیجئے اور مناسب الفاظ استعمال کیجئے۔
 
ایک بات پڑھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی کہ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ”پاکستان کو بچانےاور ملک سے فرسودہ جاگیردارانہ نظا م کے خاتمے کے لیے ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک کے پروگرام میں کوئی فرق نہیں“
بس ان کا بیان یہیں تک ہے آگے تو آپ نے خود سے سبھی کچھ ایڈ کیا!۔​
 

متلاشی

محفلین
محترم دوسروں کا ماضی دیکھئے جھوٹے نعروں پر یقین بھی ہرگز نہ کیجئے۔ گذارش صرف اتنی ہے کہ پرسکون ہو کر گفتگو کیجئے اور مناسب الفاظ استعمال کیجئے۔
نظامی بھائی میں تو بالکل پر سکون ہوں اور رہوں گا بھی ۔۔۔! اور ہاں میں نے ابھی تک کوئی غیر مناسب لفظ استعمال نہیں کیا۔۔۔ !کیونکہ میں ہمیشہ مثبت اور تعمیری تنقید پر یقین رکھتا ہوں ۔۔۔!
 
نظامی بھائی میں تو بالکل پر سکون ہوں اور رہوں گا بھی ۔۔۔ ! اور ہاں میں نے ابھی تک کوئی غیر مناسب لفظ استعمال نہیں کیا۔۔۔ !کیونکہ میں ہمیشہ مثبت اور تعمیری تنقید پر یقین رکھتا ہوں ۔۔۔ !
بہت شکریہ متلاشی صاحب
مثبت اور تعمیری تنقید میں ہی اصلاح چھپی ہوتی ہے۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
ڈاکٹر طاہرالقادری کا 23 دسمبر کا خطاب مکمل نقل کر رہا ہوں جو حضرات ایجنڈا جاننے کے خواہش مند ہیں وہ پڑھ سکتے ہیں اور یہاں اقتباسات بھی دیتا رہوں گا تاکہ یار لوگ کھل کے بحث کر سکیں۔ ادھر اُدھر کے دھاگوں میں بے پر کی اڑانے سے بہتر ہے کہ بنیادی ایجنڈے پر ذرا غوروفکر کر لیا جائے۔ میں نے درج ذیل لنک سے خطاب سن کر لکھا ہے۔ آپ بھی سن لیجیے ! اگر دل چاہے تو !
مجھ سے یہ وڈیو ایمبڈ نہیں ہوئی اگر کوئی مدیر اس سلسلہ میں مدد کر سکے تو مہربانی ہوگی

پورا خطاب چونکہ بے حد طویل ہے اور یہاں گنجائش نظر نہیں آ رہی اس لیے کچھ حصے ہی پوسٹ کروں گا۔ طویل خطاب کو حاصل کرنے کے خواہش مند اس لنک سے آفس فائل لے کر پڑھ سکتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا 23 دسمبر کا خطاب (اردو )
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا 23 دسمبر کا خطاب (انگلش)
نوٹ: یاد رہے کہ یہ خطاب میں نے سن کر لکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ درست نقل کروں۔ کہیں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ اور ابھی اس میں ترمیم کی گنجائش ہے۔
عاطف بٹ
متلاشی
یوسف-2
باباجی
شعبان نظامی
شاکرالقادری
الف نظامی
نایاب
ایچ اے خان
 

حسن نظامی

لائبریرین
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا 23 دسمبر کوخطاب
پاکستان کے غیور ہم وطنو، پاکستان کے اس عظیم معاشرے کے جملہ مشائخ، علماء، تاجر، صنعت کار، زمین دار، کاشت کار، مزدور، محنت کش، کسان، اساتذہ، طلباء، ڈاکٹرز ، انجینئرز ، پروفیشنلز، دانش ور، سیاسی اور سماجی لیڈرز، کارکنان، صحافی حضرات، ملت اسلامیہ اور دیگر غیر اسلامی مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات سیاچن کی چوٹیوں سے لے کر فضاؤں کی بلندیوں تک اور سمندروں کی گہرائیوں تک ارض وطن کی حفاظت کرنے والو، ماؤو، بہنو، بیٹیو، اس دھرتی سےمحبت کرنےو الو، آج استحصالی، ظالمانہ ، جاگیردارانہ، مکارانہ ، سیاست کو مسترد کر کے ریاست بچانے کے لیے مینار پاکستان کے سائے تلےجمع ہونے والو، اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ فوجیو، قوم کو عدل و انصاف دینے والے ججز، قانون دان، سیاست دانو، تمام جماعتوں کے کارکنو اور بلاتفریق و امتیاز آج Millions (ملینز ) کی تعداد میں ریاست بچانے کے عظیم الشان پاکستانی ایجنڈےکو قبول کر کے میری دعوت پہ لبیک کہہ کر آنے والو !
میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آج سے 72 سال قبل مینار پاکستان کے اسی عظیم میدان میں قیام پاکستان کی قرارداد پیش کی گئی تھی۔ 72 سال کے بعد آج اسی مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں تعمیر و تکمیل پاکستان کی قرارداد پیش ہونے والی ہے۔ اس موقع پر چونکہ ہر طبقہ زندگی کے لیڈرز نے نمائندگان نے سیاسی اور سماجی قائدین و کارکنان نے مذہبی رہنماؤں نے، اور خواتین و حضرات نے میری دعوت پر لبیک کہہ کے پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کا فقید المثال اور نادر الوجود اجتماع منعقد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ یہ قوم اٹھارہ کروڑ عوام کا نمائندہ اجتماع یہ میری آنکھوں کے سامنے مینار پاکستان کے سائے کے نیچے چھوٹا پاکستان بیٹھا ہے۔چمن سے کشمیر تک اور کراچی سے افغانستان کی سرحدوں تک ملک کےکونے کونے اور خطے خطے سے آئے ہوئے لاکھوں افراد جن کی تعداد ملینز سے تجاوز کر گئی ہے ایسا اجتماع پاکستان کی دھرتی پر فلک نے نہ کبھی دیکھا تھا نہ دیکھے گا۔
میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں نے اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے اور پاکستان کےعوام نے اور دینی ، سیاسی ، سماجی جماعتوں اور رہنماؤں اور کارکنان نے جس محبت اور شفقت کے ساتھ آج کے اس Event (ایونٹ) اور اجتماع کو اپنا اجتماع جانا ہے۔میں ان سب کے شکریے کے ساتھ صدبار مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ "بطور خاص MQM (ایم کیو ایم) کے قائد محترم الطاف حسین صاحب نے اپنی پارٹی کے تمام لیڈرز ، تمام ایم این ایز ، تمام ایم پی اے رابطہ کمیٹی کے پچاس لیڈرز پر مشتمل پورا وفد اس اجتماع میں شرکت کے لیے بھیجا ہے" میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خوش آمدید کہتا ہوں اور آج وہ پچاس کے پچاس لیڈرز نمائندگی (سٹیج پر چوں کہ زیاد ہ جگہ نہیں ) ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں۔ (باقی لیڈرز مہمانان گرامی کے ساتھ بیٹھے ہیں) اس ملک سے جس جاگیردارانہ ، سرمایہ دارانہ، کرپٹ اور استحصالی نظا م کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی آج جس تحریک کا آغاز ہو رہا ہے ۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے بھی میری آواز میں برابر آواز ملائی۔ اس پاکستان کے محسن بلکہ محسنِ اعظم ڈاکٹر عبدالقدیر خان (انہوں نے خود ٹیلی فون پر مجھ سے بات کی اور بہت بڑا نمائندہ وفد بھیجا ہے میں ان ) کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ (وہ آج کراچی میں کمیٹڈ تھے ایک ملک گیر انجینئرز کے کنونشن کے لیے پہلے سے مگر اب وہ ملاقات کے لیے اگلے دو دنوں میں لاہور میں تشریف لائیں گے میرے ساتھ انشاء اللہ ) الغرض جتنی بھی دینی اور مذہبی اور سیاسی اور سماجی جماعتوں کے قائدین اور ان کے کارکنان نے شرکت کی ہے میں سب کو Well Come (ویلکم) کرتا ہوں ۔ یہ ان سب کا اجتماع ہے یہ صرف تحریک منہاج القرآن کا نہیں پورے پاکستان کا اجتماع ہے، یہ اٹھارہ کروڑ عوام کا اجتماع ہے، یہ ہر مذہب، ہر ملت، ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شخص کا، مردو و عورت کا اجتماع ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ، انٹیلی جنس ایجنسیز کا، پولیس کے تمام شعبہ جات کا، ان کے کمانڈوز کا، ان کی ایلیٹ فورسز کا ، ان کے جملہ سربراہان کا (صمیم قلب سے مبارک باد بھی دیتا ہوں) شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے کا حق ادا کر دیا۔ (اور میری ہزارہا دعائیں ان کے لیے ہیں)
اور میں اس ملک کی جملہ سیاسی جماعتیں، خواہ وہ وفاق میں برسراقتدار ہیں ، (کولیشن کی شکل میں ) یا پنجاب میں برسر اقتدار ہیں۔ ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس عظیم ریاستِ پاکستان کے بچانے کے عظیم تاریخی اجتماع میں کوئی ایسی رکاوٹ پیش نہیں کی جس کے لیے کوئی خاطر خواہ ہم شکایت کر سکیں ۔میں سب کو شکریے کے ساتھ مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اس موقع پر ( حاضرین محترم!) ایک منٹ کے لیے اپنے نعرے اور Clapping [تالیاں] بند کر لیں میں اپنے خطاب کو باقاعدہ شروع کرنے سے قبل۔۔۔ ہمارے وطن کے نہایت ہی محترم لیڈر اور ہمارے مہربان عزیز اور بھائی ، محترم بشیر بلو ر شہید جو کہ خیبر پختون خواہ کے صوبے کے سینئر وزیر تھے۔ وہ اس دہشت گردی کی وجہ سے کل ہی شہید ہوئے اور ابھی ان کی نماز جنازہ ادا ہوئی۔میں ان کے پسماندگان کو تعزیت کر چکا ہوں مگر خطاب شروع کرنے سے قبل۔۔۔۔ ان کو محترم اسفند یار ولی صاحب کو ، اے این پی کی پوری قیادت کو اور پورے خیبر پختونخواہ کو میں اپنے جذبات تعزیت اپنی طرف سے، آپ کی طرف سے بھیجتا ہوں اور خطاب کا آغاز ان کے لیے فاتحہ خوانی سے کرتے ہیں۔ اور اس میں ان سارے شہیدوں کو شریک کرتے ہیں جو پچھلے ۲۳ سالوں میں اس مقدس دھرتی پہ دہشت گردی کی وجہ سے لقمہءِ اجل بن گئے۔(اللہ مرحومین کی بخشش فرمائے اور پورے ملک کو امن و سلامتی عطا فرمائے)

حاضرین محترم !
میں اپنے خطاب کی ابتدا ء تین قسموں کے حلف سے کر رہا ہوں۔ یہ ایک اچھوتا ۔ آج خطاب نہیں ہے آج Narrative (نریٹو) ہے، یہ قرارداد ہے ، ہم پاکستان کو ایک نئے دور میں داخل کرنے جا رہے ہیں (میں نے دیکھا ۔ بہت سے احباب نے کہا، لکھا) ہماری سوسائٹی کی بدقسمتی ہے کہ ہمیشہ کسی بھی بات کو جب سوچتے ہیں تو ابتداء سوچ کی بدگمانی سے کرتے ہیں۔ (کاش!!! ہمارے ہاں Culture (کلچر) مثبت قدروں پر استوار ہو جائے) اگر یہ صورت نہ ہوتی تو مجھے اپنی گفتگو کی ابتداء ان تین حلفوں سے کرنے کی حاجت نہ تھی۔
قائدہ ہے کہ جب آپ اعلی عدلیہ میں کوئی Statement (سٹیٹمنٹ) دیتے ہیں۔ تو اپنی شہادت حلف کے ساتھ دیتے ہیں۔ قرآنی حلف کے ساتھ۔ میں ایک National Statement (نیشنل سٹیٹمنٹ) دے رہا ہوں اور اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ اجتماع کی عدالت قائم ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ قائم ہے۔جس میں بڑے فیصلے ہوں گے۔ملک کے مستقبل کو سنوارنے ، اس کی تقدیر کو بدلنے، غریبوں کے چہروں پر خوشیاں لوٹانے اور تاریکی کو روشنی میں بدلنے کے لیےبڑے فیصلے ہوں گے۔
اس لیے اس سٹیٹمنٹ سے قبل میں چاہتا ہوں کہ غلط فہمیاں، بد گمانیاں ختم ہو جائیں۔ اس کے بعد لوگ میرے ایجنڈے کو ، میرے منشور کو ، میری بات کو سنیں، اتفاق کریں یا اختلاف، وہ میرٹ پہ کریں، دلیل کے ساتھ کریں۔ مگر نیت میں شک و شبہ نہ رہے۔
پہلا حلف تو یہ کہ :
23 دسمبر کا ، آج کا اجتماع، جس میں آپ شریک ہیں اور میں نے جس اجتماع کا اعلان کیا اور میں خود حاضر ہوا۔
میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر ، اللہ کے حضور قرآن کا حلف دے رہا ہوں اور شفاعت محمدی کا حلف دے رہا ہوں۔(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کہ اس اجتماع کے منعقد کرنے کے پیچھے کوئی ملک دنیا کا ، کوئی ادارہ، کوئی اندرونی اور بیرونی ایجنسی نہ کسی کا کہنا ہے ، نہ کسی کی خواہش ہے، نہ کسی کا ارادہ ہے، نہ کسی کو خبر۔ اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر ، میں خود کو یوں سمجھیں ، جیسے تاجدار گنبدِ خضرا کی بارگاہ میں غلام کے طور پر کھڑا قسم کھا رہا ہوں۔اور میرا آج کا پروگرام کسی ملکی ، خارجی اور داخلی ایجنسی کا ایجنڈا نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان کلمہ گو ہے اس کے لیے میرا یہ حلف بحیثیت مسلمان کافی ہے۔
دوسرا حلف:
میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر اس کے حضور اس کی مقدس کتاب قرآن مجید کا حلف دے رہا ہوں کہ اس پورے اجتماع کے لیے جس میں آپ کے کروڑوں روپے لگے ہوں گے۔ ان کے جملہ انتظامات، لوگوں کا بسوں اور ٹرینز پر آنا ، اس پروگرام کی دنیا بھر میں تشہیر، اور دیگر مدات میں کیے گئے جتنے اخراجات بھی ہوئے، ان میں دنیا کے کسی ملک کا ، کسی ادارے کا، کسی بیرونی یا اندرونی ایجنسی کا یا کسی کے نمائندے کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی بھی شکل میں ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ یہ مالی قربانی، تمام انتظامات کی سو فیصد، تحریک منہاج القرآن کے کارکنان نے دی ہے اور ان کے ساتھ پاکستان کے عوام ، تاجر، علماء ، عامۃ الناس، جو اس ملک کی تقدیر کو بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں انہوں نے (حسب توفیق ان کارکنان کے ساتھ) معاونت کی ہے۔ اس کے سوا ۔ روئے زمین کی کسی طاقت کا ایک پیسہ اس سارے انتظام میں شامل نہیں ہے۔ اس پر میرا اللہ گواہ ہے۔
تیسرا حلف
اس اجتماع کی غرض و غایت (اللہ کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں) ہرگز ہرگز آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں ہے، نہ جمہوریت کا خاتمہ ہے (ان ساری بدگمانیوں کو ذہنوں کو نکال دیں) اور مسلمان ہوکر مسلمان بھائی کی بات کو میرٹ پر سنیں، دلیل سے قبول کریں، دلیل سے رد کریں۔اور اس پوری سٹرگل اور آج کے اجتماع اور تحریک کے مقصد میں اللہ رب العزت گواہ ہے نہ اس میں قطعی طور پر کسی فوجی ٹیک اوور کی طرف کوئی ارادہ ہے (اور کسی ملٹری ٹیک اوور کا راستہ ہموار کرنا رب ذوالجلال گواہ ہے ہمارے وہم و گمان میں نہیں اور آرمی نے ٹیک اوور کی کوشش کی تو میں سیاسی لیڈروں سے پہلے اس دھرتی میں اس ٹیک اوور کو روکنے کے لیے آگے بڑھوں گا) اور نہ ہی اس کا مقصد اس ملک میں سیاسی عمل کی بساط کو لپیٹنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد اس ملک کو جمہوریت سے ہٹانا ہے ۔ بلکہ اس اجتماع کا مقصود : سیاست کو غلاظت سےپاک کرنا ہے، سیاست کو اجارہ داریوں سے پاک کرنا ہے، سیاست کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں ، وڈیروں ، اور ظالموں اور جابروں سے، ظلم سے ، استحصال سے اور جبر کے نظام سے ؛ پاک کرنا ہے، سیاست میں اٹھارہ کروڑ عوام کو ان کا حق دلانا ہے، نظام انتخاب اور نظام سیاست کی درستگی ہے، اس ملک سے سیاسی اور معاشی استحصال کا خاتمہ ہے اور ریاست پاکستان جن خطرات میں گھری ہوئی ہے اسے ان خطرات سے نکال کر ، گرداب سے نکال کر ، محفوظ و مامون کرنا اور اس کو بچانا ہے ۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
آؤ ملینز کی تعداد میں اس ارض مقدس کے فرزندو، بھائیو اور بیٹیو! اب میرے ساتھ مل کر تم بھی ایک حلف اٹھاؤ!
آؤ ! ہم سب حلف اٹھائیں۔ دایاں ہاتھ اونچا کر کے۔ کہ
ہم سب اس ملک پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں، ہم قومی سلامتی کا حلف اٹھاتے ہیں، ہم بلا رنگ و نسل فرقہ واریت کے خاتمے کا حلف اٹھاتے ہیں، ہم اس بات کا حلف اٹھاتے ہیں کہ پاکستان سب کے لیے ہے اور پاکستان سب کا ہے، یہ پاکستان ہر غریب کے لیے اتنا ہے جتنا امیر کا ہے، یہ ہر ہاری ، کسان، مزدور، محنت کش کے لیے اتنا ہے جتنا جاگیردار اور سرمایہ دار کا ہے۔
ہم حلف اٹھاتے ہیں کہپاکستان میں امن کا راج ہو، ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ پاکستان میں عدل و انصاف کے دور کا آغاز ہو،ہم حلف اٹھاتے ہیں کہپاکستان میں آئین اور جمہوریت کی اصل حکمرانی ہو،ہم حلف اٹھاتے ہیں کہپاکستان کی سیاست اور معیشت میں شفافیت ہو، ہم حلف اٹھاتے ہیں کہہم ایک ملک اور ایک قوم کی حیثیت سے مل کر پاکستان کو ایک مضبوط ، ناقابل شکست وحدت بنا دیں گے اور انتہا ء پسندی کو چھوڑ کر دلیل اور برداشت کا کلچر قائم کریں گے۔ہم اصولوں کی سیاست کریں گے ، لوٹ کھسوٹ کی نہیں اور ایک ایسی مثبت جدوجہد کریں گے جس کے ذریعے پاکستان اقوام عالم میں سر بلند ہو سکے۔اگلی بات! میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آج کا اجتماع جسے ایم این ایز نہیں لائے، جسے ایم پی ایز نہیں لائے، جسے ایل ڈی اے کے ملازم نہیں لائے، تھانیدار ، پٹواری نہیں لائے، پولیس والے نہیں لائے، سکول کالجز ، یونیورسٹیاں ، بند کر کے بچوں کو نہیں لایا گیا، جس پر سرکار کے، ریاستوں کے، حکومتوں کے ، پیسے خرچ نہیں ہوئے، یہ لوگ اپنے گھروں کے زیور بیچ کر آئے ہیں، اپنے سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑیاں بیچ کر آئے ہیں ۔مجھے علم ہے ( اللہ کی عزت کی قسم ) یہ غریب لوگ ، جن کے پاس کھانے کا لقمہ نہ تھا، انہوں نے بھوک برداشت کی ہے۔ مگر اس وطن سے بھوک کو ختم کرنے کے لیے قربانیاں دے کر آئے ہیں۔ میں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو سلام کرتا ہوں اور ملینز کی تعداد میں آج اتنے بڑے اجتماع نے میرے سوال کا جواب دے دیا کہ ہم نے سیاست کو بچانا ہے یا ریاست کو ؟ آج کا اجتماع بتا چکا ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام ریاست کو بچانا چاہتے ہیں ، لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی کی سیاست کو نہیں بچانا چاہتے۔اب میں اس موقع پر اپنی گفتگو اور اپنا ایجنڈا شروع کرنے سے قبل آپ سے دو باتیں پوچھنا چاہتا ہوں:
کیا آج آپ صرف میرے استقبال کے لیے اور میرا خطاب سننے کے لیے آئےہیں یا اس ملک کے استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے آئے ہیں؟جواب دیں۔۔۔۔۔کیا آپ صرف خطاب سن کے جانا چاہتے ہیں ۔یا اس ملک کےاستحصالی نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔پوری قوم ہاتھ اٹھا کر جواب دے۔ بدلنا چاہتے ہیں؟ سنیے! پھر نظام کا بدلنا ۔ ۔۔۔۔۔(زندہ باد۔۔۔۔) سنیے!
If you want change… If you want change. I am also here to bring the change
سنیں! مقدر بدلنے کے لیے، قوموں کی تقدیر بدلنے کے، ریاستوں اور ملکوں کا مسقتبل اور تاریخ بدلنے کے لیے؛ جدوجہد پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔۔۔اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
ایک بات ذہن میں رکھ لیں کہ یہ میری جدوجہد جس کا آج سے آغاز ہو رہا ہے یہ اول دن سے آخر دن تک پرامن رہے گی۔ ہاتھ اٹھا کر میرے ساتھ عہد کرو! ہم تشدد کو مسترد کرتے ہیں، ہم Violence (والینس) کو مسترد کرتے ہیں، ہم توڑ پھوڑ کو مسترد کرتے ہیں، میں گوارا نہیں کر سکتا کہ میرے وطن کی ایک کھڑکی کا شیشہ بھی پتھر سے ٹوٹ جائے۔۔۔ اس سے بہتر ہے کہ پتھر سے میرا سر پھو ڑ دو۔۔۔۔۔ میرے وطن کا گھر نہ ٹوٹے۔ Violence (والینس) نہیں ہوگا، تشدد نہیں ہوگا، دہشت گردی نہیں ہوگی، گولی نہیں چلے گی، پتھر نہیں چلے گا، پرامن جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلیں گے۔ اگر آپ نظام بدلنا چاہتے ہیں تو مجھے دو سوالوں کا جواب دیں(جل شانہ، ہم چوں کہ پڑھ چکے ، میں پڑھ کے آیا تھا عصر کی نماز، ابھی یہاں پڑھ کے داخل ہوا ہوں، آپ پڑھ چکے، گفتگو جاری رکھتے ہیں ، اجازت ہے شریعت میں، اذانیں بعد میں ہوئیں، کلام ہو رہا ہے)دو سوالوں کا جواب دیں: اگر آپ نظام بدلنا چاہتے ہیں۔ تو جو فیصلہ میں کروں گا ، میرا ساتھ دیں گے۔۔۔۔جو فیصلہ کروں گا میرا ساتھ دیں گے۔بولیے ۔۔۔بیٹھیے۔۔۔۔۔تیزی سے سنتے آئیں۔ تیزی سے جواب دیتے آئیں۔ اگر میں ۔۔۔۔۔ اب سنیں سوچ کر جواب دیں ۔۔۔۔۔۔اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ استحصالی نظام کے بدلنے تک یہ دس پندرہ لاکھ یا بیس لاکھ افراد کا اجتماع ، دو ملین کا جہاں جہاں تک، یہ حضور داتا گنج بخش سے آگے، ضلع کچہری سے آگے، جی ٹی روڈ کی طرف، راوی روڈ سے آگے، اطراف و اکناف میں اوشن کی طرح پھیلا ہوا اجتماع ملینز کا۔ ۔۔۔۔جی ٹی روڈ مرید کے پر اجتماع ختم ہو رہا ہے۔ اجتماع کا اینڈ مریدکے پر ہے۔ ۔۔۔جی ٹی روڈ تک۔پچیس پچیس میل تک اجتماع ہے۔۔۔۔ جہاں تک ساؤنڈ سسٹم جا رہاہے۔۔۔۔پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، اگر میں آپ سے یہ کہوں ، تمام لوگ، نظام بدلنے تک مینار پاکستان بیٹھے رہیں گے اور یہ ساری دھرتی بلاک رہے گی۔ گھر نہیں جائیں گے ۔۔۔ عمل کریں گے۔۔۔( دیکھیے کھڑے ہو کر دیکھیے)۔۔۔۔۔۔ بیٹھیے رہیں گے ۔۔؟بھوک آئے گی، پیاس آئے گی، کھانا پینا بعض اوقات نہیں ملے گا، سردی کی سخت راتیں آئیں گی، بیٹھے رہیں گے ؟ جب تک کہوں؟بیٹھیے ، بیٹھیے ۔۔۔۔۔ اب میرے اگلے سوال کا جواب دیں۔۔۔۔۔ ایک آپشن اور بھی ہے میرے پاس۔۔۔۔۔ایک آپشن ۔(میڈیا والے دے رہے ہیں پوری قوم تک یہ آواز)ایک آپشن میرے پاس اور ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں شکریہ ادا کرتا ہوں پورے پاکستان کے الیکٹرانک ورپرنٹ میڈیا کا اور میں اگر لاکھ بھی شکریہ ادا کروں ۔ اس ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا تو وہ بھی کم ہوگا۔انہوں نے خدا کی قسم آج پاکستان سے وفاداری کا حق ادا کر دیا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا نے ، پرنٹ میڈیا نے ۔ اور اس میری آواز کا ایک ایک لفظ پوری قوم تک سنایا جا رہا ہے اور شرق سے غرب تک پوری دنیا کو سنایا جارہا ہے۔ اللہ برکت دے یہ جمہوریت میں میڈیا کی آزادی کی برکتیں ہیں۔۔۔۔۔اللہ اس کو سلامت رکھے میری سب کے لیے دعائیں ہیں۔اب سوچ کر جواب دینا، میرا دوسرا سوال ۔ ۔۔۔۔۔نظام کو بدلنے کے لیے اگر میں آپ سے یہ کہوں ۔۔۔۔اپنے خطاب کے اینڈ پر۔۔۔۔اگر میں یہ کہوں کہ گھر نہیں جائیں گے ۔۔۔۔اسلام آباد کی طرف مارچ ہوگا اور میں سب سے آگے چلوں گا۔چلو گے !!!پوچھو!! ذرا دیکھیں ، ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔دیکھیں ۔۔ چلو گے ۔۔۔۔ اسلام آباد تک چلو گے ۔۔۔۔ جو لوگ مرید کے سے لے کر گوجرانوالہ، گجرات، دینہ ، راولپنڈی تک کے لوگ سنیں!! انہیں ان ملینز لوگوں کے لیے رستے میں کھانا دینا ہوگا، پانی دینا ہوگا، استقبال کرنے ہوں گے ، مارچ پرامن ہوگا، جاپان سے لے کے امریکہ تک دنیا دیکھے گی، کہ ملین کا مارچ ایک پتھر چلائے بغیر جا رہا ہے۔ ۔۔۔۔چلو گے ۔۔۔۔۔یا۔۔۔ پلٹ کر واپس گھر چلے جائیں گے ۔اچھا ایک ہاتھ نیچے کریں۔ ۔۔۔۔ایک بات بتائیں:جنہوں نے ۔۔۔۔جن کے گھر بچے رہ گئے، مشکلات ہیں، چھٹی تھوڑی ہے، جنہوں نے واپس چلے جانا ہے ان کو اجازت ہے، وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ ۔۔۔۔امام عالی مقام امام حسین نے کہا تھا۔۔۔۔۔ کربلا میں ۔۔۔۔ عاشورہ کی رات ۔۔۔۔چراغ بجھا کر ۔۔۔۔کہاتھا۔۔۔۔۔ چراغ بجھا کر ۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبح معرکہ شروع ہونے والا ہے۔۔۔ جو لوگ جانا چاہتے ہیں۔۔۔ ۔ میں چراغ بجھاتا ہوں وہ چلے جائیں ۔ میں قیامت کے دن اپنے نانا کو شکایت نہیں کروں گا۔جنہوں نے جانا ہے وہ ہاتھ کھڑے کریں ، جنہوں نے گھر واپس جانا ہے۔ وہ ہاتھ کھڑے کریں۔۔۔۔۔جنہوں نے گھر واپس جانا ہے ہاتھ کھڑیں کریں۔ ۔۔۔۔۔اور جنہوں نے اسلام آباد کا مارچ ( اگر میں کہوں اینڈ پر) کرنا ہے وہ ہاتھ اٹھائیں۔ ۔۔۔اب انتظار کریں۔۔۔۔ اب میں اپنا کیس سمجھانا چاہتا ہوں۔اب بیٹھیے ۔۔۔۔۔ کیس سمجھانا چاہتا ہوں اور انتظار کریں کہ گفتگو کے اینڈ پر کیا اعلان ہوتا ہے۔ اب اس اعلان کا انتظار کریں اور اب جو بات اور کیس سمجھانا چاہتا ہوں پوری توجہ کے ساتھ اسے سنیں۔ اور سمجھیں اور اس فیصلے کا اعلان اپنی گفتگو کے اینڈ پر اٹھنے سے پہلے کر دوں گا ۔۔۔ان شاء اللہ۔بہت جلدInitially (انیشلی) اشارہ اس لیے دے دیا کہ پولیس اور Law and Forcing Agencies(لاء اینڈ فورسنگ ایجنسیز) کو اپنے انتظامات۔۔ اگر اسلام آباد تک کرنے ہوں توWell and Time (ویل اینڈ ٹائم) کر دیں ۔ اور میں پولیس کے افسروں کو بھی سیاسی لیڈروں کی قید سے نجات دلانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
میں ہر ایک کی عزت اور غیرت کو بحال کروانا چاہتا ہوں، ہر غریب کے چہرے پر مسرت کا چراغ جلتا دیکھنا چاہتا ہوں، ہر غریب کے منہ میں لقمہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نہیں چاہتا کہ کوئی ماں اپنے بچے کی میت لے کے آئے کہ اسے علاج کے لیے پیسے میسر نہ تھے۔۔۔یہ پاکستان چند ہزار یا چند سو وڈیروں اور لٹیروں کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے نہیں بنایا تھا۔ یہ اٹھارہ کروڑ غریبوں کے لیے بنا تھا۔ ہم ان سے چھین کر پاکستان غریبوں کو دیں گے۔ اس لیے ۔ ۔۔۔۔یہ ایجنڈا اس لیے دے رہا ہوں کہ کسی نے کیا کہا تھا۔
حاکم شہر کی اس بند گلی کےپیچھے
آج ایک شخص کو خون اگلتے دیکھا
تم تو کہتے تھے کہ ہوتے ہیں درندے ظالم
میں نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا

ہم اس معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں اب اس معاشرے کو بدلنا ہوگا۔​
حاضرین محترم !ہم اس ملک میں (اب میرا Narrative سٹیٹمنٹ شروع ہو گیا ہے۔۔۔۔ اب Decision کا انتظار کریں اور گفتگو سنیں)ہم اس ملک میں آئینیت کی اور سیاسی (ستھرے سیاسی عمل) کی اورحقیقی جمہوریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس ملک میں عدلیہ کی آزادی اس کی خود مختاری اور عدالتی انصاف کی قوت اور اس کے آئینی کردار کی حمایت کرتے ہیں۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ عدل و انصاف کے مضبوط اور اعلی اور وسیع نظام کے بغیر ریاست پرامن طریقے سے نہیں چل سکتی اور عوام کو ترقی بھی نہیں مل سکتی۔ جدید جمہوری دور میں عدلیہ کا نہایت اعلی ، مضبوط مستحکم اور آزاد ہونا ریاست کے بچاؤ کے لیے اشد ضروری ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام پاکستان کی عدلیہ کے ساتھ قانون کی حکمرانی اور عدل کی بالادستی کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان کی سلامتی کے لیے ، پاکستان کی بقا کے لیے ، پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے، اس کی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ، کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔پاکستان سے بڑی اس ملک میں کوئی اور شے نہیں ہے۔ اس ملک کی خاطر اس دھرتی کا بچہ بچہ اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہانے کے لیے تیار ہے۔ ہم پاکستان کو اس خطے کا اہم ترین ملک سمجھتے ہیں۔​
ہمیں اپنے نظام کو درست کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے قومی کردار کو مثبت بنا کر مستقبل کی قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بدا منی ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے پاک کرنا ہوگا اور جو لوگ انتہاء پسندی کی راہ پہ غلط فہمی کی وجہ سے چل نکلے ہیں (میں انہیں ایڈریس کر رہا ہوں) جو انتہاء پسندی کی راہ پر چل پڑے اور جنہوں نے گولہ بارود اٹھا لیا۔وہ میری اسی دھرتی کے بیٹے ہیں، ہمارے بھائی ہیں، میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں، کہ اگر اس ملک میں عدل اور انصاف کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں گا، اگر اس ملک میں ناانصافی کے خاتمے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر ا س ملک میں معاشرتی ، قومی، آئینی آزادیوں کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر اس ملک میں حقیقی اسلامی اقدار کی بحالی کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر اس ملک سے ڈرون حملوں کے خاتموں کی بات ہو گی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر غیر ملکی آقاؤں کی غلامی سے نجات پانے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔
مگر! ۔۔۔ نہتے ، معصوم ، بے گناہ انسانوں کی جان بچانے کی بات ہوگی تو تم میرے ساتھ ہوگے، مسجد وں، امام بارگاہوں کی حفاظت کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کو پر امن معاشرہ بنانے کی بات ہو گی تو تم میرا ساتھ دوگے، اس ملک میں خیر ترقی و خوشحالی لانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کے غریبوں کے حقوق دلانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کو غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے اور ان کے زنجیر سے آزادی دلانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو میں تمہارا ساتھ دوں گا۔​
آؤ! ہم مل کر اس دھرتی کو دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے پاک کر دیں اور اس دھرتی کو ڈرون حملوں سے پاک کردیں۔ کہ کوئی طاقت ہمارے ملک کی سرحدوں میں داخلے کی جرأت نہ کر سکے، دنیا کی کوئی طاقت ہماری سرزمین میں مداخلت کا تصور نہ کرے،
یہ ملک بے حساب قدرتی اور افرادی وسائل سے مالا مال ہے۔ مگر اس کی معاشی بربادی کا سبب کرپشن ہے، نااہل لیڈر شپ ہے اور استحصالی کرپٹ الیکٹورل سسٹم ہے، کرپٹ انتخابی اور سیاسی نظام ہے ۔ ۔جسے ہم نے بدلنا ہے۔ اور بدل کر ان شاء اللہ ہم اس ملک کی اکانومی کو معیشت کو Claps (کولیپس) نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک کی Ability (ایبلٹی) اور صلاحیت کو ختم نہیں ہونے دیں گے اور ہم اس ملک کی آزادی کو اپنی ذاتی آزادی سمجھیں گے۔
یہ بھی واضح کردوں بعض لوگوں کو سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے نعرے سے یہ بھی غلط فہمی ہوئی کہ شاید میری جدوجہد سیاست کے خاتمے کے لیے ہے ۔​
نہیں ۔ میں سیاست پرBelieve کرتا ہوں۔ ریاست مدینہ کا قیام سیاست محمدی تھی۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ یہود اور مسلمانوں کو ملا کر مدینہ کا Constitution (کانسٹی ٹیوشن) تیار کرنا سیاست محمدی تھی۔ ۔خلافت راشدہ تاریخ اسلام کا سب سے عظیم سیاست کا دور تھا۔​
میں ہر قسم کی آمریت کے خلاف ہوں، ہر قسم کی بادشاہت کے خلاف ہوں، فوجی ہو یا سیاسی، خاندانی ہو یا انتخابی، ہر غیر جمہوری آمرانہ طرز حکومت کو اسلام کے خلاف سمجھتا ہوں، ہر قسم کی ڈکٹیٹر شپ کو اور اتھاریٹیرینزم کو میں عقیدے کی بنیاد پر مسترد کرتا ہوں۔ میں اول تا آخر صاف ستھرے سیاسی عمل اور حقیقی جمہوریت اور جمہوری نظام کا قائل ہوں اسی کی بحالی کی جنگ لڑ رہا ہوں ۔
مگر جس سیاست کا میں قائل ہوں یہ وہ سیاست ہے کہ جو ان اصولوں پر قائم ہے۔ہم جس سیاست کو اس مقدس سرزمین پاکستان میں رواج دینا چاہتے ہیں وہ سیاست ان اصولوں پر قائم ہے کہ سیدنا صدیق اکبر کا دور خلافت تھا اور سیدنا فاروق اعظم اس دور کے چیف جسٹس تھے۔ ایک صحابی کو ایک غیر آباد زمین کا قطعہ الاٹ کیا گیا اور آقا علیہ السلام کا فرمان تھا۔ وہ مقررہ وقت میں زمین کو آباد نہ کر سکے۔ درخواست دائر کی گئی۔سیدنا فاروق اعظم چیف جسٹس کے کورٹ میں۔ تو سیدنا فاروق اعظم جو چیف جسٹس آف دی سٹیٹ تھے انہوں نے اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا۔ کہ مقررہ ٹائم فریم میں آبادی نہیں ہو سکی۔ (منسوخ کر دیا) وہ صحابی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خلیفہ وقت تھے، خلیفۃ الرسول ، ان کے پاس اپیل لے کر گئے۔ چیف جسٹس کے خلاف ۔خلیفۃ الرسول کے پاس اپیل لے کر گئے۔آپ نے فرمایا:لا اجدد شیئا ردہ عمرجس کیس کو چیف جسٹس نے رد کر دیا ہے خلیفہءِ وقت اس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں اس سیاست کا نظام ملک میں لانا چاہتا ہوں،
یہ سیاست چاہتا ہوں۔عہد فاروقی ہے۔ ایک جنگ کے نتیجے میں مال غنیمت میں چادریں آئیں۔ ہر ایک کو ایک چادر ملی۔ اس سے بڑا جبہ اور قمیص نہیں بن سکتا تھا۔ سیدنا فاروق اعظم نے مال غنیمت کی دو چادروں سے جبہ سلوایا۔ اجتماع میں آئے جیسے پارلیمنٹ کا اجتماع ، صحابہ کا اجتماع، عام صحابی کھڑا ہو گیا۔ اس نے ہیڈ آف دی سٹیٹ کا مواخذہ کیا، محاسبہ کیا، اور کہا کہ ہماری ایک چادر سے لمبا قمیص نہیں سلا آپ کا کس طرح سل گیا؟ سیدنا فاروق اعظم کے دفاع میں ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی چادر بھی اپنے بابا کو دے دی تھی۔۔۔میں اس سیاست پر مبنی۔۔۔ ان سیاسی اصولوں پر ہم پاکستان کے معاشرے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
سیدنا علی المرتضی امیرالمومنین ہیں۔ ان کی زرہ ایک یہودی نے چوری کر لی۔ بحیثیت ہیڈ آف دی سٹیٹ اس کو گرفتار کر کے اپنی زرہ اپنی آرمر واپس نہیں لی۔ عدالت میں گئے۔ قاضی شریح جج تھے۔ انہوں نے ایویڈنس مانگی ۔ ان کے پاس گواہی نہیں تھی۔ یا ایک روایت کے مطابق سیدنا حسن کی گواہی تھی۔ جج نے کہا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں۔ مولا علی شیر خدا کا کیس ریجیکٹ ہوگیا۔ یہودی کے حق میں عدالت نے فیصلہ دے دیا۔ جب یہودی باہر نکلا۔ اس نے کلمہ پڑھ کے اسلام قبول کیا اور کہا کہ میں اسلام کا نظام عدل دیکھنا چاہتا تھا۔ زرہ مولا علی آپ ہی کی ہے۔ لے لیں۔ فرمایا: نہیں۔ جو عدالت نے فیصلہ کر دیا۔ پلٹ کے واپس نہیں لوں گا۔ ۔۔۔میں اس ملک میں ان اصولوں پر مبنی نظام سیاست و حکومت دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ یہ فرق ہے ۔ فقط اتنا فرق ہے۔ اگر ہمارا نظام سیاست اور نظام انتخابات ان اصولوں پر قائم ہو جائے تو یہ سیاست ریاست کو بچا سکتی ہے ۔ ۔۔۔مگر جس لوٹ مار، کرپشن، اجارہ داری ، دھن دھونس اور دھاندلی کا نام ہم نے سیاست رکھ رکھا ہے۔ اس سیاست سے ریاست کو نہیں بچایا جا سکتا۔ ریاست کمزوری کے آخری مقام تک جا پہنچی ہے۔
اور میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں۔۔۔اور پوچھتا ہوں کہ :​
کیا سیاست اس عمل کا نام ہے؟کہ اس ملک کے کروڑوں غریب بھوک، غربت اور افلاس کی آگ میں جلیں ۔ اور ان کے خاتمے کا کوئی ایجنڈا پانچ پانچ سال تک سیاسی حکومتیں پارلیمنٹ میں بیٹھیں مگر ان کی غربت اور افلاس کے خاتمے کا ایجنڈا تیار نہ کرسکیں۔کیا یہ سیاست ہے ؟​
کیا یہ سیاست ہے کہ خود تو سیاسی لیڈر سینکڑوں کنال پر مشتمل گھروں اور محلات میں رہیں اور اربوں کھربوں روپے ان کے ڈیلی محلات کے خرچےہوں اور کروڑوں غریبوں کو اس ملک میں کھانے کے لیے لقمہ نہ ملے۔، تن ڈھانپنے کے لیے لباس نہ ملے، اور سر چھپانے کے لیے گھر نہ ملے۔ کیا اس کا نام سیاست ہے؟ میں اس کو مسترد کرتا ہوں۔ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں کہ جس میں ملک پاکستان کی ترقی و استحکام کا کوئی منصوبہ ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں جس میں ملک کی سالمیت آزادی اور خود مختاری کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ۵ سال تک پارلیمنٹ میں کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں ۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جو پاکستان کا حق ، شاہ رگ کراچی جو امن کا گہوارہ تھا ۔ جہاں ہر روز لاشیں گر رہی ہیں۔ مگر اس شہر کو امن کوئی نہ دے سکے۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم ا س سیاست کو نہیں مانتے جس میں قتل و غارت گری ہو، جس میں اغوا ہو ڈکیتی ہو دہشت گردی ہو اورلوگ خود تاوان دے کر اغوا کاروں سے چھوٹ کر آئیں۔ اور انہیں ملک میں کوئی تحفظ دینے والا نہ ہو۔ ہم اس سیاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جس میں کروڑوں لوگوں کو پانی ، بجلی، اور سوئی گیس کی فراہمی کا بندوبست نہ کیا جا سکے۔ ہم ا س سیاست کو نہیں مانتے۔۔۔ جس میں بھوک کے مارے ہوئے لوگوں کو خود کشیوں اور تن سوزیوں سے روکنے کی گنجاءش نہ ہو۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جس میں لوگ اپنی بیٹیوں کی عزت بیچ کر کھانا حرام کا کھا رہے ہوں۔ یہ سیاست وہ کھیل ہے جو اٹھارہ کروڑ عوام کی غربت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔​
اور میں بھی ایک سیاست کو بچانا چاہتا ہوں اس سیاست کو جو ریاست کو بچاتی ہے۔ اور وہ سیاست قائد اعظم کی سیاست ہے۔جو اتحاد کی سیاست ہے ، جو یقین کی سیاست ہے ، جو تنظیم کی سیاست ہے، جو محبت کی سیاست ہے، جو اخوت کی سیاست ہے، جو وحدت کی سیاست ہے
میں اس سیاست کو بچانا چاہتا ہوں۔ جو ملک سے نفرتوں کو ختم کر دے۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بجائے ملک کو ایک اکائی بنا کر رکھ دے۔ ہمیں ضرورت ہے اس وقت کہ ہم اصل مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
میرا ایجنڈا پاکستان سے انتخابات کو ختم کروانا نہیں ۔ کسی کو یہ مغالطہ ہے تو وہ خدا کے لیے نکال دے ۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔۔۔۔میرا ایجنڈا انتخابات ختم کروانا نہیں انتخابات کو درست کروانا ہے۔ نظام انتخاب میں اصلاح کروانا ہے۔ تاکہ وہ انتخابات اس ملک کو صحیح قیادت دے سکیں۔ وہ انتخابات لانا ہے جس میں پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ پارٹیاں ٹکٹ نہ بیچ سکیں میں ان پارٹیوں کے ہاتھ کاٹنا چاہتا ہوں جو پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ ٹکٹ دیں ۔
میں دیکھوں گا! جب عوام کھڑے ہوں گے۔ تو کون سی پارٹی پانچ دس کروڑ کے ساتھ نمائندوں کو ٹکٹ بیچ کر دیتی ہے؟ یہ قوم ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے گی۔
اس نظام سیاست میں اور نظام انتخاب میں آئینیت اور دستوریت کا فقدان ہو چکا ہے۔ اس کو بحال کرانا چاہتا ہوں۔ کانسٹی ٹیوشنیلٹی نہیں رہی۔ لاء کی انفورسمنٹ نہیں رہی۔ ہم اس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔ اس ملک سے رول آف لاء ختم ہو گیا ہے ہم اس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں کا نفاذ ختم ہو گیا ہے ہم اس کی بحالی آئین کے مطابق کرانا چاہتے ہیں۔ اس ملک کا طرز حکمرانی کرپشن پر مبنی ہو گیا ہے گورنمنٹ مایوس کن حد تک معطل ہے۔ ہم اسے گڈ گورنمنٹس میں بدلنا چاہتے ہیں۔ ہماری معیشت پگھل رہی ہے۔ سٹیٹ آف اکنامک میلٹ ڈاون تک چلی گئی ہے۔ ہم معیشت کو سنبھالا دینا چاہتے ہیں ہر سطح سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا اس ملک میں کوئی تھانیدار اور کانسٹیبل اس ملک کے غریب سے پیسے مانگے۔ میں پولیس کی تنخواہوں کو دو گنا اور چار گنا بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہتا ہوں کہ غریب کا کام رشوت کے بغیر ہوا کرے۔ میں اس ملک کے لاء اینڈ آرڈر کو بحال دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہم نہ صرف خود غیرمحفوظ ہو گئے بلکہ ہم دہشت گردی کے ایکسپوٹر بن گئے۔ دنیا کو ہم سے تھریٹ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ انڈونیشیا کے پالی بمبر ، پالی بمبر وہ بھی پاکستان سے پکڑا جاتا ہے ۔ انتہاء ہے۔ چار دن پہلے پشاور ایئر بیس پر حملہ کرنے والے غیر ملکی نظر آتے ہیں ٹیٹوز بنے ہوئے ہیں۔ اور آپ کیا سمجھتے ہیں جو کھیل کراچی میں کھیلا جا رہا ہے اس میں غیر ملکی ہاتھ نہیں ہیں؟ جو اس ملک کو توڑنا چاہتے ہیں

میرا سوال ہے اس ملک کی سیاسی جماعتوں اور عدالتوں سے اور افواج پاکستان سے اورپارلیمنٹ سے اور میڈیا سے اور اٹھارہ کروڑ عوام سے ۔
اگر حکومتیں منتخب ہو کراپنے ملک کی عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ نہیں دے سکتیں، اگر اپنے ملک کے شہروں کاامن بحال نہیں کر سکتیں، لوگوں کو اغوا ہونے سے نہیں بچا سکتیں۔ انہیں روٹی ، کپڑا ، مکان، علاج، صحت ، تعلیم، روزگار ، مہیا نہیں۔ لاء اینڈ آرڈر مینٹین نہیں کر سکتیں۔ تو یہ حکومتیں اور یہ نظام غیر آئینی بھی ہے، غیر قانونی بھی ہے، غیر اخلاقی بھی ہے۔ ہم ایسے نظام کو ہرگز قبول کرنے کو تیا رنہیں۔
خیبر پختون خواہ وہ خطہ جس کا امن دنیا میں مثالی امن تھا اس کے بالائی سرحدی علاقوں پر حکومت پاکستان کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ کیا جواز ہے آپ کا ، کونسٹی ٹیوشنل اتھارٹی ہے کہ کہو کہ ہماری حکومت آئینی حکومت ہے ۔ بلوچستان کے حالات کو سنبھالنے اور سنوارنے میں حکومت ناکام ہو چکی ہے۔
بیرونی عناصر ۔۔۔۔خود کہہ رہے ہیں ۔ ۔۔ خود کہہ رہے ہیں کہ
بیرونی عناصر خون کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آپ کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
اور ایسا بیرونی عناصر کیوں نہیں آئیں گے۔ جب ریاست اندر سے کمزور ہو جائے تو باہر سے دشمن تو مداخلت کرے گا ہی نا۔ دشمن ہماری حفاظت تونہیں کرے گا۔
ہمیں فارن انٹر فیئرنس کا شکوہ کیا ہے؟ ہم کمزور ہیں تو دشمن آئے گا اگر ہم اندر سے طاقت ور ہیں تو کسی کو مداخلت کی جرأت نہیں۔ ایک وقت تھا پوری امت مسلمہ کی واحد نیوکلیر پاور ہم ہیں۔ اس ناتے ہم دنیائے اسلام کا فخر تھے۔پرائڈ آف دا مسلم ورڈ تھے۔ مگر اب اپنوں پرایوں سب کے ہاں ہم Laughing Stock بن گئے ہیں، ہر جگہ ہم اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں۔ دنیا ہمیں کرپٹ اور فیلنگ سٹیٹ کے طور پر دیکھتی ہے۔ ہماری طرز حکمرانی ناکام ہے ، ہماری سیاست ناکام، معیشت ناکام، ملکی استحکام کمزور، تعلیم پسماندہ ، صحت ناکام، سالمیت خطرے میں ، آزادی خطرے میں ، خود مختاری خطرے میں ، عوام کی اخلاقی سماجی حالت تباہ کن ، نظام کے اندر شفافیت، ٹرانسپیرنسی ختم، میرٹ کا نظام ختم ، کسی غریب کے بچے کو ایم بی اے کر لے یا انجینئرنگ اسے رشوت کے بغیر جاب نہیں ملتا۔ انسانی حقوق ختم، امن و سلامتی ختم، لوگوں کی بنیادی ضروریات ختم، جان مال کی حفاظت ختم، مستقبل ہمارا ختم، علم و ہنر مندی کا مستقبل ختم۔۔۔۔۔مجھے بتائیے ایک شعبہ گن کر جس کا پہلو، قابل تعریف ہو حوصلہ افزا ہو ، روبہ ترقی ہو جس میں روشنی کی کرن نظر آئے، عوام مطمئن ہو ہمارا اپنا ضمیر مطمئن ہو۔ ہم ٹوٹلی ، Collapse ہو رہے ہیں۔ سسٹمCollapse ہو چکا ہے۔

 

حسن نظامی

لائبریرین
اب خطاب کی آخری آخری باتیں اور پھر گیند آپ کے گول میں!
اب میں ان سارے حالات کی روشنی میں کنکلوڈ کر رہا ہوں۔ آخری جملے بڑی دھیان سے سن لیں۔ اب وقت آ رہا ہے میرے اعلان کا۔ہمہ تن گوش ہو جائیں۔ ہمہ تن گوش ہوجائیں۔میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں۔ کہ اگلے انتخابات ۔ سنیے ۔ میرا یہ مطالبہ نہیں ہے۔ کہ الیکشن منسوخ کیے جائیں۔ میرا مطالبہ نہیں ہے کہ ملتوی کیے جائیں۔ مجھے اس سے غرض نہیں۔ مجھے غرض تو آئین پاکستان کے ساتھ ہے۔ بس۔۔۔
میری غرض ہے الیکشن جب بھی ہوں۔ آئین کے مطابق ہوں اور آئین کے دونوں آرٹیکل ہیں۔ آئین کی ساری شرائط پر عمل ہو اور آئین پاکستان کے مطابق نمائندے منتخب کیے جائیں اور آئین پاکستان کے مطابق انتخابی نظام کا ماحول دیا جائے۔ اور آئینے پاکستان کے مطابق ہانسٹ ۔ جسٹ ۔ فری، فیئر اور جینون الیکشنز کی ضمانت مہیا کی جائے۔
مجھے آئین پاکستان سے غرض ہے۔ اس کے تحت سن لیں۔ اگلے انتخابات ۔ اگر نظام انتخاب کو بدلے بغیر اور الیکٹورل نظام کے بغیر اگر اگلے کرا دیئے گئے۔ (آرام سے سن لیں ۔ آخری دو منٹ رہ گئے ہیں) کرا دیئے گئے۔ تو عوام ان غیر آئینی انتخابات کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ انتخابات آئین کے خلاف ہوں گے اگر پھر وہی خائن ، جعلی ڈگریوں والے لوگ، آئین کو پامال کرنے والے لوگ، وہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں ڈالے گئے تو قوم ان الیکشن کو قبول نہیں کرے گی۔قوم ۔۔ فوجی مارشل لاء کے خلاف لڑتی رہی ہے۔ تو قوم سیاسی مارشل لاء کے خلاف بھی لڑے گی۔ ہم چند لوگوں کے انڈر دو پارٹیوں کاآپس کا مک مکا قبول نہیں کریں گے۔ جو بھی کیئر ٹیکر حکومت بنانی ہے وہ دو پارٹیاں بیٹھ کر فیصلہ نہیں کر سکتیں۔ آئین کی بیسویں ترمیم کے مطابق وہ بیٹھیں ۔ ایگریمنٹ کریں۔ مگر آئین یکسر منع نہیں کرتا کہ اور نہ بیٹھیں۔ اس میں پاکستان کی عدلیہ بھی بیٹھے اس میں افواج پاکستان بھی بیٹھیں جنہوں نے عدل فراہم کرنا ہے جنہوں نے امن و امان کی ضمانت فراہم کرنی ہے۔ اور اندر اور باہر پارلیمنٹ کے سارے سٹیک ہولڈر بیٹھیں، اور مل کر ایسے لوگوں کو مقرر کریں جو انتخابات صرف کروائیں ہی نہیں بلکہ پہلے نظام آئین کے مطابق درست کریں۔ اور پھر آئین کے مطابق انتخابات کروائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عوام ایسی سازش کو مسترد کر دے گی اور ایسے الیکشن کو غیر آئینی ڈیکلیئر کیا جائے گا۔ اب سن لیجیے!
میں نے پوری قوم کی آواز میڈیا کو بھی سنا دی، مقتدر حلقوں کو بھی سنا دی، عدلیہ کو بھی سنا دی، اٹھارہ کروڑ عوام کو بھی سنا دی، اور پوری دنیا کی عالمی برادری کو بھی سنا دی کہ ہم الیکشن صرف آئین کے مطابق ان شرائط کے تحت چاہتے ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی کا الیکشن قبول نہیں ہوگا۔ اس نظام کو درست کرنے کے لیے میں (فیصلہ سن لیں)اسلام آباد کو صرف دس جنوری جمعرات تک کی مہلت دیتا ہوں۔ میں ۔ تین ہفتوں کی مہلت دے رہا ہوں۔ سنیں ۔ آج ۲۳ دسمبر ہے دس جنوری تک کی مہلت دے رہا ہوں۔ یہ کوئی سترہ ، اٹھارہ دن بن جاتے ہیں۔ تین ہفتوں کی مہلت دے رہا ہوں۔ ۱۰ جنوری جمعرات کو مہلت ختم ہو جائے گی۔ میں کہہ رہا ہوں مہلت ختم ہوجائے گی۔ مہلت ختم ہوجائےگی ۔ بولو ۔۔۔ مہلت ختم ہوجائے گی۔ اگر ۱۰ جنوری سے پہلے آئین کے مطابق اس سارے نظام کو درست نہ کیا گیا ۔ اور دو پارٹیوں کے مک مکا کو روک کر تمام سٹیک ہولڈرز کوبلا کر کے ۔ سٹیک ہولڈرز ہیں ریاست کے۔ ایک متفقہ طریقے سے اچھے لوگوں کو نہ لایا گیا جو اس جن کے اندر یہ جرأت ہو، طاقت ہو، قابلیت ہو، پولیٹیکل ول ہو، ابیلیٹی ہو، کہ وہ اس نظام کو آئین کے مطابق بنا سکیں اگر نہ لایا گیا ۔تو چودہ جنوری کو ۔ پیر کے دن یہ دو ملین کا اجتماع ہے۔ چار ملین کا اجتماع اسلام آباد میں ہوگا۔ ۱۴ جنوری کو ملک پاکستان کے عوام اسلام آباد پہنچیں گے۔ اور مارچ جمعہ کے دن ۱۰ جنوری کو شروع ہوجائے گا۔ جمعہ کے دن۔
بولیے !!! چلو گے ۔۔۔۔۔بولیے !! چلو گے ۔۔۔۔۔یا بے وفائی کرو گے۔ہر شخص چلے گا۔ ۔۔۔ پیچھے تک ہر شخص چلے گا۔​
بھئی زندگی تمہیں بھیک میں کوئی نہیں دے گا۔ اگر بدلنا چاہتے ہیں تو باقی ملکوں میں لوگوں نے جانیں دیں۔ خون بہائے۔ ہم خون خرابا نہیں چاہتے ۔ ہم بدامنی نہیں چاہتے۔ یہ اجتماع بھی پرامن ہے اور ۱۰ جنوری سے ۱۳ جنوری تک ۱۴ جنوری ۔ اسلام آباد کا مارچ بھی پرامن ہوگا۔ پرامن ہوگا اور ۱۴ جنوری کو سن لیں۔ میں اسلام آبادمیں عوام پاکستان کی پارلیمنٹ کااجلاس بلا لیا ہے۔ عوام پاکستان کا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس ۔ ۱۴ جنوری پیر کے دن ۔ عوام پاکستان لاکھوں، ، ملینز کی تعداد میں اسلام آباد پہنچ کرعوامی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا۔ اور فیصلے پھر اسلام آباد میں ۱۴ جنوری کو ہوں گے۔ مہلت دے دی۔ اس سے پہلےاس ملک کی بہتری اوراٹھارہ کروڑ عوام کی بہتری کا سامان کر لیا جائے۔ اللہ آپ کا ہمارا اور اس ملک و وطن کا سبکا حامی و ناصر ہو۔ اور جو گھروں میں ٹی وی پر سن رہے ہیں۔ وہ ۱۰ جنوری کو گھروں سے نکل پڑیں۔ آپ کو مزید کسی اعلان کی ضرورت نہیں۔ نکلیں گے؟ یا کہیں گے تھک گئے ہیں۔یا خرچہ بہت کر بیٹھے ہیںاب پیسے نہیں؟ نکلیں گے؟ نکلیں گے؟ گھروں کو چھوڑیں گے؟اگر گھر بیچنے پڑ جائیں تب بھی نکلو۔۔۔ تن کے کپڑے بیچنے پڑ جائیں تب بھی نکلو۔ اٹھارہ کرو ڑ غریبوں کا مستقبل سنوارنا ہے۔ اسلام آباد اٹھارہ کروڑ عوام کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا۔ ۱۴ جنوری اور سارے فیصلے اس پارلیمنٹ میں ہوں گے۔ان شاء اللہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
 

اسد عباسی

محفلین
حسن نظامی بھائی آج کافی مصروف رہا ہوں انشااللہ کل شام اس سارے دھاگے کو جہاں سے چھوڑا تھا اس کے بعد سارا پڑھوں گا اور پھر گیند کو میرے کورٹ میں کر دیجئے گا انشااللہ گول پکا ;)
 

حسن نظامی

لائبریرین
یقینا ! کوئی تو ہو ۔ جو ذرا ٹھیک سے تبصرہ کرے۔ میں اگر تبصرے کرنے لگ جاوں تو ذہنی خوراک کا بندوبست نہیں کر پاؤں گا اور میرے نزدیک بنیادی نوعیت کا کام ضروری ہے۔ یارانِ نکتہ داں تو یہاں بہت ہیں! :rolleyes:
 

حسن نظامی

لائبریرین
اف اتنی بلند آہنگ موسیقی کے ساتھ توہین رسالت کا حکم بیان ہو رہا ہے ؟ بھائی صاحب میں موسیقی کی حرمت پر ایمان رکھتی ہوں ۔ آئندہ مجھے ایسی وڈیو کے لیے ٹیگ مت کیجیے۔
لو جی ! کر لو بات ۔ انٹرنیٹ یوزر اوپر سے محفلین اور پھر موسیقی کی حرمت پر اعتقاد بھی نہیں ایمان !
o_O ارے کوئی تو روکو مجھے !!! ہنسی چھوٹی جا رہی ہے۔
 
Top