21 دسمبر 2012 ۔۔ قیامت کا انتطار ہے ؟

یوسف-2

محفلین
کل 21 دسمبر ہے اور مایا کیلنڈر کے مطابق کل قیامت آنی ہے اس لیے اس کالم کو میرا آخری کالم سمجھا جائے۔مجھے حکومتِ پاکستان کی بے حسی پر رونا آرہا ہے،64 سالوں میں آج تک کیلنڈر میں قیامت کی چھٹی اناؤنس نہیں ہوئی، کیا حکومت چاہتی ہے کہ لوگ دفتروں اور سڑکوں پر قیامت کا شکار ہوں؟؟؟۔۔۔خیر مجھے اب دنیا سے کیا لینا دینا، میں نے تو آج اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا ہے، توبہ کرنی ہے کیونکہ پتا نہیں کل موقع ملے نہ ملے۔چونکہ میں نے ہمیشہ اپنے پڑھنے والوں کو مفید مشوروں سے نوازا ہے اس لیے میرا آج بھی آخری مشورہ ہے کہ جس جس نے دودھ والے کے پیسے دینے ہیں، بجلی کا بل دینا ہے،کسی کا ادھار واپس کرنا ہے یا گاڑی کی قسط دینی ہے۔۔۔سب روک لیں، کل کے بعد کوئی آپ سے پیسوں کی ڈیمانڈ نہیں کرے گا، نہ بجلی آئے گی ، نہ میٹر کٹے گا، نہ بھوک لگے گی نہ گھر کاراشن خریدنا پڑے گا، نہ سفر کرنا پڑے گا نہ سی این جی کی لمبی لائن میں لگنا پڑے گا۔میں ساری رات بار بار قیامت والی وہ فلم دیکھتا رہا ہوں جو قیامت سے دو سال پہلے ریلیز ہوگئی تھی، اسی لیے اب تک تھر تھر کانپ رہا ہوں، پلیز مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلینے دیجئے۔۔۔!!!
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے پرسوں مالٹے والی کی ریڑھی پر کھڑے کھڑے جو پانچ مالٹے کھائے تھے وہ پانچ نہیں تھے بلکہ سات تھے لیکن مالٹے والے کو پتا نہیں چلا لہذا میں پانچ مالٹوں کی Payment کرکے نکل آیا۔مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ میں نے اب تک عید کی جو چھ سات نمازیں پڑھی ہیں وہ سب کی سب نقل مارکے پڑھی ہیں۔مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنے محلے کے بوڑھے دوکاندار کو ہمیشہ کھوٹے سکے دے کر’’ تلسیاں‘‘ لیتا رہا ہوں۔مجھے یاد ہے میں نے کئی دفعہ اندھے فقیر کے کاسے میں سے دس روپے کا نوٹ بھی پھڑکایا ہے، یہ جو میرے پاؤں میں ہر ہفتے نئے بوٹ ہوتے ہیں یہ بھی ’’جمعے‘‘ کی برکتیں ہیں۔و ہ جومیں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ میرے کپڑے میرے لندن والے ماموں نے دیے ہیں ، وہ بے شک میرے لندن والے ماموں نے ہی دیے تھے لیکن لنڈے سے لے کر دیے تھے۔میرے پاس جوبلیک بیری فون ہے وہ اصل میں پندرہ سو روپے والا چائنا کا موبائل ہے لیکن میں نے اُس کے اوپر کاتب سے انگلش میں بلیک بیری لکھوا رکھا ہے،میرے کمرے میں جو چار ٹن کا اے سی لگا ہوا ہے وہ اے سی نہیں بلکہ صرف اے سی کی تصویر ہے اور جو روم کولر کی تصویر لگی ہوئی ہے وہ تصویر نہیں بلکہ اصلی کولر ہے۔مجھے اعتراف ہے کہ میرے موبائل میں حاجی خدا بخش، مولوی ہدایت اللہ،قاری نیک محمد ، شکیل پلمبر، اجمل سبزی والا، قیصر مالشیاء، سلطان الیکٹریشن،فہیم کارپینٹر اور عدیل میٹر ریڈر کے نام سے جو نمبرsave ہیں وہ سب کے سب دیدہ زیب مستورات کے ہیں۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ ملک سرفرا ز کے گھر کی دیوار پر جو بندہ ہر روز کوئلے سے لکھ جاتاہے کہ ’’یہ چور کا گھر ہے‘‘ وہ میں ہی ہوں۔مجھے یہ بھی اعتراف کرنا ہے کہ میں عرصہ چھ سال سے ندیم کریانہ سٹور کے انڈے چراتا آرہا ہوں، ہمیشہ اُ س سے وہ چیز مانگتا ہوں جو دوکان کے آخری کونے پر رکھی ہوتی ہے، وہ لانے کے لیے جاتا ہے تو میں جلدی سے کریٹ میں سے دو انڈے اٹھا کر جیب میں ڈال لیتا ہوں، بظاہر یونہی لگتا ہے جیسے میں نے جیب میں دو موبائل رکھے ہوئے ہیں۔مجھے یہ ماننے میں بھی کوئی جھجک نہیں کہ پچھلے الیکشن میں، میں نے نعرے پیپلز پارٹی کے لگائے،کمپین ن لیگ کی چلائی، کھانے جماعت اسلامی کے کھائے اور ووٹ محلے کے ایک کھسرے کو دیا۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں جو ہر اتوار رات گیارہ بجے سارے محلے کے گھروں کی بیل بجا کر بھاگ جاتاہے۔ زندگی کے دن کم رہ گئے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جتنی جلدی ممکن ہے اپنے سارے گناہ مان جاؤں لہذا مجھے یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ یہ جو میں مہنگے سگریٹ پیتا ہوں یہ قطعاً مہنگے نہیں، ڈبی ضرور مہنگے سگریٹ والی ہوتی ہے لیکن اندر آٹھ آنے والے سگریٹ بھرے ہوتے ہیں۔میرے پاس جتنے بھی تولئے اور پین ہیں وہ سب کے سب ہوٹلوں سے کھسکائے ہوئے ہیں، میں نے بے شمار دفعہ ٹرین میں بغیر ٹکٹ بھی سفر کیا ہے، پارکنگ میں کھڑے موٹر سائیکلوں کی ٹینکی سے صاف کرنے والے کپڑے بھی نکالے ہیں،یاروں دوستوں کے لائٹر بھی غائب کیے ہیں، عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں بھی دی ہیں، بیگم کے سونے کے کڑے بھی غائب کیے ہیں،محلے داروں کی مرغیوں کو نیند کی گولیاں کھلا کر اُن کا ’’انتم سنسکار‘‘ بھی کیا ہے، بیواؤں کے نام پر چندہ اکٹھا کرکے آکڑا بھی کھیلا ہے،رشتے داروں کی شادیوں میں ’’کھچ‘‘ بھی ڈالی ہے،بچوں سے قلفیاں بھی چھینی ہیں، مہمانوں کو جوٹھی بوتل میں پانی ڈال کر بھی پیش کیا ہے،بس والے کو کرایہ دیے بغیر الٹا اُس سے باقی پیسے بھی وصول کیے ہیں۔۔۔میں کیا کیا بتاؤں۔۔۔وقت کم اور گناہ سخت ہیں!!!
کل اگر قیامت آگئی تو میرے بہت سارے کام ادھورے رہ جائیں گے، میں نے سوچا تھا کہ 21 دسمبر سے پہلے ہر اُس شخص سے معافی مانگوں گا جس سے میں نے کوئی زیادتی کی ہوگی، آج لسٹ بنانے بیٹھا ہوں تو ڈیڑھ لاکھ سے اوپر نام ہوگئے ہیں۔ اب اتنے لوگوں سے معافی مانگنے نکلوں توشائد قیامت کے ڈیڑھ سال بعد بھی ٹارگٹ پورا نہ ہوسکے لہذا میں سب سے معافی مانگتاہوں تاہم سب کے ذہن میں رہے کہ معافی مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں اُن کے سامنے جھک گیا ہوں یا ڈر گیا ہوں، اس معافی کو ایسے ہی سمجھا جائے جیسے ہم کسی فقیر کو کہتے ہیں ’’جاؤ بابا معاف کرو‘‘۔
متعدد بار میرے ذہن میں یہ سوچ بھی ابھری کہ میں تو ایک مسلمان ہوں اور مسلمان مایا کیلنڈر کے مطابق نہیں اسلام کے مطابق چلتاہے، تو کیا مجھے کل کی قیامت پر یقین رکھنا چاہیے۔۔۔ابھی تو امام مہدی بھی تشریف نہیں لائے، ابھی تو فتنہ دجال بھی نہیں آیا، ابھی توکافی ساری نشانیاں ظاہر نہیں ہوئی۔ یہ سوچتے ہی میری دندیاں نکل آئیں، مجھے یقین ہوگیا کہ ’’ہنوزقیامت دور است‘‘۔۔۔ویسے بھی ہر کام تو اپنے معمول کے مطابق چل رہاہے، سڑکوں پر اُسی طرح رش ہے، پولیو ویکسین پلانے والے عملے کو گولیاں ماری جارہی ہیں، موبائل چھینے جارہے ہیں، بینکوں میں پیسے جمع اور نکلوائے جارہے ہیں، دودھ والا آج بھی پانی ملا دودھ دے کر گیا ہے، آج بھی کئی گھروں میں لڑائیاں ہوئی ہیں، آج بھی قیامت سے زیادہ روزگار کے لیے لوگ پریشان پھر رہے ہیں، آج بھی گاڑیاں فراٹے پھر رہی ہیں، آج بھی مذہب کے نام پر مسلمان مسلمان کا خون کر رہا ہے،آج بھی بدترین لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، آج بھی سیاستدان ملک کو بچانے کے دعوے کر رہے ہیں، آج بھی ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز میں زرق برق میزبان خواتین نے نت نئی رنگینیاں دکھائی ہیں، آج بھی کھانا پکانے والے چینلز پر نئی نئی ڈشز پکانے کی ترکیبیں بتائی جارہی ہیں۔۔۔کتنی بہادر قوم ہیں ہم ، ہمارے دلوں میں نہ خوف رہا ہے نہ خوفِ خدا۔۔۔جہاں دن دیہاڑے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے، جہاں گردنیں کاٹ کر لاشیں بوری میں بند کرکے چوراہے پر پھینک دی جائیں، جہاں ایک دن میں چار بم دھماکے ہوتے ہوں، جہاں ہر مکین زندگی سے عاجز آچکا ہووہاں قیامت کا خوف کیسا؟؟؟۔۔۔کل کی قیامت تیری ایسی کی تیسی۔۔۔!!! (گل نوخیز اختر کا کالم۔ نئی دنیا 21 دسمبر 2012)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
سب مایا ہے ۔۔۔ سب مایا ہے ۔۔۔ اس لیے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ ہمیں تو بس ایسے ہی ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں ۔۔۔ موسم بھی تو ٹھنڈا ہے نا!
 
کراچی پر تو سمندر چڑھے گا۔ میرا اپنے گھر کی گیلری پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھنے کا پروگرام ہے۔ پاپ کارن اور چاکلیٹ لے آیا ہوں۔۔
Y5Zsk.gif
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
کراچی پر تو سمندر چڑھے گا۔ میرا اپنے گھر کی گیلری پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھنے کا پروگرام ہے۔ پاپ کارن اور چاکلیٹ لے آیا ہوں۔۔
Y5Zsk.gif
حضرت! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کچھ دیر کے لیے اس "پروگرام" سے محظوظ ہوں گے ۔۔۔ ویسے پروگرام میں شرکت کا ارادہ نہیں ہے جناب کا!
 

شمشاد

لائبریرین
کراچی پر تو سمندر چڑھے گا۔ میرا اپنے گھر کی گیلری پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھنے کا پروگرام ہے۔ پاپ کارن اور چاکلیٹ لے آیا ہوں۔۔
Y5Zsk.gif
قیامت کوئی نہیں آنی کل۔ اس لیے پاپ کارن اور چاکلیٹ مجھے بھجوا دیں اور آپ روزمرہ کے امور انجام دیں۔
 

یوسف-2

محفلین
اس قسم کے کالم، تحریروں اور پیشن گوئیوں سے ”لطف اندوز“ ہونے کی صلاحیت سے ”محروم“ افراد ان سے دور رہ کر ہی ”لطف اندوز“ ہوا کریں :p انہیں پڑھ کر اپنی زندگی کے ”مزے“ کو خراب نہ کریں اورمزید آگے ہرگز نہ پڑھیں:)
ویسے قیامت کی دو اقسام ہیں۔ ایک اجتماعی قیامت، جو ایک ساتھ پوری روئے زمین یا پھر شاید پوری کائنات پر ایک ساتھ نازل ہوگی۔ یہ کب نازل ہوگی، اس کی حقیقی تاریخ کسی کو نہیں معلوم۔ البتہ قرآن و صحیح احادیث میں اس کی کچھ نشانیاں ضرور بتلائی گئی ہیں۔ ان نشانیوں میں سے کچھ ظاہر ہوگئی ہیں، اور کچھ ابھی باقی ہیں۔ جب تک ساری نشانیاں ظاہر نہیں ہوجاتیں،”اجتماعی قیامت“ نہیں آئے گی۔
لیکن اجتماعی قیامت سے قطع نظر، انفرادی انسانی زندگیوں میں تو ہر لمحہ قیامت نازل ہورہی ہے۔ جیسے ہی کسی انسان کی سانس بند ہوتی ہے، اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً۔ لہٰذا ”قیامت کے آنےکا مذاق اڑانے والے“ یہ جان لیں کہ ان کے لئے ”قیامت “ کسی وقت بھی نازل ہوسکتی ہے۔ ان سطور کو مکمل پڑھنے سے قبل بھی۔ جس طرح مجھ پربھی قیامت ٹوٹ سکتی ہے، ان سطور کو مکمل کرنے سے قبل بھی۔ اور اگر ہم یہ سطور مکمل لکھنے اور مکمل پڑھنے کا موقع مل جاتا ہے تو اسے اپنے لئے ”مہلت“ جانیں تاکہ اس دوران ہم ”اپنی اپنی قیامت“ کو یاد رکے اس کی ”تیاری“ کر سکیں۔ کیوں عسکری بھائی! میں نےکوئی ”جھوٹ“ تو نہیں بولا ناں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جب قیامت آئے گی تو میں یہاں بیٹھا انسٹالر کو 32 بٹ آپریٹنگ سسٹم سے 64 بٹ سسٹم پر لے جانے کے کاموں میں الجھا ہونگا۔ :cry: پتہ نہیں یہ نیک کام ہے یا نہیں۔ :unsure:
 

یوسف-2

محفلین
جب قیامت آئے گی تو میں یہاں بیٹھا انسٹالر کو 32 بٹ آپریٹنگ سسٹم سے 64 بٹ سسٹم پر لے جانے کے کاموں میں الجھا ہونگا۔ :cry: پتہ نہیں یہ نیک کام ہے یا نہیں۔ :unsure:
میری طرح اگر آپ کوبھی اس قسم کا کام بالکل نہیں آتا تو دال فے عین کریں۔ قیامت تک وقت برباد کیوں کرتے ہیں :p
 

الف عین

لائبریرین
اپنی آخرت کی فکر کرو بچو، ابھی بھی 21 دسمبر ختم نہیں ہوئی ہے، یہاں کے حساب سے بھی آٹھ گھنٹے سے زیادہ ہی باقی ہیں!!!
 
Top