شاد عظیم آبادی ‫اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم ۔ شاد عظیم آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
‫اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم

تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم

تعلقات کا الجھاؤ ہر طرح ظاہر
گرہ کشائیِ تقدیرِ نارسا معلوم

سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستا معلوم

دعا کروں نہ کروں سوچ ہے یہی کہ تجھے
دعا کے قبل مرے دل کا مُدّعا معلوم

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم

کچھ اپنے پاؤں کی ہمت بھی چاہیے اے پیر
یہی نہیں تو مددگاریِ عصا معلوم

طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مُدّعا معلوم

(شادؔ عظیم آبادی‬)
 

شیزان

لائبریرین
تعلقات کا الجھاؤ ہر طرح ظاہر
گرہ کشائیِ تقدیرِ نارسا معلوم

زبردست غزل ہے۔ بہت شکریہ فرخ صاحب
 

تلمیذ

لائبریرین
نہایت ہی عمدہ کلام۔ ایک ایک شعر موتی ہے جناب!!
ایک 'اوکھی' سی طلب ہے۔ جس کی احباب سے گذارش کررہا ہوں۔
چند سال پہلے ایک غزل نظر سے گزری تھی جس کا مقطع تھا ۔'میں کیا جانوں' ۔ تھوڑا تھوڑا یاد پڑتا ہے کہ شاعر کا نام غالباً عرفان صدیقی تھا۔ اگر محفل کے با ذوق احباب کے علم میں ہو تو یہاں درج کر کے ممنون فرمائیں اورخاکسار کو ٹیگ کرنا نہ بھولیں۔
حسان خان صاحب ،جناب سید زبیر صاحب ، عاطف بٹ صاحب ، التباس صاحب، نیرنگ خیال صاحب خصوصی توجہ فرمائیں۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب کہا ہے
سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم
 

فلک شیر

محفلین
نہایت ہی عمدہ کلام۔ ایک ایک شعر موتی ہے جناب!!
ایک 'اوکھی' سی طلب ہے۔ جس کی احباب سے گذارش کررہا ہوں۔
چند سال پہلے ایک غزل نظر سے گزری تھی جس کا مقطع تھا ۔'میں کیا جانوں' ۔ تھوڑا تھوڑا یاد پڑتا ہے کہ شاعر کا نام غالباً عرفان صدیقی تھا۔ اگر محفل کے با ذوق احباب کے علم میں ہو تو یہاں درج کر کے ممنون فرمائیں اورخاکسار کو ٹیگ کرنا نہ بھولیں۔
حسان خان صاحب ،جناب سید زبیر صاحب ، عاطف بٹ صاحب ، التباس صاحب، نیرنگ خیال صاحب خصوصی توجہ فرمائیں۔
تلمیذ ...........
غزل پیش خدمت ہے........عرفان صدیقی بدایوں کے نامی شاعر اور صاحب طرز غزل گو تھے.......ذاتی طور پہ اِس فقیر کو وہ انتہا درجہ میں محبوب ہیں.........اور اُن کی شاعری ....سبحان اللہ ........بہرحال آپ کی مطلوبہ غزل پیش ہے
میں تو اک بکھری ہوئی صف کا پیادہ ٹھہرا​
کون اس فوج کا سالار ہے، میں کیا جانوں​
تو فرستادہ سرکار نہیں ہے ، نہ سہی​
ہاتھ میں محضرِ سرکار ہے، میں کیا جانوں​
شحنہء شہر کی خدمت میں لگے ہیں سب لوگ​
کون غالب کا طرفدار ہے، میں کیا جانوں​
اک نیا رنگ ہویدا ہے میری آنکھوں میں​
آج کیا سرخیء اخبار ہے، میں کیا جانوں​
تجھ کو سیلاب کے آنے کی خبر دے دی ہے​
تیرا در ہے تیری دیوار ہے، میں کیا جانوں​
میں نمو کرنے پہ راضی نہیں بے موجِ بہار​
موسمِ درہم و دینار ہے، میں کیا جانوں​
سرِ پندار تو مجھ کو بھی نظر آتا ہے​
اور کیا کیا تہِ دستار ہے، میں کیا جانوں​
 
Top