’’صفر‘‘ پر آؤٹ ہونے والے بلے باز !

479461_8381333_magazine.jpg

دنیا بھر کےبیٹس مین نمایاں کھیل کا مظاہرہ کرکے بہترین ریکارڈ قائم کرنےکے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ٹیموں نے بھی زیادہ سے زیادہ مجموعی اسکور بنانے کی کوشش کی ہے۔اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ پاکستان سمیت کئی ممالک کے بلے بازکوئی رن بنائےبغیر آؤٹ ہوگئے اور ’’ڈک‘‘ لینے کا منفی ریکارڈ قائم کیا ۔
برطانیہ میں منعقدہونے والے ایک میچ میں پوری ٹیم ’’ڈک‘‘ کا اعزاز حاصل کرکے پویلین واپس لوٹ گئی ۔ دو پاکستانی کرکٹرز سمیت کئی عالمی کرکٹرز نے ’’گولڈن اور ڈائمنڈڈک ‘‘ جب کہ شاہد آفریدی 45مرتبہ صفر پر آؤٹ ہوکرسلور اور برونز ڈک لینے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔
کرکٹ میچوں میں’’ ڈک آؤٹ ‘‘ہونے کی اصطلاح اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب بیٹس مین صفر پر آؤٹ ہوجائے۔ ٹیلی ویژن اسکرین پر اس کے آؤٹ ہونے کے موقع پر ایک بطخ یعنی’’ ڈک‘‘ دکھائی جاتی ہے۔کرکٹ کے شائقین یقیناً سوچتے ہوں گے کہ آخر صفر اور ڈک کا آپس میں کیا تعلق ہے اورصفر پر آؤٹ ہونے والے بلے باز کو ’’ڈک آؤٹ‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ ’’ڈک‘‘ دراصل ’’ ڈک ایگزآؤٹ‘‘ کی شارٹ فارم ہے، جو اس وقت سےرائج العام ہے جب انگلینڈ میں کلب کرکٹ کا رواج ہوا تھا ۔
ڈک ایگ یعنی ’’بطخ کے انڈے‘‘ کی اصطلاح کا سب سے پہلے استعمال 17 جولائی 1886ء میں کیا گیا تھا جب ایک لیگ میچ کے دوران برطانیہ کے پرنس آف ویلز صفر پر آؤٹ ہو کر پویلین لوٹے تھے۔
برطانوی شہزادے کے اس طرح آؤٹ ہونے پر ایک برطانوی اخبار نے’’ ڈک ایگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے سرخی بنائی تھی،جو اس قدر مقبول ہوئی کہ ہر اخبار نے اس کوشروع کر دیا۔ کیوں کہ صفرکی مشابہت بطخ کے انڈے کی مانند ہوتی ہے، اس لیےاسے ’’ڈک آؤٹ ‘‘ کہتے ہیں۔صفر پر آؤٹ ہونے والے بیٹس مین کے بھی کئی درجات ہوتے ہیں۔
اگر کوئی کھلاڑی پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہو جائے تو اسے گولڈن ڈک کہا جاتا ہے۔ اگر دوسری اور تیسری گیند پر آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ جائے تو اسے سلور ڈک اور برونز ڈک کہتے ہیں ،جب کہ فاضل گیندوں پر آؤٹ ہونے والے بلے باز کو ’’ڈائمنڈ ڈک ‘‘ دیا جاتا ہے۔

479461_7280158_magazine.jpg

حال ہی میں برطانیہ کےکے شہر کینٹربری میں چھ، چھ کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں کی’’’ان ڈور‘‘ کرکٹ چیمپئن شپ کے ایک میچ میں’’ہی چائلڈ کرکٹ کلب‘‘ کی پوری ٹیم 20 گیندوں پربغیرکوئی رن بنائے آؤٹ ہو گئی۔مذکورہ ٹیم کا کوئی بھی بلے باز ’’کرائسٹ چرچ یونیورسٹی‘‘ کے خلاف کھیلتے ہوئے اپنا کھاتہ کھولنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
نصف درجن بلے بازکوئی بھی رن بنانے میں ناکام رہے۔یہ عالمی کرکٹ کی تاریخ کا دوسرا واقعہ تھا، اس سے قبل یہ ریکارڈ 1913 میں قائم ہوا تھا جب سمرسیٹ کے کلب ’’لینگ پورٹ ‘‘ کی پوری ٹیم بغیرکوئی رن بنائے آؤٹ ہو گئی تھی۔
2014میں ’’وائرل کرکٹ کلب‘‘ کی ٹیم ’’ ڈویژن تھری چیشئیر لیگ‘‘ کے ایک میچ میں تین رنز پر آؤٹ ہو گئی، اس کے زیادہ تر بلے باز ڈک لے کر پویلین واپس لوٹے۔ گزشتہ ماہ ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان پہلےٹی ٹوئنٹی میچ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم صرف 60رنز کے معمولی اسکور پر آؤٹ ہوگئی تھی اور اس کے نصف درجن بلے بازوں نے ڈک لینے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

قارئین کی دل چسپی کے لیےپاکستان سمیت دنیا کےچند کھلاڑیوں کا تذکرہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے جنہوں نے متعدد عالمی ریکارڈ قائم کرنے کےعلاوہ صفر پر آؤٹ ہوکر ’’ڈک ‘‘ ،’’گولڈن ڈک‘‘ اور ’’ڈائمنڈ ڈک‘‘ لینےکا بھی منفی ریکارڈقائم کیا۔

عمر اکمل

479461_6844498_magazine.jpg

عمر اکمل جارحانہ کھیل کی وجہ سے معروف ہیں۔ ان کا شمار مڈل آرڈر پوزیشن پر بیٹنگ کرنے والے ان بلے بازوں میں ہوتا ہے جنہیں ’’گیم چینجر‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ ایک سال قبل انہوں نے سب سے زیادہ ’’ڈک‘‘ حاصل کرکے عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا ہےاور وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں سب سے زیادمرتبہ صفر پر آؤٹ ہونے والےعالمی کرکٹرزمیں سرفہرست ہوگئے ہیں۔
پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن میںجب وہ پشاور زلمی کے خلاف صفر پر آؤٹ ہوئے تو یہ ان کا 24 واں’’ ڈک ‘‘تھا۔اکمل نے ویسٹ انڈیز کے ڈیوائن اسمتھ، جنوبی افریقا کے ہرشل گبز اور سری لنکا کے تلکارتنے دلشان کا ریکارڈ توڑا ،جو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 23 مرتبہ صفر پر آؤٹ ہوئے۔
بابر اعظم

479461_6895607_magazine.jpg

ٹیسٹ کرکٹ میں سلور ڈک کا اعزاز بابر اعظم بھی حاصل کرچکے ہیں۔ 2016سے 2017تک اپنے کیریئر کی 33ویں اننگز میں ساتویں سنچری اسکورکرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا، اس سے قبل یہ اعزاز جنوبی افریقہ کے اسٹار بلے باز ہاشم آملا کے پاس تھا جنہوں نے 41 ویںاننگز میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔
جب کہ ایک ہی ملک میں لگاتارپانچ سنچریوں کا نیا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا ۔ حال ہی میں فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں، ٹی10میں صرف 26گیندوں پرسنچری اسکور کرکے نیا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ٹیسٹ میچز میں ’’ڈک‘‘ لینے کا اعزاز حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 12 اننگز میں پانچ مرتبہ وہ صفر پر آؤٹ ہوئے۔
مرلی دھرن

479461_7599185_magazine.jpg

سب سے زیادہ صفر پر آؤٹ ہونے والے ،متایا مرلی دھرن سری لنکا کے آف اسپن بالر تھےجنہیں آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل کیا گیا ہے۔ لندن میں تقریب کے دوران آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹوو ڈیوڈ رچرڈسن نے انھیں اعزازی کیپ دی۔ سری لنکا کی ٹیم کی جانب سے بیٹس مین کی حیثیت سے کھیلتے ہوئے 59مرتبہ ’’ڈک ‘‘ کا اعزاز حاصل کرنے والےپہلے عالمی کرکٹر ہیں۔
کورٹنی والش

479461_6451274_magazine.jpg
ویسٹ انڈین فاسٹ بالر کورٹنی والش ،مرلی دھرن کے بعد صفر پر آؤٹ ہونے والے، دنیا کے دوسرے بلے باز ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تیز گیندوں اور باؤنسرز سے عالمی کرکٹرز کو ہراساں کیے رکھا ۔ لیکن بہ طور بیٹس مین، 54مرتبہ ’’ڈک‘‘ کا اعزاز حاصل کرنے والے دوسرے عالمی کرکٹر کا ریکارڈ قائم کیاہے۔
سنتھ جے سوریا
479461_4365740_magazine.jpg
سنتھ جے سوریا کو ایک روزہ کرکٹ میں ’’آل ٹائم کاعظیم بلے باز ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اوپننگ بیٹس مین کے طور پراننگ کا آغاز کرنے والے جے سوریا، پہلے دس اوورز میں رنزکا پہاڑ کھڑا کرنے والی مشین کے نام سے معروف تھے۔انہوں نے وکٹ کیپر بلے باز رمیش کالوودھرنا کے ساتھ مل کر 15 اوورز میں دائرے کے قانون کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پنچ ہٹنگ کی بنیاد رکھی۔ لیکن ’’ڈک‘‘ کا منفی ریکارڈ ان کے پاس بھی ہے۔ وہ 53مرتبہ صفر پر آؤٹ ہونے والے کورٹنی والش کے بعد تیسرے عالمی کھلاڑی ہیں۔
گلین میک گرا
479461_6927110_magazine.jpg
گلین ڈونالڈ میک گرا آسٹریلیا کے میڈیم فاسٹ بالر ہیںجو آئی سی سی کی آل ٹائم کے عظیم کرکٹرز کی فہرست میں چوتھے نمبر پر فائز ہیں۔49مرتبہ صفر پر آؤٹ ہوکر ’’ڈک‘‘ کے چوتھے درجے پر فائز ہیں۔

وسیم اکرم
479461_25594_magazine.jpg
پاکستان میں سونئگ کے سلطان اورریورس سوئنگ کے مؤجد کہلائے جانے والے وسیم اکرم کا شمار دنیا کے عظیم کرکٹر ز میں ہوتا ہے۔ وزڈن آف کرکٹرز المیناک کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر کرکٹ کے کھیل میں ان کے کارناموں کو سراہتے ہوئے’’وزڈن آل ٹائم ورلڈ الیون ‘‘کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 500 وکٹیں لینے والے دنیا کے پہلے بالر تھے۔
بلے بازی میں بھی انہوں نے متعدد عالمی ریکارڈقائم کیے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ڈک کا اعزاز حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں ڈینئیل ویٹوری کے بعد چھٹے نمبر پر فائز ہیں۔ ویٹوری نے 46جب کہ وسیم اکرم نے 45بار صفر پر آؤٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ایک روزہ میچوں میں بھی وکی کو45 بار صفر پر آؤٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
مہیلا جے وردھنے
479461_1752448_magazine.jpg
مہیلا جے وردھنے سری لنکا کے بہترین بلے باز ہیں جنہوں نے 149میچوں میں 12ہزار رنز اسکور کیے ہیں۔ وہ متعدد بار ٹرپل، ڈبل اور میڈن سنچریاں بناچکے ہیں اور کئی عالمی ریکارڈ کے حامل بلے باز ہیں۔ لیکن صفر پر آؤٹ ہوکر 47مرتبہ ’’ڈک‘‘ کا اعزاز حاصل کرنے والے کرکٹرز کی فہرست میں ساتویں پوزیشن پر ہیں۔
شاہد آفریدی
479461_2886349_magazine.jpg
آٹھویں نمبر پر ڈک لینے والے والے شاہد آفریدی جنگجویانہ انداز کی بلے بازی کی بہ دولت معروف ہیں۔انہوں نے اکتوبر 1996ء میں صرف سولہ سال کی عمر میںکرکٹ کے کھیل میںقدم رکھااور سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچ میں صرف37 گیندوں پرسنچری بنائی، ان کا یہ ریکارڈ کئی سال تک ناقابل تسخیر رہا۔
جنوری 2006ء میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ میچ میں ہربھجن سنگھ کے ایک اوور میں لگاتار چار چھکے لگائے تھےوہ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے طویل چھکا لگانے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کا یہ شاٹ 158 میٹر دور جا کرگرا تھا۔ 45مرتبہ صفر پر آؤٹ ہوکر’’سلور’’ و’’ برانز ڈک‘‘ کے اعزازات حاصل کیے۔ان کے ساتھ شین وارن اور ظہیر خان مشترکہ طور پر آٹھویں پوزیشن پر فائز ہیں۔ ان دونوں بلے بازوں نے بھی 45مرتبہ صفر پر آؤٹ ہونے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
یونس خان
479461_6503379_magazine.jpg
یونس خان بھی قومی ٹیم کے ریکارڈ ساز کھلاڑی ہیں ، جو 118 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں جب کہ ٹیسٹ کرکٹ میں 10 ہزار رنز بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز ہیں۔یونس نے ٹرپل سنچری کے علاوہ کئی مرتبہ ڈبل و میڈن سنچری بنائی ہے۔ 42مرتبہ ڈک لے کر وہ نویں پوزیشن پر فائز ہیں ۔
کرس گیل
479461_1437689_magazine.jpg
کرس گیل ان چھ ایک روزہ کرکٹرز میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس فارمیٹ میں تین سےزائد مرتبہ150 رنز بنا ئے-انہیں کرکٹ کے مختصر ترین فارمیٹ ٹی -20 کی پہلی سنچری بنا نے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو2007کے ٹی-20 ورلڈکپ میں جنوبی افریقہ کے خلاف بنائی تھی-کرس گیل اپنی ٹیم کے لیےاوپننگ بیٹس مین کے طور پر کھیلتے ہیں اور ٹی-20 فارمیٹ میں بیٹ کیری کرنے والے کرکٹ کی تاریخ کےپہلے بلے باز ہیں ۔
یہ اعزاز انہوں نے 2009 کے ٹی -20 ورلڈ کپ میں سری لنکا کے خلاف کھیلتے ہوئے قائم کیا تھا- ٹیسٹ کرکٹ میں دو ٹرپل سنچریاں بنا چکے ہیں۔آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2015 کے ایک گروپ میچ میں زمبابوے کے خلاف 215 رنز بنا کرورلڈ کپ میں ڈبل سنچری بنا نے والےپہلے بلے باز ہیں۔ اس کے ساتھ انہیں 40مرتبہ صفر پر آؤٹ ہونے والے بلے باز کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ یونس خان کے بعد ڈک لینے والے کھلاڑیوں میں 10ویں درجے پر فائز ہیں۔

ڈائمنڈ ڈک
بیٹس مین کوئی بھی گیند کھیلے بغیر، وائیڈ یا نو بال پر آؤٹ ہوجائے، اسے ’’ڈائمنڈ ڈک‘‘ کا اعزاز دیا جاتا ہے۔ کینیڈا کے کرکٹر ، ہنری اوشٹڈ نے ایک لیگ میچ میں پہلی مرتبہ یہ اعزاز حاصل کیا۔ ایک روزہ میچ میں مخالف ٹیم کے بالر الیکس کومیک کی پہلی یہ وائیڈ بال پر وہ اسٹمپڈ آؤٹ ہوگئے۔
دوسرے ڈائمنڈڈک کا اعزاز حاصل کرنے والے بلے باز، بھارت کے بھوینشور کمار تھے۔’’ فٹولا‘‘ کے مقام پر ایشیا کپ کے میچ میں جو سری لنکا کے ساتھ کھیلا گیا تھا، وہ اجنتا مینڈس کی وائیڈ بال پر اسٹمپڈآؤٹ ہوکراس اعزاز کے حامل بنے تھے۔ ڈائمنڈ ڈک کامنفی اعزاز حاصل کرنے والے بلے بازوں کی فہرست میں یونس خان، محمد آصف، ہربھجن سنگھ راہول ڈریوڈ، سائمن گیج، کرس مارٹن اور مونٹی پیسر شامل ہیں۔

گولڈن ڈک
اگر کوئی بلے باز اوور کی پہلی ہی گیند پر بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوجائے تو اسے ’’گولڈن ڈک‘‘ دی جاتی ہے۔ رواں سال بھارت کے بلے باز، روہیت شرما نے جنوبی افریقہ کے ساتھ ایک ٹی 20میچ میں جونیئر ڈالا کی پہلی گیند پر آؤٹ ہوکر ’’گولڈن ڈک‘‘ کا اعزاز حاصل کیا۔
اس سے قبل مختلف میچوں میں چار مرتبہ صفر پر آؤٹ ہوچکے ہیں۔ مذکورہ اعزاز انگلش کرکٹ ٹیم کے کپتان الیسٹر کک بھی حاصل کرچکے ہیں ، 100واں ٹیسٹ میچ جوآسٹریلیا کے ساتھ پرتھ گراؤنڈ پر منعقد ہوا، انہوں نے بالر کی پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہوکر گولڈن ڈک حاصل کی۔
روزنامہ جنگ
 

محمد وارث

لائبریرین
گولڈن ڈک حاصل کرنا بھی ایک اعزاز ہے، یہ خاکسار بھی ایک سے زائد بار میچ کی پہلی ہی گیند پر واپس آ چکا ہے۔ آؤٹ ہونے کے بعد کی کیفیات کو بیان کرنا محال ہے، میرا میچ تو وہیں ختم ہو جاتا تھا، بس سب کچھ چھوڑ کر ویرانوں کی طرف نکل جانے کو دل کرتا تھا۔ :)
 
گولڈن ڈک حاصل کرنا بھی ایک اعزاز ہے، یہ خاکسار بھی ایک سے زائد بار میچ کی پہلی ہی گیند پر واپس آ چکا ہے۔ آؤٹ ہونے کے بعد کی کیفیات کو بیان کرنا محال ہے، میرا میچ تو وہیں ختم ہو جاتا تھا، بس سب کچھ چھوڑ کر ویرانوں کی طرف نکل جانے کو دل کرتا تھا۔ :)

یعنی آپکی طرف ٹرائی بال وغیرہ کا رواج نہیں تھا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
یعنی آپکی طرف ٹرائی بال وغیرہ کا رواج نہیں تھا؟
اور دیوار سے ٹکرا کر ایک ہاتھ سے کیچ کرنے وغیرہ جیسے قوانین بھی۔
اپنی طرف تو "ڈبل ٹرائی بال" بھی چلتی تھی۔:):)
سبھی کچھ تھا اور یہ تو عام ہے!

لیکن میں چھوٹےموٹے کلب لیول کی بات کر رہا تھا۔دو تین ملحقہ محلوں کی "بڑی" ٹیم میں کھیلنا اُس وقت خوابوں جیسا تھا۔ میں نے پہلے چھوٹی ٹیم اور پھر بڑی ٹیم کے ساتھ بیگز اٹھانے والا، اسکورر، بارھواں کھلاڑی اور پھر کبھی کبھی گیارہویں کھلاڑی کے طور پرکرکٹ بال سے کرکٹ کھیلنا شروع کی تھی۔ کبھی بیٹنگ آ جاتی تھی تو پیڈ باندھنے نہیں آتے تھے تو کسی طور فرنٹ لیگ پر پیڈ چڑھا لیتا تھا اور پھر واپس گھر آ کر ٹانگوں پر پڑے نیل دیکھا کرتا تھا۔ ایک دو بار ہونٹ بھی پھٹے لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدلا، میں اسی ٹیم میں اوپننگ کرنے لگا۔ :)
 

La Alma

لائبریرین
سبھی کچھ تھا اور یہ تو عام ہے!

لیکن میں چھوٹےموٹے کلب لیول کی بات کر رہا تھا۔دو تین ملحقہ محلوں کی "بڑی" ٹیم میں کھیلنا اُس وقت خوابوں جیسا تھا۔ میں نے پہلے چھوٹی ٹیم اور پھر بڑی ٹیم کے ساتھ بیگز اٹھانے والا، اسکورر، بارھواں کھلاڑی اور پھر کبھی کبھی گیارہویں کھلاڑی کے طور پرکرکٹ بال سے کرکٹ کھیلنا شروع کی تھی۔ کبھی بیٹنگ آ جاتی تھی تو پیڈ باندھنے نہیں آتے تھے تو کسی طور فرنٹ لیگ پر پیڈ چڑھا لیتا تھا اور پھر واپس گھر آ کر ٹانگوں پر پڑے نیل دیکھا کرتا تھا۔ ایک دو بار ہونٹ بھی پھٹے لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدلا، میں اسی ٹیم میں اوپننگ کرنے لگا۔ :)
پھر ٹیم کا کیا حال ہوا یہ بھی بتائیے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
سبھی کچھ تھا اور یہ تو عام ہے!

لیکن میں چھوٹےموٹے کلب لیول کی بات کر رہا تھا۔دو تین ملحقہ محلوں کی "بڑی" ٹیم میں کھیلنا اُس وقت خوابوں جیسا تھا۔ میں نے پہلے چھوٹی ٹیم اور پھر بڑی ٹیم کے ساتھ بیگز اٹھانے والا، اسکورر، بارھواں کھلاڑی اور پھر کبھی کبھی گیارہویں کھلاڑی کے طور پرکرکٹ بال سے کرکٹ کھیلنا شروع کی تھی۔ کبھی بیٹنگ آ جاتی تھی تو پیڈ باندھنے نہیں آتے تھے تو کسی طور فرنٹ لیگ پر پیڈ چڑھا لیتا تھا اور پھر واپس گھر آ کر ٹانگوں پر پڑے نیل دیکھا کرتا تھا۔ ایک دو بار ہونٹ بھی پھٹے لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدلا، میں اسی ٹیم میں اوپننگ کرنے لگا۔ :)
مزید برآں، مجھے اعجاز احمد اور زاہد فضل کو نہ صرف کھیلتے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہوا بلکہ زاہد فضل کے خلاف تو فلڈ لائٹ ٹیپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں کھیلنے کا اتفاق بھی ہوا۔ یہ دونوں اس وقت بھی لوکل اسٹارز تھے اور ان کو دیکھنے کے لیے تماشائی امڈ امڈ پڑتے تھے۔
 

زیک

مسافر
مزید برآں، مجھے اعجاز احمد اور زاہد فضل کو نہ صرف کھیلتے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہوا بلکہ زاہد فضل کے خلاف تو فلڈ لائٹ ٹیپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں کھیلنے کا اتفاق بھی ہوا۔ یہ دونوں اس وقت بھی لوکل اسٹارز تھے اور ان کو دیکھنے کے لیے تماشائی امڈ امڈ پڑتے تھے۔
اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں
اگر آپ نے 92ء کا کرکٹ ورلڈ کپ فالو کیا تھا تو اعجاز احمد اس پاکستانی ٹیم کا اہم رکن تھا اور کافی عرصہ تک پاکستان ٹیم کے ساتھ کھیلا۔ زاہد فضل بھی سیالکوٹ سے آنے والا ایک اچھا کھلاڑی تھا، اٹھان ٹھیک تھی لیکن نیشنل ٹیم کے ساتھ کلک نہیں ہوا۔ ان سے پہلے ظہیر عباس سیالکوٹ سے ایک بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ ایک دعوت میں مجھے ان سے آٹو گراف حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ :)
 

زیک

مسافر
اگر آپ نے 92ء کا کرکٹ ورلڈ کپ فالو کیا تھا تو اعجاز احمد اس پاکستانی ٹیم کا اہم رکن تھا اور کافی عرصہ تک پاکستان ٹیم کے ساتھ کھیلا۔ زاہد فضل بھی سیالکوٹ سے آنے والا ایک اچھا کھلاڑی تھا، اٹھان ٹھیک تھی لیکن نیشنل ٹیم کے ساتھ کلک نہیں ہوا۔ ان سے پہلے ظہیر عباس سیالکوٹ سے ایک بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ ایک دعوت میں مجھے ان سے آٹو گراف حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ :)
گوگل کرنے سے معلوم ہوا کہ دونوں نوے کی دہائی میں کھیلتے تھے۔ اس سے کم از کم یہ تو واضح ہوا کہ میری کرکٹ میں دلچسپی پاکستان ہی میں کم یا ختم ہو گئی تھی۔ اگرچہ 1992 کا ورلڈ کپ کچھ کچھ دیکھا تھا لیکن یاد 1987 والا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
زاہد فضل۔ مجھے ابھی تک وہ میچ ذہن میں ہے، جب وہ ڈی ہائیڈریٹ ہو کر 98 پر پچ کے درمیان گر گیا تھا۔ :)
اب اگر کرکٹ کی یادیں چھڑ ہی گئی ہیں تو یہ کہ کچھ سال قبل اپنے آفس میں زاہد فضل سے ایک کاروباری میٹنگ ہوئی تھی وہ پی آئی اے کے ملازم تھے اور سیالکوٹ میں ان کی ایک لوکل کورئیر کے انچارج تھے، وہ میرے باس کو بھی جانتے تھے(باس صاحب نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رکھی ہے)۔ اس ملاقات میں بھی تذکرہ ہوا تو اسی اننگز کا۔ :)
 
مزید برآں، مجھے اعجاز احمد اور زاہد فضل کو نہ صرف کھیلتے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہوا بلکہ زاہد فضل کے خلاف تو فلڈ لائٹ ٹیپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں کھیلنے کا اتفاق بھی ہوا۔
واہ کینٹ کے ویلفئیر کلب میں ماہ رمضان میں ناک آؤٹ ٹیپ بال ٹورنامنٹ ہوتا تھا، اس میں دو تین بار شرکت کا موقع ملا۔ایک بار پنڈی کی ایک ٹیم سے مقابلہ ہوا تو اس میں سعید انور بھی شامل تھے۔ گو اس وقت قومی سطح پر مشہور نہیں تھے لیکن ٹورنامنٹ میں ان کی دھاک تھی۔
 
شیخوپورہ میں محمد آصف اور رانا نوید الحسن کے خلاف کھیلا ہوں (الگ الگ میچز میں) البتہ دونوں کو ہی فیس کرنے کا شرف نہ حاصل ہو سکا- جبکہ لائلپور میں اعلٰی تعلیم کے دوران محمد طلحٰہ کے ساتھ کھیلا تھا-

مزید برآں، مجھے اعجاز احمد اور زاہد فضل کو نہ صرف کھیلتے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہوا بلکہ زاہد فضل کے خلاف تو فلڈ لائٹ ٹیپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں کھیلنے کا اتفاق بھی ہوا۔ یہ دونوں اس وقت بھی لوکل اسٹارز تھے اور ان کو دیکھنے کے لیے تماشائی امڈ امڈ پڑتے تھے۔
 
یعنی کہ زاہد فضل اپنے دور کا فواد عالم تھا-

زاہد فضل۔ مجھے ابھی تک وہ میچ ذہن میں ہے، جب وہ ڈی ہائیڈریٹ ہو کر 98 پر پچ کے درمیان گر گیا تھا۔ :)

زاہد فضل بھی سیالکوٹ سے آنے والا ایک اچھا کھلاڑی تھا، اٹھان ٹھیک تھی لیکن نیشنل ٹیم کے ساتھ کلک نہیں ہوا۔
 
آخری تدوین:
Top