’ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز‘ ٭ عبد الخالق بٹ

ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انور مری سوچیں علاقائی نہیں​
لسانی اور علاقائی تعصبات کی دیواریں پھلانگتا یہ شعر جناب انور مسعود کا ہے۔ آپ باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں، سو مزاج کی شادابی آپ کی شاعری میں جھلکتی ہے۔
انور مسعود کے ہم نام ہمارے ایک بزرگ دوست محمد انور ہیں جو حلقہ یاراں میں ’انور بھائی‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انور بھائی نے ’مہوش‘ نام کے معنی اور درست تلفظ کے بارے میں پوچھا ہے۔ مگر ہم چاہیں گے کہ پہلے خود ’انور‘ کے معنی پر بات ہو جائے کہ اسے ’مہ‘ سے نسبت ہے۔
لفظ ’انور‘ کی اصل ’نور‘ ہے اور’نور‘ کی جمع ’انوار‘ ہے۔ نور کے معنی ہیں ’روشن‘ جب کہ ’انور‘ کے معنی ہیں ’زیادہ روشن‘۔ اس رعایت سے خوبصورت کو بھی ’انور‘ کہتے ہیں۔
اہل لغت کے مطابق ’نور‘ اس روشنی کو کہتے ہیں جو اشیاء کو دیکھنے میں مدد دیتی ہے۔ وحی الہٰی اور عقل کی روشنی کو اصطلاح میں ’نور معقول‘ جبکہ سورج، چاند اور ستاروں کی روشنی کو ’نورِ محسوس‘ کہتے ہیں۔ یعنی ایک کا تعلق بصیرت سے اور دوسرے کا بصارت سے ہے۔

’نور‘ سے ایک لفظ ’نیّر‘ ہے جس کے معنی ہیں ’نہایت روشن ستارہ‘۔ اس رعایت سے سورج، چاند اور ستاروں کو بھی ’نیّر‘ کہتے ہیں۔
سورج اور چاند کے لیے مشترک لفظ ’نیّرین‘ ہے اور اگر سورج و چاند کے ساتھ ستاروں کو بھی شامل کر لیں تو انہیں ’اجسام نیّرہ‘ بھی کہتے ہیں۔ چونکہ ان ’اجسام نیّرہ‘ میں سورج سب سے زیادہ روشن ہے اس لیے اسے ’نیّراعظم‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس سلسلے کا ایک لفظ ’منیر‘ ہے۔ منیر کے معنی چمکنے اور روشن کرنے کے ہیں۔ قرآن میں ’سِرَاجًا مُّنِیْرًا‘ (روشن چراغ) کے الفاظ ہیں۔
’نور‘ ہی سے لفظ ’مُنوّر‘ بھی ہے۔ ’مُنوّر‘ کے معنی روشن، نورانی، چمکیلا، درخشاں اور تاباں ہیں۔ اس نسبت سے ’مدینۃ المنورہ‘ کے معنی ہوئے ’درخشاں شہر‘۔ اس لفظ کے دیگر معنوں میں ’روشن کرنے اور نور بخشنے والا‘ بھی شامل ہیں۔
minar-mosque-3d-model-3d-model-obj-c4d-mtl.jpg

’نور‘ ہی سے لفظ ’منارہ اور مینار‘ ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

پھر کنایۃً واضح اور صاف بات یا شے کو بھی ’مُنوّر‘ کہتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ’مُنوّر‘کی رعایت سے علامہ اقبال کا ایک شعر ملاحظہ کریں:
يہ پير کليسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سےمنوّر کيے افکار​
’نور‘ ہی سے لفظ ’منارہ اور مینار‘ ہے۔ اس کے معنی ہیں ’روشنی‘ کی جگہ، اصطلاح میں وہ بلند مخروطی عمارت جس پر آگ روشن کی جاتی ہے۔ یہ آگ عموماً رہنمائی کے لیے روشن کی جاتی تھی کہ رات میں خشکی یا سمندر میں سفر کرنے والے اپنی منزل کا تعین کر سکیں۔
اس رعایت سے مجازاً شمع دان اور لیمپ کے سٹینڈ کو بھی ’منارہ‘ کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں ’منارہ‘ کا مترادف لفظ لائٹ ہاؤس ہے۔
اب لفظ ’منوّرہ‘ اور’منارہ‘ کے معنی ذہن میں رکھیں اور کراچی کے جزیرہ نما ’منوڑہ‘ کے نام پر غور کریں جہاں ایک عدد لائٹ ہاؤس بھی ہے، بات آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ ’منوڑہ‘ دراصل ’منورہ یا منارہ‘ کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔
’نور‘ سے پھوٹنے والے الفاظ میں سے ایک لفظ ’تنویر‘ بھی ہے جو ’روشنی اور چمک‘ کے لیے بولا جاتا ہے۔ پھر اسی سلسلے کا ایک لفظ ’تَنُّور‘ ہے۔ ’تَنُّور‘ کا اردو مترادف لفظ ’تندور‘ ہے، جو ممکن ہے ’تنور‘ ہی کے بگاڑ کا نتیجہ ہو۔ روٹی پکانے کے لیے جب تندور میں آگ جلائی جاتی ہے تو یہ روشن ہو جاتا ہے اور اس روشنی کی نسبت سے ’تَنُّور‘ کہلاتا ہے۔
manora_-_tallest_lighthouse_of_pakistan_p11008351.jpg

’منوڑہ‘ دراصل ’منورہ یا منارہ‘ کے بگاڑ کا نتیجہ ہے (فوٹو: وکی پیڈیا)

عربی میں روشنی کے لیے ایک لفظ ’ضیاء‘ بھی آیا ہے۔ اہل لغت نے ضیاء اور نور میں درج ذیل فرق بیان کیا ہے۔
’ضیاء سے مراد ذاتی روشنی اور نور سے مراد دوسرے سے حاصل کی ہوئی روشنی ہے۔ ضیاء زیادہ روشنی اور نور نسبتاً کم روشنی کے لیے آتا ہے۔‘
اس تعریف کے بعد سائنس کی اس دریافت پر غور کریں جس کے مطابق چاند کی روشنی درحقیقت سورج ہی کی روشنی ہے جو منعکس ہو کر زمین تک آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورج کے مقابلے میں چاند کم روشن ہوتا ہے۔
اب تک ہم ’نور‘ سے بحث کر رہے تھے اب کچھ بات ’نار‘ پر بھی ہو جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’نار‘ جس کے معنی ’اگ‘ کے ہیں اس کی اصل بھی ’نور‘ ہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ نور میں لطافت ہے اور ’نار‘ میں حرارت ہے۔
ان دونوں کا مشترکہ مفہوم ’روشنی‘ ہے۔ دونوں ایک ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں اس بات کو میر انیس کے ایک شعر سے سمجھیں:
نار سے نور کی جانب اسے لائی تقدیر
ابھی ذرّہ تھا ابھی ہو گیا خورشیدِ منیر​
1930f189e7bd93e5a801ba164251437f830866dc.jpg

زمانہ قدیم ہی سے بچوں اور محبوب کو چاند سے نسبت دی جاتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اب’مہوش‘ کے تلفظ اور معنی کی بات ہو جائے۔’مہوش‘ فارسی زبان کی ترکیب ہے۔ اس کا تلفظ ’مَہْ وَشْ‘ (mahvash) ہے، جسے ہمارے یہاں ’میم اور واؤ‘ کے زیر کے ساتھ مِہْ وِشْ (mehvish) کہتے ہیں جو درست نہیں۔
اس نام کا پہلا جز ’مَہ‘ اصل میں ماہ (چاند) کی مختصر صورت ہے جبکہ ’وَش‘ کے معنی ہیں ’مانند اور جیسا‘۔ یوں ’مَہ وَش‘ کا مطلب ہوا چاند جیسا یا چاند کی طرح۔ مجازاً خوش شکل اور خوب صورت کو ’مہ وش‘ کہا جاتا ہے۔
زمانہ قدیم ہی سے بچوں اور محبوب کو چاند سے نسبت دی جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ اردو اور ہندی میں بھی ہے۔’چاند سا مکھڑا‘ اور’چاند چہرہ‘ کی ترکیبیں اسی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ مرزا سلامت علی دبیر کا شعرہے:
زیر قلم ہے حسن کا کشورازل سے آہ
چہرے کو چاند کہتے ہیں سب صاحب نگاہ​
چونکہ اردو کے مقابلے میں فارسی عمر اور تجربے میں بڑھی ہوئی ہے، اس لیے فارسی میں ’ماہ/مہ‘ کے اشتراک سے بہت سی خوبصورت ترکیبیں رائج ہیں مثلاً ’ماہ رُخ، ماہ رُو، ماہ پارہ، مہ پیکر، مہ جبین، مہ سا، مہ سِیما اور مہ لَقا‘ وغیرہ۔ فارسی کی رعایت سے یہ ساری تراکیبیں اردو میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ حیدر علی آتش کہہ گئے ہیں:
ساقی ہے یار ماہ لقا ہے شراب ہے
اب بادشاہِ وقت ہیں اپنے مکاں میں ہم​
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر چاند کو ’ماہ‘ کہتے ہیں تو پھر ’مہینہ‘ کس حساب میں ’ماہ‘ کہلاتا ہے؟
l_226695_083155_updates.jpg

’تَنُّور‘ کا اردو مترادف لفظ ’تندور‘ ہے، جو ممکن ہے ’تنور‘ ہی کے بگاڑ کا نتیجہ ہو (فوٹو: اے ایف پی)

عرض ہے کہ انسان نے صدیوں پہلے چاند کے طلوع و غروب کا مشاہدہ کیا اور اس کی منزلوں کو شمار کرنے کے بعد دن، ہفتہ، مہینہ اور سال کا حساب مقرر کیا۔
چونکہ ماہ یا چاند کی پیدائش سے معدوم ہونے کے بعد دوبارہ ظاہر ہونے کا درمیانی عرصہ 29-30 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے اس مدت کو ’ماہ‘ کی نسبت سے ’ماہ‘ ہی کا نام دیا۔
اب خود لفظ ’مہینہ‘ پر غور کر لیں اس کے ابتدائی دو لفظ ’مہ‘ چاند ہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ انگریزی میں چاند Moon ہے اور اس نسبت سے مہینہ month ہے۔
قدیم عربی زبان میں چاند کو ’ارخ‘ کہتے ہیں، اسی سے لفظ ’تاریخ‘ بنا ہے۔’تاریخ‘ اپنے وسیع معنی میں ماہ و سال کے شمار کا نام ہے۔ یہ اسی معنوی وسعت کا نتیجہ ہے کہ لفظ ’تاریخ‘ ایک طرف Date کے اور دوسری طرف History کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
چاند کو عربی میں ’قمر‘ بھی کہتے ہیں، یوں قمر کی نسبت سے قمری سال یا قمری تقویم (lunar calendar) کی اصطلاح عام استعمال ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کہ تاریخ کے صفحے پلٹنے لگ جائیں ’عدالتی تاریخ‘ پر فرید آباد (انڈیا) کے ’آلوک یادو‘ کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں:
تاریخ پہ تاریخ بدل دے نہ گواہی
منصف ہی عدالت کا بدل جائے تو اچھا​
٭٭٭
عبد الخالق بٹ
مضمون کا ربط
 
مضمون کا عنوان کے ساتھ ربط پیدا کرنے میں کافی مشکل پیش آ رہی ہے۔
بلکہ مضمون کے اجزاء کا ہی ایک دوسرے سے ربط پیدا کرنے میں اس سے زیادہ مشکل پیش آ رہی ہے۔ :confused:
ان کے سب مضامین میں یہی انداز نمایاں ہے۔ مقصد مختلف الفاظ پر تحقیق ہے اور اس تحقیق کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرنا ہے۔
بہرحال باہمی ربط ہو تو زیادہ بہتر ہو گا۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لفظ نیّر میں جو ی ہے اس پر اصل میں زیر کی حرکت ہے یعنی نئی یِر ۔ لیکن اردو بولنے والے ی پر عام طور پر ی پر زبر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔
ایسا ہی عموماََ لفظ سیّد اور جیّد کے ساتھ ہوتا ہے ۔
اصل تلفظ سئی یِد اور جئی یِد ہے ۔
بر سبیل تذکرہ ۔
 

سید عمران

محفلین
ویسے عبد الخالق بٹ صاحب نے انور صاحب کے نام کی تشریح کے بہانے ان کے جس جس طرح زمین آسمان کے قلابے ملائے ہیں اگر یہ کسی حکمران کے ہتھے چڑھ جائیں تو آنے والے مورخ لکھیں گے کہ اِس جیسا حکمران دنیا میں نہ کبھی پیدا ہوا ہے نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے!!!
:doh::doh::doh:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ اطہر ہاشمی صاحب کے شاگرد ہیں۔ الفاظ پر تحقیق کرتے ہیں اور پھر انھیں ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ :)
تابش بھائی ، الفاظ کی تحقیق تک تو بات ٹھیک ہےلیکن کسی تحقیقی مضمون میں کوئی بے دلیل بات نہیں لکھنی چاہئے ۔ منوڑہ کے بارے میں مصنف نے بہت ہی لمبی (اور بغیر تحقیق کے) چھلانگ لگادی ہے ۔
اب لفظ ’منوّرہ‘ اور’منارہ‘ کے معنی ذہن میں رکھیں اور کراچی کے جزیرہ نما ’منوڑہ‘ کے نام پر غور کریں جہاں ایک عدد لائٹ ہاؤس بھی ہے، بات آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ ’منوڑہ‘ دراصل ’منورہ یا منارہ‘ کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔

کراچی بندرگاہ کو انگریزوں نے 1839 میں فتح کیا اور 1889 میں منوڑہ کے جزیرے پر موجودہ لائٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا ۔ اس سے پہلے اس جزیرے پر کسی لائٹ ہاؤس کے ہونے کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔ (یعنی عربوں یا سندھیوں نے اس جگہ کوئی "منارہ" تعمیر نہیں کروایا تھا کہ جو بعد میں بگڑ کرمنوڑہ بن جاتا) ۔ اگر آپ 1839سے بھی پہلے کے سندھ کے پرانے نقشوں کو دیکھیں تو Munora نام کا جزیرہ ہر نقشے میں موجود ہے ۔ یعنی منوڑہ کا یہ نام لائٹ ہاؤس کی تعمیر سے بہت پہلے کا ہے ۔ ثبوت اور تفصیل کے لئے www.oldmapsonline.org کی ویب گاہ پر سندھ اور بلوچستان کے پرانے نقشے دیکھنا کافی ہوگا ۔
بس بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ نے جہاں علم کو عام کیا ہے وہاں کسی حد تک سنجیدہ تحقیق کو نقصان بھی پہنچایا ہے ۔ حوالہ جات دینے کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ سو لوگ باگ یہ بھولتے جارہے ہیں کہ کسی دعوے کو پرکھنے کے لئے حوالہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ رحجان بہت خطرناک ہے ۔
 
تابش بھائی ، الفاظ کی تحقیق تک تو بات ٹھیک ہےلیکن کسی تحقیقی مضمون میں کوئی بے دلیل بات نہیں لکھنی چاہئے ۔ منوڑہ کے بارے میں مصنف نے بہت ہی لمبی (اور بغیر تحقیق کے) چھلانگ لگادی ہے ۔


کراچی بندرگاہ کو انگریزوں نے 1839 میں فتح کیا اور 1889 میں منوڑہ کے جزیرے پر موجودہ لائٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا ۔ اس سے پہلے اس جزیرے پر کسی لائٹ ہاؤس کے ہونے کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔ (یعنی عربوں یا سندھیوں نے اس جگہ کوئی "منارہ" تعمیر نہیں کروایا تھا کہ جو بعد میں بگڑ کرمنوڑہ بن جاتا) ۔ اگر آپ 1839سے بھی پہلے کے سندھ کے پرانے نقشوں کو دیکھیں تو Munora نام کا جزیرہ ہر نقشے میں موجود ہے ۔ یعنی منوڑہ کا یہ نام لائٹ ہاؤس کی تعمیر سے بہت پہلے کا ہے ۔ ثبوت اور تفصیل کے لئے www.oldmapsonline.org کی ویب گاہ پر سندھ اور بلوچستان کے پرانے نقشے دیکھنا کافی ہوگا ۔
بس بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ نے جہاں علم کو عام کیا ہے وہاں کسی حد تک سنجیدہ تحقیق کو نقصان بھی پہنچایا ہے ۔ حوالہ جات دینے کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ سو لوگ باگ یہ بھولتے جارہے ہیں کہ کسی دعوے کو پرکھنے کے لئے حوالہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ رحجان بہت خطرناک ہے ۔
جزاک اللہ خیر۔
میری کوشش رہے گی کہ مضمون نگار تک درست معلومات پہنچ جائیں۔ :)
 

محمد سعد

محفلین
بس بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ نے جہاں علم کو عام کیا ہے وہاں کسی حد تک سنجیدہ تحقیق کو نقصان بھی پہنچایا ہے ۔ حوالہ جات دینے کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ سو لوگ باگ یہ بھولتے جارہے ہیں کہ کسی دعوے کو پرکھنے کے لئے حوالہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ رحجان بہت خطرناک ہے ۔
یہ معاملات پہلے بھی ہوتے تھے۔ انٹرنیٹ نے بس پڑھنے والوں کو یہ چیزیں بہ آسانی پرکھنے کے قابل بنا دیا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
یہ تو جب تک خود کو یاددہانی کراتے رہیں گے کہ سامنے آنے والی شے غلط بھی ہو سکتی ہے، تب تک جانچنے کے عمل میں کچھ نہ کچھ دلچسپی بھی قائم رہے گی۔ دلچسپی ہو گی تو کبھی کبھار تھوڑی تن آسان طبعیت کو بھی زحمت دے دیا کریں گے۔
 
Top