’سی آئی اے ایجنٹس‘ کے خلاف کریک ڈاؤن، متعدد گرفتار

ساجد

محفلین
ایک بار پھر اردو فورمز اور پاکستان کا میڈیا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کی "گرج چمک" کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ تکنیکی "ڈرون حملے" اب بے اثر ہیں۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ سازشی نظریات کی رٹ لگانے کی بجائے معاملے پہ غور کریں۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور اسی زبان کے فورمز پہ ہی عامتہ الناس کے جذبات کا بہتر اظہار ملے گا۔ اگر یہاں تسلی نہیں ہوتی تو آج کا نیٹ اور پرنٹ میڈیا خواہ کسی زبان میں بھی ہو پاکستان میں کروائے گئے سروے کے نتائج سے بھرا پڑا ہے ، کیا اسے بھی سازشی نظریہ کہہ کر جھٹکنے کی گنجائش ہے؟۔ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھئیے اور ہوا کے مخالف رخ اڑنے کی کوشش نہ کیجئیے۔
طالبان کے مظالم سے انکار نہیں لیکن ان کی آڑ میں جس جارحیت کا ارتکاب بار بار کیا جاتا ہے وہ بجائے خود ایک بین الاقوامی جرم ہے۔ اور اسی وجہ سے امریکہ کے خلاف پاکستانی عوام میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

طالبان کے مظالم سے انکار نہیں لیکن ان کی آڑ میں جس جارحیت کا ارتکاب بار بار کیا جاتا ہے وہ بجائے خود ایک بین الاقوامی جرم ہے۔


اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں ہے کہ ہم ان بے رحم مجرموں کا تعاقب پوری استقامت اور تندہی سے کر رہے ہيں جو دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا کر انھيں قتل کر رہے ہيں۔ يہ ہمارا واضح کردہ ايجنڈا اور ہدف ہے۔ ليکن اس کاوش ميں ہم تنہا نہیں ہيں۔ ہميں عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی مکمل حمايت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کی تائيد اور تعاون بھی حاصل ہے۔ اس تناظر ميں آپ کا يہ دعوی کہ ہم پاکستان میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہيں، اس ليے بھی درست نہيں ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر سيکورٹی کے امور کے لیے کلی طور پر خودمختار ہے۔ ہم پاکستان کی حکومت کی درخواست پر ہی فوجی امداد، لاجسٹک سپورٹ اور وسائل کی شراکت داری کے صورت ميں تعاون اور مدد فراہم کر رہے ہیں۔

ميں نے متعدد بار يہ واضح کيا ہے کہ پاکستان کے عام شہری ہمارا ہدف ہرگز نہيں ہیں۔ بدقسمتی سے يہ القائدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کا خود بيان کردہ نصب العين ہے۔ خطے میں ہماری کاروائ ان عناصر کے خلاف ہے جو بچوں کو خود کش حملہ آور بنا کر معصوم شہريوں کا قتل عام کر رہے ہيں۔ لیکن ہماری کوششيں پاکستان کی حکومت، سول اور فوجی انتظاميہ کی مرضی کے بغير ہرگز نہيں ہیں۔

ميں پاکستان کے فورمز پر شدت کے ساتھ پيش کيے جانے والے اس غلط تاثر اور غیر متوازن دليل سے واقف ہوں جس کے تحت يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں ہے اور پاکستانی شہری اپنی سرزمين پر محض امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں، جس کا مقامی آبادی کو کوئ فائدہ نہيں ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے واقعات نے يہ ثابت کر ديا ہے کہ ہميں اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت نہ صرف يہ کہ پاکستانی معاشرے کو گہنا رہی ہے بلکہ اس کی جڑيں اب قباۂلی علاقوں سے نکل کر شہروں تک پہنچ چکی ہيں۔

القائدہ کی قيادت کے بيانات اور عوامی موقف کے برعکس، امريکہ اور اس کے شہری دہشت گردی کی اس مہم کے واحد ہدف ہرگز نہيں ہیں۔ حقائق اس سے بالکل مختلف ہيں۔

پاکستان ميں وہ سينکڑوں خود کش حملے جن کی بدولت معاشرے کی بنياديں ہل کر رہ گئ ہيں، ان میں کتنے امريکی شہری ہلاک ہوئے ہيں؟ اسی طرح افغانستان ميں دانستہ اور بلاتفريق بے گناہ شہريوں کی ہلاکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دہشت گرد صرف امريکہ ہی کے خلاف حالت جنگ ميں نہيں ہیں۔

ايک متوازن اور تعميری تجزيے کے لیے ضروری ہے آپ امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف ايک ايسی کوشش کے حوالے سے تنقيد پر ہی بضد نہ رہيں جس ميں حکومت پاکستان سميت اقوام متحدہ کے ممبران کی اکثريت شامل ہے بلکہ دہشت گردی کے اس عفريت کا قلع قمع کرنے کی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھيں جس سے تمام سياسی اور مذہبی افکار سے منسلک پوری دنيا کے پرامن شہريوں کے ليے يکساں خطرہ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

طالوت

محفلین
Thank God I am NOT AMERICAN
سامراجی گماشتے زور زبردستی تو کر سکتے ہیں مگر قائل نہیں کر سکتے ۔ اسی لئے فورمز کے علاوہ سڑکوں پر بھی امریکہ کی سخت مخالفت کی جاتی ہے ۔ مسٹر فواد کیا حکومت امریکہ جانتی ہے کہ صرف اسلامی دنیا میں ہی کتنے فیصد عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں ، میں لاطینی امریکہ ، افریقہ یا دیگر ایشیائی لوگوں کی بات نہیں کر رہا اگر اس سب کو ملایا جائے تو یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ یقیننا شرم سے ڈوب مرے ۔ امریکی محبت و التفات سے پہلے پاکستان دنیا کے بے شمار ملکوں سے زیادہ پر امن تھا ۔ اب اس تاریخ کو کیا دہرانا جس کے سبب امریکہ اور اس کے اتحادی ملا و ملٹری نے پاکستان کا ستیاناس کیا جس کے تحت بدکار یا بدی کی محور ریاست کے خلاف حالیہ دہشت گرد اور سابقہ مجاہد اسامہ بن لادن اور اس کے غیرت مند مگر عقل سے پیدل مقتدروں اور اسلحے و منشیات کے بین الاقوامی مجرموں نے پاکستان کو دہشت گردی اور منشیات میں پوری طرح ڈبو دیا ہے۔
امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ مادی برتری کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امریکی تہذیب (اگر ہے تو) بھی دنیا بھر میں برتر ہے ۔ دنیا کو زیادہ عرصے تک نہ تو ڈرایا جا سکتا ہے نا گرایا ۔ یہ نفرت اس وقت تک جاری رہے گی اور آئندہ نسلوں کو منتقل ہوتی رہے گی جب تک ینکیز کا دماغ درست نہیں ہوتا اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر معذرت خواہ ہو کر اپنا قبلہ درست نہیں کرتے ۔
گڈ لک ۔:rolleyes:
 

سویدا

محفلین
اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں ہے کہ ہم ان بے رحم مجرموں کا تعاقب پوری استقامت اور تندہی سے کر رہے ہيں جو دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا کر انھيں قتل کر رہے ہيں۔ يہ ہمارا واضح کردہ ايجنڈا اور ہدف ہے۔ ليکن اس کاوش ميں ہم تنہا نہیں ہيں۔ ہميں عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی مکمل حمايت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کی تائيد اور تعاون بھی حاصل ہے۔ اس تناظر ميں آپ کا يہ دعوی کہ ہم پاکستان میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہيں، اس ليے بھی درست نہيں ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر سيکورٹی کے امور کے لیے کلی طور پر خودمختار ہے۔ ہم پاکستان کی حکومت کی درخواست پر ہی فوجی امداد، لاجسٹک سپورٹ اور وسائل کی شراکت داری کے صورت ميں تعاون اور مدد فراہم کر رہے ہیں۔

ميں نے متعدد بار يہ واضح کيا ہے کہ پاکستان کے عام شہری ہمارا ہدف ہرگز نہيں ہیں۔ بدقسمتی سے يہ القائدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کا خود بيان کردہ نصب العين ہے۔ خطے میں ہماری کاروائ ان عناصر کے خلاف ہے جو بچوں کو خود کش حملہ آور بنا کر معصوم شہريوں کا قتل عام کر رہے ہيں۔ لیکن ہماری کوششيں پاکستان کی حکومت، سول اور فوجی انتظاميہ کی مرضی کے بغير ہرگز نہيں ہیں۔

ميں پاکستان کے فورمز پر شدت کے ساتھ پيش کيے جانے والے اس غلط تاثر اور غیر متوازن دليل سے واقف ہوں جس کے تحت يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں ہے اور پاکستانی شہری اپنی سرزمين پر محض امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں، جس کا مقامی آبادی کو کوئ فائدہ نہيں ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے واقعات نے يہ ثابت کر ديا ہے کہ ہميں اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت نہ صرف يہ کہ پاکستانی معاشرے کو گہنا رہی ہے بلکہ اس کی جڑيں اب قباۂلی علاقوں سے نکل کر شہروں تک پہنچ چکی ہيں۔

القائدہ کی قيادت کے بيانات اور عوامی موقف کے برعکس، امريکہ اور اس کے شہری دہشت گردی کی اس مہم کے واحد ہدف ہرگز نہيں ہیں۔ حقائق اس سے بالکل مختلف ہيں۔

پاکستان ميں وہ سينکڑوں خود کش حملے جن کی بدولت معاشرے کی بنياديں ہل کر رہ گئ ہيں، ان میں کتنے امريکی شہری ہلاک ہوئے ہيں؟ اسی طرح افغانستان ميں دانستہ اور بلاتفريق بے گناہ شہريوں کی ہلاکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دہشت گرد صرف امريکہ ہی کے خلاف حالت جنگ ميں نہيں ہیں۔

ايک متوازن اور تعميری تجزيے کے لیے ضروری ہے آپ امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف ايک ايسی کوشش کے حوالے سے تنقيد پر ہی بضد نہ رہيں جس ميں حکومت پاکستان سميت اقوام متحدہ کے ممبران کی اکثريت شامل ہے بلکہ دہشت گردی کے اس عفريت کا قلع قمع کرنے کی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھيں جس سے تمام سياسی اور مذہبی افکار سے منسلک پوری دنيا کے پرامن شہريوں کے ليے يکساں خطرہ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

طالبان اور امریکہ میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ طالبان دانستہ معصوم شہری اور عوام کو مار رہے ہیں جبکہ امریکہ نادانستہ طور پر ان کو ہلاک کررہا ہے
معصوم شہری جو خود کش حملوں میں ہلاک ہوئے یا ڈرون حملوں میں ان کی تعداد برابر ہے بلکہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے معصوم انسان تعداد میں زیادہ ہیں
اہل پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے نتیجہ یہی ہے کہ طالبان ہو یا امریکہ دونوں ایک ہی ہیں
 
Thank God I am NOT AMERICAN
سامراجی گماشتے زور زبردستی تو کر سکتے ہیں مگر قائل نہیں کر سکتے ۔ اسی لئے فورمز کے علاوہ سڑکوں پر بھی امریکہ کی سخت مخالفت کی جاتی ہے ۔ مسٹر فواد کیا حکومت امریکہ جانتی ہے کہ صرف اسلامی دنیا میں ہی کتنے فیصد عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں ، میں لاطینی امریکہ ، افریقہ یا دیگر ایشیائی لوگوں کی بات نہیں کر رہا اگر اس سب کو ملایا جائے تو یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ یقیننا شرم سے ڈوب مرے ۔ امریکی محبت و التفات سے پہلے پاکستان دنیا کے بے شمار ملکوں سے زیادہ پر امن تھا ۔ اب اس تاریخ کو کیا دہرانا جس کے سبب امریکہ اور اس کے اتحادی ملا و ملٹری نے پاکستان کا ستیاناس کیا جس کے تحت بدکار یا بدی کی محور ریاست کے خلاف حالیہ دہشت گرد اور سابقہ مجاہد اسامہ بن لادن اور اس کے غیرت مند مگر عقل سے پیدل مقتدروں اور اسلحے و منشیات کے بین الاقوامی مجرموں نے پاکستان کو دہشت گردی اور منشیات میں پوری طرح ڈبو دیا ہے۔
امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ مادی برتری کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امریکی تہذیب (اگر ہے تو) بھی دنیا بھر میں برتر ہے ۔ دنیا کو زیادہ عرصے تک نہ تو ڈرایا جا سکتا ہے نا گرایا ۔ یہ نفرت اس وقت تک جاری رہے گی اور آئندہ نسلوں کو منتقل ہوتی رہے گی جب تک ینکیز کا دماغ درست نہیں ہوتا اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر معذرت خواہ ہو کر اپنا قبلہ درست نہیں کرتے ۔
گڈ لک ۔:rolleyes:

معذرت کے ساتھ۔
یانکیز نے ایک دنیا فتح کی ہوئی ہے۔ یانکیز کی ٹیکنالوجی برتر ہے۔ یانکیز کی کپڑے پہن کر اپ فخر محسوس کرتے ہیں اور یانکیز کے طور طریقہ اپنا کر برتر محسوس کرتے ہیں۔ یانکیز ہی ہیں جو دنیا بھر میں صحت و ماحول کے پروگرامز کو پروموٹ کرتے ہیں۔ یانکیز ہی ہیں جب زلزلہ اتا ہے تو سب سے پہلے پہچتے ہیں۔ اگر یانکیز نے ایٹم بم مارے اور کئی ممالک تباہ کئے تو کوئی ان کا کچھ نہ بگاڑسکا۔ یانکیز کے طیارہ بردار جہاز دنیا بھر میں گھومتے ہین۔ ٰیانکیز کے جاسوس بننے میں ہم فخر کرتے ہیں۔ کیا کیا گنواوں۔ پھر یانکیز کی یونی ورسٹیز میں ہم پڑھتے ہیں اور وہاں کی شہریت بھی حاصل کرتے ہیں اگرچہ دوسرے درجے کی ہی نہ ہو۔ پھر مختلف فورمز میں اپنے (سابقہ) وطن اور ہم وطنوں کو طعنہ مارتے ہیں اور ان کو نکما خیال کرتے ہیں۔ کیا کیا گنواوں۔ پھر بھی اپ کو یانکیز برے لگ رہے ہیں؟
 
طالبان اور امریکہ میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ طالبان دانستہ معصوم شہری اور عوام کو مار رہے ہیں جبکہ امریکہ نادانستہ طور پر ان کو ہلاک کررہا ہے
معصوم شہری جو خود کش حملوں میں ہلاک ہوئے یا ڈرون حملوں میں ان کی تعداد برابر ہے بلکہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے معصوم انسان تعداد میں زیادہ ہیں
اہل پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے نتیجہ یہی ہے کہ طالبان ہو یا امریکہ دونوں ایک ہی ہیں

ایک اور بڑا فرق ہے۔
امریکی مارتے ہیں اور مدعا دوسرے پر دھرتے ہیں۔ امریکی فنکاری کا کوئی جواب نہیں۔
 

طالوت

محفلین
ینکیز اگر اچھا کریں تو ان کو فالو بھی کیا جائے گا اور ان کی برتری بھی تسلیم کی جائے گی اس میں کوئ قباحت نہیں لیکن ینکیز کا استحصالی رویہ جب جب سامنے آئے گا (جو کہ عمومی طور پر ہے) اس کی مذمت بھی اسی شدت سے ہو گی۔ اور یہ اصطلاح میں نے استحصالی رویے پر ہی استعمال کی ہے۔
 
Top