الوداعی تقریب ۔ ۔ ۔ ۔ عجب علاقہ ہے آئنوں کا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دن اپنی تمام مصروفیات کو اپنے ساتھ لیے ڈھل چکا ہےاور شام کا لبادہ آہستہ آہستہ دبیز تر ہوتا جارہا ہے۔ دن بھر کی تھکی ماندی پُرشور ساعتیں تھک کراب رات کی پرسکون گود میں پناہ ڈھونڈنے لگی ہیں ۔میں بھی اپنے کمپیوٹرکی اُجلی اسکرین کے سامنے کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا ہوں تاکہ مریم افتخار کا خاکہ لکھ سکوں۔ آنلائینے کا تقاضا ہے کہ مریم افتخار کے مراسلہ جات میں ان کی شخصیت کے کچھ عکس تلاش کیے جائیں اور پھر اُن میں اپنی مرضی کے کچھ رنگ اضافہ کیے جائیں۔
لیکن رنگ بھرنے کا یہ کام مجھے ہوتا نظر نہیں آتا-
یہ نہیں کہ میرے پاس رنگوں کی کمی ہے یا میرا برش تھک چکا ہے۔ نہیں !ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہےکہ مریم افتخار کا کوئی عکس آنکھوں کے آگے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر پا رہا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے کسی عکس کا بغور جائزہ لے سکوں ، نئے رنگوں اور نئے نقوش سے مزین ایک اور دیدہ زیب عکس پردے پر اُس کی جگہ جھلملانے لگتا ہے۔ میں ابھی اُس عکس کی کی شباہت اپنے ذہن میں محفوظ کر ہی رہا ہوتا ہوں کہ یکایک پہلے سے مختلف ، گہرا اور خوب تر ایک اور نیا عکس اُس کی جگہ اُبھر آتا ہے۔ میں اپنے آئینے کا زاویہ تبدیل کرتا ہوں کہ شاید اس طرح کوئی عکس اس میں ٹھہر جائے ۔ لیکن کچھ بھی نہیں بدلتا ۔ بس رنگ بدلتے درجنوں عکس مختلف سمتوں اور زاویوں سے اسی طرح جھمک جھمک کر آئینے کو منور کرتے رہتے ہیں ۔ رنگوں اور روشنیوں کا یہ طلسمات مجھے حیران کیے جاتا ہے۔ ایک چہرے میں اتنی مختلف شباہتیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟ میں تعجب سے سوچتا ہوں ۔
مجھے دس سال پہلے کا ایک عکس نظر آتا ہے کہ جب مریم افتخار پہلی بار اردو محفل پر آئیں۔ بزمِ سخن میں ایک غزل کا جھماکا ہوتا ہے۔ تمام خداوندانِ سخن چونک اٹھتے ہیں:
درد اتنا ہے کہ رگ رگ کو جلاتا جائے
دل وہ پاگل ہے کہ ہر رسم نبھاتا جائے
ہائے! ایسا کلاسیکی انداز اور ایک نووارد غیر معروف شاعرہ کے سخن میں !! یہ نوعمری اور ایسا گہرا احساس!!! آثار اچھے نہیں لگتے !
یہ خاتون بساطِ قرطاس و قلم پر آتے ہی اپنے نقش بکھیرنے لگتی ہیں ۔ جلد ہی ان کے لفظوں میں ظالمانہ روایات اور جبرکےخلاف بغاوت کے رنگ نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ جشنِ آزادی کے موقع پر جب سارے سخنور وطن کے تقدس اور آزادی کے گیت گارہے تھے تو ان کی صدا اٹھی:
یہ میرے گرد ہے کیسا جہانِ آزادی
جہاں نہیں کوئی نام و نشانِ آزادی
اِسی میں خوش ہو اگر ، تو تمہیں مبارک ہو
یہ اہتمام ، یہ جشنِ گمانِ آزادی!
سب چونک گئے ۔ یہ کیسی آواز ہے ۔ کتنی سچائی ہے اس آواز میں ! خدا خیر کرے ، بغاوت اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی ، صدائےاختلاف ٹھیک نہیں۔ اللہ انہیں اپنی امان میں رکھے!
پھر میں بزمِ سخن سے مڑ کر نثر کے زمرے کی طرف دیکھتا ہوں ۔ یہ کیا؟! یہاں بھی مریم افتخار کے کئی عکس جھلک رہے ہیں ۔ سنجیدہ موضوع اور پختہ فکر لیے ان کی تحریریں پہلے ہی روز کسی دانشمند کو یہ کہنے پر مجبور کرگئیں کہ اتنی تیز نظر اور حساس دل ہے تو ڈر ہے زندگی کے تلخابوں کو پی پی کر ان کا اپنا لہجہ تلخ نہ ہو جائے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جہاں ان کا قلم سماجی مسائل اور حقوقِ نسواں کے موضوعات پر کرنیں افشاں کرتا نظر آتا ہے وہیں ان کے قلم سے طنز و مزاح کی دھنک بھی جابجا پھوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے ان کے قلم کے تعاقب میں جانا چاہیے ۔ یہ قلم کس کس دشت میں لفظ گردی کرتا ہے ، دیکھنا چاہیے۔ لیکن میں کچھ ہی دیر میں تھک جاتا ہوں ۔ میں اتنا تیز نہیں دوڑ سکتا۔ یا خدا! اتنی رفتار اور اتنا تنوع! ! شاعری ، نثر نگاری ، دوست داری ، گپ شپ ، ساتھ ہی ساتھ کسی رکن کا انٹرویو لیا جارہا ہے ۔ کسی کو مبارکباد دی جارہی ہے تو کہیں سفرنامے کی جھلکیاں دکھائی جارہی ہیں ۔ نت نئے دھاگے کھولے جارہے ہیں ۔ غرض کون سا زمرہ ہے کہ جس میں یہ قلم ایک سی تیز رفتاری اور ربط و ضبط کے ساتھ چلتا نہیں نظر آتا ۔ ہر طرف ان کی خوش اخلاقی ، ادب اور محنت کی دھوم ہے ۔ ہر دلعزیز ، مقبول اور پسندیدہ!
پھر ایک عکس نظر آتا ہے کہ انتظامیہ نے انہیں مدیر بنادیا۔ یہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ہر ہر چیلنج قبول کیے جاتی ہیں ۔ محفل کی تیرہویں سالگرہ ہے ۔ سب محفلین مل کر دو ملین مراسلات کی طرف مارچ کر رہے ہیں ۔ میں ادھر ادھر ڈھونڈتا ہوں ۔ مریم افتخار کہیں نظر نہیں آتیں ۔ یا حیرت! کہاں چلی گئیں ۔ نہیں ، نہیں ، کہیں بھی نہیں گئیں۔ سب سے آگے جھنڈا اٹھائے تیزی سے بغیر رکے ہدف کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں ۔ کسی کو آہستہ نہیں ہونے دیتیں ۔ یا خدا ! اتنی توانائی ، اتنا جذبہ ! میں حیران ہوتا جاتا ہوں ۔ اس سفر کے دوران ان کی شخصیت کے کتنے ہی رنگ برنگے عکس اپنی جھلک دکھانے لگتے ہیں ۔ ایک لڑی میں اپنی مصوری تو دوسری میں خوش خطی کے نمونے دکھارہی ہیں ۔ اپنی فوٹو گرافی کا دھاگا الگ بنا رکھا ہے۔ کہیں پھول ہیں ، کہیں بادلو ں کے منظر اور کہیں غروبِ آفتاب کی شفق!
پھر سن ۲۰۲۰ء آگیا ۔ محفل پر انہیں آئے چار سال گزر گئے۔ لیکن یہ کیا! یکایک آئینہ بے عکس ہوجاتا ہے۔ خالی اور بے رنگ! مریم افتخار محفل سے رخصت ہوگئیں ۔ تعلیمی ذمہ داریوں کا احساس اورعملی زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن ان کی انگلی پکڑ کر کتابوں کی طرف لے گئی۔ دل سے دعا نکلتی ہے اللہ کریم اس دخترِ عزیز کو اپنی امان میں رکھنا ، کامیابیاں دینا! پھر اگلے پانچ سال تک ایک آدھ لمحے کے لیے کبھی کبھار کوئی جھلک نظر آتی ہے ورنہ آئینہ ہر عکس سے خالی ہے !
میں خوش ہونے لگتا ہوں ۔ اب شاید میں کچھ لکھ سکوں گا۔
لیکن یہ کیا !!!
آئینہ یکایک کسی وڈیو کی طرح تیز رفتاری سے رنگ برنگ جھلکتے جھمکتے عکس دوبارہ سے دکھانے لگتا ہے۔ مریم افتخار واپس محفل پر لوٹ آئیں ۔ ۲۰۲۵ کا سال ہے۔ محفل بند ہونے کا اعلان ہوچکا ہے۔ سب اراکین دل گرفتہ ہیں ۔ چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔لیکن وہ اعلان کرتی ہیں: باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل! لوگوآ ادھر آؤ ، ہنسو ، بولو ، گیت گاؤ کہ زندگی ابھی سانس لیتی ہے ۔ ایک ایک کرکے سب کو بلا بلا کر علَمِ امید کے گرد جمع کر رہی ہیں ۔ ہر روز نئے دھاگے ، نئے آئیڈیاز ۔ محفل کی رفتار میں آئی بلا کی تیزی! ایسا لگ رہا ہے کہ مریم افتخار نہیں بلکہ کسی روبوٹ نے محفل کی کمان سنبھال لی ہے۔ اِس دفعہ ان کا قلم برق رفتار ہی نہیں برق آثار بھی ہے ۔ پانچ سالوں میں سوچ اور فکر نے پختگی کےوہ مراحل طے کیے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ ہیں ۔ مشاہدے میں گہرائی ہے ، تجزیے میں توازن اور تحریر میں دلائل کے انبار ! ماسٹریٹ تو پہلے ہی کرچکی تھیں اب پی ایچ ڈی کی تیاری ہے۔
آہ! اس بار تو کوئی عکس آئینے میں ایک لمحے سے زیادہ ٹھہرتا ہی نہیں ۔
ولایت ہو آئی ہیں ۔ وہاں کے قصے اور باتصویر سفرنامے ساتھ لائی ہیں ۔محفلین کو پہلے کی طرح اپنے ساتھ مصروف کر رکھا ہے ۔ ہر ایک کی فکر بھی ہے ۔ کسی کی سالگرہ بھول نہ جائے۔ کوئی مبارکبادی دھاگا بندھنے سے نہ رہ جائے۔ ہر ہر مراسلے کو مثبت ریٹنگ دیتی جاتی ہیں۔ ایک طرف مختلف فکری موضوعات پر مدلل مباحثے ہیں تو دوسری طرف ہلکی پھلکی گفت و شنید کے دائرے ہیں ۔ کہیں بپاسِ خاطرِ یاراں انتخابات کروائے جارہے ہیں تو کہیں کسوٹی پر مزاجِ یاراں کو پرکھا جارہا ہے ۔ ایک ہنگامہ ہے کہ ہر طرف بپا ہے ۔ کسی بھی مجمع میں چلے جائیے ، درمیان میں مریم افتخار کھڑی ملیں گی۔ لگتا ہے کہ محفل ختم نہیں ہورہی ، شروع ہورہی ہے ۔ بزمِ ہاؤ ہو لمحہ بہ لمحہ پر شور تر ہوتی جارہی ہے۔ دلوں میں دھڑکا ہے کہ شمعیں کسی بھی لمحے بجھادی جائیں گی لیکن آنکھوں کی چمک ہے کہ دم بدم سوا ہونے لگی ہے۔ لبوں پر ایک نعرۂ مستانہ اور فضا میں اک موجۂ رندانہ رقصاں ہے۔
ایک گہرا خوف مجھ پر طاری ہو نے لگا ہے ۔ بارِ الہٰا! جب یہ بساطِ رنگ و بو یکایک لپیٹ دی جائے گی اور نور بکھیرتی شمعوں سے سرمئی دھواں اٹھ کر آنکھوں کو دھندلانے لگے گا تو کیسا کہرام مچے گا۔ گہرے سنّاٹے کا ایک عفریت ان ساری آوازوں کو بہ یک لقمۂ جور نگل لےگا۔ لفظ و بیاں کھو جائیں گے ۔یاخدا! ہم سب کہاں جائیں گے۔
لیکن پھر ایک عکسِ امید فزا سامنے آجاتا ہے ۔ مریم افتخار ڈسکورڈ پر لائیو پوڈکاسٹ کر رہی ہیں ۔ لوگ بھاگ بھاگ کر اس بزمِ نو میں جمع ہونے لگے ہیں ۔ وہ نوید دے رہی ہیں کہ مزید تعلیمی اور تربیتی سیشن ہوتے رہیں گے ۔ ہاؤ ہو جاری رہے گی ۔ مئےکہنہ جامِ نو میں چھلکائی جائے گی۔
میں سوچ میں پڑ گیا ہوں ۔ کس عکس کو دیکھوں اور کس سے صرفِ نظر کروں ۔ کوئی عکس دم بھر کو سرِ آئینہ ٹھہرے تو اسے گرفتِ قلم میں لوں ۔ آئینہ ہی اگر عکس در عکس رنگ بدلتا جائے تو میں کیا کروں۔
میں تھک ہار کر آنلائینہ لکھنے کا خیال ترک کردیتا ہوں۔
اتنے سارے عکس قرطاس کے پردے پر کوئی کیسے اتار سکتا ہے؟! اتنی ساری رنگ برنگ تصویروں میں مزید رنگ بھرنا بھلا ممکن ہے؟
نہیں ، یہ ممکن نہیں ہے-

مجھے افسوس ہے کہ میں مریم افتخار کا خاکہ نہیں لکھ سکتا!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام!
یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ مریم افتخار اردو محفل کے چند سرگرم ترین اور محنتی ترین اراکین میں سرِ فہرست رہی ہیں ۔ سات سال پہلے کا دو ملین مراسلہ مارچ ہو یا موجودہ ایامِ رخصت ، ان کی فعالیت کا گراف آسمان سے باتیں کرتا نظر آتا ہے ۔ محفل اور محفلین سے ان کی اس پر خلوص وابستگی ، بے غرض عقیدت اور محبت کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ہم سب پر لازم ہے ۔ ہر چھوٹا بڑا ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا قائل ہے۔ وہ اس وقت محفلی کاروان کی روح رواں ہیں اور اِس مشکل وقت میں محفلین کا مورال اور محفل کی فضا کو مثبت اور خوشگوار رکھنے کی ان تھک سعی میں مصروف ہیں ۔ مندرجہ بالا تحریر ان کی انہی صلاحیتوں اور کوششوں کا اعتراف ہے ۔ یہ تحریر محفل پر ان کی دس سالہ سرگرمیوں کا ایک کولاژ ہے کہ جسے میں نے ایک مختصر سے کینوس پر مرتب کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آئیے اور محفل سے رخصت کے سمے میرےساتھ مل کر افتخار مریم کی گردن میں گل ہائے تشکر کے کچھ ہار پہنا ئیے ۔ انہیں ایک تمغۂ اعزا ز سے نوازیے کہ محبت کا جواب محبت کے سوا کچھ نہیں !

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ مریم افتخار بٹیا کو دین و دنیا کی کامیابیاں نصیب فرمائے ، راستے کو آسان اور منزلوں کو گردِ راہ بنائے ! آمین !
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اتنے سارے عکس قرطاس کے پردے پر کوئی کیسے اتار سکتا ہے؟! اتنی ساری رنگ برنگ تصویروں میں مزید رنگ بھرنا بھلا ممکن ہے؟
نہیں ، یہ ممکن نہیں ہے-

مجھے افسوس ہے کہ میں مریم افتخار کا خاکہ نہیں لکھ سکتا
ظہیر بھائی آپ نے بہت زبردست لکھا !
مریم افتخار
بٹیا
کے بےمثال کام اور اُنکی
ہمہ جہت ہمہ گیر، ہمہ پہلو شخصیت پر لکھنا آپ جیسے قابل ترین شخص کے لئے مشکل ہوا تو بھلا ہم جیسے کیا سورج کے سامنے چراغ لے کے چلیں گے مگر یہ ضرور کہیں گے کہ مریم بٹیا ،میں وہ تمام خوبیاں بہ درجہ اتم موجود ہیں جو ایک اچھے انسان میں ہونا چاہیے اپنی قابلیت
۔ علم و فضل میں یکتائے زمانہ ہونا ایک الگ بات ہے

محبت و اخلاص
عجز و انکساری جو مریم بٹیا کہ ہر لفظ میں جھلکتی ہے وہ
فی زمانہ عنقا ہے ۔اُنکو
محبت سے جب جب پکارا حاضر ۔۔۔
مریم بٹیا آپکی کس کس بات کا شکریہ ادا کریں لفظ کم پڑ گئے ہیں ۔پاک پروردگار کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ آپکے علم و فضل میں اضافہ فرمائے آمین
شاد و آباد رہیں
؀

مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے
پائوں بجتے ہیں تیرے بن چھا گل
لاکھ آندھی چلے خیاباں میں
مسکراتے ہیں طاقچوں میں کنول
لاکھ بجلی گرے گلستاں میں
لہلہاتی ہے شاخ میں کونپل
کھل رہا ہے گلاب ڈالی پر
جل رہی ہے بہار کی مشعل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم افتخار
بٹیا کے نام ؀

اس قدر پرخلوص لہجہ ہے
اس سے ملنا ہے عمر بھر جیسے


 

جاسمن

لائبریرین
بھئی میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ہیں کہ اس قدر خوبصورت خاکے کی تعریف کر سکوں۔ ایک تو مریم خود ہی ایسی باکمال شخصیت ہیں کہ تعریف کے لیے زبان عاجز دکھائی دیتی ہے اور دوسرے خاکہ کس کا لکھا ہوا کہ جن کے قلم کے آگے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
زبردست پہ ڈھیروں زَََََََََََبََََََََََریں
 
مجھے ہمیشہ کی طرح لاجواب کر دیا ہے آپ نے، مجھے کچھ دیر پراسیس کرنے دیں کہ یہ مجھ ناچیز کے لیے لکھا گیا ہے اور وہ بھی میرے پسندیدہ ترین رائٹر کی جانب سے۔ میں سب چیزوں پر تبصرہ آسانی سے کر لیتی ہوں لیکن آپ کی لکھی ہوئی ہر تحریر ہمیشہ ایسے محسوس ہوتی ہے کہ میرا تبصرہ بھی انصاف نہ کر پائے گا بلکہ سورج کو چراغ دکھانا ہی کیا!!!
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
بہت خوبصورت خاکہ نگاری۔۔ پڑھ کر لطف آیا۔ کیا بات ہے۔۔ کچھ نہ کہنے کا کہہ کر سب کچھ ہی کہہ گئے۔۔ اچھی رائٹنگ تکنیک ہے۔ مریم کی تصویر تو اب واضح ہوئی ہے!!
آخری لائن سے قطعی اتفاق نہیں کہ
؎ خاکہ اسی کا نام ہے!!
اوہ، کلاس ٹائم😁
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
کیا خوبصورت تحریر تخلیق کی ہے جاندار و شاندار!
سر!
اتنے سارے عکس جو آپ نے رنگوں سے بھر دیے ہیں ہم ان کو یکجا کرتے صرف اتنا کہہ سکے خود سے!
کہ جس کو دانائی ملی بے شک اس کو بڑی نعمت ملی۔(القرآن)
مریم افتخار کے لیے یہ تحریر بہت اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ اس کے مصنف انتہائی معزز و محترم ظہیراحمدظہیر ہیں۔
بہت اچھا لگا مریم بارے یہ تحریر پڑھ کر ۔
اور
ظہیراحمدظہیر سر خود بے شمار عمدہ عکس رکھتے ہیں کہ جن کے موتی چننے کے لیے ہم ان کی تحریروں کا انتظار کرتے ہیں۔
اللہ جی ظہیراحمدظہیر سر اور مریم افتخار کو اچھی صحت کے ساتھ لمبی زندگی دے اور دونوں جہاں کی کامیابی نصیب کرے آمین یارب العالمین ۔
 

لاریب مرزا

محفلین
مریم افتخار بہنا کے بارے میں بہت خوب اور انصاف پر مبنی اظہارِ خیال کیا جناب ظہیراحمدظہیر
مریم جب کسی چیز کا ارادہ کر لیتی ہیں تو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جی جان لگا دیتی ہیں. ماشاء اللہ قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں. :)
اللہ تعالی ان کو زندگی میں بے حد آسانیاں فراہم کرے. آمین
 
مجھے افسوس ہے کہ میں مریم افتخار کا خاکہ نہیں لکھ سکتا!
یہ آخری لائن حاصلِ تحریر ہے۔
سر!آپ نے درست تجزیہ فرمایا کہ موصوفہ کی شخصیت میں تنوع ہے۔ بہت سے رنگ ہیں اس لیے صرف ایک خاکہ تمام رنگوں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
مریم افتخار صاحبہ سے میرا حال ہی میں تعارف ان کےایک پرانے انٹر ویو کو پڑھ کر ہوا۔ بہت سے صفحات پر مشتمل تھا یہ انٹرویو ۔لیکن اتنا دلچسپ لگا کہ میں نے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ انٹر ویو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ ایک صاف گو،بولڈ اور دوستانہ رویہ رکھنے والی خاتون ہیں۔ انٹرویو میں انہوں نے ایسے سوالوں کے جواب بہت سادگی اور سچائی سے دیے جن کو عام لوگ اور خاص طور پر خواتین پسند نہیں کرتیں۔مثال کے طور پر اپنی ذاتی زندگی، عمر، اپنے گھر بار اور اپنی رہائش کے بارے میں سوالات۔یہ اگر سنجیدہ گفتگو کریں تو لگتا ہے کہ کوئی عالم بول رہا ہے اور اگر ہلکے پھلکے انداز میں بات کررہی ہوں تو لگتا ہے کہ کو ئی کھلنڈری اورچلبلی سی لڑکی بات کررہی ہے۔ ڈھیروں دعائیں ان کے لیے اور استادِ محترم آپ کے لیے۔
 
استادِمحترم جناب ظہیراحمدظہیر صاحب!
آپ کی شاعری پڑھیں تو لگتا ہے کہ آپ اچھے شاعر ہیں
آپ کی دل کو چھو لینے والی تحریریں پڑھیں تو لگتاہے کہ نہیں آپ نثر نگار بہت اچھے ہیں۔
یہ خاکہ پڑھ کر احساس ہواکہ آپ تو خاکہ نگار بہت اچھے ہیں۔
آپ کی شگفتہ تحریروں کا مطالعہ کریں تو لگتا ہے کہ آج کے دور میں مزاح نگاری میں آپ کا ثانی کوئی نہیں۔
آپ خود بتائیں کہ آپ کو اپنا کون سا رنگ پسندہے؟
 

یاز

محفلین
دن اپنی تمام مصروفیات کو اپنے ساتھ لیے ڈھل چکا ہےاور شام کا لبادہ آہستہ آہستہ دبیز تر ہوتا جارہا ہے۔ دن بھر کی تھکی ماندی پُرشور ساعتیں تھک کراب رات کی پرسکون گود میں پناہ ڈھونڈنے لگی ہیں ۔میں بھی اپنے کمپیوٹرکی اُجلی اسکرین کے سامنے کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا ہوں تاکہ مریم افتخار کا خاکہ لکھ سکوں۔ آنلائینے کا تقاضا ہے کہ مریم افتخار کے مراسلہ جات میں ان کی شخصیت کے کچھ عکس تلاش کیے جائیں اور پھر اُن میں اپنی مرضی کے کچھ رنگ اضافہ کیے جائیں۔
لیکن رنگ بھرنے کا یہ کام مجھے ہوتا نظر نہیں آتا-
یہ نہیں کہ میرے پاس رنگوں کی کمی ہے یا میرا برش تھک چکا ہے۔ نہیں !ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہےکہ مریم افتخار کا کوئی عکس آنکھوں کے آگے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر پا رہا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے کسی عکس کا بغور جائزہ لے سکوں ، نئے رنگوں اور نئے نقوش سے مزین ایک اور دیدہ زیب عکس پردے پر اُس کی جگہ جھلملانے لگتا ہے۔ میں ابھی اُس عکس کی کی شباہت اپنے ذہن میں محفوظ کر ہی رہا ہوتا ہوں کہ یکایک پہلے سے مختلف ، گہرا اور خوب تر ایک اور نیا عکس اُس کی جگہ اُبھر آتا ہے۔ میں اپنے آئینے کا زاویہ تبدیل کرتا ہوں کہ شاید اس طرح کوئی عکس اس میں ٹھہر جائے ۔ لیکن کچھ بھی نہیں بدلتا ۔ بس رنگ بدلتے درجنوں عکس مختلف سمتوں اور زاویوں سے اسی طرح جھمک جھمک کر آئینے کو منور کرتے رہتے ہیں ۔ رنگوں اور روشنیوں کا یہ طلسمات مجھے حیران کیے جاتا ہے۔ ایک چہرے میں اتنی مختلف شباہتیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟ میں تعجب سے سوچتا ہوں ۔
مجھے دس سال پہلے کا ایک عکس نظر آتا ہے کہ جب مریم افتخار پہلی بار اردو محفل پر آئیں۔ بزمِ سخن میں ایک غزل کا جھماکا ہوتا ہے۔ تمام خداوندانِ سخن چونک اٹھتے ہیں:
درد اتنا ہے کہ رگ رگ کو جلاتا جائے
دل وہ پاگل ہے کہ ہر رسم نبھاتا جائے
ہائے! ایسا کلاسیکی انداز اور ایک نووارد غیر معروف شاعرہ کے سخن میں !! یہ نوعمری اور ایسا گہرا احساس!!! آثار اچھے نہیں لگتے !
یہ خاتون بساطِ قرطاس و قلم پر آتے ہی اپنے نقش بکھیرنے لگتی ہیں ۔ جلد ہی ان کے لفظوں میں ظالمانہ روایات اور جبرکےخلاف بغاوت کے رنگ نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ جشنِ آزادی کے موقع پر جب سارے سخنور وطن کے تقدس اور آزادی کے گیت گارہے تھے تو ان کی صدا اٹھی:
یہ میرے گرد ہے کیسا جہانِ آزادی
جہاں نہیں کوئی نام و نشانِ آزادی
اِسی میں خوش ہو اگر ، تو تمہیں مبارک ہو
یہ اہتمام ، یہ جشنِ گمانِ آزادی!
سب چونک گئے ۔ یہ کیسی آواز ہے ۔ کتنی سچائی ہے اس آواز میں ! خدا خیر کرے ، بغاوت اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی ، صدائےاختلاف ٹھیک نہیں۔ اللہ انہیں اپنی امان میں رکھے!
پھر میں بزمِ سخن سے مڑ کر نثر کے زمرے کی طرف دیکھتا ہوں ۔ یہ کیا؟! یہاں بھی مریم افتخار کے کئی عکس جھلک رہے ہیں ۔ سنجیدہ موضوع اور پختہ فکر لیے ان کی تحریریں پہلے ہی روز کسی دانشمند کو یہ کہنے پر مجبور کرگئیں کہ اتنی تیز نظر اور حساس دل ہے تو ڈر ہے زندگی کے تلخابوں کو پی پی کر ان کا اپنا لہجہ تلخ نہ ہو جائے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جہاں ان کا قلم سماجی مسائل اور حقوقِ نسواں کے موضوعات پر کرنیں افشاں کرتا نظر آتا ہے وہیں ان کے قلم سے طنز و مزاح کی دھنک بھی جابجا پھوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے ان کے قلم کے تعاقب میں جانا چاہیے ۔ یہ قلم کس کس دشت میں لفظ گردی کرتا ہے ، دیکھنا چاہیے۔ لیکن میں کچھ ہی دیر میں تھک جاتا ہوں ۔ میں اتنا تیز نہیں دوڑ سکتا۔ یا خدا! اتنی رفتار اور اتنا تنوع! ! شاعری ، نثر نگاری ، دوست داری ، گپ شپ ، ساتھ ہی ساتھ کسی رکن کا انٹرویو لیا جارہا ہے ۔ کسی کو مبارکباد دی جارہی ہے تو کہیں سفرنامے کی جھلکیاں دکھائی جارہی ہیں ۔ نت نئے دھاگے کھولے جارہے ہیں ۔ غرض کون سا زمرہ ہے کہ جس میں یہ قلم ایک سی تیز رفتاری اور ربط و ضبط کے ساتھ چلتا نہیں نظر آتا ۔ ہر طرف ان کی خوش اخلاقی ، ادب اور محنت کی دھوم ہے ۔ ہر دلعزیز ، مقبول اور پسندیدہ!
پھر ایک عکس نظر آتا ہے کہ انتظامیہ نے انہیں مدیر بنادیا۔ یہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ہر ہر چیلنج قبول کیے جاتی ہیں ۔ محفل کی تیرہویں سالگرہ ہے ۔ سب محفلین مل کر دو ملین مراسلات کی طرف مارچ کر رہے ہیں ۔ میں ادھر ادھر ڈھونڈتا ہوں ۔ مریم افتخار کہیں نظر نہیں آتیں ۔ یا حیرت! کہاں چلی گئیں ۔ نہیں ، نہیں ، کہیں بھی نہیں گئیں۔ سب سے آگے جھنڈا اٹھائے تیزی سے بغیر رکے ہدف کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں ۔ کسی کو آہستہ نہیں ہونے دیتیں ۔ یا خدا ! اتنی توانائی ، اتنا جذبہ ! میں حیران ہوتا جاتا ہوں ۔ اس سفر کے دوران ان کی شخصیت کے کتنے ہی رنگ برنگے عکس اپنی جھلک دکھانے لگتے ہیں ۔ ایک لڑی میں اپنی مصوری تو دوسری میں خوش خطی کے نمونے دکھارہی ہیں ۔ اپنی فوٹو گرافی کا دھاگا الگ بنا رکھا ہے۔ کہیں پھول ہیں ، کہیں بادلو ں کے منظر اور کہیں غروبِ آفتاب کی شفق!
پھر سن ۲۰۲۰ء آگیا ۔ محفل پر انہیں آئے چار سال گزر گئے۔ لیکن یہ کیا! یکایک آئینہ بے عکس ہوجاتا ہے۔ خالی اور بے رنگ! مریم افتخار محفل سے رخصت ہوگئیں ۔ تعلیمی ذمہ داریوں کا احساس اورعملی زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن ان کی انگلی پکڑ کر کتابوں کی طرف لے گئی۔ دل سے دعا نکلتی ہے اللہ کریم اس دخترِ عزیز کو اپنی امان میں رکھنا ، کامیابیاں دینا! پھر اگلے پانچ سال تک ایک آدھ لمحے کے لیے کبھی کبھار کوئی جھلک نظر آتی ہے ورنہ آئینہ ہر عکس سے خالی ہے !
میں خوش ہونے لگتا ہوں ۔ اب شاید میں کچھ لکھ سکوں گا۔
لیکن یہ کیا !!!
آئینہ یکایک کسی وڈیو کی طرح تیز رفتاری سے رنگ برنگ جھلکتے جھمکتے عکس دوبارہ سے دکھانے لگتا ہے۔ مریم افتخار واپس محفل پر لوٹ آئیں ۔ ۲۰۲۵ کا سال ہے۔ محفل بند ہونے کا اعلان ہوچکا ہے۔ سب اراکین دل گرفتہ ہیں ۔ چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔لیکن وہ اعلان کرتی ہیں: باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل! لوگوآ ادھر آؤ ، ہنسو ، بولو ، گیت گاؤ کہ زندگی ابھی سانس لیتی ہے ۔ ایک ایک کرکے سب کو بلا بلا کر علَمِ امید کے گرد جمع کر رہی ہیں ۔ ہر روز نئے دھاگے ، نئے آئیڈیاز ۔ محفل کی رفتار میں آئی بلا کی تیزی! ایسا لگ رہا ہے کہ مریم افتخار نہیں بلکہ کسی روبوٹ نے محفل کی کمان سنبھال لی ہے۔ اِس دفعہ ان کا قلم برق رفتار ہی نہیں برق آثار بھی ہے ۔ پانچ سالوں میں سوچ اور فکر نے پختگی کےوہ مراحل طے کیے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ ہیں ۔ مشاہدے میں گہرائی ہے ، تجزیے میں توازن اور تحریر میں دلائل کے انبار ! ماسٹریٹ تو پہلے ہی کرچکی تھیں اب پی ایچ ڈی کی تیاری ہے۔
آہ! اس بار تو کوئی عکس آئینے میں ایک لمحے سے زیادہ ٹھہرتا ہی نہیں ۔
ولایت ہو آئی ہیں ۔ وہاں کے قصے اور باتصویر سفرنامے ساتھ لائی ہیں ۔محفلین کو پہلے کی طرح اپنے ساتھ مصروف کر رکھا ہے ۔ ہر ایک کی فکر بھی ہے ۔ کسی کی سالگرہ بھول نہ جائے۔ کوئی مبارکبادی دھاگا بندھنے سے نہ رہ جائے۔ ہر ہر مراسلے کو مثبت ریٹنگ دیتی جاتی ہیں۔ ایک طرف مختلف فکری موضوعات پر مدلل مباحثے ہیں تو دوسری طرف ہلکی پھلکی گفت و شنید کے دائرے ہیں ۔ کہیں بپاسِ خاطرِ یاراں انتخابات کروائے جارہے ہیں تو کہیں کسوٹی پر مزاجِ یاراں کو پرکھا جارہا ہے ۔ ایک ہنگامہ ہے کہ ہر طرف بپا ہے ۔ کسی بھی مجمع میں چلے جائیے ، درمیان میں مریم افتخار کھڑی ملیں گی۔ لگتا ہے کہ محفل ختم نہیں ہورہی ، شروع ہورہی ہے ۔ بزمِ ہاؤ ہو لمحہ بہ لمحہ پر شور تر ہوتی جارہی ہے۔ دلوں میں دھڑکا ہے کہ شمعیں کسی بھی لمحے بجھادی جائیں گی لیکن آنکھوں کی چمک ہے کہ دم بدم سوا ہونے لگی ہے۔ لبوں پر ایک نعرۂ مستانہ اور فضا میں اک موجۂ رندانہ رقصاں ہے۔
ایک گہرا خوف مجھ پر طاری ہو نے لگا ہے ۔ بارِ الہٰا! جب یہ بساطِ رنگ و بو یکایک لپیٹ دی جائے گی اور نور بکھیرتی شمعوں سے سرمئی دھواں اٹھ کر آنکھوں کو دھندلانے لگے گا تو کیسا کہرام مچے گا۔ گہرے سنّاٹے کا ایک عفریت ان ساری آوازوں کو بہ یک لقمۂ جور نگل لےگا۔ لفظ و بیاں کھو جائیں گے ۔یاخدا! ہم سب کہاں جائیں گے۔
لیکن پھر ایک عکسِ امید فزا سامنے آجاتا ہے ۔ مریم افتخار ڈسکورڈ پر لائیو پوڈکاسٹ کر رہی ہیں ۔ لوگ بھاگ بھاگ کر اس بزمِ نو میں جمع ہونے لگے ہیں ۔ وہ نوید دے رہی ہیں کہ مزید تعلیمی اور تربیتی سیشن ہوتے رہیں گے ۔ ہاؤ ہو جاری رہے گی ۔ مئےکہنہ جامِ نو میں چھلکائی جائے گی۔
میں سوچ میں پڑ گیا ہوں ۔ کس عکس کو دیکھوں اور کس سے صرفِ نظر کروں ۔ کوئی عکس دم بھر کو سرِ آئینہ ٹھہرے تو اسے گرفتِ قلم میں لوں ۔ آئینہ ہی اگر عکس در عکس رنگ بدلتا جائے تو میں کیا کروں۔
میں تھک ہار کر آنلائینہ لکھنے کا خیال ترک کردیتا ہوں۔
اتنے سارے عکس قرطاس کے پردے پر کوئی کیسے اتار سکتا ہے؟! اتنی ساری رنگ برنگ تصویروں میں مزید رنگ بھرنا بھلا ممکن ہے؟
نہیں ، یہ ممکن نہیں ہے-

مجھے افسوس ہے کہ میں مریم افتخار کا خاکہ نہیں لکھ سکتا!
بہت عمدہ جناب۔
ایسی ہمہ رنگ شخصیت کے بارے میں آپ جیسا کہنہ مشق لکھاری ہی لکھ سکتا تھا۔ مریم صاحبہ کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں اور ہر ایک میں کمال کی مہارت اور تخلیقی صلاحیت پائی جاتی ہے کہ انسان حیران ہی ہو جائے۔
دعا ہے کہ مریم افتخار کی صلاحیتیں یونہی محفل و ڈسکورڈ پہ رنگ و رونق بکھیرتی رہیں۔ نیز آپ کی جانب سے بھی ایسی شگفتہ تحاریر کا تسلسل جاری رہے۔
 
دن اپنی تمام مصروفیات کو اپنے ساتھ لیے ڈھل چکا ہےاور شام کا لبادہ آہستہ آہستہ دبیز تر ہوتا جارہا ہے۔ دن بھر کی تھکی ماندی پُرشور ساعتیں تھک کراب رات کی پرسکون گود میں پناہ ڈھونڈنے لگی ہیں ۔میں بھی اپنے کمپیوٹرکی اُجلی اسکرین کے سامنے کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا ہوں تاکہ مریم افتخار کا خاکہ لکھ سکوں۔ آنلائینے کا تقاضا ہے کہ مریم افتخار کے مراسلہ جات میں ان کی شخصیت کے کچھ عکس تلاش کیے جائیں اور پھر اُن میں اپنی مرضی کے کچھ رنگ اضافہ کیے جائیں۔
لیکن رنگ بھرنے کا یہ کام مجھے ہوتا نظر نہیں آتا-
یہ نہیں کہ میرے پاس رنگوں کی کمی ہے یا میرا برش تھک چکا ہے۔ نہیں !ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہےکہ مریم افتخار کا کوئی عکس آنکھوں کے آگے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر پا رہا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے کسی عکس کا بغور جائزہ لے سکوں ، نئے رنگوں اور نئے نقوش سے مزین ایک اور دیدہ زیب عکس پردے پر اُس کی جگہ جھلملانے لگتا ہے۔ میں ابھی اُس عکس کی کی شباہت اپنے ذہن میں محفوظ کر ہی رہا ہوتا ہوں کہ یکایک پہلے سے مختلف ، گہرا اور خوب تر ایک اور نیا عکس اُس کی جگہ اُبھر آتا ہے۔ میں اپنے آئینے کا زاویہ تبدیل کرتا ہوں کہ شاید اس طرح کوئی عکس اس میں ٹھہر جائے ۔ لیکن کچھ بھی نہیں بدلتا ۔ بس رنگ بدلتے درجنوں عکس مختلف سمتوں اور زاویوں سے اسی طرح جھمک جھمک کر آئینے کو منور کرتے رہتے ہیں ۔ رنگوں اور روشنیوں کا یہ طلسمات مجھے حیران کیے جاتا ہے۔ ایک چہرے میں اتنی مختلف شباہتیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟ میں تعجب سے سوچتا ہوں ۔
مجھے دس سال پہلے کا ایک عکس نظر آتا ہے کہ جب مریم افتخار پہلی بار اردو محفل پر آئیں۔ بزمِ سخن میں ایک غزل کا جھماکا ہوتا ہے۔ تمام خداوندانِ سخن چونک اٹھتے ہیں:
درد اتنا ہے کہ رگ رگ کو جلاتا جائے
دل وہ پاگل ہے کہ ہر رسم نبھاتا جائے
ہائے! ایسا کلاسیکی انداز اور ایک نووارد غیر معروف شاعرہ کے سخن میں !! یہ نوعمری اور ایسا گہرا احساس!!! آثار اچھے نہیں لگتے !
یہ خاتون بساطِ قرطاس و قلم پر آتے ہی اپنے نقش بکھیرنے لگتی ہیں ۔ جلد ہی ان کے لفظوں میں ظالمانہ روایات اور جبرکےخلاف بغاوت کے رنگ نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ جشنِ آزادی کے موقع پر جب سارے سخنور وطن کے تقدس اور آزادی کے گیت گارہے تھے تو ان کی صدا اٹھی:
یہ میرے گرد ہے کیسا جہانِ آزادی
جہاں نہیں کوئی نام و نشانِ آزادی
اِسی میں خوش ہو اگر ، تو تمہیں مبارک ہو
یہ اہتمام ، یہ جشنِ گمانِ آزادی!
سب چونک گئے ۔ یہ کیسی آواز ہے ۔ کتنی سچائی ہے اس آواز میں ! خدا خیر کرے ، بغاوت اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی ، صدائےاختلاف ٹھیک نہیں۔ اللہ انہیں اپنی امان میں رکھے!
پھر میں بزمِ سخن سے مڑ کر نثر کے زمرے کی طرف دیکھتا ہوں ۔ یہ کیا؟! یہاں بھی مریم افتخار کے کئی عکس جھلک رہے ہیں ۔ سنجیدہ موضوع اور پختہ فکر لیے ان کی تحریریں پہلے ہی روز کسی دانشمند کو یہ کہنے پر مجبور کرگئیں کہ اتنی تیز نظر اور حساس دل ہے تو ڈر ہے زندگی کے تلخابوں کو پی پی کر ان کا اپنا لہجہ تلخ نہ ہو جائے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جہاں ان کا قلم سماجی مسائل اور حقوقِ نسواں کے موضوعات پر کرنیں افشاں کرتا نظر آتا ہے وہیں ان کے قلم سے طنز و مزاح کی دھنک بھی جابجا پھوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے ان کے قلم کے تعاقب میں جانا چاہیے ۔ یہ قلم کس کس دشت میں لفظ گردی کرتا ہے ، دیکھنا چاہیے۔ لیکن میں کچھ ہی دیر میں تھک جاتا ہوں ۔ میں اتنا تیز نہیں دوڑ سکتا۔ یا خدا! اتنی رفتار اور اتنا تنوع! ! شاعری ، نثر نگاری ، دوست داری ، گپ شپ ، ساتھ ہی ساتھ کسی رکن کا انٹرویو لیا جارہا ہے ۔ کسی کو مبارکباد دی جارہی ہے تو کہیں سفرنامے کی جھلکیاں دکھائی جارہی ہیں ۔ نت نئے دھاگے کھولے جارہے ہیں ۔ غرض کون سا زمرہ ہے کہ جس میں یہ قلم ایک سی تیز رفتاری اور ربط و ضبط کے ساتھ چلتا نہیں نظر آتا ۔ ہر طرف ان کی خوش اخلاقی ، ادب اور محنت کی دھوم ہے ۔ ہر دلعزیز ، مقبول اور پسندیدہ!
پھر ایک عکس نظر آتا ہے کہ انتظامیہ نے انہیں مدیر بنادیا۔ یہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ہر ہر چیلنج قبول کیے جاتی ہیں ۔ محفل کی تیرہویں سالگرہ ہے ۔ سب محفلین مل کر دو ملین مراسلات کی طرف مارچ کر رہے ہیں ۔ میں ادھر ادھر ڈھونڈتا ہوں ۔ مریم افتخار کہیں نظر نہیں آتیں ۔ یا حیرت! کہاں چلی گئیں ۔ نہیں ، نہیں ، کہیں بھی نہیں گئیں۔ سب سے آگے جھنڈا اٹھائے تیزی سے بغیر رکے ہدف کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں ۔ کسی کو آہستہ نہیں ہونے دیتیں ۔ یا خدا ! اتنی توانائی ، اتنا جذبہ ! میں حیران ہوتا جاتا ہوں ۔ اس سفر کے دوران ان کی شخصیت کے کتنے ہی رنگ برنگے عکس اپنی جھلک دکھانے لگتے ہیں ۔ ایک لڑی میں اپنی مصوری تو دوسری میں خوش خطی کے نمونے دکھارہی ہیں ۔ اپنی فوٹو گرافی کا دھاگا الگ بنا رکھا ہے۔ کہیں پھول ہیں ، کہیں بادلو ں کے منظر اور کہیں غروبِ آفتاب کی شفق!
پھر سن ۲۰۲۰ء آگیا ۔ محفل پر انہیں آئے چار سال گزر گئے۔ لیکن یہ کیا! یکایک آئینہ بے عکس ہوجاتا ہے۔ خالی اور بے رنگ! مریم افتخار محفل سے رخصت ہوگئیں ۔ تعلیمی ذمہ داریوں کا احساس اورعملی زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن ان کی انگلی پکڑ کر کتابوں کی طرف لے گئی۔ دل سے دعا نکلتی ہے اللہ کریم اس دخترِ عزیز کو اپنی امان میں رکھنا ، کامیابیاں دینا! پھر اگلے پانچ سال تک ایک آدھ لمحے کے لیے کبھی کبھار کوئی جھلک نظر آتی ہے ورنہ آئینہ ہر عکس سے خالی ہے !
میں خوش ہونے لگتا ہوں ۔ اب شاید میں کچھ لکھ سکوں گا۔
لیکن یہ کیا !!!
آئینہ یکایک کسی وڈیو کی طرح تیز رفتاری سے رنگ برنگ جھلکتے جھمکتے عکس دوبارہ سے دکھانے لگتا ہے۔ مریم افتخار واپس محفل پر لوٹ آئیں ۔ ۲۰۲۵ کا سال ہے۔ محفل بند ہونے کا اعلان ہوچکا ہے۔ سب اراکین دل گرفتہ ہیں ۔ چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔لیکن وہ اعلان کرتی ہیں: باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل! لوگوآ ادھر آؤ ، ہنسو ، بولو ، گیت گاؤ کہ زندگی ابھی سانس لیتی ہے ۔ ایک ایک کرکے سب کو بلا بلا کر علَمِ امید کے گرد جمع کر رہی ہیں ۔ ہر روز نئے دھاگے ، نئے آئیڈیاز ۔ محفل کی رفتار میں آئی بلا کی تیزی! ایسا لگ رہا ہے کہ مریم افتخار نہیں بلکہ کسی روبوٹ نے محفل کی کمان سنبھال لی ہے۔ اِس دفعہ ان کا قلم برق رفتار ہی نہیں برق آثار بھی ہے ۔ پانچ سالوں میں سوچ اور فکر نے پختگی کےوہ مراحل طے کیے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ ہیں ۔ مشاہدے میں گہرائی ہے ، تجزیے میں توازن اور تحریر میں دلائل کے انبار ! ماسٹریٹ تو پہلے ہی کرچکی تھیں اب پی ایچ ڈی کی تیاری ہے۔
آہ! اس بار تو کوئی عکس آئینے میں ایک لمحے سے زیادہ ٹھہرتا ہی نہیں ۔
ولایت ہو آئی ہیں ۔ وہاں کے قصے اور باتصویر سفرنامے ساتھ لائی ہیں ۔محفلین کو پہلے کی طرح اپنے ساتھ مصروف کر رکھا ہے ۔ ہر ایک کی فکر بھی ہے ۔ کسی کی سالگرہ بھول نہ جائے۔ کوئی مبارکبادی دھاگا بندھنے سے نہ رہ جائے۔ ہر ہر مراسلے کو مثبت ریٹنگ دیتی جاتی ہیں۔ ایک طرف مختلف فکری موضوعات پر مدلل مباحثے ہیں تو دوسری طرف ہلکی پھلکی گفت و شنید کے دائرے ہیں ۔ کہیں بپاسِ خاطرِ یاراں انتخابات کروائے جارہے ہیں تو کہیں کسوٹی پر مزاجِ یاراں کو پرکھا جارہا ہے ۔ ایک ہنگامہ ہے کہ ہر طرف بپا ہے ۔ کسی بھی مجمع میں چلے جائیے ، درمیان میں مریم افتخار کھڑی ملیں گی۔ لگتا ہے کہ محفل ختم نہیں ہورہی ، شروع ہورہی ہے ۔ بزمِ ہاؤ ہو لمحہ بہ لمحہ پر شور تر ہوتی جارہی ہے۔ دلوں میں دھڑکا ہے کہ شمعیں کسی بھی لمحے بجھادی جائیں گی لیکن آنکھوں کی چمک ہے کہ دم بدم سوا ہونے لگی ہے۔ لبوں پر ایک نعرۂ مستانہ اور فضا میں اک موجۂ رندانہ رقصاں ہے۔
ایک گہرا خوف مجھ پر طاری ہو نے لگا ہے ۔ بارِ الہٰا! جب یہ بساطِ رنگ و بو یکایک لپیٹ دی جائے گی اور نور بکھیرتی شمعوں سے سرمئی دھواں اٹھ کر آنکھوں کو دھندلانے لگے گا تو کیسا کہرام مچے گا۔ گہرے سنّاٹے کا ایک عفریت ان ساری آوازوں کو بہ یک لقمۂ جور نگل لےگا۔ لفظ و بیاں کھو جائیں گے ۔یاخدا! ہم سب کہاں جائیں گے۔
لیکن پھر ایک عکسِ امید فزا سامنے آجاتا ہے ۔ مریم افتخار ڈسکورڈ پر لائیو پوڈکاسٹ کر رہی ہیں ۔ لوگ بھاگ بھاگ کر اس بزمِ نو میں جمع ہونے لگے ہیں ۔ وہ نوید دے رہی ہیں کہ مزید تعلیمی اور تربیتی سیشن ہوتے رہیں گے ۔ ہاؤ ہو جاری رہے گی ۔ مئےکہنہ جامِ نو میں چھلکائی جائے گی۔
میں سوچ میں پڑ گیا ہوں ۔ کس عکس کو دیکھوں اور کس سے صرفِ نظر کروں ۔ کوئی عکس دم بھر کو سرِ آئینہ ٹھہرے تو اسے گرفتِ قلم میں لوں ۔ آئینہ ہی اگر عکس در عکس رنگ بدلتا جائے تو میں کیا کروں۔
میں تھک ہار کر آنلائینہ لکھنے کا خیال ترک کردیتا ہوں۔
اتنے سارے عکس قرطاس کے پردے پر کوئی کیسے اتار سکتا ہے؟! اتنی ساری رنگ برنگ تصویروں میں مزید رنگ بھرنا بھلا ممکن ہے؟
نہیں ، یہ ممکن نہیں ہے-

مجھے افسوس ہے کہ میں مریم افتخار کا خاکہ نہیں لکھ سکتا!
میں نے شش پہر لگا دیے یہ سوچنے میں کہ خاکسار کے اس خوب رو خاکے کے جواب میں کیا کہا جائے، میرے اندر مگر ایک خاموشی ہی رہی۔ میں مٹی کی ڈھیر ی ہوں اور اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں، ہاں اسے مٹی میں واپس لوٹانے سے پہلے زندگی کے سبھی رنگ سمیٹنابھی چاہتی ہوں اور اپنے اردگرد بکھیرنا بھی۔
میرے اندر کی خاموشی کا پردہ پتہ ہے کس نے چاک کِیا؟ میرے محلے میں آٹھویں گھر میں رہتی ہے ایک "خالہ خیرن"۔ آٹھواں گھر اس نے اس لیے چُنا کیونکہ سات گھر تو وہ چھوڑ دیتی ہے نا! آدھی رات کو لگی دروازہ کھٹکھٹانے۔ چھوٹے بھائی نے دروازہ کھولا تو کہتی ہے، "ری مریم! کہاں چھپ کے بیٹھ رہی، باہر نکل۔" میں نے ایک ہاتھ سے دور پڑا دوپٹہ جھپٹا اور دوسرے سے کلیجے پر ہاتھ رکھا، "خالہ خیرن، خیر ہو! (آج تک ہوئی تو نہیں!!!) کیا بات ہوگئی؟" خالہ آگے سے کہتی ہے، "میرے جڑے ہاتھ دیکھ بیٹی، میں نے آج تک تجھے نکما سمجھا، نالائقی کے طعنے دیے، پھوہڑ پنے کی صلواتیں سنائیں، تیری ماں کو میں نے ہی کہا کہ سرو کی طرح قد نکال رہی ہے، پہلی فرصت میں اس کے ہاتھ پیلے کر کہ دنیا میں اس کا اور کیا کام! مجھے معاف کر دے بیٹی، مجھ سے بھول ہوئی۔"
میں تو حیران و پریشان ہوگئی کہ خالہ کو آدھی راتی کیا سوجھی، پہلے تو کبھی عقل و دانش کو ہاتھ نہ مارا اور پھپھے کٹن پریمئیم چینلز نشر کرتی رہی۔ آج اس کایا پلٹ کی وجہ کیا ہے۔ خالہ کو اسکنجبین پلا کر پہلے تو اس کے دانت کھٹے کِیے، پھر حیلوں بہانوں سے بہتیرا پوچھاکہ خالہ مجھے بھی تو بتاؤ کیوں میری طرف دیکھ کے بار بار آنکھیں پونچھتی ہو۔ دوپٹہ تمہارا نچڑ چکا ہے، اب بس بھی کرو! مگر مجھےاس نے نہ بتاناتھا، نہ بتایا۔ پھر میں اسے اماں کےپاس چھوڑ کے ذرا دیر کو اس کمرے کی کھڑکی کے دوسری جانب لگ بیٹھی جدھر وہ بیٹھی باتیں کرتی تھیں۔ اماں بھی تشویش میں تھیں کہ رات کے اس پہر یہ رقت آمیز منظر کیوں ہوا جاتا ہے۔ استفسار پر خالہ خیرن نے جو کہا اور جو میرے کانوں نے سنا، آپ بھی سنیں گے تو یقین نہیں کریں گے۔ خالہ کہتی ہے کہ میں رات کو گھر کے سارے کام سمیٹ کر اوررسوئی کے برتن الٹا کر جب اپنے فون پر بیٹھی اور محفل کا سرورق کھولا تو کیا دیکھتی ہوں، ہماری مریم چھائی ہوئی ہے۔ مجھے پہلے ہی کچھ عرصہ سے شک تو تھا ، مگر وہ جو امریکہ والے وڈے ڈاکٹر صاحب ہیں نا،( جن کے مشورے پر میں نے اپنا اور اپنے میاں کا ایک ایک گردہ نکلوا کر آئی فون ستاراں کی بکنگ کرا رکھی ہے) انہوں نے اس پر ایسی تحریر لکھ دی ہے کہ یقین جانو یہ راتوں رات ایک انٹرنیشنل ایوارڈ یافتہ خاتون بن گئی ہے اور تم لوگ کیسے بے خبر ہو کہ اس سے برتن منجھواتے پھرتے ہو۔ میں تو رات کو اس لیے آئی ہوں کہ صبح تک محلے میں بات پھیل گئی، سب اکٹھے ہوگئے اور اسے سب سے خطاب کرنا پڑا تو تم لوگ تمبو کناتوں کی بکنگ کروا رکھو، ایسے معاملات میں کھڑے پیر بڑی مشکل آن پڑتی ہے !!!
میں( کانوں والی )دیوار کی دوسری جانب اب تک جان چکی تھی کہ والدہ کے دل میں میری عزت بڑھ چکی ہے اور ان کی جوتی کا دور اگر ختم نہ بھی ہوا تو چھوٹے بہن بھائیوں پر منتقل ضرور ہو جائے گا۔ میں تصور میں اپنے چھوٹے بھائی کو خود کو "کام چور" کی بجائے "استاذہ جی" کہتے ہوئے سنتی رہی اور مزید منظم انداز میں اس تقریر کے بارے میں سوچنے لگی جو صبح محلے والوں کے سامنے کرنی ہے، جس سے عزت برقرار رہے مگر خدمات کا باب کھلنے سے پہلے ہی بند ہو جائے۔ کیونکہ خدمات کے چکر میں بھانڈے پھوٹتے بہت دیکھ سن رکھے ہیں!
پھر یوں ہوا کہ میں بال سنوارنے کے بہانےبے دھیانی میں آئنے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اس آئنے میں کئی رنگ، کئی عکس نہ تھے۔ وہی مٹی تھی جس کا خمیر قومی ترانے سے اٹھا تھا کہ اس قومی فریضے پر بیٹھ رہنے کی گستاخی نہ کر سکتا تھا۔آئنہ کچھ دیر تو میری سوچ بچار سے ابھرنے والے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیتا رہا، پھر یکایک بول اٹھا، "ہائے او ربا، اینا وڈا جھوٹ؟"
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
میں نے شش پہر لگا دیے یہ سوچنے میں کہ خاکسار کے اس خوب رو خاکے کے جواب میں کیا کہا جائے، میرے اندر مگر ایک خاموشی ہی رہی۔ میں مٹی کی ڈھیر ی ہوں اور اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں، ہاں اسے مٹی میں واپس لوٹانے سے پہلے زندگی کے سبھی رنگ سمیٹنابھی چاہتی ہوں اور اپنے اردگرد بکھیرنا بھی۔
میرے اندر کی خاموشی کا پردہ پتہ ہے کس نے چاک کِیا؟ میرے محلے میں آٹھویں گھر میں رہتی ہے ایک "خالہ خیرن"۔ آٹھواں گھر اس نے اس لیے چُنا کیونکہ سات گھر تو وہ چھوڑ دیتی ہے نا! آدھی رات کو لگی دروازہ کھٹکھٹانے۔ چھوٹے بھائی نے دروازہ کھولا تو کہتی ہے، "ری مریم! کہاں چھپ کے بیٹھ رہی، باہر نکل۔" میں نے ایک ہاتھ سے دور پڑا دوپٹہ جھپٹا اور دوسرے سے کلیجے پر ہاتھ رکھا، "خالہ خیرن، خیر ہو! (پر آج تک ہوئی تو نہیں!!!) کیا بات ہوگئی؟" خالہ آگے سے کہتی ہے، "میرے جڑے ہاتھ دیکھ بیٹی، میں نے آج تک تجھے نکما سمجھا، نالائقی کے طعنے دیے، پھوہڑ پنے کی صلواتیں سنائیں، تیری ماں کو میں نے ہی کہا کہ سرو کی طرح قد نکال رہی ہے، پہلی فرصت میں اس کے ہاتھ پیلے کر کہ دنیا میں اس کا اور کیا کام! مجھے معاف کر دے بیٹی، مجھ سے بھول ہوئی۔"
میں تو حیران و پریشان ہوگئی کہ خالہ کو آدھی راتی کیا سوجھی، پہلے تو کبھی عقل و دانش کو ہاتھ نہ مارا اور پھپھے کٹن پریمئیم چینلز نشر کرتی رہی۔ آج اس کایا پلٹ کی وجہ کیا ہے۔ خالہ کو اسکنجبین پلا کر پہلے تو اس کے دانت کھٹے کِیے، پھر حیلوں بہانوں سے بہتیرا پوچھاکہ خالہ مجھے بھی تو بتاؤ کیوں میری طرف دیکھ کے بار بار آنکھیں پونچھتی ہو۔ دوپٹہ تمہارا نچڑ چکا ہے، اب بس بھی کرو! مگر مجھےاس نے نہ بتاناتھا، نہ بتایا۔ پھر میں اسے اماں کےپاس چھوڑ کے ذرا دیر کو اس کمرے کی کھڑکی کے دوسری جانب لگ بیٹھی جدھر وہ بیٹھی باتیں کرتی تھیں۔ اماں بھی تشویش میں تھیں کہ رات کے اس پہر یہ رقت آمیز منظر کیوں ہوا جاتا ہے۔ استفسار پر خالہ خیرن نے جو کہا، اور جو میرے کانوں نے سنا، آپ بھی سنیں گے تو یقین نہیں کریں گے۔ خالہ کہتی ہے کہ میں رات کو گھر کے سارے کام سمیٹ کے اور اوررسوئی کے برتن الٹا کے جب اپنے فون پر بیٹھی اور محفل کا سرورق کھولا تو کیا دیکھتی ہوں، ہماری مریم چھائی ہوئی ہے۔ مجھے پہلے ہی کچھ عرصہ سے شک تو تھا ، مگر وہ جو امریکہ والے وڈے ڈاکٹر صاحب ہیں نا،( جن کے مشورے پہ میں نے اپنا اور اپنے میاں کا ایک ایک گردہ نکلوا کر آئی فون ستاراں کی بکنگ کرا رکھی ہے) انہوں نے اس پر ایسی تحریر لکھ دی ہے کہ یقین جانو یہ راتوں رات ایک انٹرنیشنل ایوارڈ یافتہ خاتون بن گئی ہے اور تم لوگ کیسے بے خبر ہو کہ اس سے برتن منجھواتے پھرتے ہو۔ میں تو رات کو اس لیے آئی ہوں کہ صبح تک محلے میں بات پھیل گئی، سب اکٹھے ہوگئے اور اسے سب سے خطاب کرنا پڑا تو تم لوگ تمبو کناتوں کی بکنگ کروا رکھو، ایسے معاملات میں کھڑے پیر بڑی مشکل آن کھڑی ہوجاتی ہے !!!
میں کانوں والی دیوار کی دوسری جانب اب تک جان چکی تھی کہ والدہ کے دل میں میری عزت بڑھ چکی ہے اور ان کی جوتی کا دور اگر ختم نہ بھی ہوا تو چھوٹے بہن بھائیوں پر منتقل ضرور ہو جائے گا۔ میں تصور میں اپنے چھوٹے بھائی کو خود کو "کام چور" کی بجائے "استاذہ جی" کہتے ہوئے سنتی رہی اور مزید منظم انداز میں اس تقریر کے بارے میں سوچنے لگی جو صبح محلے والوں کے سامنے کرنی ہے، جس سے عزت برقرار رہے مگر خدمات کا باب کھلنے سے پہلے ہی بند ہو جائے۔ کیونکہ خدمات کے چکر میں بھانڈے پھوٹتے دیکھ سن رکھے ہیں!
اس کے بعد میں نےبال سنوارنے کے بہانے آئنہ دیکھا۔ اس آئنے میں کئی رنگ، کئی عکس نہ تھے۔ وہی مٹی تھی جس کا خمیر قومی ترانے سے اٹھا تھا کہ اس قومی فریضے پر بیٹھ رہنے کی گستاخی نہ کر سکتا تھا۔آئنہ کچھ دیر تو میری سوچ بچار سے ابھرنے والے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیتا رہا، پھر یکایک بول اٹھا، "ہائے او ربا، اینا وڈا جھوٹ؟"
ؤاہ واہ۔۔ بھئی بہت خوب۔۔ انکساری کے تمام تر عالمی ریکارڈز توڑ ڈالے آپ نے۔ جب کہ ہمارا تو دل چاہا کسی طرح آپ کا نام مٹا کر اپنا ڈال لیں مگر یہ موئی پروگرامنگ ایسا نہیں کرنے دے گی اور صاحب تحریر کی لاگ ان آئی ڈی اور پاس ورڈ کا ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں علم نہیں!!
تفنن برطرف، آپ کے جذبا ت سمجھ سکتی ہوں۔ ہمارے بھی ایسا ہی ہوا تھا! جب اپنا خاکہ پڑھا۔ یقین نہیں آیا کہ کوئی اتنا بھی خوش گمان ہو سکتا ہے! ابھی خیال آیا کہ ٹھیک سے شکریہ بھی شاید ادا نہیں کیا۔۔ آپ کے خاکے کی ہمیں بے حد خوشی ہے کہ سمجھ میں آ ہی نہیں رہا تھا کہ کیسے آپ کے بارے میں جانیں۔۔ کیا بات ہے آپ کی، ماشااللہ!
 
آخری تدوین:
دن اپنی تمام مصروفیات کو اپنے ساتھ لیے ڈھل چکا ہےاور شام کا لبادہ آہستہ آہستہ دبیز تر ہوتا جارہا ہے۔ دن بھر کی تھکی ماندی پُرشور ساعتیں تھک کراب رات کی پرسکون گود میں پناہ ڈھونڈنے لگی ہیں ۔میں بھی اپنے کمپیوٹرکی اُجلی اسکرین کے سامنے کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا ہوں تاکہ مریم افتخار کا خاکہ لکھ سکوں۔ آنلائینے کا تقاضا ہے کہ مریم افتخار کے مراسلہ جات میں ان کی شخصیت کے کچھ عکس تلاش کیے جائیں اور پھر اُن میں اپنی مرضی کے کچھ رنگ اضافہ کیے جائیں۔
لیکن رنگ بھرنے کا یہ کام مجھے ہوتا نظر نہیں آتا-
یہ نہیں کہ میرے پاس رنگوں کی کمی ہے یا میرا برش تھک چکا ہے۔ نہیں !ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہےکہ مریم افتخار کا کوئی عکس آنکھوں کے آگے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر پا رہا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے کسی عکس کا بغور جائزہ لے سکوں ، نئے رنگوں اور نئے نقوش سے مزین ایک اور دیدہ زیب عکس پردے پر اُس کی جگہ جھلملانے لگتا ہے۔ میں ابھی اُس عکس کی کی شباہت اپنے ذہن میں محفوظ کر ہی رہا ہوتا ہوں کہ یکایک پہلے سے مختلف ، گہرا اور خوب تر ایک اور نیا عکس اُس کی جگہ اُبھر آتا ہے۔ میں اپنے آئینے کا زاویہ تبدیل کرتا ہوں کہ شاید اس طرح کوئی عکس اس میں ٹھہر جائے ۔ لیکن کچھ بھی نہیں بدلتا ۔ بس رنگ بدلتے درجنوں عکس مختلف سمتوں اور زاویوں سے اسی طرح جھمک جھمک کر آئینے کو منور کرتے رہتے ہیں ۔ رنگوں اور روشنیوں کا یہ طلسمات مجھے حیران کیے جاتا ہے۔ ایک چہرے میں اتنی مختلف شباہتیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟ میں تعجب سے سوچتا ہوں ۔
مجھے دس سال پہلے کا ایک عکس نظر آتا ہے کہ جب مریم افتخار پہلی بار اردو محفل پر آئیں۔ بزمِ سخن میں ایک غزل کا جھماکا ہوتا ہے۔ تمام خداوندانِ سخن چونک اٹھتے ہیں:
درد اتنا ہے کہ رگ رگ کو جلاتا جائے
دل وہ پاگل ہے کہ ہر رسم نبھاتا جائے
ہائے! ایسا کلاسیکی انداز اور ایک نووارد غیر معروف شاعرہ کے سخن میں !! یہ نوعمری اور ایسا گہرا احساس!!! آثار اچھے نہیں لگتے !
یہ خاتون بساطِ قرطاس و قلم پر آتے ہی اپنے نقش بکھیرنے لگتی ہیں ۔ جلد ہی ان کے لفظوں میں ظالمانہ روایات اور جبرکےخلاف بغاوت کے رنگ نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ جشنِ آزادی کے موقع پر جب سارے سخنور وطن کے تقدس اور آزادی کے گیت گارہے تھے تو ان کی صدا اٹھی:
یہ میرے گرد ہے کیسا جہانِ آزادی
جہاں نہیں کوئی نام و نشانِ آزادی
اِسی میں خوش ہو اگر ، تو تمہیں مبارک ہو
یہ اہتمام ، یہ جشنِ گمانِ آزادی!
سب چونک گئے ۔ یہ کیسی آواز ہے ۔ کتنی سچائی ہے اس آواز میں ! خدا خیر کرے ، بغاوت اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی ، صدائےاختلاف ٹھیک نہیں۔ اللہ انہیں اپنی امان میں رکھے!
پھر میں بزمِ سخن سے مڑ کر نثر کے زمرے کی طرف دیکھتا ہوں ۔ یہ کیا؟! یہاں بھی مریم افتخار کے کئی عکس جھلک رہے ہیں ۔ سنجیدہ موضوع اور پختہ فکر لیے ان کی تحریریں پہلے ہی روز کسی دانشمند کو یہ کہنے پر مجبور کرگئیں کہ اتنی تیز نظر اور حساس دل ہے تو ڈر ہے زندگی کے تلخابوں کو پی پی کر ان کا اپنا لہجہ تلخ نہ ہو جائے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جہاں ان کا قلم سماجی مسائل اور حقوقِ نسواں کے موضوعات پر کرنیں افشاں کرتا نظر آتا ہے وہیں ان کے قلم سے طنز و مزاح کی دھنک بھی جابجا پھوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے ان کے قلم کے تعاقب میں جانا چاہیے ۔ یہ قلم کس کس دشت میں لفظ گردی کرتا ہے ، دیکھنا چاہیے۔ لیکن میں کچھ ہی دیر میں تھک جاتا ہوں ۔ میں اتنا تیز نہیں دوڑ سکتا۔ یا خدا! اتنی رفتار اور اتنا تنوع! ! شاعری ، نثر نگاری ، دوست داری ، گپ شپ ، ساتھ ہی ساتھ کسی رکن کا انٹرویو لیا جارہا ہے ۔ کسی کو مبارکباد دی جارہی ہے تو کہیں سفرنامے کی جھلکیاں دکھائی جارہی ہیں ۔ نت نئے دھاگے کھولے جارہے ہیں ۔ غرض کون سا زمرہ ہے کہ جس میں یہ قلم ایک سی تیز رفتاری اور ربط و ضبط کے ساتھ چلتا نہیں نظر آتا ۔ ہر طرف ان کی خوش اخلاقی ، ادب اور محنت کی دھوم ہے ۔ ہر دلعزیز ، مقبول اور پسندیدہ!
پھر ایک عکس نظر آتا ہے کہ انتظامیہ نے انہیں مدیر بنادیا۔ یہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ہر ہر چیلنج قبول کیے جاتی ہیں ۔ محفل کی تیرہویں سالگرہ ہے ۔ سب محفلین مل کر دو ملین مراسلات کی طرف مارچ کر رہے ہیں ۔ میں ادھر ادھر ڈھونڈتا ہوں ۔ مریم افتخار کہیں نظر نہیں آتیں ۔ یا حیرت! کہاں چلی گئیں ۔ نہیں ، نہیں ، کہیں بھی نہیں گئیں۔ سب سے آگے جھنڈا اٹھائے تیزی سے بغیر رکے ہدف کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں ۔ کسی کو آہستہ نہیں ہونے دیتیں ۔ یا خدا ! اتنی توانائی ، اتنا جذبہ ! میں حیران ہوتا جاتا ہوں ۔ اس سفر کے دوران ان کی شخصیت کے کتنے ہی رنگ برنگے عکس اپنی جھلک دکھانے لگتے ہیں ۔ ایک لڑی میں اپنی مصوری تو دوسری میں خوش خطی کے نمونے دکھارہی ہیں ۔ اپنی فوٹو گرافی کا دھاگا الگ بنا رکھا ہے۔ کہیں پھول ہیں ، کہیں بادلو ں کے منظر اور کہیں غروبِ آفتاب کی شفق!
پھر سن ۲۰۲۰ء آگیا ۔ محفل پر انہیں آئے چار سال گزر گئے۔ لیکن یہ کیا! یکایک آئینہ بے عکس ہوجاتا ہے۔ خالی اور بے رنگ! مریم افتخار محفل سے رخصت ہوگئیں ۔ تعلیمی ذمہ داریوں کا احساس اورعملی زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن ان کی انگلی پکڑ کر کتابوں کی طرف لے گئی۔ دل سے دعا نکلتی ہے اللہ کریم اس دخترِ عزیز کو اپنی امان میں رکھنا ، کامیابیاں دینا! پھر اگلے پانچ سال تک ایک آدھ لمحے کے لیے کبھی کبھار کوئی جھلک نظر آتی ہے ورنہ آئینہ ہر عکس سے خالی ہے !
میں خوش ہونے لگتا ہوں ۔ اب شاید میں کچھ لکھ سکوں گا۔
لیکن یہ کیا !!!
آئینہ یکایک کسی وڈیو کی طرح تیز رفتاری سے رنگ برنگ جھلکتے جھمکتے عکس دوبارہ سے دکھانے لگتا ہے۔ مریم افتخار واپس محفل پر لوٹ آئیں ۔ ۲۰۲۵ کا سال ہے۔ محفل بند ہونے کا اعلان ہوچکا ہے۔ سب اراکین دل گرفتہ ہیں ۔ چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔لیکن وہ اعلان کرتی ہیں: باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل! لوگوآ ادھر آؤ ، ہنسو ، بولو ، گیت گاؤ کہ زندگی ابھی سانس لیتی ہے ۔ ایک ایک کرکے سب کو بلا بلا کر علَمِ امید کے گرد جمع کر رہی ہیں ۔ ہر روز نئے دھاگے ، نئے آئیڈیاز ۔ محفل کی رفتار میں آئی بلا کی تیزی! ایسا لگ رہا ہے کہ مریم افتخار نہیں بلکہ کسی روبوٹ نے محفل کی کمان سنبھال لی ہے۔ اِس دفعہ ان کا قلم برق رفتار ہی نہیں برق آثار بھی ہے ۔ پانچ سالوں میں سوچ اور فکر نے پختگی کےوہ مراحل طے کیے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ ہیں ۔ مشاہدے میں گہرائی ہے ، تجزیے میں توازن اور تحریر میں دلائل کے انبار ! ماسٹریٹ تو پہلے ہی کرچکی تھیں اب پی ایچ ڈی کی تیاری ہے۔
آہ! اس بار تو کوئی عکس آئینے میں ایک لمحے سے زیادہ ٹھہرتا ہی نہیں ۔
ولایت ہو آئی ہیں ۔ وہاں کے قصے اور باتصویر سفرنامے ساتھ لائی ہیں ۔محفلین کو پہلے کی طرح اپنے ساتھ مصروف کر رکھا ہے ۔ ہر ایک کی فکر بھی ہے ۔ کسی کی سالگرہ بھول نہ جائے۔ کوئی مبارکبادی دھاگا بندھنے سے نہ رہ جائے۔ ہر ہر مراسلے کو مثبت ریٹنگ دیتی جاتی ہیں۔ ایک طرف مختلف فکری موضوعات پر مدلل مباحثے ہیں تو دوسری طرف ہلکی پھلکی گفت و شنید کے دائرے ہیں ۔ کہیں بپاسِ خاطرِ یاراں انتخابات کروائے جارہے ہیں تو کہیں کسوٹی پر مزاجِ یاراں کو پرکھا جارہا ہے ۔ ایک ہنگامہ ہے کہ ہر طرف بپا ہے ۔ کسی بھی مجمع میں چلے جائیے ، درمیان میں مریم افتخار کھڑی ملیں گی۔ لگتا ہے کہ محفل ختم نہیں ہورہی ، شروع ہورہی ہے ۔ بزمِ ہاؤ ہو لمحہ بہ لمحہ پر شور تر ہوتی جارہی ہے۔ دلوں میں دھڑکا ہے کہ شمعیں کسی بھی لمحے بجھادی جائیں گی لیکن آنکھوں کی چمک ہے کہ دم بدم سوا ہونے لگی ہے۔ لبوں پر ایک نعرۂ مستانہ اور فضا میں اک موجۂ رندانہ رقصاں ہے۔
ایک گہرا خوف مجھ پر طاری ہو نے لگا ہے ۔ بارِ الہٰا! جب یہ بساطِ رنگ و بو یکایک لپیٹ دی جائے گی اور نور بکھیرتی شمعوں سے سرمئی دھواں اٹھ کر آنکھوں کو دھندلانے لگے گا تو کیسا کہرام مچے گا۔ گہرے سنّاٹے کا ایک عفریت ان ساری آوازوں کو بہ یک لقمۂ جور نگل لےگا۔ لفظ و بیاں کھو جائیں گے ۔یاخدا! ہم سب کہاں جائیں گے۔
لیکن پھر ایک عکسِ امید فزا سامنے آجاتا ہے ۔ مریم افتخار ڈسکورڈ پر لائیو پوڈکاسٹ کر رہی ہیں ۔ لوگ بھاگ بھاگ کر اس بزمِ نو میں جمع ہونے لگے ہیں ۔ وہ نوید دے رہی ہیں کہ مزید تعلیمی اور تربیتی سیشن ہوتے رہیں گے ۔ ہاؤ ہو جاری رہے گی ۔ مئےکہنہ جامِ نو میں چھلکائی جائے گی۔
میں سوچ میں پڑ گیا ہوں ۔ کس عکس کو دیکھوں اور کس سے صرفِ نظر کروں ۔ کوئی عکس دم بھر کو سرِ آئینہ ٹھہرے تو اسے گرفتِ قلم میں لوں ۔ آئینہ ہی اگر عکس در عکس رنگ بدلتا جائے تو میں کیا کروں۔
میں تھک ہار کر آنلائینہ لکھنے کا خیال ترک کردیتا ہوں۔
اتنے سارے عکس قرطاس کے پردے پر کوئی کیسے اتار سکتا ہے؟! اتنی ساری رنگ برنگ تصویروں میں مزید رنگ بھرنا بھلا ممکن ہے؟
نہیں ، یہ ممکن نہیں ہے-

مجھے افسوس ہے کہ میں مریم افتخار کا خاکہ نہیں لکھ سکتا!
دن میں تین چار بار اس طویل و عریض مراسلے کو پڑھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا کہ ایک ہی بار پڑھنے اور اس کی تاثیر اندر تک محسوس کرنے کے لیے جو وقت اور کیفیت چاہیے تھی وہ نا مل سکی۔اب صبح صادق کے ان لمحات میں کچھ سکون میسر آیا تو اسے تسلی سے گھونٹ گھونٹ کر کے پڑھتا ہی چلا گیا۔

یار۔۔۔ کوئی اتنا اچھا۔۔۔۔اور اتنا بہت سا۔۔۔اتنے شاندار ردھم اور سٗر میں بھلا کیسے لکھ سکتا ہے!!! کمال نہیں ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب ماشاءاللہ ، نہایت عمدہ اور بہترین ۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں، مریم کے بارے میں واقعی کچھ لکھنا یا کہنا دشوار ہوتا چلا جارہا ہے۔دل تو چا ہ رہا تھا کہ مریم کے بارے میں کوئی شگفتہ سا مراسلہ کردوں لیکن اس لڑی میں نہیں کر پاؤں گا کہ کہیں اس تحریر یا اس لڑی کا حسن گہنا نا جائے۔

اللہ جی آپ کی ایسی مزید لاتعداد تحریریں ہمیں پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی آپ نے بہت زبردست لکھا !
مریم افتخار
بٹیا
کے بےمثال کام اور اُنکی
ہمہ جہت ہمہ گیر، ہمہ پہلو شخصیت پر لکھنا آپ جیسے قابل ترین شخص کے لئے مشکل ہوا تو بھلا ہم جیسے کیا سورج کے سامنے چراغ لے کے چلیں گے مگر یہ ضرور کہیں گے کہ مریم بٹیا ،میں وہ تمام خوبیاں بہ درجہ اتم موجود ہیں جو ایک اچھے انسان میں ہونا چاہیے اپنی قابلیت
۔ علم و فضل میں یکتائے زمانہ ہونا ایک الگ بات ہے

محبت و اخلاص
عجز و انکساری جو مریم بٹیا کہ ہر لفظ میں جھلکتی ہے وہ
فی زمانہ عنقا ہے ۔اُنکو
محبت سے جب جب پکارا حاضر ۔۔۔
مریم بٹیا آپکی کس کس بات کا شکریہ ادا کریں لفظ کم پڑ گئے ہیں ۔پاک پروردگار کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ آپکے علم و فضل میں اضافہ فرمائے آمین

شاد و آباد رہیں
؀

مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے
پائوں بجتے ہیں تیرے بن چھا گل
لاکھ آندھی چلے خیاباں میں
مسکراتے ہیں طاقچوں میں کنول
لاکھ بجلی گرے گلستاں میں
لہلہاتی ہے شاخ میں کونپل
کھل رہا ہے گلاب ڈالی پر
جل رہی ہے بہار کی مشعل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم افتخار
بٹیا کے نام ؀

اس قدر پرخلوص لہجہ ہے
اس سے ملنا ہے عمر بھر جیسے
بے شک سیما آپا ، آپ نے جو مریم افتخار کے بارے میں لکھا اس سے ہر محفلین متفق ہے۔
آپ کی محبت اور خلوص کا بہت بہت شکریہ! اردو محفل آپ کی توجہ اور بلا ناغہ حاضری کے لیے آپ کی ممنون رہے گی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بھئی میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ہیں کہ اس قدر خوبصورت خاکے کی تعریف کر سکوں۔ ایک تو مریم خود ہی ایسی باکمال شخصیت ہیں کہ تعریف کے لیے زبان عاجز دکھائی دیتی ہے اور دوسرے خاکہ کس کا لکھا ہوا کہ جن کے قلم کے آگے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
زبردست پہ ڈھیروں زَََََََََََبََََََََََریں
اگر ممدوح اتنی خوبیوں والا ہو تو مدحت نگار کا کام بہت آسان ہوجاتا ہے ۔
تحسین اور حسنِ نظر کا شکریہ، خواہرم!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوبصورت خاکہ نگاری۔۔ پڑھ کر لطف آیا۔ کیا بات ہے۔۔ کچھ نہ کہنے کا کہہ کر سب کچھ ہی کہہ گئے۔۔ اچھی رائٹنگ تکنیک ہے۔ مریم کی تصویر تو اب واضح ہوئی ہے!!
آخری لائن سے قطعی اتفاق نہیں کہ
؎ خاکہ اسی کا نام ہے!!
اوہ، کلاس ٹائم😁
بہت بہت شکریہ ، نوازش!
رائٹنگ تکنیک نوٹ کرنے اور اس پر رائے دینے کا الگ سے شکریہ! اہلِ قلم کے سامنے کوئی تحریر پیش کرنا بھی ایک چیلنج ہوتا ہے۔ لیکن ان کا حرفِ تحسین بھی الگ قدر و قیمت رکھتا ہے۔
بہت شکریہ!
 
Top