ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
دن اپنی تمام مصروفیات کو اپنے ساتھ لیے ڈھل چکا ہےاور شام کا لبادہ آہستہ آہستہ دبیز تر ہوتا جارہا ہے۔ دن بھر کی تھکی ماندی پُرشور ساعتیں تھک کراب رات کی پرسکون گود میں پناہ ڈھونڈنے لگی ہیں ۔میں بھی اپنے کمپیوٹرکی اُجلی اسکرین کے سامنے کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا ہوں تاکہ مریم افتخار کا خاکہ لکھ سکوں۔ آنلائینے کا تقاضا ہے کہ مریم افتخار کے مراسلہ جات میں ان کی شخصیت کے کچھ عکس تلاش کیے جائیں اور پھر اُن میں اپنی مرضی کے کچھ رنگ اضافہ کیے جائیں۔
لیکن رنگ بھرنے کا یہ کام مجھے ہوتا نظر نہیں آتا-
یہ نہیں کہ میرے پاس رنگوں کی کمی ہے یا میرا برش تھک چکا ہے۔ نہیں !ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہےکہ مریم افتخار کا کوئی عکس آنکھوں کے آگے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر پا رہا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے کسی عکس کا بغور جائزہ لے سکوں ، نئے رنگوں اور نئے نقوش سے مزین ایک اور دیدہ زیب عکس پردے پر اُس کی جگہ جھلملانے لگتا ہے۔ میں ابھی اُس عکس کی کی شباہت اپنے ذہن میں محفوظ کر ہی رہا ہوتا ہوں کہ یکایک پہلے سے مختلف ، گہرا اور خوب تر ایک اور نیا عکس اُس کی جگہ اُبھر آتا ہے۔ میں اپنے آئینے کا زاویہ تبدیل کرتا ہوں کہ شاید اس طرح کوئی عکس اس میں ٹھہر جائے ۔ لیکن کچھ بھی نہیں بدلتا ۔ بس رنگ بدلتے درجنوں عکس مختلف سمتوں اور زاویوں سے اسی طرح جھمک جھمک کر آئینے کو منور کرتے رہتے ہیں ۔ رنگوں اور روشنیوں کا یہ طلسمات مجھے حیران کیے جاتا ہے۔ ایک چہرے میں اتنی مختلف شباہتیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟ میں تعجب سے سوچتا ہوں ۔
مجھے دس سال پہلے کا ایک عکس نظر آتا ہے کہ جب مریم افتخار پہلی بار اردو محفل پر آئیں۔ بزمِ سخن میں ایک غزل کا جھماکا ہوتا ہے۔ تمام خداوندانِ سخن چونک اٹھتے ہیں:
درد اتنا ہے کہ رگ رگ کو جلاتا جائے
دل وہ پاگل ہے کہ ہر رسم نبھاتا جائے
ہائے! ایسا کلاسیکی انداز اور ایک نووارد غیر معروف شاعرہ کے سخن میں !! یہ نوعمری اور ایسا گہرا احساس!!! آثار اچھے نہیں لگتے !
یہ خاتون بساطِ قرطاس و قلم پر آتے ہی اپنے نقش بکھیرنے لگتی ہیں ۔ جلد ہی ان کے لفظوں میں ظالمانہ روایات اور جبرکےخلاف بغاوت کے رنگ نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ جشنِ آزادی کے موقع پر جب سارے سخنور وطن کے تقدس اور آزادی کے گیت گارہے تھے تو ان کی صدا اٹھی:
یہ میرے گرد ہے کیسا جہانِ آزادی
جہاں نہیں کوئی نام و نشانِ آزادی
اِسی میں خوش ہو اگر ، تو تمہیں مبارک ہو
یہ اہتمام ، یہ جشنِ گمانِ آزادی!
سب چونک گئے ۔ یہ کیسی آواز ہے ۔ کتنی سچائی ہے اس آواز میں ! خدا خیر کرے ، بغاوت اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی ، صدائےاختلاف ٹھیک نہیں۔ اللہ انہیں اپنی امان میں رکھے!
پھر میں بزمِ سخن سے مڑ کر نثر کے زمرے کی طرف دیکھتا ہوں ۔ یہ کیا؟! یہاں بھی مریم افتخار کے کئی عکس جھلک رہے ہیں ۔ سنجیدہ موضوع اور پختہ فکر لیے ان کی تحریریں پہلے ہی روز کسی دانشمند کو یہ کہنے پر مجبور کرگئیں کہ اتنی تیز نظر اور حساس دل ہے تو ڈر ہے زندگی کے تلخابوں کو پی پی کر ان کا اپنا لہجہ تلخ نہ ہو جائے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جہاں ان کا قلم سماجی مسائل اور حقوقِ نسواں کے موضوعات پر کرنیں افشاں کرتا نظر آتا ہے وہیں ان کے قلم سے طنز و مزاح کی دھنک بھی جابجا پھوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے ان کے قلم کے تعاقب میں جانا چاہیے ۔ یہ قلم کس کس دشت میں لفظ گردی کرتا ہے ، دیکھنا چاہیے۔ لیکن میں کچھ ہی دیر میں تھک جاتا ہوں ۔ میں اتنا تیز نہیں دوڑ سکتا۔ یا خدا! اتنی رفتار اور اتنا تنوع! ! شاعری ، نثر نگاری ، دوست داری ، گپ شپ ، ساتھ ہی ساتھ کسی رکن کا انٹرویو لیا جارہا ہے ۔ کسی کو مبارکباد دی جارہی ہے تو کہیں سفرنامے کی جھلکیاں دکھائی جارہی ہیں ۔ نت نئے دھاگے کھولے جارہے ہیں ۔ غرض کون سا زمرہ ہے کہ جس میں یہ قلم ایک سی تیز رفتاری اور ربط و ضبط کے ساتھ چلتا نہیں نظر آتا ۔ ہر طرف ان کی خوش اخلاقی ، ادب اور محنت کی دھوم ہے ۔ ہر دلعزیز ، مقبول اور پسندیدہ!
پھر ایک عکس نظر آتا ہے کہ انتظامیہ نے انہیں مدیر بنادیا۔ یہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ہر ہر چیلنج قبول کیے جاتی ہیں ۔ محفل کی تیرہویں سالگرہ ہے ۔ سب محفلین مل کر دو ملین مراسلات کی طرف مارچ کر رہے ہیں ۔ میں ادھر ادھر ڈھونڈتا ہوں ۔ مریم افتخار کہیں نظر نہیں آتیں ۔ یا حیرت! کہاں چلی گئیں ۔ نہیں ، نہیں ، کہیں بھی نہیں گئیں۔ سب سے آگے جھنڈا اٹھائے تیزی سے بغیر رکے ہدف کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں ۔ کسی کو آہستہ نہیں ہونے دیتیں ۔ یا خدا ! اتنی توانائی ، اتنا جذبہ ! میں حیران ہوتا جاتا ہوں ۔ اس سفر کے دوران ان کی شخصیت کے کتنے ہی رنگ برنگے عکس اپنی جھلک دکھانے لگتے ہیں ۔ ایک لڑی میں اپنی مصوری تو دوسری میں خوش خطی کے نمونے دکھارہی ہیں ۔ اپنی فوٹو گرافی کا دھاگا الگ بنا رکھا ہے۔ کہیں پھول ہیں ، کہیں بادلو ں کے منظر اور کہیں غروبِ آفتاب کی شفق!
پھر سن ۲۰۲۰ء آگیا ۔ محفل پر انہیں آئے چار سال گزر گئے۔ لیکن یہ کیا! یکایک آئینہ بے عکس ہوجاتا ہے۔ خالی اور بے رنگ! مریم افتخار محفل سے رخصت ہوگئیں ۔ تعلیمی ذمہ داریوں کا احساس اورعملی زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن ان کی انگلی پکڑ کر کتابوں کی طرف لے گئی۔ دل سے دعا نکلتی ہے اللہ کریم اس دخترِ عزیز کو اپنی امان میں رکھنا ، کامیابیاں دینا! پھر اگلے پانچ سال تک ایک آدھ لمحے کے لیے کبھی کبھار کوئی جھلک نظر آتی ہے ورنہ آئینہ ہر عکس سے خالی ہے !
میں خوش ہونے لگتا ہوں ۔ اب شاید میں کچھ لکھ سکوں گا۔
لیکن یہ کیا !!!
آئینہ یکایک کسی وڈیو کی طرح تیز رفتاری سے رنگ برنگ جھلکتے جھمکتے عکس دوبارہ سے دکھانے لگتا ہے۔ مریم افتخار واپس محفل پر لوٹ آئیں ۔ ۲۰۲۵ کا سال ہے۔ محفل بند ہونے کا اعلان ہوچکا ہے۔ سب اراکین دل گرفتہ ہیں ۔ چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔لیکن وہ اعلان کرتی ہیں: باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل! لوگوآ ادھر آؤ ، ہنسو ، بولو ، گیت گاؤ کہ زندگی ابھی سانس لیتی ہے ۔ ایک ایک کرکے سب کو بلا بلا کر علَمِ امید کے گرد جمع کر رہی ہیں ۔ ہر روز نئے دھاگے ، نئے آئیڈیاز ۔ محفل کی رفتار میں آئی بلا کی تیزی! ایسا لگ رہا ہے کہ مریم افتخار نہیں بلکہ کسی روبوٹ نے محفل کی کمان سنبھال لی ہے۔ اِس دفعہ ان کا قلم برق رفتار ہی نہیں برق آثار بھی ہے ۔ پانچ سالوں میں سوچ اور فکر نے پختگی کےوہ مراحل طے کیے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ ہیں ۔ مشاہدے میں گہرائی ہے ، تجزیے میں توازن اور تحریر میں دلائل کے انبار ! ماسٹریٹ تو پہلے ہی کرچکی تھیں اب پی ایچ ڈی کی تیاری ہے۔
آہ! اس بار تو کوئی عکس آئینے میں ایک لمحے سے زیادہ ٹھہرتا ہی نہیں ۔
ولایت ہو آئی ہیں ۔ وہاں کے قصے اور باتصویر سفرنامے ساتھ لائی ہیں ۔محفلین کو پہلے کی طرح اپنے ساتھ مصروف کر رکھا ہے ۔ ہر ایک کی فکر بھی ہے ۔ کسی کی سالگرہ بھول نہ جائے۔ کوئی مبارکبادی دھاگا بندھنے سے نہ رہ جائے۔ ہر ہر مراسلے کو مثبت ریٹنگ دیتی جاتی ہیں۔ ایک طرف مختلف فکری موضوعات پر مدلل مباحثے ہیں تو دوسری طرف ہلکی پھلکی گفت و شنید کے دائرے ہیں ۔ کہیں بپاسِ خاطرِ یاراں انتخابات کروائے جارہے ہیں تو کہیں کسوٹی پر مزاجِ یاراں کو پرکھا جارہا ہے ۔ ایک ہنگامہ ہے کہ ہر طرف بپا ہے ۔ کسی بھی مجمع میں چلے جائیے ، درمیان میں مریم افتخار کھڑی ملیں گی۔ لگتا ہے کہ محفل ختم نہیں ہورہی ، شروع ہورہی ہے ۔ بزمِ ہاؤ ہو لمحہ بہ لمحہ پر شور تر ہوتی جارہی ہے۔ دلوں میں دھڑکا ہے کہ شمعیں کسی بھی لمحے بجھادی جائیں گی لیکن آنکھوں کی چمک ہے کہ دم بدم سوا ہونے لگی ہے۔ لبوں پر ایک نعرۂ مستانہ اور فضا میں اک موجۂ رندانہ رقصاں ہے۔
ایک گہرا خوف مجھ پر طاری ہو نے لگا ہے ۔ بارِ الہٰا! جب یہ بساطِ رنگ و بو یکایک لپیٹ دی جائے گی اور نور بکھیرتی شمعوں سے سرمئی دھواں اٹھ کر آنکھوں کو دھندلانے لگے گا تو کیسا کہرام مچے گا۔ گہرے سنّاٹے کا ایک عفریت ان ساری آوازوں کو بہ یک لقمۂ جور نگل لےگا۔ لفظ و بیاں کھو جائیں گے ۔یاخدا! ہم سب کہاں جائیں گے۔
لیکن پھر ایک عکسِ امید فزا سامنے آجاتا ہے ۔ مریم افتخار ڈسکورڈ پر لائیو پوڈکاسٹ کر رہی ہیں ۔ لوگ بھاگ بھاگ کر اس بزمِ نو میں جمع ہونے لگے ہیں ۔ وہ نوید دے رہی ہیں کہ مزید تعلیمی اور تربیتی سیشن ہوتے رہیں گے ۔ ہاؤ ہو جاری رہے گی ۔ مئےکہنہ جامِ نو میں چھلکائی جائے گی۔
میں سوچ میں پڑ گیا ہوں ۔ کس عکس کو دیکھوں اور کس سے صرفِ نظر کروں ۔ کوئی عکس دم بھر کو سرِ آئینہ ٹھہرے تو اسے گرفتِ قلم میں لوں ۔ آئینہ ہی اگر عکس در عکس رنگ بدلتا جائے تو میں کیا کروں۔
میں تھک ہار کر آنلائینہ لکھنے کا خیال ترک کردیتا ہوں۔
اتنے سارے عکس قرطاس کے پردے پر کوئی کیسے اتار سکتا ہے؟! اتنی ساری رنگ برنگ تصویروں میں مزید رنگ بھرنا بھلا ممکن ہے؟
نہیں ، یہ ممکن نہیں ہے-
مجھے افسوس ہے کہ میں مریم افتخار کا خاکہ نہیں لکھ سکتا!
لیکن رنگ بھرنے کا یہ کام مجھے ہوتا نظر نہیں آتا-
یہ نہیں کہ میرے پاس رنگوں کی کمی ہے یا میرا برش تھک چکا ہے۔ نہیں !ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بات یہ ہےکہ مریم افتخار کا کوئی عکس آنکھوں کے آگے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر پا رہا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے کسی عکس کا بغور جائزہ لے سکوں ، نئے رنگوں اور نئے نقوش سے مزین ایک اور دیدہ زیب عکس پردے پر اُس کی جگہ جھلملانے لگتا ہے۔ میں ابھی اُس عکس کی کی شباہت اپنے ذہن میں محفوظ کر ہی رہا ہوتا ہوں کہ یکایک پہلے سے مختلف ، گہرا اور خوب تر ایک اور نیا عکس اُس کی جگہ اُبھر آتا ہے۔ میں اپنے آئینے کا زاویہ تبدیل کرتا ہوں کہ شاید اس طرح کوئی عکس اس میں ٹھہر جائے ۔ لیکن کچھ بھی نہیں بدلتا ۔ بس رنگ بدلتے درجنوں عکس مختلف سمتوں اور زاویوں سے اسی طرح جھمک جھمک کر آئینے کو منور کرتے رہتے ہیں ۔ رنگوں اور روشنیوں کا یہ طلسمات مجھے حیران کیے جاتا ہے۔ ایک چہرے میں اتنی مختلف شباہتیں کیسے ہوسکتی ہیں ؟ میں تعجب سے سوچتا ہوں ۔
مجھے دس سال پہلے کا ایک عکس نظر آتا ہے کہ جب مریم افتخار پہلی بار اردو محفل پر آئیں۔ بزمِ سخن میں ایک غزل کا جھماکا ہوتا ہے۔ تمام خداوندانِ سخن چونک اٹھتے ہیں:
درد اتنا ہے کہ رگ رگ کو جلاتا جائے
دل وہ پاگل ہے کہ ہر رسم نبھاتا جائے
ہائے! ایسا کلاسیکی انداز اور ایک نووارد غیر معروف شاعرہ کے سخن میں !! یہ نوعمری اور ایسا گہرا احساس!!! آثار اچھے نہیں لگتے !
یہ خاتون بساطِ قرطاس و قلم پر آتے ہی اپنے نقش بکھیرنے لگتی ہیں ۔ جلد ہی ان کے لفظوں میں ظالمانہ روایات اور جبرکےخلاف بغاوت کے رنگ نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔ جشنِ آزادی کے موقع پر جب سارے سخنور وطن کے تقدس اور آزادی کے گیت گارہے تھے تو ان کی صدا اٹھی:
یہ میرے گرد ہے کیسا جہانِ آزادی
جہاں نہیں کوئی نام و نشانِ آزادی
اِسی میں خوش ہو اگر ، تو تمہیں مبارک ہو
یہ اہتمام ، یہ جشنِ گمانِ آزادی!
سب چونک گئے ۔ یہ کیسی آواز ہے ۔ کتنی سچائی ہے اس آواز میں ! خدا خیر کرے ، بغاوت اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی ، صدائےاختلاف ٹھیک نہیں۔ اللہ انہیں اپنی امان میں رکھے!
پھر میں بزمِ سخن سے مڑ کر نثر کے زمرے کی طرف دیکھتا ہوں ۔ یہ کیا؟! یہاں بھی مریم افتخار کے کئی عکس جھلک رہے ہیں ۔ سنجیدہ موضوع اور پختہ فکر لیے ان کی تحریریں پہلے ہی روز کسی دانشمند کو یہ کہنے پر مجبور کرگئیں کہ اتنی تیز نظر اور حساس دل ہے تو ڈر ہے زندگی کے تلخابوں کو پی پی کر ان کا اپنا لہجہ تلخ نہ ہو جائے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جہاں ان کا قلم سماجی مسائل اور حقوقِ نسواں کے موضوعات پر کرنیں افشاں کرتا نظر آتا ہے وہیں ان کے قلم سے طنز و مزاح کی دھنک بھی جابجا پھوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے ان کے قلم کے تعاقب میں جانا چاہیے ۔ یہ قلم کس کس دشت میں لفظ گردی کرتا ہے ، دیکھنا چاہیے۔ لیکن میں کچھ ہی دیر میں تھک جاتا ہوں ۔ میں اتنا تیز نہیں دوڑ سکتا۔ یا خدا! اتنی رفتار اور اتنا تنوع! ! شاعری ، نثر نگاری ، دوست داری ، گپ شپ ، ساتھ ہی ساتھ کسی رکن کا انٹرویو لیا جارہا ہے ۔ کسی کو مبارکباد دی جارہی ہے تو کہیں سفرنامے کی جھلکیاں دکھائی جارہی ہیں ۔ نت نئے دھاگے کھولے جارہے ہیں ۔ غرض کون سا زمرہ ہے کہ جس میں یہ قلم ایک سی تیز رفتاری اور ربط و ضبط کے ساتھ چلتا نہیں نظر آتا ۔ ہر طرف ان کی خوش اخلاقی ، ادب اور محنت کی دھوم ہے ۔ ہر دلعزیز ، مقبول اور پسندیدہ!
پھر ایک عکس نظر آتا ہے کہ انتظامیہ نے انہیں مدیر بنادیا۔ یہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ہر ہر چیلنج قبول کیے جاتی ہیں ۔ محفل کی تیرہویں سالگرہ ہے ۔ سب محفلین مل کر دو ملین مراسلات کی طرف مارچ کر رہے ہیں ۔ میں ادھر ادھر ڈھونڈتا ہوں ۔ مریم افتخار کہیں نظر نہیں آتیں ۔ یا حیرت! کہاں چلی گئیں ۔ نہیں ، نہیں ، کہیں بھی نہیں گئیں۔ سب سے آگے جھنڈا اٹھائے تیزی سے بغیر رکے ہدف کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں ۔ کسی کو آہستہ نہیں ہونے دیتیں ۔ یا خدا ! اتنی توانائی ، اتنا جذبہ ! میں حیران ہوتا جاتا ہوں ۔ اس سفر کے دوران ان کی شخصیت کے کتنے ہی رنگ برنگے عکس اپنی جھلک دکھانے لگتے ہیں ۔ ایک لڑی میں اپنی مصوری تو دوسری میں خوش خطی کے نمونے دکھارہی ہیں ۔ اپنی فوٹو گرافی کا دھاگا الگ بنا رکھا ہے۔ کہیں پھول ہیں ، کہیں بادلو ں کے منظر اور کہیں غروبِ آفتاب کی شفق!
پھر سن ۲۰۲۰ء آگیا ۔ محفل پر انہیں آئے چار سال گزر گئے۔ لیکن یہ کیا! یکایک آئینہ بے عکس ہوجاتا ہے۔ خالی اور بے رنگ! مریم افتخار محفل سے رخصت ہوگئیں ۔ تعلیمی ذمہ داریوں کا احساس اورعملی زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن ان کی انگلی پکڑ کر کتابوں کی طرف لے گئی۔ دل سے دعا نکلتی ہے اللہ کریم اس دخترِ عزیز کو اپنی امان میں رکھنا ، کامیابیاں دینا! پھر اگلے پانچ سال تک ایک آدھ لمحے کے لیے کبھی کبھار کوئی جھلک نظر آتی ہے ورنہ آئینہ ہر عکس سے خالی ہے !
میں خوش ہونے لگتا ہوں ۔ اب شاید میں کچھ لکھ سکوں گا۔
لیکن یہ کیا !!!
آئینہ یکایک کسی وڈیو کی طرح تیز رفتاری سے رنگ برنگ جھلکتے جھمکتے عکس دوبارہ سے دکھانے لگتا ہے۔ مریم افتخار واپس محفل پر لوٹ آئیں ۔ ۲۰۲۵ کا سال ہے۔ محفل بند ہونے کا اعلان ہوچکا ہے۔ سب اراکین دل گرفتہ ہیں ۔ چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔لیکن وہ اعلان کرتی ہیں: باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل! لوگوآ ادھر آؤ ، ہنسو ، بولو ، گیت گاؤ کہ زندگی ابھی سانس لیتی ہے ۔ ایک ایک کرکے سب کو بلا بلا کر علَمِ امید کے گرد جمع کر رہی ہیں ۔ ہر روز نئے دھاگے ، نئے آئیڈیاز ۔ محفل کی رفتار میں آئی بلا کی تیزی! ایسا لگ رہا ہے کہ مریم افتخار نہیں بلکہ کسی روبوٹ نے محفل کی کمان سنبھال لی ہے۔ اِس دفعہ ان کا قلم برق رفتار ہی نہیں برق آثار بھی ہے ۔ پانچ سالوں میں سوچ اور فکر نے پختگی کےوہ مراحل طے کیے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ ہیں ۔ مشاہدے میں گہرائی ہے ، تجزیے میں توازن اور تحریر میں دلائل کے انبار ! ماسٹریٹ تو پہلے ہی کرچکی تھیں اب پی ایچ ڈی کی تیاری ہے۔
آہ! اس بار تو کوئی عکس آئینے میں ایک لمحے سے زیادہ ٹھہرتا ہی نہیں ۔
ولایت ہو آئی ہیں ۔ وہاں کے قصے اور باتصویر سفرنامے ساتھ لائی ہیں ۔محفلین کو پہلے کی طرح اپنے ساتھ مصروف کر رکھا ہے ۔ ہر ایک کی فکر بھی ہے ۔ کسی کی سالگرہ بھول نہ جائے۔ کوئی مبارکبادی دھاگا بندھنے سے نہ رہ جائے۔ ہر ہر مراسلے کو مثبت ریٹنگ دیتی جاتی ہیں۔ ایک طرف مختلف فکری موضوعات پر مدلل مباحثے ہیں تو دوسری طرف ہلکی پھلکی گفت و شنید کے دائرے ہیں ۔ کہیں بپاسِ خاطرِ یاراں انتخابات کروائے جارہے ہیں تو کہیں کسوٹی پر مزاجِ یاراں کو پرکھا جارہا ہے ۔ ایک ہنگامہ ہے کہ ہر طرف بپا ہے ۔ کسی بھی مجمع میں چلے جائیے ، درمیان میں مریم افتخار کھڑی ملیں گی۔ لگتا ہے کہ محفل ختم نہیں ہورہی ، شروع ہورہی ہے ۔ بزمِ ہاؤ ہو لمحہ بہ لمحہ پر شور تر ہوتی جارہی ہے۔ دلوں میں دھڑکا ہے کہ شمعیں کسی بھی لمحے بجھادی جائیں گی لیکن آنکھوں کی چمک ہے کہ دم بدم سوا ہونے لگی ہے۔ لبوں پر ایک نعرۂ مستانہ اور فضا میں اک موجۂ رندانہ رقصاں ہے۔
ایک گہرا خوف مجھ پر طاری ہو نے لگا ہے ۔ بارِ الہٰا! جب یہ بساطِ رنگ و بو یکایک لپیٹ دی جائے گی اور نور بکھیرتی شمعوں سے سرمئی دھواں اٹھ کر آنکھوں کو دھندلانے لگے گا تو کیسا کہرام مچے گا۔ گہرے سنّاٹے کا ایک عفریت ان ساری آوازوں کو بہ یک لقمۂ جور نگل لےگا۔ لفظ و بیاں کھو جائیں گے ۔یاخدا! ہم سب کہاں جائیں گے۔
لیکن پھر ایک عکسِ امید فزا سامنے آجاتا ہے ۔ مریم افتخار ڈسکورڈ پر لائیو پوڈکاسٹ کر رہی ہیں ۔ لوگ بھاگ بھاگ کر اس بزمِ نو میں جمع ہونے لگے ہیں ۔ وہ نوید دے رہی ہیں کہ مزید تعلیمی اور تربیتی سیشن ہوتے رہیں گے ۔ ہاؤ ہو جاری رہے گی ۔ مئےکہنہ جامِ نو میں چھلکائی جائے گی۔
میں سوچ میں پڑ گیا ہوں ۔ کس عکس کو دیکھوں اور کس سے صرفِ نظر کروں ۔ کوئی عکس دم بھر کو سرِ آئینہ ٹھہرے تو اسے گرفتِ قلم میں لوں ۔ آئینہ ہی اگر عکس در عکس رنگ بدلتا جائے تو میں کیا کروں۔
میں تھک ہار کر آنلائینہ لکھنے کا خیال ترک کردیتا ہوں۔
اتنے سارے عکس قرطاس کے پردے پر کوئی کیسے اتار سکتا ہے؟! اتنی ساری رنگ برنگ تصویروں میں مزید رنگ بھرنا بھلا ممکن ہے؟
نہیں ، یہ ممکن نہیں ہے-
مجھے افسوس ہے کہ میں مریم افتخار کا خاکہ نہیں لکھ سکتا!