یہ ریڈیو پاکستان کراچی ہے

جاسمن

لائبریرین
مہدی حسن پہ پروگرام آرہا ہے۔
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
 

فرقان احمد

محفلین
ریڈیو کا نام نظر سے گزرتے ہی اک خوبصورت سا احساس ہوا ریڈیو پاکستان لاہور کا نام لیتے ہی یادیں کونپلوں کیطرح پھوٹ پڑتی ہیں۔
جب اس فورم پر آئی تھی سوچا تھا یہاں کوئی ریڈیو کا ذکر بھی کریگا کیونکہ زندگی کے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت ریڈیو کے لیے بھی مختص کیا خیر بہت شکریہ سر سلامت رہیں۔
ان شاء اللہ، جلد ہی! :)
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنی یاداشت محفلین سے شیئر کریں ،
جیسے کوئی ایسا ریڈیو پروگرام جس کا آپ کو انتظار رہتا تھا ۔
ریڈیو لاہور سے یوتھ میگزین میرا پسندیدہ پروگرام ہوتا تھا جس دن نہیں سنتی میری شام اُداس ہوتی اور
ایک اور پروگرام "مٹی دی خوشبو" جو کہ صورت گڑھ ریڈیو سے نشر ہوتا تھا وہ بھی بہت اچھا تھا انڈین اور پاکستانی خطوط کا سلسلہ ہوتا تھا اتنی پرانی یادیں نہیں شائد اب بھی یہ پروگرامز ہوتے ہوں لیکن سماعتیں کچھ آوازوں کی عادی ہوجاتی اگر وہ نہ ہوں تو دل اٹھا جاتا ریڈیو سے بہت کچھ سیکھا اور پایا ریڈیو لاہور میرے محسن ہیں:in-love:
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
کچھ نہ کچھ لکھنے کا ارادہ ہے، ریڈیو کے متعلق، ریڈیو پاکستان کی نشریات سے متعلق۔ ان شاء اللہ جلد ہی، بشرط فرصت!
ارررے یہ تو بہت اچھی بات ہے کیا ہی اچھا ہو گر ریڈیو لاہور کے نئے پُرانے پرزینٹرز کی فہرست بھی ہو کہ کون پروگرام کر رہا کون نہیں
 

سیما علی

لائبریرین
ریڈیو پاکستان لاہور سے ہر ہفتے باقاعدگی آنے والا پروگرام
تلقین شاہ جو جناب اشفاق احمد صاحب پروڈیوس کرتے تھے آواز بھی انکی ہوتی تھی ۔۔”تلقین شاہ“ نے جو خدمات انجام دیں وہ شاید کسی اور پروگرام کے حصے میں نہ آ سکیں۔ اشفاق احمد کی یہ قومی خدمات کی معراج تھی۔۔
 
ایک دن ابا جان دفتر سے آتے ہوئے مرفی کا ریڈیو گھر لے آئے۔ وہ ہماری ریڈیو پاکستان سے محبت کا پہلا دن تھا۔ اتوار کی صبح دس بجے بچوں کا پروگرام آتا تو ہم تینوں بچے اس کے گرد مکھیوں کی طرح جمع ہوجاتے۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے حامد میاں کے ہاں سے اتوار کا آغاز ہوچکا ہوتا۔ ظفر صدیقی حامد میاں اور افضل صدیقی ان کے سالے بنتے ۔ عرشِ منیر بھی ہوتیں۔

بچوں کے پروگرام میں ظفر صدیقی بھائی جان اور منی باجی بطور منی باجی شریک ہوتیں۔ پروگرام کے آخری حصے میں بچوں کا تعارف کروایا جاتا۔ ہم نے بھی صدر ایوب کی تعریف میں ایک نظم لکھی اور پڑھنے کے لیے پہنچ گئے۔ تعارف میں ہمیں بلایا گیا اور ہم نے یہی نظم پڑھ کر سنائی اور داد سمیٹی۔


ساڑھے دس بجے سے کمرشل سروس شروع ہوجاتی۔ پھر شام تک جاری رہتی میں پاکستانی فلموں کے گانے سنوائے جاتے اور درمیان میں مختلف اشیاء کے اشتہار ایک سماں باندھ دیتے۔


ہفتے کی رات "اسٹوڈیو نمبر نو" ہم سب کا پسندیدہ پروگرام ہوتا، جس میں نشر کیے کئی ڈرامے اب بھی یاد آتے ہیں۔ ریڈیو کے گرد ایک دائرے میں لیٹ جاتے اور ڈراما سنتے ۔ یوں لگتا جیسے یه سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہورہا ہو۔ یه ریڈیو ہماری زندگی کا خوبصورت ترین ریڈیو تھا اور یه زمانہ خوبصورت ترین زمانہ۔


شکیل انور اور انور بہزاد کے خبریں پڑھنے کے انداز پر تو ہم آج بھی فدا ہیں۔


ایک بار زیڈ اے بخآری صاحب کی آواز میں پطرس کا مضمون "مرحوم کی یاد میں" سنا تو ان کے گرویدہ ہوگئے۔ بعد میں یہی مضمون پطرس کے مضامین نامی کتاب میں پڑھا اور چھوٹے بخآری صاحب کے انداز کو یاد کرکے خوب لطف اٹھایا۔


مہدی حسن، رشدی، مالا، نسیم بیگم اسی وقت سے ہمارے پسندیدہ ترین گلوکار بن چکے تھے۔


کیا کیا یادیں وابستہ ہیں ریڈیو پاکستان کے ساتھ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریڈیو سن کر بڑی ہونے والی نسل سے میرا بھی تعلق ہے ۔ یہ لڑی دیکھ کر بے شمار خوشگوار یادیں تازہ ہوگئیں کہ جن کے لکھنے کو ایک دفتر چاہئے ۔ ریڈیو نے اردو زبان کی ترویج اور ترقی میں جو کردار ادا کیا وہ بھی ایک علاحدہ تحریر کا متقاضی ہے ۔ وہ بات پھر کبھی سہی ۔
ویسے حیدرآباد ریڈیونے بھی کئی بڑے فنکار پیدا کئے ہیں ۔ حیدرآباد اسٹیشن پر بھی اہلِ علم و ہنر کا ایک بڑا حلقہ ہوا کرتا تھا ۔ ایک بات یاد آرہی ہے ۔ ہفتے کی صبح بچوں کا پروگرام پھلواری ہوا کرتا تھا جس میں ہائی اسکول کی طرف سے ہم چند دوستوں کو ایک بار جانا پڑا ۔ وہ بڑے مزے کا دن تھا ۔ پروگرام کے بعد ایک کارکن نے ہمیں پورے ریڈیو اسٹیشن کاایک معلوماتی دورہ کرایا ۔ ریڈیو کے ایک پروگرام ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے طاہر حسین برنی ۔ ان کے کمرے کے باہر تختی لگی تھی جس پر ان کا نام "ٹی ایچ برنی" لکھا ہوا تھا ۔ وہاں سے گزرے تو تختی دیکھ کر ایک بچے نے پوچھ لیا کہ یہ ٹی ایچ برنی کا کیا مطلب ہے ۔ اس سے پہلے کہ گائیڈ صاحب کوئی جواب دیتے ہمارے "معصوم" منہ سے بے ساختہ نکلا " ٹوٹی ہوئی برنی"۔
اس جملے میں معصوم کو شریر پڑھنے سے گریز کیا جائے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریڈیو پاکستان اور زیڈ اے بخاری کے حوالے سے کئی دلچسپ واقعات مشہور ہیں ۔ بخاری صاحب نے ایک دن ریڈیو کھولا تو کوئی گلوکار غالب کی مشہور غزل گارہا تھا ۔ اس غزل کا ایک شعر اس نے کچھ یوں ادا کیا :
قید و حیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں ۔ ۔ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

ریڈیو پاکستان کا ابتدائی دور تھا اور اکثر نشریات "لائیو" ہوا کرتی تھیں ۔ بخاری صاحب نے یہ شعر سن کر فوراً اسٹیشن فون کیا اور کہا کہ اس گلوکار سے کہو کہ یا تو شعر درست پڑھے یا پھر اپنی گنتی درست کرے اور کہے کہ " قید و حیات و بند و غم اصل میں چاروں ایک ہیں " ۔
 

وجی

لائبریرین
یہ درود پاک تھا جسے ہم روز صبح صبح سنا کرتے تھے ۔ وہ بھی ابو کے ریڈیو سے چوری چھپے ۔ تاکہ گانا سننے کا الزام نہ لگے اور پھر ہماری ’’کٹائی‘‘ نہ ہوجائے ۔ :LOL::LOL::LOL:

اس درود پاک کو تو ہم نے پی ٹی وی پر ہی سنا ہے
جب پی ٹی وی دو حصوں میں اپنےپورے دن کی نشریات کرتا تھا۔ صبح 6 بجے سے دن 12بجے تک پھر دوپہر 3 بجے سے رات 12 بجے تک
اور جمعہ کو 12 بجے یہ درود نشر ہوا کرتا تھا۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ریڈیو والوں کا کام تھا۔

ریڈیو پاکستان کراچی کے پاس ملیر ڈسٹرک میں قائد آباد کے علاقہ میں بہت بڑاعلاقہ موجود ہے جہاں ریڈیو میں کام کرنے والوں کے رہائش کا بھی انتظام ہے۔
 
کیا آپ کو ریڈیو پاکستان کراچی کا خط و کتابت کا پتہ یاد ہے؟

ریڈیو پاکستان،
71. گردن ایسٹ،
بندر روڈ کراچی

یہ ایم اے جناح روڈ ( بندر روڈ) اور گارڈن روڈ کے سنگم پر بنا ایک قدیم گھر تھا جسے بعد میں بیچ دیا گیا ہوگا۔ آج اما ٹاور کی بلند عمارت اسی جگہ واقع ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کیا آپ کو ریڈیو پاکستان کراچی کا خط و کتابت کا پتہ یاد ہے؟

ریڈیو پاکستان،
71. گردن ایسٹ،
بندر روڈ کراچی

یہ ایم اے جناح روڈ ( بندر روڈ) اور گارڈن روڈ کے سنگم پر بنا ایک قدیم گھر تھا جسے بعد میں بیچ دیا گیا ہوگا۔ آج اما ٹاور کی بلند عمارت اسی جگہ واقع ہے۔
بالکلُ یاد ہے بھیا ہماری ایک دوست بنگالی میں علاقائی خبریں پڑھتی تھیں اُنکے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان جانے کا اتفاق ہوا یہ 1980 کی بات ہے اُس زمانے میں بنگلہ دیش کے لئیے کوئی پروگرام ریڈیو سے نشر ہوتا اُنکی چھوڑنے گیئے تھے تو جتنی دیر ریکارڈنگ تھی رُک گئی بہت اچھا ماحول ہوا کرتا تھا انتہائی مہذب اور پڑھے لکھے لوگ ۔۔۔۔۔
 
ایک دن ہم اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے اور بہت سی پاکستانی فلموں کے نام ایک کاغذ پر لکھ لیے۔ تب ایک فرمائشی پروگرام کے ماڈریٹر جناب حسن شہید مرزا کے نام ایک خط لکھا جس کے ہر ایک جملے میں کئی فلموں کے نام شامل تھے۔ مرزا صاحب کو کراچی سے دو بھائیوں کا یہ خط اس قدر بھایا کہ اس کی عبارت کو من و عن نشر کیا اور دیگر سامعین کے لیے ایک سوال بنادیا۔ اگلے ہفتے کئی سننے والوں نے تمام فلموں کے نام بوجھ لیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریڈیو کے ایک پروگرام ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے طاہر حسین برنی ۔ ان کے کمرے کے باہر تختی لگی تھی جس پر ان کا نام "ٹی ایچ برنی" لکھا ہوا تھا ۔ وہاں سے گزرے تو تختی دیکھ کر ایک بچے نے پوچھ لیا کہ یہ ٹی ایچ برنی کا کیا مطلب ہے ۔ اس سے پہلے کہ گائیڈ صاحب کوئی جواب دیتے ہمارے "معصوم" منہ سے بے ساختہ نکلا " ٹوٹی ہوئی برنی"۔
اس جملے میں معصوم کو شریر پڑھنے سے گریز کیا جائے ۔

خلیل بھائی ، لکھنے کو تو میں نے لکھ دیا لیکن اب میں اس سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ نمعلوم کتنے لوگوں کو برنی کا مطلب معلوم ہے ۔ یا پھر آپ کے خیال میں برنی کی تصویر بھی " معدوم ہوتی ہوئی اشیاء" والے دھاگے میں لگائی جائے ؟!
 
Top