یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! کچھ دنوں پہلے میں نے بزمِ سخن میں یہ عندیہ ظاہر کیا تھا کہ سات آٹھ غزلیں اور نظمیں جو پچھلے دو تین سالوں میں جمع ہوگئی ہیں انہیں ہر ہفتے عشرے یہاں پوسٹ کروں گا ۔ یہ سلسلہ شروع کر بھی دیا تھا لیکن درمیان میں کچھ مصروفیات آڑے آگئیں ۔ ارادہ ہے کہ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جائے ۔ ایک نسبتاً تازہ غزل پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کہ کچھ اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

***

ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں

نجانے کون سی منزل ہے یہ سودائے الفت کی
دوانے شہر بھر کے اب مجھے سمجھانے آتے ہیں

کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں

کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں

روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں

نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں

مسافر ہوں ، الہٰی خیر میرے دین و ایماں کی
مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں



۔۔۔۔ ق ۔۔۔۔۔


کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
مجھے آباد شہروں میں نظر ویرانے آتے ہیں

کوئی تعزیر سی تعزیر ہے اک جرمِ عشرت کی
جدھر جاؤں تعاقب میں کئی غم خانے آتے ہیں

کوئی تعبیر سی تعبیر ہے اک خوابِ عزلت کی
غزالانِ جنوں پیشہ مجھے بہلانے آتے ہیں

***

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2023​
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں
کیا بات ہے!! بہت عمدہ۔ ۔کیفیت نامے پر پڑھ کر سوچا تھا کہ غزل بھی یقینا خوبصورت ہو گی ۔ واقعی خوبصورت کلام ۔ ۔ ڈھیروں داد کا مستحق ۔ :applause:

کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
بہت اعلی !
روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں
زندگی ایسے ہی رواں دواں ہے ۔ ۔ کیسی کڑی حقیقت ۔ ۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔

اور آخری تینوں اشعار حسب معمول رشک میں مبتلا کر گئے۔ ۔ شاعری ہو اور ایسی ہو!! ماشااللہ ،سبحان اللہ میرے محترم استاد۔۔
 
مکرمی سرور عالم راز صاحب ، آپ کے حسبِ حکم ایک تازہ غزل یہاں پوسٹ کردی ہے ۔ آپ کی توجہ کا طالب ہوں ۔
عزیز مکرم ظہیر صاحب: عنایت کا شکریہ۔ غزل دیکھ کر دلی مسرت ہوئی ۔ مجھ کو یقین تھا کہ آپ اس طرف جلد ہی متوجہ ہوں گے۔ جزاک اللہ خیرا۔ غزل پر تبصرے کا کام شروع کر دیا ہے اور انشا اللہ کل تک وہ مکمل ہو جائے گا۔ مقطع کی کمی محسوس ہورہی ہے ۔ اگر مناسب جانیں اور وقت اجازت دے تو اس کو دیکھ لیجئے۔ امید ہے تب تک ارشد رشید صاحب : ضرورت شعری: پر اپنی رائے سے سبک دوش ہو چکے ہوں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو میں بھی اس موضوع پر کچھ لکھ سکوں گا۔ تبصرہ کی تقریب سے میرا موقف واضح ہو جائے گا۔ غزل کی داد پیشگی حاضر ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آپ کو غزل پر کام جاری رکھنا چاہئے۔ اچھے کام میں تکلف کیسا؟
سرور راز
 

محمد وارث

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب قبلہ، اور مطلع تو بہت پسند آیا:

ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں

لاجواب
 
عزیز مکرم ظہیر صاحب: تسلیمات !
سب سے پہلے اس خوبصورت غزل کا دلی شکریہ حاضر خدمت ہے۔ مجھے اس کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ ایک مدت سے آپ گونا گوں اسباب کی بنا پر اس جانب توجہ نہیں دے پا رہے تھے ۔ خدا خدا کر کے آپ کچھ وقت نکالنے میں کامیاب رہے اور نتیجہ میں یہ بیش بہا سوغات ہمارے ہاتھ لگی۔حسب معمول بے تکلف اور بے لاگ لکھنے کا ارادہ ہے لہذہ آپ سے پیشگی گذارش ہے کہ کہیں کوئی گستاخی سرزد ہو جائے تو ازراہ بندہ نوازی چشم پوشی سے نوازیں۔ یہ تبصرہ صرف میری رائے ہے جس سے اختلاف کا حق آپ کو ہمہ وقت اور ہر سطح پر ہے ۔ خدا را اس ناچیز کاوش کو :اصلاح: کا لقب ہر گز نہ دیں کیوں کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ ایسی کوئی کوشش کر سکوں۔ دوران تبصرہ آپ کے بنیادی خیالات پر نظر رکھوں گا اور اپنی بات کو صراط مستقیم پر ہی رکھوں گا تاکہ آپ کے خیالات حتی الامکان قایم رہیں اور میں ان میں مخل نہ ہوں۔ انشا اللہ۔ غزل کی ز مین آپ نے مشکل منتخب کی ہے گو وہ سنگلاخ تو نہیں ہے البتہ اس میں لڑکھڑانے کے امکانات کافی ہیں جو مناسب احتیاط اورپیش بینی سے قابو میں رکھے جا سکتےہیں۔ اب بسم اللہ کی جائے؟
==================
ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں
مصرع اول میں ہلکی سی تعقیدلفظی ہے ۔ علاوہ ازیں محبت کے غم بھلا :مرادیں پانے : کیونکر آ سکتے ہیں جبکہ غموں کی اپنی کوئی مراد نہیں ہوتی ؟ ہاں البتہ وہ خود مرادیں ہو سکتے ہیں ، درگاہِ الفت سے کار بر آری کے امید وار بھی ہو سکتے ہیں اور بارگاہ دل میں بطور نذرانہ بھی پیش کئے جا سکتے ہیں ۔ دوسرا مصرع بہت معنی خیز اور صاف ستھرا ہے ۔ چنانچہ شعر کی نئی تجویز یوں ہے۔

:ہزاروں حسرت و اُمید کے افسانے آتے ہیں
یہ دل دَرگاہِ الفت ہے، یہاں نذرانے آتے ہیں:
--------------
نجانے کون سی منزل ہے یہ سودائے الفت کی
دوانے شہر بھر کے اب مجھے سمجھانے آتے ہیں
یہ شعر اچھا ہے۔ داد قبول کیجئے۔ اور اجازت دیجئے کہ :بقدر بادام : ترمیم کر سکوں۔ مقصد شعر کی معنویت میں بہتری اور بندش میں چستی ہے اور ساتھ ہی دوسرا مصرع بہتر ہو جائے تو کیا ہرج ہے۔ دیکھئے بات بنی ؟

:الٰہی ! کون سی منزل ہے یہ سودائے اُلفت کی؟
کہ دُنیا بھر کے دیوانے مجھے سمجھانے آتے ہیں:
-------------
کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
بندہ پرور! یہ شعر خادم کو مطلق بھرتی کا لگا۔ دونوں مصرعے مل کر بھی اچھے معنی پر قادرنہیں ہیں اور غزل کے آہنگ اور روانی سے متصادم ہیں۔ اس کو حذف کر دیں تو بہتر ہوگا۔ ایسا میرا خیال ہے۔ یوں آپ بہتر جانتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنی معنوی اولاد کو رخصت نامہ دینے میں ہرج نہیں ہے۔
------------
کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں
شعر بہت ڈھیلا ڈھالا ہے ۔ اس کی بنت بہت کمزور اور کم اثر ہے اور بندش نہایت سست۔ پہلا مصرع قدرے بے ربطی اور نیم پختہ طرز بیا ن کا بھی شکار ہے اور دوسرا مصرع : کب یونہی: میں و کی تخفیف پر لڑکھڑا رہا ہے۔ اس کو یوں کر کے دیکھئے ، انشااللہ بات بن جائے گی۔

:کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!
زمانے کے لبوں پر یونہی کب افسانے آتے ہیں؟:
----------------
روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں
آپ نے :میخانہء اقدار دُنیا : ترکیب اختراع کی ہے۔ کوشش تو اچھی ہے لیکن ترکیب سپاٹ ہے اور طبیعت کو بالکل متاثرنہ کر سکی۔ یہ میری افتاد طبع کا قصور بھی ہو سکتا ہے ۔ شعر کا مضمون اور اس کا بیان بھی چستی اور بلندی کا متقاضی ہے تاکہ پڑھنے میں کچھ تو لطف آئے۔ دیکھئے درج ذیل کوشش کیسی ہے :

:روایت ہے یہی کیا زندگی کے بادہ خانے کی
پرانے ٹوٹنے پر ہی نئے پیمانے آتے ہیں ؟ :
---------------
نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں
گستاخی معاف ! یہ شعر بہت سست ہے۔ ذہن پر زور دیجئے تو مطلب سمجھ میں تو آجاتا ہے لیکن ایک تو :جلوہء حسن فروزاں: اور اس پر :بھی: کا قدغن شعر کی معنی آفرینی کو سامنے آنے کا موقع نہیں دیتے۔ کیا کچھ پروانے ایسے بھی ہیں جن پر : حسن فروزاں: کا جلوہ اپنے راز فاش کردیتا ہے؟ آخر سب پر یہ نوازش کیوں نہیں ہے؟ بہر کیف دوسرا مصرع پہلے کا ساتھ نہیں دے سکا ہے ۔ کچھ انداز بیان بدل کر دیکھیں؟ شاید کوئی فرق نظر آئے۔ انشا اللہ۔

:نہیں کھلتا یہ راز ِحسن، یہ کیسا تماشا ہے ؟
سلامت کیوں طواف ِ شمع سے پروانے آتے ہیں؟:
--------------
مسافر ہوں ، الہٰی خیر میرے دین و ایماں کی
مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں
یہاں : مسافر ہوں : کا کیا مقام اور ضرورت ہے؟ یہ بھرتی کا ہے اور اس کو حذف کرنا مستحسن ہے۔ اگر آپ مسافر نہ ہوتے تو یہ راہ کے بتخانے کیا آپ کے دین و ایماں کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے تھے؟ دوئم یہ کہ :مرے رستے: بھی بھرتی ہے۔ جب آپ :مسافر ہیں : تو لازمی طور سے راستے میں ہی ہوں گے۔شعر بدلنے کی ضرورت ہے ۔ دیکھئے یہ ترمیم کیسی ہے۔ شکریہ۔

:مجھے ہے فکر ایماں برملا! توبہ، معاذاللہ
رہ اُلفت میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں !:
--------------
آخر کے تین اشعار کو آپ نے قطع بند بنانے کی کوشش کی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ برا نہ مانیں لیکن یہ تینوں اشعار کمزور اور اپنے معانی قاری پر ظاہر کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اشعار کے قوافی اپنا فرض نبھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں اور اشعار کی بنت بھی کمزوری سے آشنا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ پہلے دو اشعارکو تبدیل کریں اورتیسرے کو مقطع سے بدل دیں۔اس میں محنت اور فکر تولگے گی لیکن پھر تینوں اشعار غزل سے آہنگ اور پیرایہء بیان میں ایک جان ہو جائیں گے اور غزل مکمل ہو جائے گی۔ آپ سوچ لیں ۔ اس سے بہتر کوئی اور صورت ہے تو اس کو آزمایا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ فی الحال اپنی تجویز پیش کرتا ہوں۔ نگاہ انتقاد و انتخاب کی درخواست ہے۔
کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
مجھے آباد شہروں میں نظر ویرانے آتے ہیں
اس کو درج ذیل شکل دی جا سکتی ہے لیکن میں اس صورت سے مطمئن نہیں ہوں تا وقتیکہ آپ اپنی رائے سے آگاہ کریں:

:کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
تمھارے شہر میں مجھ کو نظر ویرانے آتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعزیر سی تعزیر ہے اک جرمِ عشرت کی
جدھر جاؤں تعاقب میں کئی غم خانے آتے ہیں
یہ شعر الجھا ہو ا ہے اور اپنے معنی میں بھی صاف نہیں ہے۔ غم خانے آپ کے :تعاقب: میں کیسے آ سکتے ہیں اور وہ بھی :کئی: غم خانے ؟ شعر بہت کمزور ہے اور بہتری کا متقاضی ہے۔

:خدایا کیایہی تعزیر ہے اک جرم اُلفت کی؟
مرے آنسو مجھے ہر گام پر شرمانے آتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعبیر سی تعبیر ہے اک خوابِ عزلت کی
غزالانِ جنوں پیشہ مجھے بہلانے آتے ہیں
اس شعر کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں۔ اگر اس کو آپ مقطع میں تبدیل کردیں تو بہتر ہوگا۔ غزل بھی اس صورت میں مکمل ہو جائے گی۔ انشا اللہ۔
=====================
آپ سے اظہار خیال کی گزارش ہے۔ امید ہے میری کوتاہیوں سے در گزر فرمائیں گے۔ شاہاں چہ عجب گر بنوازندگدا را۔

سرور راز
 
ظہیر بھائی، آداب ... آپ کی غزل کل پڑھی تھی، مگر کچھ تبصرہ کرنے حوالے سے متذبذب رہا کہ مطلع کے علاوہ دیگر اشعار اتنے متاثر کن نہیں لگے. اب ہم کیا کریں کہ آپ نے اپنے کلام کا جو معیار قائم کر دیا ہے، اگر غزل ذرا بھی اس سے آگے پیچھے ہو تو ہم تشنہ رہ جاتے ہیں . بخدا یہی غزل کسی اور نے لگائی ہوتی تو شاید میں فورا تعریفی کلمات لکھ ڈالتا ... جب تک آپ کی غزل میں نادر (اضافی) تراکیب نہ ہوں، لطف نہیں آتا ... اور یہ غزل آپ نے اپنی عام، بقول کسے بھاری بھرکم ، طرز سے ہٹ کر کافی حد تک سادہ زبان میں کہی ہے.
آپ پر مشکل گوئی(بقول کسے بھاری بھرکمی) کی تمہت ایک آدھ بار نظر سے گزری ہے ... لیکن میرے خیال میں تو یہی مرصع طرز بیان آپ پر ججتا ہے ... فی زمانہ اکا دکا لوگ ہی اس اسلوب کو نبھانےکی اہلیت رکھتے ہیں اور آپ میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ... لہذا آپ کو اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے.
 
عزیز مکرم ظہیر صاحب: تسلیمات !
سب سے پہلے اس خوبصورت غزل کا دلی شکریہ حاضر خدمت ہے۔ مجھے اس کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ ایک مدت سے آپ گونا گوں اسباب کی بنا پر اس جانب توجہ نہیں دے پا رہے تھے ۔ خدا خدا کر کے آپ کچھ وقت نکالنے میں کامیاب رہے اور نتیجہ میں یہ بیش بہا سوغات ہمارے ہاتھ لگی۔حسب معمول بے تکلف اور بے لاگ لکھنے کا ارادہ ہے لہذہ آپ سے پیشگی گذارش ہے کہ کہیں کوئی گستاخی سرزد ہو جائے تو ازراہ بندہ نوازی چشم پوشی سے نوازیں۔ یہ تبصرہ صرف میری رائے ہے جس سے اختلاف کا حق آپ کو ہمہ وقت اور ہر سطح پر ہے ۔ خدا را اس ناچیز کاوش کو :اصلاح: کا لقب ہر گز نہ دیں کیوں کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ ایسی کوئی کوشش کر سکوں۔ دوران تبصرہ آپ کے بنیادی خیالات پر نظر رکھوں گا اور اپنی بات کو صراط مستقیم پر ہی رکھوں گا تاکہ آپ کے خیالات حتی الامکان قایم رہیں اور میں ان میں مخل نہ ہوں۔ انشا اللہ۔ غزل کی ز مین آپ نے مشکل منتخب کی ہے گو وہ سنگلاخ تو نہیں ہے البتہ اس میں لڑکھڑانے کے امکانات کافی ہیں جو مناسب احتیاط اورپیش بینی سے قابو میں رکھے جا سکتےہیں۔ اب بسم اللہ کی جائے؟
==================
ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں
مصرع اول میں ہلکی سی تعقیدلفظی ہے ۔ علاوہ ازیں محبت کے غم بھلا :مرادیں پانے : کیونکر آ سکتے ہیں جبکہ غموں کی اپنی کوئی مراد نہیں ہوتی ؟ ہاں البتہ وہ خود مرادیں ہو سکتے ہیں ، درگاہِ الفت سے کار بر آری کے امید وار بھی ہو سکتے ہیں اور بارگاہ دل میں بطور نذرانہ بھی پیش کئے جا سکتے ہیں ۔ دوسرا مصرع بہت معنی خیز اور صاف ستھرا ہے ۔ چنانچہ شعر کی نئی تجویز یوں ہے۔

:ہزاروں حسرت و اُمید کے افسانے آتے ہیں
یہ دل دَرگاہِ الفت ہے، یہاں نذرانے آتے ہیں:
--------------
نجانے کون سی منزل ہے یہ سودائے الفت کی
دوانے شہر بھر کے اب مجھے سمجھانے آتے ہیں
یہ شعر اچھا ہے۔ داد قبول کیجئے۔ اور اجازت دیجئے کہ :بقدر بادام : ترمیم کر سکوں۔ مقصد شعر کی معنویت میں بہتری اور بندش میں چستی ہے اور ساتھ ہی دوسرا مصرع بہتر ہو جائے تو کیا ہرج ہے۔ دیکھئے بات بنی ؟

:الٰہی ! کون سی منزل ہے یہ سودائے اُلفت کی؟
کہ دُنیا بھر کے دیوانے مجھے سمجھانے آتے ہیں:
-------------
کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں
بندہ پرور! یہ شعر خادم کو مطلق بھرتی کا لگا۔ دونوں مصرعے مل کر بھی اچھے معنی پر قادرنہیں ہیں اور غزل کے آہنگ اور روانی سے متصادم ہیں۔ اس کو حذف کر دیں تو بہتر ہوگا۔ ایسا میرا خیال ہے۔ یوں آپ بہتر جانتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنی معنوی اولاد کو رخصت نامہ دینے میں ہرج نہیں ہے۔
------------
کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں
شعر بہت ڈھیلا ڈھالا ہے ۔ اس کی بنت بہت کمزور اور کم اثر ہے اور بندش نہایت سست۔ پہلا مصرع قدرے بے ربطی اور نیم پختہ طرز بیا ن کا بھی شکار ہے اور دوسرا مصرع : کب یونہی: میں و کی تخفیف پر لڑکھڑا رہا ہے۔ اس کو یوں کر کے دیکھئے ، انشااللہ بات بن جائے گی۔

:کوئی تو بات ہے یارو کہ رُسوائے محبت ہوں!
زمانے کے لبوں پر یونہی کب افسانے آتے ہیں؟:
----------------
روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں
آپ نے :میخانہء اقدار دُنیا : ترکیب اختراع کی ہے۔ کوشش تو اچھی ہے لیکن ترکیب سپاٹ ہے اور طبیعت کو بالکل متاثرنہ کر سکی۔ یہ میری افتاد طبع کا قصور بھی ہو سکتا ہے ۔ شعر کا مضمون اور اس کا بیان بھی چستی اور بلندی کا متقاضی ہے تاکہ پڑھنے میں کچھ تو لطف آئے۔ دیکھئے درج ذیل کوشش کیسی ہے :

:روایت ہے یہی کیا زندگی کے بادہ خانے کی
پرانے ٹوٹنے پر ہی نئے پیمانے آتے ہیں ؟ :
---------------
نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں
گستاخی معاف ! یہ شعر بہت سست ہے۔ ذہن پر زور دیجئے تو مطلب سمجھ میں تو آجاتا ہے لیکن ایک تو :جلوہء حسن فروزاں: اور اس پر :بھی: کا قدغن شعر کی معنی آفرینی کو سامنے آنے کا موقع نہیں دیتے۔ کیا کچھ پروانے ایسے بھی ہیں جن پر : حسن فروزاں: کا جلوہ اپنے راز فاش کردیتا ہے؟ آخر سب پر یہ نوازش کیوں نہیں ہے؟ بہر کیف دوسرا مصرع پہلے کا ساتھ نہیں دے سکا ہے ۔ کچھ انداز بیان بدل کر دیکھیں؟ شاید کوئی فرق نظر آئے۔ انشا اللہ۔

:نہیں کھلتا یہ راز ِحسن، یہ کیسا تماشا ہے ؟
سلامت کیوں طواف ِ شمع سے پروانے آتے ہیں؟:
--------------
مسافر ہوں ، الہٰی خیر میرے دین و ایماں کی
مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں
یہاں : مسافر ہوں : کا کیا مقام اور ضرورت ہے؟ یہ بھرتی کا ہے اور اس کو حذف کرنا مستحسن ہے۔ اگر آپ مسافر نہ ہوتے تو یہ راہ کے بتخانے کیا آپ کے دین و ایماں کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے تھے؟ دوئم یہ کہ :مرے رستے: بھی بھرتی ہے۔ جب آپ :مسافر ہیں : تو لازمی طور سے راستے میں ہی ہوں گے۔شعر بدلنے کی ضرورت ہے ۔ دیکھئے یہ ترمیم کیسی ہے۔ شکریہ۔

:مجھے ہے فکر ایماں برملا! توبہ، معاذاللہ
رہ اُلفت میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں !:
--------------
آخر کے تین اشعار کو آپ نے قطع بند بنانے کی کوشش کی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ برا نہ مانیں لیکن یہ تینوں اشعار کمزور اور اپنے معانی قاری پر ظاہر کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اشعار کے قوافی اپنا فرض نبھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں اور اشعار کی بنت بھی کمزوری سے آشنا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ پہلے دو اشعارکو تبدیل کریں اورتیسرے کو مقطع سے بدل دیں۔اس میں محنت اور فکر تولگے گی لیکن پھر تینوں اشعار غزل سے آہنگ اور پیرایہء بیان میں ایک جان ہو جائیں گے اور غزل مکمل ہو جائے گی۔ آپ سوچ لیں ۔ اس سے بہتر کوئی اور صورت ہے تو اس کو آزمایا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ فی الحال اپنی تجویز پیش کرتا ہوں۔ نگاہ انتقاد و انتخاب کی درخواست ہے۔
کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
مجھے آباد شہروں میں نظر ویرانے آتے ہیں
اس کو درج ذیل شکل دی جا سکتی ہے لیکن میں اس صورت سے مطمئن نہیں ہوں تا وقتیکہ آپ اپنی رائے سے آگاہ کریں:

:کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
تمھارے شہر میں مجھ کو نظر ویرانے آتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعزیر سی تعزیر ہے اک جرمِ عشرت کی
جدھر جاؤں تعاقب میں کئی غم خانے آتے ہیں
یہ شعر الجھا ہو ا ہے اور اپنے معنی میں بھی صاف نہیں ہے۔ غم خانے آپ کے :تعاقب: میں کیسے آ سکتے ہیں اور وہ بھی :کئی: غم خانے ؟ شعر بہت کمزور ہے اور بہتری کا متقاضی ہے۔

:خدایا کیایہی تعزیر ہے اک جرم اُلفت کی؟
مرے آنسو مجھے ہر گام پر شرمانے آتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعبیر سی تعبیر ہے اک خوابِ عزلت کی
غزالانِ جنوں پیشہ مجھے بہلانے آتے ہیں
اس شعر کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں۔ اگر اس کو آپ مقطع میں تبدیل کردیں تو بہتر ہوگا۔ غزل بھی اس صورت میں مکمل ہو جائے گی۔ انشا اللہ۔
=====================
آپ سے اظہار خیال کی گزارش ہے۔ امید ہے میری کوتاہیوں سے در گزر فرمائیں گے۔ شاہاں چہ عجب گر بنوازندگدا را۔

سرور راز
سبحان اللہ سرور صاحب ... اس تفصیلی تبصرے میں ہم جیسوں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے. جزاک اللہ خیر
... اردو انجمن کی یاد تازہ ہوگئی ... امید ہے ظہیر بھائی کے جوابی مراسلے سے مزید کچھ سیکھنے کو ملے گا.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا بات ہے!! بہت عمدہ۔ ۔کیفیت نامے پر پڑھ کر سوچا تھا کہ غزل بھی یقینا خوبصورت ہو گی ۔ واقعی خوبصورت کلام ۔ ۔ ڈھیروں داد کا مستحق ۔ :applause:


بہت اعلی !

زندگی ایسے ہی رواں دواں ہے ۔ ۔ کیسی کڑی حقیقت ۔ ۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔

اور آخری تینوں اشعار حسب معمول رشک میں مبتلا کر گئے۔ ۔ شاعری ہو اور ایسی ہو!! ماشااللہ ،سبحان اللہ میرے محترم استاد۔۔
بہت بہت شکریہ ، صابرہ امین! پذیرائی کے لیے ممنون ہوں ۔
آپ کو اشعار پسند آئے تو خوشی ہوئی ۔ میخانۂ اقدارِ دنیا والا شعر مجھے بھی پسند ہے ۔ حقیقت کا عکاس! اللہ کریم ذوق سلامت رکھے ! شاد و آباد رہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب قبلہ، اور مطلع تو بہت پسند آیا:

ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں

لاجواب
بہت بہت شکریہ ، وارث صاحب قبلہ! توجہ کے لیے میں بہت ممنون ہوں ۔
پذیرائی کا شکریہ! سخنوروں کی داد سرمایہ ہوتی ہے۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عزیز مکرم ظہیر صاحب: عنایت کا شکریہ۔ غزل دیکھ کر دلی مسرت ہوئی ۔ مجھ کو یقین تھا کہ آپ اس طرف جلد ہی متوجہ ہوں گے۔ جزاک اللہ خیرا۔ غزل پر تبصرے کا کام شروع کر دیا ہے اور انشا اللہ کل تک وہ مکمل ہو جائے گا۔ مقطع کی کمی محسوس ہورہی ہے ۔ اگر مناسب جانیں اور وقت اجازت دے تو اس کو دیکھ لیجئے۔ امید ہے تب تک ارشد رشید صاحب : ضرورت شعری: پر اپنی رائے سے سبک دوش ہو چکے ہوں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو میں بھی اس موضوع پر کچھ لکھ سکوں گا۔ تبصرہ کی تقریب سے میرا موقف واضح ہو جائے گا۔ غزل کی داد پیشگی حاضر ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آپ کو غزل پر کام جاری رکھنا چاہئے۔ اچھے کام میں تکلف کیسا؟
سرور راز
بہت بہت شکریہ سرور بھائی ! اللہ آپ کا سایا سلامت رکھے۔ صحت و تندرستی قائم رکھے ۔ میں نے آپ کا مفصل تبصرہ دیکھ لیا ہے ۔ اس توجہ اور عنایت کے لیے بہت ممنون ہوں ۔ جزاک اللہ خیرا۔ جیسے ہی فرصت میسر ہوتی ہے میں ایک آدھ روز میں جواب خط لکھ کر حاضر ہوں گا کہ آپ کا تبصرہ تفصیلی جواب کا متقاضی ہے۔ فی الحال رسید حاضر ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی، آداب ... آپ کی غزل کل پڑھی تھی، مگر کچھ تبصرہ کرنے حوالے سے متذبذب رہا کہ مطلع کے علاوہ دیگر اشعار اتنے متاثر کن نہیں لگے. اب ہم کیا کریں کہ آپ نے اپنے کلام کا جو معیار قائم کر دیا ہے، اگر غزل ذرا بھی اس سے آگے پیچھے ہو تو ہم تشنہ رہ جاتے ہیں . بخدا یہی غزل کسی اور نے لگائی ہوتی تو شاید میں فورا تعریفی کلمات لکھ ڈالتا ... جب تک آپ کی غزل میں نادر (اضافی) تراکیب نہ ہوں، لطف نہیں آتا ... اور یہ غزل آپ نے اپنی عام، بقول کسے بھاری بھرکم ، طرز سے ہٹ کر کافی حد تک سادہ زبان میں کہی ہے.
آپ پر مشکل گوئی(بقول کسے بھاری بھرکمی) کی تمہت ایک آدھ بار نظر سے گزری ہے ... لیکن میرے خیال میں تو یہی مرصع طرز بیان آپ پر ججتا ہے ... فی زمانہ اکا دکا لوگ ہی اس اسلوب کو نبھانےکی اہلیت رکھتے ہیں اور آپ میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ... لہذا آپ کو اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے.
توجہ کے لیے بہت شکریہ ، راحل بھائی! جس حسنِ ظن کا اظہار آپ نے کیا ہے اس کے لیے بجز تشکر اور کچھ نہیں میرے پاس ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ آپ کی ذرہ نوازی ہے ۔ محبت ہے۔
راحل بھائی ، آپ کا شکوہ بجا ہے ۔ہر غزل تو میر و غالب کی بھی متاثر کن نہیں ہوتی سو میں کس کھیت کی مولی ہوں۔ یہ البتہ میرا ماننا ہے کہ ہر وہ لفظ جو سچائی سے لکھا جائے معتبر ہوتا ہے ۔ میں "شعر برائے شاعری " کا قائل نہیں ہوں ۔ اس موضوع پر تفصیل میں محترم جناب سرور صاحب کے نام جوابی مراسلے میں لکھوں گا۔ کوشش تو میری یہی ہوتی ہے کہ:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اپنے انداز اور موضوعات سے دستربرداری کا سوال ہی پیدا نہپیں ہوتا۔ ویسے کبھی کبھار ہلکی پھلکی شاعری بھی ہونی چاہیے ۔ "بھاری بھرکم" بھی عنقریب پیش کروں گا۔ :)
 
احبابِ کرام ! کچھ دنوں پہلے میں نے بزمِ سخن میں یہ عندیہ ظاہر کیا تھا کہ سات آٹھ غزلیں اور نظمیں جو پچھلے دو تین سالوں میں جمع ہوگئی ہیں انہیں ہر ہفتے عشرے یہاں پوسٹ کروں گا ۔ یہ سلسلہ شروع کر بھی دیا تھا لیکن درمیان میں کچھ مصروفیات آڑے آگئیں ۔ ارادہ ہے کہ اس سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جائے ۔ ایک نسبتاً تازہ غزل پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کہ کچھ اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

***

ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں

نجانے کون سی منزل ہے یہ سودائے الفت کی
دوانے شہر بھر کے اب مجھے سمجھانے آتے ہیں

کبھی مہمیز ہو کر دشمنی ٹھوکر لگاتی ہے
کبھی دیوار بن کر سامنے یارانے آتے ہیں

کوئی تو بات ہوتی ہے تبھی تو بنتی ہیں باتیں
زمانے کے لبوں پر کب یونہی افسانے آتے ہیں

روایت ہے یہی مے خانۂ اقدارِ دنیا کی
پرانے ٹوٹ جائیں تو نئے پیمانے آتے ہیں

نہیں کھلتا ہر اک پر جلوۂ حسنِ فروزاں بھی
سلامت اب طوافِ شمع سے پروانے آتے ہیں

مسافر ہوں ، الہٰی خیر میرے دین و ایماں کی
مرے رستے میں کچھ مسجد نما بتخانے آتے ہیں



۔۔۔۔ ق ۔۔۔۔۔


کوئی تصویر سی تصویر ہے آنکھوں میں وحشت کی
مجھے آباد شہروں میں نظر ویرانے آتے ہیں

کوئی تعزیر سی تعزیر ہے اک جرمِ عشرت کی
جدھر جاؤں تعاقب میں کئی غم خانے آتے ہیں

کوئی تعبیر سی تعبیر ہے اک خوابِ عزلت کی
غزالانِ جنوں پیشہ مجھے بہلانے آتے ہیں

***

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2023​
ظہیر بھائی ، اچھی غزل ہے . ایک دو اشعار تک میری فہم کی رسائی نہیں ہو سکی ، لیکن زیادہ تر اشعار اچھے لگے . داد حاضر ہے .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عزیز مکرم ظہیر صاحب: تسلیمات !
سب سے پہلے اس خوبصورت غزل کا دلی شکریہ حاضر خدمت ہے۔ مجھے اس کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ ایک مدت سے آپ گونا گوں اسباب کی بنا پر اس جانب توجہ نہیں دے پا رہے تھے ۔ خدا خدا کر کے آپ کچھ وقت نکالنے میں کامیاب رہے اور نتیجہ میں یہ بیش بہا سوغات ہمارے ہاتھ لگی۔حسب معمول بے تکلف اور بے لاگ لکھنے کا ارادہ ہے لہذہ آپ سے پیشگی گذارش ہے کہ کہیں کوئی گستاخی سرزد ہو جائے تو ازراہ بندہ نوازی چشم پوشی سے نوازیں۔ یہ تبصرہ صرف میری رائے ہے جس سے اختلاف کا حق آپ کو ہمہ وقت اور ہر سطح پر ہے ۔ خدا را اس ناچیز کاوش کو :اصلاح: کا لقب ہر گز نہ دیں کیوں کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ ایسی کوئی کوشش کر سکوں۔ دوران تبصرہ آپ کے بنیادی خیالات پر نظر رکھوں گا اور اپنی بات کو صراط مستقیم پر ہی رکھوں گا تاکہ آپ کے خیالات حتی الامکان قایم رہیں اور میں ان میں مخل نہ ہوں۔ انشا اللہ۔ غزل کی ز مین آپ نے مشکل منتخب کی ہے گو وہ سنگلاخ تو نہیں ہے البتہ اس میں لڑکھڑانے کے امکانات کافی ہیں جو مناسب احتیاط اورپیش بینی سے قابو میں رکھے جا سکتےہیں۔ اب بسم اللہ کی جائے؟
محترمی سرور بھائی ، انتہائی مشکور ہوں کہ آپ نے اس غزل پر توجہ فرمائی اور دقتِ نظر سے کام لیتے ہوئے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا ۔ بزمِ سخن میں شاعری پوسٹ کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اس پر اصحابِ علم و ہنر اور احبابِ ذوق کی آرا معلوم ہوجائیں۔ میرے نزدیک مثبت تنقید اور تبصرے شاعر کے لیے روشنی اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ آپ کی کسی بات کو گستاخی سمجھنے اور اس پر برا ماننے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ میں آپ کے خلوصِ نیت اور اندازِ تحریر سے بخوبی واقف ہوں ۔ نیز آدابِ مجلس اور تہذیبی اقدار کی پاسداری کا تہِ دل سے قائل ہوں ۔ آپ کے ادبی مرتبے اور مقام سے واقف ہوں اور تہِ دل سے اس کا اعتراف و احترام کرتا ہوں۔ سو آپ سے گزارش ہے کہ آپ آئندہ بھی میری نگارشات پر بلا تردد اپنی رائے کا اظہار کیجیے ۔ مجھے بہت خوشی ہوگی ۔ میں آپ کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اور آپ سے گزارش بھی کرتا ہوں کہ اگر میری کوئی بات ناگوار گزرے تو آپ حسبِ عادت شفقت اور فراخدلی سے کام لیتے ہوئے در گزر فرمائیں گے۔

مکرمی ، مجموعی طور پر ان اشعار پر آپ کے تبصرے اور تجاویز آپ کے مخصوص طرزِ خیال اور فکرِ سخن کے عکاس ہیں اور غزل کے بارے میں آپ کے روایتی زاویۂ نظر کو ظاہر کرتے ہیں۔ جو اشکالات اور تنقیدی نکات آپ نے اٹھائے ہیں ان پر میں اپنی معروضات فرداً فرداً ہر شعر پر پیش کرتا ہوں تاکہ یہ ادبی مکالمہ آگے بڑھے اور مکمل ہو جائے۔
محترم سرور بھائی ، آپ جانتے ہی ہیں کہ شاعری پر گفتگو کا بنیادی مقصد تو باہمی افہام و تفہیم ہوتا ہے لیکن اس قسم کے مکالمے سے طالبانِ علم و فن بھی مستفید ہوتے ہیں اور نو آموز شعرا کے لیے سیکھنے کا ایک ذریعہ بھی وجود میں آتا ہے۔ ممکن ہے کہ میرے جوابات میں آپ کو غیر ضروری طوالت یا تفصیل نظر آئے تو آپ سے گزارش ہے کہ در گزر سے کام لیجیے گا کیونکہ میں نے بوجوہ یہ انداز استفادۂ عام کے لیے اختیار کیا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مکرمی سرور بھائی، آپ کی کشادہ دلی اور ادب پروری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں سب سے پہلے یہاں ایک دو باتیں اپنے نظریۂ شاعری کے بارے میں لکھنا چاہوں گا کہ ان کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ میرے جوابات واضح تر ہوجائیں گے بلکہ مستقبل کی گفت و شنید میں بھی آسانی رہے گی ۔
"شعر برائے شعر" میرا فلسفۂ شعر نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اردو کی کلاسیکی شاعری اور روایتی اساتذہ کے یہاں اکثر و بیشتر شعر برائے شعر کا چلن رہا ہے۔ شعر کی بندش ، مصرع کی چستی ، روایتی لفظیات ، صنائع و بدائع اور شعر کی ظاہری بناوٹ کو اولین ترجیح دی جاتی تھی اور ان کی خاطر مضمون کو اکثر قربان کردیا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے اردو کی روایتی اور پرانی شاعری "زبان کے شعروں " سے بھری ہوئی ہے۔ ان اشعار میں زبان کے چٹخارے اور لفظوں کے کھیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ وہی چند گھسے پٹے مضامین گھما پھرا کر باندھے جاتے تھے ۔ درجنوں غزلیں پڑھ ڈالیے لیکن مجال ہے جو کوئی نئی ترکیب ، نئی تشبیہ یا استعارہ یا نیا پیرایہ نظر آجائے ۔ جدید غزل کی تحریک اسی گھسی پٹی روش سے تنگ آکر وجود میں آئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترقی پسند تحریک کے شعرا کی شاعری ہمارے عہد کی شاعری ہے ، ہمارے مسائل اور حسیات کی عکاس اور ترجمان ہے ۔ میں تو خیر خود اپنی شاعری کو تک بندی یا زیادہ سے زیادہ ایک عام سطح کی شاعری ہی سمجھتا ہوں لیکن جدید غزل کا قائل اور قتیل ہونے کی وجہ سے نظری اور فکری طور پر میری کوشش ہوتی ہے کہ غزل کے روایتی لب و لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے عہد اور اپنی زندگی کی حقیقتوں کو موضوعِ سخن بنایاجائے۔ یہ کوشش میری غزلوں میں آپ کو جابجا نظر آئے گی۔
آمدم برسرِ مطلب ، اب میں فرداً فرداً ہر شعر پر شاعر کا نقطۂ نظر پیش کرتا ہوں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں
مصرع اول میں ہلکی سی تعقیدلفظی ہے ۔ علاوہ ازیں محبت کے غم بھلا :مرادیں پانے : کیونکر آ سکتے ہیں جبکہ غموں کی اپنی کوئی مراد نہیں ہوتی ؟ ہاں البتہ وہ خود مرادیں ہو سکتے ہیں ، درگاہِ الفت سے کار بر آری کے امید وار بھی ہو سکتے ہیں اور بارگاہ دل میں بطور نذرانہ بھی پیش کئے جا سکتے ہیں ۔ دوسرا مصرع بہت معنی خیز اور صاف ستھرا ہے ۔ چنانچہ شعر کی نئی تجویز یوں ہے۔

:ہزاروں حسرت و اُمید کے افسانے آتے ہیں
یہ دل دَرگاہِ الفت ہے، یہاں نذرانے آتے ہیں:
میرا شعر:
ہزاروں غم محبت کے مرادیں پانے آتے ہیں
یہ دل درگاہِ الفت ہے یہاں نذرانے آتے ہیں
آپ کی تجویز:
ہزاروں حسرت و اُمید کے افسانے آتے ہیں
یہ دل دَرگاہِ الفت ہے، یہاں نذرانے آتے ہیں

سرور بھائی ، مصرعِ اول کو اگر یوں کہتا کہ"محبت کے ہزاروں غم مرادیں پانے آتے ہیں" تو ہلکی سی تعقید تو دور ہوجاتی لیکن ہلکا سا عیبِ تنافر پیدا ہوجاتا۔ 😊 تفنن برطرف ، مجھے اس مصرع میں ہزاروں غم پر زور دینا مقصود تھا اس لیے ان الفاظ کو مقدم رکھا۔ یہ شعر ایک تجریدی خیال پر مبنی ہے۔ اس میں دل کو درگاہ بنا کر ایک منظر کشی کی گئی ہے کہ جس طرح کسی درگاہ پر لوگ اپنے اپنے غم لیے کار برآری کے لیے آتے ہیں اور نذرانے چڑھاتے ہیں اسی طرح دل کی اس درگاہ پر محبت کےغم (اپنی مرادیں پانے) آتے ہیں اور اپنے ساتھ کئی نذرانے لے کر آتے ہیں ۔ یعنی لوگوں کے بجائے غموں کو زائرینِ درگاہ بنادیا گیا ہے۔ ویسے تو اسی منظر کشی پر یہ شعر تمام ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر بات کو آگے بڑھایا ہی جائے اور الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ غمِ محبت کی مراد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے محبوب مل جائے ، محبوب کے دل میں جگہ مل جائے۔ اور یہی مراد پانے کے لیے غمِ ہائے محبت اس درگاہِ دل میں آتے ہیں۔ (فیض نے کہا تھا: ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ۔۔۔۔۔) ۔ محبت کے غم اپنے ساتھ جو احساسا ت و جذبات ، اندیشے اور فکرات لاتے ہیں وہ گویا نذرانے ہیں۔
سرور بھائی ، آپ نے پہلا مصرع تجویز کیا ہے کہ"ہزاروں حسرت و اُمید کے افسانے آتے ہیں" تو بصد ادب پوچھوں گا کہ درگاہ پر افسانوں کا کیا کام؟! ان دونوں میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ دکھ اور غم کی طرح حسرت اور امید بذاتِ خود تو دل کی درگاہ پر آسکتے ہیں لیکن ان کے افسانے کیسےآئیں گے ؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نجانے کون سی منزل ہے یہ سودائے الفت کی
دوانے شہر بھر کے اب مجھے سمجھانے آتے ہیں
یہ شعر اچھا ہے۔ داد قبول کیجئے۔ اور اجازت دیجئے کہ :بقدر بادام : ترمیم کر سکوں۔ مقصد شعر کی معنویت میں بہتری اور بندش میں چستی ہے اور ساتھ ہی دوسرا مصرع بہتر ہو جائے تو کیا ہرج ہے۔ دیکھئے بات بنی ؟

:الٰہی ! کون سی منزل ہے یہ سودائے اُلفت کی؟
کہ دُنیا بھر کے دیوانے مجھے سمجھانے آتے ہیں:
میرا شعر:
نجانے کون سی منزل ہے یہ سودائے الفت کی
دوانے شہر بھر کے اب مجھے سمجھانے آتے ہیں
آپ کی تجویز:
الٰہی ! کون سی منزل ہے یہ سودائے اُلفت کی؟
کہ دُنیا بھر کے دیوانے مجھے سمجھانے آتے ہیں
سرور بھائی ، مصرعِ اول میں نجانے کو الہٰی سے بدلنے کا جواز اور اس کے پسِ پردہ کارفرما اگر کوئی اصول ہے تو وہ میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ میرے شعر کا لہجہ استعجابیہ ہے اور اس لیے میں نے "نجانے" سے شروع کیا ۔ الہٰی تو صاف طور پر بھرتی کا لفظ ہے اور کوئی مقصد پورا نہیں کرتا۔ دوسری بات یہ کہ مصرعِ ثانی کو لفظ " کہ" سے شروع کرنا میری ناقص رائے میں ایک بڑی غلطی ہے ۔ اساتذہ کے کلام میں "کہ" سے مصرع شروع کرنے کی اکا دکا کوئی مثال ہو تو ہو ورنہ ایسا انداز کہیں نظر نہیں آتا۔ نو آموزوں کو عموماً یہی سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ مصرع کو کیونکہ ، چونکہ ، کہ وغیرہ سے شروع نہ کیا جائے ۔ وجہ یہ ہے کہ شعر میں ان الفاظ کے استعمال کی ضرورت شاذ و نادر ہی پڑتی ہے۔ ان الفاظ کو استعمال کیے بغیر ہی شعر کا مطلب سمجھ میں آجاتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے مجوزہ مصرعے میں کلیدی لفظ "اب" غائب ہے جبکہ یہ لفظ استعمال کیے بغیر بات بنتی ہی نہیں ہے۔ اردو کی معروف شعری روایت ہے کہ سودائے عشق میں مبتلا فرد کو اہلِ خرد اور عقلمند لوگ سمجھانے آیا کرتے ہیں ۔سواس شعر کا مطلب یہ ہے کہ سودا اور جنون کی اولین منازل میں تو ناصح ، واعظ اور خرد مند لوگ مجھے سمجھانے آتے ہی تھے لیکن نجانے اب یہ کونسی منزل آگئی ہے کہ دوانے بھی مجھے سمجھانے آرہے ہیں۔ یعنی جب پہلے مصرع میں تعجباً یہ کہا جارہا ہے کہ جنون کی یہ کونسی منزل ہے تو پھر دوسرے مصرع میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس منزل پر اب کیا نئی اور عجیب بات ہورہی ہے کہ جو پہلے نہیں ہورہی تھی۔
 
Top