یوں

عبدالجبار

محفلین
پھر یوں‌ہوا کہ دکھ ہی اُٹھائے تمام عُمر
پھر یوں ہوا کہ آنسو بہائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ نِکلے کسی کی تلاش میں
پھر یوں ہوا کہ خود کو نہ پائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ باتوں میں ہم اُس کی آگئے
پھر یوں ہوا کہ دھوکے ہی کھائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دل میں کسی کو بسا لیا
پھر یوں ہوا کہ خواب سجائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ وعدہ وفا کر نہ سکا وہ
پھر یوں‌ہوا دیپ جلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دامنِ دل داغ داغ تھا
پھر یوں ہوا کہ داغ مٹائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ راستے ویران ہو گئے
پھر یوں‌ہوا کہ پھول کِھلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دکھ ہمیں محبوب ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ دل سے لگائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ اور کسی کے نہ ہو سکے
پھر یوں ہوا کہ وعدے نبھائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ فاصلے بڑھتے چلے گئے
پھر یوں ہوا کہ رنج بُھلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ بیٹھ گئے راہ میں غیاث
پھر یوں ہوا کہ وہ بھی نہ آئے تمام عُمر​
 

توقیر

محفلین
ہم اپنے آپ میں یوں گم ہوے ہیں مدت سے
ہمیں تو جیسے کسی کا بھی انتظار نہیں
کسی کو ٹوٹ کر چاہیں یا چہا کر ٹوٹیں
ہمارے پاس تو اتنا بھی اختیار نہیں
 

عبدالجبار

محفلین
یوں وہ محفل میں بصد شان بنے بیٹھے ہیں
میرا دل اور مِری جان بنے بیٹھے ہیں
مجھ کو دیکھا تو غضب ناک ہوئے، ٹوٹ پڑے
کیا خبر تھی کہ وہ طوفان بنے بیٹھے ہیں​
 

سارہ خان

محفلین
عشق ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے

جیسے کوئی درِدل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے، نہ بروں ہے، یوں ہے

تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خِرد ہے نہ جَنوں ہے، یوں ہے

اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے، یوں ہے

تو نے دیکھی ہی نہیں دشتَ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پے اک قطرئہ خوں ہے، یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے کہ یوں ہے، یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اک سلسلہءِ کن فیکوں ہے، یوں ہے

 

سارہ خان

محفلین
عبدالجبار نے کہا:
پھر یوں‌ہوا کہ دکھ ہی اُٹھائے تمام عُمر
پھر یوں ہوا کہ آنسو بہائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ نِکلے کسی کی تلاش میں
پھر یوں ہوا کہ خود کو نہ پائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ باتوں میں ہم اُس کی آگئے
پھر یوں ہوا کہ دھوکے ہی کھائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دل میں کسی کو بسا لیا
پھر یوں ہوا کہ خواب سجائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ وعدہ وفا کر نہ سکا وہ
پھر یوں‌ہوا دیپ جلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دامنِ دل داغ داغ تھا
پھر یوں ہوا کہ داغ مٹائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ راستے ویران ہو گئے
پھر یوں‌ہوا کہ پھول کِھلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ دکھ ہمیں محبوب ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ دل سے لگائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ اور کسی کے نہ ہو سکے
پھر یوں ہوا کہ وعدے نبھائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ فاصلے بڑھتے چلے گئے
پھر یوں ہوا کہ رنج بُھلائے تمام عُمر

پھر یوں ہوا کہ بیٹھ گئے راہ میں غیاث
پھر یوں ہوا کہ وہ بھی نہ آئے تمام عُمر​

بہت خوب۔۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
مانگے کے چراغوں سے اجالا نہیں کرتے
پلکوں سے گزے اشک سنبھالا نہیں کرتے
تاخیر ہوئی ہے تو کوئی وجہ بھی ہوگی
یوں دل میں کبھی واہمے پالا نہیں کرتے۔
 

الف عین

لائبریرین
سارہ اور عبد الجبار۔ آپ دونوں نے پوری پوری غزلیں پوسٹ کر کے اپنے پیغامات کی تعداد بڑھانے کا موقع چھوڑ دیا۔

کب کب تم نے سچ نہیں مانیں جھوٹی باتیں غیروں کی
تم ہو کو یوں ہی جلائے گئے وے تم کو ووں ہی لگائے گئے

میر
 

تیشہ

محفلین
نہ گلہ ِ کیا نہ خفا ہوئے یوں ہی راستے میں فدا ہوئے
نہ تو بےوفا نہ میں بےوفا، جو گزر گیا سو گزر گیا
 

الف عین

لائبریرین
مرا سر نزع میں زانو پہ رکھ کر یوں لگا کہنے
کہ اے بیمار میرے تجھ پہ جلد آساں ہو مرجانا
میر
 

عاصم ملک

محفلین
آنکھوں پر آنسو کی لکیر بن گئ
کبھی سوچا نہ تھا ایسی تقدیر بن گئی
ہم نے تو پھیری تھی یوں ہی ریت پر انگلیاں
غور سے دیکھا تو تیری تصویر بن گئی
 

عمر سیف

محفلین
کبھی یوں بھی تو ہو

دریا کا ساحل ہو
پورے چاند کی رات ہو
اور تم آؤ
کبھی یوں بھی تو ہو

پریوں ی محفل ہو
ہوئی تمھاری بات ہو
اور تم آؤ
کبھی یوں بھی تو ہو

یہ نرم ملائم ٹھنڈی ہوائیں
جب گھر سے تمھارے گزریں
تمھاری خوشبو چُرائیں
میرے گھر لے آئیں
کبھی یوں بھی تو ہو

سونی پر محفل ہو
کوئی نہ میرے ساتھ ہو
اور تم آؤ
کبھی یوں بھی تو ہو

یہ بادل ایسا ٹوٹ کے برسے
میرے دل کی طرح ملنے کو
تمھارا دل بھی ترسے
تم نکلو گھر سے
کبھی یوں بھی تو ہو

تنہائی ہو، دل ہو
بوندیں ہوں، برسات ہو
اور تم آؤ
کبھی یوں بھی تو ہو

کبھی یوں بھی تو ہو۔۔
 

الف عین

لائبریرین
غزل کے روپ میں جو قصہ خواں ہونے لگا ہوں
تو یوں لگتا ہے تیری داستاں ہونے لگا ہوں
حیدر قریشی
 
Top