یوں

شعیب صفدر

محفلین
ہمارا دل ہے یوں قصر جہاں میں
وہ پتھر۔ جو کہیں لگتا نہیں ہے
×××××××××××
کبھی یوں بھی ہوں رہے روبرو،میں نظر ملا کر کہہ سکوں
میری حسرتوں کا شمار کر، مری خوہشوں کا حساب دے
××××××××××××
اپنی اپنی کشتی لے کر یوں دریا میں کود پڑے
جیسے صرف جہاز ہی اس طوفان میں ڈوبنے والا تھا
××××××××××××
یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن
وصل کی رات بہت صبح کا شتارہ چمکا
×××××××××××××××
اسے گماں ہی نہ تھا جیسے میرے ہونے کا
مرے قریب سے یوں بے خبر گیا کوئی
××××××××××××××××××
یوں تو دن دہاڑے بھی، لوگ لوٹ لیتے ہیں
لیکن ان نگاہوں کی، اور ہی سیاست تھی
 

فریب

محفلین
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
 

شمشاد

لائبریرین
نامہ گیا کوئی نہ کوئی نامہ بر گیا
تیری خبر نہ آئی زمانہ گزر گیا

ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں
روتا ہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا
(سیماب اکبر آبادی)
 

شمشاد

لائبریرین
یوں سجا چاند کہ جھلکا تیرے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا میرے ہمراز کا رنگ
فیض احمد فیض)
 

شمشاد

لائبریرین
بعد مدت انہیں دیکھ کر یوں لگا
جیسے بے تاب دل کو قرار آ گیا
آرزووں کے گل مسکرانے لگے
جیسے گلشن میں جانِ بہار آ گیا
(روشن نندا)
 

شمشاد

لائبریرین
اس کے بعد تو جیسے وحشتوں سے دوستی ہو گئی
پھر کیوں آج تنہایوں نے ڈرایا بہت
ہم نے جس کسی کو بھی ہمدرد سمجھا ‘عاصم‘
وہ ہمارے دیکھ پے نجانے کیوں مسکرایا بہت
 

تیشہ

محفلین
یوں ہی تو نیہں امڈی چلی آتیں ہیں غزلیں،
پہلو میں میری زمزمہ خواب ہیں تیری آنکھیں ، ۔
 

شمشاد

لائبریرین
کبھی یوں بھی آ میری آنکھ میں کہ میری نظر کو خبر نہ ہو
مجھے ایک رات نواز دے پھر اس کے بعد سحر نہ ہو

وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرئے
تجھے بھولنے کی دعا کروں مگر میری دعا میں اثر نہ ہو
 

شمشاد

لائبریرین
یوں تو میری چاہت کے طلبگار بہت تھے
ہم تیری محبت میں گرفتار بہت تھے

یہ دل کہ ہے سودائی فقط تیرے ہی در کا
ورنہ یہاں چاہت کے تو دربار بہت تھے
(سروش خان)
 

شمشاد

لائبریرین
یوں سجا چاند کہ جھلکا تیرے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا میرے ہمراز کا رنگ
(فیض احمد فیض)
 
Top