امجد اسلام امجد یوں تو کیا چیز زندگی میں نہیں

سارہ خان

محفلین
یوں تو کیا چیز زندگی میں نہیں
جیسے سوچی تھی اپنے جی میں ‘ نہیں

دِل ہمارا ہے چاند کا وہ رُخ
جو ترے رُخ کی روشنی میں ، نہیں

سب زمانوں کا حال ہے اِس میں
اِک وہی شام ، جنتری میں نہیں !

ہیں خلاؤں میں کِتنی دُنیا ئیں
جو کِسی حدِّ آگہی میں نہیں !

ہو کیسا، حَرم کہ بُت خانہ
فرق ان میں ہے، بندگی میں نہیں

ایک اِنساں ہے، زندگی جَیسا
اور وہ میری زندگی میں نہیں !

تُونہیں، تیرا غم ہے چاروں طَرف
جس طرح چاند، چاندنی میں نہیں

اَجر تو صَبر کے جَلو میں ہے
موجِ دریا میں، تِشنگی میں نہیں

ایک بے نام سے خلا کے سوا
کو ن سا رنگ، کافری میں نہیں !

ایک گرا بِ بے خُودی کے سِوا
کیا تماشا ہے جو خُودی میں نہیں !

ہے ہمارا وہ مُدّعا امجد
کوئی بھی جس کی پَیروی میں نہیں

(امجد اسلام امجد)
 

فاتح

لائبریرین
سارا خان! بہت شکریہ یہ خوبصورت غزل شیئر کرنے پر۔
امجد اسلام امجد کا بھی اپنا ہی ایک رنگ ہے۔
اب ذیل کے اشعار کو ہی لیجیے:
سب زمانوں کا حال ہے اِس میں
اِک وہی شام ، جنتری میں نہیں !

ایک اِنساں ہے، زندگی جَیسا
اور وہ میری زندگی میں نہیں !

ایک گردا بِ بے خُودی کے سِوا
کیا تماشا ہے جو خُودی میں نہیں !​
 
Top