غالب یونہی افزائشِ وحشت کےجو ساماں ہوں گے - غالب

فرخ منظور

لائبریرین
یونہی افزائشِ وحشت کےجو ساماں ہوں گے
دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے

وجہِ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے

دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے

منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی
ہم بھی اب پیروئے گیسو ئے پریشاں ہوں گے

گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے لیکن
اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئ ارماں ہوں گے

ہے ابھی خوں سے فقط گرمئ ہنگامۂ اشک
پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے

باندھ کر عہدِ وفا اتنا تنفّر، ہے ہے
تجھ سے بے مہر کم اے عمرِ گریزاں ہوں گے

اس قدر بھی دلِ سوزاں کو نہ جان افسردہ
ابھی کچھ داغ تو اے شمع! فروزاں ہوں گے

عہد میں تیرے کہاں گرمئ ہنگامۂ عیش
گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے

خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب
اُن کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے

موت پھر زیست نہ ہوجائے یہ ڈر ہے غالب
وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے

(مرزا اسداللہ خان غالب)
 

محسن حجازی

محفلین
وجہِ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے


لو خود ہی تو کہتے ہیں:
آ ہی جاتا وہ راہ پر غالب
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے
سو واسطے قتل کے عجلت مت کیجئے کیا خبر دیوانوں میں نام آپ کا بھی ہو۔

دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے

واہ۔۔ کیا کہنے۔۔۔

خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب
اُن کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے


بہت خوب! کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔

موت پھر زیست نہ ہوجائے یہ ڈر ہے غالب
وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے


کیا کہنے۔۔۔ کیا چچا نے محبوب و مسیح کو باہم کر دیا۔
 

جیا راؤ

محفلین
وجہِ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے

دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے

بہت ہی خوبصورت !
اور مقطع کی تو بات ہی کیا !
 
Top