یوم دفاع پاکستان

شمشاد

لائبریرین
جنگ ستمبر یقینا جذبات کی جنگ تھی۔ یہ صرف جذبہ ہی تھا کہ پاکستانی فوج نے نہ صرف حملوں کو روکا بلکہ جوابی کاروائیاں بھی کیں۔
لیکن ٹینکوں کے آگے لیٹنے والی بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
چونڈہ میں ٹینکوں کی لڑائی کی تفصیل عنایت اللہ صاحب کی کتاب "بدر سے باٹا پور تک" میں پڑھی جا سکتی ہے
آپ صرف عنایت اللہ صاحب تک ہی نہ رہیں، اور بھی بہت سے لوگوں نے اس پر لکھا ہو گا۔ ان کو بھی پڑھ لیں۔

یہ حقیقت ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ 1965 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی۔

بھارت اپنے 200 سے 250 ٹینک لیکر وہاں تک پہنچ گیا تھا۔ پاکستان کی معمولی نفری نے ان کو کوؤنٹر کیا تھا۔ ابھی بھارت کی طرف سے بھرپور حملہ کرنے کی پلاننگ ہو رہی تھی کہ پاکستان کی فوج نے پیشقدمی کی۔ اور ان کے دو یا تین ٹینک تباہ کر دیئے۔ دشمن نے وقت سے پہلے حملہ کرنے کی ٹھان لی جبکہ پاکستانی فوج کو ابھی کمک پہنچنے میں دیر تھی۔ اس پر پاکستانی فوج کے افسر نے اپنے جوانوں سے پوچھا تھا کہ کون ہے جو ٹینک کے آگے لیٹ سکتا ہے۔ جس کے جواب میں کم از کم 200 جوانوں نے جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ ان میں چند جوانوں نے اپنے سینے پر ٹینک شکن مائینز باندھ کر ان کو تباہ کیا تھا۔ ان چند ٹینکوں کے تباہ ہونے سے بھارت کی فوج کا راستہ اپنے ہی تباہ شدہ ٹینکوں کی وجہ سے رک گیا تھا۔

پاکستان کی اس وقت کی مشہور زمانہ رانی توپ کا فائر بھی انہی ٹینکوں پر آ رہا تھا۔ بھارتی فضائیہ پاگلوں کی طرح اس توپ کو ڈھونڈ رہی تھی۔ اسی کو تباہ کرنے کے لیے انہوں نے سیالکوٹ کے قلعہ پر 1000 پونڈ وزنی بم گرایا تھا۔ جس کا زیادہ تر نقصان شہری آبادی کو ہوا تھا۔ پاکستانی فوج نے اس توپ کو مسلسل حرکت میں رکھا جس کی وجہ سے وہ اسے تباہ کرنے میں ناکام رہے۔

ایسا کہیں بھی اور کسی بھی جنگی حکمت عملی میں نہیں ہوتا جو اس وقت ہوا تھا کہ بڑی توپیں کھلے میدان میں رکھ کر فائر کیا جائے، لیکن چونڈہ کے میدان میں ہوا تھا۔ کئی بھارتی ٹینکوں کی تباہی کے باوجود کوئی ایک ٹینک راستہ بنا کر آگے آ نکلا تو سامنے والی توپ سے تباہ ہو گیا۔ ٹینک کا تباہ ہونے سے یہ مطلب بالکل نہ لیا جائے کہ پورا ٹینک تباہ ہو گیا۔ صرف اس کی چین توڑ دینے سے وہ لوہے کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے اور یہی کچھ ان جوانوں نے کیا تھا۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ان شہداء کے درجات بلند فرمائے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرے جذبات اس سال بھی وہی ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ضرب عضب میں شہید ہونے والوں کو سلام۔اسی عہد کی دوبارہ تجدید کے ساتھ۔۔۔۔

میں ان تمام شہیدوں، غازیوں دلیروں اور بہادروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اور اس دن کی تجدید کرتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کرتا ہوں کہ میں اپنے ملک میں لسانی و صوبائی و دیگر ہر قسم کے تعصب کو آخری حد تک ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس ملک کی بقاء ہی میری بقاء ہے۔ اور میں اپنے تئیں جو بن پڑا اس ملک کی بھلائی کے لیے کروں گا۔ آمین یا رب العالمین

تمام اہل پاکستان کو یومِ دفاع مبارک ہو۔ :)
 
10635835_703581076383587_6323457036909012932_n.jpg
 

عمراعظم

محفلین
اللہ ہمیں اپنے پیارے وطن کی حفاظت کرنے اور حُب الوطنی کا حق اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
قوموں کی داستان عروج و زوال سے مزین ہے۔ چاہے یہ قومی تشخص کی بنیاد مذہب پر ہو یا جغرافیائی حدود پر۔ پاکستان خوش قسمتی سے وہ خطہ ہے کہ جو دونوں دولتوں سے مالا مال ہے۔ خیر تذکرہ اس وقت عروج و زوال کا ہے۔ تو ہر قوم کی تاریخ میں وقت کچھ ایسی گھڑیاں ضرور لاتا ہے۔ جب ذاتی مفاد، جان و مال ملکی و اجتماعی مفادات کے آگے ہیچ ہوجاتے ہیں۔ ان آزمائش کی گھڑیوں میں جب قوم اپنے فرض سے آنکھیں چراتی ہیں۔ کڑیل جوان میدان جنگ کی بجائے گھر میں چھپنے کو ترجیح دیں۔ تو ایسی قوموں کے مقدر میں آنے والا لمحات کا سورج خوشی و مسرت نہیں بلکہ اپنوں کی لاشوں کے ساتھ ساتھ غلامی کی نہ ٹوٹنے والی زنجیر لے کر آتا ہے۔ اور پھر بسا اوقات اُس طوق کو اتارنے میں صدیاں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔

ایسی ہی ایک گھڑی 6 ستمبر 1965 کو پاکستان کی تاریخ میں بھی آئی تھی۔ لیکن سلام ہیں اس قوم کو۔۔۔ جس نے اپنے فرائض سے آنکھیں نہیں چرائیں۔ ان نوجوانوں کو جن کے لیے ملکی سلامتی ان کی اپنی جان و مال سے کہیں زیادہ تھی۔ سلام ہے۔ ان شہیدوں کو سلام ہے جنہوں نے اپنے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر شہادت کا رتبہ پایا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ صریح موت ہے۔ لیکن ڈر کا ان کے عمل سے شائبہ تک نہ تھا۔ ان ماؤں کو جنہوں نے ملکی سلامتی کو اپنے بیٹوں سے زیادہ جانا۔۔۔ ان بیویوں کو جنہوں نے سہاگوں کی لاشوں پر نوحہ نہ کیا۔ بلکہ فخر سے سر اٹھا کر کہا کہ میرا شوہر شہید ہے۔

6 ستمبر کا دن پاکستان کا یوم دفاع وہ جرأت اور بہادری کی تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی۔
میں ان تمام شہیدوں، غازیوں دلیروں اور بہادروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اور اس دن کی تجدید کرتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کرتا ہوں کہ میں اپنے ملک میں لسانی، صوبائی اور دیگر تمام تعصبات کو آخری حد تک ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس ملک کی بقاء ہی میری بقاء ہے۔ اور میں اپنے تئیں جو بن پڑا اس ملک کی بھلائی کے لیے کروں گا۔
آمین یا رب العالمین
بہت خوب! بہترین۔
آمین
BwzL1VCCIAAR2TP.jpg:large
 

عمراعظم

محفلین
بعض واقعات و حادثات انسانی ذہن و دل پر کچھ اس طرح منقش ہو جاتے ہیں کہ وقت و حالات کی تمام تر کوششوں کے باوجود مٹائے نہیں مِٹتے ۔ایسے ہی واقعات میں سے ایک کو اہلِ محفل کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔
اُن دنوں میں آ ٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب ستمبر 1965 کی جنگ ہم پر مسلط کر دی گئی۔اس بات سے قطع نظر کہ اس کا آغاز کیونکر اور کیسے ہوا ، اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ اُس وقت بحیثیت پاکستانی قوم ہم نے جس طرح اس جنگ میں جس عزم، استقامت اور استقلال کے ساتھ شمولیت اختیار کی وہ کم از کم میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایا ہے۔میں آج بھی جب اُن دنوں کے واقعات کو یادکرتا ہوں تو بِلا شبہ اپنے پاکستانی ہونے پر فخر اور ناامیدی میں بھی امید کی کرن کو واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں۔
جنگ کے آغاز سے ہی ہمارے والدین اور اُستاتذہ نے ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا ،نیز ہمیں اس بات کی راہنمائی کی کہ ہم کس طرح اس جنگ میں شامل اور اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اُن دنوں تاخیر سے اسکول میں پہنچنے اور غیر حاضری پر سخت سزا دی جاتی تھی۔اسی طرح گھر میں بھی گھر سے باہر کھیل کود کے اوقات مقرر تھے، اذانِ مغرب سے پہلے گھر میں موجودگی لازمی تھی، بصورتِ دیگر اذیت ناک سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب ہم پوری طرح آزاد تھے۔ اسکول جانے کی بجائے میں اور میرے ساتھی چند بڑوں کے ساتھ بازاروں میں رقوم اور اشیاء ( جن میں بسکٹ،چنے، ٹافیاں،گرم کپڑے۔کمبل اور المونیم کے برتن شامل تھے)جمع کرتے ۔ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر پانی اور چائے کا انتظام کیا جاتا اور محاذِ جنگ کی جانب روانہ ہونے والی ریل گاڑیوں میں سوار فوجیوں اور مجاہدین کی ان اشیاء سے تواضح کی جاتی نیز جمع شدہ اشیاء اُن کی نذر کی جاتیں۔
اِن دنوں بزدل دشمن کی فضائیہ ریل گاڑیوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر حملے کر رہی تھی تا کہ پاکستانی فوج کی کمک کو روکا جا سکے۔میری اور میرے ساتھیوں کی کم عمری اور خطرے سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود ہما رے والدین نے ہم پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔واضح طور پر وہ اپنے ملک اور قوم کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے لئے تیار تھے۔
دن کا بڑا حصہ مندرجہ بالا کاموں کی نذر ہو جاتا اور رات ہوتے ہی ہم پھر اپنے گھروں سے نکل جاتے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ نافذ کردہ بلیک آؤٹ پر پوری طرح عمل کیا جا رہا ہے، کسی بھی گھر سے نکلنے والی معمولی سی کرن سے بھی اس کے مکین کو آگاہ کیا جاتا اور بعض صورتوں میں اُن کی مدد بھی کی جاتی۔ اُن دنوں میں راولپنڈی کے علاقے "ویسٹریج" میں مقیم تھا-جہاں فوجی چھاؤنیاں بھی تھیں ۔ہمارے بڑے کارناموں میں ایک جاسوس کی نشاندہی اور اُس کو گرفتار کروانا بھی شامل تھا ۔ اگر میں اپنی زندگی کے کسی حصے کو قابلِ فخر کہوں تو وہ یہی ایام تھے۔
قوم کا تقریبا" ہر طبقہ غیر محسوس طور پر اس جنگ میں شامل تھا ۔ مسجدوں میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا تو شاعر لازوال ملی نغمے تخلیق کرتے۔ گلوکار محاذِ جنگ کے قریب جا کر اپنے فوجیوں کے جوش و جذبہ میں بے پناہ اضافہ کا باعث بنتے ۔ اُس وقت کے میرے پسندیدہ نغموں میں:
اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکددے، توں ایویں نہ ٹکراں مار کُڑے
مہاراج اے جنگ تلوار دی اے، جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانییاں دی
اے وطن کے سجیلے جوانوں، میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
وغیرہ وغیرہ تھے۔
آج جب میں یہ سوچتا ہوں کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا تھا کہ ہم نے ایک بڑے اور مکار دشمن کو شکست سے دوچار کیا تھا تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے ،اور وہ یہ کہ اُس وقت ہم اس طرح منقسم نہیں تھے، جذبہء ایثار اپنی اصل شکل میں زندہ تھا ، بے خوف اور بے لوث قربانی ہمارا سرمایا تھا۔ اللہ ہمیں دوبارہ ان صفات سے روشناس فرما دے۔ آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بعض واقعات و حادثات انسانی ذہن و دل پر کچھ اس طرح منقش ہو جاتے ہیں کہ وقت و حالات کی تمام تر کوششوں کے باوجود مٹائے نہیں مِٹتے ۔ایسے ہی واقعات میں سے ایک کو اہلِ محفل کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔
اُن دنوں میں آ ٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب ستمبر 1965 کی جنگ ہم پر مسلط کر دی گئی۔اس بات سے قطع نظر کہ اس کا آغاز کیونکر اور کیسے ہوا ، اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ اُس وقت بحیثیت پاکستانی قوم ہم نے جس طرح اس جنگ میں جس عزم، استقامت اور استقلال کے ساتھ شمولیت اختیار کی وہ کم از کم میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایا ہے۔میں آج بھی جب اُن دنوں کے واقعات کو یادکرتا ہوں تو بِلا شبہ اپنے پاکستانی ہونے پر فخر اور ناامیدی میں بھی امید کی کرن کو واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں۔
جنگ کے آغاز سے ہی ہمارے والدین اور اُستاتذہ نے ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا ،نیز ہمیں اس بات کی راہنمائی کی کہ ہم کس طرح اس جنگ میں شامل اور اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اُن دنوں تاخیر سے اسکول میں پہنچنے اور غیر حاضری پر سخت سزا دی جاتی تھی۔اسی طرح گھر میں بھی گھر سے باہر کھیل کود کے اوقات مقرر تھے، اذانِ مغرب سے پہلے گھر میں موجودگی لازمی تھی، بصورتِ دیگر اذیت ناک سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب ہم پوری طرح آزاد تھے۔ اسکول جانے کی بجائے میں اور میرے ساتھی چند بڑوں کے ساتھ بازاروں میں رقوم اور اشیاء ( جن میں بسکٹ،چنے، ٹافیاں،گرم کپڑے۔کمبل اور المونیم کے برتن شامل تھے)جمع کرتے ۔ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر پانی اور چائے کا انتظام کیا جاتا اور محاذِ جنگ کی جانب روانہ ہونے والی ریل گاڑیوں میں سوار فوجیوں اور مجاہدین کی ان اشیاء سے تواضح کی جاتی نیز جمع شدہ اشیاء اُن کی نذر کی جاتیں۔
اِن دنوں بزدل دشمن کی فضائیہ ریل گاڑیوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر حملے کر رہی تھی تا کہ پاکستانی فوج کی کمک کو روکا جا سکے۔میری اور میرے ساتھیوں کی کم عمری اور خطرے سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود ہما رے والدین نے ہم پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔واضح طور پر وہ اپنے ملک اور قوم کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے لئے تیار تھے۔
دن کا بڑا حصہ مندرجہ بالا کاموں کی نذر ہو جاتا اور رات ہوتے ہی ہم پھر اپنے گھروں سے نکل جاتے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ نافذ کردہ بلیک آؤٹ پر پوری طرح عمل کیا جا رہا ہے، کسی بھی گھر سے نکلنے والی معمولی سی کرن سے بھی اس کے مکین کو آگاہ کیا جاتا اور بعض صورتوں میں اُن کی مدد بھی کی جاتی۔ اُن دنوں میں راولپنڈی کے علاقے "ویسٹریج" میں مقیم تھا-جہاں فوجی چھاؤنیاں بھی تھیں ۔ہمارے بڑے کارناموں میں ایک جاسوس کی نشاندہی اور اُس کو گرفتار کروانا بھی شامل تھا ۔ اگر میں اپنی زندگی کے کسی حصے کو قابلِ فخر کہوں تو وہ یہی ایام تھے۔
قوم کا تقریبا" ہر طبقہ غیر محسوس طور پر اس جنگ میں شامل تھا ۔ مسجدوں میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا تو شاعر لازوال ملی نغمے تخلیق کرتے۔ گلوکار محاذِ جنگ کے قریب جا کر اپنے فوجیوں کے جوش و جذبہ میں بے پناہ اضافہ کا باعث بنتے ۔ اُس وقت کے میرے پسندیدہ نغموں میں:
اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکددے، توں ایویں نہ ٹکراں مار کُڑے
مہاراج اے جنگ تلوار دی اے، جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانییاں دی
اے وطن کے سجیلے جوانوں، میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
وغیرہ وغیرہ تھے۔
آج جب میں یہ سوچتا ہوں کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا تھا کہ ہم نے ایک بڑے اور مکار دشمن کو شکست سے دوچار کیا تھا تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے ،اور وہ یہ کہ اُس وقت ہم اس طرح منقسم نہیں تھے، جذبہء ایثار اپنی اصل شکل میں زندہ تھا ، بے خوف اور بے لوث قربانی ہمارا سرمایا تھا۔ اللہ ہمیں دوبارہ ان صفات سے روشناس فرما دے۔ آمین
اعلیٰ ترین یاد سر۔۔۔ ہمارے صادق آباد کے ریلوے سٹیشن کی چھت پر گولیوں سے جو سوراخ ہوئے ہیں۔ وہ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ دادا ابو اور ابو کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں ان دنوں سے۔ دادا ابو تو اب رہے نہیں۔ نہ ہمیں بہت زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارنے کا موقع مل سکا۔ لیکن ابو سے ایسے واقعات سننے کو ملتے رہے ہیں۔ اگر کبھی فرصت ملے تو وہ جاسوس والا واقعہ بھی تفصیلی تحریر کیجیئے گا۔
 
Top