یاد یوں آئی اس کے آنچل کی -مقسط ندیم

فرخ منظور

لائبریرین
یاد یوں آئی اس کے آنچل کی
شاخ لہرائے جیسے صندل کی

تو بھی رویا ہے یاد کرکے ہمیں
کہہ رہی ہے لکیر کاجل کی

تیری آنکھوں پہ آکے ختم ہوا
ذکر قاتل کا، بات مقتل کی

پھول پر جیسے قطرہء شبنم
اُس بدن پر قمیض ململ کی

کتنا آرام دہ تھا اُس کا بدن
جیسے چادر سفید مخمل کی!

میرے نزدیک شعر کی تعریف
شام کے وقت کُوک کوئل کی

بزمِ شعر و سخن میں میرا وجود
دھوپ میں جیسے چھاؤں پیپل کی

تم نے سونا سمجھ کے پہن لیا
تھی انگونٹھی ندیم پیتل کی!
 
Top