احمد ندیم قاسمی ہم کو چاند اور تاروں سے بڑھ کر، یہ منظر سہانے سہانے لگے

ہم کو چاند اور تاروں سے بڑھ کر، یہ منظر سہانے سہانے لگے
آنسوؤں سے ہو بھیگا ہوا جس کا چہرہ، وہی مسکرانے لگے

رات بھر ہم نے تیرے کھلے گیسوؤں میں تری چاند صورت کو ڈھونڈا
صبح کو تیرے جاتے ہی، ہر سو، تیرے خال و خد جگمگانے لگے

موسم گل جب آیا تو گلزار و صحرا کی ساری تمیز اٹھ گئی
خشک شاخو‎ں سے ٹوٹے ہوئے زدر پتے دفیں سی بجانے لگے

دن چھپا تو مسافر سحر کے لیے کتنی تاریک صدیوں سے گزرا
ایک سورج کے بعد ایک سورج نکلنے میں کتنے زمانے لگے

جانے ان بے زبانوں نے کیسی قیامت کے آثار افق پار دیکھے
شام سے قبل ہی اب پرندوں کے غول آشیانوں کو جانے لگے

جس نے جس دور میں بھی مسیحائی کی اس کو مصلوب ہونا پڑا
لوگ مردوں کو زندہ کرانے کے بعد اس کو مقتل میں لانے لگے​

ستمبر 1978​
 
Top