الف عین
شاہد شاہنواز
محمد عبدالرؤوف
یاسر شاہ
عظیم
سید عاطف علی
-------------
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
-----
ہم کو بھیجا کس لئے تھا ہم نے آ کر کیا کیا
نعمتوں کی پھر حقیقت ہم سے پوچھے گا خدا
-------------
بن کے مجرم ہم کھڑے ہیں آج تیرے سامنے
بخش دے یا دے سزا اب ، تُو ہمارا ہے خدا
-----------یا
بخش دے یا دے سزا ،ہے سب تمہارا فیصلہ
------------
زندگی میں تھیں ہماری مشکلیں ہی مشکلیں
ہر قدم پر زندگی میں اک کھڑی تھی کربلا
-----------
اے خدایا ہم جئے تھے مشکلوں کے دور میں
پھر بھی ہم یہ مانتے ہیں تھی ہماری ہی خطا
------------
میں زمانے سے شکایت گر کروں تو کیوں کروں
جو مقدّر میں لکھا تھا زندگی میں وہ ملا
-----------
میں جہاں میں ہو گیا ہوں اے خدایا دربدر
تجھ سے دوری کے سبب مجھ پر پڑی یہ ابتلا
----------
پاس تیرے آ گئے ہیں سب خطائیں بخش دے
آنکھ بھی ہے نم ہماری سر ندامت سے جھکا
---------یا
فضل کرنا کام تیری تجھ کو اس کا واسظہ
------------
اِس جہاں کو بھول ارشد اُس جہاں کی بات کر
چھوڑ دنیا کی محبّت ذکرِ رب میں دل لگا
----------
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
-----
ہم کو بھیجا کس لئے تھا ہم نے آ کر کیا کیا
نعمتوں کی پھر حقیقت ہم سے پوچھے گا خدا
۔۔۔ پہلا مصرع اچھا ہے، دوسرا اس کا ساتھ نہیں دیتا ۔۔۔ پہلے میں کچھ اور شامل کیا جائے کہ زمین پر بھیجا تھا، یا کچھ اسی طرح کی بات، شاید کوئی بات بن سکے ۔۔۔ میرے حساب سے شعر دو لخت ہے، حالانکہ دو لختی کیا ہوتی ہے، میں ذاتی طور پر اسے کچھ واضح نہیں کرسکتا۔۔۔
-------------
بن کے مجرم ہم کھڑے ہیں آج تیرے سامنے
بخش دے یا دے سزا اب ، تُو ہمارا ہے خدا۔۔۔
۔۔۔ بن کے مجرم ہم کھڑے ہیں آج تیرے سامنے
بخش دے یا دے سزا ہے صرف تیرا فیصلہ ۔۔۔
۔۔۔ یہ اصلاح صرف اس اعتبار سے ہے کہ جس اندازِ تخاطب کو آپ نے پہلے مصرعے میں اپنایا، دوسرے میں بھی اسے برقرار رکھئے ۔۔۔ دوسرے مصرعے کو مزید بہتر بنا سکیں تو شعر میں کچھ جان پیدا کی جاسکتی ہے ۔۔۔
------------
زندگی میں تھیں ہماری مشکلیں ہی مشکلیں
ہر قدم پر زندگی میں اک کھڑی تھی کربلا۔۔۔
----------- شعر کوئی تاثر پیدا نہیں کرسکا ۔۔۔ حالانکہ کربلا کا حوالہ بہت بڑا اور عظیم حوالہ ہے۔۔۔
اے خدایا ہم جئے تھے مشکلوں کے دور میں
پھر بھی ہم یہ مانتے ہیں تھی ہماری ہی خطا
------------اے خدایا کو میں گرامر کے حساب سے غلط سمجھتا ہوں، یہ غلط ہے یا درست، اس پر تحقیق کرلیجئے گا کہ خدایا کہا جائے تو اے کی ضرورت نہیں رہتی ۔۔۔ ویسے شعر میں کوئی اور خامی نظر نہیں آتی۔
میں زمانے سے شکایت گر کروں تو کیوں کروں
جو مقدّر میں لکھا تھا زندگی میں وہ ملا
----------- سادگی انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔۔۔ پھر بھی قابلِ قبول ۔۔۔
 
۔۔۔ پہلا مصرع اچھا ہے، دوسرا اس کا ساتھ نہیں دیتا ۔۔۔ پہلے میں کچھ اور شامل کیا جائے کہ زمین پر بھیجا تھا، یا کچھ اسی طرح کی بات، شاید کوئی بات بن سکے ۔۔۔ میرے حساب سے شعر دو لخت ہے، حالانکہ دو لختی کیا ہوتی ہے، میں ذاتی طور پر اسے کچھ واضح نہیں کرسکتا۔۔۔

۔۔۔ بن کے مجرم ہم کھڑے ہیں آج تیرے سامنے
بخش دے یا دے سزا ہے صرف تیرا فیصلہ ۔۔۔
۔۔۔ یہ اصلاح صرف اس اعتبار سے ہے کہ جس اندازِ تخاطب کو آپ نے پہلے مصرعے میں اپنایا، دوسرے میں بھی اسے برقرار رکھئے ۔۔۔ دوسرے مصرعے کو مزید بہتر بنا سکیں تو شعر میں کچھ جان پیدا کی جاسکتی ہے ۔۔۔
بہت بہت شکریہ شاہنواز بھائی ابھی کچھ اشعار باقی ہیں اصلاح کے لئے
پہلے شعر کا دوسرا مصرع کیا اس طرح ہو سکتا ہے
(جائیں گے جب حشر میں ، یہ ہم سے پوچھے گا خدا)
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
آخری تین اشعار ہی شاہد نے چھوڑ دئے ہیں
ان میں پہلا درست ہے
دوسرا نکالا جا سکتا ہے
تیسرا، مقطع درست
باقی شاہد سے متفق ہون
 
الف عین
شاہد شاہنواز
-------------
(اصلاح)
----------
ہم کو بھیجا کس لئے تھا ہم نے آ کر کیا کیا
جائیں گے جب حشر میں ، یہ ہم سے پوچھے گا خدا
--------
شکر کرنا بھول کر ہم جی رہے ہیں سب یہاں
ںنعمتوں کی سب حقیقت ہم سے پوچھے گا خدا
-------
بن کے مجرم ہم کھڑے ہیں آج تیرے سامنے
بخش دے یا دے سزا ، ہے صرف تیرا فیصلہ
--------------
آزمائش تھی ہماری زندگی میں ہر طرف
تھی ہماری زندگی میں ہر قدم پر کربلا
----------
جی رہے تھے ہم خدایا مشکلوں کے دور میں
پھر بھی ہم یہ مانتے ہیں تھی ہماری ہی خطا
-----------
میں شکایت زندگی سے یا گلہ کرتا نہیں
وہ ملا ہے زندگی میں جو مقدّر تھا مرا
----------
میں جہاں میں ہو گیا ہوں اے خدایا دربدر
تجھ سے دوری کے سبب مجھ پر پڑی یہ ابتلا
------------
سر ندامت سے جھکائے در پہ تیرے آ گئے
تھیں خطائیں سب ہماری مانتے ہیں برملا
---------
اِس جہاں کو بھول ارشد اُس جہاں کی بات کر
چھوڑ دنیا کی محبّت ذکرِ رب میں دل لگا
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
ارشد صاحب السلام علیکم
آپ مجھے ٹیگ کرتے رہتے ہیں ،میں کچھ لکھتا نہیں آج سوچا دل کی بات کہہ ہی دوں۔
آپ کو ۔۔ماشاءاللہ چھ سال یہاں اصلاح کراتے کراتے ہو چلے ہیں ۔آپ کسی اور سیکشن میں نہیں جاتے یہیں آتے ہیں اور اصلاح پہ فوکس رکھتے ہیں۔لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ چھ سال میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی ۔وجہ اس کی آپ کی محنت کی کمی تو شاید نہ ہو مگر یہی لگتی ہے ۔بقول شخصے :
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

اور شاعر نہ ہونا ایک بڑی نعمت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فرما رہے ہیں :
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنبغي لَهٗ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ(۶۹)سورہ یسین
ترجمہ: اور ہم نے ان کو شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے، وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن۔

اسی طرح اردو شاعر ہونا ایک بیماری اور ایک عارضہ ہے ۔مبارک ہو کہ آپ کو یہ لاحق نہیں ۔کیوں زمین سے کٹ کر خیالوں کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں ۔کہیں اور توجہ فرمائیے ۔
مجھے آپ کی شاعری سپاٹ اور شعریت نہ ہونے کے سبب موزوں نثر لگتی ہے۔اب میرا مشورہ ہے کہ اوزان چونکہ آپ نے سیکھ لیے ہیں تو بچوں کے ادب کی طرف توجہ مبذول کریں اور بچوں کے لیے نظمیں لکھا کریں جیسے یہاں خلیل بھائی اور عمران صاحب پیش کیاکرتے ہیں۔

خیر اندیش
یاسر
 

یاسر شاہ

محفلین
شاہ جی مجھے تو یہ معلوم ہے کہ میں اچھا شاعر نہیں بن سکتا یہ تو آپ کا امتحان ہے کہ آپ مجھے اچھا شاعر بنائیں

آپ بچوں کا ادب، نظمیں وغیرہ لکھیں میں حاضر خدمت ہوں ۔ان شاء اللہ اس میں فائدہ زیادہ نظر آتا ہے۔بچے قافیہ بندی(رائمنگ ورڈز) سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں اور فوراً ازبر کر لیتے ہیں بعد میں یہی بچپن کی چیزیں پیری تک کام آتی ہیں اور تربیت و اصلاح کا ذریعہ بنتی ہیں ۔پھر بچے دل کے بھی صاف ہوتے ہیں کسی جماعت کسی لوبی کے نہیں ہوتے کہ فلاں کی بات سنیں اور فلاں کی نہ سنیں ۔تو انھیں اچھی بات کا فائدہ جلدی اور بہت ہوتا ہے۔
دیکھیے بچوں کو سناتے سناتے خالد اقبال تائب صاحب کی ایک نظم مجھے بھی یاد ہو گئی۔

ایک دو تین ۔اللہ کا دین
چار پانچ چھ۔پیارا ہے مجھے
سات آٹھ نو۔اللہ سے لو
دس گیارہ بارہ۔آخری سہارا
تیرہ چودہ پندرہ۔آگے ساری بند رہ

یوں گنتی کے ساتھ ساتھ کتنے عمدہ اسباق بھی ازبر ہو گئے۔ یہ میرا مشورہ ہے باقی آپ خود مختار ہیں ۔
 
Top