ہم بھکاری نہیں

زرقا مفتی

محفلین
اہلِ بزم
تسلیمات
ہوشربا گرانی کے دور میں سفید پوش طبقہ بھی بھکاری بن رہا ہے۔ کراچی میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران خواتین کی ہلاکت پر دل بہت اداس ہوا
اسی اداسی میں یہ نظم لکھی ہے
آپ کے تاثرات کا انظار رہے گا
والسلام
زرقا


ہم بھکاری نہیں ہم بھکاری نہیں

ہاتھ پھیلے ہیں جو وہ سوالی نہیں

گھر میں آٹا نہیں چینی ملتی نہیں

جیب میں بھی بچی ریزگاری نہیں



ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں لیڈر سبھی

اپنے دھندوں سے ان کو تو فرصت نہیں

روٹی کپڑے کے وعدے ہوا ہو گئے

یہ حکومت ہماری عوامی نہیں



سستے بازار کی ان قطاروں میں اب

دھکے کھاتے ہیں جو وہ بھکاری نہیں

جیب کاٹی ہے ان کی حکومت نے ہی

کچھ بلوں نے ڈسا کچھ گرانی ہوئی

مہربانی ہے کچھ آئی ایم ایف کی

فکر ان کی نہیں ہے کسی کو یہاں

لیڈروں نے رچائے نئے کھیل ہیں

مفت افطار دے کر بنے نیک ہیں

جانتے ہیں سبھی ان کی نیت بری




گھر سے نکلی نہیں تھیں جو مائیں کبھی

آج خیرات لینے گئی تھی کہیں

موت دھوکے سے ان کو وہاں لے گئی

کہ جہاں سےکوئی لوٹتا ہی نہیں



اے خدا تیری رحمت ہے سب کے لیے

جتنے محتاج ہیں ان کو کر دے غنی
 
زرقا بہت عرصے بعد آپ کی طرف سے کچھ سننے کو ملا اور وہ بھی اتنا فکر انگیز کہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین
 
Top