ہمارا زمانہ بہت اچھا تھا

سپنے سہانے ہوتے ہیں
اور ماضی کے سپنے تو کچھ زیادہ ہی سہانے لگتے ہیں۔
اسی لئے انسان مستقبل سے زیادہ ماضی کے سپنوں میں کھو یا رہتا ہے۔
انسان کا ماضی کتنا ہی برا کیوں نہ گزرا ہو، ماضی کی یادیں ایک سہانا سپنا ہوتا ہے ۔
اسی لئے وہ کہتا رہتا ہے
کہ
’’ ہمارا زمانہ بہت اچھا تھا، ہمارے وقت میں سب اچھا تھا‘‘
ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے والدین سے یہی کہا تھا۔
ہمارے والدین بھی ہم سے یہی کہتے کہتے گزر گئے ۔
آج ہم بھی اپنے بچوں سے یہی کہتے رہتے ہیں۔
کل ہمارے بچے بھی یہی کہیں گے۔
کہ
’’ ہمارا زمانہ بہت اچھا تھا، ہمارے وقت میں سب اچھا تھا‘‘
حالانکہ ہر انسان اپنے زمانے میں اُسی زمانے کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے جو کہ جہالت و بیوقوفی کی باتیں ہیں
کیونکہ اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں بیان فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
”آدمی برا کہتا ہے زمانے کو حالانکہ زمانہ میرے ہاتھ میں ہے رات اور دن میرے اختیار میں ہے“۔ (صحيح مسلم: 5862)

اسی طرح نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’ تم میں سے کوئی زمانہ کو گالی نہ دے کیونکہ اللہ تعالیٰ زمانہ (کا خالق) ہے ‘‘۔ (صحيح مسلم: 5866)

لہذا ہر مسلمان کو ’’زمانے کو گالی دینے اور بُرا بھلا کہنے سے"بچنا چاہئے۔
زمانے کو بُرا بھلا کہنے والے وقت گزرنے کے بعد اُسی زمانے کو اچھا کہتے ہیں اور اسی زمانے میں لوٹ جانے کے سپنے دیکھتے ہیں۔

یہی انسان کی فطرت ہے۔ جو زمانہ گزر گیا وہ اچھا لگتا ہے جو گزر رہا ہے وہ بُرا ہے جو کہ شُکر کے منافی ہے۔
لیکن اللہ کے شُکر گزار بندے، اللہ کے شُکر گزار بندوں کیلئے ’’ہر زمانہ ہی اچھا ہوتا ہے‘‘
اور وہ زمانے کو کبھی بھی زمانے کو بُرا بھلا نہیں کہتے کیونکہ ان کی سوچ ہر حال میں مثبت ہوتی ہے۔
جو زمانہ گزر گیا، اُس پر اللہ کا شُکر ادا کرتے ہیں کہ وہ اچھا گزرا۔
اور جو گزر رہا ہے، اسے اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری اور شکر گزاری میں گزارتے ہیں تاکہ اس کا ہر لمحہ نیکیوں میں تبدیل ہو جائے جس کی بنا پر ہمارا مستقبل سنور جائے۔
اور بحثیت مسلمان ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ’’ ہمارا مستقبل آخرت ہے‘‘ جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے۔
لہذا ضروری ہے ہم اپنی آخرت کی تیاری کریں، اپنی آخرت کو سنواریں۔
دین اسلام کی جن باتوں کو ہم جانتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے ان پر عمل کریں۔
اور جن باتوں کو ہم نہیں جانتے انہیں سیکھیں، سمجھیں اور ان پر عمل کرنے کی سعی کریں۔
رسول اللہ ﷺ کی سچی فرمانبرداری کرکے، اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ سے سچی محبت کا ثبوت دیں ۔

علم کے بغیر معرفتِ الٰہی ممکن نہیں، نہ ہی اطاعتِ رسول اللہ ﷺ ممکن ہے اور نہ ہی امر و نہی پر عمل ہی ہو سکتا ہے۔
افسوس کہ اقراء سے شروع ہونے والی امت محمدیہ ﷺ آج علم کے میدان میں دنیا کی تمام اقوام سے پیچھے ہے،
جہالت کی اندھروں میں ڈوبی ہوئی ہے اور جہالت تمام برائیوں کی ماں ہے ۔

جاہل قوم نہ ہی دنیا میں ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی اپنی آخرت سنوار سکتی ہے۔

اس لئے آج اُمت میں شرک و بدعات اور تمام تر اعتقادی، اخلاقی و عملی برائیاں عام ہے جسے صرف علم کی روشنی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔

لہذ اُمت کا ہر فرد
علم حاصل کرنے والا
اور
علم پھیلانے والا بنے۔
تب ہی نجات ممکن ہے
دنیا میں بھی
اور
آخرت میں بھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
 
آخری تدوین:
ہر آنے والا زمانہ پہلے زمانے سے خراب ہوگا
حضرت ابوہریرہ بن عدی نے بیان کیا ہم انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس آئے اور آپ سے حجاج بن یوسف کے طرز عمل کے بارے میں شکایت کی ۔ آپ نے فرمایا ۔ کہ صبر کرو کیونکہ تم پر جو زمانہ بھی آتا ہے تو اس کے بعد آنے والا زمانہ اس سے بھی خراب ہوگا۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جاملو۔ میں یہ بات تمہارے نبی ﷺ سے سنی ہے۔
(صحیح بخاری شریف : باب لایاتی زمان الاالذی بعدہ شرمنہ1947)
 
آخری تدوین:
میرا خیال ہے کہ عام طور پر لوگ زمانے کی تشریح اپنی ثقافت ، میل جول، رسم ورواج سے کرتے ہیں۔ کہتے ہیں
ہے زمانے میں تغیر کو ثبات
توجیسے ہی مذکورہ بالا چیزیں بدلتی ہیں لوگ کہتے ہیں زمانہ بدل گیاہے۔ جو لوگ زمانے کے ساتھ خود کو نہیں بدلتے وہ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گذرا زمانہ اس زمانے سے بہتر تھا۔ حالانکہ اچھائی اور برائی کا تصور ہر زمانے میں رہا ہے۔
ایک لیکچر میں ایک مثال دی گئی کہ:
تانگے گھوڑے کے زمانے میں کئی لوگو ں کا کاروبار تانگوں اور گھوڑوں سے وابستہ تھا۔ ٹیکنالوجی نے ترقی کی۔ تانگے گھوڑے ختم ہوگئے اور ان کی جگہ گاڑیوں نے لے لی۔ جن لوگوں نے اپنے کاروبار کو نئے زمانے کے مطابق ڈھال لیا ان پر زمانے کے بدل جانے کے اثرات اچھے پڑے۔ اور جنہوں نے اپنے آپ کو نہیں بدلا وہ بے روزگار ہوگئے۔ اور ان کے لیے نیا زمانہ اچھا ثابت نہیں ہوا۔
جہاں تک بات اخلاقیات کی ہے تو ضروری نہیں کہ آنے والا زمانہ پرانے زمانے سے ہمیشہ برا ہو۔جیسے ہم اسلام کے ابتدائی دور کی بات کریں تو وہ زمانہ اپنے سے پچھلے زمانے (دورِ جاہلیت) سے بہترین تھا۔
اسی طرح یورپ کا موجودہ زمانہ اپنے پرانے زمانے سے زیادہ بہتر ہے۔
 
جہاں تک بات اخلاقیات کی ہے تو ضروری نہیں کہ آنے والا زمانہ پرانے زمانے سے ہمیشہ برا ہو۔جیسے ہم اسلام کے ابتدائی دور کی بات کریں تو وہ زمانہ اپنے سے پچھلے زمانے (دورِ جاہلیت) سے بہترین تھا۔
اسی طرح یورپ کا موجودہ زمانہ اپنے پرانے زمانے سے زیادہ بہتر ہے۔
اگر اخلاقیات کے حساب سے دیکھیں تو آنے والا زمانہ بُرا ہی آرہا ہے آپ نے دیکھا ہوگا پاکستان میں پہلے کتنی شرم وحیاء تھی ۔ملاوٹ کا کسی کو پتا تک نہ تھا۔ لیکن جیسے جیسے معاشرہ ترقی کرتا جارہا ہے ۔ اُس کے مقابلے میں ہر چیز میں ہی جدت آتی جارہی ہے ۔ حتی کہ آج کل تو انڈے بھی نکلی آرہے ہیں ۔اور آج کل گھر گھر میں بے حیائی اور بڑوں کی عزت نا کرنا اور بڑوں کا چھوٹوں کےساتھ اچھا رویہ نا برتنا جیسے برتاو دیکھے جائیں تو آنے والا دور خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے ۔ہر کسی کو اپنی فکر پڑی ہوئی ہے ۔
 
Top