ہرلفظ میں اک جہاں آباد ہے

رضوان راز

محفلین
ہرلفظ میں اک جہاں آباد ہے

احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

قابلِ احترام اساتذۂ کرام!تیسری تدریسِ اُردو کانفرنس کے انعقاد پر”پاکستانی تنظیمِ اساتذہ برائے تدریسِ اُردو“ کو دلی مبارک باد۔ آپ کی اس تنظیم کے نام کا مخفف ”پتا بتا“ خاصا معنی خیز ہے۔ اس مخفف میں بھی معانی کا ایک جہاں آباد ہے۔گویا اس تنظیم سے وابستہ معلمات اور معلمین اپنے شاگردوں یعنی ہماری نئی نسل کے لوگوں کو اُن کی اُس میراث کا پتا بتا نا چاہتے ہیں، جس کے خزینوں اور دفینوں سے فائدہ اُٹھا کر وہ اقوامِ عالم کے سامنے فخر سے سر اُٹھا کر کھڑے ہو سکیں۔
اپنے آج کے موضوع پر گفتگو کا آغاز کرنے سے قبل میں محترم طاہر جاوید صاحب اور جنابِ کامران خالد کا شکریہ ادا کرتاہوں جنھوں نے مجھ جیسے ہیچ مدان کو استادوں اور دانشوروں کے مجمعے کے آگے لب کُشائی کا موقع دیا۔ ذرّے کا مہر و ماہ سے رُتبہ سِوا کیا۔
خواتین وحضرات! مجھے حکم ملا ہے کہ میں اس عنوان سے اپنی بات بیان کروں کہ ”ہر لفظ میں اک جہاں آباد ہے“۔سچ پوچھیے تو ہر لفظ میں نہیں بلکہ ہر حرف میں اک جہاں آباد ہے، بشرطے کہ ہم حروف اور الفاظ کی اس دنیا کی سیر کرتے ہوئے قرآنِ مجید کے حکم کے مطابق غور و فکر،تدبر، تعقل اور تفکر سے کام لیں۔میر تقی میرؔ نے ہمارے متعلق کچھ غلط تو نہیں کہا تھا کہ
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
سیدنا آدم علیہ السلام کی ولادت کا احوال بیان کرتے ہوئے اپنی مشہور نظم ”پیامِ مشرق“ میں اقبالؔ کہتے ہیں کہ ”چشم وا کرد و جہانِ دگرے پیدا شُد“۔آنکھ کھول کر دیکھا تو ایک نئی دنیا پیدا ہو چکی تھی۔نئی دنیائیں علم، تحقیق اور جستجو سے پیدا ہوتی ہیں۔ سیدنا آدم علیہ السلام اس زمین پر اُترے تو ”علم الاسماء“ سے بہرہ مند ہو کر اُترے تھے۔یعنی زمین پر زندگی کی ابتدا علم کے ساتھ ہوئی تھی۔ قرآنِ مجید کی ۵۵ ویں سورۃ میں اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ جس رحمٰن نے قرآن کی تعلیم دی ہے، اُسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اپنے خیالات کو زبان سے بیان کرنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔گویا اللہ تعالیٰ نے جس طرح شہد کی مکھی کو پھولوں سے رس کشید کر کے شہد بنانا سکھایا اسی طرح انسان کو الفاظ بنانا اور اشیا کے نام رکھنا سکھایا۔ پھر سورۃ العلق کی ابتدائی آیات میں ہمیں بتایا گیا کہ قلم کا استعمال بھی انسان کو اللہ تعالیٰ ہی نے سکھایا ہے۔اسی طرح سورۃ الروم کی ۲۲ ویں آیت میں یہ بتایا گیا کہ انفس و آفاق میں پائی جانے والی اللہ کی دیگر نشانیوں کی طرح زبانوں کے اختلاف یا زبانوں کے فرق میں بھی اہلِ علم ودانش کے لیے اللہ کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔حاصلِ کلام یہ کہ الفاظ و معانی کے جہان کی کھوج لگانا،چھان بین کرنا، تلاش و جستجو کرنا،تحقیق و تفتیش کرنا اورالفاظ کے جہان کی سیاحت کرنا بھی اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ ہے، کیوں کہ یہ سب کچھ اتفاقاً سرزد نہیں ہو گیا،یہ ساری پیش رفت اورتمام تر ارتقا ایک حکیم و دانا خدائے مہربان کی حکمت و تدبیر کا شاہکار ہے۔
گفتگو کے آغاز میں اس عاجز نے عرض کیا تھا کہ ہر لفظ میں نہیں بلکہ ہر حرف میں اک جہاں آباد ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ چند حروفِ ابجد کی طرف اشارتاً آپ کی توجہ مبذول مبذول کراکے آگے بڑھتا ہوں۔ لفظ ابجد’الف، ب، ج، د‘ سے بنا ہے۔ہم جسے الف کہتے ہیں، اس کی آواز ”آ‘‘در اصل بیل کے ڈکرانے کی آواز ہے۔ عبرانی میں آلف بیل کو کہتے ہیں۔ اس آواز کو حرف سے ظاہر کرنے کے لیے پہلے پہل بیل کے منہ یا سر کی شکل بنائی گئی۔ عربی کا ہمزہ، یونانی کا الفا اور رومن کا Aاسی سر کی بدلتی ہوئی شکلیں ہیں۔ اسی طرح ’بیت‘ عبرانی اور عربی میں گھر کو کہتے ہیں۔ جھونپڑے کی سادہ سی شکل بنائیے۔ اس کے نچلے حصے کی لکیر نے عربی کے ’ب‘ یا ’با‘ کی شکل اختیار کر لی۔پھر شکلیں تبدیل ہوتی گئیں اور یونانی میں ß(بِیٹا) اور رومن میں B کی شکل بن گئی۔ عبرانی میں اونٹ کو گیمل کہتے ہیں، عربی میں جمل کہتے ہیں اور انگریزی میں کیمل۔ اونٹ کی گردن ’ج‘ کی شکل سے مشابہ ہوتی ہے۔یونانی میں اسے گیما کہاگیا اور رومن میں C۔ اسی طرح عبرانی میں دروازے یا پھاٹک کو کو ’دالت‘ کہتے ہیں جو عربی میں ’د‘ کہلایا، یونانی میں ڈیلٹا اور رومن میں D۔تو ہم جسے الف ب ت کہتے ہیں، وہی انگریزی میں Alphabetہے۔یوں آلف، بیت، گیمل، دالت۔الف، ب، ج،د۔ الفا، بیٹا، گاما، ڈیلٹااور ABCD جیسے حروف کے پیچھے بھی ہمیں ایک ہی جہان آباد دکھائی دیتا ہے۔اس سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آج دنیا میں جتنی بھی زبانیں بولی اور لکھی جاتی ہیں یہ سب کی سب کسی ایک ہی قدیم زبان کی بیٹیاں ہیں۔ نسلِ انسانی کے آغاز میں تو آدم کے بیٹوں کی زبان ایک ہی رہی ہوگی۔ مگرجوں جوں شعوب و قبائل بنتے گئے، زمان و مکان کا فرق پڑتا گیا، دور دراز جا کر بستیاں بسانے والے بنی آدم کے درمیان جغرافیائی فاصلے بڑھتے گئے توں توں لہجے، تلفظ اور الفاظ کی شکلیں بھی دلتی چلی گئیں۔مختلف خطوں اور مختلف نسلوں کی زبانوں میں ارتقا کی رفتار بھی مختلف رہی۔
لفظوں کے جہان کی سیر کیجیے تو معلوم ہوگا کہ الفاظ کی ایجاد میں بھی کئی دلچسپ عوامل شامل رہے ہیں۔ کچھ الفاظ فطری آوازوں سے بن گئے۔ مثلاً بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور دودھ پینے لگتا ہے تو دودھ کی طلب میں ’عم عم‘ جیسی آواز نکا لتا ہے۔اس آواز سے ماں متوجہ ہوتی ہے۔ ماں، اُم، مادر، ماتا، امی، ممی اوراماں سمیت تمام الفاظ بچے کی پہلی بولی کی بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ اسی طرح انسان کو جب پیاس لگی تو اُس نے بے قرار ہو کر کچھ کہنے کو اپنا منہ کھولا۔منہ سے جو آہ یا کراہ نکلی وہی ’پانی‘ کا نام بن گئی۔اگر آپ غور فرمائیں تو عربی کا ماء ہو، انگریزی کا واٹر ہو، جرمن کا واسر ہو، فارسی کاآب ہو یا اُردو ہندی کا پانی، ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے پیاس کے ماروں کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ کچھ الفاظ سنی ہوئی آوازوں سے بنا لیے گئے۔ مثال کے طور پرانسان نے لکڑی کاٹنے کے لیے جب اس پر اپنا اوزار مثلاً کُلھاڑا مارا تو جو آواز نکلی وہی اس عمل کا نام بن گئی، یہ آواز اُردو، ہندی اور انگریزی میں کٹ کہلاتی ہے اور عربی قط یا قطع۔ بعد میں ان الفاظ سے مزید الفاظ بنا لیے گئے جیسے اُردو میں کاٹنا، کٹا ہوا اور کٹوتی وغیرہ۔ اردو کی ایک مثال اور سامنے آگئی۔ پرندے اُڑنے کے لیے جب پر ہلاتے ہیں تو جو آواز نکلتی ہے، اُسی سے ہم نے پر پھڑپھڑانا یا پُھر سے اُڑ جانا جیسے الفاظ بنا لیے۔بکری کا ممیانا، مرغی کا کُٹکُٹانا، اونٹ کا بلبلانا اور بیل کا ڈکرانا بھی ہم نے فطری آوازوں سے اخذ کیا ہے۔بیل جیسی آواز کسی انسان کے منہ سے نکل آئے تو ہم اسے ڈکار کہتے ہیں۔
جیسے جیسے انسانی تمدن آگے بڑھتا گیا زبان میں ترقی ہوتی چلی گئی۔بہت سے الفاظ بنیادی الفاظ سے اشتقاق کرتے ہوئے بنا لیے گئے۔اسی لفظ اشتقاق کو لے لیجیے۔ ’شق‘ کا مطلب ہے پھٹ جانا، دراڑ پڑجانا یا ٹکڑے ہوجانا۔ شق القمر کی ترکیب ہمارے لیے مانوس ہے۔ توکسی لفظ کے مصدر یا مادّے میں چیر پھاڑ اور جوڑ تو کر کے نیا لفظ بنا لینا اشتقاق کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر نبط زمین یا چشمے سے پانی اُبلنے کو کہتے ہیں۔ اگرہم خود کسی چشمے یا کنویں سے پانی نکالیں یا دریا سے نہر نکالی جائے تو یہ عمل ’استنباظ‘ کہلاتا ہے۔لہٰذا جب ہم کسی قرآنی حکم سے یا کسی حدیث سے کسی موجودہ مسئلے کا حل نکالتے ہیں یا اجتہاد کرتے ہیں تو یہ عمل بھی استنباط کہا جاتا ہے۔تدریسِ اردو کے لیے ہمارا اتنا ہی جاننا کافی ہوتا ہے کہ کس لفظ کا اصل مصدر کیا ہے اور اس مصدر سے کون کون سے الفاظ مشتق ہیں۔
میں نے شاید طے شدہ وقت سے زیادہ وقت لے لیا۔ آپ سب کی توجہ کا بہت بہت شکریہ۔
(’پاکستانی تنظیمِ اساتذہ برائے تدریسِ اُردو“ کی تیسری عالمی کانفرنس، منعقدہ 27اپریل 2024ء، میں کی جانے والی گفتگو۔ بصری عکس بندی سے آواز نویسی اور تقریر کی تحریری صورت گری میاں احمد شاہِ دین نے کی۔ایسی ہی کئی دیگرمصروفیات کی وجہ سے اس ہفتے الگ سے کوئی کالم نہ لکھ سکا۔ تمام قارئین سے معذرت۔)
٭٭
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
۔ چند حروفِ ابجد کی طرف اشارتاً آپ کی توجہ مبذول مبذول کراکے آگے بڑھتا ہوں۔ لفظ ابجد’الف، ب، ج، د‘ سے بنا ہے۔ہم جسے الف کہتے ہیں، اس کی آواز ”آ‘‘در اصل بیل کے ڈکرانے کی آواز ہے۔ عبرانی میں آلف بیل کو کہتے ہیں۔ اس آواز کو حرف سے ظاہر کرنے کے لیے پہلے پہل بیل کے منہ یا سر کی شکل بنائی گئی۔ عربی کا ہمزہ، یونانی کا الفا اور رومن کا Aاسی سر کی بدلتی ہوئی شکلیں ہیں۔ اسی طرح ’بیت‘ عبرانی اور عربی میں گھر کو کہتے ہیں۔ جھونپڑے کی سادہ سی شکل بنائیے۔ اس کے نچلے حصے کی لکیر نے عربی کے ’ب‘ یا ’با‘ کی شکل اختیار کر لی۔پھر شکلیں تبدیل ہوتی گئیں اور یونانی میں ß(بِیٹا) اور رومن میں B کی شکل بن گئی۔ عبرانی میں اونٹ کو گیمل کہتے ہیں، عربی میں جمل کہتے ہیں اور انگریزی میں کیمل۔ اونٹ کی گردن ’ج‘ کی شکل سے مشابہ ہوتی ہے۔یونانی میں اسے گیما کہاگیا اور رومن میں C۔ اسی طرح عبرانی میں دروازے یا پھاٹک کو کو ’دالت‘ کہتے ہیں جو عربی میں ’د‘ کہلایا، یونانی میں ڈیلٹا اور رومن میں D۔تو ہم جسے الف ب ت کہتے ہیں، وہی انگریزی میں Alphabetہے۔یوں آلف، بیت، گیمل، دالت۔الف، ب، ج،د۔ الفا، بیٹا، گاما، ڈیلٹااور ABCD جیسے حروف کے پیچھے بھی ہمیں ایک ہی جہان آباد دکھائی دیتا ہے۔اس سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آج دنیا میں جتنی بھی زبانیں بولی اور لکھی جاتی ہیں یہ سب کی سب کسی ایک ہی قدیم زبان کی بیٹیاں ہیں۔ نسلِ انسانی کے آغاز میں تو آدم کے بیٹوں کی زبان ایک ہی رہی ہوگی۔ مگرجوں جوں شعوب و قبائل بنتے گئے، زمان و مکان کا فرق پڑتا گیا، دور دراز جا کر بستیاں بسانے والے بنی آدم کے درمیان جغرافیائی فاصلے بڑھتے گئے توں توں لہجے، تلفظ اور الفاظ کی شکلیں بھی دلتی چلی گئیں۔مختلف خطوں اور مختلف نسلوں کی زبانوں میں ارتقا کی رفتار بھی مختلف رہی۔
لفظوں کے جہان کی سیر کیجیے تو معلوم ہوگا کہ الفاظ کی ایجاد میں بھی کئی دلچسپ عوامل شامل رہے ہیں۔ کچھ الفاظ فطری آوازوں سے بن گئے۔ مثلاً بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور دودھ پینے لگتا ہے تو دودھ کی طلب میں ’عم عم‘ جیسی آواز نکا لتا ہے۔اس آواز سے ماں متوجہ ہوتی ہے۔ ماں، اُم، مادر، ماتا، امی، ممی اوراماں سمیت تمام الفاظ بچے کی پہلی بولی کی بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ اسی طرح انسان کو جب پیاس لگی تو اُس نے بے قرار ہو کر کچھ کہنے کو اپنا منہ کھولا۔منہ سے جو آہ یا کراہ نکلی وہی ’پانی‘ کا نام بن گئی۔اگر آپ غور فرمائیں تو عربی کا ماء ہو، انگریزی کا واٹر ہو، جرمن کا واسر ہو، فارسی کاآب ہو یا اُردو ہندی کا پانی، ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے پیاس کے ماروں کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔ کچھ الفاظ سنی ہوئی آوازوں سے بنا لیے گئے۔ مثال کے طور پرانسان نے لکڑی کاٹنے کے لیے جب اس پر اپنا اوزار مثلاً کُلھاڑا مارا تو جو آواز نکلی وہی اس عمل کا نام بن گئی، یہ آواز اُردو، ہندی اور انگریزی میں کٹ کہلاتی ہے اور عربی قط یا قطع۔ بعد میں ان الفاظ سے مزید الفاظ بنا لیے گئے جیسے اُردو میں کاٹنا، کٹا ہوا اور کٹوتی وغیرہ۔ اردو کی ایک مثال اور سامنے آگئی۔ پرندے اُڑنے کے لیے جب پر ہلاتے ہیں تو جو آواز نکلتی ہے، اُسی سے ہم نے پر پھڑپھڑانا یا پُھر سے اُڑ جانا جیسے الفاظ بنا لیے۔بکری کا ممیانا، مرغی کا کُٹکُٹانا، اونٹ کا بلبلانا اور بیل کا ڈکرانا بھی ہم نے فطری آوازوں سے اخذ کیا ہے۔بیل جیسی آواز کسی انسان کے منہ سے نکل آئے تو ہم اسے ڈکار کہتے ہیں۔
مختلف زبانوں میں حروفِ تہجی کی ابتدا اور ان کی تاریخِ ارتقا کے بارے میں حاطب صاحب کی محولہ بالا مشہور مثالیں اگرچہ دلچسپ ہیں اور بادی النظر میں معتبر بھی معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کی حیثیت مفروضات اور نظریات سے زیادہ نہیں ۔ مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب قواعدِ اردو کے مقدمے میں ان نکات پر بحث کی ہے اور محولہ بالا اکثر مثالیں وہیں سےماخوذ ہیں۔ سید احمد دہلوی نے بھی اپنی فرہنگ کے طویل مقدمے میں اس موضو ع پر لکھا ہے ۔میری ناقص رائے میں ان نظریات کے حق میں ناقابلِ تردید دلائل اور ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے برابر ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
مکتلف زبانوں میں حروفِ تہجی کی ابتدا اور ان کی تاریخِ ارتقا کے بارے میں حاطب صاحب کی محولہ بالا مشہور مثالیں اگرچہ دلچسپ ہیں اور بادی النظر میں معتبر بھی معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کی حیثیت مفروضات اور نظریات سے زیادہ نہیں ۔ مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب قواعدِ اردو کے مقدمے میں ان نکات پر بحث کی ہے اور محولہ بالا اکثر مثالیں وہیں سےماخوذ ہیں۔ سید احمد دہلوی نے بھی اپنی فرہنگ کے طویل مقدمے میں اس موضو ع پر لکھا ہے ۔میری ناقص رائے میں ان نظریات کے حق میں ناقابلِ تردید دلائل اور ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے برابر ہیں۔
درست فرمایا ظہیر بھائی ۔
لیکن اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ (زبان و کلام)اور اس قسم کے کئی اور (معاشرتی )موضوعات کے لیے ٹھوس ثبوت ممکن بھی نہیں ۔یعنی ان سے متعلق بچثوں کا پیٹ صرف اور صرف نظریات ،مفروضات اور تصورات سے ہی بھرا جا سکتا ہے جو فکری گہرائی اور مشاہدات کی وسعت کے ذریعے اخذ اور وضع کیے جائیں ۔ میرے خیال میں اس کا نہ تو کوئی راستہ ہے نہ یا کسی نئے راستے کے بنائے جانےکا امکان ہے ۔
 
Top