لاریب مرزا

محفلین
تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
میرے تخیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے
یوں اچانک ترے عارض کا خیال آتا ہے
جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے

تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک
خواب بن بن کے مرے ذہن میں لہراتی ہے
رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے
ترے انفاس، ترے جسم کی آنچ آتی ہے

میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کردوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے
رات کے خواب اجالے میں بیاں تو کردوں
ان حسین خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے

تیری سانسوں کی تھکن، تیری نگاہوں کا سکوت
درحقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم، وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو

سوچتا ہوں کہ تجھے مل کے میں جس سوچ میں ہوں
پہلے اس سوچ کا مقسوم سمجھ لوں تو کہوں
میں ترے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہوں
تیرے الطاف کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں

کہیں ایسا نہ ہو پاوں مرے تھرا جائیں
اور تری مرمریں بانہوں کا سہارا نہ ملے
اشک بہتے رہیں خاموش سیہ راتوں میں
اور ترے ریشمی انچل کا کنارا نہ ملے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
واہ !! زبردست
آپ کی پسند ،لاجواب
آپ کا حسنِ ظن ہے خان بھائی :)

شکریہ!! :)
اس فونٹ میں کوئی مسئلہ ہے کیا؟؟ مطلب پڑھنے میں مشکل ہو رہی ہے؟؟
 
Top